امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی ستمبر 2018ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

…’’اس وقت احمدیہ مسلم جماعت جو دنیا میں ہرجگہ ہے وہ خلافت کے سایہ تلے ایک ہی آواز پر اُٹھنے بیٹھنے والی ہے اور ایک ہی طرح کی سوچ رکھنے والی ہے اور ایک ہی تعلیم پر عمل کرنے والی ہے جبکہ دوسرے مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ‘‘ … حضور سے ملاقات کر نے کی سعادت نصیب ہوئی اور جو نور آپ کے چہرہ سے جھلک رہا تھا وہی نور ہے جس کی وجہ سے جماعت کا ہر فرد ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ …حضور کی تقاریر نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا۔ میں تقریر کے دوران روتی رہی اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ اب میری نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ باقی زندگی آپ کے ارشادات کی روشنی میں گزاروں۔ …میں امام جماعت کو قریب سے دیکھ رہا تھا کہ آپکی شخصیت میں کس قدر قوتِ جاذبہ ہے اور آپکے چہرہ پر کس قدر سکون ہے میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ آپ کی ذات مجسم امن و سلامتی ہے۔ …جو باتیں جماعت کے خلاف سنی تھیں، جلسہ کا ماحول دیکھ کر اب میرا دل ہر لحاظ سے صاف ہو گیا ہے۔ سب طرف بھلائی اور قرآن و حدیث کی تعلیم تھی۔ آپ کے ماٹو ’محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں‘ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ خاص طور پر حضور کے آنے پر بہت سکون ملتا تھا۔ جلسہ کے دوران ہی میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں بھی احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔ …حضورانور کے چہرہ میں ایک نور ہے جو کہ ہم نے مشاہدہ کیا ،کاش ہمارے ملک کے لوگ بھی اس نور کو مشاہدہ کریں ۔ …جلسہ کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ خدا موجود ہے اور اس کی برکتیں یہاں امن اور سلامتی اور اطمینان قلب کی شکل میں نازل ہو رہی ہیں۔ …جماعت احمدیہ ہی ہے جو صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہے۔ میں نے یہاں اسلام کا ایک پاک چہرہ دیکھا ہے۔ …میں نے زندگی میں اس سے قبل اتنے اچھے لوگ نہیں دیکھے جو اس پیمانے پر مثبت خیالات اور مثبت سوچ کو پھیلا رہے ہوں۔

جلسہ سالانہ جرمنی پر مختلف ممالک سے تشریف لانے والو وفود کی حضورِ انورسے ملاقات، مختلف سوالات اور ان کی بصیرت افروز جوابات نیز احمدی و غیر احمدی مہمانوں کی تأثرات کا تذکرہ

… … … … … … … …

10؍ ستمبر 2018ء بروز سوموار

(حصہ دوم )

… … … … … … … …

Kosovo سے آنے والےوفد کی ملاقات

بعد ازاں پروگرام کے مطابق ملک کوسووو (Kosovo) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ شرف ملاقات پایا۔

کوسووو سے 42؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔

• وفد کے ممبران نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں جلسہ بہت اچھا لگا۔ ہم جلسہ کے سارے انتظامات سے بڑے متاثر ہوۓ ہیں اور ہماری مہمان نوازی بہت اچھی کی گئی۔

ایک دوست نے عرض کیا کہ آپ نے ہمیں جلسہ پر آنے کی دعوت دی۔ اس پرمیں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے امید نہیں تھی اور میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنا زبردست اور اچھا انتظام ہوگا۔

• ایک خاتون کہنے لگیں کہ میں پہلی دفعہ آئی ہوں۔ ہمارابہت اچھا خیال رکھا گیا۔ سب انتظام ٹھیک تھا۔ بہت اچھا تھا۔

• ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ تکلیف کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے۔ جب انہوں نے حضور انور کی خدمت میں دعا کا خط لکھا تو اس کے بعد اللہ نے بہت فضل فرمایا اور انہوں نے چلنا شروع کر دیا اور ان کی طبیعت بہتر ہو گئی اور اب وہ جلسہ پر آۓ ہیں۔اس پر حضور انور نے مبلغ سلسلہ کو ہدایت فرمائی کہ ان کے حالات لکھ کر بھجوائیں تو انکو ہومیو پیتھی دوائی دوں گا۔

٭ ایک دوست نے عرض کیاکہ میں نے اس جلسہ کے موقع پر بیعت کی توفیق حاصل کی ہے۔ میری فیملی کے بعض مسائل ہیں۔ میرے دو کزن کوسوو کی دو بڑی مسجدوں کے ملّاں ہیں اور ان کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ اگر حضورانور مجھے کوئی گُر بتاسکیں کہ جس سے مجھے فائدہ ہو اور میں انہیں سمجھاسکوں ۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس میں تو یہی ہے کہ ان کے لئے دعاکریں اور ان کے ساتھ پیارکا سلوک رکھیں۔ ان کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق سلوک کریں۔اگر وہ سختی کرتے ہیں تو آپ اُن کا پیارسے جواب دیں۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی گُر نہیں ہے۔ اگر کوئی گُر ہوتاتو ہم اسے پاکستان میں استعمال کرلیتے۔ دوسرایہ کہ کل میں نے بعض واقعات سنائے اور پہلے بھی کئی دفعہ سُنا چکاہوں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد مخالفتوںکاسامناکرناپڑتاہے۔یہ تواللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ یہ دیکھنے کے لئے کہ تم ایمان میں کتنے مضبوط ہوتمہیں آزمایاجاتاہے۔یہ توقرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دیاہے کہ آزمائے بغیر تمہارے ایمان کی مضبوطی کا پتہ نہیں لگ سکتا۔اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے رہیں، ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہیں تو ایک وقت آئے گاکہ اچھے حالات ہوجائیں گے ۔میں نے کل ایک واقعہ سنایاتھاکہ ایک شخص کی بیوی پانچ سال تک اُس کی مخالفت کرتی رہی وہ پانچ سال تک اپنی بیوی کے لئے دعاکرتارہا تو پانچ سال بعد اس کی دعاقبول ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں سالوں پرسی کیوشن (persecution) ہوتی رہی اور لوگ تنگ کرتے رہے۔ آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کے باوجود بعض لوگوں کی اصلاح نہیں ہوسکی۔ لیکن جن کی اصلاح ہونی تھی ان پر دعاؤں کا فوری اثر بھی ہوتارہا، جن کی اصلاح اللہ تعالیٰ کرنا چاہتا تھا، ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کی دعائیں فوراً قبول بھی ہوگئیں اوران کی اصلاح بھی ہوگئی۔ پس آپ دعا کرتے رہیں، ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہیں اور باقی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔

ممبرانِ وفد کے تأثرات

٭ کوسوو کے وفد میں ایک ریاضی کے پروفیسر Aziz Neziri صاحب بھی شامل تھے، جو اسی سال بیعت کرکے احمدیت میں شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جلسہ سالانہ بہت اچھا تھا، انتظامات بھی قابل تعریف تھےنیز ہمارا بہت اچھا خیال رکھا گیا۔

٭ کوسوو وسے ایک وکیل Ardian Zeiqiraj صاحب اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اس جلسہ کے نظام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی خلافت کی اطاعت میں سرگرداں اپنا کام کر رہا ہے۔ یہ تمام اطاعت اس وجود کی محبت تھی جو خلیفہ وقت کی شکل میںجماعت احمدیہ کو نصیب ہے۔ حضور سے ملاقات کر نے کی سعادت نصیب ہوئی اور جو نور آپ کے چہرہ سے جھلک رہا تھا وہی نور ہے جس کی وجہ سے جماعت کا ہر فرد ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ کوسووو میں بھی اس طرح کے اجتماع وغیرہ ہوتے ہیں لیکن اس جلسہ میں شامل ہوکر ایک الگ ہی کیفیت انسان پر تاری ہوتی ہے کہ ہر رنگ و نسل کے لوگ اس جلسہ میں شامل ہیں اور ہر ایک کی ضرورت کے مطابق ان کا خیال رکھا جا رہا ہے۔

٭ کوسووو کے وفد میں شامل ایک بینک کے چیف Mustafa Valdon صاحب پانچ سال بعد جلسہ میں شامل ہوئے۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ہر قوم کے لوگ اس جلسہ میں شامل ہیں۔ جلسہ کی جگہ اب چھوٹی ہو گئی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ جماعت جرمنی نے اتنی جلدی ترقی کر لی ہے۔ خاکسار 5 سال بعد شامل ہوا ہے اس لئے تقریب بیعت میں جو روحانی ماحول تھا خاکسار کو اس کی ضرورت تھی تاکہ روحانیت میں اضافہ کر سکوں۔

٭ کوسووو کے Besmir Yvejsiaصاحب جو کہ اسلامی سائنس کے ماہر ہیں، اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

تقاریرکے موضوعات عین وقت کی ضرورت کے مطابق تھے اور تمام سوالات کے جوابات ان میں موجود تھے۔ تقاریر بہت عمدہ طور پر کی گئیں اور ہماری زبان میں ان تقاریر کے تراجم کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ حضور انور سے مل کر بہت اچھا لگا۔ حضور انور کی باتیں اورا قوال آپ کے مبارک وجود کی عکاسی کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ایسے وجود ملنا ناممکن ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔

٭ کوسووو کے وفد میں ایک فزکس کے پروفیسر Arber Zeiqiraj صاحب بھی شامل تھے۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اتنے لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور ان کی ضروریات کا پوراکیا جانا ناممکن سا لگتا تھا۔ جلسہ میں شامل ہو کرتمام انتظامات کو بغور دیکھا کہ کس طرح ہر چیز ایک نظام کے ساتھ چل رہی ہے اور ضروریات کا خیال رکھا جارہا ہے۔ ہر ایک کام کے لئے ایک خادم مقرر تھا ۔ لنگر میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ایک شخص سے ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ وہ پچھلے 22سال سے پیاز چھیلنے کا کام کررہا ہے۔ اور پچھلے 22 سال سے اس کے پاس ایک ہی چھری ہے جس سے وہ پیازوں کو کاٹتا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ میں اس چھری کو اس لئے استعمال کرتا ہوں کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ اسے پکڑا تھا۔

٭ ایک اور دوست Arber Zeiqiraj صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ کا مکمل انتظام صرف اور صرف خلافت کی محبت ہی کی وجہ سے ہے کہ ہر چیز میں ایک یکجہتی نظر آتی ہے۔

Kosovo کے وفد کی حضور انور ایدہ للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات بارہ بجکر 35منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر ممبران نے تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

ماریشس کے وفد کی ملاقات

بعد ازاں جماعت احمدیہ ماریشس کے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ماریشس سے امسال 30؍ افراد پر مشتمل وفد آیا تھا۔

• حضور کے استفسار پر وفد کے ممبران نے بتایا کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات بڑے منظّم طریق پر تھے اور ہم سب نے جلسہ سے بھر پور استفادہ کیا۔

رہائش کے حوالہ سے ممبران نے بتایا کہ ہماری رہائش جلسہ گاہ میں ہی تھی۔ اس وجہ سے ہم نے پانچوں نمازیں حضور انور کی اقتداء میں ادا کیں اور روحانی طور پر بہت فائدہ حاصل کیا ہے۔

• ایک نوجوان نے عرض کیا کہ میں یہاں کوبلنز یونیورسٹی(Koblenz University) جرمنی میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ سول انجینئرنگ کر رہا ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا۔ خدا تعالیٰ فضل فرمائے۔

• ماریشس کے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات بارہ بجکر 35 منٹ تک جاری رہی۔

آخر پر تمام ممبران نے باری باری فیملی وائز اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

نائیجر، بورکینا فاسو اورگنی کوناکری کے وفود کی ملاقات

اس کے بعد پروگرام کے مطابق نائیجر (Niger)، بورکینا فاسو (Burkina Faso)اور گنی کوناکری (Guinea Conakry)سے آنے والے وفود نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔ یہ ملاقات داعی الی اللہ روم میں ہوئی۔

نائیجر سے دَس افراد اور بورکینا فاسو سے آٹھ افراد پر مشتمل وفد جبکہ گنی کوناکری سے تین افراد پر مشتمل وفد اس جلسہ میں شامل ہوا۔

• نائیجر سےآنے والے ایک احمدی امام IDI KAMAYE صاحب نے عرض کیا کہ جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات بہت اچھے تھے۔ کسی جگہ کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ یہ میرا پہلا جلسہ سالانہ ہے اور میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ حضور کو اپنے سامنے اتنے قریب سے دیکھا ہے۔ یہاں کی انتظامیہ نے ہمارا بہت خیال رکھا ہے۔

• ایک لوکل مشنری LAWALI CHAIBOU OUMAR صاحب نے عرض کیا کہ جلسہ سالانہ بہت اچھا گزرا۔ ہمارے لئے دعا کریں کہ ملک نائیجر میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابیاں عطا کرے۔ بہت سے مخالف امام ایسے ہیں جو مستقل ہماری مخالفت کرتے ہیں اور ہمیں تنگ کرتے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو مخالف امام ہیں وہ تو مخالفت کریں گے۔ پاکستان میں جتنا مولوی تنگ کرتے ہیں اتنا تنگ تو نہیں کرتے۔ وہاں حکومت ان مولویوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ افریقہ کے اماموں میں شرافت ہے ان کو سمجھاؤ تو سمجھ جاتے ہیں۔ ان کے لئے دعا کرتے رہیں اور حکمت کے ساتھ ان کو تبلیغ کرتے رہیں۔

• ایک مقامی معلّم نے عرض کیا کہ ملک کے معاشی حالات کافی خراب ہیں اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کوئی قوم اپنے آپ کو بہتر کرنے کا ارادہ کرے تو تب قومیں بہتر ہوتی ہیں اور ان کے حالات تبدیل ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ اس کے لئے بھی کوشاں ہے۔

• نائیجر سے آنے والے صدر مجلس انصار اللہ LOUE DEYDOU صاحب نے عرض کیا کہ میں اصل میں آئیوری کوسٹ سے ہوں اور گزشتہ دس 10 سال سے نائیجر میں مقیم ہوں۔ قبل ازیں بورکینا فاسو اور نائیجیریا میں بھی حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ جلسہ جرمنی کے تمام انتظامات بہت اچھے تھے۔ ایک لیڈر ایک کمیونٹی کا نظارہ ہم نے یہاں دیکھا ہے۔ موصوف نے عرض کیا کہ نائیجر میں97 فیصد مسلمان ہیں اور عرب ممالک نے یہاں بہت INVESTکیا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں احمدیت نے بھی سچائی دکھائی ہے۔ نائیجر جماعت کے لئے دعا کی درخواست ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔

• حضور انور نے نائیجر سے آنے والے مبلغ سلسلہ کو ہدایت فرمائی کہ کوشش کر کے اپنی تمام جماعتوں میں MTA لگائیں۔ اس پر مبلغ نے عرض کیا کہ مرکز سے آرکیٹکٹ اینڈ انجینئرز ایسو سی ایشن سولر سسٹم اور MTA لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

• ملک گنی کوناکری (GUINEA CONAKRY)سے آنے والے مہمان ڈاکٹر محمد AWADA صاحب نے عرض کیا کہ وہ گنی کوناکری کے ایک بڑے ہسپتال کے نیشنل ڈائریکٹر ہیں اور اصل میں لبنان سے ہیں۔ لیکن ایک لمبے عرصہ سے گنی کوناکری میں آباد ہیں۔

موصوف نے عرض کیا کہ وہ حضور انور کی سادگی، عاجزی اور لیڈر شپ کی بہت قدر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی عاجز، شاکر اور صابر بندہ بناۓ۔ میں آپ کے لئے، آپ کی فیملی کے لئے اور جماعت کے لئے دعا گو ہوں۔ آپ بہت پیار کرنے والے ہیں۔ یہاں آکر مجھے موقعہ ملا ہے اور مَیں نے ایک نئی دنیا دریافت کی ہے۔ آپ لوگ ہی حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہیں۔

• گنی کوناکری سے آنے والے ایک احمدی دوست محمد ALLASSANE AKOB صاحب نے عرض کیا کہ میرا اصل وطن بینن ہے اور میں گزشتہ 30 سال سے گنی کوناکری میں ہوں۔ اور 1987ء سے احمدی ہوں۔ میری فیملی اور بچے سب احمدی ہیں۔ یہ جلسہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ہر چیز اور انتظام اچھا تھا۔ کہیں بھی کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ بڑے منظّم طریق پر ہر کام ہو رہا تھا۔

• ملاقات کا یہ پروگرام ایک بجکر دس 10 منٹ تک جاری رہا۔ آخر پر وفود کے تمام ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

کانگو برازاویل کے وفد کی ملاقات

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آۓ جہاں ملک کانگو برازاویل (CONGO BRAZAVILLE) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ کانگو برازاویل سے تین افراد پر مشتمل وفد اس جلسہ میں شمولیت کے لئے پہنچا تھا جس میں ایک کانگو ٹی وی کے جرنلسٹ DIAKOUNDILA EDECHEVRY صاحب تھے۔

• حضور انور کے استفسار پر جرنلسٹ نے بتایا کہ انہوں نے جلسہ کے پروگراموں کی ویڈیو بنائی ہے اور ایک ڈاکومنٹری تیار کی ہے۔ جمعہ کو شام کی خبروں میں جلسہ جرمنی کے حوالہ سے خبریں نشر ہوئی ہیں اور پھر اتوار کو بھی پروگرام نشر ہوا۔ اس طرح وہ واپس جا کر بھی پروگرام نشر کریں گے۔ جرنلسٹ نے عرض کیا کہ وہاں لوگوں کی طرف سے جماعت کے پروگراموں پر بڑے اچھے تأثرات کا اظہار کیا گیا ہے۔ صرف وہاں کے مولویوں کی طرف سے مخالفت ہے۔

• اس پر حضور انور نے فرمایا کیا مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے اپنا چینل بند کردو گے۔ جرنلسٹ نے عرض کیا کہ مَیں گزشتہ دو سال سے جماعت کے پروگرام نشر کر رہا ہوں۔ اس میں حق اور سچائی کے ساتھ ہوں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا ۔ خدا تعالیٰ آپ کو نیکی کی توفیق دے۔

• جرنلسٹ نے عرض کیا کہ یہاں جرمنی جلسہ میں آکر میں نے اپنی آنکھوں سے بہٹ بڑی منظم کمیونیٹی دیکھی ہے۔ مخالف مولوی کہتے تھے کہ یہ تو یہاں کانگو میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ باہر کہیں بھی نہیں ہے۔ حضور انور نے فرمایا اب آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اب ان مولویوں کو چھوڑ دیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو ایمانداری سے کام کی توفیق دیتا رہے اور سچائی پر قائم رکھے۔

• کانگو برازاویل کے وفد کی یہ ملاقات ایک بجکر 45 منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے باری باری انفرادی طور پر حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔

• بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

اعلاناتِ نکاح

دو بجکر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 36 نکاحوں کا اعلان فرمایا:

•٭ عزیزہ طوبیٰ احمد بنت مکرم شمشاد احمد قمر (پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی) کا نکاح عزیزم نویل احمد شاد (متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی) ابن مکرم محمد داؤد شاد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

••٭ عزیزہ عائشہ صدیقہ بنت مکرم مبشر احمد صاحب (مربی سلسلہ ربوہ پاکستان) کا نکاح عزیزم مظفر احمد ظفر (مربی سلسلہ ربوہ پاکستان) ابن مکرم منور احمد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ شمائلہ صدف بنت مکرم عبدالخالق تبسم صاحب (بدین، سندھ پاکستان) کا نکاح عزیزم حسیب احمد طاہر صاحب( مربی سلسلہ ربوہ) ابن مکرم عبدالعزیز صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ رُباب ناظم بنت مکرم ناظم علی صاحب (آف گھٹیالیاں، ضلع سیالکوٹ پاکستان)کانکاح عزیزم احتشام فرخ (مربی سلسلہ گرمولہ وِرکاں، گوجرانولہ پاکستان) ابن مکرم طارق جاوید صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ امتہ النور (واقفہ نو)بنت مکرم عبدالقیوم صاحب (آف ربوہ) کا نکاح عزیزم شجاعت احمد فراز (متعلم جامعہ احمدیہ ربوہ) ابن مکرم مبارک احمد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ماہا سمیع بنت مکرم عبدالسمیع صاحب (آف انٹاریو،کینیڈا)کا نکاح عزیزم انتصاراحمد (متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی) ابن مکرم آفاق احمد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ فرزانہ اِرم بنت مکرم وسیم احمد صاحب (آف ربوہ ) کا نکاح عزیزم محمد کاشف احمد (متعلم جامعہ احمدیہ ربوہ )ابن مکرم غلام مصطفیٰ صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ عاصمہ وسیم احمد (واقفہ نو)بنت مکرم وسیم احمد صاحب (آف راٹسے بُرگ، جرمنی )کا نکاح عزیزم راحیل عمر نواز (واقفِ نو )ابن مکرم راشد نواز صاحب (ہمبرگ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ مائرہ باجوہ (واقفہ نو)بنت مکرم تنویر احمد باجوہ صاحب (آف راؤن ہائم،جرمنی) کا نکاح عزیزم توصیف احمد (واقفِ نو )ابن مکرم چوہدری اسلام احمد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ فریدہ احمد(واقفہ نو)بنت مکرم فہیم رانا صاحب (آف ٹاؤنس شٹائن ، جرمنی) کا نکاح عزیزم توحید احمد (واقفِ نو)ابن مکرم مشتاق احمدصاحب (مائنز، جرمنی کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ نوشین علی(واقفہ نو)بنت مکرم لیاقت علی صاحب (آف برلن، جرمنی) کا نکاح عزیزم مصور احمد فاروقی(واقفِ نو )ابن مکرم مبشراحمدفاروقی صاحب (بادفلبیل، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ رضوانہ یعقوب (واقفہ نو)بنت مکرم محمد یعقوب صاحب (آف اوفن باخ، جرمنی ) کا نکاح عزیزم سید سرفراز احمد ابن مکرم سید افتخاراحمد گردیزی صاحب (فورس ہائیم ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ طوبیٰ احمد(واقفہ نو)بنت مکرم ظہوراحمد صاحب (آف اوفن باخ، جرمنی) کا نکاح عزیزم عاطف بشیر چیمہ ابن مکرم بشیر احمد چیمہ صاحب (آف رونین برگ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ طاہرہ احمد بنت مکرم منیر احمد صاحب (آف فرانکفرٹ، جرمنی) کا نکاح عزیزم عامر سعید خان ابن مکرم محفوظ احمد خان صاحب (آف کولون، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ صباحت ظہیر طاہر(واقفہ نو)بنت مکرم ظہیراحمد طاہر صاحب کا نکاح عزیزم گُلریز سلیم ابن مکرم داؤد غنی صاحب (آف نوئے ہوف، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ نبیلہ افضل محمود(واقفہ نو)بنت مکرم راجہ محمد افضل صاحب (آف لاٹسن ، جرمنی) کا نکاح عزیزم ہارون محمود ابن مکرم حسین محمودصاحب(فرانکفرٹ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ سِدرہ محمود بنت مکرم ناصرمحمود صاحب (آف فرانکفرٹ ،جرمنی ) کا نکاح عزیزم محمد یوسف(واقفِ نو) ابن مکرم یونس احمد صاحب(آف فرانکفرٹ ،جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ عمارہ احمد بنت مکرم تنویراحمد صاحب (آف کاسل، جرمنی ) کا نکاح عزیزم نویداحمد (واقفِ نو) ابن مکرم محمد زاہد انور جاوید صاحب(آف یوکے) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ عنبر پروین بنت مکرم مدثراحمدخان صاحب (آف یوکے ) کا نکاح عزیزم ندیم احمد اسلم (واقفِ نو) ابن مکرم کلیم احمداسلم صاحب (شوال باخ ، جرمنی ) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ سائرہ سعیدبنت مکرم سعید تبسم صاحب (آف رُوسلزہائیم، جرمنی) کا نکاح عزیزم طاہر گُڈٹ (واقفِ نو) ابن مکرم راشد احمد گُڈٹ صاحب( آف فرانکفرٹ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ منیزہ محمود بنت مکرم ثاقب نواز صاحب مرحوم (آف حورب،جرمنی) کا نکاح عزیزم عاطف محمود (واقفِ نو) ابن مکرم مظفراحمدمحمود صاحب (سابق مبلغ سپین، آف ریڈشٹڈ جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ عظمیٰ کنول طور بنت مکرم رحمت اللہ شمس صاحب (آف وَیٹسلر،جرمنی) کا نکاح عزیزم اَلیمان نعیم (واقفِ نو)ابن مکرم محمد نعیم خالد صاحب (آف روڈگاؤ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ رانا فاخرہ احمد بنت مکرم رانا ناصراحمد صاحب (آف روڈگاؤ، جرمنی )کانکاح عزیزم احمد نواز ناصر (واقفِ نو) ابن مکرم وسیم ناصر صاحب (آف ایش بورن، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ فارعہ کنول محی الدین بنت مکرم غلام محی الدین صاحب (آف ہاڈامار،جرمنی)کا نکاح عزیزم سفیراحمد (واقفِ نو ) ابن مکرم نذیراحمدصاحب(آف زواِسٹ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ملیحہ اسلم کُلّا بنت مکرم چوہدری محمد ارشدکُلّا صاحب (آف گولڈن شٹیڈ، جرمنی ) کا نکاح عزیزم ظہیراحمد (واقفِ نو ) ابن مکرم نذیر احمد صاحب (آف بَرگش گَلڈ باخ، جرمنی ) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ فاطمہ احمد بنت مکرم محمد ظفراللہ خان صاحب (آف نوٹلن، جرمنی ) کا نکاح عزیزم نبیل احمد (واقفِ نو) ابن مکرم مبشراحمدسلام صاحب (ہنوفر،جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ زونارااُللہ بنت مکرم غضنفراللہ صاحب (آف اُوبراُرزل، جرمنی ) کا نکاح عزیزم ذیشان محمود (واقفِ نو) ابن مکرم خالد محمودصاحب(آف لیورکوزن، جرمنی )کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ نائلہ احمد بنت مکرم مسعوداحمدگِل صاحب (آف روئٹ لِنگن ،جرمنی ) کا نکاح عزیزم چوہدری خُرم احمد مبشر ابن مکرم مبشراحمد صاحب (آف روئٹ لِنگن، جرمنی) کےساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ اِرم سدھو بنت مکرم محمد شہزادسِدھو صاحب (آف روئٹ لِنگن، جرمنی ) کا نکاح عزیزم نویداحمدبھٹی ابن مکرم منوراحمد بھٹی صاحب(آف فرائنس ہائم، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ماہم محمود بنت مکرم خالد محمود صاحب (آف ویزبادن، جرمنی ) کا نکاح عزیزم سمیع اللہ ابن مکرم غضنفراللہ صاحب(آف اُوبَراُرزَل ، جرمنی ) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ضُحیٰ باجوہ بنت مکرم محمد صالح باجوہ صاحب (آف ایگلزباخ ، جرمنی ) کا نکاح عزیزم ندیم احمد ابن مکرم وسیم احمد صاحب(آف فلورس ہائیم، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ماریہ حسین بنت مکرم منورحسین صاحب (آف ہمبرگ،جرمنی ) کا نکاح عزیزم زوہیب ارشد ابن مکرم ارشدمحمود صاحب(آف کولون، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ سِدرہ نثاربنت مکرم نثاراحمد صاحب (آف وُرس بُرگ، جرمنی ) کا نکاح عزیزم ایازاحمد ابن مکرم مبشراحمد صاحب (آ ف ٹریبوؤر،جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ریشم بیگ بنت مکرم مرزاشمیم بیگ صاحب (آف حاؤرگرینزہاؤزن، جرمنی) کا نکاح عزیزم طلحہ اُللہ ابن مکرم چوہدری مجید اللہ صاحب (راٹنگن، جرمنی)کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ نِیااحمدبنت مکرم مرزامسعوداحمد صاحب (آف فرانکفرٹ، جرمنی ) کا نکاح عزیزم تحریم ماجد ابن مکرم ماجد مسعود صاحب (آف گروناؤ،جرمنی ) کےساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ عروب خان بنت مکرم احمدسعید خان صاحب (آف اَیش بورن، جرمنی )کانکاح عزیزم شمائل احمد منہاس ابن مکرم محمد فاروق منہاس صاحب (آف فریدبرگ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

ان نکاحوں کا اعلان کرنے کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ یہ نکاح جو مَیں نے آج پڑھائے ہیں ان کو ہرلحاظ سے بابرکت فرمائے اور دونوں میاں بیوی بھی اورخاندان بھی آپس میں پیار اور محبت سے رہنے والے ہوں اور گھروں کا سکون ہمیشہ اِن کا قائم رہے۔ ان کی ہمیشہ نیک نسلیں پیداہوتی رہیں۔ ‘‘

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعاکروائی۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

……………………

بلغاریہ کے وفد کی ملاقات

پروگرام کے مطابق ساڑھے پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں ملک بلغاریہ (BULGARIA) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت پائی۔ بلغاریہ سے امسال 56؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا جن میں 31؍ افراد غیرازجماعت مہمان تھے۔

• ایک خاتون نے عرض کیا کہ میں پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں اور جلسہ کے انتظامات سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ اپنے لئے اور سب عزیزوں کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہوں۔

• ایک خاتون نے عرض کیا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ میں نے ایسی کانفرنس پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میں ان دنوں کو اپنی زندگی کے بہترین دن سمجھتی ہوں اور میں ہر طرح سے آپ کی مدد اور خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔

• ایک مہمان خاتون نے عرض کیا کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ یہاں ہمارا بہت اچھی طرح خیال رکھا گیا۔ ہر ایک نے ہمیں سہولت پہنچائی۔ ہمیں حضور انور سے ملنے کا موقعہ ملا۔ حضور انور کے خطابات بہت مؤثر تھے۔ حضور ہمارے لئے دعا کریں کہ ہم برائی سے نجات پائیں اور اپنے دلوں میں تبدیلی پیدا کریں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا۔ آپ بھی دعا کریں۔ ہم سب بھی آپ کے لئے دعا کریں گے۔

• ایک مہمان نے عرض کیا کہ میری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے یہ دوسری ملاقات ہے۔ جلسہ سالانہ کا انتظام بہت اچھا تھا۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے کچھ سوالات تھے جن کے جوابات مجھے حضور انور کی طرف سے مل گئے ہیں اور میری تسلی ہوگئی ہے۔میں بلغاریہ میں ہیومینٹی فرسٹ کا ممبر ہوں۔ ہم ہیومنٹی فرسٹ کے چیئرمین سے رابطہ کر رہے ہیں تاکہ بلغاریہ میں بھی مختلف پراجیکٹ شروع کئے جاسکیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: ٹھیک ہے آپ رابطہ کریں۔ ہم کام کرتے رہیں گے۔

• ایک دوست نے سوال کیا کہ بلغاریہ میں جماعت کی رجسٹریشن ہونے والی ہے۔ کیا رجسٹریشن کے بعد صرف احمدی ہی اس میں شامل ہوں گے یا دوسرے لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا: اگر وہ احمدی نہیں ہیں اور ہم رجسٹریشن میں یہ ظاہر کریں کہ وہ احمدی ہیں تو پھر یہ غلط ہوگا، دھوکہ دینے والی بات ہے۔ اس لئے اگر تو مذہبی آرگنائزیشن کے طور پر جماعت رجسٹرڈ ہو رہی ہے پھر تو شامل نہیں ہوسکتے لیکن اگر کوئی چیرٹی آرگنائزیشن (Charity Organisation)کے طور پر رجسٹرڈ ہو رہی ہے تو پھر بعض شریف طبع لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

ممبرانِ وفد کے تأثرات

٭ اس وفد میں شامل ایک خاتون Kirilka صاحبہ نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

میں کئی پروگراموں میں شامل ہوئی ہوں لیکن جماعت احمدیہ کے اس جلسہ میں روحانی ماحول تھا۔ بہت پرسکون ماحول تھا جو اب رہتی زندگی تک سکون کا سامان ہے۔ لوگوں کے دلوں میں ہمارے لئے احترام اور محبت تھی۔ ان کی آنکھوں سے ان کے ایمان کا اندازہ ہوتا تھا کہ کیسے نیک لوگ ہیں۔ حضور کی تقاریر نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا۔ میں تقریر کے دوران روتی رہی اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ اب میری نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ باقی زندگی آپ کے ارشادات کی روشنی میں گزاروں۔ میں آپ کی بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے اس روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔

٭ ایک عیسائی ڈاکٹر Manikatov صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے ہمیں ایسے روحانی ماحول میں بلایا۔ مہمانوں کا بہت احترام تھا ۔ نیکی پھیلانے کا شوق ہر کسی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ میں نے حضور کی خدمت میں بعض سوالات بھجوائے تھے اور مجھے بہت اچھا لگا کہ حضور نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر میرے سوالات کے جوابات بھجوائے۔

٭ ایک عیسائی خاتون Kracimira صاحبہ کہتی ہیں کہ:

میں اپنے خاوند اور بچوںکے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ میں نے ایسی منظم مہمان نوازی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ والدین کا احترام، بچوں کی تربیت کے متعلق بہت کچھ سیکھا ہے۔اسے اب زندگی کا حصہ بناؤں گی۔ مرد حضرات جس طرح خواتین کا احترام کرر ہے تھے، یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ عیسائیت میں عورتوں کے لئے اتنا عزت اور احترام میں نے نہیں دیکھا۔ شکریہ کے ساتھ ساتھ میں آپ کے لئے دعا گو ہوں۔

٭ ایک اَور عیسائی خاتون Walentina صاحبہ کہتی ہیں کہ:

میں پہلی دفعہ جلسہ میں شریک ہوئی ہوں۔ اتنے زیادہ لوگوں کو اکٹھے دیکھ کر اور ایک دوسرے کا احترام کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ خاص طور پر آپ نے جو جبر کے خلاف تعلیم کا ذکر کیا ہےاس نے مجھے بہت متاثر کیا اور اسلام کے بارہ میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، ان کی حقیقت واضح ہوگئی ہے اور اب اسلام کے بارے میں میرا دل مطمئن ہو گیا ہے۔

٭ ایک دوست محمد یوسف صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا:

مَیں پہلی بار اس جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ جو باتیں جماعت کے خلاف سنی تھیں، جلسہ کا ماحول دیکھ کر اب میرا دل ہر لحاظ سے صاف ہو گیا ہے۔ سب طرف بھلائی اور قرآن و حدیث کی تعلیم تھی۔ آپ کے ماٹو ’محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں‘ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ خاص طور پر حضور کے آنے پر بہت سکون ملتا تھا۔ جلسہ کے دوران ہی میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں بھی احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔ میری کافی ذاتی مشکلات تھیں لیکن جب میں جلسہ میں شامل ہوا تو میری مشکلات خود بخود دور ہونا شروع ہو گئیں۔ اب میں جماعت کے پیغام کو آگے پھیلاؤں گا۔

٭ ایک خاتون Anna صاحبہ نے کہا:

میں پہلی مرتبہ آئی ہوں۔ مجھے سب کچھ بہت اچھا لگا۔ خدمت کا بےلوث جذبہ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ اسی طرح بچوں کا پانی پلانا بہت اچھا تھا۔ علم میں بہت اضافہ ہوا۔

٭ ایک اور عیسائی خاتون Lilyana صاحبہ کہتی ہیں:

حضور کی تقاریر کا بہت گہرا اثر ہواہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پاس آئے ہیں۔ ایک دوسرے سے ہمدردی ، حکومتوں کو سمجھانا اور آپ کے الفاظ ایسے تھے کہ اگر دنیا ان پر عمل کرے تو یہ دنیا بہت اچھی ہو جائے اور ایک پُر امن دنیا بن جائے۔ حضور ہماری فیملیز کے لئے دعا کریں۔

بلغاریہ کے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات چھ بجے تک جاری رہی۔

آخر پر وفد کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………………

بوسنیا کے وفد کی ملاقات

بعدازاں بوسنیا (BOSNIA) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات حاصل کیا:

بوسنیا سے امسال 59؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ جرمنی میں شامل ہوا۔

ایک مہمان نے عرض کیا کہ میں گزشتہ سال بھی جلسہ سالانہ پر آیا تھا، امسال بھی شامل ہوا ہوں۔ جلسہ میں دعاؤں کا موقعہ ملا ہے۔ گزشتہ سال میں نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تھی کہ میرے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ ملازمت نہیں ہے۔ جب میں جلسہ سے واپس گیا تو مجھے جاتے ہی کام مل گیا۔ یہ سب حضور انور کی دعا کی برکت سے ہوا۔

ایک دوست نے عرض کیا کہ میرے دائیں ہاتھ پر زخم تھا۔ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کی سعادت پائی اور جب واپس گھر پہنچا تو مجھے زخم سے شفاء ہوچکی تھی۔ یہ سب کچھ مصافحہ کی برکت سے ہوا۔

ایک مہمان نے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ مجھے اور میرے خاندان کے لوگوں کو صحت دے اور پریشانی سے بچاۓ اور مجھے دوبارہ توفیق دے کہ میں پھر آکر حضور انور سے ملوں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔

ایک عمر رسیدہ شخص نے عرض کیا کہ میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے اس عمر میں خلیفہ وقت کی زیارت کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

ایک خاتون نے اپنی پریشانیوں سے نجات کے لئے دعا کی درخواست کی اس پر حضور انور نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فضل فرماۓ۔

ایک خاتون نے عرض کیا کہ وہ سرکاری یتیم خانہ کی ڈائریکٹر ہیں۔ جماعت نے ان کے ساتھ کافی پراجیکٹ کئے ہیں۔ موصوفہ نے دعا کی درخواست کی کہ خدا تعالیٰ لوگوں کو عقل دے تاکہ سب مل کر خدمت کریں۔ حضورِانور نے فرمایا اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان بے نفس ہو کر کام کرے۔

ایک مہمان نے عرض کیا کہ میڈیا میں اسلام کا غیراسلامی چہرہ دکھایا جاتا ہے اور اسلام کو بُرے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے اس پر حضور انور نے فرمایا آپ کا سوسائٹی میں ایک سٹیٹس بھی ہے تو آپ مل کر کام کریں اور اس پراپیگنڈا کے خلاف آواز اٹھائیں۔

ایک مہمان نے حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کیا اور بتایا کہ میں دو سال سے جماعت کے ساتھ پراجیکٹ کر رہا ہوں اور جماعت ان کے ساتھ مل کر ان کی مدد کرتی ہے۔ گزشتہ سال بھی جلسہ میں شامل ہوا تھا۔ اس سال بھی شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔

٭ ایک دوست نے سوال کیاکہ کیاوجہ ہے کہ مسلمانوں میں اس قدر اختلافات ہیں۔ مسلمان دنیا ایک دوسرے کے خلاف ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہی جنگ کررہے ہیں ۔ یہ صرف عرب ممالک کی بات نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہی یہ صورتحال ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ حضورانور اس مسئلہ کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جماعت احمدیہ کے لئے اس مسئلہ کو دیکھناتو بہت سادہ اورsimple ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی اور یہ حدیث تھی کہ ایک زمانہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کاہوگا،اس کے بعد خلافتِ راشدہ کا زمانہ ہوگا، اس کے بعد ملوکیت پھیلے گی اور لمباعرصہ رہے گی اور اس کے بعد مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہوگا۔ اور اس کے بعد اسلام کا revival ہوگااور ایک جماعت قائم ہوگی۔اور یہ بھی فرمایاتھاکہ اسلام کے اندر بہت سارے فرقے ہو جائیں گے اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ گوکہ کہنے کو تو صرف دو بڑے فرقے ہیں سُنی اور شیعہ لیکن ان کے اندر پھر اتنی sub-division ہوئی ہے کہ ہرگروہ اپنے اپنے امام کو ہی حق پر سمجھتاہے۔ اوراس وجہ سے علماء میں آپس میں اختلافات ہیں۔ان اختلافات کی وجہ سے ان کی مسجدوں میں ان کے پیچھے مقتدی جو نمازیں پڑھنے کیلئے آتے ہیں ان کے ذہنوں پر ان اماموںکے خیالات راسخ ہوجاتے ہیں اور پھر ہر کوئی سمجھتاہے کہ ہم ٹھیک ہیں اور باقی سب غلط ہیں۔ اور پھر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام کی بنیادی تعلیم کیاہے ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

قرآن کریم نے تو فرمایاہے کہ ’رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ‘ یعنی آپس میں نیک سلوک ہو اور پیاراور محبت کے ساتھ رہنے والے ہوں۔تواس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اس قسم کے نام نہاد علماء اختلافات کی خلیج کو وسیع کرتے چلے گئے ہیں۔پھر جو مسلمان لیڈرز ہیں ان کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اس بات کو اللہ تعالیٰ کافضل سمجھیں کہ ان کی پارٹی حکومت میں آئی اور وہ عوام کی خدمت کریں ، ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ جو بھی آتاہے وہ اقتدار پر قبضہ جماناچاہتاہے ، اقتدارکو چھوڑنا نہیں چاہتا اور اس کی خاطر اگر ان کولوگوں پر ظلم بھی کرنا پڑے تو کرتے ہیں۔ اس لئے چاہے دنیادارلیڈر ہیں، ملک کے سربراہ ہیں یا سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہیں یا دینی لیڈرہیں سب نے عوام کا ایسامزاج بنادیاہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی صحیح ہیں۔اور اس کیلئے ہمیں جو بھی کرنا پڑے کریں گے، چاہے ظلم ہی کرناپڑے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ملکوں کے اندر بھی پارٹیوں کی چپقلش کی وجہ سے یافرقوں میں چپقلش کی وجہ سے ظلم ہورہے ہیں اور ایک ملک دوسرے ملک سے بھی لڑائی کررہاہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس لئے ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جس شخص نے آنا تھا وہ آگیااور اس نے یہ اعلان کیاکہ مَیں دو اہم کاموں کیلئے آیاہوں ۔ ایک تو بندے کو خداکی پہچان کراؤں اوراُسے قریب لاؤں اور انسانوں کوایک دوسرے کے حق اداکرنے کی طرف توجہ دلاؤں۔ اسی کام کے لئے جماعت احمدیہ نے ساری دنیا میں اپنے مشن بھی کھولے ہوئے ہیں اور تبلیغ بھی کرتی ہے اور اسلام کا پیغام بھی پہنچارہی ہے۔اس لئے آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں، افریقہ جہاں اللہ کے فضل سے احمدیت کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہے ، وہاں کے دوردراز علاقوں میں چلے جائیں ، پھر انڈونیشیا ہے، ملائیشیا ہے ، یورپ کے ممالک ہیں یا ایشیا کے دوسرے ممالک ہیں آپ ہرجگہ یہی دیکھیں گے کہ احمدیت کا مزاج ایک ہی ہے کہ امن اور محبت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم کرناہے۔اسی وجہ سے بعض جگہوں پر ہم پر ظلم بھی ہوتے ہیں لیکن ہم نے کبھی retaliate نہیں کیا، کبھی جواب نہیں دیا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اصل چیزیہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے جو حل پیش فرمایاہے ، جس کی آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی بھی فرمائی تھی اورہمارے ایمان کے مطابق قرآن کریم میں سورۃ الجمعہ میں بھی اس کا ذکرہے ، وہی ایک حل ہے جو مسلمانوں میں موجود افتراق کو ختم کرسکتاہے۔باقی کم ازکم ہرانسان چاہے کسی بھی فرقہ کا ہو وہ عقل رکھتاہے، اس کو چاہئے کہ ہر بات کو سننے کے بعد یا اُس پر عمل کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ میں جو بھی کررہاہوں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ ضروری نہیں کہ بے عقلوں کی طرح ہر بات کے پیچھے چل پڑیں۔ اگر عقل والے انسان چاہے وہ دنیا کے کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں وہ اس بات کو realise کرلیں تو دنیا میں امن قائم ہوجائے گا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اگر یہ لوگ جائزہ لیں تو ان کو پتہ لگ جائے گاکہ عراق میں بھی اور سیریامیں بھی گوکہ مغربی طاقتوں نے فساد کو ہوادینے میں کرداراداکیاہے لیکن فساد کی بنیاد وہی ہے شیعہ اور سُنی کا افتراق۔ ترکی میں بھی قوموں کی وجہ سے مسئلہ پیداہواہے کہ وہ تُرک ہیں اور کُردہیں۔ توہرجگہ انسان اس لئے لڑرہاہے کہ ان کے اپنے interest زیادہ ہوگئے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی بات کو سننا نہیں چاہتے۔ جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا ہے اللہ تعالیٰ نے تومسلمانوں کی نشانی بتائی تھی ’رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ‘ لڑائی کرنے کی نشانی تو اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بتائی ہے کہ ’قُلوْبُہُمْ شَتّٰی ‘ لیکن مسلمانوں کا آجکل یہ حال ہے کہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ ایسے مسلمان اللہ تعالیٰ کی بات مان رہے ہیں یا نہیں مان رہے؟ اگر آپ سوچیں تو آپ کو اس کا حل خود ہی مل جائے گا۔

ممبرانِ وفد کے تأثرات

٭ بوسنیا سے ایک دوست Armin صاحب جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ یہ بوسنیا کے شہر Zenica کے میئر کے نمائندہ کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہ:

جلسہ کے تمام انتظامات بہت ہی اعلی تھے اور حیرت ہوتی تھی کہ یہ لوگ کس طرح سے کام کر رہے ہیں ۔ جلسہ گاہ میں داخل ہونے سے ایک روحانیت کی کیفیت طاری ہو جاتی اور ہر طرف سے امن اور محبت کے نظارے نظر آتے۔ لیکن ان سب باتوں سے زیادہ مجھے جس بات نے متاثر کیا وہ امام جماعت احمدیہ کے ساتھ ذاتی ملاقات کا تجربہ تھا ۔وہ چند لمحات میری زندگی کے سب سے حسین لمحات ہیں۔امام جماعت کے ساتھ گفتگو کا تجربہ اور اس قدر قریب سے آپ کو دیکھنا میرے لیے ایک روحانی تجربہ تھا۔ میں امام جماعت کو قریب سے دیکھ رہا تھا کہ آپکی شخصیت میں کس قدر قوتِ جاذبہ ہے اور آپکے چہرہ پر کس قدر سکون ہے میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ آپ کی ذات مجسم امن و سلامتی ہے۔ اور میں ملاقات کے بعد بھی ان حسین یادوں سے لذت اٹھا رہا ہوں اور واپسی کے سفر میں بھی اور گھر واپسی کے بعد بھی خلیفہ کی حسین یاد میرے اندر روحانیت کے احساس کو اجاگر کرتی رہے گی۔ موصوف نے اپنے شہر کی انتظامیہ کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں اعزازی شیلڈ بطورتحفہ پیش کی اور بتایاکہ اس شیلڈ میں 1198 ء کا ایک ڈاکومنٹ ہے۔ جس کے مطابق اُس وقت کے بوسنیا کے بادشاہ نے کروشیا کے لوگوں کو اختیاردیاتھاکہ وہ بوزنیا آئیں اور یہاں آکر کام کریں تو یہ وہ پہلا ایسا قدیم ڈاکومنٹ ہے جس میں بوسنیا کا ذکر تاریخی طور پر ملتاہے۔

٭ بوسنیا سے ایک غیر احمدی مسجد کے امام حارث صاحب بھی جلسہ میں شریک ہوئے۔ جلسہ سے قبل ایک تبلیغی نشست میں انہوں نے کہا کہ میں خود جماعت کے بارہ میں تحقیق کرنا چاہتاہوں تا کہ ذاتی علم کےبنا پر جماعت کے بارہ میں صحیح رائے قائم کر سکوں۔ اسی بنا پر انہوں نے جلسہ میں شمولیت کی دعوت قبول کی۔ جلسہ گاہ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد موصوف نے کہا کہ:

احمدیوں کے درمیان کچھ وقت گزارنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تم ہی وہ لوگ ہو جو کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کی تبلیغ صحیح معنوں میں کر رہے ہو۔ موصوف جلسہ کی تمام کارروائی کو توجہ اور غور سے دیکھتے رہے ،جلسہ کے بعد ان کو وفد کے باقی ممبران کے ساتھ جامعہ احمدیہ جرمنی بھی دکھایا گیا ۔

جامعہ کی سیر کے بعد موصوف نے کہا :

افسوس کہ مسلمان دین اور دنیا کی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں، مگر ایک طرف جہاں جلسہ کے دوران میں نے دیکھا کہ امام جماعت احمدیہ دنیاوی علمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو سندات سے نواز رہےتھے اوراحباب جماعت میں دنیاوی علم میں آگے بڑھنے کی روح کو فروغ دے رہے تھے تو دوسری طرف جامعہ کی سیر کے بعد اس بات کا بھی ادراک ہو گیا کہ جماعت احمدیہ خلافت کی اقتداء میں کس طرح دینی علم کی اشاعت کے لئے منظم طریق پر کوشاں ہے اور کس قدر شاندار توازن کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھ رہی ہے اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس لانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔

موصوف نے حضور انور سے ملاقات کے بعد کہا:

امام جماعت احمدیہ سے براہ راست ملاقات اور گفتگو کی توفیق ملی ،میرے لئے یہ امر باعث سعادت ہے۔ دوران ملاقات موصوف نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ میں بانی جماعت احمدیہ کی تصنیف براہین احمدیہ اور تذکرہ کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں ،اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے موصوف کی رہنمائی فرماتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ اور Invitation to Ahmadiyyatکامطالعہ کریں توساری باتیں اچھی طرح سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ بے شک براہین اور تذکرہ کا بھی مطالعہ کر یں ۔

٭ بوسنیا کے وفد میں ایک 75 سالہ معمر بزرگ عثمان صاحب بھی شامل تھے۔ یہ ایک سے زائد مرتبہ حج بیت اللہ کی بھی سعادت حاصل کر چکے ہیں ۔موصوف نے کہا کہ:

جب مجھے اس جلسہ میں شمولیت کی دعوت ملی اور کہا گیا کہ اس جلسہ میں خلیفہ کی شمولیت ہو گی تو اس جلسہ میں شمولیت کے لئے لفظ ’خلیفہ‘ نے میرے اندر ایک حیرت انگیز کشش پیدا کردی ۔

اس عمر میں اس قدر لمبا سفر اختیار کرنا میرے لئے بہت مشکل تھا مگر میری یہ نیت تھی کہ خدا کے خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نورانی چہرہ کی زیارت کا شرف حاصل کروں گا اور اس خدا کے برگزیدہ سے یہ عرض کروں گا کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کرے اور باقی کی زندگی اسکی رضا کے ساتھ گزرے۔ نیز مجھے اور میرے اہل خانہ کو اللہ تعالیٰ دنیا کی بلاؤںسے محفوظ رکھے۔ اگر اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمائے تو اگلے سال بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔اور کوشش کروں گا کہ اس پیغام کو اپنے ارد گرد کے ماحول میں پھیلاؤں ۔

٭ بوسنین وفد میں ایک خاتون معمرہ صاحبہ بھی شامل تھیں۔ یہ کہتی ہیں:

میں پہلی مرتبہ جلسہ میں حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کر رہی ہوں ۔جلسہ کے ایام کس قدر سرعت سے گزر گئے ہمیں پتہ ہی نہیں لگا۔ کاش یہ ایام اور بھی لمبے ہو جاتے۔میری خواہش ہے کہ ہر سال جلسہ میں شرکت کروں۔ حضورانور کے چہرہ میں ایک نور ہے جو کہ ہم نے مشاہدہ کیا ،کاش ہمارے ملک کے لوگ بھی اس نور کو مشاہدہ کریں ۔

٭ بوسنیا کے وفد میں مونٹینیگرو (Montenegro) سے تعلق رکھنے والے فاروق صاحب بھی شامل تھے۔ یہ کہتے ہیں:

میں ایک کمزور بینائی رکھنے والا شخص ہوں ،مگر اس جلسہ میں شامل ہو کر میں نے سب کچھ دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اس جلسہ سے روح کو سیراب کرکے واپس جا رہا ہوں ۔میں جس ملک یا علاقہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں دین اور مذہب سے لوگ بہت دور ہیں اور روحانیت کیا چیز ہے اس کی ہمیں کوئی خبر نہیں ہے۔ مگرجلسہ کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ خدا موجود ہے اور اس کی برکتیں یہاں امن اور سلامتی اور اطمینان قلب کی شکل میں نازل ہو رہی ہیں۔ جس سے میں نے بھی حصہ لیا ہے ۔

حضور انور سے ملاقات کے بعد موصوف نے کہا:

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ میں ایک کمزور بینائی والا شخص ہوں ،ملاقات کے روز خلیفہ کو دور سے نظر کی کمزوری کی وجہ سے صحیح طرح دیکھ نہیں سکتا تھا ،لیکن جب تصویر کشی کی باری آئی اور آپ سے مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کر رہا تھا تو اس وقت میرے دل نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص ایک مجسم برکت اور نعمت ہے ،نیز آپ نے مجھے انگریزی میں Thank you فرمایا۔ آپ کے یہ الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں اور اس گونج سے میں ایک روحانی سرور حاصل کر رہا ہوں۔ اگراللہ تعالیٰ صحت دے تو ہر سال اس جلسہ میں شامل ہونے کی کوشش کروں گا اور اس برکت کو لُوٹتے ہوئے گھر واپس جاؤں گا۔

٭ بوسنیا کے وفد میں ایک نومبائع دوست Elvedin صاحب بھی شامل تھے۔

جب موصوف کو بتایا گیا کہ جرمنی کے جلسہ میں حضور انور بنفس نفیس شمولیت فرماتے ہیں تو موصوف نے بھی جلسہ میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔مگر جہاں یہ کام کر رہے تھے وہاں سے ان کو رخصت ملنی بہت مشکل تھی۔ جس شخص کے پاس یہ کام کررہے تھے اس شخص کا رویہ بھی بہت سخت تھا ۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ اگر کام چھوڑنا بھی پڑے تب بھی جلسہ میں شامل ہو کر حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کریں گے۔ اس سلسلہ میں دعا بھی کر تے رہے ۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جس کے پاس یہ کام کر رہے تھے اس نے خود ان کو یہ پیش کش کی کہ جتنے ایّام کی رخصت کی ضرورت ہے لے لو اور رخصت سے واپس آکر کام شروع کر دینا۔

اس طرح موصوف کو جلسہ میں شامل ہونے اور حضورانور سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔

بوسنیا کے وفد کی حضور انور کے ساتھ یہ ملاقات چھ بجکر 40 منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………………

گیمبیا کے وفد کی ملاقات

بعد ازاں ملک گیمبیا (GAMBIA) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔

گیمبیا سے امسال 40؍افراد پر مشتمل وفد جلسہ جرمنی میں شریک ہوا۔ سب سے پہلے وفد کے ممبران نے باری باری اپنا تعارف کروایا۔

حضور انور کے استفسار پر وفد کے ممبران نے بتایا کہ جلسہ جرمنی بہت اچھا آرگنائزڈ تھا، ہر انتظام بہت عمدہ اور منظم تھا ۔

افسر صاحب جلسہ سالانہ گیمبیا بھی وفد میں شامل تھے۔ کہنے لگے کہ جلسہ کے انتظامات کے حوالہ سے میں نے یہاں سے بہت کچھ سیکھا ہے اس سے قبل مَیں دو مختلف سالوں میں یوکے کے جلسوں میں شامل ہوا ہوں۔

گیمبیا سے طلباء جامعۃ المبشرین غانا کے لئے جاتے ہیں۔ نائب امیر صاحب گیمبیا نے عرض کیا کہ ہمارے طلباء کو بھی ’’شاہد‘‘ کرنا چاہئے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا انٹرنیشنل جامعہ غانا میں جائیں۔ جامعۃالمبشرین کے تین سال بعد جو طلباء ذہین ہوں گے اور پڑھائی میں اچھے ہوں گے وہ انٹرنیشنل جامعہ میں جائیں گے۔

گیمبیا کے وفد کی حضور انور سے یہ ملاقات سات بجے تک جاری رہی۔ بعد ازاں وفد کے ممبران نے تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………………

مقدونیہ کے وفد کی ملاقات

اس کے بعد پروگرام کے مطابق ملک میسیڈونیا (MACEDONIA) سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔

میسیڈونیا سے امسال 83؍افراد نے جلسہ میں شرکت کی، پچاس افراد ایک بس کے ذریعہ دو ہزار کلو میٹر کا سفر 34 گھنٹوں میں طے کر کے آئے تھے جبکہ دیگر افراد دوسرے ذرائع استعمال کر کے شامل ہوئے۔ شامل ہونے والوں میں 21؍احمدی افراد، 29 ؍غیر از جماعت اور 14؍عیسائی تھے۔ شامل ہونے والوں میں ایک بڑے شہر کے مئیر اور چار مختلف ٹی وی چینلز کے صحافی بھی تھےجنہوںنے جلسہ کے تینوں دن جلسہ کے مناظر کی ریکارڈنگ کی نیز مختلف مہمانوں کے انٹرویوز کئے۔ اپنے ٹیلیویژن کے لئے وہ ڈاکومنٹری تیارکریں گے۔

ایک خاتون صحافی نے عرض کیا کہ وہ پہلی دفعہ آئی ہے۔ جلسہ بہت زبردست تھا۔ محبت، پیار تھا۔ امن کی تعلیم تھی۔ میں نے جلسہ میں کوئی کمی نہیں دیکھی۔ پروفیشن کے لحاظ سے میں ایک صحافی ہوں۔ میں نے بطور صحافی کام کیا ہے۔ مردوں کے، عورتوں کے انٹرویو کئے ہیں۔ بہت مطمئن ہو کر واپس جارہی ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ تو بڑی اچھی صحافی ہیں ورنہ صحافی تو کم ہی مطمئن ہوتے ہیں۔

ایک مہمان جو کہ پروفیسر ہیں وفد میں شامل تھے۔ موصوف نے عرض کیا کہ پہلی دفعہ جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ اتنے بڑے جلسہ میں ایک ملی میٹر بھی انصاف اور عدل سے دوری نظر نہیں آئی۔ یہ جماعت پوری طرح سے اللہ تعالیٰ کی راہ پر چل رہی ہے۔ میرے دل نے اس کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ یہ جماعت سچی ہے۔

ایک بچی نے عرض کیا کہ میری شادی ایک پاکستانی احمدی سے ہوئی ہے میں نے پہلے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اب میرے لئے موقعہ ہے کہ مَیں MIDWIFE کا کام کرسکتی ہوں یا عائشہ اکیڈمی میں کام کروں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ MIDWIFE کا کام کریں اور ساتھ ساتھ دین کا علم حاصل کرتی رہیں۔

ایک مہمان نے عرض کیا کہ مَیں حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں مجھے اس جلسہ میں شامل ہو کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ میں نے اس کانفرنس میں شامل ہونے سے قبل احمدی مسلمان کے خلاف پڑھا تھا۔ یہاں آکر مجھے اس کی تصدیق کرنے کا موقعہ ملا۔ سب باتیں غلط تھیں۔ جماعت احمدیہ ہی ہے جو صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہے۔ میں نے یہاں اسلام کا ایک پاک چہرہ دیکھا ہے۔ تین سو سال نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے جماعت احمدیہ دنیا میں غلبہ حاصل کرے گی اور اسلام کو لیڈ (LEAD) کرے گی۔

ایک مہمان نے سوال کیا جو مسلمان اور عیسائی ہماری جماعت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تو مرنے کے بعد ان سے کیا سلوک ہوگا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: کہ یہ خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے کہ وہ ان سے کیا سلوک کرتا ہے۔

٭ جلسہ میں تین مسلمان پروفیسر بھی شامل ہوئے جو آپس میں دوست ہیں۔ ان میں سے ایک آئی ٹی کے پروفیسر Djeladini Etem (جلادینی ایتیم صاحب) نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے لکھا :

’’میں جلسہ سالانہ کی انتظامیہ اور مقدونیہ میں مقامی احمدی افراد کا ممنون ہوں جن کی دعوت پر میں جلسہ میں شامل ہوا۔ اس جگہ پر صحیح اسلامی تعلیمات کا ظہور ہورہا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل میں نے جماعت احمدیہ اور ان کے خلفاء کے بارہ میں پڑھ اور سن رکھا تھا اور بہت سی باتیں جماعت کے خلاف سنی تھیں لیکن یہاں آکر ان سب کا جواب مل گیا ۔ میں نے جماعت کے خلیفہ کو دیکھا، ان کی باتیں سنیں اور ان سے بہت زیادہ علم حاصل کیا۔ جو باتیں جماعت کے خلیفہ نے بیان کیں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ ‘‘ نیز کہتے ہیں کہ: ’’جماعت کے خلیفہ کی باتیں سن کر میرا پختہ ایمان ہے کہ تمام دنیا کے افراد اس پیغام اور راستہ کو اختیار کرلیں گے جو اللہ جلّ شانہ کی طرف سے شروع ہوا ہے۔ میری طرف سے آپ کو سلام اور امن ملے۔ میں آپ کیلئے خیر اور نیک تمنا کرتا ہوں۔

٭ پروفیسر ڈاکٹر Metus Sulejmani (میٹوس سلیجانی صاحب) مقدونیہ میں سوشویالوجی کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:

’’میں جماعت احمدیہ کے افراد کا جلسہ کی دعوت اور اعلیٰ مہمان نوازی پر شکر گزار ہوں۔ جماعت کی طرف سے جلسہ کے دوران میں نے جن اعلیٰ انسانی اقدار کا مذہبی اور معاشرتی اظہار دیکھا اس پر بہت مثبت سوچ رکھتا ہوں۔ میں نے جلسہ کے دوران بین الاقوامی بھائی چارہ کے اصولوں کا مظاہرہ دیکھا ۔ میں جماعت احمدیہ کو ان کے الٰہی مشن میں کامیابی اور ترقی کا متمنی ہوں اور آپ کیلئے دعاگو ہوں ۔ بہت احترام کے ساتھ اجازت۔ ‘‘

٭ پروفیسر ڈاکٹر Munir Ademi (منیر آدمے صاحب) مقدونیہ میں پروفیسر ہیں۔ وہ اپنے تاثرات کا اس طر ح اظہار کرتے ہیں کہ:

’’خاکسار اپنے اور اپنی فیملی کی طرف سے بہترین مہمان نوازی پر جماعت احمدیہ کا شکر گزار ہے ۔ یہ جماعت اپنی دینی ، روحانی ، قومی اور معاشرتی اقدار کو بہت اعلیٰ طور پر پیش کرتی ہے ۔ میں جلسہ سالانہ 2018 ء کے موقع پر خصوصی طور پر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کا ان کے ٹھوس اور مدلّل خطابات کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن میں انہوں نے محبت ، امن اور بھائی چارہ کی ضرورت پر زور دیا۔ ‘‘

انہوں نے دورانِ ملاقات حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سوال کیاکہ:آپ کے خیال میں وہ وقت کب آئے گاجب یہ جماعت ساری دنیا میں مسلمانوں کو leadکرے گی؟کیونکہ مجھے نظرآرہاہے کہ اس جماعت کے اندر وہ چیز ہے جس سے یہ تمام مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے اکٹھاکرسکتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مذہبی جماعت ہے اور مذہبی جماعتیں آہستہ آہستہ بڑھاکرتی ہیں، ترقی کیاکرتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ترقی کررہی ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اس سال بھی چھ لاکھ سے زائد لوگ جماعت میں شامل ہوئے۔ ہمیں اُمید ہے کہ انشاء اللہ ایک دن آئے گاکہ دنیا کی اکثریت جماعت کے یا اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھے گی اور اس میں شامل ہوجائے گی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میں مسیح محمدی ہوں اور مسیح موسوی کے قدموں پر آیاہوں اور عیسائیت کی جو ترقی ہوئی تھی اور جب ان کو دنیا میں پہچانا جانے لگا اور ان کی مخالفتیں کم ہوئیں تو اس کو تین سو سال سے زائد کا عرصہ لگاتھا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ انشاء اللہ تعالیٰ تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گاکہ جماعت دنیا کے اکثر حصہ پر غالب ہوگی، یا حقیقی اسلام کو ماننے والے لوگ ہوں گے۔ اس لئے ہمیں مایوسی کوئی نہیں۔ اس کیلئے نسلوں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔

٭ Koceva Gonca (کوشے وا گونزہ صاحبہ) جو پیشہ کے لحاظ سے صحافی ہیں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:

’’میں پیشے کے لحاظ سے صحافی ہوں ۔ بہت سی کانفرنسز دیکھی ہیں۔ لوگوں کے انٹرویو کئے ہیں۔ میں کوشش کروں گی کہ جلسہ کی ڈاکومنٹری میرا سب سے اچھا کام ثابت ہو اور انٹرنیٹ پر ساری دنیا اس کو دیکھے۔ میں چاہتی ہوں کہ آئندہ بھی آپ کے ساتھ مل کر کام کروں اور جو لوگ میرا پروگرام دیکھیں وہ سمجھ لیں کہ محبت کیسے پھیلائی جاتی ہے۔ احمدیت کے بارہ میں دنیا کو سچائی بتاؤں گی کہ زندگی کیسے گزارنی چاہئے۔ میں نے زندگی میں اس سے قبل اتنے اچھے لوگ نہیں دیکھے جو اس پیمانے پر مثبت خیالات اور مثبت سوچ کو پھیلا رہے ہوں۔ ‘‘

٭ وفد میں شامل ایک مہمان Kostovski Stojanco (کوستوسکی ستوانچو صاحب) لکھتے ہیں:

’’میں پہلی بار جلسہ سالانہ میں 2012 میں شامل ہوا تھا اور یہ میرا دوسرا جلسہ ہے۔ اب کی بار مجھے دوبارہ انہی باتوں کا تجربہ ہوا جو قبل ازیں ہوچکا تھا ۔ میں نے آپ سے اپنے لئے اور دوسرے شاملین کیلئے حقیقی محبت دیکھی۔ ہماری بہت اچھی مہمان نوازی کی گئی ۔ میں آپ کا شکرگزار ہوں ۔ آپ کی ان تقاریر کا جن میں آپ نے اسلام کی باتیں بتائیں۔ آپ کی تقاریر سے میرے کئی سوالوں کا جواب ملا۔ قبل ازیں میں ان کا جواب نہیں جانتا تھا۔ آپ کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ جلسہ ہر لحاظ سے مکمل تھا۔ ‘‘

٭ Uzunova Dejana (عذونووادیانہ صاحبہ) بیان کرتے ہیں:

’’یہ جلسہ ہر لحاظ سے مکمل تھا۔ خصوصاً تمام پروگرامز وقت پر شروع ہورہے تھے۔ یہ میرا پہلا جلسہ ہے اور چاہتی ہوں کہ دوبارہ بھی شامل ہوں۔ میں ایک تجویز دینا چاہتی ہوں کہ جلسہ پر ہماے جیسے لوگ جو مسلمان نہیں ہیں ، کیا ان کیلئے ضروری ہے کہ تمام پروگرام کے دوران ہال میں رہیں یا ان کیلئے پروگرام کا ایک ایسا حصہ بھی ہو جن میں ان کو علیحدہ سے جلسہ اور جماعت کا تعارف کروایا جائے۔‘‘

٭ Findanka Ristova (فی دانکا ،ریستووا صاحبہ) لکھتی ہیں کہ:

پچھلے سال جلسہ نے جو اچھا اثر مجھ پر چھوڑا تھا اس نے مجھے مجبور کیا کہ امسال دوبارہ آؤں اور دوبارہ اسی گرمجوشی نے میرے دل کو بھر دیا ہے۔ جلسہ نے مجھ پر بہت اچھا اثر چھوڑا ہے ۔ خصوصاً تمام کارکنان نے جو بغیر غلطی کے اپنے فرائض ادا کررہے تھے۔ ہمیں یہ محسوس ہورہا تھا گویا ہم گھر پر ہیں۔ امسال خلیفہ صاحب کی تقریر نے میرے دل پر اثر کیا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ‘‘

٭ Zorinski Zorancho (زورِنسکی زورنچوو صاحب) لکھتے ہیں کہ:

’’میں جلسہ پر پہلی بار بطور مہمان اور بطور صحافی شرکت کر رہا ہوں۔ میں اس دعوت کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو وسیم صاحب نے مجھے دی۔ میں اپنے ناظرین کو وہ باتیں بتانا چاہتا ہوں جو انہیں ابھی تک معلوم نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ پیار محبت اور بھائی چارہ سے وقت گزار رہے ہیں ۔ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہوں گا کہ شروع میں میرا خیال تھا کہ اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کے اجتماع سے مسائل کھڑے ہوں گے ۔ لیکن پہلے دن ہی میں نے محسوس کرلیا کہ یہاں ایسا کچھ نہیں جس پر اعتراض پیدا ہوسکے۔‘‘

مزید کہتے ہیں کہ:’’ آپ کا موٹو ’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘ ایک ایسا واحد پیغام ہے جو بہت مقدس پیغام ہے، گویا آسمانی پیغام ہے۔ یہ موٹو تمام انسانیت کیلئے ایک بہترین راہنما اصول ہے۔ میں حضور کے خطابات کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ زیادہ تعداد میں لوگ آپ کی باتیں سنیں۔ میں بطورصحافی کوشش کروں گا کہ اپنے ناظرین کو اس پیغام کا ایک حصہ دکھاؤں جو میں نے ریکارڈ کیا۔ حضور سے ملاقات نے مجھ پر ایک عجیب اثر کیا ۔ جب میں نے آپ کا ہاتھ چھوا تو میرے جسم میں بجلی کی لہریں دوڑیں۔ آپ میں ایک روحانی طاقت ہے۔ اب جب میں یہ بات کہہ رہا ہوں دوبارہ میرے جسم کی وہی حالت ہے ۔ میرے علم میں نہیں تھا کہ حضور کے ہاتھ پر بوسہ دے سکتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو بوسہ دیتے دیکھا میں بھی اب یہی چاہوں گا۔ ‘‘

انہوں نے ملاقات کے دوران سوال کرتے ہوئے کہا:احمدی مسلمانوں میں اور دوسرے مسلمانوں میں کیافرق ہے؟

اس کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے فرمایا:

اس وقت جو ظاہری فرق آپ دیکھ رہے ہیں اور آپ نے یہاں آکر بھی دیکھ لیاہے کہ وہ یہ ہے کہ اس وقت احمدیہ مسلم جماعت جو دنیا میں ہرجگہ ہے وہ خلافت کے سایہ تلے ایک ہی آواز پر اُٹھنے بیٹھنے والی ہے اور ایک ہی طرح کی سوچ رکھنے والی ہے اور ایک ہی تعلیم پر عمل کرنے والی ہے جبکہ دوسرے مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ہر فرقہ اپنے اپنے راگ الاپتا رہتا ہے۔ آجکل کے لحاظ سے تویہی فرق ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس لئے دنیا میں آپ کہیں جاکر دیکھ لیں، چاہے وہ مغربی افریقہ یا مشرقی افریقہ یا انڈونیشیا یا جو جزائر کے رہنے والے ہیں یا ساؤتھ امریکہ یا امریکہ یا یورپ یا ایشیا میں رہنے والے ہیں سب کی سوچ ایک ہی طرح کی ہوگی۔ اور یہ بات آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گی کہ دنیا میں مختلف ملکوں میں رہنے والی مختلف قومیں ایک ہی سوچ رکھتی ہوں جوکہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلانے اور ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی سوچ ہے۔ پس اِس ایک سوچ کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے چودہ سو سال پہلے پیشگوئی فرمائی تھی کہ چودھویں صدی میں جو مسیح موعود اور مہدی معہود امام آئے گااُس کو ماننا ۔ اس کے بعد خلافت کا سلسلہ شروع ہوگا اور مسلمان اُمت اُسے مانے گی تو امّت واحدہ بن جائے گی۔اس لئے باوجود مخالفتوں کے مسلمانوں میں سے ہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں کہ امن اور پیار اور بھائی چارہ کی فضا کو قائم کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو مانناہے۔ اس لئے ہم اُمید رکھتے ہیں کہ ایک وقت آئے گاجب تمام مسلمانوں کی سوچ ایک ہوجائے گی جب وہ جماعت کے پیغام کو سمجھنا شروع ہوجائیں گے۔

٭ Maria Tncevska (ماریہ تانچسکا وا صاحبہ) لکھتی ہیں کہ:

مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہو ئی کہ جلسہ میں دوسری بار شامل ہورہی ہوں۔ یہ ایک بہت بڑا اجتماع اور میرے لئے ایک بڑا روحانی تجربہ تھا۔ جلسہ کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہر طرف سے روحانی لہریں آرہی ہیں۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب تمام لوگ اکٹھے عبادت کر رہے ہیں۔ آپس میں پیار اور محبت پیدا کر رہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اسلام کے بارہ میں میرے خیالات کو تبدیل کررہی تھیں۔ یہ سب کچھ بہت حیران کن تھا۔ کہ تمام لوگوں آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ مجھے اس پروگرام میں شامل کرنے پر آپ کا بہت شکریہ۔ ‘‘

٭ Daniel Cuklev (دانیال سوکلیوو صاحب) لکھتے ہیں کہ:

’’میں جلسہ میں دوسری بار شامل ہوا ہوں ۔ اس بار میں نے زیادہ لوگوں کو دیکھا۔ میرے خیال میں دوسرے ممالک سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی ہے۔ کھانا بہت مزیدار تھا اور بہت اچھا تھا۔ اس طرح مجھ پر اس بات کا بہت اثر ہوا کہ نماز کے اوقات میں 40 ہزار لوگ تھے اور ایسی خاموشی تھی کہ جیسے یہاں کوئی موجود نہ ہو اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ تمام لوگ اپنے مذہب اور اپنے خلیفہ کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ ‘‘

٭ Natalja Krsteska (ناتالیہ کرسٹسکا صاحبہ ) لکھتی ہیں کہ:

ٍاس جلسہ میں شامل ہوکر مجھے محبت اور بنی نوع کی ہمدردی کی ایسی روشنی ملی جو میری راہنما بنی۔ ہم سب خدا کو اپنے اعمال کے ذریعہ سے پاسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں چاہیئے کہ خدا کی دل کے ساتھ اطاعت کریں۔ تا کہ یہ دنیا بہتر جگہ بن سکے۔ میں دوسری بار جلسہ میں شامل ہونے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں۔ ‘‘

٭ Adem Vejselov (آدم وے سیلو صاحب) لکھتے ہیں کہ:

’’ہم نے مقدونیہ سے جلسہ کیلئے بس میں سفر کیا۔ سفر بھی وقفوں کے ساتھ اچھا رہا۔مجھے جلسہ کے افتتاح پر جھنڈا لہرانے کی تقریب بہت اچھی لگی۔ حضور نے اپنے خطابات میں احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی، جماعت کے مقصد کو بیان فرمایا اور اسلامی تعلیم کو بہت عمدہ طور پر بیان فرمایا۔ تینوں دن میں نے تقاریر سنیں ۔ مجھے اب محسوس ہورہا ہے کہ مجھے اب جاکر علم ہوا ہے کہ حقیقی مسلمان کیسا ہونا چاہئے۔ ایک مسلمان کو غیر مسلموں سے کیسا تعلق رکھنا چاہئے۔ یہ جلسہ میرے لئے سیکھنے کا بہت نادر موقع تھا۔ ‘‘

٭ ایک مہمان خاتون نے سوال کیاکہ آپ کا بحیثیت خلیفہ جو کام ہے وہ بڑا مشکل کام ہے۔ آپ کس طرح یہ کرپاتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بس اللہ تعالیٰ کروادیتاہے۔یہ کام انسانی کوششوں سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ کے کام اللہ ہی کرواتاہے۔یہ لوگ تو پانچ دن کام کرکے دو دن ویک اینڈ کے لے لیتے ہیں یا چھ دن کام کے بعد ایک دن ویک اینڈ کا لے لیتے ہیں ، لیکن میرے لئے کوئی ویک اینڈ نہیں ہے۔

٭ ایک مہمان نے سوال کیاکہ اس وقت پاکستان میں جوعمران خان کی حکومت آئی ہے ، کیا اُس کے آنے سے احمدیوں کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب تک احمدیوں کے متعلق جو قانون ہے جو 1974ء میں قومی اسمبلی نے پاس کیاتھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور بعدمیں ضیاء الحق نے آکر اس میں مزید ترمیمیں کرکے اُس کو اس طرح بنایاکہ احمدیوں کی کوئی آواز نہیں ہوسکتی ، احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے، احمدی ایک دوسرے کو سلام نہیں کرسکتے، احمدی بسم اللہ نہیں پڑھ سکتے اور اس طرح کے عجیب اور بیہودہ قسم کے قوانین ہیں جب تک وہ قائم ہیں کوئی بھی حکومت آجائے وہ کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ ان قوانین کی وجہ سے ملّاں آجکل زور میں ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو اس کو بھی اسی قانون کے تحت حکومت چلانی ہوگی اور مولوی کا زورہے۔ یہاں تک کہ گزشتہ دنوں میں عمران خان نے ایک معاشی ترقی کیلئے ایڈوائزری کونسل بنائی تھی۔ اس میں ایک بہت اچھا احمدی اکانومسٹ جو دنیا میں مانا ہواہے اور امریکہ میں ایک یونیورسٹی میں پڑھارہاہے اس کا نام بھی شامل کرلیا۔ اس کانام شامل کرنے پر ملّاں نے اتنا شور مچایاکہ تم نے ایک قادیانی کو شامل کرلیاہے اور ہم اس کوبرداشت نہیں کرسکتے۔گوکہ پہلے عمران خان کے منسٹرز نے اس کو resist کیا اورکہاکہ ہم نے اسے کسی اسلامی نظریاتی کونسل میں تو شامل نہیں کیا ، ہم نے تو معاشی ترقی کی ایک کونسل میں شامل کیاہے اور اُسے کمیٹی کا ایک ممبر بنایا ہے۔ لیکن ملّاں نہیں مانے اور آخر عمران خان کی حکومت کو مولویوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور پھرانہوں نے اس اکانومسٹ کو مجبورکیاکہ اب resign کردو یا ہم تمہیں ہٹادیں گے۔ تو یہ ہے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے انصاف کی تازہ مثال جو ہم دیکھ رہے ہیں۔

میسیڈونیا کے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے یہ ملاقات سات بجکر 40منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button