اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(قسط نمبر 13۔ آخری )

جماعت ِ احمدیہ کے خلاف آرڈیننس میں بعض اصطلاحات پر پابندی

اسلام آبا د ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں تعریفی الفاظ کے ساتھ جنرل ضیاء صاحب کے اس آرڈیننس کا ذکر ہے جو کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جاری کیا گیا تھا۔ اس کے ایک حصہ کا تجزیہ گزشتہ قسط میں پیش کیا جا چکا ہے۔اب ہم اس کے اُس حصہ کا جائزہ لیتے ہیں جو تعزیرات ِ پاکستان میں 298Bکے نام سے موجود ہے ۔ اس کے نمبر 1-aکا متن یہ ہے۔

298B. Misuse of epithets, descriptions and titles, etc., reserved for

holy personages or places

(1)Any person of the Quadiani group or the Lahori group (who call themselves ‘Ahmadis’ or by any other name) who by words, either spoken or written, or by visible representation

(a)refers to, or addresses, any person, other than a Caliph or companion of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) as ‘Ameerul Mumineen’, ‘Khalifa-tui-Mumineen’, ‘Khalifa-tul-Muslimeen’, ‘Sahaabi’ or ‘Razi Allah Anho’

جیسا کہ اس قانون کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اس کا عنوان یہ تھا کہ یہ قانون مقدس ہستیوں کے لئے مخصوص خطابات کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے نافذ کیا جا رہا ہے۔اورپھر لکھا ہے کہ کوئی بھی قادیانی یا لاہوری یا احمدی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلفاء یا آپ کے صحابہ کے علاوہ کسی اور شخص کے لئے امیرالمومنین، خلیفۃ المومنین ، خلیفۃ المسلمین ، صحابی یا رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اور پھر اس قانون کے آخر میں لکھا ہےکہ اسے تین سال تک قید کی سزا اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس قانون کے الفاظ سے ہی ظاہر ہے کہ یہ پابندی صرف احمدیوں کے لئے تھی ۔ سنیوں، شیعہ حضرات، عیسائیوں ، یہودیوں ، سکھوں اور ہندؤوں کے لئے ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔اور اس عجیب الخلقت قانون کے الفاظ ایسے ہیں کہ اگر کوئی احمدی ان اصطلاحات کا استعمال ایسے بزرگان کے لئے کرے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل نہ ہو ں، خواہ یہ بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل ہی گزر چکے ہوں تو بھی اس احمدی پر مقدمہ بنایا جا سکتا ہے ۔اور اس قانون کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ قانون بنانے والوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء یا آپ کے صحابہ کے علاوہ کسی کے لئے امیر المومنین، خلیفۃ المومنین، خلیفۃالمسلمین یا رضی اللہ عنہ کے الفاظ کا استعمال جائز نہیں۔ یہاں صرف یہ ذکر نہیں کہ احمدی یہ اصطلاحات اپنی مقدس ہستیوں کے لئے استعمال نہیں کر سکتے بلکہ یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اگر احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کے خلفاء کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ اصطلاحات استعمال کرے گا تو اسے سزا دی جائے گی۔اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کو بنانے والے تاریخ ِ اسلام کے متعلق بنیادی امور کا علم بھی نہیں رکھتے تھے۔

امیر المومنین کی اصطلاح

سب سے پہلے امیر المومنین کی اصطلاح کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے علاوہ تاریخ ِ اسلام میں شروع سے لے کر اب تک یہ اصطلاح بہت سی شخصیات کے لئے استعمال کی گئی ہے۔بلکہ بہت سے جابر بادشاہوںکو بھی امیر المومنین کہا اور لکھا گیا ہے۔اس کا ثبوت معتبر حوالوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

وہ کون سا پڑھا لکھا شخص ہوگا جو ابن خلدون کے مقدمہ تاریخ سے واقف نہ ہو ۔اس میں امیرالمومنین کی اصطلاح اور استعمال پر قابل ِ قدر تحقیق پر مشتمل ایک باب شامل کیا گیا ہے۔ اس میں ابنِ خلدون تحریر کرتے ہیں کہ خلافت ِ راشدہ کے بعد بنو اُمیّہ کے خلفاء کے لئے امیرالمومنین کا لقب استعمال کیا گیا۔پھر جب بنواُمیّہ کو تخت سے محروم کر کے بنو عبّاس کے حکومت قائم ہوئی اور ابو العبّاس سفاح تخت نشین ہوا تو اسے بھی امیرالمومنین کا لقب دیا گیا حالانکہ اُس کی سفاکی اور خونریزی ضرب المثل تھی۔اور اس کے بعد بنو عباس کے بادشاہ بھی امیرالمومنین کہلاتے رہے۔اسی طرح شیعہ بادشاہوں نے بھی امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا۔جب عباسی سلطنت میں کمزوری شروع ہوئی اور فاطمی دولت قائم ہوئی تو اس کے بادشاہوں کو بھی امیر المومنین کہا گیا۔جب سپین میں بنوامیّہ کی حکومت قائم ہوئی تو عبدالرحمن ثالث اور ان کے بعد ہونے والے بادشاہوں نے بھی امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا۔اور انہیں امیرالمومنین کہا جاتا تھا۔مراکش و اندلس کے بادشاہ یوسف بن تاشفین کو بھی باقاعدہ امیر المومنین کا خطاب دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ بہت سے بادشاہ امیرالمومنین کہلاتے رہے۔

[مقدمہ تاریخ ابن ِ خلدون ، اردو ترجمہ عبد الرحمن دہلوی ، ناشر الفیصل اگست 1993ء ص212تا215]

خود امام ابو حنیفہ نے بادشاہِ وقت کےلئے امیرالمومنین کے الفاظ استعمال کئے۔حالانکہ وہ بادشاہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل نہیں تھا۔ [تذکرۃ الاولیاء مصنفہ شیخ فرید الدین عطار ناشر الحمد پبلیکیشنز 2000ء ص187]

جماعت ِ احمدیہ کے اشد ترین مخالف الیاس برنی صاحب چونکہ حیدر آباد دکن میں مقیم تھے۔ اور کئی مولوی صاحبان کو نظام حیدر آباد سے وظیفہ ملتا تھا یا کم از کم کچھ ملنے کی امید ضرور ہوتی تھی۔ اس لئے انہوں نے جب جماعت ِ احمدیہ کے خلاف اپنی کتاب قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ لکھی تو اس کی تمہید میں نظام دکن کو امیرالمومنین قرار دیا اور جوش میں یہ بھی لکھ گئے کہ حیدر آباد دکن عظمت ِ رسول کا مسکن و مامن بنا ہوا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ! یعنی ان صاحب کے نزدیک نعوذُ باللہ عظمت ِ رسول اگر کہیں محفوظ تھی تو حیدر آباد دکن کی ریاست میں تھی۔جماعت ِ احمدیہ کے ان مخالفین کو یہ بھی علم نہیں کہ عظمت ِ رسول کی محافظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور وہ انعام کے لالچ میں ایک نواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظمت کو امان دینےوالا قرار دے رہے تھے۔ اگر ساری دنیا کی حکومتیں بھی مل کر حملہ آور ہوں تو صرف خدا ہی عظمت ِ رسول کی حفاظت کے لئے کافی ہے۔[ اور یہ وہ ریاست تھی جو انگریز کی مدد کے بغیر اپنی حفاظت خود بھی نہیں کر سکتی تھی] ۔ اور پھر وہ لکھتے ہیں جو یہاں امیر المومنین ہے وہ سب سے بڑھ کر فدائےسید المرسلین ہے ۔سبحان اللہ ۔[قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ ، مصنفہ الیاس برنی ، ناشر عالمی مجلس ِ تحفظ ِ ختم نبوت ملتان جنوری 2001ءص9]

یہ عمل صرف سات آٹھ سو سال تک جاری نہیں رہا تھا بلکہ جب پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد تحریک ِ خلافت چلائی گئی تو اس تحریک کی طرف سے ترکی کے سلطان کو عقیدت سے لبریز خط لکھے گئے ۔ ان میں سلطان عبد الوحید کو دیگر القابات کے علاوہ امیرالمومنین کے لقب سے بھی مخاطب کیا گیا۔

(The Indian Muslims –A Documentary Record 1900-1947 Vol VI, compiled by Shan Muhammad , published by Meenakshi Prakashan Meerut Dehli 1983, p251(

جماعتِ احمدیہ پر تو یہ پابندی لگا دی گئی لیکن مخالفین ِ جماعت کو گزشتہ چند دہائیوں میں ایک کے بعد دوسرا نام نہاد امیرالمومنین دیکھنا پڑا۔ پہلے طالبان کے لیڈر ملا عمرنے امیرالمومنین ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اور پھر داعش (ISIS) کے قائد ابوبکر بغدادی نے خلیفہ ہونے کے ساتھ امیرالمومنین ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا۔دیگر مصروفیات کے علاوہ ہزاروں کے حساب سے مسلمانوں کا خون کرنا ان دونوں صاحبان کا خاص مشغلہ تھا۔پاکستان میں شدت پسندوں کے ایک طبقہ نے پہلے ملا عمر صاحب کو امیر المومنین تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور پھر بغدادی صاحب کو خلیفہ اور امیر المومنین بھی مان لیا۔ بعد میں سٹپٹا کر غور کرتے رہے کہ ایک وقت میں دو امیر المومنین کیسے ہوسکتے ہیں۔ ایک مدرسہ سے یہ توجیہہ پیش کی گئی کہ ملا عمر ہمارے امیرالمومنین اور ابوبکر البغدادی ہمارے خلیفہ ہیں اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ امیرالمومنین ہو سکتے ہیں۔ اس حالت کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ لیکن یہ بات قابل ِ غور ہے کہ جنرل ضیاء صاحب کے آرڈیننس میں یہ پابندی تو لگا دی گئی تھی کہ احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے ِ راشدین کے علاوہ کسی اور کو امیر المومنین نہیں کہہ سکتے ۔لیکن جب پاکستان میں کئی طبقوں نے مُلّاعمر اور ابوبکری بغدادی کو علی الاعلان امیر المومنین تسلیم کیا تو قانون خاموش رہا بلکہ اب تک خاموش ہے۔

(Analysis: Battle for ‘Ameer-ul-Monineen, by Hassan Abdullah, Daily Dawn 6th December 2014(

)https://www.thenews.com.pk/

archive/print/641023-a-setback-for-fazlullah,

-mullah-omar-and-zawahiri accessed on 12 th October 2018(

)https://dailypakistan.com.pk/09-Dec-2014/1

171237 accessed on 12th October 2018(

خلیفۃ المومنین اور خلیفۃ المسلمین کی اصطلاح

اب ہم خلیفۃ المسلمین اور خلیفۃ المومنین کی اصطلاحات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس آرڈیننس میں ان اصطلاحات کا شامل کرنا بذات ِ خود ظاہر کرتا ہے کہ اس آرڈیننس کی عبارت تیار کرنے والے ان اصطلاحات کے بارے میں گہراعلم تو درکنار سطحی علم بھی نہیں رکھتے تھے ۔خلیفہ کا لفظی مطلب ہے جانشین، قائم مقام اور سب سے بڑا بادشاہ [المنجد]۔ عموماََ جماعت ِ احمدیہ میں امام جماعت ِ احمدیہ کے لئے خلیفۃ المسیح کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے خلیفۃ رسول اللہ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔اس آرڈیننس کے مطابق کوئی احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے علاوہ کسی کے لئے خلیفۃ المسلمین یا خلیفۃ المومنین کی اصطلاح نہیں استعمال کر سکتا۔بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی ممانعت ہے کہ خلفائے راشدین کے علاوہ کسی کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیا جائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ِ اسلام میں تمام اُموی بادشاہوں کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا، تمام عباسی بادشاہوں کے لئےخلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ، اور تمام عثمانی بادشاہوں کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا۔ باوجود اس کے کہ خلافت ِ راشدہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ختم ہو گئی تھی ، ابن ِ خلدون اور امام غزالی دونوں کا یہ نظریہ تھا کہ عالم ِ اسلام میں خلیفہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ امام غزالی نے تو لکھا ہے کہ امّت مسلمہ میں خدا نے خلافت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے کھول دیا ہے۔ان حقائق کی موجودگی میں یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کے خلفائے راشدین کے علاوہ کسی کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا ایک بے معنی بات ہے۔

[مقدمہ تاریخ ابن ِ خلدون ، اردو ترجمہ عبد الرحمن دہلوی ، ناشر الفیصل اگست 1993ء ص179]

[مجربات ِ امام غزالی ، اردو ترجمہ از سید حافظ یاسین ، ناشر الفیصل جون 2007ء ص357]

اور اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کے بعد کسی کے بارے میں خلیفہ کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا تو یہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا انکار کرنا ہے۔کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی ۔پھر اللہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا۔پھر ایذاء رساں بادشاہت قائم ہو گی۔پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی جب تک اللہ چاہے گا۔پھر اللہ اسے اُٹھا لے گا ۔ اس کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی ۔پھر آپ خاموش ہوگئے۔[مشکوٰۃ المصابیح باب الانذار والتحذیر]

اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں خلافت قائم ہوگی۔اور ایک بار پھر تحریک ِ خلافت کی مثال دینی ضروری ہے ۔یہ ساری تحریک اس بنیادی نکتہ پر چلی تھی کہ ترکی کے سلطان مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں اور خلیفۃ المسلمین ہیں۔اور جب تحریک ِ خلافت کی طرف سے ان کے نام خط لکھے جاتے تو خلیفۃ رسول اللہ اور امیر المومنین کے الفاظ سے شروع ہوتے۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے بعد کسی کے لئے خلیفۃ المسلمین یا خلیفۃ المومنین کی اصطلاحات جائز نہیں تھیں تو ترکی کے سلطان کے لئے یہ القابات کیوں استعمال کئے گئے؟ اور دوسرا ستم یہ کہ پہلے تو ترکی کے سلطان عبد الوحید کو خلیفہ اور امیرالمومنین قرار دیا گیا اور پھر جب وہ تخت سے محروم ہو گئے تویہی لوگ باقاعدہ انہیں مردود اور مقہورکے نام سے یاد کرنے لگے۔اور کہنے لگے کہ ہندوستان کے مسلمان ان سے شدید نفرت رکھتے ہیں اور اس کی ذمہ داری انہی کے افعال ِ قبیحہ پر عائد ہوتی ہے۔ اور انہوں نے اپنے ذاتی مفادات پر اپنے مذہبی اور قومی مفادات کو قربان کر دیا ہے۔اور فوراََ نئے خلیفہ کے نام نیازمندیوں کے پیغامات بھجوانے شروع کر دیئے۔

[تحریک ِ خلافت مصنفہ ڈاکٹر میم کمال اوکے ، ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار ، سنگ ِ میل پبلیکیشنز 1991ءص180،195،200]

صحابی کی اصطلاح

اب ہم صحابی کی اصطلاح کی طرف آتے ہیں۔ اس آرڈیننس میں یہ ممانعت کی گئی تھی کہ احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کےصحابہ علاوہ کسی اور کے لئے صحابی کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے۔مفردات ِ امام راغب میں اس کا مطلب ہمیشہ رہنے والا ساتھی بیان ہوا ہے۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ صحابی کی جمع اصحاب ہے ۔ اور یہ لفظ قرآن ِ کریم میں مختلف معانی میں بیان ہوا ہے۔اور قبل از اسلام لوگوں کے لئے بھی اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ مثلاََ سورۃ الکہف آیت 9میں اصحٰبُ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اور سورۃ الحج آیت 45میں مدین کے لوگوں کے لئے بھی اصحٰب مدین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لئے مخصوص نہیں ہے۔اور اسلامی لٹریچر میں یہ لفظ دوسروں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر معروف شیعہ کتاب چودہ ستارے میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایک صحابی کے بارے میں لکھا ہے ۔’’ناگاہ ایک صحابی ِ حسین نے تکبیر کہی‘‘[چودہ ستارے مولفہ نجم الحسن کراروی ، ناشر مکتبہ الرضا 2010ءص253] اسی طرح عثمان بن سعید عمری کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ امام علی نقی رحمۃ اللہ علیہ اور امام حسن عسکری کے اصحاب میں سے تھے ۔[ چودہ ستارےمولفہ نجم الحسن کراروی ، ناشر مکتبہ الرضا 2010ءص582]۔یہ تو صرف دو مثالیں ہیں ورنہ شیعہ احباب کے لٹریچر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے لئے بکثرت اصحاب اور صحابی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

رضی اللہ عنہ کی اصطلاح

اب ہم رضی اللہ عنہ کی اصطلاح کا ذکر کرتے ہیں۔ اس آرڈیننس میں اس بات پر پابندی لگائی گئی ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال نہیں کرسکتے ۔ ایک بار پھر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ پابندی صرف احمدیوں پر ہی ہے۔ ورنہ اس قانون کی رو سے عیسائیوں،یہودیوں، ہندووں، سکھوں اور دہریہ احباب پر کوئی پابندی نہیں۔ وہ یہ اصطلاحات جس کے لئے پسند فرمائیں استعمال کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں بار بار اس بات کا ذکر آیا ہے کہ پاکستان کے آئین کی رو سے قرآن ِ کریم اور سنت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ تو مناسب ہوگا کہ اس پابندی کا بھی قرآن ِ کریم کی رو سے جائزہ لیا جائے۔کیا قرآن ِ کریم میں بھی کہیں پر رضی اللہ عنہ کے الفاظ آئے ہیں اور کیا قرآن ِ کریم میں یہ الفاظ صحابہ کے خلاف بھی کسی اور گروہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ ہم چند آیات ِقرآنی پیش کرتے ہیں۔

سورۃ البینہ میں تمام ایمان لانے والوں اور اعمال ِ صالحہ بجا لانے والوں کے لئےرضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ أُوْلٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ (البينة7:). جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِيْنَ فِيْهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهٗ (البينة9:)۔

ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ، یہی ہیںوہ جو بہترین مخلوق ہیں۔ان کی جزا ان کے رب کے پاس ہمیشہ کی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں ۔ وہ ابدالآباد تک ان میں رہنے والے ہوں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوگئے ۔یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا۔

اور سورۃ المائدۃ میں تمام سچے لوگوں کے لئے رضی اللہ عنھم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَالَ اللَّهُ هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِيْنَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِيْنَ فِيْهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

(المائدة: 120)

ترجمہ: اللہ نے کہا کہ یہ وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچانے والا ہے۔ ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ المجادلہ میں فرماتا ہے:

ا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَوْ كَانُوْا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوْبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِيْنَ فِيْهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ أُوْلٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمْ الْمُفْلِحُونَ (المجادلة23:).

ترجمہ:تو کوئی ایسے لوگ نہیں پائے گا جو اللہ اور یوم ِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے ایسے لوگوں سے دوستی کریں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں ، خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں یا ان کے بیٹے ہوں ۔ یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے ہم قبیلہ لوگ ہوں۔یہی وہ (باغیرت) لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ رکھا ہے اور ان کی وہ اپنے امر سے تائید کرتا ہے۔ اور وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ۔ یہی اللہ کا گروہ ہے ۔ خبردار!اللہ ہی کا گروہ جو کامیاب ہونے والے لوگ ہیں۔

تو صورت ِ حال یہ ہے کہ ایک طرف قرآن کریم تو رضی اللہ عنہ کے الفاظ تمام ایمان لانے والوں اور اعمال ِ صالحہ بجا لانے والوں اور تمام سچوں کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔ اور جنرل ضیاء صاحب کا آرڈیننس یہ اعلان کر رہا ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ الفاظ استعمال نہیں کر سکتے۔ اس نامعقول قانون کی رو سے تو اگر کوئی احمدی یہ آیات ِ کریمہ بھی پڑھے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے۔

جب عدالت میں یا عدالت سے باہر جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت کا وقت آتا ہے تو یہ مولوی حضرات کہتے ہیں کہ ہم یہ ظلم برداشت نہیں کر سکتے کہ احمدی رضی اللہ عنہ کی اصطلاح صحابہ کے علاوہ کسی کےلئے استعمال کریں ۔ یہ تو صحابہ کے لئے مخصوص ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اپنے فتاویٰ اس کے خلاف ہیں ۔ ہم مفتی عبد القیوم ہزاروی صاحب کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہیں جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اور اس کا لنک بھی درج کیا جا رہا ہے تاکہ ہرکوئی اس کو پڑھ کر حقیقت جان سکے ۔ اس فتویٰ میں انہوں نے لکھا ہے کہ صحابہ کے علاوہ دوسروں کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ قرآن ِ کریم سے ثابت ہے۔اس تجزیہ کے ساتھ وہ لکھتے ہیں:

’’بعض مسائل شریعت میں کچھ ہوتے ہیں مگر ہم لوگ قرآن و سنت کا مطالعہ نہ کرنے کی بناء پر ان کو کچھ اور ہی بنادیتے ہیں اور اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ نیز اپنی اس روش پر ناز کرتے ہیں اور کوئی دوسرا خلوص نیت سے ہماری غلطی دلیل کے ساتھ واضح بھی کردے تو اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں۔ علماء کہلانے والوں کی یہ روش بڑی تکلیف دہ ہے۔ ’’صلوٰۃ و سلام‘‘ اور ’’ترضّی و ترحّم‘‘ (رضی اللہ عنہ اور رحمۃ اللہ) کہنا بھی ان مسائل میں شامل ہے۔ جن کو نادانی سے اختلافی بنادیا گیا ہے اور صورت حال یہاں تک جاپہنچی ہے کہ علماء کہلانے والے بزرگ اس بناء پر تکفیر و تفسیق تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے اس کا علاج صرف علم کی روشنی ہے۔ علم جوں جوں بڑھے گا، قرآن و سنت کا جوں جوں مطالعہ کرنے کی ہمیں عادت پڑے گی جہالت ختم ہوگی اور اختلاف معدوم ہوجائے گا۔‘‘

پھر وہ لکھتے ہیں:

’’لہٰذا اس پر سرپھٹول اور دنگا فساد، امت میں انتشار و افتراق بہت نامناسب، کم علمی، کوتاہ بینی اور فی سبیل اللہ فساد ہے۔‘‘

)https://www.thefatwa.com/urdu/

questionID/1419/. Accessed on 16.10.2018(

اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا عملی طور پر کبھی کسی ایسے شخص کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی نہ ہو رضی اللہ عنہ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے کہ نہیں؟ اس کے جواب میں اب ہم اسلامی لٹریچر سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں ۔ جن میں ان احباب کے لئے ،جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل نہیں تھے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مناقیب المحبوبین جو کہ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کے ملفوظات پر مشتمل ہے ، اس کے صفحہ4پر خواجہ نور محمد مہاروے کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مقابیس المجالسحضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات پر مشتمل ہے۔ اس کے مقبوس 3 میں خواجہ محمد سلیمان اور خواجہ محمد عاقل کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ [اشارات فریدی ، مقابیس المجالس مرتبہ مولانا رکن الدین صاحب ناشر اسلامک فائونڈیشن لاہور مقبوس 3،11 صفر 1311ء]

اسی طرح مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کئے گئے۔

[سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب و مجموعہ مکتوبات ، باہتمام عبد الوحید و عبدالاحد غزنوی ، ناشر رفاہ ِ عام سٹیم پریس ص24]

اسی طرح جماعت ِ احمدیہ کے مخالف رسالے ضیاء ِ حرم کے نومبر 1994ءکے شمارے میں ایک فتویٰ شائع ہوا کہ کیا غیر صحابہ کو رضی اللہ عنہ کہا جا سکتا ہے؟ اس کو تحریر کرنے والے مفتی جلال الدین احمد امجدی تھے ۔ اس میں بہت سی مثالوں سے ثابت کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے علاوہ دوسروں کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نام پر جو آرڈیننس جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جاری کیا گیا تھا وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا۔ اور اگر یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن ِ کریم اور سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہیں بن سکتا تو سب سے پہلے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بننے والے ان قوانین کو ختم کرنا ضروری ہے۔

اس مضمون کی تیرہ قسطوں میں ہم نے اس فیصلہ کے مختلف حصوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں جماعت ِ احمدیہ کی تاریخ کے حوالے سے اعتراضات کا طومار پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تفصیلی فیصلہ میں جو اعتراضات پیش کئے گئے ہیں وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔اور ان کی بنیادوہی بے بنیاد اور خلافِ واقعہ الزامات ہیں جو کہ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کی طرف سےعرصہ دراز سے لگائے جاتے رہے ہیں۔ انہی پرانی غلطیوں کو جمع کر کے ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ تفصیلی فیصلہ انٹر نیٹ پر موجود ہے اور ہر دلچسپی رکھنے والا ان کا موازنہ ان حقائق سے کر سکتا ہے جنہیں اس مضمون کی مختلف اقساط میں پیش کیا گیا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button