متفرق مضامین

احمدیوں پر ہونے والے مظالم(1982ء تا 2003ء )مختصر جائزہ

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

(نصیر احمد قمر)

’’قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنّت اللہ ہے کہ وہ ورطۂ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں۔ لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہوں جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں۔ اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں۔ لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں۔ اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے۔ اور وہ ہر طرح سے ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں۔ اور بدظنیاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سچے ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے۔ پس ایک مدّت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔ اور اگر اس برگزیدہ پر بشریت کے تقاضاسے کچھ قبض طاری ہو تو خدا تعالیٰ اس کو ان الفاظ سے تسلّی دیتا ہے کہ صبر کر جیسا کہ پہلوں نے صبر کیا اور فرماتا ہے کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں سنتا اور دیکھتا ہوں۔پس وہ صبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ امر مقدّر اپنے مدّت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے۔ تب غیرتِ الٰہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلّی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے۔ سو اوّل نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے۔ اسی طرح خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہو گی اور ٹھٹھا ہو گا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن آخر نصرت الٰہی تیرے شامل حال ہو گی اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا۔‘‘

(انوار الاسلام۔ روحانی خزائن جلدنمبر9صفحہ 53تا 54)

جماعت احمدیہ کے آغاز سے لے کر آج تک مخالفین احمدیت کی طرف سے تمسخر اور استہزاء ، کذب و افتراء اور ظلم و ستم کی ساری تاریخ حضور علیہ السلام کے مذکورہ بالا ارشاد کی حقّانیت پر گواہ ہے۔جماعت کی مخالفت کی جو لہریں اٹھتی رہیں کبھی کبھی ان میں غیر معمولی شدّت پیدا ہو جاتی رہی ہے۔ اور انفرادی یا مقامی طور پر ہی نہیں بلکہ مخالفین کی اجتماعی اور منظّم سازشوں کے نتیجہ میں ظلم و ستم کی کارروائیاں بہت بڑھ جاتی رہیں اور بعض اوقات جب حکومت اور اس کی انتظامیہ بھی اس سازش کا حصہ بنی اور مختلف قوانین کا سہارا لے کر اپنے خیال میں اسے نابود کرنے کے منصوبے بنائے تو اس خدائے بزرگ و برتر نے جو صبر کرنے والوں اور تقویٰ اور راستی سے کام لینے والوں کو کبھی بے یار و مددگار اور مخذول نہیں چھوڑتا اپنی قدرت کے زبردست نشانوں سے ان کی مدد فرمائی اور انجامکار انہیں فتح اور کامیابی سے نوازا اور ان کے دشمنوں کو مغلوب، رُسوا اور شرمندہ کیا۔

خلافتِ رابعہ کے آغاز سے ہی مخالفین احمدیت کی طرف سے جماعت کے خلاف خصوصیت سے پاکستان میں منظّم سازشوں اور شرارتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بعض رؤیا کی بنا پر اور خداداد فراست اور بعض اطلاعات و شواہد کی بنا پر اس بارہ میں افرادِ جماعت کو قرآنِ مجید اور تاریخ انبیاء کی روشنی میں ہر قسم کے حالات کا صبر اور دعاؤں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شرّ پسند مُلّاؤں اور پاکستان کی حکومت کی ملی بھگت اور ان کی فتنہ انگیزیاں نمایاں اور بھیانک ہو کر ظاہر ہوتی رہیں۔

1983ء میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اسلم قریشی نامی ایک شخص کی (مزعومہ) گمشدگی کو بنیادبنا کر پاکستان بھر میں احمدیت کی مخالفت کی ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اور اس تحریک کو حکومتی سرپرستی میں آگے بڑھایا۔ اور احمدیوں کو جنہیں 1974ءمیں آئینی اور قانونی اغراض کے لیے غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا اب اپنے آپ کو مسلمان کہنےاور اسلامی شعائر، اسلامی اصطلاحات وغیرہ کے استعمال سے روکنے کے لیے قانون سازی کرنے، انہیں کلیدی عہدوں سے ہٹانے اوراسلم قریشی نامی ایک نام نہاد مولوی کے مبیّنہ اغوا اور قتل کے الزام کے سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو شاملِ تفتیش کرنے کے علی الاعلان مطالبات کیے گئے۔(اسلم قریشی کے مبیّنہ طور پر اغواء کے مفتریانہ الزام کی حقیقت سے متعلق مختصر ذکر آئندہ شمارہ میں کیا جائے گا۔)

اس ضمن میں پاکستان کے بڑے بڑے شہروں مثلاً ًکراچی، لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی نیز چنیوٹ وغیرہ میں ختمِ نبوت کانفرنسز کا انعقاد کیا گیااور ان مطالبات کو دہرایا گیا۔ واضح طور پر حکومت کی پُشت پناہی میں مخالفت کی ایک لہر چلائی گئی،احمدیوں کی دکانیں جلائی گئیں، مساجد کے تقدّس کو پامال کر کے انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا، شہادتیں ہوئیں، لٹریچر ضبط کیا گیا۔

مولویوں کی سازشوں کو بھانپتے ہوئے جماعتِ احمدیہ نے اپنے پر لگائے جانے والے الزامات و اعتراضات کا شافی جواب دیتے ہوئے ایک پمفلٹ ’’اک حرفِ ناصحانہ‘‘ شائع کروایاجسے اپریل 1984ء کے پہلے عشرہ میں احمدی احباب کے ذریعے ملک بھر میں تقسیم کروایا گیا۔ پمفلٹ میں مذکور حقائق سے لاجواب ہو کر ردِّ عمل میں معاندین احمدیت کی طرف سے اخباری بیانات دیے گئے ، اسے خلافِ آئین قرار دیا گیا اور اس کی تقسیم پر تشویش کا اظہار کیا گیا یہاں تک کہ حکومتی سطح پر DCجھنگ کے حکم کے ماتحت اسے ضبط کر لیا گیا، اس کی تشہیر کی ممانعت کر دی گئی اور اس کو تقسیم کرنے والے احباب کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ متعدّد احمدیوں کو اس ’جرم‘ میں قید و بند کی صعوبتیں دی گئیں اور تشدّد کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر کسی ایک مخالف نے بھی ’اِک حرفِ ناصحانہ‘ میں بیان کئے گئے امور کا جواب دینے کی کوشش نہ کی۔

پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کا جاری کردہ نہایت بہیمانہ، بھیانک اور تاریک ’صدارتی آرڈیننس XX‘

اپریل 84ء میں بلکہ اس سے پہلے ہی مختلف ذرائع سے یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ حکومت احمدیوں کے متعلق ایک آرڈیننس جاری کرنے والی ہے جس سے جماعت کے لئے بہت سی مشکلات کھڑی ہونے والی ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے مورخہ 26؍ اپریل 1984ء کو ’صدارتی آرڈیننس نمبر 20‘ (آرڈیننس XX) کا اجراء اور نفاذ کیا۔ اس کا اعلان رات 9؍ بجے کی خبروں میں کیا گیا۔ اس آرڈیننس کے مندرجات پہلے سے معلوم اطلاعات سے بہت حد تک مطابقت رکھتے تھے۔ اس آرڈیننس کے مطابق

نمبر 1۔ احمدی الفاظ سے چاہے وہ قول ہو یا تحریر یا کوئی دوسری علامت ہو

الف۔ حضرت محمد ﷺ کے خلفا ء اور صحابہ کے علاوہ کسی اور شخص کو

۔ امیر المومنین

۔ خلیفۃ المومنین

۔ خلیفۃ المسلمین

۔ صحا بی

۔ رضی اللہ عنہ

کے الفاظ سے نہیں پکارسکتےیا ان کی طرف ان القابات کو منسوب نہیں کر سکتے ؛

ب۔ حضرت محمد ﷺ کی ازواجِ مطہرات کے علاوہ کسی اور فرد کو

6۔ امّ المومنین

کے لفظ سے نہیں پکار سکتے یا ان کی طرف اس لقب کو منسوب نہیں کرسکتے ؛

ج۔ حضرت محمد ﷺ کے اہلِ بیت کے علاوہ کسی اور فرد کو

۔ اہلِ بیت

کے لفظ سے نہیں پکار سکتے یا ان کی طرف اس لقب کو منسوب نہیں کرسکتے ؛

د۔ اپنی عبادتگاہ کو

۔ مسجد

کا نام نہیں دے سکتے، اسے اس لفظ سے نہیں پکارسکتے یا اس کی طرف اسے منسوب نہیں کر سکتے ؛

نمبر 2۔ احمدی اپنے مذہب کی عبادت (نماز)کی طرف پکارے جانے کو

۔ اذان

کے لفظ سے نہیں پکارسکتے ،اذان نہیں دے سکتےجیسا کہ مسلمانوں کا طرزِ عمل ہے ۔

دفعہ نمبر ج/298 ۔احمدی بلا واسطہ یا بالواسطہ

۔ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے،

۔ اپنے عقیدے کو اسلام نہیں کہہ سکتے،

۔ اپنے عقیدہ کا پرچار و تبلیغ نہیں کر سکتے،

دوسروں کو اپنے عقیدہ میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دے سکتے ایسے الفاظ سے جو چاہے قولی صورت میں ہوں یا تحریری صورت میں، یا کسی بھی ظاہری صورت میں، یا کسی بھی ایسی صورت میں جن سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔

مندرجہ بالا تمام شقوں میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال تک قید اورغیر معین، غیرمحدود جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ

۔ ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس XXXمجریہ 1963ء کے سیکشن 24؍ میں زیر (jj)دفعہ 298 ب، اوردفعہ 298 ج میں مذکور امور سے متعلقہ مواد شائع کرنے پر تین سال تک قید اور غیر معین جرمانہ کی سزا کا اضافہ کر دیا گیا۔

(www.thepersecution.org)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اسلام کے نام پر اس نہایت بہیمانہ بھیانک اور تاریک آرڈیننس کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ

’’ اس آرڈیننس کے ذریعے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو، جماعت کو، نہ صرف یہ کہ لاؤڈ سپیکر پر خطابات سے محروم کیا گیا بلکہ ایسے اقدامات کئے گئے ہیں جن کے نتیجہ میں جماعت پاکستان خلیفۂ وقت کے وہاں رہتے ہوئے بھی اس کے خطابات سے محروم رہ جائے… ہر وقت یہ خطرہ تھا کہ اس خطاب کے نتیجے میں کسی وقت مجھے گورنمنٹ ہاتھ ڈال سکتی ہے کیونکہ ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی انہوں نے Limitation اپنے لئے چھوڑی ہی نہیں باقی۔ ایسا قانون ہے جس کے نتیجے میں ہر پولیس افسر جس کو چاہے، جس وقت چاہے، احمدی کو پکڑ لے اور تین سال کے لئے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دے۔ کسی شریف انسان کی حفاظت کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا وہاں…وہاں جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں کسی احمدی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ زبان سے یا ایسے ذریعے سے جس میں زبان یا تحریر نہ بھی استعمال ہو لیکن اس کی bearing ،اس کا چال چلن اس کو مسلمان ظاہر کرتا ہو؟ اگر وہ ایسا کرے گا توتین سال کے لئے پاکستان کے قانون کے مطابق جیل میں بھجوانے کے لائق ہو گا۔ اورصحابہءکرام حضرت مسیح موعود کے متعلق وہ کوئی دعائیہ کلمات ایسے استعمال نہیں کر سکتا جو قرآن نے سکھائے ہیں اور کوئی قرآنی اصطلاح استعمال نہیں کر سکتا باوجود یہ ایمان رکھنے کے کہ قرآن میرے لئے واجب التعمیل ہے اور اس کا حکم میرے لئے ماننا ضروری ہے۔ اذان نہیں دے سکتا۔‘‘اور حکومت کا کہنا ہے کہ ’’ یہ قانون اس لئے بنایا جارہا ہے تا کہ قادیانیوں کو ’اسلام دشمن سرگرمیوں‘ سے روکا جائے۔ اوراسلام دشمن سرگرمیوں کی تعریف یہ ہے کہ اذان نہیں دیں گے۔ وہ اسلامی اصطلاحیں استعمال نہیں کریں گے۔ عبادتگاہوں کو’’مسجد‘‘ نہیں کہیں گے ۔یہ اسلام دشمن سرگرمیاں ہیں!‘‘

(ماخوذ از خطاب فرمودہ 30؍اپریل 1984ء بمقام لندن)

اس ظالمانہ آرڈیننس کے تحت پاکستان میں  احمدیوں کی روزمرہ کی زندگی کو قانون کی نظر میں ایک جرم بنا دیا گیا۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس نہایت ظالمانہ آرڈیننس نے صرف پاکستان کے احمدیوں کی روزمرہ کی زندگی کو ہی جرم نہیں بنایا اور انہیں کو شدید قلبی و ذہنی اور روحانی اذیت میں مبتلا نہیں کیا بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو بھی شدید اذیت میں ڈال دیا۔ کیونکہ جماعت احمدیہ عالمگیر خلافت کے ذریعہ ایک سِلک وحدت میں پروئی ہوئی جماعت ہے اور ایک امام کے تابع ایک وجود کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے احمدیوں کو پہنچنے والی ہر تکلیف، ہر دکھ، ہر اسیری، ہر شہادت دنیا بھر کے احمدیوں کے دلوں پر چرکے لگانے والی تھی اور وہ اپنی آزادی کو جرم سمجھنے لگے تھے اور تڑپتے تھے کہ کاش اپنے ان بھائیوں کی جگہ وہ یہ قربانیاں پیش کر رہے ہوتے۔ وہ اپنے بھائیوں کے دکھ درد سے الگ زندگی بسر نہیں کر سکتے تھے۔ اس پہلو سے اس ظالمانہ آرڈیننس کا دائرہ اثر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے احمدیوں پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ وہ آرڈیننس ہے جس کے ذریعہ پاکستان کے احمدیوں کو مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر اور تمام بنیادی انسانی حقوق سے گویا کلّیۃً محروم کر دیاگیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا

’’یہ عجیب واقعہ ہوا ہے جو دنیا کی تاریخ کے لحاظ سے پہلا ہے۔ یہ سیاسی Issueکے نام پر سیاسی حکومت کی طرف سے ایک فیصلہ ہوا ہے اس لئے یہ پہلا ہے۔ مذہب میں پہلا نہیں ہے۔ آج تک سیاسی حکومتوں کی طرف سے کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا تھا کہ ٹارچر اور ظلم کے ذریعے کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرے۔ٹارچر او ر ظلم سچ نکلوانے کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے سچ نکلتا تھا تو ان کو مانتے تھے یا نہیں مانتے تھے۔ یہ بالکل الگ بات ہے۔ بعض دفعہ پھر بھی نہیں مانتے تھے لیکن مقاصد ہمیشہ ٹارچر کے دنیاوی حکومتوں کی طرف سے جنگوں میں بھی اور ویسے بھی یہ رہے ہیں کہ ظلم کر کے، ستا کر سچ نکلوایا جائے گا۔ اور یہ پہلا تاریخی واقعہ ہے کہ ایک سیاسی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ظلم کر کے جھوٹ نکلوایا جائے۔ جب تک وہ جھوٹ نہ بولے اس وقت تک ظلم کرتے چلے جاؤ اور سچ نہیں بولنے دینا۔

خلافت اور نظام جماعت کے خلاف ایک عالمی سازش

یہ آرڈیننس جماعت کے خلاف اور نظامِ خلافت کے خلاف ایک نہایت ہی بھیانک سازش اور خطرناک اقدام تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 28؍ دسمبر 1984ء کو بمقام پیرس (فرانس) خطبہ جمعہ میں فرمایا

’’جو کچھ پاکستان میں ہورہاہے یہ کوئی تنہا ایک ملک میں ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی سازش کے نتیجہ میں ہورہاہے۔اس عالمی سازش میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ملوّث ہیں اور اسلامی ممالک میں سے بعض ملک بھی ملوّث ہیں اس لئے ان واقعات کی جڑیں بہت گہری اوربہت دُور تک جاتی ہیںاوراللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔ہم اگر یہ کہیں کہ فلاں بھی اس میں ذمہ دار ہے اور فلاں بھی اس میں ذمہ دار ہے تو دنیا والے تو کہیں گے تم اسی طرح باتیں کرتے ہو جس طرح لوگوں کو عادت ہے ہر بات کوکسی بڑی طاقت کے سرپر تھوپ دینا،ہر بات کو اس سے پہلے کی گئی کسی سازش کا نتیجہ قراردے دینا،یہ ساری باتیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیںاور کوئی بھی ہمارے کہنے پراس کوتسلیم نہیں کر سکتا۔ لیکن فی الحقیقت ایسا ہی ہے اور بڑی گہری نظر سے اور بڑی وسیع نظر سے مَیں نے جو حالات کامطالعہ کیا ہے تومجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش ہے جو دراصل عالم اسلام کے خلاف ہے اور عالم اسلام ہی کو اس سازش کا آلۂ کار بنایاجارہاہے اورجن کو آلۂ کار بنایاجارہاہے ان کو علم بھی نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں،کیوں کررہے ہیں؟کن مقاصد کے لئے، کن اسلام کے دشمنوںکو فائدہ پہنچانے کے لئے کررہے ہیں؟ اس لئے کوئی آپ کی بات یا میری بات کوتسلیم نہیں کرے گا لیکن اللہ کی نظر تو حقائق کے پاتال تک ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے اس لئے جب وہ سزا کا فیصلہ کرتا ہے تو سب مجرموں کو پکڑتاہے۔…

یہ حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کی حفاظت خدا تعالیٰ فرمائے گااس میں کوئی بھی شک نہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ بہر حال ایک تکلیف کے دور میں سے پھر بھی گزرے گی۔ اس میںبھی کوئی شک نہیں کہ ہر فرد جماعت خواہ وہ معصوم بھی ہواس کی ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی اور اس میں بھی ذرا شک نہیں کہ دنیا میں سب آدمی خطا کار نہیں ہوتے ۔ …

جماعت احمدیہ کے لئے جو خطرات ہیں یہ تو ہمیں خواہ کتنے سنگین دکھائی دیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہر خطرہ کے بعد جماعت احمدیہ کے او پراللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں اور برکتوں کی بارشیں نازل ہوئی ہیں۔ کوئی بھی ایسا وقت نہیں آیا جماعت پر جسے ہم کڑا وقت کہہ سکتے ہیں جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بے انتہا فضل نہ فرمائے ہوں۔تو ہمارا تو ایک ضامن موجود ہے۔ہماراتو ایک مقتدر موجود ہے جس کے ہاتھ میں ہمارا ہاتھ ہے وہ کبھی ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔اس کامل یقین کے ساتھ ہم ہمیشہ زندہ رہے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے لیکن وہ بد نصیب جو اس مقتدر سے غافل ہیں جو اس کی تقدیر کے خلاف ترکیبیں سوچ رہے ہیں۔

وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں بر خلاف شہر یار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ132)

اللہ تعالیٰ کے ارادوں کے خلاف،اس کی تقدیر سے ٹکرانے والی تدبیریں سوچ رہے ہیں ان کا تو کوئی ضامن،کوئی محافظ نہیں۔ کوئی ولی نہیںہے ان کا …۔

تو قوم کے لئے بھی دعا کریں اور ان مسلمان ممالک کے لئے بھی دعا کریں جو بد قسمتی سے لاعلمی میں آلۂ کار بنے ہوئے ہیں بعض دشمنانِ اسلام طاقتوں کا۔ اور پھر کُل عالم کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ یہ جو حالات ہیں جب یہ زیادہ آگے بڑھیں گے تو ہماراایک خدا ہے جو غیرت رکھنے والا خدا ہے جو بعض اوقات جب حد سے زیادہ اس کے پیاروں کو ستایا جائے تو بڑے جلال کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہوا کرتا ہے اور جہاں تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میںگستاخی کا تعلق ہے یہ ملک یعنی پاکستان تو حد سے بڑھ چکا ہے۔ یعنی کبھی دنیا میںکسی نے کوئی حکومت ایسی نہیں دیکھی ہوگی جس کے سربراہ فحش کلامی کو اپنے لئے عزت افزائی کا موجب سمجھیں، تکذیب کو اپنے لئے ایک عظمت کانشان بنالیں اور بڑے فخر کے ساتھ افترا پر دازی کریں،جھوٹ بولیں، جھوٹ کو شائع کریںاور پھرخدا کے پاک بندوں پر گند اچھالیں اور پھر قوم سے داد لینے کی خواہش کریں۔ایسے واقعات تو کبھی دنیا میں کسی حکومت کی طرف سے رونما نہیں ہوئے ہوں گے سوائے قدیم زمانوں کے فرعون جن کے قصے ہم سنا کرتے تھے لیکن سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس جدید زمانے میں یہ واقعات ہوسکتے ہیں۔

جو سازش ہے احمدیت کے خلاف وہ بہت گہری ہے اور ابھی کلّیۃً پوری کھل کرآپ کے سامنے بھی نہیں آئی۔جو واقعات آپ کے سامنے آچکے ہیں ان کی بھی کُنہ کوآپ میں سے بہت سے نہیں پہنچ سکتے۔ان کو معلوم نہیں ہوسکتا دیکھنے والوں کوکہ آخر یہ کون سی منزل ہے جس کی طرف یہ واقعات ایک جلوس کی شکل میں روانہ ہورہے ہیں ۔امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیت کی جڑوں پر حملہ کیا گیاہے اس مرتبہ اور احمدیت کے استیصال کی ایک نہایت ہی خوفناک سازش ہے اور صرف ایک ملک میں نہیں تمام عالم میںاس ساز ش کے کچھ آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں اور ان کی کڑیاں مل رہی ہیں۔ مثلاً انڈونیشیا میں بھی اسی نہج پر کام شروع ہوگیا ہے جس طرح آج سے دس سال پہلے پاکستان میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ملائیشیا میں بھی انہی بنیادوںپر کام شروع ہو چکا ہے جماعت احمدیہ کے خلاف۔ اسی طرح افریقن ممالک کو بھی رشوتیں دی جارہی ہیں اور روپے کا لالچ دے کر ان کو اکسایا جارہاہے کہ جماعت کے خلاف اقدامات کریںاوران ممالک کے ذمہ دار افسران چونکہ نسبتاً بہت زیادہ شریف النفس ہیں وہ سردست تو اس دبائو کا مقابلہ کررہے ہیں بلکہ خود جماعت کو مطلع کررہے ہیں کہ ہم سے یہ مطالبات ہورہے ہیں۔ اور یہ صرف جماعت احمدیہ کے خلاف سازش نہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک سازش ہے عالم اسلام کے خلاف جس کا مقصد یہ ہے کہ مُلّا کی حکومت تمام مسلمان ممالک پر قائم کردی جائے اور ُملّا چونکہ زمانہ کے حالات سے بے خبر اور جاہل ہوتا ہے،اسے پتہ ہی نہیں کہ کسی قوم کے مفادات کا تقاضا کیا ہے ، اس کو تو صرف اپنے ذاتی مقاصد سے غرض ہے اور نہ قرآن کا علم نہ دین کا علم اورنہ دنیا کاعلم اس لئے اگر ایک جاہل قوم کو مذہب کے نام پر کسی ملک پر مسلّط کردیاجائے تو پھروہ آقا جو ان لوگوں کو مسلّط کرتے ہیں وہ بے دھڑک جو چاہیں ا ن سے کام لیتے ہیں۔

چنانچہ عجیب بات ہے کہ ہر جگہ جہاں بھی مذہبی جنونی حکومت قائم کی گئی ہے خواہ وہ اشتراکی ملکوں کی طرف سے قائم کی گئی ہو خواہ وہ مغربی ملکوں کی طرف سے قائم کی گئی ہو ایک ہی دین کے نام پر بالکل برعکس سمت میں وہ حکومتیں حرکت کررہی ہیں۔ یعنی ایسی اسلامی حکومتیں آپ کو ملیں گی جو اسلام کے نام پر اشتراکیت کے حق میں کام کررہی ہیں اور ایسی اسلامی حکومتیں بھی آپ کو ملیں گی جو اسلام کے نام پر اشتراکیت کے خلاف اور آمریت یا مغربی جمہوریت کے حق میں کام کررہی ہیں یا Capitalism کے حق میں کام کررہی ہیں۔ایک ہی مذہب ہے، ایک ہی کتاب ہے،ایک ہی نبی ہے لیکن بالکل برعکس نتیجے نکالے جارہے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کواوپر لایا گیا ہے خاص مقاصد کی خاطر لایا گیا ہے۔ اسلام کا نام محض بدنام کرنے کے لئے استعمال ہورہاہے۔مقصد یہ ہے Intolerant Regimes قائم کی جائیں۔ایسی حکومتیں قائم کی جائیں جن کے اندر نہ عقل ہو ، نہ فہم ہو صرف ایک بات پائی جائے ایک خوبی ان میں موجود ہوکہ وہ ڈنڈے کے زور سے اپنی بات منوانا جانتی ہوں اورعقل کو کلّیتہً چھٹی دے کر اس بات سے بے نیاز ہوکر کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہتی ہے کیا سوچتی ہے،جو بات ان کو سمجھائی جائے وہ اس کو کر گزرنے کے لئے آمادہ ہوں۔ایسی Regimes ، ایسی طاقتیں جب بھی دنیا میں آتی ہیں تو تباہی مچا دیا کرتی ہیں۔چنانچہ اسلام کے ساتھ اس وقت یہ ہورہا ہے۔جہاں مشرقی طاقتوں کا زور چل رہاہے وہ اپنی مرضی کی حکومتیں مذہب اسلام کے نام پر قائم کئے ہوئے ہیں۔جہاں مغربی طاقتوں کا زور چل رہا ہے وہ اپنی پسند کی حکومتیں قائم کررہے ہیںاور دونوں کی اس معاملہ میں ایک دوسرے سے سبقت کی دوڑ ہورہی ہے۔چنانچہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے یا مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہورہاہے یا مشرق وسطیٰ کی جن طاقتوں کو ان اغراض کے لئے استعمال کیاجارہاہے یہ ساری باتیں عالمی سیاست کااور مشرق اور مغرب کی جنگ کا ایک طبعی نتیجہ ہیںاوریہ ساری کڑیاں ان کے ساتھ جاکر ملتی ہیں۔

بہر حال اس وقت جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے یہ ابھی پوری طرح آپ کے سامنے کھل کر نہیں آیا، میں مختصراً آپ کو متنبہ کرناچاہتا ہوں کہ سوائے اس کے کہ اللہ کی تقدیر کسی ایسے وقت میںآکر ان کی اس تدبیر کو کاٹ دے اور خدا کی پکڑ کا وقت ان کی سکیموں کے مکمل ہونے کے وقت سے پہلے آجائے ان کے ارادے ایسے ہیں کہ ان کو سوچ کر بھی ایک انسان جس کا کوئی دنیا میں سہارا نہ ہو اس کی ساری زندگی بے قرار ہو سکتی ہے۔ اس کے تصورسے بھی انسان کا وجود لرزنے لگتا ہے۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ نہ مجھ پر یہ اثر ہے نہ آپ پریہ اثر ہو گا کیونکہ میں بھی جانتا ہوں کہ ہمارا خدا موجود ہے جو ہمارے ساتھ رہا ہے ہمیشہ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ رہے گا اورآپ بھی یہ جانتے ہیں۔ اس لئے جب میں آپ سے یہ بات کرتا ہوںتو ڈرانے کی خاطر نہیں کرتا صرف بتانے کے لئے کہ آنکھیں کھول کر وقت گزاریںکہ کیا ارادے ہیں جن کی طرف یہ ملک حرکت کررہا ہے جن کو رفتہ رفتہ کھول رہا ہے۔

اس دور میں یعنی 1984ءکی جو شرارت ہے اس میں ایک مکمل سکیم کے تابع پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مرکز کو ملیا میٹ کرنے کا ارادہ تھا اورجماعت احمدیہ کی ہر اس انسٹی ٹیوشن، ہر اس تنظیم پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ تھا جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے ایسے قانون بنائے جن کے نتیجہ میں خلیفہ وقت پاکستان میں رہتے ہوئے خلافت کا کوئی بھی فریضہ سر انجام نہیں دے سکتا ۔ایک احمدی جو دیہات میں زندگی بسرکر رہا ہے یا شہر وں میں بھی غیر معروف زندگی بسر کررہا ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے بھی ، اسلام کی تبلیغ بھی کرے جیسا کہ کرتا ہے تو نہ حکومت کو اس کی کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے نہ وہ حکومت کی نظر میں آتا ہے اور اگر کبھی آبھی جائے تو اس کے پکڑے جانے سے فرق کوئی نہیں پڑتا ۔ اس کی تو اپنی خواہش پوری ہوجاتی ہے کہ میں پکڑا جائوں اور خدا کی خاطر میں بھی کوئی تکلیف اٹھائوں لیکن ایک خلیفہ وقت اگر پاکستان میں السلام علیکم بھی کہے تو حکومت کے پاس یہ ذریعہ موجود ہے اور وہ قانون موجود ہے جس کو بروئے کار لاکر وہ اسے پکڑ کر تین سال کے لئے جماعت سے الگ کرسکتے ہیں اور یہی نیت تھی اور ابھی بھی ہے کہ جہاں تک جماعت کے بڑ ے آدمی یعنی جو دنیا کی نظر میں بڑے کہلاتے ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ جماعت کے ایسے لوگ ،ایسے ذمہ دار افسران جو کسی نہ کسی لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ارادے یہ ہیں کہ ان کے اوپر کسی طرح ہاتھ ڈالا جا سکے اور اس کا آغاز انہوں نے خلافت سے کیا۔

چنانچہ میرے آنے سے دو تین دن پہلے کے اندرجو واقعات ہوئے ہیں ان کا اس وقت تو ہمیں پورا علم نہیں تھا کیونکہ خدا کی تقدیر نے خاص رنگ میں میرے با ہر بھجوانے کا انتظام فرمایا۔ اس کی تفاصیل کچھ میں نے بیان کی تھیں، کچھ آئندہ کسی وقت بیان کروں گا۔ لیکن میں جس بات کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خلافت کے قلع قمع کی ایک نہایت بھیانک سازش تھی جس کی پہلی کڑی یہ سوچی گئی تھی کہ خلیفہ وقت کو اگر وہ کسی طرح بھی مسلما ن ظاہر کرے اپنے آپ کو تو فوری طور پر قید کرکے تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دیا جائے اور ہمارے آنے کے بعد جو اطلاعیں ملیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ آرڈرز جا چکے تھے بلکہ بعض حکومت کے افسران نے جو بڑے ذمہ دار اور اوپر کے افسران ہیں انہوں نے بعض احمدیوں کو بتایا کہ حیرت کی بات ہے تم لوگ کس طرح اتنی جلدی حرکت میں آگئے اور تمہیں کیسے پتہ چلاکہ کیا ہونے والا ہے کیونکہ آرڈرز یہ تھے کہ اگریہ خطبہ دے جو آرڈیننس کے دوسرے دن آرہا تھا تو خطبہ چونکہ ایک اسلامی کام ہے اور صرف اسی بہانے پراس کو پکڑا جاسکتا ہے کہ تم مسلمان بنے ہو خطبہ دے کر، تشہد پڑھا ہے اس کے نتیجہ میں پکڑا جا سکتا ہے تواگر خطبہ دے تو تب پکڑو اور اگرخطبہ نہ دے تو پھر کوئی بہانہ تلاش کرو اور ایک بھی مسجد میں ربوہ کے اگر اذان ہوجائے یا کوئی اور بہانہ مل جائے تو تب بھی اس کو پکڑلواور آخری آرڈر یہ تھا کہ اگر کوئی بہانہ نہ بھی ملے تو تراشو اور پکڑو۔مراد یہ تھی کہ خلیفہ وقت اگر ربوہ میں رہے تو ایک مردہ کی حیثیت سے وہاں رہے اور اپنے فرائض منصبی میں سے کوئی بھی ادا نہ کرسکے۔اگر وہ ایسا کرنے پر تیار ہوایک مردہ کی طرح زندہ رہنے پر تیار ہو تو ساری جماعت کا ایمان ختم ہوجائے گا، ساری جماعت یہ سوچے گی کہ خلیفہ وقت ہمیں تو قربانیوں کے لئے بلا رہا ہے، ہمیں تو کہتا ہے کہ اسلام کا نام بلند کرو اور خود ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا ۔چنانچہ جماعت کے ایمان پر حملہ تھایہ اور اگر خلیفہ وقت بولے جماعت کا ایمان بچانے کے لئے تو اس کو تین سال کے لئے جماعت سے الگ کردو۔ چونکہ نظام جماعت ایک نئے خلیفہ کا انتخاب کرہی نہیں سکتا جب تک پہلا خلیفہ مرنہ جائے اس وقت تک اس لحاظ سے تین سال کے لئے جماعت اپنی مرکزی قیادت سے محروم رہ جائے گی اورجس جماعت کو خلیفہ وقت کی عادت ہو جو نظام خلیفہ کے محور کے گرد گھومتا ہو اس کو کبھی بھی خلیفہ کی عدم موجودگی میں کوئی انجمن نہیں سنبھال سکتی۔ … ناممکن ہے کہ خلافت کی کوئی متبادل چیز ایسی ہوجو خلافت کی جگہ لے لے اور دل اسی طرح تسکین پاجائیں۔

تو تین سال کا عرصہ جماعت سے خلافت کی ایسی علیحدگی کہ کوئی رابطہ قائم نہ رہ سکے یہ اتنی خوفناک سازش تھی کہ اگر خدانخواستہ یہ عمل میں آجاتی تب آپ کو اندازہ ہوتا کہ کتنا بڑا حملہ جماعت کی مرکزیت پر کیا گیاہے۔ ساری دنیا کی جماعتیں بےقرار ہوجاتیں اور ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ رہتا،کچھ سمجھ نہ آتی کہ کیا کررہے ہیں، کیا کرنا ہے اور پھر جذبات سے بےقابو ہو کر غیر ذمہ دارانہ حرکتیں بھی ہوسکتی تھیں۔ جس طرح شدید مشتعل جذبات کو اور زخمی جذبات کو اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی سنبھالنے کی، خلیفۂ وقت کی عدم موجودگی یا بے تعلقی کے نتیجہ میں تو ناممکن تھا کہ جماعت کو اس طرح سے کوئی سنبھال سکتا۔

…جن لوگوں کو جھوٹ کی عادت ہو، ظلم اور سفاکی کی عادت ہو، افتراء پردازی کی عادت ہو، وہ کوئی بھی الزام لگا کر کوئی جھوٹ گھڑکے پھر خلیفہ کی زندگی پر بھی حملہ کر سکتے تھے اور اس صورت میں جماعت کا اٹھ کھڑے ہونا اور اپنے قویٰ پر سے قابو کھو دینا، جذبات سے بھی قابوکھو دینااور دماغی کیفیات پر سے بھی نظم و ضبط کے کنٹرول اتار دینا ایک طبعی بات تھی ۔ نا ممکن تھا کہ جماعت ایسی حالت میں کہ ان کو پتہ ہے کہ خلیفہ وقت ایک کلیتہً معصوم انسان ہیں،ان باتوں میں ہماری جماعت کبھی پڑی نہ پڑسکتی ہے، اس پر جھوٹے الزام لگا کر ایک بد کردار انسان نے اسے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ناممکن تھا کہ جماعت اس کو برداشت کر سکتی ۔جبکہ برداشت کرنے کے لئے خلافت کا جو ذریعہ خدا نے بخشا ہے اس کی رہنمائی سے محروم ہوتو اس صورت میں جماعت کا کوئی بھی ردعمل ہو سکتا تھا جو اتنا بھیانک ہوسکتا تھااور اتنے بھیانک نتائج تک پہنچ سکتا تھا کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیںاور باوجود اس کے کہ ان باتوں کا ہمیں پہلے علم نہیں تھا۔ ایک رات ، جس رات یہ فیصلہ ہوا ہے اس رات خدا تعالیٰ نے اچانک مجھے اس بات کا علم دیا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک بڑے زور سے یہ تحریک ڈالی کہ جس قدر جلد ہو اس ملک سے تمہارا نکلنا نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ تمہاری ذات کا کوئی سوال نہیں۔ ایک رات پہلے یہ مَیں عہد کر چکا تھا کہ خدا کی قسم مَیں جان دوں گا احمدیت کی خاطر اور کوئی دنیا کی طاقت مجھے روک نہیں سکے گی اور اس رات خدا تعالیٰ نے مجھے ایسی اطلاعات دیں کہ جن کے نتیجہ میں اچانک میرے دل کی کایا پلٹ گئی۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ کتنی خوفناک سازش ہے جماعت کے خلاف، جسے ہر قیمت پر مجھے ناکام کرنا ہے۔ اور وہ سازش یہ تھی کہ جب خلیفہ وقت کو قتل کیا جائے اور جماعت اس پر اُبھرے تو پھر نظام خلافت پر حملہ کیا جائے، ربوہ کو ملیا میٹ کیا جائے فوج کشی کے ذریعہ اور وہاں نیا انتخاب نہ ہونے دیا جائے خلافت کا، وہ انسٹیٹیوشن ختم کر دی جائے۔اس کے بعد دنیا میں کیا باقی رہ جاتا۔ خداتعالیٰ کے اپنے کام ہوتے ہیںاور جن حالات میں اللہ تعالیٰ نے نکالا یہ اس کے کاموں ہی کا ایک ثبوت ہے۔ یہ نہیں مَیں کہتا کہ یہ ہوسکتا تھا۔ ناممکن تھا کہ یہ ہوجاتا ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر سے ایمان اٹھ جاتا دنیا کا کہ خدا نے خود ایک نظام قائم کیاہے،خود اس کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے منصوبے بنارہاہے اور پھر اس جماعت کے دل پر ہاتھ ڈالنے کی دشمن کو توفیق عطا فرمادے جس جماعت کو اپنے دین کے احیاء کی خاطر قائم کیاہے ۔یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ دشمن کی ہر تدبیر ناکام کردی اس ایک تدبیر کو ناکام کرکے۔ اتنابڑا احسان ہے خدا تعالیٰ کا کہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنے خوفناک نتائج سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بچا لیا ، کتنی بڑی سازش کو کلیّتہً ناکام کردیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ دسمبر 1984ء ،خطبات طاہر جلد 3صفحہ757-769)

ان حالات میں مشاورت کے بعد یہی طَے پایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ پاکستان سے ہجرت کریں۔ چنانچہ آپ بذریعہ کار ایک قافلہ میں ربوہ سے کراچی پہنچے اور وہاں سے 30؍ اپریل 1984ء کو علی الصبح KLM کی فلائٹ کے ذریعہ کراچی سے ایمسٹرڈیم (ہالینڈ)اور پھر وہاں سے لندن(انگلستان) پہنچے۔ آپ کا ہجرت کا یہ سارا سفر اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید اور حفاظتِ الٰہی کے روشن نشانات سے معمور ہے۔

معاندین احمدیت اور فتنہ انگیز مُلّاؤں کی طرف سے یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ بھیس بدل کر یا جعلی ڈاکومنٹس پر ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ ہمیشہ کی طرح ان کا یہ پراپیگنڈہ بھی سراسر کذب اور افتراء پر مبنی ہے اور حقیقت سے اس کا دُور کا بھی تعلق نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا آرڈیننس اور اس کے پس پردہ سازشوں اور دشمنانِ احمدیت کے بد ارادوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے 28؍ دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں مزید فرمایا

’’ اس کے بعددوسرے درجہ پران کا ہاتھ ابھی تک مرکزی تنظیموں پراٹھ رہاہے۔ربوہ کی مرکزیت کے خلاف وہ سازشیں کررہے ہیں اور ان سازشوں کے نتیجہ میں ایک ایک کرکے وہ اپنی طرف سے ربوہ کے مرکزی خدوخال کو ملیا میٹ کرتے چلے جارہے ہیں۔چنانچہ شروع میں بظاہر معمولی بات تھی لیکن اسی وقت مجھے نظر آگیا تھا کہ آگے ان کے کیا ارادے ہیں… ۔شروع میں انہوں نے کھیلوں پر ہاتھ ڈالا کہ ربوہ میںکبڈی ہوگی تو عالم اسلام کو خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ یعنی ربوہ میں اگر کبڈی ہوئی تو اس سے تمام دنیا میں عالم اسلام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ربوہ میں اگر باسکٹ بال کا میچ ہوا تو اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے اور پھر پتہ نہیں کیا ہو جائے گا ۔پھر کھیلوں سے یہ آگے بڑھے اوراجتماعات پر ہاتھ ڈالنے شروع کئے کہ لجنہ اماء اللہ کا اجتماع ہوا تو عالم اسلام پر تباہی آجائے گی۔ خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہوا تو پتہ نہیں کیا خوفناک حالات دُنیا میںپیدا ہوجائیں گے جس کے نتیجہ میں اسلام نعوذ باللہ من ذالک تباہ ہوجائے گا۔بوڑھوں کا اجتماع ہوا تو اس سے ان کو خطرات وابستہ نظر آنے لگے کہ اس اجتماع سے بھی یا وطن …تباہ ہوجائے گا یا عالم اسلام کو نقصان پہنچے گا۔

…چنانچہ آپ پاکستان کے اخبارات کا مطالعہ کرکے دیکھیں آپ کو ہر موقع پر اچانک اسی قسم کی خبریں نظر آنی لگ جائیں گی۔ یعنی ایک صبح کو اٹھیں گے توآپ کو معلوم ہوگا کہ تمام پاکستان میں ایک خاص طبقہ علماء ایک دم یہ شور مچانے لگ گیا ہے کہ انصاراللہ کا اجتماع نہیں ہوسکتا ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے۔پھر اچانک علماء کو خیال آتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع نہیں ہوسکتا ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے، کبڈی نہیں ہوسکتی ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے ، باسکٹ بال نہیں ہوسکتا ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے۔تویہ جو سُراَلاپتے تھے سارے، آخر اس کی مرکزی جڑیں تھیں۔ وہاں سے آواز نکلتی تھی تویہ سب تک پہنچتی تھی۔ اور پھر حکومت کے اخبار تھے ،حکومت کے ٹیلی ویژن اور حکومت کے ریڈیویہ ساری باتیں اچھالتے تھے کہ علماء یہ کہہ رہے ہیں تاکہ نفسیاتی طور پر قوم پر یہ اثر پیدا ہوکہ ہاں ایک بہت ہی خطرناک بات ہونے لگی ہے اور حکومت مجبور ہورہی ہے گویا کہ ان لوگوں کی آواز کے سامنے سرجُھکانے پر۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے یہ باتیں پیدا کی جاتی تھیں اور یہ سب کچھ ہمارے علم میں تھا ۔

…پھر اجتماعات پر انہوں نے پابندی لگادی۔ وہی نظر آرہا تھا کہ یہاں سے شروع کریں گے ۔ سیڑھیاں جس طرح انسان چڑھتا ہے ایک دو تین چار اس طرح اوپر تک پہنچنے لگیں گے ۔پھر جلسہ سالانہ ان کے لئے خطرہ بن گیا اور اس قدرشور مچایا گیا سارے ملک میںکہ گویا اگر یہ بات حکومت نے نہ مانی توحکومت تباہ ہوجائے گی ۔ جلسہ سالانہ اتنا بڑا واقعہ۔ جماعت احمدیہ کا کیا حق ہے کہ جلسہ سالانہ کرے؟ چنانچہ جلسہ سالانہ ختم کر دیا گیا اور آج جلسہ سالانہ پریہ ہمارا اختتامی خطاب ہونا تھا۔آج اٹھائیس ہے اور 28 تاریخ کو اختتامی تقریب ہوا کرتی تھی جس میں قرآن کے معارف بیان ہوتے تھے،اسلام کی خوبیاں بیان ہوتی تھیں،غیر مذاہب پر اسلام کی فوقیت بیان ہوتی تھی۔یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ایسی باتیں ہوںجلسہ سالانہ پر۔ اس کے مقابل پر کیا برداشت کرسکتے ہیں؟ ربوہ کی مساجد جن میں لائوڈ سپیکر کھلے ہیں یعنی مولویوں کی مساجد اس میں جمعہ کے دن ایسی فحش کلامی ہوتی ہے کہ آپ تصور نہیں کرسکتے کہ اس سے ربوہ کے رہنے والوں کا حال کیا ہوتاہے؟شدید گندی زبان استعمال کی جاتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف،جماعت احمدیہ کے سربراہوں کے خلاف، خلفاء کے خلاف، بزرگوں کے خلاف، اوراتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ اسلام کانام لینے والے ،اسلام کی طرف منسوب ہونے والے جھوٹ اتنا بول کیسے سکتے ہیں؟گھر بیٹھے کہانیاں گھڑتے رہتے ہیں اور پھر فخر سے بتاتے ہیںبعدمیں مولوی اپنے ساتھیوں کو کہ دیکھا کس شان کا میںنے جھوٹ گھڑا ہے!یہ میں نے گھڑا تھا،کسی اور نے مجھے نہیں بتایا، یہ میرا دماغ چلا ہے اس طرف اور سارے جانتے ہیں اور ان کے ماننے والے بھی جانتے ہیں اور سارا ماحول جانتاہے،حکومت جانتی ہے کہ محض گند پر منہ مار رہے ہیں۔لیکن جب حکومت خود جھوٹی ہو،بد کردار ہوچکی ہو،خود مذہب کے نام سے کھیل رہی ہو تو پھر ان لوگوں سے ان کا دل بڑالگتا ہے۔اس قسم کے لوگ قصر شاہی تک دسترس رکھتے ہیں،وہاں تک رسائی ہوجاتی ہے ، ان کے ساتھ باقاعدہ مل کر منصوبے بنائے جاتے ہیں۔

…ابھی کچھ عرصہ پہلے جماعت کے پریس پر پابندی تھی،جماعت کی کتابیںضبط ہورہی تھیں یہ قانون بن گیا تھا کہ جماعت احمدیہ اگر اپنے دفاع میں کچھ کہے گی تو ان کو قیدکیا جائے گا ان کو سز ا دی جائے گی۔ تین سال تک قید بھی ہوسکتی ہے اور جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔

…بہر حال اس وقت دشمن کا ارادہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو کلیتہً نہتاکردے۔ جماعت احمدیہ کے ہاتھ بھی جکڑدے۔ جماعت احمدیہ کے پائوں بھی جکڑ دے اور پاکستان سے جماعت احمدیہ کی مرکزیت کی ساری علامتیں مٹادے۔چنانچہ ہر گز بعید نہیں کہ اس سمت میں یہ آگے قدم بڑھائیں مرکزی انجمنوں کے خلاف بھی سازش کریں ہر قسم کی۔ اور جماعت کے وجود، جماعت کی تنظیم کے خلاف سازش کریں۔جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوں نے کسی انصاف کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے ساتھ کوئی رحم کا سلوک نہیں کرنا۔ جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوںنے ہر انسانی حق سے جماعت احمدیہ کو محروم کرنے کی مزید کوششیں کرنی ہیں اور یہ سلسلہ آگے تک بڑھانے کا ان کا ارادہ ہے ۔ ‘‘

اسی ضمن میں آپؒ نے یہ پُر شوکت اعلان بھی فرمایا کہ

’’…امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہا تھ باند ھ بھی دیں ، جماعت احمدیہ کو کلیتہً نہتّا بھی کر دیں تب بھی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی جیتے گی کیو نکہ خدا کے شیروں کے ہاتھ کبھی کوئی دنیا میں باند ھ نہیں سکا ۔ یہ زنجیریں لازماًٹوٹیں گی اور لازماًیہ زنجیریں باندھنے والے خود گرفتار کئے جائیں گے ۔یہ ایک ایسی تقدیر ہے جسے دنیا میں کوئی بدل نہیں سکتا ۔کبھی خدا کے ہاتھ بھی کسی نے باندھے ہیں؟ اس لئے خدا والوں کے جب ہاتھ با ند ھے جاتے ہیں تو عملاًیہ دعویٰ ہو تا ہے کہ ہم خداکے ہاتھ باند ھ سکتے ہیں۔ اس لئے خدا کے ہاتھ تو کھلے ہیں۔ قرآن کریم اعلان فرمارہا ہے بَلْ یَدٰہُ  مَبْسُوْطَتٰنِ(المائدہ65) اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ اس کا دایاں ہاتھ بھی کھلا ہے۔ اور اس کا بایاں ہاتھ بھی کھلا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت خدا کے ہاتھوں کو نہیں باندھ سکتی۔ اس لئے آگے بڑھیں گے یہ ظلموں میں، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن یہ بھی مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے شیر خدا کے فضل سے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ بھی ان پر غالب آکر رہیں گے ۔کوئی دنیا میںان کے ایمان کا سر جھکا نہیں سکتا۔ کوئی دنیا میں جماعت احمدیہ کے عزم کا سر جھکا نہیں سکتا۔ کوئی دنیا میںجماعت احمدیہ کے صبر کا حوصلہ توڑ نہیںسکتا ۔ بڑھتے رہیں جس حد تک یہ آگے بڑھتے ہیں۔ ہم بھی انتظار میں ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کی تدبیر بھی حرکت میں ہے۔ خدا کی تقدیر بھی حرکت میں ہے او ر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا ۔ وَّاَکِیْدُ کَیْدًا۔ (الطارق 16-17) یہ بھی کچھ تدبیر یں کر رہے ہیں اور مَیں غافل نہیں ہوں۔ میں بھی تدبیر کررہا ہوں اور بالآخریقیناً خدا ہی کی تدبیر غالب آئے گی۔کب آئے گی؟ کتنی دیر میںآئے گی؟ یہ مَیں ابھی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا میںآپ کو بتا دیتا ہوں کہ جب زیادہ تشویش کے دن آتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلسل مجھے خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ساری جماعت کو تمام دنیا میں کثرت کے ساتھ خوشخبریاں ملنی شروع ہوجاتی ہیں۔جتنے بھیانک دن آتے ہیں اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشنی کے وعدے زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آنے لگتے ہیں۔یہ عجیب قسم کے واقعات ہیں جو عام دنیا کے حالات سے بالکل مختلف ہیں۔اگر یہ خوابیں نفسیاتی ہوں، اگر یہ خوابیں نفس کے دھوکے ہوں،یہ کشوف نفس کے دھوکے ہوں تو نفس کی کیفیت تو یہ ہے اوردنیا کے سارے ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ جتنا زیادہ مایوسی بڑھتی چلی جائے اتناہی ڈرانے والی خوابیں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ جتنا زیادہ انسان تاریکیوں میں گھِر جاتا ہے اتنا ہی زیادہ ہولناک مناظر وہ دیکھنے لگتا ہے۔ غموں کے مارے ہوئے، مصائب کے ستائے ہوئے، خوفوں میں مبتلا لوگوں کو Hallucination(فریبِ خیال )شروع ہو جاتے ہیں۔ امن کی حالت میں بیٹھے ہوئے بھی ان کو خطرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔یہ صرف سچوں کی علامت ہوتی ہے کہ انتہائی تاریکی کے وقت میں خداان سے روشنی کے وعدے کرتا ہے اور ان کوروشنی کے نمونے دکھاتا ہے۔انتہائی تکلیف کے وقت میں بھی خداتعالیٰ ان کے ساتھ دل آرام باتیں کرتا ہے، ان کے دلوں کو راحت اور اطمینان اور سکون سے بھر دیتا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ دسمبر 1984ء ، خطبات طاہر جلد 3صفحہ769-775)

الغرض مذکورہ بالا آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ابتدائی ایّام خصوصیت کے ساتھ تمام جماعت کے لئے انتہائی غم اور کرب کے ایّام تھے۔ اس نہایت ظالمانہ آرڈیننس کے خلاف کسی بھی احمدی کا غلط ردِّ عمل بہت خوفناک نتائج پیدا کر سکتا تھا۔ چنانچہ آرڈیننس کے نفاذ اور ہجرت سے قبل کے ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح  الرابع ؒ نے خاص طور پر جماعت کو صبر اور دعاؤں اور عبادات کے قیام کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تاکیدی نصائح فرمائیں ۔مثلًا 28؍ اپریل 1984ء کی شام نمازِ عشاء کے بعد حضور رحمہ اللہ نے مسجد مبارک ربوہ میں حاضر احباب کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ

’’مَیں آپ کو صبر کی تلقین کرنا چاہتاہوں۔ یاد رکھیں سب سے بڑی طاقت صبر کی طاقت ہے جو الٰہی جماعتوں کو دی جاتی ہے اور جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

صبر دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور دعاؤں میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اور الٰہی جماعتوں کا صبر روحانیت میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اس لحاظ سے مَیں دیکھ رہا ہوں کہ جماعت ایک نئے روحانی دور میں داخل ہو رہی ہے۔ لہٰذا یہ غم جو آپ کو ملا ہے اس کی حفاظت کریں اور اس کو دردناک دعاؤں میں تبدیل کرتے رہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی دعاؤں اور گریہ وزاری سے عرش کے کنگرے بھی لرزنے لگیں گے۔ پس اس غم کی حفاظت کریں اور اسے ہر گز نہ مرنے دیں۔ یہاں تک کہ خدا کی تقدیر خود اسے خوشیوں میں تبدیل کر دے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں بھی مل کر آپ کو شکست نہیں دے سکتیں۔ لازماً آپ کامیاب ہوں گے۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 4؍ مئی 1984ء)

افرادِ جماعت احمدیہ پاکستان نے بالخصوص اور عالمگیر جماعت احمدیہ نے بھی جس طرح اخلاص اور محبت اور وفا کے ساتھ ان نصائح پر عمل کیا اور پھرجس طرح خدا تعالیٰ نے اس صبر اور قربانی اور وفا پر اپنے پیار کی نظر ڈالتے ہوئے اس غم کو خوشیوں میں بدلا اور دنیا بھر میں جماعت احمدیہ پہلے سے کئی گنا بڑھ کر مضبوط و مستحکم ہوئی اور اشاعت اسلام و احمدیت کی نئی راہیں کشادہ ہو ئیں اور عظیم روحانی ترقیات و فتوحات کے دروازے خدا تعالیٰ کی طرف سے کھولے گئے وہ ان دعاؤں اور صبر کی قبولیت پر عظیم الشان گواہ ہیں۔

پاکستان میں آرڈیننس نمبر 20؍ کے اجراء کے بعد جماعت پر کئے جانے والے مظالم کو گویا قانونی تحفظ حاصل ہو گیاتھا۔ اس کے نتیجہ میں یہاں شہادتیںہوئیں ، لوٹ مار کی گئی، ، احمدیہ مساجد کو مسمار کیا گیا، لُوٹ مار کر کے جلایا گیا، کئی مساجد کو سربمہر کر کے بند کر دیا گیا۔ احمدیوں کو نوکریوں سے نکالا گیا۔ ان کی دکانوں کو لوٹا اور جلایا گیا۔ احمدیوں کے خلاف سراسر جھوٹے اور ناجائز مقدمات قائم کئے گئے۔ مدفون احمدیوں کی نعشوں کی بےحرمتی کی گئی۔ تعلیمی اداروں میں احمدی طلباء کے داخلے روکے گئے، اور اگر داخلے ہو چکے تھے تو انہیں وہاں سے نکالا گیا۔ سرکاری محکموں میں ملازم احمدیوں سے نہایت توہین آمیز، غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ غرضیکہ ہر پہلو سے اور ہر سطح پر احمدیوں پر ہر قسم کے ممکنہ ظلم و ستم کو روا رکھا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا اور حکومت اور قانون کی چھتری کے نیچے یہ سب کچھ ہوا۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button