مکرم مدیر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو روزنامہ الفضل ربوہ کی بندش تک تقریباً 2سال اس میں خدمت کی توفیق ملی ۔ الفضل ربوہ کی اشاعت میں جبری تعطل یقیناً سب قارئین کے لیے بالعموم اور اس ادارے میں خدمت کرنے والوں کے لیے بالخصوص بہت گراں ہے لیکن اب الفضل انٹر نیشنل کے ہفت روزہ سے سہ روزہ میں تبدیل ہونے پر دل کو ایک تسلی سی ہوئی۔ الفضل اس وقت اردو زبان میں شائع ہونے والا سب سے طویل اور سب سے قدیم اخبار ہے جو اپنی ایک صدی مکمل کر چکا ہے اور اس عرصہ میں اس فضلِ خداوندی نے خدا تعالیٰ کی دوسری قدرتٍ آزمائش سے بھی حصہ لیا۔ اس اخبار کے کئی خصوصیات ہیں۔ یہ وہ واحد اردو اخبار ہے جو پاکستان و ہندوستان کی تقسیم کے بعد 15 اگست 1947ء کو بیک وقت دو ملکوں سے شائع ہوا۔ اور ایک عرصہ تک بیک وقت پاکستان سے روزنامہ اور برطانیہ سے ہفت روزہ شائع ہونے والا اردو اخبار ہے۔ اس کے دیگرکئی تاریخی خصوصیات بھی ہیں۔ لیکن پاکستان کے وجود میں لانے کے لیے صحافت کے میدان میں اور قائد اعظم کے پیغامات اور سوچ کو عوام الناس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والا یہ اخبار اسی ملک کے اشرافیہ و علماء کے ہاتھوں پابندیوں میں جکڑا جانے والا اخبار بن گیا۔ الفضل نے تمام تر مشکلات کے باوجود جو کردار ادا کیا اس بارےمیں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الفضل کی زبان محض 32 دانتوں میں نہیں بلکہ 32 دشمنوں میں گھری ہوئی عمدگی سے اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کی توفیق پارہی ہے۔’’ (الفضل ربوہ18 جنوری 1989ء) پھر صحافت کے اقدار اور آزادیٔ اظہار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جب جماعت احمدیہ پر بے شمار مذہبی اور آزادیٔ اظہار کی پابندیاں لگائی گئیں تب جماعت احمدیہ کی نرسری کا یہ ننھا پودا تن آور درخت بن چکا تھا۔ اس کی شاخوں پر کئی قسم کی ضربیں لگائی گئیں۔ لیکن ایک تن آور درخت کو شاخوں کے کٹنے سے کیا ڈر! مخالف کو کیا معلوم کہ ایک درخت کی ایک شاخ کو کاٹ دیا جائے تو اسی شاخ پر کئی سمتوںمیں نئی شاخیں نکلتی ہیں اور یہ کٹی ہوئی شاخ ان تمام نئی شاخوں کے لیے ایک تنے کے طور پر ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کلماتِ طیبات کا ذکر فرماکر بتا دیا کہ اس کی جڑیں زمیں میں گہری پیوستہ ہوتی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔جب اغیار کی جانب سے اس پر زمین تنگ کرنے کا منصوبہ واضح طور پر نظر آنا شروع ہوا تو اک مردِ خدا کی دُور اندیشی نے اپنا کام دکھایا اور اس شجرہ طیبہ کی ایک قلم اپنے قرب میں پیوست کی اور خدائے ارحم الراحمین نے اس پودے کو اس قدر جلد توانا کیا کہ اپنے اور بیگانے سب انگشت بدنداں رہ گئے ہیں۔ کہاں تو یہ گمان تھا کہ الفضل ہم سے دور ہو گیا اور سب خلفا کا یہ سلطانِ نصیر ایک قصہ پارینہ بن گیا۔ لیکن الفضل انٹرنیشنل کا ہفت روزہ سے سہ روزہ ہونے کا یہ سنگِ میل ایک تاریخ رقم کر رہا ہے۔ اس زمانہ میں احباب جماعت کو نئے مرکز احمدیت تک رسائی کی ضرورت ہے اور خلیفۂ وقت کی ہر آن اور ہر پَل کی خبر کے لیے ہر فردِ جماعت کا دل مچلتا رہتا ہے۔ اب خدا کا یہ احسان ہوا کہ یہ اخبار ہمیں ہفتہ میں تین دن کےبعد ہی خلیفۂ وقت کی مصروفیات کی خبریں دینے لگا۔ اور یہ کالم کا سلسلہ نیا نہیں بلکہ جب الفضل کا اجرا قادیان سے ہوا اُس وقت بھی ‘‘مدینة المسیح’’ کے نام سے یہ کالم تاریخ کو محفوظ کرتا چلا آرہا ہے۔ الفضل انٹرنیشنل کا نیا روپ جہاں آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا ہے وہاں احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے ہمارے روایتی طریق کو قائم بھی رکھے ہوئے ہے۔ سب سے بڑھ کر خلیفۂ وقت کی جانب سے احباب کی تسلی و تشفی کے سامان بہم پہنچاتا چلا جارہا ہے۔ اللہ کرے کہ جماعت احمدیہ کا یہ عضوِ بدن مزید ترقیات کی منازل طے کرتا ہوا سہ روزہ سے روزنامہ کی شکل میں جلوہ گر ہو اور یہ فضلِ خداوندی ہمیشہ قائم و دائم رہے اور مخالفین کے تمام مکر اور تمام ریشہ دوانیاں ان پر الٹا دے اور ان کو اس عظیم الشان فضل ِخداوندی کو دیکھ کر ہدایت پانے والا بنائے۔ آمین (ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ مجلس نصرت جہاں۔ ربوہ) ٭…٭…٭