کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

نزول کا لفظ عربی لفظ ہے جو کسی کی عزت اور تعظیم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم نے حدیث کی کتابوں میں ایسی کوئی مرفوُع متّصل حدیث نہیں دیکھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ عیسیٰ آسمان سے اترے گا اور نہ ہم نے سَمَاء کا لفظ کسی حدیث صحیح قوی میں پایا۔

کیا تمہاری محبت روا رکھتی ہے کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہو اور ہمارے نبی چودہ سو برس سے وفات یافتہ ہوں؟

کیا تم اس بات پر خوش ہو کہ تمہارے نبی مدینہ میں زمین کے نیچے مدفون ہوں لیکن عیسیٰ اس وقت تک زندہ ہو؟

’’ اب ان لوگوں سے جنہوں نے عیسیٰ کے ایک دشمن کو سولی دیا پوچھو کہ وہ مصلوب اتنے دنوں کیونکر چپ رہا۔ کیا عقلمند اسے قبول کرتے ہیں۔ کیا اس کے لئے اس کی ماں اور بیوی اور بھائی اور ہمسائے اور دوست گواہ نہ بنے۔ اور کیا انہوں نے بھی گواہی نہ دی جو اس کے راز دار اور اس کے پہچاننے والے تھے۔ اس گمان پر جو تم کرتے ہو افسوس ہے۔ حق میں اور ان افتراؤں میں بڑا فرق ہے۔ کیا ذرہ سی عقل بھی تمہارے سر میں باقی نہیں رہی جس سے بات کی تہہ کو پہنچ جاؤ۔ یہ سب بیہودہ قصے ہیں ان کی کچھ اصلیت نہیں اور فطرت صحیحہ ان کو قبول نہیں کرتی اور ان کے بارہ میں کوئی پوشیدہ اور کھلا اشارہ قرآن شریف میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں پایا نہیں جاتا۔ پس جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں وہ دراصل جھوٹ کی پیروی کرتے ہیں اور پڑے بھٹکتے پھرتے ہیں۔ لیکن عیسیٰ کے نزول کی نسبت پس جان تو کہ نزول کا لفظ عربی لفظ ہے جو کسی کی عزت اور تعظیم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور نزیل کے معنے عالِم جانتے ہیں۔ اور ہم نے حدیث کی کتابوں میں ایسی کوئی مرفوُع متصل حدیث نہیں دیکھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ عیسیٰ آسمان سے اترے گا اور نہ ہم نے سَمَاء کا لفظ کسی حدیث صحیح قوی میں پایا۔ اور یہ بات حدیث کے عالم خوب جانتے ہیں اور اس بات کا انکار سوائے اس کے کوئی نہیں کرتا جوجاہل ہو یا اپنے آپ کو جاہل ظاہر کرے۔ یا جو اندھا ہو۔ اور اس کے سوا یہ بات قرآن کے خلاف اور اس کی ضد پڑی ہوئی ہے۔ پس قرآن کے سوا کون سی حدیث ہے جس پر ایمان لاتے ہو۔ اور خدا فرماتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم )رسول ہیں اور ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔[ اہل زبان کا لفظ خَـلَا کے بارہ میں یہی رائج طریق ہے کہ مثلاً جب وہ یہ کہیں کہخَـلَا زَیْدٌ مِنْ ھٰذِہِ الدَّارِ یا خَـلَا زَیْدٌ مِنْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا تو ان کی اس قول سے یہی غرض ہوتی ہے کہ اب وہ کبھی بھی اس (گھر یادنیا) میںواپس نہیں آئے گا۔ اور یہ امر مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ ( خَـلَا ) کو صرف اس محاورہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختیار فرمایا ہے۔] یہ آیت بتلاتی ہے کہ سارے اگلے نبی فوت ہو چکے ہیں۔ اسی آیت کو حضرت ابوبکر صدیق نے تمام صحابہ کو سنایا جب انہوں نے اختلاف کیا۔ یعنی جب بعض لوگوں نے رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت میں اختلاف کیا اور حضرت عمر نے کہا کہ آنحضرتؐ اسی طرح واپس آئیں گے جیساکہ عیسیٰ واپس آئے گا اور اسی طرح اور بعض خطاکاروں نے بھی کہا تو اس وقت حضرت ابو بکر نے ان کا کلام سنا اور ان کے گمان پر آگاہ ہوئے تب منبر پر کھڑے ہوئے اور صحابہ ان کے گرد جمع ہوئے پھر آیت مذکورہ پڑھی اور فرمایا سنو! اور سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر جمع تھے۔ جب یہ آیت سنی تو عجیب تاثیر اپنے دلوں میں پائی اور سمجھے کہ گویا یہ آیت آج ہی اتری ہے۔ اس کو سن کر انہوں نے رونا شروع کیا اور تصدیق کی۔ اس دن ایسا کوئی شخص نہ رہا جو اس پر ایمان نہ لایا ہو کہ سارے نبی فوت ہو چکے ہیں۔ اب ان کو اپنے رسول کی موت پر کوئی رنج اور غم اور اپنے پیارے کے لئے کوئی حسرت اور افسوس کی جگہ نہ رہی اور اس کی موت پر خبردار اور آگاہ ہو گئے اور آنسوؤں کے دریا آنکھوں سے بہائے اور اِنَّا لِلٰہِ کہا اور اس آیت کو گلی کوچوں میں اور گھروں میں پڑھتے تھے اور روتے تھے۔ چنانچہ حساّن بن ثابت نے حضرت ابوبکر کے خطبہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرثیہ میں کہا۔ تو میری آنکھ کی پتلی تھی اب تیرے جاتے رہنے سے میں اندھا ہو گیا۔ تیرے مرنے کے بعد جو چاہے مرے مجھے تو تیرے ہی مرنے کا ڈر تھا۔یعنی مجھے تو سارا یہی ڈر تھا کہ کہیں تُو نہ مر جائے لیکن اب جبکہ تُو ہی مر گیاتو اب مجھے کچھ پروا نہیں کہ موسیٰ مرے یا عیسیٰ مرے۔ اب غور کرو کہ وہ اپنے نبی کو کس قدر دوست رکھتے تھے اور کس طرح محبت کے آداب اور نشان اُن سے ظاہر ہوتے تھے۔ اور یہ بھی غور کرو کہ ان کی غیرت نے ہرگز نہ چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موت کے بعد کسی نبی کی حیات پر راضی ہو جائیں۔ پس خدا نے ان کو اسی طرح سے حق کی راہ دکھلائی جس طرح سے عاشقوں کو دکھلاتا ہے۔ اور ان کے دلوں نے قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُکی آیت کے مفہوم پراتفاق کر لیا۔ اور اس پر ایمان لائے اور اس پر خوش ہوئے۔ پھر صحابہ کے بعد تمہاری باری آئی۔ تم نے اپنے نبی کی وہ قدر نہیں کی جو قدر کرنے کا حق تھا۔ اور کہتے ہو جو کچھ کہتے ہو۔ کیا تمہاری محبت روا رکھتی ہے کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہو اور ہمارے نبی چودہ سو برس سے وفات یافتہ ہوں۔ کیا تم اس بات پر خوش ہو کہ تمہارے نبی مدینہ میں زمین کے نیچے مدفون ہوں لیکن عیسیٰ اس وقت تک زندہ ہو۔ اے بیباکو! خدا سے ڈرو۔ اور یہ پہلا اجماع تھا جو تمام صحابہ کے اتفاق سے اسلام میں منعقد ہوا اور کوئی فرد بھی اس اجماع سے باہر نہ رہا۔ اور یہ حضرت صدیق رضی اللّہ عنہ کا تمام مسلمانوں کی گردن پر احسان ہے کہ انہوں نے تمام انبیاء کی موت اور عیسیٰ کی موت کو قرآن سے ثابت کیا۔ کیا تم مشکور ہو؟ ‘‘


(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 141تا146۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button