غزل

(فاروق محمود)

اُٹھا کے روح مگر چھوڑ کر مَیں من اپنا

مَیں کن کے ہاتھ میں دے آیا ہوں وطن اپنا

کوئی بہار کا جھوٹا ہی مژدہ لے آئے

خزاں رسیدہ ہے مدّت سے اب چمن اپنا

کسے خبرہے کہاں کس کے گھر کو آگ لگی

کہ اپنے آپ میں سب شہر ہے مگن اپنا

ہر ایک سمت میں ہے آگ، سو وہ شعلہ بیاں

دکھا گیا سرِ منبر کمالِ فن اپنا

تو کیا اتار دیا جائے اب لباسِ خلق

بدل رہا ہے زمانہ جو پیرہن اپنا

رہے گا میری ضرورت کو بھی یہ ناکافی

کسی کے کام نہ آیا اگر یہ دھن اپنا

میں تنگ گلیوں سے گزرا تو یاد آئے بہت

کشادہ دل، کھلی بانہیں، کھلا صحن اپنا

کوئی تو تار ہے الجھی ہوئی وہیں پہ ابھی

کھلا جو دفترِ اشعار دفعۃً اپنا

جو لخت لخت ڈبویا گیا لہو میں وطن

تو سر بہ سر ہے شرابور یہ بدن اپنا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button