سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

آپؑ کی اہلِ بیت ؓسے محبت کا بیان

(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام ایک جگہ رسولِ کریم ﷺ اور آپؐ کی آلِ مطہر کے بارے میں فرماتے ہیں :۔

“الصّلوٰۃ وَالسَّلَامُ عَلٰی …اٰلِہِ الَّذِینَ ہُم لِشَجَرَۃِ النُّبُوَّۃِ کَالْاَغْصَانِ وَ لِشَامَّۃِ النَّبِیِّ کَالرَّیْحَانِ۔”

ترجمہ: اور اس (نبی ﷺ)کی آل پر درود جو نبوت کے درخت کی شاخیں اور نبی صلعم کی قوتِ شامہ کے لیے ریحان کی طرح ہیں ۔

(نور الحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 188)

آپؑ فرماتے ہیں :“اور ایسا ہی…جو آلِ رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوارِ الٰہی میں محبت اہلِ بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقرّبین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔”

(براہینِ احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598 حاشیہ)

آپؑ حضرت علیؓ کے فضائل اور اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

“آپ رضی اللہ عنہ تقوٰی شعار، پاک صاف اور اُن لوگوں میں سے تھے جو رحمان خدا کے نہایت پیارے ہوتے ہیں ۔عالی خاندان اور تمام زمانوں کے سردار۔اسد اللہ الغالب۔اور نہایت مشفق، اللہ کے جوان مرد، سخی، پاک دل۔آپ ایسے یگانۂ روزگار شجاع تھے جن کا مرکز ہمیشہ میدانِ کارزار ہوتا ہے۔خواہ اُن کے مقابلے میں دشمنوں کی پوری فوج ہو۔آپ نےساری عمر نامساعد حالات میں بسر کی اور نوع انسانی کے مقامِ زہد کی انتہاء تک پہنچے۔آپ مال و دولت عطا کرنے، لوگوں کے دکھ درد دور کرنے اور یتیموں ، مسکینوں اور ہمسایوں کی دیکھ بھال کرنے میں اول نمبر کے مرد تھے۔آپ نے مختلف معرکوں میں اپنی گوناگوں بہادری کے جوہر دکھائے۔شمشیر زنی اور نیزہ بازی میں آپ عجائبات کا مظہر تھے۔لیکن اس کے ساتھ ہی آپ ایک نہایت شیریں بیان اور فصیح اللسان بھی تھے۔آپ کی قوتِ بیانی کا اثر دلوں کی گہرائی میں اُتر جاتا اور اس سے ذہنوں کے زنگ (دُھل کر)صاف ہو جاتے اور بُرہان کے نور سے وہ بیان کے چہرہ میں دمک پیدا کر دیتے تھے۔آپ مختلف اسلوب پر قادر تھے۔اور جو آپ سے ان اسالیب میں مقابلہ کرتا تو اُسے ایک مغلوب شخص کی طرح آپ سے معذرت کرنا پڑتی۔

آپ ہر خوبی میں اور بلاغت و فصاحت کے طور طریقوں میں کامل تھے۔اور جس نے آپ کے اس کمال سے انکار کیا تو گویا وہ بے حیائی کی راہ پر چل پڑا۔اور آپ لاچاروں کی غم خواریوں کی جانب ترغیب دلاتے اور قناعت کرنے والوں اور خستہ حالوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے۔آپ مقربین الٰہی میں سے تھے۔اور اس کے ساتھ ساتھ آپ فرقان (قرآنِ شریف) کے معارف کے دودھ کے پیالے پلانے میں سابقین میں سے تھے۔اور آپ کو قرآنی دقائق کے ادراک میں ایک عجیب فہم عطا کیا گیا تھا۔میں نے آپ کو بیداری کی حالت میں دیکھا ہے نہ کہ نیند کی حالت میں۔(یعنی آپ سے کشفاً ملاقات کی)پھر اسی حالت میں آپ نے علّام اللہ کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی اور فرمایا:‘‘یہ میری تفسیر ہے اور اب یہ تیری ہے۔پس اس عطیے پر جو تجھے عطا کیا گیا ہے میں تجھے مبارکباد دیتا ہوں ۔” جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور تفسیر لے لی۔اور میں نے صاحب قدرت عطا کرنے اللہ کا شکر ادا کیا۔اور میں نے آپ کو متناسب جسامت، اخلاق میں پُختہ، متواضع، منکسر المزاج، روشن و منور پایا۔اور میں حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت و الفت سے ملے اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپ مجھے پہچانتے اور میرے عقیدے کو جانتے ہیں ۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اپنے مسلک اور مشرب میں شیعوں کا مخالف ہوں ، لیکن آپ نے بُرا مناتے ہوئے کوئی ناک بھوں نہیں چڑھائی اور نہ ہی مجھ سے پہلو تہی کی۔آپ مجھے بڑے اخلاص سے ملے، جیسے پیار کرنے والے مخلص ملتے ہیں ۔اور آپ نے سچے صاف دل رکھنے والوں کی طرح محبت کا اظہار فرمایا۔”

(اردو ترجمہ عربی عبارت از سرّ الخلافۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358، 359)

حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے بارے میں فرماتے ہیں :

“… ہم تو دونو ںکے ثناخواں ہیں ۔اصلی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں ۔حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں ۔انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔دونو ںکی نیت نیک تھی۔انّما الاعمال بالنیات۔”(ملفوظات جلدہشتم صفحہ 278-279)
آپ حضرت امام حسینؓ اور حضرت امام حسنؓ کے بارے میں فرماتے ہیں :“اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفّت اور عصمت اور ائمۃ الہدٰی تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت ﷺ کے آل تھے۔”

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ364-365 حاشیہ)

ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں :“واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کے طرف منسوب کرتے ہیں ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اُس نے خلیفۂ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا- لعنة اللّٰہ علَی الکاذبین- مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے مُنہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں -مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گذرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرّے اور لعن وطعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لیے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو-جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بد زبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں – بہر حال مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے-مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے- اللہ تعالےٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:-

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا (الحجرات:15)

مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لیے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب اپنے تیئں دُور تر لے جاتے ہیں – لیکن بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں – دُنیاکی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا- مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن بر گزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہٰی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔
تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوب صورت انسان کا نقش-یہ لوگ دُنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں -کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں -دُنیا کی آنکھ وہ شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دُنیا سے بہت دُور ہیں -یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا-دنیا نے کس پاک اور بر گزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی-غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بےایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین رضی اللہ عنہ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلّشانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔”

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 653، 654 اشتہار نمبر 270 بعنوان’تبلیغ الحق’ مؤرخہ 8 اکتوبر 1905ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں :

“خبیث ہے وُہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بدزبانی کرکے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔اور وعید مَنْ عَادَا وَلِیّاً لِیْ دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے۔”

(اعجازِ احمدی (ضمیمہ نزول المسیح) روحانی خزائن جلد19 صفحہ149)

آپؑ کی صحابۂ رسول ﷺ سے محبت کا بیان
رسول کریم ﷺ اور شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مقام

ایک دفعہ ایک دوست نے جو محبت مسیح موعود ؑ میں فنا شدہ تھے۔آپ کی خدمت میں عرض کی کہ کیوں نہ ہم آپؑ کو مدارج میں شیخین ؓسے افضل سمجھا کریں اور رسول اکرم ﷺکے قریب قریب مانیں ؟اللہ اللہ!اس بات کو سن کرحضرت اقدس علیہ السلام کا رنگ اڑ گیا اور آپ کے سراپا پر عجیب اضطراب وبیتابی مستولی ہو گئی۔میں خدائے غیور وقدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس گھڑی نے میرا ایمان حضور ۱قدس ؑکی نسبت اور بھی زیادہ کر دیا۔آپؑ نے برابر چھ گھنٹے کامل تقریر فرمائی۔بولتے وقت میں نے گھڑی دیکھ لی تھی اور جب آپؑ نے تقریر ختم کی۔جب بھی دیکھی۔پورے چھ ہوئے۔ایک منٹ کا فرق بھی نہ تھا۔

اتنی مدت تک ایک مضمون کو بیان کرنا اور مسلسل بیان کرنا ایک خرق عادت تھا۔اس سارے مضمون میں آپؑ نے رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیمات کے محامد وفضائل اور اپنی غلامی اور کفش برداری کی نسبت حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے اور جناب شیخین علیہم السلام کے فضائل بیان فرمائے اور فرمایا:
“میرے لیے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں کا مداح اور خاک پا ہوں ۔جو جزئی فضیلت خدا تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے،وہ قیامت تک اور کوئی شخص نہیں پا سکتا۔کب دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقع ملے جو جناب شیخین علیھماالسلام کو ملا۔”

(ملفوظات جلد اول صفحہ326)

آپؑ نے فرمایا:“جو صدق و وفا آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہ کرام ؓنے دکھلایا اس کی نظیرکہیں نہیں ملتی۔جان دینے تک سے دریغ نہ کیا۔حضرت عیسیؑ کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا اور نہ ہی کوئی منکر الہام تھا۔برادری کے چند لوگوں کو سمجھانا کونسا بڑا کام ہے۔یہودی توریت تو پڑھےہی ہوئے تھے۔اس پر ایمان رکھتے تھے۔خدا کو وحدہ لا شریک جانتےہی تھے۔بعض وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ حضرت مسیح کیا کرنے آئے تھے۔یہودیوں میں تو توریت کے لیےاب بھی غیرت پائی جاتی ہے۔نہایت کار یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید اخلاقی نقص یہود میں تھے۔لیکن تعلیم تو توریت میں موجود ہی تھی۔باوجود اس سہولت کے کہ قوم اس کتاب کو مانتی تھی۔حضرت مسیح ؑنے وہ کتاب سبقاً سبقاًایک استاد سے پڑھی تھی۔اس کے مقابل ہمارے سید ومولی ہادی کامل امیؐ تھے۔آپؐ کا کوئی استادبھی نہ تھا اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ مخالف بھی اس ا مر سے انکارنہ کر سکے۔پس حضرت عیسیؑ کے لیے دو آسانیاں تھیں ۔ایک تو برادری کے لوگ تھے اور جو بھاری بات ان سے منوانی تھی ،وہ پہلے ہی مان چکے تھے۔ہاں کچھ اخلاقی نقص تھے، لیکن باوجود اتنی سہولت کے حواری بھی درست نہ ہوئے۔لالچی رہے۔حضرت عیسیؑ اپنے پاس روپیہ رکھتے تھے۔بعض حواری چوریاں بھی کرتے تھے؛ چنانچہ وہ (حضرت مسیحؑ)کہتے ہیں ۔کہ مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں۔لیکن ہم حیران ہیں کہ ایسا کہنے کے کیا معنی ہیں ۔جب گھر بھی ہو۔مکان بھی ہو۔اور مال میں گنجائش اس قدر کہ چوری کی جاوے۔تو پتہ بھی نہ لگے۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔دکھانا یہ منظور ہے کہ باوجود ان تمام سہولتوں کے کوئی اصلاح نہ ہو سکی۔پطرس کو بہشت کی کنجیاں تو مل جاویں ، لیکن وہ اپنے استاد کو لعنت دینے سے نہ رُک سکے۔

اب اس کے مقابلہ میں انصافاً دیکھا جاوے کہ ہمارے ہادی اکملؐ کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسولؐ کے لیے کیا کیا جان نثاریاں کیں ۔جلا وطن ہوئے، ظلم اٹھائے، طرح طرح کے مصائب برداشت کیے ،جانیں دیں ۔لیکن صدق ووفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جان نثار بنا دیا۔وہ سچی الٰہی محبت و جوش تھا۔جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی، اس لیے خوا ہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے۔آپؐ کی تعلیم تزکیہ نفس اپنے پیروؤں کودنیاسےمتنفرکرادینا۔شجاعت کے ساتھ صداقت کے لیے خون بہادینا۔اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی۔یہ مقام آنحضرت ﷺکے صحابہؓ کا ہے اور ان میں جو باہمی الفت ومحبت تھی۔اس کا نقشہ دو فقروں میں بیان فرمایا ہے اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ (الانفال:64)یعنی جو تالیف ان میں ہے وہ ہرگز پیدا نہ ہوتی، خواہ سونے کا پہاڑبھی دیا جاتا۔اب ایک اور جماعت مسیح موعودؑکی ہے جس نے اپنے اندر صحابہؓ کا رنگ پیدا کرنا ہے۔

صحا بہؓ کی تو وہ پاک جماعت تھی۔جس کی تعریف میں قرآن شریف بھرا پڑاہے۔کیا آ پ لوگ ایسے ہیں؟جب خداکہتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے،جو صحابہؓ کے دوش بدوش ہوں گے۔صحابہؓ تو وہ تھے جنھوں نے اپنا مال،اپناوطن راہ حق میں دے دیااور سب کچھ چھوڑ دیا۔حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا۔ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا،تو گھر کا کل اثاثہ لے آئے۔جب رسول کریم ﷺنے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑآئے،توفرمایا کہ خدااور رسولؐ کو گھر چھوڑ آیاہوں ۔رئیس ِمکہ ہواور کمبل پوش،غرباء کا لباس پہنے۔یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہیدہو گئے۔ان کے لیے تو یہی لکھا ہے کہ سیفوں (تلواروں )کے نیچے بہشت ہے،لیکن ہمارے لیے تو اتنی سختی نہیں،کیونکہ یضع الحرب ہمارے لیے آیا ہے،یعنی مہدی کے وقت لڑائی نہیں ہو گی۔”

(ملفوظات جلد اول صفحہ41تا 43)
(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button