خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 14؍ستمبر 2018ء

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج سے جماعت احمدیہ بیلجیم کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد مَیں آپ کے جلسہ میں شامل ہو رہا ہوں ۔

اس عرصہ میں جہاں جماعت میں اضافہ بھی ہوا ہے دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بھی جماعت بڑھی ہے۔

اس کے علاوہ اَور بہت سی باتوں میں یہاں ترقی ہوئی ہے۔ مثلاً مشن ہاؤسز میں اضافہ ہوا۔ مساجد اور نماز سینٹرز میں بھی اضافہ ہوا۔ برسلز کی مسجد جو زیر تعمیر ہے تقریباً تکمیل کے مراحل میں ہے۔ وہ بھی اچھی مسجد بن رہی ہے۔ پرسوں آلکن(Alken) میں ایک مسجد کا مَیں نے افتتاح کیا۔ بڑی وسیع جگہ اور عمارت جماعت کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے ۔تو ظاہری طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت پر یہاں بڑے فضل ہوئے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہ فضل یہ احساس بھی افراد جماعت میں پیدا کرنے والے ہونے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے اور ماننے میں اور عمل کرنے میں بھی نہ صرف ظاہری طور پر بلکہ حقیقی طور پر پہلے کی نسبت بہتر ہوں۔

ہر شامل ہونے والے کو جلسہ کے اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہوں۔ دین کو مقدم کرنے والے ہوں اور دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو دین کا خادم بنانے والے ہوں۔ اور یہ روح صرف اپنے اندر پیدا نہ کریں بلکہ اپنی اولاد میں بھی یہ روح پھونکیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے اور انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ نسلاً بعد نسلٍ اس بات کو اپنی اولادوں کے دلوں میں بٹھاتے چلے جائیں کہ دنیا کو دین کا خادم بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر چلنے کی کوشش کرو اور اس آخری زمانے میں ہماری اصلاح کے لئے اور ہم پر فضل فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے جو مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجا ہے اس کی بیعت میں آ کر ہمیشہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے بنے رہیںکہ اسی میں ہماری بقا ہے۔ اسی میں ہماری نسلوں کی بقا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد کا تذکرہ اور اس پہلوسے احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح

پاکستان میں جلسوں پر پابندی ہے۔ وہاں کے لوگ اس لحاظ سے محرومی کا شکار ہیں تو ایم ٹی اے پر کم از کم باقاعدگی سے خطبات ہی سنا کریں، دیکھا کریں، جلسے دیکھا کریں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بھی تو ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کچھ حد تک اس محرومی کا مداوا کرنے کے لئے پھر کھول دیا۔ جلسوں کے پروگرام کو ایم ٹی اے پر دیکھ اور سن کر ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو ساٹھ ستر فیصد تو تشنگی دُور ہو سکتی ہے اور اگر چاہیں تو پاک تبدیلی تو پھر سو فیصد پیدا ہو سکتی ہے۔

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع جلسہ سالانہ بیلجیمفرمودہ مورخہ 14؍ ستمبر 2018ء بمطابق14؍تبوک 1397 ہجری شمسی
بمقامDilbeekبرسلز،بیلجیم

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج سے جماعت احمدیہ بیلجیم کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد مَیں آپ کے جلسہ میں شامل ہو رہا ہوں ۔اس عرصہ میں جہاں جماعت میں اضافہ بھی ہوا ہے دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بھی جماعت بڑھی ہے۔ پاکستان سے یہاں ہجرت کر کے آنے والے بھی بہت سے نئے شامل ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اَور بہت سی باتوں میں یہاں ترقی ہوئی ہے۔ مثلاً مشن ہاؤسز میں اضافہ ہوا۔ مساجد اور نماز سینٹرز میں بھی اضافہ ہوا۔ برسلز کی مسجد جو زیر تعمیر ہے تقریباً تکمیل کے مراحل میں ہے۔ وہ بھی اچھی مسجد بن رہی ہے۔ پرسوں آلکن(Alken) میں ایک مسجد کا مَیں نے افتتاح کیا۔ بڑی وسیع جگہ اور عمارت جماعت کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے ۔تو ظاہری طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت پر یہاں بڑے فضل ہوئے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہ فضل یہ احساس بھی افراد جماعت میں پیدا کرنے والے ہونے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے اور ماننے میں اور عمل کرنے میں بھی نہ صرف ظاہری طور پر بلکہ حقیقی طور پر پہلے کی نسبت بہتر ہوں۔ اور یہی نہیں کہ بہتر ہوں اور ایک جگہ کھڑے ہو جائیں بلکہ ہمارا ہر دن اور ہر قدم گزشتہ دن سے اور پچھلے قدم سے نیکی اور تقویٰ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے میں ترقی کرتا ہوا اور آگے بڑھتا ہوا نظر آئے۔ اپنی برائیوں کو ہم پیچھے چھوڑ چکے ہوں اور نیکیوں میں نئی منزلوں کو طے کر رہے ہوں ۔اگر یہ بات افراد جماعت میں نظر آتی ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو حاصل کر لیا ہے یا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پس اس بات کو سمجھتے ہوئے ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ان ترقی یافتہ اور آزادی کے نام پر دینی پابندیوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے بھی آزاد ملکوں میں جہاں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ دینی احکامات کی پابندی کرنی ہے یا اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پابندی کرنی ہے۔یہ ملک ان سب سے آزاد ہیں۔ان ملکوں میں تو خاص طور پر توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔ ورنہ دین کے نام پر ان ملکوں میںآ کر پھر اللہ تعالیٰ کی باتوں کو کوئی اہمیت نہ دینا اور دنیا میں پڑ جانا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنا دیتا ہے۔ یہاں آنے والوں کی اکثریت دین کے نام پر آئی ہے۔ اس وجہ سے آئی کہ آپ کو اپنے ملک میں اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ ورنہ یہ بات یاد رکھیں کہ یہاں آئے اور دین کے نام پر آئے، اللہ تعالیٰ کے نام پر آئے اور پھر اللہ کے حکموں پر عمل نہ کیا تو یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنا سکتی ہیں۔ لیکن انسان کمزور ہے اس لئے اس کمزوری کی وجہ سے دنیا کی طرف جھکاؤ بھی ہو جاتا ہے۔ ایک حد تک دنیا کی طرف توجہ دینا اور دنیا کمانا گناہ نہیں لیکن دنیا پر دنیاداروں کی طرح گرنا اس بات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اور اس بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بڑا کھول کر واضح فرمایا۔

ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کے شغلوں کو جائز رکھا ہے۔ جو دنیا کے کام ہیں، شغل ہیں، مصروفیات ہیں جائز ہیں۔ ان میں کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ اگر یہ نہیں ہوں گے تو اس راہ سے بھی ابتلا آ جاتا ہے اور اسی ابتلا کی وجہ سے انسان چور،قمار باز، ٹھگ، ڈکیت بن جاتا ہے اور کیا کیا بری عادتیں اختیار کر لیتا ہے۔ فرمایا مگر ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ دنیاوی شغلوں کو اس حد تک اختیار کرو کہ وہ دین کی راہ میں تمہارے لئے مدد کا سامان پیدا کر سکیں اور مقصود بالذات اس میں دین ہی ہو۔ فرمایا پس ہم دنیاوی شغلوں سے بھی منع نہیں کرتے۔ جو دنیا کی مصروفیات ہیں یہ منع نہیں۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اصل مقصد دین ہونا چاہئے۔ پس ایک دیندار کے لئے، ایک اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے دین پر چلنے والا کہتا ہے یہ بنیادی اصول ہے کہ دنیا کماؤ۔ ضروریات زندگی پورا کرنے کے سامان کرو۔ اپنے بیوی بچوں کے اخراجات اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرو یہ تمہارے ذمہ ہے۔ ان کے لئے دنیاوی کاروبار کرنا، کام کرنا، نوکری کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ کام، یہ کاروبار، یہ نوکری تمہیں پیسہ کمانے میں اس حد تک منہمک نہ کر دے، اس میں اس حد تک نہ ڈوب جاؤ کہ پھر دین کی فکر ہی نہ رہے اور تمام فکریں صرف دنیا کے گرد گھومتی رہیں۔ دنیا بھی کمانی ہے تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بیوی بچوں کے حق ادا کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنی ہے۔ یہ مقصد ہو گا تو دنیا بھی ملے گی اور دین بھی ملے گا۔ آپ نے پھر یہ بھی فرمایا کہ یہ نہ ہو کہ دن رات دنیا کے دھندوں اور بکھیڑوں میں منہمک ہو کر خدا تعالیٰ کا خانہ بھی دنیا سے ہی بھر دو۔ یہ نہ ہو کہ جو اللہ کو حق دینا ہے وہ بھی دنیا کی مصروفیات میں گزار دو۔ فرمایا کہ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ محرومی کے اسباب بہم پہنچاتا ہے اور اس کی زبان پر نرا دعویٰ ہی رہ جاتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ 73۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اگر دنیا میں ڈوب گئے تو دین سے محروم ہو گئے۔ اور جب دین سے محروم ہو گئے تو پھر دین کا دعویٰ اور بیعت کا دعویٰ اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ صرف دعویٰ ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کہنے کو تو ہم احمدی ہیں لیکن اگر ہم دنیا کی طرف بڑھ گئے، زیادہ اس میں ڈوب گئےتو عمل ہمارے وہی ہیں جو دوسروں کے ہیں۔

پھر اس بات کی ایک اور جگہ مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ دنیا کو حاصل کرنے کا مقصد دین ہونا چاہئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے۔ یہ بزدلوں کا کام ہے۔ دنیا سے کٹ جانا یہ تو بزدلوں کا کام ہے۔ فرمایا کہ مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کے موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا اور اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ یعنی دنیا بھی اور دنیا میں جو عزت و مرتبہ اور دولت ملی ہے وہ سب ایک مومن کو دنیا داری کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتی بلکہ یہ سب چیزیں دین کے خادم کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس کا مقام و مرتبہ دین کے فائدے کے لئے ہوتا ہے اور اس کی دولت بھی دین کے فائدے کے لئے ہوتی ہے۔گویا کہ آپ نے جو بیان فرمایا اس کا مفہوم یہی ہے کہ دنیا کی دولت ایک ایسی سواری ہے جس پر بیٹھ کر انسان کو دین کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچنا ہے۔ جب وہ زاد راہ جو ہے انسان اپنے سفر کی آسانی کے لئے ساتھ لیتا ہے۔ اچھی سواری اور سفر کی سہولت کا سامان انسان اس لئے کرتا ہے تا کہ آسانی سے منزل مقصود تک پہنچ سکے۔ پس اس طرح دنیا کو حاصل کر کے استعمال کرو اور اسے دین کا خادم بناؤ۔ نہ یہ کہ خود دنیا کے خادم بن کر دین کو بھی چھوڑ دو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً۔ اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے۔ فرمایا اس میں دنیا کو مقدم کیا ہے لیکن کس دنیا کو؟ فرمایا حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کو مقدم کیا ہے جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے۔ فرمایا کہ اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حَسَنَاتُ الْاٰخِرَۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آ گیا جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئے۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف کا موجب ہو۔ نہ ہم جنسوں میں کسی عار اور شرم کا باعث۔ ایسی دنیا بیشک حَسَنَۃُ الْاٰخِرَۃ کا موجب ہو گی۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ 91-92۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ہم میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ایسی دنیا کمائیں جو آخرت کی حسنات کی بھی موجب ہو، نہ یہ کہ یہاں کی رنگینیوں میں گم ہو کر اپنے مقصد کو بھول جائیں اور آخرت میں حسنات لینے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنے ۔اور پھر دنیا کی رنگینیاں اور لذات ایسی ہیں کہ جو انسان میں مزید بے چینیاں پیدا کر دیتی ہیں۔ اپنی طرف سے انسان سمجھتا ہے کہ دنیا میں مجھے سکون مل سکتا ہے لیکن حقیقت میں سکون نہیں ہے بلکہ بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ مت خیال کرو کہ کوئی ظاہری دولت یا حکومت اور مال و عزت، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے راحت یا اطمینان اور سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دم نقد بہشتی ہوتا ہے۔ یعنی وہ گویا جنت میں ہے یا اسے یہ جنت مل گئی جو تم سمجھتے ہو۔ فرمایا ہرگز نہیں۔ حقیقت میں وہ اطمینان اور تسلی اور تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے جس سے بہشت مل سکتی ہے وہ ان باتوں سے نہیں ملتی۔ وہ خدا میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے جس کے لئے انبیاء علیہم السلام خصوصاً ابراہیم اور یعقوب علیہ السلام کی یہی نصیحت تھی کہ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْن۔ کہ پس ہرگز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم اللہ کے پورے فرمانبردار ہو۔ مطلب یہ کہ تمہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی حالت میں رہنا چاہئے۔ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ یہ نہ ہو کہ موت آ جائے اور تم فرمانبرداری سے باہر ہو۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لذات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں۔ استسقاءکے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی۔ وہ مریض جس کو بیماری ہو پانی پینے کی اس کی پیاس بجھتی ہی نہیں پیتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ پس یہ بے جا حسرتوں آرزوؤں کی آگ بھی منجملہ اس جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں و پیچاں رکھتی ہے۔ فرمایا کہ اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یا زن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسا دیوانہ اور ازخودرفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ 101-102۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) یعنی اگر دنیا اور اس کی چیزوں میں ضرورت سے زیادہ محو ہو گئے اور ڈوب گئے تو پھر ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور خدا میں ایک حجاب پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک روک کھڑی ہو جاتی ہے۔ پردے بیچ میں آ جاتے ہیں۔ نہ بندہ خدا کی طرف بڑھتا ہے اور نہ خدا بندے کی طرف آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ بندہ پہلے میری طرف آنے کی کوشش کرے گا تو میں اس کی طرف آؤں گا جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ بندہ ایک قدم آئے گا تو میں دو قدم آؤں گا۔ وہ چل کر آئے گا تو میں دوڑ کر آؤں گا۔(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ و یحذرکم اللہ نفسہ حدیث 7405) پس اگر اس حجاب اور روک کو دُور کرنا ہے تو دنیا کو دین کا غلام بنا کر ہی دُور کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ مال اور اولاد اسی لئے تو فتنہ کہلاتی ہے کہ وہ بندے اور خدا میں ایک روک پیدا کر دیتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ان سے یعنی مال اور اولاد سے بھی انسان کے لئے ایک دوزخ تیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں دو چیزوں کے باہم تعلق اور رگڑ سے حرارت پیدا ہوتی ہے۔ ہاتھوں کو بھی رگڑو تو اس سے بھی حرارت پیدا ہوتی ہے۔ پتھروں کو رگڑو تو اس سے گرمی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح پر انسان کی محبت اور دنیا اور دنیا کی محبت کی رگڑ سے جو حرارت پیدا ہوتی ہے اس سے الٰہی محبت جل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت پھر ختم ہو جاتی ہے۔ انسان کی محبت اور دنیا کی محبت جب آپس میں رگڑیں تو پھرکیا نتیجہ نکلے گا؟ کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ختم ہو جائے گی اور جل جائے گی ۔ فرمایا کہ اور دل تاریک ہو کر خدا سے دور ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بیقراری کا شکار ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ لیکن جب کہ دنیا کی چیزوں سے جو تعلق ہووہ خدا میں ہو کر ایک تعلق ہو۔ دنیا کی چیزوں کا جو تعلق ہے وہ خدا میں ہو کر ہو۔ اور ان کی محبت خدا کی محبت میں ہو کر ہو۔ دنیا کی چیزوں کی محبت بھی اس لئے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک ان سے محبت کرنا جائز قرار دیا ہے۔ اور وہ خدا کی محبت سے ہو کر ہو گی اور اس وقت خدا نہ بھُولے تو پھر کیا ہو گا؟ فرمایا کہ اس وقت باہمی رگڑ سے غیر اللہ کی محبت جل جاتی ہے۔ جب وہ رگڑ پیدا ہو گی تو جو اللہ کے غیر ہیں ان کی محبت ختم ہو جائے گی اور اس کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر جاتا ہے۔ پھر خدا کی رضا اس کی رضا اور اس کی رضا خدا کی رضا کا منشاء ہو جاتا ہے۔ پھر بندہ اس بات پر راضی ہو جاتا ہے اور وہی چاہتا ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ برخلاف اس کے جو کچھ حالت انسان کی ہے وہ جہنم ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کے سوا زندگی بسر کرنا یہ بھی جہنم ہے۔

(ماخوذازملفوظات جلد 2صفحہ 102-103۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم پورے مسلمان بنو ۔مسلمان کا لفظ ہی دلالت کرتا ہے کہ انقطاعِ کُلّی ہو یعنی مکمل طور پر خدا کی طرف جھکو۔ یہ نہیں کہ ابھی خدا تعالیٰ کی طرف جھک گئے اور جب دنیا کے فائدے دیکھے تو دنیا کی طرف جھک گئے ،خدا بھول گیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو مسلمان پیدا کر کے لا انتہا فضل کئے ہیں بشرطیکہ وہ غور کرے اور سمجھے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ 304۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ انسان کمزور ہے۔ بعض دفعہ دنیا کی دلچسپیاں اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انسان دنیا کی طرف زیادہ جھک جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے یا بعض عملوں میں کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو انسان پوری طرح سامنے نہیں رکھتا۔ حق ادا نہیں کرتا۔ بیوی بچوں کے حق ادا نہیں کئے۔ عائلی مسائل پیدا کر دئیے۔ گھروں میں لڑائیاں ہیں یا اپنے کاروبار میں ایمانداری سے کام نہیں کیا یا کاروبار کی وجہ سے نمازیں چھوڑ دیں یا اور بہت ساری باتیں ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کمزوری سے نکالنے کے لئے بھی انتظام فرمایا ہوا ہے اور ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق دی جو ہمیں بار بار مختلف موقعوں پر راستے سے بھٹکنے سے بچانے کے لئے رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔

پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کے اِذن سے ایک یہ بھی انتظام فرمایا کہ ان جلسوں کا انعقاد فرمایا جہاں ہم سال میں ایک مرتبہ جمع ہو کر اپنی روحانی بہتری کا سامان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس ہر شامل ہونے والے کو جلسہ کے اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہوں۔ دین کو مقدم کرنے والے ہوں اور دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو دین کا خادم بنانے والے ہوں۔ اور یہ روح صرف اپنے اندر پیدا نہ کریں بلکہ اپنی اولاد میں بھی یہ روح پھونکیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے اور انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ نسلاً بعد نسلٍ اس بات کو اپنی اولادوں کے دلوں میں بٹھاتے چلے جائیں کہ دنیا کو دین کا خادم بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر چلنے کی کوشش کرو اور اس آخری زمانے میں ہماری اصلاح کے لئے اور ہم پر فضل فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے جو مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجا ہے اس کی بیعت میں آ کر ہمیشہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے بنے رہیںکہ اسی میں ہماری بقاء ہے۔ اسی میں ہماری نسلوں کی بقاء ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو۔ اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالتِ انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔‘‘(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351) پس جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے کامل محبت نہ ہو، نہ ہی دنیا کی محبت میں کمی آ سکتی ہے ،نہ ہی انسان کو مرتے وقت دلی سکون مل سکتا ہے اور نہ ہی مرتے وقت کی بے چینی دور ہو سکتی ہے۔ یہ ہے وہ مقصد جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے یہ سلسلہ قائم فرمایا اور ہمیں اس میں شامل ہونے کی توفیق دی اور جس کے لئے آپ نے بیعت لی اور بیعت کرنے والوں پر اس مقصد کو واضح فرمایا۔ اگر اس مقصد کے حصول کے لئے ہم کوشش نہیںکر رہے تو ہمارے بیعت کے دعوے صرف دعوے ہیں اور حقیقت میں نہ ہی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہچانا ہے، نہ ہی آپ کو مانا ہے، نہ ہی ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔

شروع میں جب جلسوں کا آغاز ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب یہ پتہ چلا کہ جلسے کے مقصد کو لوگ پورا نہیں کر رہے تو آپ نے بڑی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس سال مَیں جلسہ کا انعقاد نہیں کروں گا اور اُس سال جلسہ منعقد نہیں ہوا۔ اور اس کے ملتوی کرنے کا جو اعلان آپ نے فرمایا وہ ایسا ہے کہ ہر مخلص کو آج بھی بے چین کرنے والا ہے اور بے چین کرنے والا ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ’’ اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمّا ت کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘ (شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)
پھر فرمایا ’’یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ مخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحتِ نیّت اور حُسنِ ثمرات پر موقوف ہے، ورنہ بغیر اس کے ہیچ۔(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395) اگر نیت صحیح نہیں اور اچھے پھل نہیں حاصل ہو رہے۔ وہ مقصد حاصل نہیں ہو رہا جس کے لئے جلسہ منعقد کیا گیا ہے تو پھر بالکل ہیچ ہے،اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

یہ جو آپ نے فرمایا کہ بار بار کی ملاقاتوں سے ایسی تبدیلی پیدا کریں۔ یہ کس کی ملاقاتیں ہیں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ملاقاتیں ہیں۔ پس اگر ایسے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں اپنی کچھ کمزوریوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناراضگی کا مورد بنے تو آجکل تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے ہم کتنے ہیں اور ہماری کیا حالت ہے جو اس زُمرہ میں آتے ہیں۔ ان لوگوں میں آتے ہیں جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ پس اس لحاظ سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اگر وہ معیار نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام چاہتے ہیں تو پھر ہم جلسہ میں شامل ہونے کے حق دار بھی نہیں ہیں۔ یا یہ دیکھیں کہ ہم حق دار ہیں بھی کہ نہیں؟ یا صرف اس لئے کہ پیدائشی احمدی ہیں یا پرانے احمدی ہو گئے، کئی سالوں سے بیعت کر کے یا بزرگ آباؤ اجداد کی اولاد ہیں اس لئے شامل ہو رہے ہیں تو پھر وہ مقصد پورا نہیں کر رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ یا اس نیت سے نہیں آئے کہ ہم نے یہ مقصد حاصل کرنے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کوشش کرنی ہے یا کرتے رہے ہیں یا کر رہے ہیں تو پھر اگر یہ نہیں تو پھر جلسوں پر آنا ایک میلے پر آنا ہی ہے۔ پس اس بات سے ہر مخلص احمدی کے دل میں ایک فکر پیدا ہونی چاہئے۔ اب تو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک کے جلسے ہوتے ہیں بعض میں مَیں شامل ہوتا ہوں۔ بعض پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شرکت ہو جاتی ہے۔ یورپ کے بعض جلسوں میں آپ میں سے بہت سے شامل ہوتے ہیں ۔اس وقت بھی میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جو کئی جلسوں میں شامل ہوئے۔ یُوکے کے جلسہ کے بعد جرمنی کے جلسہ میں بہت سے شامل ہو کر آئے ہیں اور ہر جلسہ پر جلسہ کے مقاصد اور دینی علمی اور روحانی ترقی کی باتیں ہوتی ہیں اور تقاریر ہوتی ہیں اور بہت سےلوگ مجھے لکھتے ہیںکہ ایک خاص ماحول تھا اس میں روحانیت کے نظارے ہم نے دیکھے۔آپس میں بہت پیار اور بھائی چارے کے نظارے ہم نے دیکھے۔لوگ یہ بھی لکھتے ہیںکہ ہمارے ساتھ بعض مہمان گئے ہوئے تھے وہ بھی یہ ماحول دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے ۔ پس ان باتوں کی وجہ سے اور ایک سال میں ایک سے زیادہ جلسوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ایک انقلاب ہماری حالتوں میں آ جانا چاہئے۔ کہاں تو وہ زمانہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ سال میں ایک دفعہ جلسہ میں شامل ہوں تا کہ تمہارے اندر ایسی پاک تبدیلی ہو کر سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف ایک خاص توجہ پیدا ہو۔ اور کجا اب یہ حالت ہے کہ بعض لوگ سال میں ایک سے زائد جلسوںمیں شامل ہوتے ہیں ۔ پس جائزہ لیں کہ پھر ایسے حالات میںکیسا انقلاب آ جانا چاہئے۔ بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک ملاقات ہی کئی جلسوں پر بھاری تھی اور آپ سے مل کے ایک انقلاب آ جاتا تھا۔ بہرحال نبی کا ایک مقام ہوتا ہے۔ لیکن اب مسلسل کئی جلسوں کو دیکھنا اور شامل ہونا کچھ تو پاک تبدیلی پیدا کرنے کا باعث ہونا چاہئے۔ باتیں تو اب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی بیان کی جاتی ہیں ۔الفاظ تو آپ علیہ السلام کے ہی بیان کئے جا رہے ہیں اور پھر اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں اور باتیں ہیں جو مختلف تقریروں میں بیان کی جاتی ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔ تو اگر انسان کا ارادہ ہو اور نیک نیت ہو تو پاک تبدیلی کے سامان اب بھی موجود ہیں۔ خلیفہ وقت آپ سے کچھ کہتا ہے تو وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نمائندگی میں ہی کہتا ہے۔ خلافت کے جاری رہنے اور اس کے ساتھ منسلک ہو کر آپ علیہ السلام کی برکات کا تسلسل قائم رہنے کی خوشخبری بھی تو اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی دی تھی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ان برکات کے یعنی خلافت کی برکات کے جاری رہنے کا وعدہ تمہاری نسبت ہے۔ پس اس لحاظ سے آج مَیں اس موقع سے اس مضمون سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایم ٹی اے سننے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔

پاکستان میں جلسوں پر پابندی ہے۔ وہاں کے لوگ اس لحاظ سے محرومی کا شکار ہیں تو ایم ٹی اے پر کم از کم باقاعدگی سے خطبات ہی سنا کریں، دیکھا کریں، جلسے دیکھا کریں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بھی تو ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کچھ حد تک اس محرومی کا مداوا کرنے کے لئے پھر کھول دیا۔ جلسوں کے پروگرام کو ایم ٹی اے پر دیکھ اور سن کر ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو ساٹھ ستر فیصد تو تشنگی دُور ہو سکتی ہے اور اگر چاہیں تو پاک تبدیلی تو پھر سو فیصد پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن آپ لوگ جو اَب یورپ میں آ گئے ہیں آپ کو میں کہتا ہوں کہ آپ تو جلسوں میں شامل ہو رہے ہیں اور بعض سال میں ایک سے زیادہ جلسوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہاں آنے والے احمدیوں کو تو جیسا کہ مَیں نے کہا ایک انقلاب اپنی حالتوں میں پیدا کر لینا چاہئے۔ یہ ٹریننگ کیمپ جو اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے اس میں آنے کا فائدہ تو تبھی ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات کے مطابق دنیا کو اپنا خادم بنا کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے والے بنیں۔ یہاں آ کر جلسہ کی کارروائی کو غور سے سنیں اور اس نیت سے سنیں کہ ہم نے ان باتوں پر عمل کرنا ہے تا کہ اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کر سکیں۔

جلسہ کی کارروائی کو غور سے سننے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ’’ سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئےاور پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے۔‘‘ یہ فقرہ جو آپ نے فرمایا ’’یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے‘‘ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ معمولی فقرہ نہیں، غورکرنے والا فقرہ ہے کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے۔ ’’اس میں سستی اور غفلت اور عدم توجہ بہت برے نتیجے پیدا کرتی ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے تو غور سے اس کو نہیں سنتےہیں ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں۔ دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑے غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا ہے وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 142-143۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس آپ نے یہ ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی جو جلسہ میں رہتے ہوئے ،جلسہ میں شامل ہونے کے باوجود جلسہ سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ نعرہ تکبیر تو بڑے زور سے لگاتے ہیں ،بڑا بلند کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا یہ اعلان اور نعرہ چند لمحوں کے بعد ہی دل و دماغ سے غائب ہو جاتا ہے۔ پس ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کہیں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن کو جلسہ کوئی فائدہ نہیں دے رہا۔

پس جب یہاں جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں تو ہر شامل ہونے والا جلسہ کی تمام کارروائی میں شامل ہو ۔صبر اور تحمل سے بیٹھے اور تمام تقاریر سنے اور جو باتیں بیان ہوئی ہوں ان سے علمی اور عملی فائدہ حاصل کرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تقاریر سننے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں۔ مَیں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اُس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ مَیں اس بات پر راضی نہیں ہوتا‘‘۔ صرف مقرر کی جو تقریر ہے، لسّانی ہے اس پر میں راضی نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ ’’میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلّف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کاہی یہی اقتضا ہے‘‘۔ ’’یہی میری طبیعت چاہتی ہے’’ کہ جو کام ہو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو‘‘۔

(ماخوذازملفوظات جلد 1 صفحہ 398-399۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

مسلمانوں میں ادبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لَسّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اور تقریریں کرتے، شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کاکچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزّل ہی کی طرف جاتی ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے‘‘۔(ماخوذ ازملفوظات جلد 1 صفحہ 401۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اخلاص نہیں ہے صرف ظاہری باتیں ہیں مقرروں کی تقریروں کی لسّانیاں ہیں اور سننے والے صرف حظ اٹھا رہے ہیں ان میں اخلاص نہیں ہے۔

پس یہ ہے آپ کی طبعی پسند ۔یہ ہے آپ کی خواہش اپنے ماننے والوں کے لئے کہ وقتی طور پر تقریروں کے اور مقرر کے جوش سے کوئی متاثر نہ ہو بلکہ نفس مضمون کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ اگر صرف تقریروں کو سننا اور جلسہ گاہ سے باہر آ کر اس کو بھلا دینا ہے تویہ ترقی نہیں بلکہ تنزل کی طرف لے جانے والی باتیں ہیں اور مسلمانوں کی آجکل جو ذلت اور تنزل کی حالت ہے وہ اس لئے ہے کہ بڑے بڑے مقررین کی تقریریں تو سن لیتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے ۔عمل بالکل نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ اور جس قوم میں عمل نہ ہو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی ۔ دنیا میں آج مسلمانوں کی جو حالت ہے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صرف باتیں ہیں اور عمل نہیں۔ اگر عمل ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہم نے مانا ہے تو اس لئے کہ وہ کمزوریاں جو مسلمانوں میں پیدا ہو گئی ہیں ان کو دُور کیا جائے ورنہ بے فائدہ ہے۔ ہم ایک طرف تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لے کر آنا ہے دوسری طرف دنیا ہم پر غالب ہو رہی ہو اور جلسہ اور جلسہ پر آنا بھی صرف اس لئے ہو کہ کچھ دوستوں کو مل لیں گے اور کچھ جلسہ سن لیں گے۔ دوستوں کو ملنا بھی اچھی بات ہے لیکن جلسہ کا یہ ایک ضمنی فائدہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اور ضمنی فائدہ بھی بلا مقصد نہیں ہے بلکہ اس لئے آپ نے فرمایا کہ تعلق اخوّت اور مودّت پیدا ہو۔احمدیوں کا آپس میں بھائی چارہ اور پیار پیدا ہو ۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو اور جماعت کی مضبوطی اور ایک ہونے کا نظارہ ہر جگہ نظر آئے۔

پس یہاں آنے کے اصل مقصد کو اپنے سامنے رکھیں۔ جو جلسہ سننا اور ان باتوں پر عمل کرنا ہے ان کو یہاں سنیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو یہ مقصد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جلسہ کی برکات سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کی برکات سے فائدہ اٹھانے والے ہوں اور اپنے قول اور عمل سے دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانے والے ہوں۔ دنیا ہمیشہ ہر احمدی کے لئے ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہو اور اصل مقصد اور مدّعا دین ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی حقیقت کو جو سمجھ جائے وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا بن جاتا ہے اور اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے والا بن جاتا ہے یا بن سکتا ہے۔ امن ،پیار اور محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے والا بن سکتا ہے اور اس چیز کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ دنیا میں جو افراتفری ہے اس کو اگر دور کرنا ہے تو صرف اسی صورت میں کہ ہم دنیا کو اپنے خدا کو پہچاننے کی طرف لے کر آئیں، مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف لے کر آئیں اورآج یہ ایک احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پس اس لحاظ سے ہر ایک کو توجہ کرنی چاہئے۔

جلسہ کے لحاظ سے بعض انتظامی باتیں بھی کرنی چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ جگہ جو جلسہ کے لئے لی گئی ہے اس کے ماحول میں خیال رکھیں، نہ انتظامیہ کو کوئی تکلیف ہو ،نہ باہر نکلتے ہوئے سڑکوں پر ہمسایوں کو تکلیف ہو۔ اس بات کو بہرحال یقینی بنانا چاہئے۔ غیر مسلموں کو تبھی اسلام کا صحیح پتہ چلے گا جب ان پر یہ اظہار ہو گا کہ احمدی کس طرح ہمسایوں کا بھی خیال رکھنے والے ہیں اور قانون کی پابندی کرنے والے ہیں اور باوجود اتنی تعداد ہونے کے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بن رہے۔ بلکہ جلسہ کی انتظامیہ بھی خاص طور پر اس بات کا خیال رکھے اور انتظامات کرنے چاہئیں۔ گو یہ تعداد بعض ملکوں کے جلسوں کے لحاظ سے تو معمولی ہے بلکہ بعض جگہ جہاں جماعتیں زیادہ ہیں وہاںتو خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی تعداد بھی اس سے زیادہ ہوتی ہےلیکن اس ملک کے لحاظ سے، یہاں کی تعداد کے لحاظ سے، یہاں کی انتظامیہ کے انتظامات کے لحاظ سے یہ اس وقت کافی بڑی تعداد ہے۔ پھر جلسہ کے دنوں میں جو اصل مقصد ہے دعاؤں کا اس کو بھی سامنے رکھیں۔ درود پڑھتے رہیں۔ ذکر الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر کریں۔ نمازوں کے اوقات میں بھی یہاں اگر نمازیںہو رہی ہیں یا مشن ہاؤس میں نمازیں ہو رہی ہیں تو وقت پر آئیں۔ اور دو دن سے خاص طور پر نوٹ کر رہا ہوں کہ لوگ مشن ہاؤس میں لیٹ آتے ہیں اور پھر جلدی جلدی چل کر جب آتے ہیں تو لکڑی کے فرش کی وجہ سے شور پیدا ہوتا ہے، آواز پیدا ہوتی ہے۔ تو پہلے آ کر بیٹھا کریں تا کہ دوسروں کی نمازیں ڈسٹرب نہ ہوں۔ جلسہ کی تقریروں کو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ غور سے سنیں اور اس کے لئے یہ باقاعدہ انتظام رکھیں کہ جلسہ کے وقت میں ہر پروگرام میں شامل ہونا ہے اور تقریریں سننی ہیں۔ اسی طرح پھر آپ اپنے بچوں کی اور اگلی نسلوں کی تربیت کر سکتے ہیں۔ ان میں یہ احساس پیدا کر سکتے ہیں کہ جلسے کی کیا اہمیت ہے اور ہم نے جلسے کی تقریروں کو سننا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی خاص خیال رکھیں۔ جلسوں میں بھی آپس میں بدمزگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کچھ پرانی رنجشیں لوگوں کی چل رہی ہوتی ہیں اور جب اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ ابھر کے سامنے آ جاتی ہیں اس لئے اس ماحول کو اس لحاظ سے بالکل پاک صاف رکھیں۔ کسی بھی قسم کی کوئی ایسی بات نہ ہو جو کسی طرح بھی ایک دوسرے کے لئے دل آزاری کا باعث بنے اور اس کی وجہ سے پھر لوگوں میں بھی غلط تاثر قائم ہو۔ مجھے نہیں پتہ کہ انتظامیہ نے تعداد کو مدّنظر رکھتے ہوئے کھانے وغیرہ کا انتظام کیا ہے کہ نہیں۔ بہرحال کیا ہو گا۔ اگر اس میں کوئی کمی بیشی بھی ہو جائے تو صبر کا نمونہ دکھائیں انشاء اللہ تعالیٰ انتظامات ہو جائیں گے۔ انتظامیہ کو تھوڑا سا وقت بھی دیں۔ ان کے لئے تو یہ میرا خیال ہے کافی سالوں کے بعد پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے لئے انتظامات کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہرحال ہر لحاظ سے جلسہ کو بابرکت فرمائے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا سب لوگ ان جلسے کے دنوں میں دعائیں بھی کرتے رہیں۔ نمازوں کی طرف بھی توجہ رکھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا بھی اللہ تعالیٰ آپ کو وارث بنائے۔

٭…٭…٭

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button