متفرق مضامین

قرآن مجید کی پاک تاثیرات (چھٹی قسط۔ آخری)

(عبدالرب انور محمود خان ۔ امریکہ)

سعید فطرت لوگوں کی توحید اور اسلام کی طرف رہنمائی کے دلچسپ و ایمان افروز واقعات

22

سورۃ الحجرات آیت 13

ھنری عیسیٰ آلڈریٹ


یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْااِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o(الحجرات13:)

ترجمہ:اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قبائل اور گروہوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو زیادہ متقی ہے ۔اللہ یقیناًبہت علم رکھنے والا اور بہت باخبر ہے۔

یہ آیت قرآنی انسانیت کی عمارت کے لئے ایک بنیادی ستون ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو پندرہ صدی پہلے قرآن نے پیش کیا اور دنیا کے مختلف تہذیب یا فتہ ممالک مثلاً فرانس،برطانیہ اور امریکہ نے اپنے ملکی دستور العمل میں اسے شامل کیا لیکن عملی طور پر اس میں ناکام رہے۔ اسی لئے دنیا میں طوفان بد تمیزی کا بازار گرم ہے۔ قومیں ایک دوسرے پر اپنی برتری کا سکہ بزور طاقت قائم کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کے اعمال اس کی روح سے کوسوں دور ہیں۔نہ اپنے ملکوں میں وہ برابری بلا امتیاز سلوک قائم کر سکے اور نہ ہی بین الاقوامی طور پر اس کی الف ب سے واقف ہیں۔

اس قدر عمدہ خیال جب بھی کسی کی نظر سے گزرتا ہے تو اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور امید واران امن کے سائے اس کو اپنی آغوش میں لینے کو تیار رہتے ہیں۔

ہنری عیسیٰ آلڈریٹ ( جو ایک میکسیکن طالب علم ہیں ) نے جب یہ آیت پڑھی تو فوری طور پر اس سے متا ثر ہو کر داخل اسلام ہو ئے۔یہ طالب علم کیلی فورنیا اسٹیٹ میں Linguistic کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خاکسار نے جب ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے مندرجہ ذیل بیان رقم کیا۔

ذاتی فون انٹرویو۔ لاس ا نجیلس7 جنوری 2016 ء

’’ جب میں نے اسلام کے بارے میںتحقیق کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے میں نے خود شناسی کی طرف توجہ کی۔میں ایک Mexican American ہوں اور میرے آباء و اجداد پر علاقائی تعصب کی وجہ سے بہت ظلم کئے گئے۔ میں مذہب سے بالکل بیزار ہو گیا تھا۔ ہر ابراہیمی مذہب کی تان اس بات پر ٹوٹتی تھی کہ وہ درست ہے اور دوسرے سب مذاہب نہ صرف غلط بلکہ دوسروں کو نیچا دکھانے والے اور نیچا سمجھنے والے ہیں اور ایک دوسرے کو مظالم کا نشانہ بنانا ان کا مذہبی فرض ہے۔توحید کے علمبرداروں سے میرا تعارف سوائےفرقہ وارانہ تعصب کے کچھ نہ تھا۔ہر مذہب اپنی برتری اس میں سمجھتا تھا کہ دوسرے مذہب کو حقارت سے دیکھے اور انسانیت کا شائبہ بھی ان میں موجود نہیں تھا۔ اس پس منظر میں مذہب کی محبت تقریباً نفرت سے بدل چکی تھی۔ یہاں تک کہ میں نے اسلام کی طرف رجوع کیا اور قرآن کریم کی اس آیت نے میرے سارے غم بھلا دیئے اور ایک اعلی محبت بخش پیغام عطا کیا اور وہ یہ آیت تھی۔

ترجمہ: ’’اے لوگو ! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو کئی گروہوں اور قبائل میں تقسیم کر دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اللہ یقیناً بہت علم رکھنے والااور بہت خبر رکھنے والا ہے ‘‘۔

اس آیت کو پڑھ کر میرے دل میں اسلام میں داخل ہونے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ خدا کا مقصد یہ تھا کہ تمام افراد اس کی مخلوق ہیں اور اس طرح خدا کی نظر میں سب برابر ہیں۔کیونکہ مجھے یہ احساس ہوا کہ اس آیت کے زیر سایہ بہ آسانی ایک عالَم قائم ہو سکتا ہے کیونکہ کسی مذہب کے پیروکار کسی پر اپنی برتری ثابت نہیں کرسکتے۔مجھے اس صداقت کی تلاش تھی کیونکہ یہ انسان کو رواداری سکھاتی ہے۔اس آیت کی روشنی میں وہ تمام مظالم جو میرے آباء واجدادنے برداشت کئے ان کو اس کا بہت اجر ملے گا۔ ان سب باتوں کو سمجھ کر میں نے مسجد جاکر تشہد پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔‘‘

(Mexican student personal story related in LA Times)

23

سورۃ الجن 2 تا 4 او ر آیات14

مصری عیسائی مناد ابراھیم خلیل کی داستان قبول اسلام

قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰ نًا عَجَبًاoیَھْدِیْ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا o وَّ اَنَّہُ تَعَالیٰ جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا oوَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْھُدٰٓ ی اٰمَنَّا بِہٖ فَمَنْ یُّؤمِنْ بِرَبِّہٖ فَلَا یَخَا فُ بَخْسًا وَّلَا رَھَقًا o

ترجمہ :تُو کہہ دے مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں میں سے کچھ ایسے افراد نے تجھ سے قرآن سنا،جب وہ اپنی قوم کی طرف لو ٹ کر گئے تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا۔وہ ہدایت کی طرف لے کر جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہم ایمان لائے۔ہم آئندہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دیں گے۔اور حق یہ ہے کہ ہمارا رب بہت شان والا ہے اور نہ اس نے کبھی کوئی بیوی بنائی اور نہ بیٹا بنایا ہے۔اور ہم نے تو جب ہدایت کا کلمہ سنا اس پر ایمان لے آئے اور جوشخص اپنے رب پر ایمان لاتا ہے تو نہ کسی نقصان سے ڈرتا ہے اور نہ کسی ظلم سے ڈرتا ہے۔

یہ وہ آیات ہیں جو ایک تاریخی واقعہ کی نشان دہی کر رہی ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمان میں وقوع میں آیا۔جب خدا کے رسول طائف سے واپس آ کر نخلہ کے مقام پر ٹھہرے۔ آپ ﷺ تلاوت قرآن میں مصروف تھے جب نصیبین سے آئے ہوئے سات افراد نے جو اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ،یہ آیات سنیں اور ان کو سن کر اسلام قبول کر لیا۔اور پھر اپنے وطن میں جا کر تبلیغ اسلام میں مصروف ہو گئے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ احقاف آیات 31-34 میں موجود ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ آ ج کے زمانے میں اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ وقوع میں آیا اور ایک عیسائی مناد جو عرصہ دراز تک عیسائیت کی تبلیغ کرتا تھا اور امریکہ اور مصر سے اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت کا حامل تھا ایک دن اچانک ریڈیو پر انہی آیات کی تلاوت سن کر مسلمان ہو گیا۔ اس کا بیان مختلف کتب اور انٹر نیٹ کے صفحات پر درج ہے۔ اس کی بیان کردہ تفصیل مختصر پیش خدمت ہے

ان آیات کو سن کر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کا نپ اٹھے اور جلد از جلد گھر آگئے۔ گھر پر انہوں نے اپنی اہلیہ سے اجازت لی کہ وہ رات بھر ایک کتاب پڑھیں گے۔ چنانچہ ساری رات وہ نمناک آنکھوں سے قرآن کریم کا مطالعہ کرتے رہے اور صبح انہوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے اس فیصلے سے اپنی بیوی کو آگاہ کیا۔ ان کی بیوی ایک کٹر عیسائی تھیں ۔وہ سخت برہم ہو ئیں اور ان کے چرچ کے بڑے افسر کو رپورٹ کر دی کہ کس طرح ان کے شوہر عیسائیت سے تائب ہو رہے ہیں۔ ان کے مشن کے سربراہ مسٹر شیوٹ نے ڈاکٹر ابراہیم سے ملاقات کی اور ان کے قبول اسلام کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔اور ان کو نوکری سے فراغت کی دھمکی دی۔ ڈاکٹر ابراہیم نے خود ہی استعفیٰ پیش کر دیا اور نوکری سے علیحدگی لے لی۔اور وہ اسوان سے قاہرہ آگئے۔25دسمبر 1959ء کو سرکاری طور پر تار کے ذریعہ استعفیٰ دے دیا اور اسلام قبول کر لیا۔

اس کے بعد ان کو شدید مالی اور جذباتی قربانی دینی پڑی۔آفرین ہے ڈاکٹر ابراہیم پر کہ انہوں نے اسلام کی خاطر ہر قربانی قبول کی اور ایمان کا ساتھ نہ چھوڑا۔

( ماخوذ از کتاب ’’ عیسائی مناد کا قبول اسلام ‘‘ صفحہ45-47 )

(Islamic Bulletin ,Sept 1992 San Francisco CA)

24

سورۃ النباء آیات 7 تا 11

ڈاکٹر اے۔ کے۔ گرمانس

اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًاoوَّ الْجِبَالَ اَوْتَادًاo وَّخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًاoوَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًاo وَّ جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًاo
ترجمہ:( سوچیں تو سہی ) کہ کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیںبنایا۔اور پہاڑوں کو میخوں کے طور پر نہیں گاڑا۔اور ( یہ بھی یا د رکھو ) کہ ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے۔اور ہم نے تمہاری نیندکو موجب راحت بنایا ہے۔اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا ہے۔

دنیا کے کروڑوں افراد ایسے خوش قسمت ہیں جو رؤیائے صادقہ اور ا لٰہی کلام و الہام سے فیضیاب ہو تے ہیں۔ ان کی زندگیاں اس روحانی لذت سے دوچارہو تی ہیں جو کروڑوں کی خواہش اور دلی تمنا ہو تی ہے۔ ان ہی خوش نصیب افراد میں ڈاکٹر عبد الکریم گرمانس بھی ہیں جن کی پیدائش بوڈا پسٹ ہنگری میں ہوئی۔انہوں نے علم و معرفت میں قومی اعزازات حاصل کئے اور مختلف زبانوں کے ماہر تھے۔ باوجود علم و ہنر کے مینار تھے مگر قلبی طور پر بڑے بے چین رہتے تھے۔اور اس وجہ سے سو نہ سکتے تھے مگر ہر وقت حصول امن کے لئے سراپا دعا رہتے یہاں تک کہ ایک رات خدا کے رسول ﷺ ان کے خواب میں تشریف لائے اور ان کو سورۃ النباء کی یہ آیات پڑھ کر سنائیں اور اعادہ کیں۔ اس واقعہ کے بعد و ہ نہ صرف کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے بلکہ چار سے پانچ ہزار افراد کے مجمع میں نماز جمعہ کے بعد سب کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ ان کا اسلامی نام عبد الکریم رکھا گیا۔

انہوں نے خود اپنی کہانی قلم بند کی ہے جو مختلف websites پر درج ہے۔ ذیل میں Discovering Islam کی ویب سائٹ سے یہ کہانی درج کی جاتی ہے۔

یہ کہانی ایک کتاب Islam Our Choice میں شامل ہے۔ اس کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے :
6 Gyale Germanusنومبر 1884 کو بوڈاپسٹ شہر میں پیدا ہوئے اور 7 نومبر 1979 ء کو وہیں وفات پائی۔ 1930 ء میں اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنا نام عبدالکریم پسند کیا۔ 1906ء میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری History of Ottoman Poetry میں حاصل کی۔ متعدد زبانوں کے ماہر تھے اور ہنگری کی Royal Eastern Academy میں لسانیات کے پروفیسر تھے اور ترکی اور عربی زبان کے استاد رہے۔1915 ء میں Red Crescent Army میں ایک عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ وہ اپنی داستان میں لکھتے ہیں :
’’ میرا دماغ بہت زر خیز اور علوم سے پُر تھا۔ میری روح پیاسی تھی۔ مجھے سارے علوم جو میں نے حاصل کئے ان کو جوڑ کر اس آگ پر قابو پانا تھا جو میرے قلب اور روح میں بھڑک رہی تھی۔اس لوہے کی طرح جو آگ میں ڈالا جائے اور پانی پڑنے سے فولاد ہو جائے۔ اسی رات آپ کے رسول ﷺمجھے خواب میں آئے۔ ان کی لمبی داڑھی تھی جو حنا سے رنگی ہوئی تھی۔ آپ کی عباء بہت قیمتی سادہ تھی اور ایک بھینی بھینی خوشبو آپ کے لباس سے فضا میں بھر رہی تھی۔ آپ کی آنکھیں چمکدار اور جیسے ایک مقدس نور ہو۔ انہوں نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا ’آپ پریشان کیوں ہیں ؟ صراط مستقیم آپ کے سامنے ہے احتیاط سے زمین میں پھیل جائواس میںپر عزم قدموں سے چلو اور اپنے ایمان کی قوت سے یہ سفر طے کرو۔ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول آپ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنے دشمنوں پر قابو پا لیا۔ آپ آسمانی دعوت پیش کررہے تھے اور آپ کی کوششوں میں غیر معمولی برکت پڑی مجھے تو ابھی مصائب کا سامنا ہے اور مجھے کیا معلوم کہ میں یہ مشکلیں برداشت کر سکتا ہوں اور مجھے اطمینان نصیب ہو گا۔

آپ ﷺ نے غصہ اور سنجیدگی سے مجھے دیکھا اور عارفانہ لہجہ میں خدا کا یہ فرمان مجھے سنایا اور یہ آیات تلاوت کیں ( سورۃ النباء آیت 7تا 11) میں نے عرض کی کہ میں سو نہیں سکتا آپ میری دعا کے ساتھ مدد کریں۔ اس وقت ایک بڑی آواز میرے گلے سے نکلی اور میں گھبرا کر نیند سے بیدار ہو گیا۔ میرا سارا جسم پسینے سے شرابور تھا۔‘‘

اس خواب نے ڈاکٹر گرمانس کی ساری زندگی بدل دی اور وہ ایک ہفتے بعد جمعہ کے روز مسجد گئے اور چار پانچ ہزار نمازیوں کے مجمع کے سامنے عربی میں تقریر کی اور سار ا خواب سنایا۔اسلام کی حالت زار کا ذکر کیا اور مسلمانوں کو تبلیغ اسلام کی دعوت دی۔ سارے مجمع نے اللہ اکبر کے نعروں سے ان کو خراج تحسین پیش کیا اور اس دن کلمہ شہادت کے بعد لوگوں نے بے حد مبارکباد دی۔ ’’ جس کا اثر ساری زندگی مجھ پر رہے گا ‘‘

ویب سائٹ کا پتہ درج ذیل ہے :۔

Islam: our Choice (pages 40-44 )
(https://dl.islamhouse.com/data/en/ih_islam_is_our_choice.pdf)

25

سوۃ العلق اورسورۃ الکافرون

مسٹر علی آف جاپان کا قبول اسلام

21 سالہ جاپانی نوجوان مسٹر علی قرآن کریم کی دو سورتوں سورۃ الکافرون اور سورۃ العلق پر غور کرنے کے نتیجے میں اسلام سے بہت متاثر ہوئے اور ترکی میں اسلام قبول کر لیا۔ اسلام سے قبل وہ بدھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہ اسلام کی خو بیوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی ساری فیملی مسلمان ہو گئی۔ یہ نو جوان چھ زبانیں جانتے ہیں۔انہوں نے قرآن کریم سے متاثر ہو کر عربی سیکھی اور سورۃ کا فرون ان کو بہترین متوازن تعلیم محسوس ہوئی اور سورۃ العلق پڑھ کر انہوں نے کہا کہ یہ پہلی قرآنی سورت میری انتہائی پسندیدہ ہے۔ وہ اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ اسلام ہر انسانی مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔ اس لنک پر ان کا پورا قبول اسلام کا واقعہ موجود ہے۔

(https://www.youtube.com/watch?v=ZQKkz69q020)

26

سورۃ الانشراح

رحیم جنگ کا قبولِ اسلام

شیخ فہد الکندی نے متعدد لوگوں کی وڈیو بنائی ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی چند آیات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ان میں سے ایک انگریز جوان رحیم جنگ (Raheem Jung) کی کہانی ہے جو لندن کے باشندے ہیں اور چالیس سال سے یہیں مقیم ہیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں اور سب کے سب مسلمان ہیں۔ وہ موسیقی سے متعلق رہے اور امریکہ کے مشہور زمانہ Stevie Wonder کے ساتھ لندن میں کام کیا۔ اگرچہ ان کی والدہ عیسائی تھیںمگر رحیم جنگ کا مذہب موسیقی تھا۔ موسیقی اور لعب و لہو ان کی زندگی تھی۔ وہ ہر سال تعطیلات گزارنے اپنے ایک دوست کے ہمراہ جاتے تھے۔ ایک سال ان کے دوست تعطیل پر نہ جاسکے کیونکہ وہ حج پر چلے گئے۔ حج سے واپسی پر ان کے دوست ایک نئے انسان بن گئے اور دنیاوی لذات سے دور چلے گئے تھے۔ رحیم جنگ مالی مشکلات میں پھنس گئے۔اپنے دوست کے کہنے پر انہوں نے خدا کی طرف رجوع کیا اور خدا سے ایک سودا کیا کہ اگر خدا ان کو مشکلات سے نجات دے گا تو وہ اچھے انسان بن جائیں گے۔ اسی دوران انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور سورۃ الانشراح کی اس آیات سے بہت متاثر ہوئے فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًایعنی ہر تنگی کے بعد آسانی آتی ہے۔ اس آیت کے بغور مطالعہ نے ان کو اسلام میں داخل کر دیا۔

(https://www.youtube.com/watch?v=ZQKkz69q020)

27

سورۃ اللہب

ڈاکٹر گیری ملر کی داستان قبول اسلام

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الَّرحِیْمِ o تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ oمَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَا لُہُ وَمَا کَسَبَ oسَیَصْلٰے نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ o وَّامْرَأَتُہٗ حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ o فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ o

ترجمہ:میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے ( پڑھتا ہوں)شعلہ کے باپ کے دونوں ہاتھ شل ہو گئے اور وہ خود بھی شل ہو کررہ گیا۔نہ کام آیا اس کے اس کا مال اور نہ اس کی کو ششوں نے کوئی فائدہ دیا۔وہ ضرور آگ میں پڑے گا جو اسی (کی طرح ) شعلے مارنے والی ہوگی۔اس کی بیوی بھی جو ایندھن اٹھا اٹھا کر لاتی ہے ( آگ میں پڑے گی )۔اس کی( بیوی )کی گردن میں کھجور کا سخت بٹا ہوا رسّہ باندھا جائے گا۔

سنت اللہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کامیاب ہوتے ہیں اور معاندین پسپا ہو جاتے ہیں۔مندرجہ بالا سورت میں بھی آنحضرتﷺ کے ایک شدید معاند کی تباہی کی خبر دی۔ تاریخ اسلام ہم کو بتلاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں دعویٰ نبوت فرمایا۔ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے عزیز و اقارب کو پیغام حق پہنچائیں۔ چناچہ حضور ﷺ اس الٰہی ارشاد کے مطابق صفا کی پہاڑی پر تشریف لے گئے اور اپنے تمام رشتے داروںکو جمع کیا اور ان سے یوں مخاطب ہوئے ’’یا بنو عبد المطلب ! یابنو قہر! یا بنو لعائے! اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے عقب سے ایک لشکر جرار تم پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم مان لیں گے۔ آپ نے فرمایا تو سنو ! میں تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ میںخدا کی طرف سے نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں اور ایک خطرناک انجام کی خبر دیتا ہوں۔ تمام مجمع ہکّا بکّا رہ گیا۔ سوائے ایک شخص کے جس نے یہ کہا کہ تُو ہی تباہ ہو جائے گا (نعوذ باللہ)۔کیاتُو نے صرف اس لئے ہمیں یہاں جمع کیا تھا۔یہ شخص آ نحضرت ﷺ کا چچا ابو لہب تھا جو کہ حضور کا جانی دشمن ثابت ہوا۔

اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو اس سورت کے بارے میں آگاہ کیا اور مخالفت سے باز آنے کی نصیحت کی۔ مگر ابو لہب اور اس کی بیوی اُمّ جمیل مخالفتوں میں مزید بڑھتے رہے اور دس سال بعد یہ خاندان اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔ابو لہب طاعون سے ہلاک ہوا اور اس کی بیوی گلے میں رسّے کا پھندا ڈال کر مار ی گئی۔

ایک عیسائی محقق پادری اور حساب دان ڈاکٹر گیری ملر (Gary Miller)نے جب اس سورہ پر غور کیا تو ان کو اس سورت میں بیان کردہ پیشگوئی ہوبہو پوری ہوتی نظر آئی۔چنانچہ 1978ء میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

ڈاکٹر مِلّر عیسائی مذہب کا پرچار کرتے تھے۔ انہوں نے اس غرض سے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا کہ وہ اس میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کرسکیں۔اور ان کو دکھا کر مسلمانوں کو عیسائیت کی طرف مائل کریں۔لیکن مطالعہ قرآن کا ان پر بالکل برعکس اثر ہوا۔ وہ قرآن کریم کے اس قدر بڑے مداح بن گئے اور اس ضمن میں انہوں نے 44 صفحات پر مشتمل ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام

” The Amazing Quran "

ہے۔ سورۃ لہب اور سورۃ ا لنساء آیت 83 پڑھ کر و ہ داخل اسلام ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں۔

1۔ ـ ’’ آنحضرت ﷺ کے ایک چچا بنام ابو لہب تھے۔وہ حضور ﷺ سے سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ حضور ﷺ کا تعاقب کرتے۔ جب حضور کسی سے گفتگو ختم کرتے تو وہ اس شخص کے پاس جاتے اور اس سے سوال کرتے کہ محمد نے کیا کہا؟ کیا انہوں نے کالا کہا ہے، تو وہ اصل میں سفید ہے۔ اگر انہوں نے رات کا ذکر کیا ہے تو اصل میں وہ دن ہے۔ وہ باقاعدگی سے حضور ﷺ کی کہی ہر بات کی نفی کرتے۔ بایں ہمہ ابو لہب کی وفات سے دس سال قبل ایک چھوٹی سی سورت اللہب نازل ہوئی جو ابو لہب کے بارے میں ایک پیشگوئی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ابو لہب جہنم رسید ہوگا اور کبھی اسلام قبول نہیں کرے گا۔ ابو لہب کے لئے بہت آسان تھا ، وہ کہہ سکتا تھا کہ میرے بارے میں محمد نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ میں کبھی اسلام قبول نہیں کروں گا، اب میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور اس طور پر محمد کا جھوٹ سب پر عیاں ہو جائے گا۔ اب تم کیا کہو گے محمد، تم کیا سوچ سکتے ہو؟ چونکہ وہ ہمیشہ آپ ﷺ کی نفی کرتا تھا اوربالکل الٹ بات کرتا تھا۔ یہ اس کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ لیکن ایسا کچھ ظہور میں نہیں آیا۔ دس سال کے عرصہ میں نہ وہ مسلمان ہوا اور نہ ہی اسلام کے لئے کوئی ہمدردی کا کلمہ استعمال کیا۔ یہ بتلاتا ہے کہ محمد کو جو خبر دی گئی تھی وہ درست ثابت ہوئی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کی محکم دلیل ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی دس سال کی مہلت دے کہ اسکو غلط ثابت کیا جا سکے مگر یہ نہ ہوا۔ یہ صرف اسی حالت میں ممکن ہے جب پیشگوئی کرنے والا سچا رسول ہو۔ ‘‘

(کتاب حیرت انگیز قرآن Quran” "The Amazing صفحہ 29,30 )

2۔ امتحان بطلان Falsification Test

اس کتاب میں وہ ایک امتحان بطلان پیش کرتے ہیں:۔

’’ ایک مکمل مثال جو اسلام اپنی سچائی کے ثبوت میں پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اس کو جھوٹا ثابت کیا جائے۔ اس کی مثال سورۃ نساء کی آیت 82 میں یوں ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

’’ پس کیا وہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے اور نہیں سمجھتے کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت سے اختلاف ہوتے ‘‘

یہ غیر مسلموں کے لئے ایک واضح چیلنج ہے۔یہ ان کو دعوت دیتا ہے کہ قرآن کی غلطیوں کی نشان دہی کرو۔ فی الحقیقت اس چیلنج کی سنجیدگی اور مشکلات سے قطع نظراس قسم کے چیلنج کو پیش کرنا بذ ات خود فطرت انسانی کا حصہ نہیں اور ایک غیر فطری امر ہے۔ ایک شخص اسکول کے کسی امتحان میں شامل نہیں ہوتا کہ امتحان کا پرچہ مکمل کرکے ممتحن کو ایک نوٹ بھیجے کہ یہ امتحا ن بالکل perfect ہے اور اس میں کوئی غلطی نہیں، اگر نکال سکتے ہو تونکال کر دکھائو۔کوئی شخص پرچہ دیکھ کر یہ خامیاں نہ نکال لیوے۔قرآن کریم تمام انسانوں کو چیلنج دیتا ہے۔ ‘‘

( صفحہ12 )

وہ مزید لکھتے ہیں ’’قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کو نازل کرنے والا رب العالمین خدا ہے اور اس کے منطقی اور نقلی دلائل پیش کئے گئے ،سورۃ نمبر 26 میں یہ لکھا ہے :

’’ اور یہ شیطان اس قرآن کو لے کر نہیں اترا اور نہ یہ کام ان کے مطابق حال تھا اور نہ ہی وہ یہ طاقت رکھتے تھے۔وہ یقیناً کلام الٰہی سے دور رکھے گئے ہیں۔‘‘

ایک اور جگہ قرآن میں یہ نصیحت ملتی ہے ’’اے مخاطب! جب تُو قرآن پڑھنے لگے تو دھتکارے ہوئے شیطان کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر۔ ‘‘

اب یہ سوچئے کہ اس طرح شیطان کوئی کتاب لکھے گا اورخداسے یہ کہے گا کہ قاری کو شیطان سے محفوظ رکھ! ‘‘ (حیرت انگیز قرآن صفحہ 32-36 )

اس طرح کے مختلف قرآنی محاسن کا اس کتاب میں ذکر ہے۔ اس طور پر ڈاکٹر Garry Miller قرآن کریم کے ایک بڑے نامور مداح ہیں۔

28

سورۃالا خلا ص کا زبردست اثر چارا فراد کا قبول اسلام

سورۃ اخلاص قرآن کریم کی ایک مختصر سورت ہے اور صرف پانچ آیات پر مشتمل ہے۔لیکن اس کو ایک تہائی قرآن کہا جاتا ہے اور اسلام کے سب سے اہم رکن یعنی وحدانیت خدا وند اس سورت کا لُبّ لُباب ہے اور تمام فلسفیانہ سوالات کا جواب اس میں دیا گیا ہے۔ہروہ انسان جو خالی الذہن ہو کر اس پر غور کرے گا وہ اس کا گرویدہ ہو جائے گا اور حلقہ بگوش اسلام ہو جائے گا۔آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک صحابی کو اس سورت سے اس قدر محبت تھی کہ وہ امامت نماز میں قیام میں سورت فاتحہ کے بعد اس سورت کو ضرور پڑھتے تھے۔حضور ﷺ کواس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے ا ن سے استفسار فرمایا۔ ان صحابی نے عرض کی کہ انہیں سورت اخلاص سے بے حد محبت ہے۔ اس پر خدا کے رسول ﷺ نے اس خوش نصیب صحابی کو جنت کی خوش خبری دی۔

قبولیت اسلام کی داستانوں کی تحقیق میں ذیل کی چار دلکش اور ایمان افروز داستانیں سامنے آئی ہیں جن کو پڑھ کر نہ صرف ازدیاد ایمان ہو تا ہے بلکہ یہ پتہ چلتا ہے کہ توحید باری تعالیٰ انتہائی سخت معاندین کے قلوب پر ایک انتہائی خو شگوار اثر پیدا کرتی ہے۔اور ان چار لوگوں نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ تمام مصائب اٹھا کر بھی ان کے پا یہ استقلال میں جنبش نہ آئی۔

کہانی نمبرDr Ali Salman Benoist 1

سب سے پہلے تو ایک فرانسیسی ڈاکٹر علی سلمان بینواسٹ کا قصہ ہے جو ایک کیتھولک خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن فطرتاً تثلیث سے نفرت کرتے تھے۔ اور کبھی حضرت عیسیٰ کو ابن اللہ نہیں مانتے تھے۔اپنی رقم کی ہوئی داستان میں وہ تحریر کرتے ہیں:

’’میرے علم طب نے جو سائنسی بنیادوں پر قائم ہے کبھی موہوم تصورات کی طرف رغبت پیدا نہیں کی۔ہمیشہ خدا کی واحدانیت میرے دل میں رہی اور عیسائیت کا تثلیثی عقیدہ میرے اندرونی دماغ میں کبھی داخل نہیں ہوا۔بلکہ ہمیشہ میں تثلیث اور حضرت عیسیٰ کی ابنیت کامنکر رہا ہوں۔ اسلام کے بارے میں عدم علم ہونے کے باوجود میں کلمہ اسلام کے پہلے حصہ یعنی لَااِ لٰہَ اِلَّا اللہُ کا دل سے قائل تھا اور قرآن کریم کی سورۃالا خلاص کو دل کی گہرائیوں میں راسخ پاتا تھا۔‘‘

عیسائی عقائد کی نفی کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’عیسائی منادوں کا گناہ سے رہائی دلانے کے لئے ان کے ہاتھ پر توبہ وغیرہ اصول سے مجھے نفرت تھی۔ دوسرا امر جو بہت ضروری ہے کہ عیسائی عقائد اور تعلیمات میں بدنی صفائی کی تاکید یا نصیحت اس مذہب میں مفقود اور میرے نزدیک یہ امر خدا کی رحمانیت ہے۔ اس نے ہمیں روح

کے ساتھ جسم بھی عطا کیا ہے اور ضروری تھا کہ جسم کی صفائی پر زور دیا جاتا۔ اس امر میںاسلام ہی وہ مذہب ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔میرے قبول اسلام کا بنیادی محرک قرآن کریم ہے۔میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور اور ایک تنقیدی نظر سے تحقیق کی۔ اس سلسلے میں مسٹر مالک بیتابی کی کتاب La Phenomene Quranic سے قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا علم ہوا۔ اس میں بعض آیات ایسی ہیں جو موجودہ سائنسی تحقیقات سے بے نظیرمطابقت رکھتی ہیں۔ یہ امر بھی مجھے کلمے کے دوسرے جزو ’’مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ ‘‘ پر ایمان لانے کے لئے کافی تھا۔ چنانچہ 29 فروری 1953 کو میں نے فرانس کی ایک مسجد میں کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا اور وہاں کے مفتی نے میرا نام علی سلمان رکھا۔ میں مسلمان ہو کربہت خوش ہوں اور دوبارہ کلمہ پڑھتا ہوں۔‘‘

(ماخوذ از ’’ اسلام ہمارا شعار‘‘ صفحہ نمبر 33-35 پبلشر بارانی اکیڈمی لاہور پاکستان 1961)

(http://www.islamreligion.com/articles/1176/dr-ali-selman
-benoist-ex-cathoilic-france/)

کہانی نمبرMartin Muai PoPo 2

یہ کہانی ایسے معزز شخص کی ہے جو دینی تبحر علمی اور ذہن کی رسائی میں ترقی کرتے کرتے دنیائے عیسائیت میں ایک اعلی مقام پر پہنچ گئے۔ سن 1965 ء میں انہوں نے Church Administration میں B.A کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعدجرمنی سے M.A اورپھر ڈاکٹریٹ کی تعلیم میں داخلہ لیا۔ ساری زندگی انہوں نے عیسائی منّاد کی حیثیت سے گزاری اور بھرپور عیسائیت کا پرچار کرتے رہے۔

61 سال کی عمر میں انہیں East African Council of Churches کا چیئر مین بنادیا گیا۔ وہ Ph.D کر رہے تھے تو انہیں احساس ہوا کہ وہ جس چیز کا پرچار کرتے آئے ہیں وہ زندگی کے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے بلکہ دماغ میں مزید ہیجان پیدا کرتی ہے۔ متعدد بار ان کو یقین ہوا کہ عیسائیت دنیا کے مسائل کا حل نہیں۔ اب وہ دوسرے مذاہب میں ان سوالات کا حل معلوم کرنے کے عازم ہوئے اور بالآخر اسلام کے مطالعہ کی طرف مائل ہوگئے۔جونہی انہوں نے قرآن کریم کی ورق گردانی شروع کی ان کے سامنے سورۃ اخلاص آئی اور وہ تمام سوالات جو عیسائیت میں تلاش کرنے میں وہ ناکام رہے تھے پانچ آیات کی اس سورۃ نے ان سوالوں کے جواب مہیا کر دیئے۔کرسمس سے تین دن قبل انہوں نے ایک بھری محفل میں اسلام کا اعلان کر دیا بلکہ اپنی ڈاکٹری کی Thesis بھی اس بیان پر مکمل کی کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور سورۃ اخلاص کا نظریہ پیش کیا۔ اس طور پر سورۃ اخلاص کا سحر آمیز اثر اس عیسائی پادری کو وحدانیت کا دلدادہ بنا گیا۔

( یہ مضمون islamweb.net سے ماخوذ ہے )

(http://www.islamweb.net/en/article/34701/)

کہانی نمبر 3: ساریہ اسلام

کیرالہ کی ایک خاتون ساریہ اسلام ( جن کا نام قبل از اسلام ساریہ کنٹریکٹر تھا ) نے کثرت سے سورۃ اخلاص کا ورد کیا اور قرآن کے گہرے مطالعہ سے بمبئی ائیر پورٹ پر اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ قبول اسلام سے قبل وہ ایک کٹر رومن کیتھولک خاندان میں پلی بڑھی تھیں۔ ان کی داستا ن بڑی دلچسپ ہے۔ ان کی والدہ چرچ میں ایک بہت فعّال کارکن تھیں۔انتہائی مذہبی خیالات کی حامل تھیں۔ ان کی تجارت میں ابراہیم خان وکیل نے کام شروع کیا اور ان کو دعوت اسلام دی۔ کچھ خوابوں کی وجہ سے وہ عیسائیت کے بارے میں شکوک کا شکار تھیں۔ابراہیم صاحب کی بر وقت دعوت نے ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا کردی اور کچھ عرصہ بعد وہ مسلمان ہو گئیں۔لیکن خاتون کے شوہر نے عیسائیت ترک نہ کی بلکہ اپنی بیوی سے مذہب کی وجہ سے علیحدہ ہو گئے۔خاندان کے اس طرح ٹوٹ جانے کا بچوں پر بہت برا اثر ہوا اور ساریہ مذہب سے سخت متنفر ہو گئی۔بالخصوص اسلام سے جس کی وجہ سے ان کی والدہ علیحدہ ہوگئی تھیں۔

ساریہ نے اب سنجیدگی سے مذہب پر غور کرنا شروع کیا۔ ان کی مسلمان والدہ نے ان کو یہ نصیحت کی کہ بائبل کی ہر لائن کا مطالعہ کیا جائے اور ساتھ ہی انہوںنے اپنی بیٹی کو سورۃ اخلاص اور اس کا ترجمہ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کا کثرت سے ورد کیا کرو۔

بائبل کے بغور مطالعہ سے ساریہ کو علم ہوا کہ اس کتاب میں کتنے تضادات ہیں اور بے شمار تعلیمات ناقابل عمل ہیں۔

اس کے بعد ساریہ نے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا سراپا رحمت اور نور پر مبنی سورۃ اخلاص ان کے دل میں گھر کر گئی اور انہوں نے قبول اسلام کا فیصلہ کر لیا۔ چند دنوں کے بعد ان کی والدہ بمبئی کے ہوائی اڈے پر اتریں تو ساریہ نے ان کو یہ خوش خبری دی کہ وہ کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو نا چاہتی ہیں۔ چنانچہ قبول اسلام ائیر پورٹ پر عمل میں آیا۔ کچھ دنوں بعد ساراخاندان مسلمان ہو گیا۔

کہانی نمبر 4 : جیسیکا سی

یہ سنگا پور کی ایک نوجوان خاتون ہیں جو کسی انشورنس کمپنی میں کام کرتی تھیں اور اسلامی حجاب سے بے حد متاثر تھیں۔اور حجاب پہن کر دفتر جاتی تھیں۔ دریافت کرنے پر کہ کیا وہ مسلمان ہیں اثبات میں جوا ب دیتیں۔ بالآخر چند ماہ بعد قرآن کریم کے مطالعے سے توحید باری تعالیٰ نے انہیں اسلام کا گرویدہ بنادیا اور اس کا منبع سورۃ اخلاص بنی۔ایک جریدےYugen Says میں ایڈیٹر نے ان کا انٹر ویو لیا تو انہوں نے سورۃ اخلاص کی بے حد تعریف کی اور یہ کہا کہ میرے اسلام لانے کا محرک یہی سورۃ ہے۔ اور اب وہ اعلانیہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتی ہیں۔ ان کا یہ انٹر ویو شوئع ہو چکا ہے اور اس کا لنک ذیل میں درج ہے۔

The Secret Life of Muslim Converts in Malaysia Sunday, 28th april 2013, YugenSays.com

(http://www.yugensays.com/2013/04/the-secret-life-of-muslim-converts-in -islam)


حرف آخر

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر سارے حرف سیاہی بن جائیں اور سارے درختوں کے قلم بنا دیئے جائیں اور ان قلموں سے میرے ربّ کے کلمات لکھے جائیں تو سب کچھ ختم ہو جائے گا مگر میرے ربّ کے کلمات ختم نہیں ہو ں گے۔

اگر پندرہ صدیوں پہلے نجاشی بادشاہ کی آنکھوں میں قرآنی آیات سن کر آنسوئوں کا دھارا جاری ہوا تھا تو آج مرکز تثلیث یعنی ویٹیکن کے ایک پادری نے تدریس کے دوران اسی آیت کو سن کر نہ صرف نمناک آنکھوں کا مشاہدہ کیا بلکہ ان آنسوئوں نے اسے اسلام کی طرف مائل کیا اور وہ مسلمان ہو گیا ۔

کیا یہ محض اتفاقی امور ہیں ؟ یا قرآن کریم کی مقناطیسی قوت ہے جو قارئین کے دل موہ لیتی ہے۔ یہی نہیںبلکہ ایک اور دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ بعض آیات نہ صرف بعض زمانوںمیں انقلابی تبدیلی کی وجہ بنیں بلکہ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والوں کوسورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص نے پوری قوت اور شوکت کے ساتھ متاثر کیا۔کیرالہ کی بچی نے ساری رات سورۃ الا خلاص کا ورد کیا تو ایک فرانسیسی ڈاکٹر سورۃ الفاتحہ کے اثر سے مدہوش ہو گیا۔اگر ایک سمندر کا غوطہ خور پانچ دہائیوں پہلے عاشق قرآن ہواتو موجودہ دور میں ایک امریکن Marine پر یہی اثرات مرتب ہوئے اور یہ دونوں ہی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔

قرآن کریم میں ایک پیشگوئی درج ہے کہ غیر مسلم معاندین کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ اسلام کو نیست و نابود کر دیں لیکن ہم بتاتے ہیں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔

دور حاضر میں 11 ستمبر کا سانحہ ساری دنیا میں تشدد کی ایک زندہ مثال ہے۔اس تشدد کے خلاف امریکن رد عمل غضبناک ہے اور ساری قوتیں اس کے استیصال میں مصروف ہیں۔انہی ایام میں قرآن کریم کی روشنی نے سعید روحوں پر اثر کیا اور اسی ملک کے حفاظت پر مامور کارندوں نے بچشم خود یہ مشاہدہ کیا کہ اسلام اصل حقیقت ہے اور اس کے خلاف باقی سارا گھنائونا پرپیگنڈا ہے اور سورۃ الفاتحہ کی ایک جھلک نے US Marineپر دوران ڈیوٹی اس قدر زبردست اثر کیا کہ اس نے تثلیث کا جامہ اتار پھینکا اور توحید حقیقی کو قبول کر لیا۔

عورتوں کے بارے میں جو غلط امور کی تشہیر کی جارہی ہے اس کی حقیقت بھی ایک چوٹی کی صحافی خاتون نے بچشم خود ملاحظہ کی اور ’عورت ‘ کے بارے میں جملہ آیات قرآنی مطالعہ کیں اور اس نتیجے پر پہنچیں

کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز

اگر لولوئے عمّاںہے وگر لعل بدخشاں ہے

خاتون صحافی ایون ریڈلی جب مسلمان ہوئیں تو BBC نے یہ سرخی لگائی ’’کابل سے کعبہ تک ‘‘۔ اب وہ اسلام کی حمایت میں برطانیہ سے ایک blog شائع کرتی ہیں۔

بے شمار عیسائی حضرات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بے حد محبت کرتے ہیں اور ان میں سے متعدد ایسے ہیں کہ اس محبت میں سرشار ہو کر وہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ مسیح صلیب پر فوت ہو سکتے ہیں۔سرسری قرآنی مطالعہ نے ان پر ثابت کردیا کہ مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ اسی لمحے انہوںنے دین اسلام میں پورے زور سے شامل ہو نے کی خواہش ظاہر کی اور تشہد پڑھ لیا۔

وینزویلا کے نو جوان انجینئر کی روئداد قبول اسلام اسی طرح پر ہے کہ سورۃ النساء پڑھ کر سائمن آلفریڈو کیرا بولا نے ایک مختصر کتابچہ لکھا کہ کس طرح محبت مسیح نے انہیں دعوت اسلام دی۔

عموماً سمجھا جاتا ہے کہ تبدیلی مذہب عموماً جوانی یا ادھیڑ عمر میں نصیب ہوتی ہے۔ یہ نہیںدیکھا گیا کہ 60 سال سے زائد عمر پانے والے اس حصہ عمر میں تبدیلی مذہب کی طرف راغب ہوں گے لیکن مارگریٹ ٹمپلٹن نے 65 سال کی عمر میں سورۃ فاتحہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔اسی طرح اس مضمون میں سائنسدانوں کے قبول اسلام کی الگ داستان شامل ہے جس نے ہزاروں سائنسدانوں کے سامنے قبول اسلام کیا۔

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button