اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(ایک تجزیہ) (قسط نمبر 2 )

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

کیا یہ سنت ِ نبوی کی پیروی ہے؟

4جولائی 2018ءکو اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ نے ایک مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔اس فیصلہ میں پاکستان کے احمدیوں کے خلاف امتیازی سلوک کو مزید سخت بنانے کے لئے بہت سی تجاویز دی گئی ہیں۔یہ فیصلہ172صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ان امور کا ایک تفصیلی تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ تو قانون دان حضرات پیش کریں گے۔ لیکن ہر ذی شعور کو اِن تاریخی امور سے دلچسپی ضرور ہو گی جنہیں اس فیصلہ کی اصل بنیاد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔مضامین کے اس سلسلہ میں ہم ان تاریخی تفاصیل کا تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کر یں گے جو کہ اس عدالتی فیصلہ کی زینت بنے ہیں۔

اس سلسلہ کا ایک مضمون پہلی قسط کے طور پر ـ’ہندوستان کی برطانوی حکومت ، جذبہ جہاد اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ‘ کے نام سے قبل ازیں( گزشتہ شمارہ میں) شائع ہو چکا ہے۔

اس فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلہ کی بنیاد سنت نبوی ﷺ ہے اور اس سلسلہ میں بعض احادیث کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس دعوے کا تجزیہ پیش کریں گے۔

مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی کے واقعات

اسلام آ باد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جو فیصلہ تحریر فرمایا ہے، اس میں احادیث ِ نبویہ ﷺ کا حوالہ دے کر بعض نکات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فیصلہ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلامی حکومت میں کبھی بھی دعویٰ نبوت کو برداشت نہیں کیا گیا اور جب بھی کسی نے کسی قسم کا دعویٰ نبوت کیا اس کو سخت ترین سزا دی گئی ۔

ظاہر ہے کہ جب کسی بھی معاملہ میں اسلامی حکومت کی بات ہو رہی ہو تو زمانہ نبویﷺ کی مثال دینا ضروری ہوگا ۔

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے انہیں کے الفاظ میں درج کیا جائے کہ وہ کیا نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور پھر یہ جائزہ لیا جائے کہ وہ اس نتیجہ کی تائید میں کون سی احادیث پیش کر رہے ہیں۔
اپنے فیصلہ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب تحریر کرتے ہیں:

"The learned Amicus Curiae while relying upon the authority of the Sunnah, a primary source of Islamic law and the guidance for the Ummah for all times to come, has emphasized these principles in a number of traditions. … Two examples in this regard have been cited, one is about the false prophet-hood of Muselma Qazzab and the other is Aswad Ansa. The strict action against both the false claimants is sufficient to establish that there is no room for any false claimant of Prophethood in Islam” (page 16)

ترجمہ: فاضل Amicus Curiae(وہ ماہرین جنہیں کسی مقدمہ میں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرے) نے سنت ِ نبوی ﷺ،جو کہ ہمیشہ کے لئے اسلامی قانون کے لئے بنیادی ماخذ اور اُمّت کے لئے ہمیشہ کے لئے راہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے ، پر انحصار کرتے ہوئے ان اصولوں پر زور دیا ہے۔…اس ضمن میں دو مثالیں دی گئی ہیں۔ ایک تو مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کی ہے اور دوسری مثال اسود عنسی کی ہے ۔ ان دونوں جھوٹے مدعیان کے خلاف جو سخت قدم اُٹھایا گیا اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ اسلام میں کسی جھوٹے مدعی ِ نبوت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

ان الفاظ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ۔ اور جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے اکثریہی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ جب کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ سنو تو کسی دلیل یا بحث کی ضرورت نہیں ہے۔اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ فوراََ اس کے خلاف جہاد شروع کر دیا جائے ۔چنانچہ جب 1974ءکی قومی اسمبلی میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی تو مولوی عبد الحکیم صاحب نے یہی دلیل پیش کر کے اشتعال دلانے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا:

ــ ـ ’’نیز مسیلمہ کذّاب کے علاوہ دوسرے مدعیان ِ نبوت کے ساتھ بھی جہاد کیا گیا ۔اور ہمیشہ کے لئے اہل ِ اسلام کو عملی طور پر یہ تعلیم دی گئی کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے۔‘‘(کارروائی سپیشل کمیٹی قومی اسمبلی پاکستان 1974ء صفحہ 2391)

جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے دلائل میں اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں حضور ﷺ کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اور خود تحریر فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسیلمہ کذّاب اور اَسود عنسی نبوت کا دعویٰ کر چکے تھے۔لیکن اس کے بعد جو حوالے انہوں نے لکھے ہیں وہ خود ان کے پیش کردہ دلائل کو ردّ کر دیتے ہیں۔یقیناََ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا دعویٰ جھوٹا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا۔اس معاملہ میں تو کوئی دو آراء نہیں ہیں اور نہ اس پہلو پر ہم بحث کر رہے ہیں۔اس مرحلہ پر یہ تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں ان دونوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ہم اس سلسلہ میں حوالوں کے ساتھ حقائق پیش کریں گے۔

مسیلمہ نے آنحضرت ﷺ کے دور میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس کے بعد اپنے ساتھیوں کے بعد مدینہ بھی آیا تھا۔صحیح بخاری میں اس بارے میں یہ روایات بیان کی گئی ہیں۔

’’ عبداللہ بن عتبہؓ نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جب مسیلمہ کذاب مدینہ آیاتوبنتِ حارث کے ہاں اس نے قیام کیاکیونکہ بنت ِ حارث بن کریز اس کی بیوی تھی۔یہی عبد اللہ بن عامر کی بھی ماں ہے۔پھر حضور ِ اکرمؐ اس کے ہاں تشریف لائے۔آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس ؓ بھی تھے ۔ثابت وہی ہیں جو رسول ِ کریم ﷺ کے خطیب کے نام سے مشہور تھے۔حضور اکرم ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔آنحضورﷺ اس کے پاس آکر ٹھہرگئےاور اس سے گفتگو کی۔ مسیلمہ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں توآپ ہمارے اور نبوت کے درمیان حائل نہ ہوں اور اپنے بعد ہمیں اسے سونپ دیں ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اگر تم مجھ سے یہ چھڑی مانگو گے تو میں تمہیں یہ بھی نہیں دے سکتا۔میرا خیال ہے کہ تم وہی ہو جو مجھے خواب میں دکھائے گئے تھے۔یہ ثابت بن قیس ہیں جو میری طرف سے تمہاری باتوں کا جواب دیں گے۔‘‘(صحیح بخاری۔کتاب المغازی ۔باب قصۃ الاسود العنسی) یہی روایت صحیح مسلم کتاب الرؤیا میں بھی بیان کی گئی ہے۔

ان روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ کذّاب نے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی دعویٰ نبوت کر دیا تھا ۔اور اسی کیفیت میں وہ مدینہ بھی آیا تھا ۔مگر اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے نہ اس کے قتل کوئی حکم صادر فرمایا تھا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی لشکر روانہ فرمایا تھا اور نہ اس کے خلاف کسی اَور کارروائی کا حکم فرمایا تھا۔

حضرت ابوبکرؓ کے دور میں اس کے خلاف اس وقت فوج روانہ کی گئی تھی جب اس نے خود اعلان ِ بغاوت کر کے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا۔

ظاہر ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل کا دور ہو یا موجودہ دور ہو ، جب بھی کوئی کسی حکومت میں بغاوت کر کے اس کے شہریوں پر حملہ کرے گا، اس ملک کی حکومت اور اس کے شہریوں کے خلاف فوج کشی کرے گا تو حکومت کا فرض ہے کہ اسے سخت ترین سزا دے ۔اس کا مذہب یا دعویٰ نبوت سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اسود عنسی نے یمن کے علاقہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔اُ س وقت یہ علاقہ مسلمانوں کی حکومت کا ایک حصہ تھا اور اس کے مختلف علاقوں میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مختلف عُمّال مقرر تھے۔اسود عنسی کے دعویٰ کے بعد نہ مسلمانوں نے پہلے اُس پر حملہ کیا تھا اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اس کے قتل کا کوئی حکم جاری فرمایا تھا۔ اس سے قبل کہ کوئی ایسا قدم اُٹھایا جاتا اُس نے خود مسلمانوں پر حملہ کر کے خون خرابہ شروع کر دیا تھا ۔ اور ان علاقوں کو جو کہ مسلمانوں کی حکومت میں شامل تھے اپنی حکومت میں شامل کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس نے صنعاء پر حملہ کیا اورصنعاء کے حاکم حضرت شہر بن باذان ؓ اس کے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے اور اسی طرح بہت وسیع علاقہ اس کے قبضہ میں آ گیا۔ اس نے ظلم کرتے ہوئے ان کی بیوی آزاد سے زبردستی شادی کر لی۔اس نے خطوط لکھ کر رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ عمال کو یمن سے نکلنے کا اور سرکاری خزانہ اس کے حوالے کردینے کا مطالبہ کیا۔رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ تقریباََ تمام عمال کو اپنے مقامات سے نکلنا پڑا۔اس صورت ِ حال میں اہل ِ یمن کی ایک بہت بڑی تعداد مرتد ہو کر اسود عنسی پر ایمان لے آئی۔اورتاریخِ طبری کے مطابق کئی مسلمانوں نے جو اپنے دین پر قائم تھے اس سے درخواست کر کے امان حاصل کی۔دعویٰ نبوت کے علاوہ بھی اسود عنسی کی بغاوت اور دیگر کرتوت ایسے تھے کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت کسی بھی زمانہ میں اس کے خلاف فوج کشی سمیت سخت ترین کارروائی کرتی۔کیونکہ اس کا جرم ریاست سے سنگین غداری کا بھی تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسود عنسی کے مقابل پر کوئی لشکر یا فوج روانہ نہیں کی تھی اور نہ آپ ﷺ کی طرف سے معین طور پر اس کی سزائے موت کا کوئی حکم صادر ہوا تھا۔اس وقت ایک لشکر حضرت اُسامہ کی سرکردگی میں شام کی طرف روانہ ہو رہا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس لشکر کو شام بھجوانے کے فیصلہ میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔اور اس کے بجائے آپ نے حضرت دبرؓ کو اَور چند اور صحابہ کوخط دے کر روانہ فرمایا جس میں مسلمانوں کو ارشاد فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے دین پر قائم رہیں اور جنگ اور حیلے سے اسود عنسی کے خلاف کارروائی کریں۔ اس علاقے کے مسلمان مظلومیت کی حالت میں تھے اور انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ انہیں خبر ملی کہ اسود عنسی اور اس کے دو اہم عہدیداروں میں اختلاف ہو گیا ہے۔ اس پر انہوں نے اسود عنسی کے ان ناراض سرداروں سے رابطہ کیا۔اور پھر اسود عنسی کے ان ساتھیوں نے جو دل میں اس سے برگشتہ ہو چکے تھے لیکن اس کے اقتدار کے خوف سے بظاہر اس کی اطاعت کا دم بھرنے پر مجبور تھے ، اسود عنسی کی بیوی سے مل کر اس کے محل میں اس کو قتل کر دیا۔جس شخص نے اسود عنسی کا قتل کیا اس کا نام ’ فیروز‘ تھا اور وہ خود اسود عنسی کے سرداروں میں سے تھا لیکن اس کے سلوک کی وجہ سے اس سے ناراض تھا۔

(تاریخ ِ ابن ِ خلدون جلد دوئم ، اردو ترجمہ از حکیم احمد حسین الہ آبادی ، الفیصل ناشران435۔437)
(تاریخ ِ طبری جلد دوم، اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم ، ناشر دارالاشاعت کراچی،2003ء صفحہ462۔473)
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسیلمہ کذاب اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ آیا لیکن رسول اللہ ﷺنے اس کے خلاف نہ اُس وقت کارروائی کی اور نہ بعد میں کوئی لشکر روانہ فرمایا اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اسود عنسی کے مقابل پر کوئی لشکر روانہ فرمایا تھا۔اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں جو تاریخی حوالے درج فرمائے ہیں، ان میں سے ایک بھی اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان مدعیان ِ نبوت کے خلاف کوئی لشکر روانہ کیا تھا ۔اگرچہ اس وقت اسود عنسی نے مسلمانوں کی حکومت کے ایک وسیع حصہ پر قبضہ کر لیا تھا اور واضح بغاوت کا مرتکب ہو چکا تھا اور مسلمانوں کا پورا حق تھا کہ اس کے خلاف کارروائی کرتے۔

لیکن قرآن ِ کریم کی تعلیم واضح ہے کہ جو شخص جھوٹا دعویٰ نبوت کرے یا جھوٹا دعویٰ ِ وحی کرے خواہ پوری دنیا اس کے ساتھ ہو خدا اس کو خود تباہ کردیتا ہے اور وہ کامیاب نہیں ہو سکتا (سورۃ الحاقہ آیت 45تا 47)۔

حضرت ابو بکر ؓ کے دَور کی جو مثال پیش کی جاتی ہے تو اس ضمن میں یہ حقیقت واضح ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے دور میں بھی مسیلمہ کذاب نے پہلے خود مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کا خون بہایا تھا اور ریاست سے بغاوت کا مرتکب ہوا تھا۔اور یہاں کسی مذہبی عقیدہ یا دعویٰ نبوت کا سوال نہیں ہے ، خواہ آج سے پندرہ سو سال قبل کا دور ہو یا موجودہ دور ہو جب بھی کسی ریاست کے خلاف اس طرح کی بغاوت ہو گی تو اس کے خلاف فوج کشی کی جائے گی۔

یہ فیصلہ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صاحب کو خود اِس دور کے بنیادی تاریخی حقائق کا علم نہیں تھا اور انہیں کسی اور نے یہ مواد لکھ کر دیا ہے اور اس میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر بہت سی غلطیاں شامل ہو گئی ہیں۔مثال کے طور پر اس فیصلہ کے صفحہ 19پر وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اسود عنسی کے خلاف کارروائی کی تھی۔ جیسا کہ ہم تاریخی حوالے درج کر چکے ہیں ، اسود عنسی تو حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے آغاز سے چند روز قبل ہی مارا جا چکا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہونے والی مردم شماری کاذکر

رسول اللہ ﷺ کے مبارک عہد کی دو اور مثالیں دیتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب تفصیلی فیصلہ میں لکھتے ہیں

Even the Holy Prophet (PBUH) after migrating to Madinah conducted the population census so as to ascertain the true numbers of Muslim Males, Females and Children which itself drew a distinction line between the Muslims and non-Muslims. If one sees the Charter of Madinah and the parties to it whether they were Muslims, Persians or infidels every one entered into it with his separate religious identity. (page 22& 23)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے بھی مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آبادی کی مردم شماری کرائی تھی۔ جس میں مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں کی تعداد کا تعین کیا گیا تھا۔ اس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تفریق کی گئی تھی۔ اگر کوئی میثاقِ مدینہ کو دیکھے تو اس میں مسلمان فارسی اور کافر اپنے علیحدہ علیحدہ مذہبی تشخص کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔

یہاں یہ بات قابل ِ غور ہے کہ فیصلہ میں کسی حوالے کی معین عبارت درج کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ اور شاید یہ ان کی مجبوری بھی تھی کیونکہ جن تاریخی روایات کا وہ ذکر کر رہے ہیں، وہ ان کے پیش کردہ نتائج کی تردید کر رہی ہیں۔

سب سے پہلے تو اِس مردم شماری کا ذکر کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کرائی گئی تھی۔ صحیح بخاری کی کتاب الجہاد والسیر کے باب کتابۃ الامام الناس کی حدیث میں اس مردم شماری کا ذکر ہے۔ جب ہم اس حدیث کو پڑھتے ہیں تو ایک بار پھر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جج صاحب نے خود یہ حدیث نہیں پڑھی بلکہ انہیں کہیں سے مواد مہیا کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے یہ فیصلہ تحریر کیا ہے کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث میں عورتوں اور بچوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف مردوں کی تعداد لکھنے کا ذکر ہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس حدیث کا متن ان نظریات کی مکمل تردید کرتا ہے جو کہ اس فیصلہ میں پیش کئے گئے ہیں۔

اس عدالتی فیصلہ میں حکومت پر یہ زور دیا گیا ہے کہ حکومتی ریکارڈ میں کسی کو مسلمان درج کرنے سے قبل اچھی طرح اس کے عقائد کی چھان پھٹک کرنی چاہیے۔ اس سے حلف اُٹھوانا چاہیے۔ اور سرکاری ملازم رکھنے سے قبل تو علماء اور کسی ماہرِ نفسیات سے اس کے عقائد کا خوب تجزیہ کروالینا چاہیے۔اور حکومت کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ سائنسی طریقہ دریافت کرے جس سے احمدیوں کی صحیح تعداد کودریافت کیا جا سکے۔

(ملاحظہ کیجئے عدالتی فیصلہ کا صفحہ نمبر 20و167)

اس کے برعکس جب ہم اس حدیثِ نبوی ﷺ کو پڑھتے ہیں تو اس میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ملتا ہے۔اُکْتُبُوْا لِیْ مَنْ تَلَفَّظَ بِاالْاِسْلَامِ مِنَ النَّاس۔ یعنی لوگوں میں سے جو اسلام کا اقرار کرتا ہے اس کا نام مسلمانوں میں درج کر و۔اس ارشاد ِ نبوی ﷺ میں کہیں یہ ذکر موجود نہیں کہ اس کے عقائد کی چھان بین کرو یا کرید کرید کر اس کے عقائد کی تفاصیل معلوم کرو۔ واضح ارشاد یہ ہے کہ جو اسلام کا اقرار کرتا ہے اس کا نام مسلمانوں میں درج کرو۔

شوکت عزیز صاحب تو تجویز کر رہے ہیں کہ سرکاری ملازمت پر رکھنے سے قبل کسی ماہرِ نفسیات سے بھی عقائد کا تجزیہ کروانا ضروری ہے ۔پھر اسے علماء کے حوالے کرو وہ اس کے عقائد کی چھان بین کریں ۔آخر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی تو عُمّال مقرر ہوتے تھے اور خود رسول اللہ ﷺ مقرر فرماتے تھے۔ کیا کوئی ایک حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ ان عُمَّال کو تقرری سے قبل ان لغو مراحل سے گزارا جاتا ہو؟

میثاق ِ مدینہ کا حوالہ

جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا ہے کہ اس فیصلہ میں مردم شماری کے ذکر کے بعد میثاق مدینہ کا ذکر کیا گیا ہے۔اس بارے میں عدالتی فیصلہ کی عبارت پڑھتے ہوئے ایک بار پھر ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ لکھنے والے نے اصل تاریخی روایات کو خود نہیں پڑھا بلکہ اسے کہیں سے کچھ مواد مہیا کیا گیا ہے ۔ اور اس مہیا کردہ مواد کو عجلت میں اس عدالتی فیصلہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔یہ معاہدہ تو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے مہاجروں ، مدینہ کے انصار کے قبائل اور مدینہ کے یہود کے درمیان ہوا تھا ۔ نہ جانے اس عدالتی فیصلہ میں فارس کے لوگوں کو اس معاہدہ میں کس طرح شریک قرار دے دیا گیا ہے؟ اس کی وضاحت تو پاکستان کی معزز عدالت ہی کر سکتی ہے۔اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس معاہدہ میں ہر کوئی اپنے علیحدہ علیحدہ مذہبی تشخص کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ یقیناََ میثاقِ مدینہ میں مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت دی گئی تھی اور یہ لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کے لئے مسلمانوں کا دین ہے اور یہود کے لئے یہود کا دین ہے۔لیکن اس میثاق میں ایسا کوئی نکتہ موجود نہیں جو کہ اس عدالتی فیصلہ یا کسی قسم کی تنگ نظری کا جواز بن سکے۔بلکہ میثاق ِ مدینہ میں موجود مذہبی روداری کی ایک مثال ملاحظہ کریں ۔اس معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ بنی عوف کے یہود بھی مسلمانوں میں شمار کئے جائیں گے۔ اور پھر لکھا ہے کہ بنی نجار ، بنی حرث، بنی جشم ،بنی ثعلبہ، بنی اوس اور بنی شطنہ کے یہود کے لئے بھی وہی ہے جو کہ بنی عوف کے یہود کے لئے ہے۔

(سیرت ابن ِ ہشام۔اردو ترجمہ از سید یٰسین علی حسنی، ناشر ادارہ اسلامیات مئی 1964صفحہ393تا395)

ہائی کورٹ کے فیصلہ اور سنت نبوی میں تضاد کی ایک مثال

ہم صرف ایک مثال پیش کرتے ہیںکہ اس فیصلہ اور سنت نبوی ﷺ میں کس قدر تضاد موجود ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں اس بات پر بہت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اور تو اور احمدیوں کے نام بھی مسلمانوں جیسے ہیں اور یہ بات دوسری آئینی ترمیم پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔ اور عدالتی فیصلہ میں اس کا حل یہ تجویز کیا گیا ہے۔

"Qadianis should not be allowed to conceal their
identity by having similar names to those of Mulsims, , therefore, they should be either stopped from using name of ordinary muslims or in the alternative Qadiani, Ghulam-e-Mirza or Mirzai must form a partof their names and be mentioned accordingly.” (page 165&166)

ترجمہ: قادیانیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی شناخت کو مسلمانوں جیسے نام رکھ کر پوشیدہ رکھیں ۔ لہٰذا یا تو انہیں عام مسلمانوں جیسے نام رکھنے سے روکا جائے یا متبادل قادیانی ناموں مثال کے طور پر ـ’غلام ِ مرزا‘ یا ’مرزائی‘ کو ان کے ناموں کا حصہ بنا یا جائے۔

عدالتی فیصلہ کا یہ حصہ پڑھ کر کسی دلیل کی بجائے پہلے غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

کیا اس سوچ کا اسلام سے اور رسول اللہﷺ کے اُسوہ حسنہ کوئی دور کا بھی تعلق ہے ؟ اس فیصلہ میں جسٹس شوکت عزیز صاحب تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے سنت ِ رسول ﷺ کی پیروی لازمی ہے۔کیا جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم فرمائی تو اُس وقت کیا کسی بھی گروہ پر کوئی بھی پابندی تھی کہ وہ مسلمانوں جیسے نام نہیں رکھ سکتے؟ اُس دور میں مدینہ کے نمایاں یہود کے چند نام ملاحظہ ہوں۔

1۔عبداللہ2۔کعب3۔سلام 4۔ اسد 5۔ رافع 6۔ مالک 7۔یاسر 8۔خالد9۔نافع10۔زید

سب جانتے ہیں کہ ان ناموں کے صحابہ بھی موجود تھے۔ اور تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مدینہ میں ایسے یہود بھی موجود تھے جو کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے مگر دل سے یہودی تھے۔حوالہ درج کیا جا رہا ہے ۔ہر کوئی اپنی تسلی کر سکتا ہے۔لیکن کیا کوئی ایک بھی واقعہ ایسا پیش کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا ہو کہ اشتباہ ہوتا ہے اس لئے یہود مسلمانوں جیسے نام نہیں رکھ سکتے؟

(سیرت ابن ِ ہشام۔اردو ترجمہ از سید یٰسین علی حسنی، ناشر ادارہ اسلامیات مئی 1964صفحہ393تا395)

ان نظریات کا تعلق کس ؕسے ہے؟

یہ تو ثابت ہوگیا کہ ان خیالات کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ۔

پھر ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ان نظریات کا خمیر آخر کہاں سے اُٹھا ہے؟ تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے؟ کہ ایسا کب ہوا کہ لوگوں کے نام حتیٰ کہ ان کے خاندانی نام(Surname)بھی زبردستی تبدیل کیے گئے ہوں۔

جب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس قسم کے واقعات ہمیں کیتھولک چرچ کے زیر ِسرپرستی چلنے والی Spanish Inquisition میں ملتے ہیں ۔ جب غرناطہ اور ویلنسیا کے مظلوم مسلمانوں کے مذہب کو زبردستی تبدیل کرنا اور ان کی مساجد پر قبضہ کرکے چرچوں میں تبدیل کرنے کو کافی نہیں سمجھا گیا تھا۔اور انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے نام بھی تبدیل کریں۔اس منحوس تحریک کا نقطہ آغاز یہ تھا کہ Pope Clement VIIنے بادشاہ کو اجازت دی تھی کہ اس کے لئے جائز ہے کہ وہ مسلمانوں سے کئے گئے تمام معاہدے توڑ دے۔اس کے بھی حوالے درج کئے جا رہے ہیں۔

(Muslims of Medieval Latin Christendom, c.1050–1614 ,By Brian A. Catlos, Published by Cambridge University Press.p 224-227)
(The Spanish Inquisition, 1478-1614 edited by Lu Ann Homza, Published by Hacket Publishing Company 2006,p 239)

اس عدالتی فیصلہ میں صرف ناموں کی تبدیلی تک بس نہیں کی گئی۔جب سوچ تنگ نظری کی ڈھلوان پر پھسلنا شروع ہو جائے تو پھر پستیوں کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔اس فیصلہ میں اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ احمدیوں کا لباس بھی مسلمانوں جیسا ہے۔جیسا کہ تفصیلی فیصلہ میں لکھا ہے:

"Most of the minorities residing in Pakistan hold a separate identification in reference to their names and identity but according to the constitution one of the minorities do not hold a distinct identification due to their names and
general attire which leads to crisis.” (page 169-170)

ترجمہ: پاکستان میںآباد اکثر اقلیتیں ناموں اور پہچان کے اعتبار سے علیحدہ حیثیت رکھتی ہیں مگر آئین کے مطابق ایک اقلیت ایسی جو ناموں اور عمومی لباس کے اعتبار سے کوئی مخصوص پہچان نہیں رکھتی اور اس وجہ سے بحران پیدا ہو رہا ہے۔

اس حصہ پر کسی خاص تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ہر شخص پڑھ کر خود ہی اپنی رائے قائم کر سکتا ہے۔لیکن یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی گزشتہ چند سالوں میں دہشتگردی سے مارے گئے۔ملک قرضوں کی دلدل میں ڈوب گیا۔بین الاقوامی سطح پر تنہا رہ گیا۔ سب اعتراف کر رہے ہیں کہ اندرونی اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ خود جج صاحب اپنی تقریر میں اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کے ادارے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ان سب باتوں سے بحران پیدا نہیں ہوا !؟اور فکر ہے تو اس چیز کی کہ احمدیوں کا لباس عمومی طور پر مسلمانوں جیسا ہے۔

زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں ۔ ہم نے تو جب بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی تصویر دیکھی ہے وہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس نظر آئے ہیں۔ اس طرح تو کوئی بھی انگریز، امریکی یا یوروپی اعتراض کر سکتا ہے کہ انہوں نے ہمارے جیسا لباس کیوں پہنا ہوا ہے؟ لاکھوں مسلمان برطانیہ یوروپ اور امریکہ میں آباد ہیں۔ کیا وہ پسند کریں گے کہ وہاں کے مقامی باشندے یہ مطالبہ کریں کہ یہ ہمارے جیسا لباس کیوں پہنتے ہیں؟ان کی علیحدہ پہچان ہونی چاہیے۔ ان کا لباس مختلف ہونا چاہیے۔

اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے کی خواہش ہے تو آپ ﷺ کا اُسوہ حسنہ اس حدیث سے ظاہر ہے۔حضرت فرات بن حیان ؓ سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ سے قبل مسلمانوں کے دشمن ابو سفیان کے لئے جاسوس کا کام کر رہے تھے ۔ جب وہ پکڑے گئے اور ان کی سزائے موت کا حکم جاری ہوا تو انہوں نے انصار کے ایک گروہ کے سامنے کہا کہ میں مسلمان ہوں ۔ انصار نے اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی قسم کا اعتبار کر کے ہم انہیں ان کی قسم کے حوالے کرتے ہیں۔ اور ان میں سے فرات بن حیان بھی ہیں۔ اور آپ کو رہا کر دیا گیا۔

(مسند احمد بن حنبلؒ ۔اردو ترجمہ از محمد ظفر اقبال ۔ ناشر مکتبہ رحمانیہ جلد8ص309)

توجہ فرمائیں کہ یہ حالت ِ جنگ کا واقعہ ہے۔ ایک شخص دشمن کی جاسوسی کرتا ہوا پکڑا جاتا ہے۔اور اس کے ایک جملہ پر کہ میں مسلمان ہوں اسے رہا کر دیا جاتا ہے۔ کیا کوئی تحقیقات کی گئیں ؟یا اس سے اس کے عقائد کی تفصیلات کرید کرید کر اس کے مسلم یا غیرمسلم ہونے کا فیصلہ کیا گیا ؟ یا اسے علماء کے حوالے کیا گیا کہ اس کے ایمان کا فیصلہ کریں ؟ ظاہر ہے ایسا نہیں کیا گیا۔سنت ِ نبوی ﷺ تو یہ ہے۔

البتہ تاریخ میں ایک اور مثال بھی پائی جاتی ہے ۔ جب وسیع پیمانہ پر لوگوں کے عقائد کی تحقیقات کی گئی تھیں ۔ جب علاقہ کے لوگوں سے گواہیاں جمع کی جاتی تھیں کہ فلاں شخص کے عقائد اور اعمال کیا ہیں۔ پھر ماہرین اس پر خوب جرح کرتے تھے کہ کیا وہ راسخ العقیدہ ہے کہ نہیں ہے۔ اسے گرفتار کر کے اسے اذیت بھی دی جاتی تھی تاکہ اس کے عقائد معلوم کئے جا سکیں ۔ لیکن اس عمل کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ایسا Spanish Inquisitionمیں کیا گیا تھا۔

(جاری ہے۔ باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button