متفرق مضامین

قبول احمدیت کا صبر آزما روحانی سفر اور اس کے شیریں ثمرات

(ڈاکٹر زیتون قاضی ۔ سوئٹزرلینڈ)

میری یہ گزارشات تین حصّوں پر مشتمل ہیں۔

(1)احمدیت سے تعارف اورقبول احمدیت سے قبل کے مختصر حالات

(2)قبول احمدیت کےبعد مخالفت ۔۔۔اور

(3)احمدیت کے طفیل اللہ تعالیٰ کے فضلوں کاتذکرہ

میں ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوئی۔ میمن طبقہ انتہائی مذہبی اور کٹّرسنّی گھرانہ! میمن قوم عمومی طور پر نماز، روزہ اورارکانِ اسلام کی بیحد پابند ہوتی ہے۔ ساتھ ہی تمام دیگر رسومات پربھی عمل کرتی ہے ( جو اب مجھے بدعتیں اور فضولیات لگتی ہیں۔ اس وقت بڑے شوق اور جذبہ کے ساتھ کی جاتی تھیں۔) مثلاً مزاروں پر جانا ،منّتیں ماننا ، فوتگی کے بعد سوئم ، دسواں، چالیسواںاور ختمِ قرآن، میلا دالنبی وغیرہ ۔ ہم جماعت اہلسنت اور پیری مریدی اور مرشد کے قائل، مولانا شاہ احمد نورانی کے پیروکار تھے۔ ہم آٹھ بہن بھائی اور ایک کمانے والا فرد ، یعنی میرے والد صاحب۔ لہذا ابتدا ئی تعلیم ایک معمولی سے سرکاری اسکول میں حاصل کی۔ جہاں کوئی کرسی ، بینچ یا ڈیسک نہیں تھے۔ پہلی تین کلاسوں میں کھلے آسمان تلے سردی و گرمی میںزمین پر ٹاٹ پر بیٹھتے تھے۔ کوئی لنچ یا جیب خرچ نہیں ہوتاتھا۔ دو پیسہ کا مکئی کا سٹہ ) (Cornکھاکراور عام ٹینکی کا پانی پی کر خوش باش رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے صبر و حوصلہ کے ساتھ اچھی ذہانت سے بھی نوازا تھا۔ تیسری کلاس سے ہی سرکاری وظیفہ حاصل کیا۔ پھر ایک داخلہ کا امتحان دینے کے بعد ایک بڑی سی چھلانگ لگاکر ایک اور سرکاری اسکول میں پانچویں کلاس میں داخل ہوگئی جہاں پہلی مرتبہ کرسی ڈیسک پر بیٹھنے میں بڑی خوشی محسوس ہوئی۔ پھر رفتہ رفتہ ہر تعلیمی مرحلے پر خدا تعالیٰ نے مختلف وظیفوںکے ذریعہ مدد کی۔ یہاں تک کہ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے دوران بورڈ اور یونیورسٹی میں پوزیشن آنے پر کئی مرتبہ بیک وقت دو دو اور تین تین وظیفوںسے بھی اللہ تعالیٰ نے نوازا۔ اور اس طرح باری تعالیٰ نے مجھ ناچیزکو اپنے والدین کے کندھوں پر بوجھ نہیں بننے دیا بلکہ ایک دو مرتبہ گھریلو امور میں مالی امداد کی بھی توفیق پائی۔ الحمدللہ!

میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدگھریلو حالات کے پیشِ نظرکئی سال لگاتاردن رات سخت محنت کی۔ ماں اور بچہ کی صحت کے شعبہ میںمزیداور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کے تحت دن میں بائیس بائیس گھنٹے مختلف ہسپتالوں میں کام کیا۔ صر ف دو گھنٹے گھر میں گزرتے تھے۔ دن میں صبح سے شام تک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی جستجومیں جناح ہسپتال کراچی کے بچوں کے شعبہ ء Institute of Child Health میں کام کیا تو گھریلو معاشی حالات کی وجہ سے روزی کمانے کے لئے پرائیوٹ ہسپتالوں میں ایمرجینسی میڈیکل و سرجیکل آفیسر کے طور پر متواترراتوں کو ڈیوٹی کرکے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ تقریباً چار سال سے زیادہ اسی جدوجہد میں لگ گئے۔

اس تمام عرصہ میںاحمدیت کے ذکریا نام سے واقفیت تک نہیں تھی۔ البتہ قادیانیت کے خلاف کافی کچھ اخبار، ٹی وی اور گھروالوں سے سنتے تھے ۔ اور حقیقتاً ہمارے ذہن بھی اسی طرح سوچتے تھے۔ میں نے بھی وہی کچھ سمجھا جو لوگوںسے اورپیری مریدی کے ضمن میں سنا۔ مگر خداتعالیٰ کی تقدیرشائد کچھ اور ہی تھی ۔ جناح ہسپتال کراچی میں اعلیٰ تعلیم کے دوران ہمارے گروپ میں شامل ہونے والے ایک نئے انٹرن ، ڈاکٹرشمیم قاضی سے رابطہ ہوا جو بذاتِ خود1974ءکے فسادات کے ظلم وستم سے گزرنے کی وجہ سے مذہب سے کا فی دل برداشتہ تھا۔ اس احمدی انٹرن کے علاوہ ہمارے گروپ میں تمام لڑکے اور لڑکیاںسنی عقیدہ سے تعلق رکھتے تھے سوائے ایک کرسچین ڈاکٹر کے۔ لہذا بعض مرتبہ اچھی خاصی بحث چھڑجاتی تھی۔ میں اپنے مضبوط سنی عقیدہ اور جماعت اہلِ سنت کی سرگرم کارکن ہونے کی بناء پر بحث میں پیش پیش ہونے کے علاوہ کئی دفعہ سخت باتیں بھی کرجاتی تھی۔ ا ب اندازہ ہوتاہے کہ اس وقت لاعلمی کی بناء پر کیسی غلطیاں کرتی تھی۔ خدا کی قدرت کے نتیجہ میںہم دونوں ایک ہی پروفیشن ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ کچھ عرصہ میں ہمارے گھر آناجانا ہوگیا ۔ لیکن احمدیت کی وجہ سے میرے گھر والوں خاص طور پر امی اور بہن بھائیوں کی مخالفت اور نفرت میں کمی نہیں آئی، بلکہ ا س میں مزیدشدت آگئی۔ ساتھ ہی مجھ پر سخت پابندی بھی لگ گئی کہ میں زیادہ میل جول اور بات چیت نہ رکھوں۔ میرے فون کے استعمال اور ہسپتال آنے جانے پربھی کڑی نظررکھنی شروع ہوگئی۔اس نفرت اور پابندیوں کی شد ت ا س وقت اپنی انتہا کوپہنچی جب 1982ءکے شروع میںقا ضی صاحب کے گھروالوں نے رشتہ بھیجا۔ میری رضامندی دیکھ کر گھر میں میرے حالات انتہائی تکلیف دہ ہوگئے۔ ایک بھائی چھری لے کرپیچھے آیا تو دوسرے نے گولی مارنے کی دھمکی دی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک کافر سے شاد ی ہرگز نہیں ہونے د یںگے۔ تاہم معاشی حالات کی بناء پر میری دونوں ملازمتیں جاری رکھنے دی گئیںکیونکہ دو تین پوسٹ گریجویشن کرنے کی وجہ سے میری تنخواہ اچھی خاصی تھی اور اپنا چائلڈا سپیشلسٹ کاذاتی کلینک بھی ٹھیک چلتا تھا۔ البتہ اکثر مجھے گھر میں کھانا میسّر نہیں ہوتا تھا۔ لہذا بازار کے برگر، ٹوسٹ یا پھرہسپتالوں کے کھانے پر گزارا ہوتا تھا۔ میرے ابّاجان ان تمام حالا ت سے قطعاً لا علم تھے۔ اسی طرح ملک سے باہر میرے دو بھائیوں کو بھی مصلحتا ً میرے حالات اوراس رشتہ سے بے خبر رکھا گیاتھا۔

کچھ عرصہ بعد ابّاجان نے میری کمی محسوس کرتے ہوئے گھروالوں سے میرے متعلق دریافت کیا تو شروع میں ٹال مٹول کی گئی اور بعد میںانہیں سخت جواب دیا گیا کہ ا یک کافر سے دوستی کی بناء پرمجھ سے بات چیت اورساتھ میں کھانا پینا مناسب نہیں۔ابّاجان اس بات کے قطعاً قائل نہیں تھے اورپوری حقیقت جاننے کے لئے انہوںنے کسی طرح مجھ سے ہسپتال میں جہاںمیںدن کے وقت کام کرتی تھی، رابطہ کیا۔ تمام حالات اور گھروالوںکا میرے ساتھ روّیہ سن کر انہیں بیحدتکلیف ہوئی اوروہ بیساختہ رو پڑے۔ چونکہ ابّاجان کی ڈاکٹر قا ضی سے کچھ شناسائی سی ہوگئی تھی، اس لئے انہیں اس رشتہ پر کوئی اعتراض نہیں تھاجس کی اصل وجہ انکے خیال میں ان کا اہلِ کتاب ہونا اور اچھے اخلاق تھے۔ مگرابّاجان گھر میں چونکہ فطرتی طور پر نسبتاً خاموش طبع کمزورانسان تھے، لہذا میری طرفداری اوراس رشتہ کی حمایت کرنے کی وجہ سے ان پر بھی کافی سختیاں شروع ہوگئیں اور کھانے پینے کے معاملے میں بھی انہیں بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہم باپ بیٹی اس بات سے قطعاً لا علم تھے کہ میرے گھروالوں نے میرا اور ابّاجان کا تعاقب کرنا شروع کیا ہوا تھا۔ ان حالات کے پیشِ نظر ابّاجان نے ا مریکہ اور کینیڈا میں مقیم بھائیوں کو تفصیلی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ ان کی رضامندی اورمشورہ سے ہسپتال میں ہمارے قریبی دوستوں سے اور پھر قاضی صاحب اور ان کے گھروالوں سے رابطہ کیا۔ اور توکل علی اللہ کےساتھ نتائج سے بے پرواہ ہوکر یہ رشتہ قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ابّاجان کواس بات پرگھرمیں سخت زبانی اور جسمانی تکالیف کاسامنا کرنا پڑایہاںتک کہ بھائیوںکےہاتھ ان کےگلے تک جا پہنچے۔بڑی مشکل سےپڑوسیوںکی مددسےانہوںنےجان بچائی۔اگلے دن یعنی9ستمبر1982ء کو ابّاجان نے مجھے ہسپتال میں پیغام بھجوایا کہ بھائیوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے لہذا میرا گھر آنا خطرہ سے خالی نہیں۔ ساتھ ہی مجھے تاکید کی کہ میں اس علاقہ سے بھی دور رہوں۔ اسی اثناء میں انہوںنے قاضی صاحب سے اسلام آباد میں، جہاں وہ ملازم تھے، رابطہ کیا اور کراچی میں چند عزیز دوستوں کو مطلع کیا۔ حالات کے پیشِ نظرقاضی صاحب اگلے ہی روز 10ستمبرکو کراچی پہنچے اور پھر ان سب کی مدد سے والد صاحب کی سرپرستی میں اگلے دن 11 ستمبر1982ءکو نہایت سادگی کےساتھ کُل دس لوگوں کی موجودگی میں شادی ہوئی اور ا س سے اگلے روز اسلام آباد روانگی ہوئی۔ مجھے اپنے والدصاحب کی سخت فکر تھی جنہوں نے میری خاطر اپنی جان اور زندگی داؤ پر لگادی تھی۔ اس دن کے بعد میںاپنے گھرکبھی دوبار ہ نہیں جاسکی ۔البتہ اب بھی جب کراچی جاتی ہوں تو گھر کی بلڈنگ کے پاس اور ارد گرد کی گلیوں سے ضرور گزرتی ہوں۔

اسلام آباد آکر ہر وقت ڈر لگارہتا تھا کہ کوئی پیچھا کر رہا ہے یا کہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ بہرحال وقت گزرتا رہا ۔ ہسپتال کے ڈاکٹر ز ہوسٹل کے ایک مختصر کمرے میں قیام تھا جس کا باتھ روم مزید چارمرد ڈاکٹرزبھی استعمال کرتے تھے۔ ڈاکٹر میس کے مینیجر مجھ سے شایدبےروزگار اور غریب جان کرکھانا کھانے کے لئے آدھا خرچہ یعنی 200 روپے لیتے تھے ۔ تاہم کھانے میں کبھی بوٹی ملتی تھی اور کبھی آلو۔ شوربہ اور دا ل اتنی پتلی کہ کہنی تک آتی تھی۔ مگرکبھی کسی سے شکوہ نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کا احسان کہ اس نے قناعت پسندی اور حوصلہ بھی بخشا تھا۔

چونکہ گھر سے تومیںکچھ خاص کپڑے نہیں لاسکی تھی اور نہ ہی میرے پاس قمیض کی سلائی کے لئے 15 روپے دینے کی گنجائش تھی۔ حالانکہ کپڑوں کی سلائی اچھی خاصی آتی تھی۔ اس لئے پھرسلائی کی مشین قسطوں میں خریدنی پڑی ۔ جبکہ کراچی میں شادی سے پہلے میں ہزاروں روپے کماتی تھی۔ مزید آزمائش کہ کرا چی سے اسلام آباد آکر سردی بھی کافی لگتی تھی مگرلحاف سلوانے کے لئے کم از کم 50 روپے درکارتھے جو ہمیں میسر نہیں تھے۔ دل تو بہت خفا ہوا مگر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ لہذا 6 روپے 4 آنے کا سوئی دھاگہ اور ا نگشتانے خرید کر ہم دونوں میاں بیوی نے ملکر پورے ایک دن میںلحاف کی سلائی مکمل کی۔ تا ہم تنگی ترشی کے باوجود اللہ کے فضل سے ہمت و حوصلہ برقرارتھا۔ جو مل گیا اس پر شکرکیا اورجو چھن گیا تھا اس پر افسوس نہ کیا۔ اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دیا۔

قاضی صاحب صبح صبح حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطبات، سوال و جواب اوردیگر تقاریر کی آڈیو کیسٹس لگالیتے تھے کہ کسی طرح میرے کانوں میں احمدیت کی آواز اور تعلیم پہنچے۔ شروع میں تو یہ بات مجھے ناگوار لگتی تھی اور ان سے بحث بھی کرتی تھی کہ یہ توآپ کے عقیدہ کی تعلیم ہے۔ مگر رفتہ رفتہ اس کی عادی ہوگئی۔ پھر مقامی مربی ٔ سلسلہ محترم اخلاق انجم صاحب اورقاضی صاحب کے احمدی رشتہ داروں سے بھی رابطہ ہوا۔ اسی دوران اللہ کے فضل سے مجھے وزارتِ صحت میںبطورِافسر، سرکاری ملازمت بھی مل گئی۔

اب اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھیں! چند ماہ بعددسمبر 1982ءمیںمجھے اپنے ایک سرکاری دورہ پر کراچی جانا ہوا ۔ گھر کے دروازے تو میرے لئے بالکل ہی بند تھے اور جان کو بھی خطرہ تھا۔ تاہم سڑک سے گزرتے ہوئے گھر کی بلڈنگ پر نظر دوڑائی کہ شائدچھوٹی بہن کھڑکی میں نظرآجائے یا ماں ہی سڑک پر مل جائے اورانکی ممتا جاگ اٹھے۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ جن دوست احباب نے مشکل حالات میں میری اور میرے والد صاحب کی پرخلوص مددکی تھی ، ان سے اور انکے گھروالوں سے ملاقات ہوئی۔ بات چیت کے دوران احمدی عقائد پر بھی گفتگو ہوئی۔ گو کہ یہ سب لوگ بذاتِ خود قادیانیت کے حامی نہیں تھے مگر مجھے مشورہ دیا کہ چونکہ اب تمہاری شادی ایک قادیانی سے ہو گئی ہے تو تمہیں ربوہ جا کر ان کا جلسہ دیکھنا چاہئے کہ اصل میںیہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ میاں کا صحیح مسلک کیا ہے؟

تاہم بعض نے کہاکہ نہیں نہیںربوہ بالکل نہیں جانا۔ ا س کے متعلق سوچنا بھی نہیں! یہ لوگ ملتے ہی جادو کردیتے ہیں۔ جبکہ آپابی اور ان کی بہنوں کا خیال تھا کہ جانے میں کوئی ہرج نہیں۔ بہر حال میں نے جلسہ پرربوہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اسلام آباد واپس آکرقاضی صا حب کوجب یہ فیصلہ سنایا تو انہیں انتہائی حیر ت کے سا تھ بہت خوشی بھی ہوئی ۔ دراصل قاضی صاحب خود بھی اس ضمن میں میرے لئے بہت دعائیں کرتے تھے اور خلیفۂ وقت ، مفتی ٔ سلسلہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم اور دیگر بزرگانِ جماعت کو بھی دعاؤںکے لئے خط لکھتے رہتے تھے۔

بہر حال ، گوناگوں خیالات اور ذہنی وساوس کے ساتھ دسمبر1982ءکے جلسہ سالانہ کے لئے زندگی میں پہلی مرتبہ ربوہ کا سفر اختیار کیا۔ ہر چیز ، ہر جگہ اورہرایک کو انتہائی غوروخوض سے دیکھتی رہی۔ ساتھ ہی تنقید کا پہلو بھی دامنگیر تھا۔ جنت دوزخ اَور حَوریں تلاش کیں مگر سیاہ لبادے (برقعہ)میں ملبوس تیز رفتار پیدل چلتی خواتین نظر آئیںاورپھر باقاعدہ منظم پلاننگ کے تحت ایک صاف ستھرا قبرستان (بہشتی مقبرہ) دیکھا۔ جلسہ گاہ میں خاص طور پر کیفیت ہی کچھ اور تھی۔ جلسہ کے انتظامات ، شامل خواتین اور کارروائی کو تنقیدی نظروں اور خیالات سے جانچنااور پرکھنا چاہا۔ ہر ایک چیز کا بخوبی جائزہ لیا۔ جلسہ کا پہلا دن خیروخوبی گزرگیا مگر اپنی نمازیںمَیں نے علیحدہ پڑھیں، یہاں تک کہ مسجد مبارک میں بھی عشاء اور فجر کی نمازجماعت کے ساتھ ادا نہیں کی۔

جلسہ کے دوسرے دن خدا کی تقدیر میرے لئے کچھ اَور ہی رنگ لےکر آئی۔ شایدخدا تعالیٰ نے اس د ن میر ی کایا پلٹنے اور ذہنی کشمکش اور گرہیں کھولنے کا خاص انتظام کیا ہوا تھا۔ سیرت النبی ﷺ اور اسوہ ٔ حسنہ پرمشتمل تین تقاریرنے میرے دل و دماغ کے غبارا ور پردے یکے بعد دیگرے ہٹانے شروع کئے اور خاتم النبیینؐ کے ضمن میں حائل خدشات دور کرنے میں اہم کردار ادا کئے۔ پہلی تقریرمحترم حافظ مظفر احمد صاحب کی بعنوان ـــــ’’ رسولِ کریم ﷺکا حسنِ سلوک فتح مکّہ کے موقع پر‘‘ تھی۔ دوسری تقریر محترم غلام باری سیف صاحب مرحوم کی ’’رسولِ کریم ﷺکا حسن ِخلق اپنی ازواجِ مطہرات کےساتھ‘‘ اور تیسری تقریر محترم دوست محمدشاہد صاحب مرحوم کی تھی جس کا عنوان یاد نہیںرہا۔ ان تقاریر کی خاص اور مشترکہ بات رسولِ کریم ﷺ کا نام نہایت عزت واحترام اورتکریم سے لینا اور ہر بارآپؐ کے نام کے ساتھ مختصر درودشریف پڑھنا تھا۔ اس قدر محبت اور عشق ِرسول ِ کے نمونہ نے میرے ذہن اور سنّی عقیدہ کو جھنجھو ڑکر رکھ دیا کہ ہم تو خواہ مخواہ ہی اسلام اور نبی کریم ﷺ کے ٹھیکیداربنے ہوئے ہیں ۔ ختمِ قرآن اور میلادالنبی ؐ کے نام پر کھڑے ہوکر یا نبی السلام وعلیکَ پڑھ کرسمجھ لیتے ہیں کہ بہت بڑا تیر مار لیااور محبتِ ِرسولؐ کاحق اداکردیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطابات بھی انتہائی اثر انگیزاور روح پرور تھے۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ نتیجتاً ان تقاریر کے بعدمیں تمام نمازیں با جماعت ادا کر تی رہی اور مسجد مبارک میںنماز تہجد میں بھی شامل ہوتی رہی۔

جلسہ سے واپسی کے چند دن بعد اللہ تعالیٰ سے مزید رہنمائی کے لئے دعائیںشروع کیں اورحضرت مسیح موعودؑ کابیان فرمودہ مسنون استخارہ متواتر 15دن تک کیا۔ پہلے روز ہی سے نیک خوابوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی خواب آتا رہا۔ تمام خوابوں کا ذکر اس وقت ممکن نہیں۔ لہٰذا مختصراً چند ایک کا ذکر خلیفۂ وقت کی جواباً تعبیر کے ساتھ کرتی ہوں۔

پہلے ہی دن ٹھیک ٹھاک قسم کا ایک زلزلہ محسوس ہوا۔ چونکہ ان دنوں ہم کسمپرسی کی حالت میں ڈاکٹرز ہوسٹل کے ایک مختصر کمرے میںبے سروسامانی کے عالم میں مقیم تھے۔ گھر سے تو میں خالی ہاتھ ہی آئی تھی ، اس لئے پیسہ پیسہ جوڑ کرضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں خرید کر پلنگ کے نیچے ہی رکھ دیتے تھے۔ لہذا الماری اور بستر کے نیچے موجود سامان کی زوردار آوازیں آنے لگیں ۔ صبح اٹھنے پر پتہ چلا کہ دراصل رات کوئی زلزلہ نہیں آیا تھا۔ بقول قاضی صاحب کے اللہ میاںتمہارے دل ودماغ کو جھنجھوڑنے کے لئے تمہارے اندر زلزلہ پیدا کر رہا ہے۔ جبکہ حضورِ انور کی تعبیر تھی کہ ’ـ’زلزلہ تبدیلی اور انقلاب کی نشانی ہے ۔ اور انبیاء کی بعثت کو بھی زلزلہ سے ظاہر کیا جاتاہے ۔ غالباً خواب والے زلزلہ سے مراد آ پ کی زندگی میں کوئی عظیم انقلاب ہے‘‘۔

اگلی رات سردی کی وجہ سے چو نکہ لحاف لیا ہوا تھا۔ رات میں سوتے جاگتے کی کیفیت میں بار بار لحاف کے اندر چاندنی جیسی دودھیا روشنی نظر آتی رہی جوچاروں طرف پھیل جاتی تھی۔ یہ کیفیت رات بھر جاری رہی۔ آنکھ کھلنے پر لحاف کے باہر اندھیرا ہوتا تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ جیسے ہی دوبارہ آنکھ لگتی ، خواب کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے شروع ہوتا جہاں سے ٹوٹتا تھا۔ حضورِانور نے جواباً تحریر فرمایا ــ’’آپ کے گردوپیش کا ماحول تاریک ہے لیکن آپکے گھر میںبفضل اللہ تعالیٰ روشنی ہے۔ یہ بہت مبارک خواب ہے جو روشنی اللہ تعالیٰ نے شمیم صاحب کو عطافرمائی ہے انشاء اللہ آپ کو بھی نصیب ہوگی اور اسے دیکھنے کی بصیرت عطا ہوگیـ‘‘۔

ایک دن ہمارے بہترین غیر از جماعت شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی دوست اور ایک میری اپنی ساتھی دوست جن سے جماعت اور عقائدِ احمدیت کے متعلق اکثر گفتگو ہوتی رہتی تھی، الگ الگ خوابوں میںکچھ اس طرح نظر آئے کہ شیعہ خاوند کا سیدھا ہاتھ بیچ درمیان میں سے اس قدر گہرا کٹاہو ہے کہ صرف کھال سے جڑاہوا ہے اور اندر کا گوشت نظر آرہا ہے، مگر خون کا ذرّہ تک کہیں نظر نہیں آتا اورگوشت پیلا پرانا سا بے جان زخمی کٹاؤ لگتا ہے۔ جبکہ دوسرے خواب میں میری ہسپتال کی ساتھی دوست اور ہم لو گ علیحدہ علیحدہ گاڑیوں میں سفر کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک سڑک ختم ہوجانے کی وجہ سے اسکی گاڑی نیچے گرجاتی ہے جبکہ ہماری گاڑی تقریباً 20-30 میٹر پہلے خود بخود سکون کے ساتھ رک جاتی ہے۔ اس ضمن میںحضورِانورکے جواب کا مختصراًخلاصہ عرض کرتی ہوں۔ ’’خوابیں مبارک بھی ہیںاور ایک ہلکا سا انذار کا سایہ بھی ان پر ہے۔ دائیں ہاتھ کا زخم مذہبی نقصان کی علامت ہے۔ خاوندکے حق سے انحرا ف کی ذمہ دارانکی بیگم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بیگم کے خیالات اور رحجانات سے آپ کو بفضلہ تعالیٰ محفوظ رکھے گا لیکن ان کے خاوند کو زخم لگ جائے گا۔ خون کا جاری نہ ہونا بھی روحانی زخم کی دلالت کرتا ہے نہ کہ مادی زخم۔ خوشخبری کا پہلو اس میں یہ ہے گو بظاہر سرِدست آپ کے مذہبی رحجانات کی باگ ڈور آپ کے غیر احمدی عزیزوںکے ہاتھ میں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے بد اثرات سے محفوظ فرما ئے گا‘‘۔

غرض یہ کہ مسلسل خواب آتے رہے ۔ میں حضور کو ہر خواب لکھتی رہی اور جواب بھی موصول ہوتے رہے۔ آخری دو خوابوںکا ذکر بہت اہم ہے۔ میں اپنے دونوں بڑے بھائیوں ، ایک کینیڈا والے بھائی جن کے ساتھ میری بہت اچھی دوستی ہے اوروہی اس رشتہ پر رضامندبھی تھے اور دو سرے بھائی جو چھری لے کرمیرے پیچھے آئے تھے ، ان دونوں کے ساتھ ایک دیہاتی گھر کے برآمدے میں باتیں کررہی ہوتی ہوں۔ ساتھ ہی ایک تین چار سیٹوں والاصوفہ نما جھولا ہے جو عموماً ہمارے میمن لوگوں کے گھروں میں ہوتا ہے۔ سامنے ایک بڑا سا صحن ہے ۔ اس سے آگے گھر کی حدود کے باہردور ایک مٹیالا سا پہاڑ ہے جو زیادہ اونچا نہیں۔ پہاڑ اور گھر کے درمیان ایک وسیع میدان ہے جو مٹی اور گھاس سے پرُ ہے مگر اس کا زیادہ تر حصّہ میدانی سا ہے۔ ہم برآمدے کے کنارے کھڑے ہوئے باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک تیز بارش شروع ہوجاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہاڑ کی جانب سے بارش ایک منظم لڑیوں اور قطار کی صورت میں چلتی ہوئی ہمارے پاؤں تک آتی ہے۔ اور ہر قطار میں خوبصورت رنگوں والے بڑے بڑے تاز ہ ناریل اور انناس کی طرح کے پھل اور پھول سرسبز پودوں سمیت بار بارہمارے پاس آکر رک جاتے ہیں۔ پھر ایک نئی کھیپ اسی طرح قطار کی صورت میں باربارچلی آتی ہے۔ یہ سارا نظارہ انتہائی خوبصورت، روح پرور اور دل ودماغ کے لئے باعثِ تسکین ہوتاہے۔ میں اپنے بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرتی ہوں کہ دیکھو خدا تعالیٰ کی کیا شان اور قدرت ہے کہ ا س قدر خوبصورت نعمتیں وہ ہمیںدے رہا ہے۔ دراصل بھائیوں کو یہ سارا منظرنظر نہیں آرہا ہوتا۔ بھائی جان مجھے کہنے لگے کہ توُ تو جھلّی ہوگئی ہے ۔ یہاںتو کچھ بھی نہیںہے۔ لگتا ہے تم دن میں بھی خواب دیکھنے لگی ہو۔ میں ان سے بحث کرتی ہوں کہ مجھے لگتا ہے تمہاری نظر مزید کمزور ہوگئی ہے اورتمہیں صحیح نظر نہیں آرہا۔ اس لئے تمہیں اپنی نظر دوبارہ چیک کرانی چاہئے۔ خواب میں دکھائی گئی جگہ اور ماحول سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ ربوہ کا ہی کوئی گھر ہے۔

آخری خواب میں دیکھا کہ میں نے ’’ الیس اللہ بکاف عبدہ ‘‘کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی ، حالانکہ ان دنو ں15 دن کا دورانیہ مکمل ہو نے کی وجہ سے میں نے استخارہ چھوڑدیا ہوا تھا۔

یہ خوابیں بھی مَیں نے حضورِانورکی خدمت میں لکھ کر بھیج دیں۔جواباًحضورِانوررحمہ اللہ نے3 اپریل 1984 کو میرے تین خوابوں کے ضمن میں ساڑھے چار صفحوںکا خط اپنی تحریر میں بھیجا جس میں ہر بات کا اچھی طرح analysis کیا گیاتھا۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے حضور نے باقی باتیں آخری صفحے پر حاشیوں میں تحریر کی تھیں۔ حضورِانورکے جواب کا مختصراًخلاصہ پیشِ خدمت ہے۔

’’بارش والی خواب تو بہت ہی واضح اور مبارک ہے۔ آسمان سے پانی اترنا آسمانی ہدایت کا نشان ہے اور ویسے ہی اللہ کے فضل و رحمت پر دلالت بھی کرتا ہے۔ یعنی عام دنیاوی طور پر بارش اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت نازل ہونے کی علامت ہے۔ لیکن آپ کی رویا میں جو پھول اور پھل دکھائے گئے ہیں وہ یقینا دنیاوی نہیںبلکہ روحانی ہیںورنہ آپ کے ساتھیوں کو بھی ضرور دکھائی دیتے۔ بالکل واضح اور غیر مبہم پیغام ہے کہ آسمانی بارش کے نتیجہ میں جو روحانی پھل پھول عطاء ہوتے ہیں اللہ کی رحمت کی لہریں ان کو آپ کی طرف بھیج رہی ہیں۔ چاہیں تو قبول کرلیں چاہیں تو نہ کریں ۔ ناریل ایک ایسا پھل ہے جو بہار وخزاں سے بے نیاز ہر موسم میں لگتا ہے۔ قرآن کریم نے بھی شجرہ طیبّہ کی یہ خاصیت بیان فرمائی کہ وہ ہر موسم میں پھل دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ بھی فرماتے ہیں:

’’بہار آئی ہے اس و قت خزاں میں کھلے ہیں پھول میرے گلستان میں‘‘

دوسرے انگوٹھی والے خواب کے ضمن میں حضورِانور نے محبت بھری دعاؤں کے بعد فرمایا ’’الیس اللہ‘ ‘ والی خواب میں تو آپ کو خبردی گئی ہے کہ اب کسی سے ڈرنا نہیں۔خدا تعالیٰ ہی آپ کےلئے کافی ہوگا‘‘۔
ان سب باتوں کے علاوہ سب سے اہم دل کو کھینچنے والی عبارت ’ ’ اللہ کی رحمت کی لہریں ان کو آپ کی طرف بھیج رہی ہیں۔ چاہیں تو قبول کرلیں چاہیں تو نہ کریں ‘‘ نے مجھے میرا فیصلہ حق سنادیا۔ چونکہ انہی دنوںہم نے میرے اباجان کو سخت بیماری کے عالم میںاپنے پاس اسلام آباد بلالیا تھا کہ کراچی میں گھر میں ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا نہ ہی کھانے پینے کا کوئی خیال کرتا تھا۔ ڈاکٹری معائنہ سے پتہ چلا کہ انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہے جو پورے جسم میں پھیل چکا تھا۔ اباجان ہمارے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے فلیٹ میںمقیم تھے جس کے ایک کمرے میں شام کو میں کلینک کرتی تھی اور دوسرا بیڈروم کے طور پر استعمال ہو تا تھا۔ میں نے ا ستخارہ اوراپنے تمام خوابوں کے متعلق اباجان کو بتادیاتھا۔ جب حضور کا یہ خط آیا ، ا س وقت میںکلینک میں مریض دیکھ رہی تھی ۔ دوسرے کمرے میںقاضی صاحب کے رشتہ کے دو ماموں ، جنہیں ہم بھائی اور بھائی جان بلاتے تھے اور ان سے بہت پیار کا تعلق تھا، اباجان سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی میں نے حضور کے خط کے آخری الفاظ ’’ اللہ کی رحمت کی لہریں ان کو آپ کی طرف بھیج رہی ہیں۔ چاہیں تو قبول کرلیں چاہیں تو نہ کریں ‘‘ پڑھے ، فوراًہی دوسرے کمرے میں جاکر بھائی جان سے بیعت فارم طلب کیا۔ وہ دونوں کافی حیران ہوئے اور مجھے مزید سو چنے کا مشورہ دیا ۔ میں نے جب حضور کا خط دکھا یا تو ہم سب باجماعت مل کررونے لگے۔ ساتھ ہی اباجان بھی شامل ہوکر کہنے لگے کہ جب میں نے ایک احمدی سے تمہاری شادی کردی تھی تو تمہارے بیعت کرنے پر مجھے بھلا کیوں کوئی اعتراض ہوگا بلکہ خوشی ہے کہ اب تم دونوں ایک ہی عقیدہ پر ہو۔ قاضی صاحب خود اس وقت ایک اور جگہ کلینک میں کام کی وجہ سے گھرپر موجودنہیں تھے ۔ مگر فون پر اطلاع ملتے ہی فوراً گھر آگئے اور سب نے خدا کے حضور شکرا دا کیا۔
یہ دن 7 اپریل 1984میرے لئے انتہائی اہم ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل و کرم سے نیک ہدایت اور صحیح رہنمائی عطا کی اور منکرین میں ہو نے سے بچالیا۔ اسی وقت بیعت فارم حضور کی خدمت میں روانہ کیا۔ چونکہ انہی دنوں حضورِ انور اسلام آباد دورہ پر تشریف لانے والے تھے۔ جو آپ کی پاکستان سے ہجرت سے قبل آخری دورہ تھا، لہٰذا خط میں حضورِانورکو اپنے گھر مدعو بھی کیا اور اباجان سے ملاقات کی درخواست کی۔ جواباً آپ نے لکھا کہ’’ بیعت سے بہت خوشی ہوئی جس کا میں آپ کی خوابوں کے بعد طبعی طور پر منتظر تھا‘‘۔ ساتھ ہی ڈھیر ساری دعائیں دیں اور دعوت کی معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ انشاء اللہ وقت ملا تو آپ کے گھر حاضرہوں گا اورآپ کے والد صاحب سے بھی ملوںگا ‘‘۔

اباجان بھی خطبات اور تقاریر کی آڈیو کیسٹ بڑے شوق اور دلچسپی سنتے تھے۔ ایک طرف کی کیسٹ مکمل ہونے کے بعد فوراً آواز دیتے کہ کیسٹ ختم ہوگئی ہے اسے دوسری طرف لگاؤ۔ جب ہم جمعہ پڑھ کر آتے تو تفصیل جاننے کیلئے فوراً پوچھتے کہ آج امام صاحب نے خطبہ جمعہ میںکیاارشاد فرمایا؟ اباجان کی بیماری کی وجہ سے میرے بڑے بھائی اپنی فیملی سمیت کینیڈا سے آئے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ ہی اس چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم تھے۔

ان دنوں محترم شیخ عبدالوہاب صاحب امیرِ جماعت اسلام آباد تھے اور مسز ڈاکٹر خیرالبشر صدر لجنہ۔ حضورؒ کے اسلام آباد دورہ پر تشریف لانے پر میری پہلی ملاقات بیت الذکر اسلام آباد میں ہوئی۔ مجھے حضور نے خصوصی طورپر آگے بلوایا اور میںسب سے آگے حضور کی کرسی کے پاس بیٹھی تھی۔ وہیں انہوں نے مجھ سے میرا اور اباجان کا حال احوال پوچھا اور سر پر شفقت کے ساتھ ہاتھ پھیرا۔ چند دن بعد، 20 اپریل 1984کو رات تقریباً 21:30بجے امیر صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ حضور ہمار ے گھرتشریف لارہے ہیں ۔ ہمارا چھوٹا سا فلیٹ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں تھا جو اس وقت زیرِتعمیر تھی اور پہنچنے کا راستہ بھی پتھریلا سا تھا۔ لہذا پبلک چہل پہل کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ وقت طے کیا گیا تھا۔ اب تو یہ ایک بڑا فیشن ایبل علاقہ اورایکPoshجگہ بن گئی ہے۔ حضور کی آمد کا سن کرگھر میں سب کو بے انتہا خوشی ہوئی اور بے چینی سے انتظارہونے لگا۔ تقریباً رات22:00 بجے کے قریب حضور کا قافلہ پہنچا۔ سیکیورٹی عملہ نے اندر باہر اپنی پوزیشنز سنبھال لیں اور حضور انور مع امیر صاحب اور میاں لقمان صاحب تشریف لائے۔ ابّاجان سے مصافحہ کرتے ہوئے ان کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔ بھائی جان اور ان کی فیملی سے ملے۔ ابّاجان نے حضور کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ اس دوران میں نے Japanese قہوہ تیار کیا تھا جو آپ نے پسند فرمایا۔ بعد ازاں حضور نے دعا کرائی اور بیس پچیس منٹ بعد ہمارے غریب خانہ کی عزت افزائی کے بعد روانہ ہوگئے۔
آپ کی آمد اور روانگی کا منظر بہت ہی با رعب اورمنظم تھا۔ ایک ساتھ تمام گاڑیوں کے دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آواز سن کر پڑوسیوں کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ اگلے دن شام کو ایک مریض کلینک میں آیا تو مجھ سے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحبہ! آپ نے کچھ سنا ! کل رات یہاں ایک عجیب سی واردات ہوئی ۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ یہاں مرزائی لوگ چند گاڑیوں میں آئے تھے اور ان کے کچھ ساتھی بلڈنگ کے پاس بندوقیں لئے کھڑے تھے۔ پتہ نہیں کہاں اور کیا کرنے آئے تھے ۔ انہیں یہ جان کرسخت حیرت ہوئی کہ وہ لوگ میرے گھر آئے تھے ۔ کہنے لگے قاضی صاحب کا تو ہمیںعلم ہے مگر آپ تو مرزائی نہیں ہیں۔ میرا مثبت جواب سن کر اپنا ماتھا پیٹنے لگے کہ ڈاکٹر صاحبہ یہ آپ نے کیا کرلیا! کیوں اپنے آپ کو آگ میں جھونک دیا! میں نے تسلی دی کہ ہوسکتاہے اسی میں اللہ کی بہتری ہو اور شائد اسی وجہ سے وہ مجھے آگ سے بچالے۔

ملک میں جماعتی حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر، حضور ِ انو رنے اپنادورہ مختصر کردیااور اگلی ہی صبح اسلام آبادسے واپس ربوہ تشریف لے گئے اور جلد ہی اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر آپ نے سفرِ ہجرت اختیار کیاجس کی تفصیل جاننے کے لئے Iain Adamsonکی کتاب A MAN Of GOD کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
اب ہم دوسرے موڑ پر آتے ہیں۔26 اپریل 1984ءکوجنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کے تحت آرڈیننس جاری کیا اورپاکستان پینل کوڈ دفعہ 298-Bکے تحت احمدیوں پر مزید پابندیاں لگ گئیں۔ گویا کہ ان کے خیال میں تابوت میں آخری کیلیں ٹھونک دی گئیں۔ امیر صاحب نے اگلے روز فون پر میری خیریت دریافت کرتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحبہ ! آپ گھبرا تو نہیں گئیں کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے لگے‘‘ مجھے بیعت کئے چند ہی دن ہوئے تھے۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ ’’ امیر صاحب ! جب اوکھلی میں سر دے دیا ہے تو پھر موصلی سے کیا ڈرنا‘‘۔ یہ سن کر انہیں اطمینان اور خوشی ہوئی۔ انہی دنوں ہم دونوں میاں بیوی نے اللہ کے فضل وکرم سے وصیت کر نے کی توفیق پائی، الحمدللہ!

قاضی صاحب کے کچھ غیر احمدی رشتہ دار میری بیعت سے خوش نہیںتھے ۔ اعتراض کا کوئی موقع نہ چھوڑتے۔ اپنے گھروالے تو ویسے ہی ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ ساتھ ہی ابّاجان کی حالت بگڑتی گئی ۔ ہسپتا ل داخل کیا جہاں دن بھرمیں ، اور رات قاضی صاحب ابّاجان کی خدمت کرتے تھے۔ قاضی صاحب اور ان کی خدمت کے جذبہ سے ابّاجا ن بہت خوش تھے کہ میری شادی کے متعلق انہوں نے درست فیصلہ کیاتھا۔ مگر ساتھ ہی کافی افسردہ بھی تھے کہ ان کے 8بیٹے بیٹیو ں میں سے اس وقت میرے سوا کوئی بھی ان کے پاس نہیں۔ اس حالت میں بھی ابّاجان حضورِ انور او ر احمدیت کی باتیں شوق سے پوچھتے اور سنتے تھے ۔ وہی دو رشتہ کے ماموؤں کے سامنے ابا جان ہاتھ میں بیعت فارم لئے بار بار دستخط کی کوشش کرتے رہے۔

گرکینسر کے پورے جسم میں پھیل جانے کی وجہ سے نہ ان کے کام کرتے تھے اور نہ ہی انگلیوں نے ساتھ دیا اورصرف ٹیرھی میڑھی لائنیں ہی لگ پائیں۔ پھر قضائےالٰہی سے20 مئی1984ء کو ابّاجان مجھے اللہ کے حوالے کرکے اس دنیا سے ر خصت ہوگئے۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔ وہ میرا دنیا میں واحد سہارا تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اپنے جوارِرحمت میںجگہ عطا فرمائے ۔آمین۔

ہمارے پاس اپنی جگہ میسر نہ ہونے کے باعث ان کے جنازہ کا انتظام قاضی صاحب کے غیر احمدی تایاجان کی طرف ہوا اور غیر احمدیوں نے ہی جنازہ پڑھا ۔ گو کہ کچھ احمدی احباب اور لجنہ بھی موجود تھیں۔ حضورِ انور کو جب یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے امیر اسلام آباد سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جماعت میں ان کا جنازہ کیو ں نہیں پڑھا گیا؟ وہ شخص تو ایک احمدی تھا ، میں خود ان سے مل کر آیا ہوں‘‘۔ ساتھ ہی آپ نے جنازہ غائب پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ ا س طرح کچھ دنوں بعد بیت الذکر اسلام آباد میں نمازِ جمعہ کے بعد ا باجان کا غائبانہ جنازہ پڑھ کر ہمیں بھی کافی تسلّی ہوئی۔

رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ حالات بدلتے گئے۔ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے سا تھ میری لجنہ کی ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اولاد سے نوازا۔ اگست1985میںمعجزانہ طور پر خدا تعالیٰ کا فضل ہواکہ بیعت کے ایک ہی سال بعد دونوں میاں بیوی کو لنڈن یونیورسٹیLondon School of Hygiene and Tropical Medicineمیںبیک وقت اپنے اپنے شعبہ میںMSc. کی اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف ملے۔ مجھے British Council اورقاضی صاحب کو United Nation University کی طرف سے یہ اعزاز ملا۔ ہماری بیٹی باسمہ اس وقت سات ماہ کی تھی اس کو اپنے ساتھ لے جانے کےلئے British Council کے ڈائریکٹر نے بفضل ِ خدا خصوصی طور پراجازت دی تھی۔ حالانکہ ان کے قانون کے تحت عام طور پر اسکی اجازت نہیں ہوتی ، مگر اللہ تعالیٰ کے محض خاص فضل و کرم سے میری درخواست خصوصی طور پر منظور کرلی گئی ۔

اب خلیفۂ وقت کی شفقت اور محبت ملاحظہ کریں۔ British Counci کی شرط کے مطابق مجھے ایک ما ہ قبل بغیر بچی کوساتھ لئے اکیلے اسکاٹ لینڈ جاکرانگریزی زبان میں مزید مہارت حاصل کرنے کے لئےایک ماہ تک کام کرنا تھا۔ لہذ ا میں نے ایک ماہ قبل سفر اختیار کیا۔ میری لندن روانگی کی اطلاع ا میر صاحب نے حضور کے آفس بھجو ادی تھی ۔ لندن ایئرپورٹ پر حضورِانور کی ہدائت پر مقامی جماعت، گرین فورڈ کے صدر صاحب مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ میںبمثل کنویں کا مینڈک، پہلی مرتبہ پاکستان سے باہر نکلی تھی۔ اس لئے کوئی خاص اندازہ بھی نہیں تھا۔ لہذا لندن ائرپورٹ پر اپنے نام کی announcement بھی سن نہ سکی۔ سامان کے ساتھ جب money exchange کے کاؤنٹرپہنچی تو ایک معتبر ، مدبراوربزرگ نما صاحب مجھے کالی چادر میں دیکھ کر جس کا انہیں پہلے سے امیر صاحب کے ذریعہ علم تھا، نزدیک آئے ۔ نام وغیرہ پوچھ کرکہا کہ انہیں حضورِانور نے مجھے لینے کے لئے بھیجا ہے اور ہدائت کی ہے کہ ملاقات کے لئے سیدھاآپ کوانکے پاس لے آؤں اور ہوٹل وغیرہ پہنچا نے میں مدد کروں۔ یقین مانیےکہ مجھے یہ جان کر اس قدر خوشی ہو ئی اور میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں کہ خلیفہء وقت نے گرمیوں کے دنوں میں دوپہر چار بجے کے قریب، جبکہ آرام کا وقت ہوتا ہے، مجھ ناچیز کو خصوصی ملاقا ت کا شرف عنایت کیا ہے۔ بہت ہی اعلیٰ اورروح پرور ملاقات رہی ۔ اگلے دو دنوں میں بھی جماعت کا خصوصی تعاون رہا ۔ اس کے بعد میں ایک ماہ کےلئے ایڈنبرا، اسکاٹ لینڈ روانہ ہوگئی۔

اللہ تعا لیٰ کے فضل وکرم اور امام مسجد فضل لندن، عطاء المجیب راشد صاحب کے تعاون سے، لندن میں ایک سال قیام کے لئے ایک احمدی فیملی کےساتھ کرائے پررہنے کاانتظام ہوگیا تھا۔ یہ جگہ مسجد فضل سے بیس پچیس منٹ کے پیدل فاصلہ پرتھی ۔ ہماری دعا اور خواہش یہی تھی کہ گھر مسجد قریب ہو تاکہ شام کو مجلسِ عرفان میں شامل ہوسکیں ۔ تاہم یو نیورسٹی ہمیں کافی دور پڑتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری بیٹی باسمہ کے لئے بھی Baby sitterکا اچھا انتظام ایک احمدی خاتون (نانو) کے روپ میں گھر کے نزدیک ہی کردیا تھا۔ اس پورے عرصہ میں ہمیں خلافت کے سایہ تلے ہرجماعتی پروگرام اور جمعہ کی نماز میں بھر پور شمولیت کی توفیق ملتی رہی اور اس کے بہترین اثرات سے بچی کی تربیت میںبھی مدد ملی۔

پاکستان واپس آکرسرکاری نوکر ی اورپریکٹس جاری رہی۔ بفضلہ ِخدا، رہنے کے لئے مجھے ایک بڑا سرکاری مکان بھی الاٹ ہوگیا۔ رفتہ رفتہ جماعت اور لجنہ کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ ساتھ ہی فضل ِ عمر ہسپتال میں بطور چائلڈاسپیشلٹ وقف ِ عارضی، اور ضلعی سطح پر میڈیکل کیمپ کی صورت میں اللہ تعالیٰ خدمتِ خلق کی توفیق سے نوازتا رہا۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر نے جماعت کےلئے ایک سنٹر کی صورت اختیارکرلی تھی۔ اور حلقہ اور قیادت کے کئی پروگرام کرنے کی سعادت بھی ملتی رہی۔ چونکہ میرا کلینک گھر میں ہی تھا، لہذا کئی مرتبہ شام کو مریض بھی اجلاس یا جلسہ سیرت النبی وغیرہ میں شامل ہو جاتے تھے۔

خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے تحت میری سب سے چھوٹی بہن کلثوم بانو، جو مجھے بہت عزیز تھی ، اب بھی ہے، اسے میرے دو بھائی ہمارے گھر اسلام آباد لے آئے۔ گھر والوں کو کچھ شک تھا کہ ہم دو بہنوںکا اب بھی آپس میں رابطہ ہے ا س لئے اس کو بھی گھر میں تنگ کیا جاتا تھا۔ بھائی تو چند دن بعد بہن کو چھوڑکر واپس چلے گئے۔ ہم نے بہن کی آگے تعلیم اور رہن سہن کی ذمہ داری اٹھا لی ۔ اس نے ہما رے گھر کا ماحول، آنا جانا اور گھر میں جماعتی پروگرامزاور سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے احمدیہ لٹریچر بھی بغورپڑھنا شروع کردیا تھا، خاص طور پر الفضل اور تشحیذالاذہان رسالہ وغیرہ ۔ کچھ سوالات جو ہم سے نہیں کرپا تی تھی، اس کےلئے وہ مربی سلسلہ حسین احمد صاحب یا پھر ہمارے عزیزاحمدی بہن بھائی سے رابطہ کرلیتی تھی۔ ایک دن صبح ناشتہ کے وقت اچانک کچن میں آئی اور کتاب ’’ سلسلہ عالیہ احمدیہ ‘‘ کے ایک صفحہ کی عبارت پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ’’قاضی بھائی میں بیعت کےلئے تیار ہوں کہ اس عبارت کے مطابق میرے اس فیصلہ کا ذمہ دار اللہ ہے اور مجھ پر اس کا کوئی وبال نہیں ہوگاـــ‘‘۔ اس طرح کچھ سال ڈیڑھ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے بھی احمدیت ، یعنی حقیقی اسلام اور سچائی پانے کی توفیق عطا کی۔ بقول اس کے، قاضی صاحب کے اخلاق اور اخلاص نے اسے بہت متاثر کیا تھا جبکہ بہن ہونے کے ناطہ سے میں نے تو ا س کا خیال رکھنا ہی تھا۔ ا س طرح آٹھ بہن بھائیوں میں سے ہم دو بہنوں نے خوش قسمتی سے احمدیت کا ثمر پایا۔ کلثوم بانو بھی بفضلہٖ تعالیٰ موصیہ ہیں اور ربوہ میں واقفِ زندگی کے طور پر نصرت جہاں اکیڈمی میں ٹیچرہیں۔ ان کی موصیہ بیٹی بارعہ مناہل بھی وہیں اکیڈمی میں ٹیچنگ کرتی تھی اور اب چند روز پہلے جرمنی آگئی ہے۔

1983ءمیں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک اور انعام سے نوازا ۔ اور مجھے UNکی طرف سے امریکہ کی School of Public Health Boston University,میں MPH کورس کےلئے فیلوشپ ملی ۔ واپس آکر اگلے گریڈ میں ترقی بھی ہوگئی۔

اس عرصہ میں گھر والوں سے معمولی سا را بطہ استوار ہوا۔ کلثوم بانو کی شادی پر تین بہن بھائی شامل ہوئے تھے اور ربوہ بھی گئے تھے ۔ دارالضیافت میں رات ٹھہرے اور ربوہ کی سیر بھی کی بشمول بہشتی مقبرہ کے ۔ مگر امی اور دو بہن بھائی بدستور اپنی ضد اور سخت رویّہ پر قائم رہے۔

اسکے بعد کچھ سرکاری دھچکے بھی لگے جو کہ ایک طرح سے خدا تعالیٰ کی آزمائش اور ا س کے نتیجہ میں ہونے والے ثمرات کی نشاندہی کی طرف اشارہ تھا۔ قاضی صاحب کو تو (WHO/UN)عالمی ادارہِ صحت نے ستمبر 1997ء میں جنیوا میںکام کے سلسلے میں بلالیا تھا۔ جبکہ میں مرکزی حکومت کے سرکاری ہسپتال اورمرکزی وزارت میںبطور ا علیٰ افسر تعینات تھی۔ جب میں نے سرکا رسے دوسری مرتبہ یعنی1999ء میں جنیوا آنے کے لئے ایک ماہ کی چھٹی مانگی تواربابِ اختیار نے صاف انکار کردیا اور مجھ پر تبلیغ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے ہیڈ کوارٹر ہدایات لینے جاتی ہیں اور وہاں سے واپس آکر یہاں تبلیغ کرتی ہیں۔ چند دنو ںبعد دھمکی دی کہ آپ لا ڑکانہ سندھ ٹرانسفر ہو جا ئیں۔ حالانکہ میں 20 گریڈ کی اعلیٰ پوسٹ پر ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل کے طور پر کام کررہی تھی اور میرے اکاؤنٹ میںبیشمار چھٹیاں تنخواہ سمیت موجود تھیں۔ مگر سرکار کی ایک ہی ضدتھی جس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔ ایک دن آپریشن تھیٹر میں سرجری کرتے وقت جب میرے خلاف چارج شیٹ ایشوکرنے اور مجھے جیل بھیجنے کی دھمکی ملی تواندازہ ہوا کہ اب معاملہ بہت ہی گڑ بڑ اور سنگین ہو گیا ہے اور یہ لوگ قاضی صاحب کے ملک میں نہ ہونے کی وجہ سے جان بوجھ کر مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ لہذا فوراً ہی امیر صاحب اسلام آباد سے مشورہ کیا اور بیٹی باسمہ کو قاضی صاحب کے پاس جنیوا بھیج دیاکیونکہ اس کی موجودگی کی وجہ سے خطرہ کے ساتھ ساتھ ذمہ داری بھی کافی تھی۔ باسمہ کو بحفاظت اپنے والد کے پاس بھیج کر میں پھر کچھ نڈرسی بھی ہوگئی تھی کہ اب ان لوگوں سے صحیح طور پربحث کر سکتی ہوں۔

ہماری منسٹری میںمتعین جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والاا یک منافق قسم کا افسر تھا جوبظا ہرتو نماز کا پابند تھا مگرجائے نماز سے اٹھ کر سیدھا بے دھڑک جھوٹ ، مکاّری اور عیّاری سے بات کرتاتھا جس پر میری اس کے ساتھ قول و فعل کے تضاد اور منافقت پر کافی بحث بھی ہواکرتی تھی۔ حالانکہ ہم دونوں ہی20 گڑیڈ کے افسر تھے مگر اس کے پاس ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری تھی او ر ڈاکٹر ہو نے کی نسبت Technical اورMedical شعبۂ جا ت میرے ذمہ تھے۔

بعد ازاں معاہدہ کے تحت میری تبدیلی لاڑکانہ کردی گئی جہاں دو تین ہفتہ گزارنے کے بعد بالآخرمیں پانچ سال کی چھٹی بلا تنخواہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ تاہم میرے پیچھے سرکار نے گھر پر قبضہ کر کے سارا سامان باہر سڑک پر پھینک دیا حالانکہ گھر میں ایک احمدی خاندان رہائش پذیر تھا۔ بہر حال یہ سب دنیا وی اموال تھے جس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ جنیوا آکر خدا تعالیٰ نے بے انتہا دینی اور دنیاوی فضلوں سے نوزا۔ مجھے بھی رفتہ رفتہ WHO اور UNمیں کام مل گیا۔ کئی ملکوں اور آفت زدہ علاقوں میں بطور اعلیٰ افسر کام اور خدمت ِ خلق کا موقع ملا اور ساتھ ہی عزت بھی کمائی۔ بیٹی نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ، دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے دین ودنیا کی حسنات سے نوازا۔ اللہ کے فضل وکرم سے بیٹی بھی شادی کے بعد لندن میں خوش باش جماعتی خدمات کی توفیق پارہی ہے اور ساتھ ہی اپنی PHDبھی مکمل کررہی ہے۔

پاکستان کی سرکار نے تو صرف میرے ایک سرکاری مکان پر ہی قبضہ کیا تھا ۔ خداوند کریم نے ہمیں جنت ارضی یعنی سوئٹزرلینڈ میں ایک ایسا مکان بنادیا جو جماعت کی مسجد اور تبلیغ کےلئے کام آرہا ہے۔
یہاں میں تحدیثِ نعمت کے طور پر بتاتی چلوں۔ خدا تعالیٰ کی شان دیکھیں! اپنے وعدہ کے مطابق اس کی راہ میں کی گئی مالی قربانی کو وہ ضائع نہیں کرتا بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں گنا بڑھا چڑھا کر نوازتا ہے۔ اس ذاتِ باری نے محض اپنے خاص فضل وکرم سے ہمیں اس گھر کے لئے بینک سے لیا ہوا قرضہ دو سال قبل مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق دی۔ اور مزید انعامات کے نتیجہ میں محض بفضلِ تعالیٰ ہم نے اس گھر کا حصّہ جائیداد ادا کرنے کی توفیق بھی پائی۔ الحمدللہ!

پاکستان کی منسٹری نے تو میرےGP fund اور بقیہAllowancesمالیت تقریباً سولہ لاکھ روپے ، غبن کرلئے تھے جبکہ WHO/UNکی ایک دو ماہ کی تنخواہ نے ا س کی کسر پوری کردی تھی۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ ا س نے ہماری حقیر قربانی اور بروقت چندہ کی ادا ئیگی کو قبول کرتے ہوئے ہمیں اپنے وعدہ کے مطابق 700گنا سے زیادہ انعامات سے نوازا ۔الحمدللہ!

جن اربابِ اقتدار سرکاری لوگوں نے مجھے ا سلام آباد میں تنگ کیا تھا انہوں نے کچھ ہی عرصہ میں خدا کا عذاب اور لعنت دیکھی۔ اپنی ہی اولا دکے ہاتھوں رسوا اور ذلیل ہوئے۔ پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ ایک خاتون کو بڑھاپے میں طلاق ہوگئی اور اسی طرح مختلف لوگوں کے ساتھ خدا کی قدرت نے اپنے رنگ دکھائے۔ بعد میں انہی لوگوں نے بڑی معافیاں مانگیں، معذرتیں کیں اور دعا کی درخواست کہ ہم نے آ پ کو بہت ستایا تھاآپ حق پر تھیں۔ خدا کا فضل ملاحظہ کریں! کہ کچھ ہی عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے انہی کے دفاتر میںWHO/UN کے اعلیٰ افسر کے طور پرکئی مرتبہ ان کی کارکردگی ، پروجیکٹس کی جانچ پڑتال اوراخراجات کا جائزہ لینے کےلئے بھیجا ۔

سب سے بڑی خلش امّاں سے ملنے کی پوری نہ ہوسکی اور آج بھی کبھی کبھارمحسوس ہوتی ہے ۔ 9 ستمبر 1982ء کے بعد کبھی بھی اماں کی دہلیز نہ ملی اور نہ ہی ان کی شکل دیکھنے کو ملی۔ بسا اوقات بلڈنگ کے آس پاس گزری۔ بہت مرتبہ کوشش کی مگر دو بہن بھائی ہمیشہ رکاوٹ بنے رہے ۔ ہر دفعہ اماں کے سونے کا، نماز کا یا گھر نہ ہو نے کا بہانہ کرتے رہے۔ جھوٹ بولتے رہے کہ اماں مجھ سے ملنا نہیں چاہتیں جبکہ آخری د نوں میں وہ ملنے کو بہت ترستی رہیں۔ خوش قسمتی سے ایک مرتبہ ملازمہ کے فون اٹھا نے کی وجہ سے جب اماں سے بات چیت ہوئی تووہ کافی دلگیر لگیں۔ میرے جولائی2001ء میں پاکستان آنے کا سن کر کہنے لگیں کہ پھرتو دیر ہو جائےگی اور چند ہی دنوں بعد21 جون2001ءکو ہمیشہ کے لئے ہمیں تشنہ چھوڑ کر رخصت ہو گئیں ۔ انا للہ و اناالیہ راجعون! ا للہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اپنے جوارِرحمت میںجگہ عطا فرمائے آمین ! امی کی وفات کی نہ کسی نے مجھے بروقت اطلاع کی اور نہ ہی بعد میں مجھے گھر آنے دیا۔ شاید یہی وہ دشوار گزار راہوں میں سے ایک ہے جو تلاشِ حق میں سہنی پڑتی ہیں اور خدا بھی استقامت اور جلد صبر عطا فرماتا جاتاہے۔

اب اللہ کے فضل وکرم سے تمام بہن بھائی مل گئے ہیں۔ مجھ سے چھوٹا بھائی جس سے بہت دوستی تھی اور اسی نے گولی مارنے کی دھمکی بھی دی تھی ، اس سے 30 سال بعد2012ءمیں ملاقات ہو ئی اور الحمد للہ! اب تعلقات بھی قائم ہوگئے ہیں۔

سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں آکر جو نعمت مجھے عطا کی، وہ دین کی دولت ہے۔ دنیا تو وقتی ہے، آنی جانی ہے مگر جب دین ساتھ ہو تو اللہ کے فضلوں کےساتھ سب کچھ خود بخود آجاتا ہے۔ الحمد للہ! ہر مرحلے پر خدا کے خاص فضل وکرم سے جما عتی ذمہ داریاں احسن طریق پر ادا کرنے کی کوشش رہی او ر بفضل خدا تعالیٰ لجنہ کی روز بروزبڑھتی ہوئی ذمہ داریاں نبھانے کی بھی اسی ذاتِ باری سے توفیق مل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ انجامِ ِ آخر بھی با نصیب کرے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button