اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہمتفرق مضامین

ہندوستان کی برطانوی حکومت ،جذبہ جہاد اوراسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

پس منظر

جب کوئی قوم دانستہ طور پراپنی منزل کھو کر تنگ نظری کی بند گلی میں جا نکلے تو پھر اللہ کا کوئی خاص فضل ہی اسے اس بند گلی سے نجات دلا سکتا ہے ورنہ ان بھول بھلیوں سے نکلنے کی ایک بعد دوسری کوشش ناکام ہوتی جاتی ہے۔ یہی حال اس دَور میں پاکستان کا ہے۔پہلے 1974ءمیں آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اور ظاہر ہے کہ احمدیوں نے اس عجیب الخلقت فیصلہ کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ پھر جنرل ضیاء صاحب کے دور میں انتخابی قوانین میں ترمیم کر کے جداگانہ انتخابات کو متعارف کرایا گیا۔ یعنی ہر مذہب سے وابستہ افراد اپنے نمائندے علیحدہ منتخب کریں ۔اور اس کا سب سے بڑا نشانہ احمدی تھے ۔اور احمدیوں نے اس انتخابی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا کیونکہ اُن کے نزدیک اسلام کے علاوہ احمدیوں کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ پھر 2002ء میں جداگانہ انتخابات کو ترک کر کے ایک بار پھر Joint Electorateکو نافذ کیا گیا۔ لیکن جب مولویوں نے فساد برپا کیا تو ایک اور ‘بوالعجبی ‘ یہ دکھائی گئی کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ باقی فرقوں کے مسلمانوں ، ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں وغیرہ کی ایک مشترکہ انتخابی فہرست بنے گی اور احمدیوں کی علیحدہ ووٹر لسٹ بنے گی۔انتخابی قوانین میں یہ قوانین 7Bاور7Cکی شقوں میں شامل کئے گئے تھے ۔ ظاہر ہے کہ احمدیوں نے ان قوانین کے تحت بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا۔جب 2017ءمیں نئے انتخابی قوانین بنائے گئے اور پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے تو ان قوانین میں 7Aاور7Bکی شقیں شامل نہیں تھیں اور انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کے لئے جہاں پر ختم نبوت کا حلف نامہ دیا گیا تھا وہاں’’I solemnly swear‘‘ کی جگہ’’I believe‘‘کے الفاظ شامل کئے گئے تھے۔ قوانین منظور ہو گئے ۔ بعد میں اس بابت سوال اْٹھایا گیا اور فساد کرنے کی دھمکی دی گئی تو مذکورہ قوانین ایک بار پھر انتخابی قوانین کا حصہ بنا دیئے گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں اور مقدمہ کی کارروائی

جماعت احمدیہ کے مخالفین کے مطالبات تو پورے کر دیئے گئے لیکن بہت سے سیاسی بالشتیے اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کرنے کے لئے ایسے مواقع کے منتظر ہوتے ہیں۔ چنانچہ ملک میں فسادات برپا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔دھرنا دے کر لوگوں کا جینا دوبھر کیا گیا۔اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں کچھ اشخاص کی طرف سے پیٹیشن (petition)درج کرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔اس قسم کی پیٹیشن درج کرانے والوں میں جماعت ِ احمدیہ کے پرانے مخالف مولوی اللہ وسایا صاحب ، یونس قریشی صاحب اور تحریک لبیک یا رسول اللہ وغیرہ شامل تھے۔ اور وفاق ِ پاکستان کو بواسطہ سیکرٹری قانون و انصاف ، اور حکومت ِ پاکستان کو بواسطہ وزیر ِ اعظم پاکستان مدعا علیہ بنایا گیا تھا۔پیٹیشن دائر کرنے والوں کی درخواست تھی کہ انتخابات کے قوانین میں کی جانے والی مذکورہ تبدیلیوں کو ختم کیا جائے ۔(اور اس فیصلہ کے سنائے جانے سے قبل پارلیمنٹ نے ان ترامیم کو ختم کر بھی دیا تھا۔) اور حکومت کو ہدایت کی جائے کہ جو احمدی سرکاری ملازمت میں داخل ہوں اْن کی علیحدہ لسٹیں رکھی جائیں تاکہ ان احمدیوں کو حساس عہدوں پر نہ لگایا جائے ۔اس بات کی تحقیقات کرائی جائیں کہ ان ترامیم کی پشت پر کون سے ہاتھ کارفرما تھے اور اس ضمن میں راجہ ظفر الحق صاحب نے جو تحقیقات کی تھیں وہ شائع کی جائیں۔فیڈرل حکومت کی ملازمت میں جو احمدی اس وقت کام کر رہے ہیں ان کی لسٹیں ان کے عُہدوں سمیت سامنے لائی جائیں ۔انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کا پرانا حلف نامہ بحال کیا جائے۔اُن NGOsپر پابندی لگائی جائے جو کہ ملک میں سیکولر پروپیگنڈہ کر رہی ہیں۔یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب پر مشتمل ایک رکنی بنچ سن رہا تھا۔جب اس مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھ رہی تھی تو اس بارے میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ کس قسم کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

4جولائی کو تفصیلی فیصلہ سامنے آیا ۔ اس عدالتی فیصلہ کی بعض شقیں ملاحظہ ہوں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ کے فیصلہ میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اگرچہ 1974ءمیں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا لیکن اس ترمیم پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ قادیانی اس پر عملدرآمد کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔جج صاحب نے مزید انکشاف کیا کہ قادیانیوں کا معاملہ باقی اقلیتوں کی طرح کا نہیں ہے کیونکہ باقی اقلیتیں تو اپنے نام، وضع قطع ، عقائد اور طریقہ عبادت کی وجہ سے صاف پہچانی جاتی ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ قادیانیوں کے نام ،شکل صورت حتیٰ کہ نماز کا طریقہ بھی مسلمانوں جیسا ہے اس لئے انہیں مسلمانوں سے فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے اور اس وجہ سے دوسری آئینی ترمیم کے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔اس کی معین مثال دیتے ہوئے جج صاحب نے تحریر فرمایا کہ نام ‘’احمد‘ ‘ کچھ احمدیوں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے اور اسی وجہ سے بعض مرتبہ قادیانیوں کو ‘احمدی ‘ بھی کہا جاتا ہے۔اور اس کی اجازت تو کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔کیونکہ یہ تو آنحضرت صلی اللہ و سلم کا نام ہے۔اس لئے اگر اس ‘مخلوق ‘ کو کوئی نام دینے کا احسان کرنا ہی ہے تو انہیں ‘غلام ِ مرزا ‘ یا ‘مرزائی ‘کہہ دیا کرو۔اور رہا ان کے ذاتی ناموں کا بکھیڑا تو ایسا کرو یا تو انہیں مسلمانوں جیسے ناموں کو استعمال کرنے سے روکو یا اگر اس کی توفیق نہیں تو کم از کم ان کے نام کے ساتھ ‘غلام مرزا ‘ یا ‘مرزائی ‘ جیسے سابقے اور لاحقے لگا کر وطن عزیز کو اشتباہ کی اس وبا سے نجات دلانا مناسب ہوگا۔ اس کے علاوہ عدالتی فیصلہ میں کچھ اعداد و شمار درج کر کے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آخر حکومت ایسا کوئی ‘ سائنسی طریقہ ‘ کیوں نہیں ڈھونڈتی کہ پاکستان میں باقی ماندہ اقلیتوں کی صحیح صحیح تعداد معلوم ہوجائے۔اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا تو اس اقلیت کے افراد ‘حساس ‘ عہدوں پر براجمان رہیں گے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوگی۔اس ملک کے ہر شہری کا یہ حق ہے کہ اسے علم ہو کہ اس ملک کے ‘حساس ‘ عہدوں پر مقرر اشخاص کے عقیدے آخر کیا ہیں؟ اس ملک کی اکثر اقلیتوں کی تو کوئی نہ کوئی علیحدہ پہچان ہے لیکن ایک اقلیت ایسی ہے جسے نام اور لباس کے معائنے سے پہچاننا دوبھر ہو رہا ہے۔اگر اس کا کوئی انتظام نہ کیا گیا تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ باوقار اور حساس عہدوں پر فائز ہو کر فائدہ اٹھا لیں۔چنانچہ بہت ضروری ہے کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ بناتے ہوئے اور نادرا میں اندراج کرواتے ہوئے عقائد کا ‘ بیان ِ حلفی ‘ بھروایا جائے۔

مسئلہ کا تاریخی پس منظر

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جناب جسٹس شوکت عزیز صاحب نے احمدیوں کے بارے میں جو تفصیلی فیصلہ تحریر فرمایا ہے، اس کی ضخامت 172صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں فیصلہ کا حصہ تو تھوڑا ہے لیکن طویل تاریخی پس منظر بیان کر کے اس فیصلہ کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں بہت سے تاریخی واقعات کا تجزیہ کرنے اور ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح جماعت ِ احمدیہ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ یوں تو فیصلہ میں بیان کردہ تمام تاریخی نکات قابل ِ توجہ ہیں لیکن اس مضمون میں ان نکات میں سے صرف ایک پر تبصرہ کیا جائے گا۔

اس فیصلہ میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے اشد مخالف اور شریعت کورٹ کے سابق جج ڈاکٹر محمود اے غازی صاحب کی ایک تحریر درج کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے 1857ءکی جنگ کے بعد ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت کو مسلمانوں میں موجود جذبہ جہاد کی بہت فکر تھی اور اس جذبہ کو دبانے کے لئے انہوں نے ایک pseudo-religiousلیڈر کو کھڑا کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہ جہاد کے خلاف فتاویٰ دے اور غازی صاحب کے مطابق یہ لیڈر جماعت ِ احمدیہ کے بانی تھے ۔ اور اس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو جہاد سے دور کرنے کی سازش پر عمل شروع ہوا(صفحہ 40-42)۔

اسی طرح اسلام آبا د ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں مودودی صاحب اور شورش کاشمیری صاحب کی تحریریں درج کرنے کے علاوہ بشیر احمد کی کتاب Ahmadiyya Movementکے حوالے دے کر یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل میں جماعت ِ احمدیہ کو ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے کھڑا کیا تھا تا کہ وہ مسلمانوں میں جہاد کے خلاف پرپیگنڈا کر کے مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو ختم کریں ، مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوائیں ، ورنہ برطانوی حکومت کو ہر وقت یہ خطرہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان ان کے خلاف کسی وقت بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔(صفحہ 47و53 )

یہ الزام پہلی مرتبہ نہیں لگایا گیابلکہ جب سے ہندوستان سے برطانوی حکومت رخصت ہوئی ہے جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین یہی الزام لگا رہے ہیں کہ جماعت ِ احمدیہ کو انگریز حکومت نے مسلمانوں میں جذبہ جہاد ختم کرنے کے لئے قائم کیا تھا۔ ہم اس الزام کو پرکھنے کے لئے ٹھوس تاریخی حقائق سامنے رکھیں گے جن کو پڑھ کر ہر شخص اس معاملہ میں آزادانہ رائے قائم کر سکتا ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ عدالتی فیصلہ میں صرف جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین کی تحریروں کو تاریخی ماخذ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ان میں سے کسی کو کسی طرح بھی معتبر تاریخی ماخذ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ان کتب میں دلائل کی بجائے محض غیظ و غضب کے اظہار کو ہی کافی سمجھا گیا ہے۔لیکن ہم جو بھی تبصرہ پیش کریں گے اس کی تائید میں قابل اعتبار حوالے پیش کریں گے۔

1857ءکی جنگ کے بارے میں اصل حقائق

اسلام آبا د ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں تاریخی واقعات کا جو تفصیلی مگر بے ربط اور خلاف ِ واقعہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے اس کا نقطہ آغاز 1857ءکی جنگ کو بنایا گیا ہے۔ مناسب ہو گا اُس دَور کے کچھ مسلمانوں کی تحریروں کے حوالے درج کریئے جا ئیں تاکہ یہ واضح ہو کہ اُس دَور کے مسلمان1857 ءکی جنگ کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے ؟ اس سے ہم سمجھ سکیں گے کہ مسلمانوں میں اس جنگ کا جو ردِ عمل پیدا ہوا وہ کیوں ہوا؟

اس فیصلہ کے صفحہ 40پر غازی صاحب کی تحریر درج ہے جس میں لکھا ہے کہ1857ءکی جنگ میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے مغلیہ سلطنت پر قبضہ کر لیا اور یہ مسلمانوں کے لئے بہت بڑا المیہ تھا۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ غازی صاحب کو اس بارے میں بنیادی حقائق کا علم نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے قبل ہی دہلی اور اس کے گردو نواح کاتمام علاقہ انگریزوں کے قبضہ میں آ چکا تھا اور یہ قبضہ خود مسلمان بادشاہ کی درخواست پر کیا گیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے دادا شاہ عالم کو مرہٹوں نے گرفتار کر کے ان کی آنکھیں نکال دی تھیں۔ جب مرہٹوں کو شکست ہوئی تو شاہ عالم نے انگریزوں کو درخواست کی کہ وہ انہیں اپنی پناہ میں لیں ۔ جنرل لیک نے انہیں رہا کر کے ان کا وظیفہ مقرر کیا اور 1857ءکی جنگ سے قبل بہادر شاہ ظفر بھی انگریز حکومت سے پنشن پاتے تھے اور دہلی میں بھی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی تھی۔

(1857ء مجموعہ خواجہ حسن نظامی ناشرسنگ میل پبلی کیشنز، لاہور مطبوعہ 2007 صفحہ 308)

جب نام کا بادشاہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی سے پنشن لیتا تھا تو یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ اس جنگ کو شروع کرنے والے اور اس کو شہر شہر پھیلانے والے اور اس سلسلہ کو آگے بڑھانے والے آخر کون تھے ؟ یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ ہر مقام پر یہ جنگ لڑنے والے وہ سپاہی تھے جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تنخواہ دار تھے ۔وہ اب تک انگریزوں کے سب سے زیادہ وفادار تھے ۔ یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے اپنے ہم وطنوں سے جنگیں لڑیں تھیں۔ بہادر شاہ ظفر کے درباری ظہیر دہلوی کا بیان ہے کہ جب دہلی میں پہلی مرتبہ باغی سپاہی اور انگریز ریزیڈنٹ کا سامنا ہوا تو ان سپاہیوں نے اس وقت بھی انگریز افسر کو یہی کہا:

’’غریب پرور! حضور سچ فرماتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں سرکار نے ہم لوگوں کو اسی طرح پالا اور پرورش کیا ہے۔ سرکار کے حقوق نمک ہم نہیں بھولیں گےمگر ہم لوگوں نے آج تک سرکار کی کوئی نمک حرامی نہیں کی۔ جہاں سرکار نے ہمیں جھونک دیا، ہم آنکھیں بند کر کے آگ میں پانی میں کود پڑے۔ کچھ خوف جوکھوں کا نہ کیا۔ سر کٹوانے میں کہیں دریغ نہ کیا۔ کابل پر ہمیں لوگ گئے۔ لاہور ہمیں لوگوں نے فتح کیا۔ کلکتہ سے کابل تک ہمیں لڑے بھڑے، سر کٹوائے، جانیں دیں اور حق نمک ادا کیا۔

(داستان غدر مصنفہ ظہیر دہلوی ناشر سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور سال 2007صفحہ49، 50)

جیسا کہ حوالہ درج ہے یہ گواہی ایک ایسے مسلمان کی ہے جو کہ بہادر شاہ ظفر کے دربار سے منسلک تھا۔اب یہ دیکھتے ہیں کہ اُس وقت کے مسلمانوں سے اور دہلی کی مقامی آبادی سےاس فوج نے کیا سلوک کیا تھا۔یہی صاحب یعنی ظہیر دہلوی بیان کرتے ہیں:

’’وہ تمام بد پیشہ بدمعاش چوٹے اٹھائی گیرے کرکی بانڈی باز مال مردم خور جو ایسے مواقعات کے منتظر رہتے تھے، گھروں سے نکل نکل کر آن موجود ہوئے اور ایک جمّ غفیر اور ایک اژدہا کثیر فرقہ باغیہ میں شامل ہو گیا۔ اب ایک سوار ہے پچاس بد پیشہ اس کی اردلی میں دوڑے جاتے ہیں۔ سوار کسی پر دست درازی کرتے ہیں، بدمعاش لوٹ کھسوٹ کرنے لگتے ہیں اور سامان توڑ پھوڑ کر برابر کر دیتے ہیں۔ جو شے آتی ہے، لےبھاگتے ہیں رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ سوارانِ باغیہ قلعہ کے لاہوری دروازے تک جا پہنچے۔ کوئی ان کا سدّ راہ نہ ہوا۔

(داستان غدر مصنفہ ظہیر دہلوی ناشر سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور سال 2007 صفحہ 53)

کیا یہ جنگ جہاد تھی ؟سر سید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:

’’غور کرنا چاہئے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے خراب اور بد رویّہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خواری اور تماش بینی اور ناچ اور چنگ دیکھنے کے اور کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔ بھلا یہ کیونکر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے۔ اس ہنگامہ میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا، ملازمین کو نمک حرامی کرنی، مذہب کے رو سے درست نہ تھی۔ صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کا،مذہب کے بموجب گناہ عظیم تھا پھر کیونکر یہ ہنگامہ غدر جہاد ہو سکتاتھا البتہ چند بد ذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے کو اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمیعت مع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرام زدگیوں میں سے ایک حرام زدگی تھی نہ واقع میں جہاد۔‘‘

(اسباب ِ بغاوت ِ ہند ، مصنفہ سر سید احمد خان صفحہ31تا34)

خود ان واقعات کے مسلمان گواہ مثال کے طور پر عبد الطیف صاحب اور حکیم احسن اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس جنگ کو برپا کرنے والوں نے دہلی کی عورتوں پر حملہ کیا یہاں تک کہ کچھ عورتوں نے ان سے اپنی عزت بچانے کے لئے خودکشیاں کر لیں ۔ بازار کے قریب مساجد میں اذان دینے پر پابندی لگا دی۔اور لوٹ مار برپا کی۔یہ صورت ِ حال دیکھ کر مقامی مولویوں نے ان سپاہیوں کے خلاف جہاد کا اعلان بھی کیا تھا۔

(1857روزنامچے ،معاصر تحریریں ، یاداشتیں مرتبہ محمد اکرام چغتائی ناشر سنگ ِ میل پبلیکیشنز صفحہ199,200,241,159 )

1857ءکے بعد جہاد کے بارے میں فتاویٰ

یہ تو اْس جہاد کا مختصر احوال ہے جو کہ 1857ءکی جنگ کے دوران ہوا ۔اب اِس الزام کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس جنگ کے بعد انگریز حکمرانوں کو اس بات کی بہت پریشانی تھی کہ مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ بڑھ کر ان کے لئے خطرہ نہ بن جائے اور اس جذبہ کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے جماعت ِ احمدیہ کو نعوذباللہ قائم کیا۔
ایک سوال ہمیں پریشان کر رہا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کا قیام تو1889ءمیں ہوا تھا تو کیا 32سال انگریز ہاتھ پر ہاتھ دھر کر مسلمانوں کے ‘جذبہ جہاد ‘ کو پھلتا پھولتا دیکھتے رہے تھے!؟۔

خیر اس مسئلہ کا آسان حل ہے کہ اُس دور کے انگریزوں سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہوں نے کس کو استعمال کیا تھا؟

جب اس دور کی برطانوی حکومت کے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا ہندوستان کے مسلمانوں میں ان کے خلاف جذبہ جہاد پایا جاتا ہے تو ان کے ایک اعلیٰ افسر W W Hunter نے 1871ءمیں ایک رپورٹ مرتب کی جو کہ اسی سال The Indian Mussalman’s کے نام سے شائع کی۔اس کے چند اہم نتائج ملاحظہ ہوں۔
انہوں نے حکومت کو مبارکباد دی کہ مسلمانوں کے گزشتہ چند سالوں میں مختلف فرقوں کے علماء حتیٰ کہ مکّہ کے مفتی ِ اعظم نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کو خلافِ شریعت قرار دے دیا ہے ۔(صفحہ114) حتیٰ کہ ترکی کے خلیفہ ، مصر کے مسلمان حکمران اور دیگر مسلمان بادشاہ بھی جہاد کے قائل گروہوں کے خلاف سرگرم ہیں (صفحہ 115-116)پھر وہ بڑی مسرت سے اپنی حکومت کو اطلاع دیتے ہیں اس ملک میں سب سے بڑا فرقہ سنّیوں کا ہے اور ان کے عمائدین نے بھی کلکتہ میں جمع ہو کر یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ انگریزوں کے خلاف جہاد جائز نہیں۔(صفحہ 120-121 ) پھر وہ لکھتے ہیں کہ شمالی ہندوستان کے علماء نے بھی زور دار فتویٰ دیا ہے کہ عیسائی تو مسلمانوں کی حفاظت کر رہے ہیں ان کے خلاف جہاد خلافِ شریعت ہے۔(صفحہ218 ) اور شیعوں کے متعلق وہ تفصیل سے لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک تو جب تک امام ظاہر نہ ہو جہاد گناہ ہے۔(صفحہ 116-118 )مزید تسلی کے لئے وہ مکہ مکرمہ کے حنفی، شافعی اور مالکی مفتیوں کے فتاویٰ درج کرتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جہاد جائز نہیں۔ (Appendix1)۔

جب یہ تمام فرقے جماعت ِ احمدیہ کے قیام سے 18سال قبل ہی برطانوی حکومت کی یہ خدمت کر چکے تھے تو یہ مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ انگریزوں نے جذبہ جہاد کو ختم کرنے کے لئے جماعت ِ احمدیہ کو کھڑا کیا تھا۔ اور عقل اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ جو گروہ انگریز حکمرانوں کی اس طرح حمایت کر رہے ہوں ، انگریز حکومت ان کے مقابل پر ایک گروہ کھڑا کرے۔

(The Indian Mussalman’s by WW Hunter, published by Sange Meel,1999)

جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کے نظریات

یہ تو جماعت ِ احمدیہ کے قیام سے قبل کے دَور کا ذکر ہے ۔ اب ہم ان علماء کا ذکر کرتے ہیں جو کہ جماعت ِ احمدیہ کے قیام کے بعد جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش تھے۔ ہم جماعت ِ احمدیہ اور اس کے بانی کے اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریروں سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔جماعت ِ احمدیہ کے قیام سے کچھ برس قبل1883ءمیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ میں یہ اعلان شائع کروایا:

’’ہند کے مسلمانوں میں کوئی دشمن سرکار انگریزی کا نہیں خواہ ان کو کوئی دشمن ان کا بلفظِ وہابی مشہور کرے یا نکرے۔‘‘

( اشاعۃ السنۃ النبویہ جلد6 نمبر6 صفحہ177)

عدالتی فیصلہ میں جماعت ِ احمدیہ کے قیام کے بارے میں محمود غازی صاحب کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:

The linchpin of the whole crusade was the propaganda against Jihad, the belief of which was motivating the Indian Muslims to rise against the British colonialism in India.

ترجمہ:اس ساری کاوش کا محور یہ تھا کہ جہاد کے خلاف پروپگنڈا کیا جائے کیونکہ اس پر ایمان ہندوستان کے مسلمانوں کو برطانوی استعماریت کے خلاف جوش دلا رہا تھا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر خود جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کے مطابق اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ‘سرکار ِ انگریزی ‘ کا دشمن نہیں تھا تو پھر انگریز حکومت کس میں ‘جذبہ جہاد ‘ ختم کرنے کے لئے اتنے پاپڑ بیل رہی تھی؟

اسی فیصلہ کے صفحہ 41پر محمود غازی صاحب کی یہ تحریر درج کی گئی ہےکہ انگریز حکمرانوں کی طرف سے:

‘‘Every possible step to disintegrate, disunite, confuse and to create a defeatist mentality in the local population, more particularly, among the Muslim community was taken.’’

ترجمہ: ہر ممکن قدم اٹھایا گیا تا کہ مقامی آبادی میں انتشار پیدا کیا جائے، ان کے اتحاد میں رخنے ڈالے جائیں ، انہیں الجھنوں میں مبتلا کیا جائے اور ان میں شکست خودردہ ذہنیت پیدا کی جائے۔

یادش بخیر !اس حوالے سے کچھ امور کو یاد کرانا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انگریز ہندوستان پر حکمران تھا ، جماعت ِ احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان یہ اعلان کر رہے تھے کہ انگریز حکمران تو مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کے لئے قابل قدر کوششیں کر رہے ہیں۔چنانچہ1881ءمیں دہلی کے مسلمان علماء نے تجویز کیا کہ اہل حدیث اور حنفی دوسرے فقہ کے پیروکار ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نہ کریں اور ایک دوسرے کی مساجد میں ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھ لیں اور رفع یدین اور آمین بالجہر پر فساد نہ کریں۔ اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالہ میں فخر سے تحریر فرمایا کہ ہم مسٹر یَنگ کمشنر دہلی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے خود کوشش کر کے یہ معاہدہ کرایا ہے اور مسلمانوں کے دینی معاملہ میں ان کی مدد کی ہے۔ اور اس بارے میں مختلف مسالک کے بڑے بڑے علماء میں تحریری معاہدہ ہوا اور ان علماء نے اس معاہدہ پر دستخط کئے اور اپنی مہریں ثبت کیں۔ان میں سے ایک دستخط جماعت ِ احمدیہ کے ایک اور اشدمخالف مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب کے بھی ہیں ۔ اور یہ سب کچھ مسٹر ینگ کمشنر دہلی کے رُوبرو کیا گیا اور انہوں نے بھی اس معاہدہ پر اپنے دستخط کئے۔

(اشاعۃ السنہ نمبر 3 جلد5 صفحہ69تا73)

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اُس وقت انگریز حکومت کا مخالف کون تھا؟ تو یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اُس دور میں جماعت ِ احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی صاحبان یہ اعلان کر رہے تھے کہ انگریز حکومت کے سب سے بڑے مخالف بانی ِ سلسلہ احمدیہ اور ان کی جماعت ہے اور انگریز حکومت کے خیر خواہ وہ علماء ہیں جو کہ جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔چنانچہ 1895ءمیں جبکہ جماعت ِ احمدیہ کے قیام کو صرف چھ برس ہوئے تھے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحبان نے بانی ِ سلسلہ احمدیہ کے بارے میں لکھا :

’’گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے اور گورنمنٹ اور مسلمانوں کے ایڈووکیٹ اشاعۃ السنہ نے گورنمنٹ کو جتا دیا ہوا ہےکہ یہ شخص درپردہ گورنمنٹ کا بد خواہ ہے …وہ اپنے جملہ مخالفین ِ مذہب کے مال و جان کو گورنمنٹ ہو خواہ غیر معصوم نہیں جانتا اور ان کے تلف کرنے کے فکر میں ہے۔ دیر ہے تو صرف جمیعت و شوکت کی دیر ہے۔‘‘

(اشاعۃ السنہ نمبر 5جلد 8صفحہ152)

جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلہ میں تحریر کیا ہے کہ نعوذُ باللہ انگریزوں نے جماعت ِ احمدیہ کو اس لئے کھڑا کیا تھا تا کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کے خلاف جہاد کا خیال نکالا جائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت جماعت ِ احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان یہ عقیدہ ظاہر کر کے انگریز حکمرانوں کو خوش کر رہے تھےکہ جب ان کے عقیدہ کے مطابق امام مہدی آئے گا تو حقیقی طور پر جہاد کا خاتمہ کر دے گا۔چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’ مہدی علیہ السلام کا وقت(جو بعینہٖ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ِ ثانی کا وقت ہے)حکم جہاد کو جو ابتداء بعثتِ نبوی بلکہ اس سے پہلے بھی نبیوں کے وقت سے مستمر چلا آتا تہا اُٹہا دینے کا وقت ہوگا ۔جس کا اُٹہایا جانا خود خاتم المرسلین کے حکم اور پیشگوئی سے ثابت و مسلم اہل ِ اسلام ہو چکا ہے۔‘‘

اشاعۃ السنہ نمبر4 جلد22صفحہ136)

یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ انگریز حکومت نے ان مولوی صاحبان کو جو کہ جماعت ِ احمدیہ کی شدید مخالفت میں پیش پیش تھے انعام و اکرام سے بھی نوازا تھا۔چنانچہ خود مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اقرار کیا تھا کہ انگریز حکومت نے ان کی خدمات سے خوش ہو کر انہیں چار مربعہ زمین عطا کی ہے۔اس وقت ان کا رسالہ بانی ِ سلسلہ احمدیہ کی مخالفت کے لئے وقف تھا۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا تھا کہ اس انعام کے نتیجہ میں ان کے ذاتی اخراجات کا بار رسالہ پر نہیں رہے گا اور لکھا کہ یہ عطیہ الٰہیہ بواسطہ گورنمنٹ ِ عالیہ بانی ِ سلسلہ احمدیہ کو بہت ناگوار گزرا ہے۔

(اشاعۃ السنہ نمبر3 جلد19 صفحہ94و95)

اُس دور میں مسلمان سیاستدانوں اور مسلم لیگ کے نظریات

یہ تو اُ س وقت کے علماء کا ذکر تھا ۔قدرتی طور پر یہ سوال اْٹھتا ہے کہ اُ س دور میں مسلمانوں کے سیاستدان بھی موجود تھے اور مسلمانوں کی سیاسی تنظیمیں بھی کام کر رہی تھیں، کیا یہ سیاسی تنظیمیں انگریز حکومت کے خلاف کسی قسم کی جد و جہد کی ترغیب دلا رہی تھیں ؟ اُس وقت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ ہی تھی۔جیسا کہ ہر تنظیم اپنی ابتدا سے اپنے اغراض و مقاصد کا تعین کرتی ہے تا کہ اس پروگرام کے مطابق کام کر سکے ۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906 ءمیں عمل میں آیا اور اس کے بعد ایک کے بعد دوسری صوبائی مسلم لیگیں وجود میں آتی رہیں۔ اور جب ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا پہلا اجلاس ہوا تو اس اجلاس میں سب سے پہلی قرارداد یہی منظور کی گئی کہ مسلم لیگ کے بننے کا اوّلین مقصد یہ ہے:

’’ مسلمانوں کے درمیان برٹش گورنمنٹ کی نسبت سچی وفاداری کا خیال قائم رکھا جائے اور اس کو بڑھایا جائے۔‘‘

(Foundation of Pakistan Vol 1, compiled by Sharifuddin Pirzada p6)
(A Book of Reading on the history of the Punjab 1799-1947, compiled by Ikram Ali Malik, published by Research Society of Pakistan 1985 p 268)

گویا مسلم لیگ کے قیام کا ایک اہم مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کا وفادار رکھا جائے۔ ان کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنا اس تنظیم کا مقصد نہیں تھا۔ اس پس منظر میں برطانوی حکومت کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ایک علیحدہ فرقہ بنائے جو پادریوں کے خلاف اور ان کے مذہب کے خلاف بھی سرگرم عمل ہو ۔

اور اس اجلاس میں مسلمان عمائدین نے پریس کو یہ اعلامیہ جاری کیا تھا:

“Advantage and every safety of the Muhammedans lay in the loyalty to the Government . So much was their cause bound up with the British Raj that they must be prepared to fight and die for the Government if necessary.”
(Foundation of Pakistan Vol 1, compiled by Sharifuddin Pirzada p 13)

ترجمہ :مسلمانوں کا تما تر فائدہ اور حفاظت گورنمنٹ سے وفاداری سے وابستہ ہے ۔ ان کا مفاد برٹش راج سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو انہیں گورنمنٹ کی خاطر لڑنے اور مرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

اگر تمام مسلمان اپنا مفاد اسی میں سمجھ رہے تھے کہ وہ ضرورت پڑنے پر انگریز گورنمنٹ پر جان بھی نچھاور کر دیں تو عقل اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ انگریز حکومت کو مسلمانوں میں جذبہ جہاد ختم کرنے کے لئے کوئی شعبدہ بازیاں کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو۔

ایک شخصیت ہے جس کی دیانتدارانہ رائے اور خلوص سے سب واقف ہیں اور دشمن بھی اس کی دیانتدارانہ رائے کے معترف رہے ہیں۔ اور یہ شخصیت قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی شخصیت ہے۔ جب پہلی جنگ ِ عظیم اپنے آخری ایام میں داخل ہو چکی تھی ۔ تو اس وقت ایک تقریر میں قائد ِ اعظم نے کہا تھا:

“It may be said once for all that the people of India are proud to be a part of the British Empire and their loyalty is as true and firm as that of any other Britisher in any part of the Empire, not excluding Great Britian and there is no doubt that India will to the end stand faithfully by the British Empire.”
)The Works of Quaide Azam Mohammad Ali Jinnah Vol 3, compiled by Dr. Riaz Ahmad, published by National Institute of Pakistan Studies Quade Azam University Islamabad 1998, p 364(

ترجمہ : ہمیشہ کے لئے یہ کہہ دینا مناسب ہوگا کہ ہندوستان کے لوگوں کو برٹش امپائر کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔اور ان کی وفاداری اتنی ہی سچی اور مضبوط ہے جتنی کسی بھی برطانوی کی جو کہ برطانیہ عظمیٰ سمیت ایمپائر کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان آخر تک وفاداری کے ساتھ برٹش ایمپائر کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button