متفرق مضامین

تین عظیم الشان موعود

(حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم)

تحریر مکرم ملک سیف الرحمان صاحب (مرحوم)

قسط نمبر 3

اب آئندہ صفحات میں اُس عظیم مہدی کے ظہور کا ذکر آرہا ہے جس کے متعلق احادیث ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہیں۔ سنداً بھی وہ ہر لحاظ سے صحیح ہیں اور بزرگان دین کے اتفاق کے لحاظ سے بھی وہ قوی ہیں۔ یہ وہ عظیم مہدی ہے جس کا ایک کام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے مقصد کی تکمیل ہے اوراس کا دوسرا کام عیسٰی بن مریم اورمسیحؑ کے نزول کی پیشگوئی کے معانی کو کھولنا ہے۔

سب سے پہلے ہم اُن احادیث کو پیش کرتے ہیں جن کی صحت پر تمام علماء حدیث کا اتفاق ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ پیشگوئیاں بالعموم تعبیر طلب ہوتی ہیں اوران کی زبان تمثیلی ہوتی ہے خصوصاً کسی سابقہ نبی کی دوبارہ آمد کا مطلب سنتِ الٰہی میں یہ ہوا کرتاہے کہ اُس نبی کی برکات ، اُس کے اُسوئہ حسنہ کا احیاء اور اُس کے کسی ایسے بروز[ بُرُوز کا لفظ بَرَزَ سے نکلا ہے جس کا مفہوم ظہور اور کھل کر سامنے آنا ہے ۔کسی مذہب یا کسی فرقہ کے صوفیاء بروز کی اصطلاح کو کن معنوں میں استعمال کرتے اس سے ہمیں غرض نہیں۔ یہاں بروز کی اصطلاح جن معنوں میں استعمال ہوئی ہے اس کی وضاحت خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے

’’جیسا تشابہ فی الصُّوَر ہوتاہے ایسا ہی تشابہ فی الاخلاق بھی ہوا کرتاہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 407مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ )

’’ کامل متبع ہوتاہی نہیں جب تک بروزی رنگ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو اپنے اندر نہ رکھتاہو ۔ …..جب ایک شخص کامل اطاعت کرتاہے اورگویا اطاعتِ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم میں محو اورفنا ہو کر گم ہوجاتاہے اُس وقت اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ایک شیشہ سامنے رکھا ہوا ہو اورتمام وکمال عکس اس میں پڑے‘‘۔(ملفوظات جلد 8 صفحہ 64 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ)] اور مثیل اور متّبع کامل کا ظہور ہے جو فنا فی الرسول کے مقام پر فائز ہو اور متبوع کے مقاصد کی تکمیل کرنے والا ہو ۔

ایک دوسری جگہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں

’’سو جیسا کہ وہ نبی شہزادہ دنیا میں غربت اور مسکینی سے آیا اور غربت اور مسکینی اور حلم کا دنیا کو نمونہ دکھلایا۔ اس زمانے میں خدا نے چاہا کہ اس کے نمونہ پر مجھے بھی جو امیری اور حکومت کے خاندان سے ہوں اور ظاہری طور پر بھی اس شہزادہ نبی اللہ کے حالات سے مشابہت رکھتا ہوں ۔ ان لوگوں میں کھڑا کرے جو ملکوتی اخلاق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ سو اس نمونہ پر میرے لئے خدا نے یہی چاہا ہے کہ میں غربت اور مسکینی سے دنیا میں رہوں ۔ خدا کے کلام میں قدیم سے وعدہ تھا کہ ایسا انسان دنیا میں پیدا ہو ۔ اسی لحاظ سے خدا نے میرا نام مسیح موعود رکھا … اس کے معنی اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں کہ مجھے تما م اخلاقی حالتوں میں خدائے قیوم نے حضرت مسیح علیہ السلام کا نمونہ ٹھہرایا ہے تا امن اور نرمی کے ساتھ لوگوں کو روحانی زندگی بخشوں۔‘‘

(کشف الغطاء ۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ 192،193)

اس اصول کی وضاحت کے بعد اب ہم وہ احادیث لکھتے ہیں جو مستند اورصحیح ہیں۔ ان کی صحت میں کسی محدث اورفقیہ نے شک کا اظہار نہیں کیا اوراُس میں ’’ظہور عظیم ‘‘ کی پیشگوئی ہے ۔

1۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔

ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (الجمعۃ3-4)

یعنی وہی خدا ہے جس نے اُمیوں میں (جو کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں) انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن کو خدا کے احکام سناتاہے اور ان کا تزکیہ اور ان کی تربیت کرتاہے اور ان کو علم و حکمت سکھاتاہے جبکہ وہ اس سے پہلے بڑی بھول اور جہالت میں پڑے ہوئے تھے اور وہ خدا ان کے سوا ایسے دوسرے لوگوں میں بھی اُسے بھیجے گا جو ابھی تک ان میں شامل نہیں ہوئے اور وہ ایسا کرنے پر غالب اورقادر ہے اوربڑی حکمت والا ہے ۔

جب یہ آیات نازل ہوئیں تو موجود صحابہؓ نے حضور ؐ سے دریافت کیا کہ ’’آخرین‘‘ سے کون لوگ مراد ہیں جن میں آپ مبعوث ہوں گے تو آپ نے پاس بیٹھے ہوئے اپنے صحابی سلمان فارسی کے کندھے پرہاتھ رکھ کر فرمایا

’’لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ رَجُلٌ مِّنْ ھٰٓؤُلَآئِ ‘‘ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ زیر آیت4)

صحیح بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں پر ایک ایسا دَور آئے گا کہ حقیقی ایمان اُٹھ جائے گا اور ان کی دوبارہ ترقی آنحضور صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کی مرہون منت ہوگی جو آپ کے ایک فارسی النسل غلام کے ذریعہ ہوگی اور اُس کے حواری بھی انہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ [قَالَ الزُّھْرِیّ (فی تشریح مجیٔ وفد باذانِ الفارسی صاحب الیمن ) فلمَّا بَلَغَ ذَالک (ای خبر قتل کسریٰ پرویز ) باذانَ بَعَثَ باسلامہ و اسلام مَنْ مَّعَہٗ مِنَ الفرسِ الٰی رسولِ اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت الرسل من الفرس لِرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم الٰی من نحنُ یَا رسول اللّٰہ ؟ قَالَ اَنْتُم مِنَّا وَ اِلَیْنَا اَھْلَ البیت (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ذکر ما انتھی الیہ امر الفرس بالیمن۔ اسلام باذان) [

بخاری کی اس روایت سے اُن روایات کی بھی تائید ہوتی ہے جن میں آیا ہے کہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کے بارہ میں فرمایا۔ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ نیز یمن کے والی باذان اور اُس کے فارسی النسل حامیوں کے مسلمان ہونے پر آپ نے انہیں بھی فرمایا کہ وہ میرے اہل بیت اور میرے خاندان کا حصہ ہیں۔ یہ اسی لئے ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اسی نسل کے لوگوں سے وابستہ تھی۔ (رواہُ البخاری فی تاریخہٖ)

صحیح بخاری کی دوسری حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں

’’کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ ‘‘۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، باب نزول عیسَی ابن مریم۔)

یعنی تم کیسے نازک حالات سے گزررہے ہوگے جب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے جو تمہارے امام تمہیں میں سے ہوں گے۔

صحیح مسلم کی ایک روایت سے بخاری کی اس حدیث کی مزید وضاحت ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔

’’ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ ‘‘ (مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسَی ابن مریم)

یعنی تمہاری کتنی نازک حالت ہوگی جب تم میں ابن مریم آئیں گے جو تمہاری امامت اور قیادت کا فریضہ سرانجام دیں گے اور تم میں شامل ہوں گے ۔

مسند احمد کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں

’’ یُوْشَکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ یَّلْقٰی عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ اِمَا مًا مَہْدِیًّا وَ حَکَمًا عَدَلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَ یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ‘‘۔

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ411)

یعنی تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ عیسٰی بن مریم سے ضرور ملے گا وہی امام مہدی ہے حکم عدل ہے صلیب کو (بہ د لائل ) توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا۔

کنز العمال کی روایت بھی اس حدیث کی تصدیق کرتی ہے جو یہ ہے’’ لَا یَزْدَادُ الْاَمْرُ اِلَّا شِدَّۃً وَ لَا الدُّنْیَا اِلَّا اِدْبَارًا وَ لَاالنَّاسُ اِلَّا شُحًّا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا عَلٰی شِرَارِ النَّاسِ وَ لَا مَہْدِیَّ اِلَّا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ‘‘۔ (کنزل العمال جلد7 صفحہ186 مطبوعہ مطبع النظامیہ حیدر آباد دکن 1314ھ )

یعنی ایک وقت آتاہے کہ حالات زیادہ بگڑ جائیں گے ۔ دنیا میں (مسلمانوں کے ) اِدبار کا دور دورہ ہوگا۔ لوگ بخل اورخود غرضی سے بھرجائیں گے اور وہ شرارتوں میں اس قدر بڑھ جائیں گے کہ گویا قیامت ہی آگئی ہے (سب کی زبان پر یہ ہوگا کہ کوئی مصلح کوئی مُنَجّی لیکن) اُس وقت عیسیٰ بن مریم کے سوا کوئی مہدی اور نجات دہندہ نہیں ہوگا انہی کے ذریعہ حالات سُدھریں گے ۔

حضرت حسن بصری ؒ جو صاحب عرفان محدث تھے وہ فرماتے ہیں

’’اِنْ کَانَ الْمَہْدِیُّ فَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ وَ اِلَّا فَلَا مَہْدِیَّ اِلَّا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ‘‘[تاریخ الخلفاء للسّیوطی صفحہ 158(عہد بنو امیّہ)]یعنی اگر کوئی مہدی ہے تو عمر بن عبدالعزیز ہیں ورنہ پھر عیسیٰ کے سوا کوئی اور مہدی نہ ہوگا۔

ان روایات سے ایک اور ایک دو کی طرح یہ بات ثابت ہے اور جو شخص اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہے وہ یہ بات ماننے پر مجبور ہے کہ مسلمانوں کے انتہائی تنزل اورنہایت نازک زمانہ میں ایک خاص شان کے موعود نے آنا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ وہ مادی ہتھیاروں سے لیس ہوگا، یا آسمانی اور روحانی حربوں سے کام لے گا، اس کی ایک نظر کفر کی طاقتوں کو تباہ کردے گی یا سنت انبیاء اور بالخصوص اپنے سردار اور اپنے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح محنت اورمشقت ، سعی پیہم اور جُہدِ اَتَم کے دریا میں سے ہو کر اور طرح طرح کی قربانیاں پیش کرکے کامیابی کی راہیں ہموار کرے گا۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے آقا ؐ کے بارہ میں فرماتے ہیں ۔

’’ہمارے رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہوگا۔ وہ افضل البشر، افضل الرسل والانبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اور کون ہے جو ایسا کرسکے؟ دیکھو آپ نے غار حرا میں کیسے کیسے ریاضات کئے ۔خدا جانے کتنی مدت تک تضرعات اورگریہ و زاری کیا کئے۔ تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے۔ جب جاکر کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیضان نازل ہوا‘‘ ۔

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 205 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)

اس سے پہلے آپؑ صحابہؓ کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل ہمارے واسطے ایک اسوئہ حسنہ اورعمدہ نمونہ ہے ۔……… انہوں نے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پروا نہ کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہوگئے‘‘۔

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 205 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)

بہرحال جو صاحبِ فہم حضرات پیشگوئی کی تعبیری زبان کو سمجھتے ہیں اور اُن میں جو تمثیل اور استعارے ہوتے ہیں ان کی حقیقت سے واقف ہیں اور پیشگوئیوں کے بارہ میں ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ ان پر یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ مذکورہ بالا روایات میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ اپنے ظاہری معنوں اور سطحی مطالب پر مشتمل نہیں بلکہ اُس کے اندر عرفان کے دریا موجزن ہیں اور عبرت کے سامان پوشیدہ ہیں ۔

پس ان پیشگوئیوں میں جس عظیم موعود کے آنے کا ذکر ہے اُسے ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مظہر ہونے کی وجہ سے ’’اَلْمَہْدِی ‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس وجہ سے کہ اُس کے ذریعہ صلیب کے غلبہ کا استیصال ہوگا۔ اُسے مثیل مسیح اورمظہر عیسیٰ بن مریم کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ وہ عیسیٰ بن مریم جو آج سے دوہزار سال پہلے گزر چکے ہیں اور اُسی طرح آسمان پر جاچکے ہیں جس طرح دوسرے انبیاء آسمان پر گئے اور جنہیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر مختلف آسمانوں کا مکین دیکھا وہ دوبارہ آسمان سے نازل نہیں ہوں گے کیونکہ یہ سنت الٰہی کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ جو طبعی عمر پاکر فوت ہوا وہ واپس اس دنیا میں نہ آیا اور حسب آیات قرآن کریم عیسیٰ بن مریم وفات پاچکے ہیں۔[سورئہ اٰل عمران کی آیت نمبر 56 میں یہ تصریح ہے کہ عیسیٰ بن مریم کی وفات پہلے ہوگی اورپھر حسب آیت النساء 159اُن کا رفع ہوگا اور سورئہ المائدہ 117 میں یہ وضاحت ہے کہ عیسیٰ بن مریم وفات پاچکے ہیں۔ اُن کے علاوہ بھی متعدد آیات اور احادیث ہیں جو عیسیٰ بن مریم کی وفات کو ثابت کرتی ہیں .] اس لئے وہ واپس اس دنیا میں نہیں آسکتے اورجیسا کہ سطور بالا میں اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیاہے کہ کسی فوت شدہ بزرگ یا نبی کے دوبارہ آنے کے معنے یہ ہوا کرتے ہیں کہ اس کا مثیل آئے گا جو اُس نبی کی برکا ت کا حامل ہوگا، اس کی سنت کا احیاء کرے گا۔ اخلاق میں اُس کے مشابہ ہوگا اوراُن مقاصد کو پورا کرے گا جو اس کی بعثت کا باعث تھے۔

اسی موعود ما ٔمور کو صحیح مسلم کی حدیث میں چار بار نَبِیُّ اللہ کہا گیاہے ۔یہ ایک لمبی حدیث ہے جس کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں۔

’’ یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَ اَصْحَابُہٗ

فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَاَصْحَابُہٗ

ثُمَّ یَہْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَ اَصْحَابُہٗ

فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَ اَصْحَابُہٗ ‘‘

(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال ۔ ریاض الصالحین للنووی شارح صحیح مسلم کتاب المنثورات والملح)

جیسا کہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ مرتبہ اور کردار کے لحاظ سے اُمّت محمدیہ کے بزرگ افراد کو اسی طرح مقام نبوت حاصل ہے جیسا کہ سابقہ انبیاء کو حاصل تھا۔ ایک ذرہ بھی فرق نہیں۔ بلکہ خیر الرسلؐ کی اُمّت ہونے کی وجہ سے بعض افراد اُمّت کا درجہ ان سابقہ انبیاء سے کہیں بڑھ جاتا ہے۔ تا ہم اُمّت کے ان افراد کو ’’ نبی ‘‘ کے نام کی بجائے دوسرے روحانی نام ملے ہیں۔ جیسے خلفاء، اولیاء، مجددین اور مہدیّین لیکن ایک عظیم فرد اُمّت کو حسب حدیث مسلم نبی کے نام سے بھی پکار ا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ یہ اُمّت اس مقام بلند سے محروم نہیں لیکن خاتم النبیین کے مقام کی عظمت شان اورحکمت کا تقاضہ تھا کہ اب نبی کے نام کا استعمال عام نہ ہوگا ۔

[حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’جبکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے … اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہوجاتا اور اگر کسی فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا کیونکہ موسیٰ کے خلفاء نبی ہیں‘‘ ۔

(تذکرۃالشہادتین روحانی خزائن جلد20 صفحہ45)]

بہرحال مذکورہ بالا عظیم پیشگوئیوں کے مطابق عین وقت پر یہ مسیح آخر الزمان اور مہدیٔ دوراں آگیا جس نے اپنی بعثت کی ایک غرض یہ بتائی کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جائے اور انہیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے رنگ میں رنگین کیا جائے ۔

آپ کا نام نامی اور اسم گرامی ’’ مرزا غلام احمد ‘‘ہے اورآپ کے والد ماجد کا نام مرزا غلام مرتضیٰ ہے۔ آپ مغل برلاس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے بزرگ سمر قند کے علاقہ سے آئے تھے اوراُس جگہ آکر آباد ہوئے جس کا نام اب ’’قادیان ‘‘ ہے جو ضلع گورداسپور صوبہ مشرقی پنجاب ملک بھارت کا ایک قصبہ ہے۔ آپ 1835ء میں پیدا ہوئے ۔جب آپ کی عمر چونتیس یا پینتیس سال کے قریب تھی تو آپ کو اپنے والد ماجد کی وفات کے قریب ہونے کی بذریعہ الہام اطلاع ملی۔ الہام کے عربی الفاظ یہ تھے۔

’’وَ السَّمَآئِ وَالطَّارِقِ‘‘

آپ نے اس الہام کا جو مفہوم سمجھا اُسے آپ نے ان الفاظ میں بیان فرمایاہے۔

’’ قسم ہے آسمان کی جو قضاء و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہو جائے گا۔‘‘

(کتاب البریہ ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ193)

اس الہام سے آپ یہ سمجھے کہ آپ کے والد ماجد کا آج رات انتقال ہو جائے گا اور یہ الہام اس صدمہ کے موقع پر بطور تسلی ہے ۔ آپ کو اس موقع پر دوسرا الہام یہ ہوا کہ

’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ‘‘

اس دوسرے الہام کے سلسلہ میں آپ لکھتے ہیں

’’مجھے اُس خدائے عزّ وجلّ کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کرکے دکھلایا کہ میرے خیال اورگمان میں بھی نہ تھا۔ میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفل نہیں ہوگا ۔ میرے پر اُس کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کرسکوں‘‘ ۔

(کتاب البریہ ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ195 حاشیہ )

آپ نے 1880ء کے قریب اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ براہین احمدیہ ‘‘ کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انگریزی حکومت کا غلبہ پورے عروج پر تھا اورپوری قوت کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ ہورہی تھی اور بانیء اسلام ؐ کے خلاف صدہا کتابیں شائع ہو رہی تھیں۔ اسی زمانہ میں آریہ سماج اوربرہم سماج کی تحریکیں بھی اپنے شباب پر تھیں اور اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہی تھیں۔ مسلمانوں کی حالت اپنی جگہ ایسی نا گفتہ بہ اور قابل تشویش تھی کہ مولانا حالی نے 1879ء میں اس بے بسی اور بیکسی کا نقشہ یوں کھینچا ۔

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

ایسے نازک حالات میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اپنی یہ کتاب تصنیف کی جس میں کلام الٰہی قرآن مجید کی حقّانیت اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے زبردست دلائل بیان کئے۔ اس کتاب کی مقبولیت اور اس کی شاندار تاثیرات کا اندازہ اس تبصرہ سے لگایا جاسکتاہے جو اُس زمانہ کے مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں اس کتاب کے بارہ میں شائع کیا۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں ۔

’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اورموجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تألیف نہیں ہوئی … اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا وے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دوچار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیڑا بھی اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام و منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدّی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام میں شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کا تجربہ اور مشاہدہ کرے اور اس تجربہ اور مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھادیا ہو‘‘۔

(اشاعۃ السنہ نمبر 6 جلد7 صفحہ 169،170 )

یہ آثار اور نشانات اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ وہ ’’ رجل موعود ‘‘ جس کی آمد کا انتظار مدت سے کیا جارہا تھا وہ آپ کی ذات میں ہویدا ہونے والا ہے ضرورت زمانہ اور مسلمانوں کی حالت بھی اس کی متقاضی تھی اور ایسا ہی ہوا بھی ۔چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب اپنی ماموریت کے بارہ میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں

’’اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیاہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پاکر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو صلاح اورتقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں … وہ مسیح جو اُمّت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزّل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ مَیں ہی ہوں ‘‘ ۔

(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ3،4)

آپ مزید فرماتے ہیں۔

’’تمام اکابر اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ اس اُمّت مرحومہ کے درمیان سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا ہمیشہ سے جاری ہے اس معنے سے ہم ’’نبی ‘‘ ہیں ورنہ ہم اپنے آپ کو اُمّتی کیوں کہتے ۔ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو فیضان کسی کو پہنچ سکتاہے وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پہنچ سکتا ہے اُس کے سوائے اورکوئی ذریعہ نہیں … حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ آنے والا مسیح نبی بھی ہوگا اوراُمّتی بھی ہوگا اور اُمّتی تو وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے فیض حاصل کرکے تمام کمالات حاصل کرے ‘‘ ۔

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 438 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ)

آپ نے ایک دفعہ فرمایا

’’ باقی رہی یہ بات کہ ہم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ نزاع لفظی ہے۔ مکالمہ مخاطبہ کے تو یہ لوگ خود بھی قائل ہیں۔ اسی مکالمہ مخاطبہ کا نام اللہ تعالیٰ نے دوسرے الفاظ میں نبوت رکھا ہے ورنہ اس تشریعی نبوت کا تو ہم نے بارہا بیان کیا ہے کہ ہم نے ہرگز ہرگز دعویٰ نہیں کیا۔ … اس طرح کی نبوت کا کہ گویا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو منسوخ کردے دعویٰ کرنے والے کو ہم ملعون اور واجب القتل جانتے ہیں۔ ہم پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں یہ سب رسول اکرم کے فیض سے ہی ہیں ۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے الگ ہوکر ہم سچ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں اور خاک بھی نہیں۔ … کوئی ہزار تپسیا کرے، جَپ کرے، ریاضت ِ شاقہ اورمحنتوں سے مشت اِستخواں ہی کیوں نہ رہ جاوے مگر ہرگز کوئی سچا روحانی فیض بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اوراتباع کے کبھی میسر آسکتاہی نہیں اورممکن ہی نہیں‘‘ ۔

’’یہ سب عطیات اورعنایات اوریہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطّفات اور توجہات اور یہ انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیُمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘ ۔

(راہین احمدیہ ہر چہار حصص ۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ646)

جمال ہم نشیں در من اثر کرد

وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

اب ہم اس مدعیٔ مہدویّت اور مسیحیّت کی صداقت کے دلائل اور اس کی بعثت کی علامات کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔

1۔ مسیح موعود کی بعثت کے وقت کی ایک علامت یہ ہے کہ… مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ اپنی سابقہ عظمت اورشان وشوکت سے محروم ہوجائیں گے۔ اُن میں نہ اتفاق باقی رہے گا اور نہ اتحاد ۔ بہتّر فرقوں میں وہ بٹ جائیں گے۔ ہر فرقہ صرف اپنے آپ کو ناجی قرار دے گا۔ روحانی ،تمدنی اور سیاسی ہرلحاظ سے ان کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ وہ تمام بدیاں جو کبھی یہود میں پائی جاتی تھیں وہ سب مسلمانوں میں راہ پاجائیں گی۔ قرآن کریم کی سمجھ اور اُس کے احکام پر عمل کا فقدان ہوگا۔ اُس کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے اور اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ ان کی مسجدیں بظاہر آباد اوربھری نظر آئیں گی لیکن ہدایت اور نجات کے لحاظ سے ویران دکھائی دیں گی۔ اُن کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ وہ خود فتنے اُٹھائیں گے اور پھر خود ہی ان فتنوں کی آگ میں جل بھن مریں گے ‘‘۔

ان سب حالات کا ذکر قرآن کریم میں اجمالاً اورکتب حدیث میں تفصیلاً موجود ہے ۔

قرآن کریم مسلمانوں کی بگڑی حالت کا ذکر ان الفاظ میں کرتاہے

قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَاالْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا(الفرقان31:)

یعنی رسولؐ (عالم روحانی میں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر ) کہیں گے ،اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو (بیکار سمجھ کر ) چھوڑ دیا ہے اور دوسرے فلسفوں اور برباد کن نظریوں اور ہلاکت خیز راہوں کو اختیار کرلیا ہے۔

حدیث رسولؐ ہے کہ آپ نے فرمایا ۔

یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہٗ، وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرآنِ اِلَّا رَسْمُہٗ ۔

(مشکٰوۃ المصابیح کتاب العلم، الفصل الثالث )

یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کا فقط نام باقی رہ جائے گا اورقرآن کی صرف تحریر اور حروف کی شکل رہ جائے گی اس پر عمل کوئی نہیں کرے گا ۔

مسلمانوں کے مسلّمہ لیڈر اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حالات مسلمانوں پر گزر ے ہیں۔ چنانچہ مولانا حالی نے مسلمانوں کی اس دردناک حالت کا مرثیہ پڑھا اورعلّامہ اقبال نے اس حالت کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

غرض وہ تمام بدیاں اور کمزوریاں اقتصادی نکبتیں اور بدحالیاں جو گزشتہ زمانہ میں بعثتِ انبیاء کی متقاضی ہوئیں وہ تمام اپنی ساری شناعتوں کے ساتھ موجود ہ مسلمانوں میں موجود ہیں ۔

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت

مَیںنہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

2۔ اس عظیم ’’مہدیء دوراں‘‘ کی صداقت کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی صداقت کی گواہی آسمان دے گا اور وہ اس طرح کہ اُس کے دعویٰ کے بعد رمضان کے مہینہ کی تیرہ تاریخ میں چاند گرہن ہوگا اور اسی مہینہ کی اٹھائیس تاریخ میں سورج کو گرہن لگے گا ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ۔

’’اِنَّ لِمَہْدِیِّنَا آیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہٗ‘‘۔ (سنن الدّار قطنی ، کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف۔ بحار الانوار جلد52 صفحہ213،214 مطبع داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان طبع ثالث 1983ء)یعنی ہمارے اس مہدی کی صداقت کی دونشانیاں ایسی ہیں کہ آسمان وزمین کی پیدائش کے آغاز سے بطور نشان کبھی ظاہر نہیں ہوئیں ۔

اوّل یہ کہ رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن (کی تاریخوں13۔14۔15 میں سے) پہلی تاریخ (یعنی13) کو گرہن ہوگا اور اسی مہینہ میں (سورج گرہن کی تاریخوں 27۔28۔29 میں سے) درمیانی (یعنی28 ) تاریخ کو سورج گرہن ہوگا۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کے دعویٰ مہدویّت کے بعد1311ھ کے رمضان کی 13 تاریخ کو چاند گرہن ہوا اور اسی مہینہ کی اٹھائیس تاریخ میں سورج گرہن ہوا۔ عیسوی لحاظ سے یہ1894 ء تھا ۔(دراصل یہ نشان دو دفعہ ظاہر ہوا پہلے سال یعنی 1894ء میں مشرقی ممالک میں یہ ظاہر ہوا اور اگلے سال یعنی 1895ء میں مغربی ممالک امریکہ وغیرہ میں اس کا ظہور ہوا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1889ء کو مہدویت کا دعویٰ کیا اور اس کے دوسال بعد 1891ء میں آپ نے کھلے طور پر مسیحیت کا دعوی کیا ۔ اسی سال آپ نے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی ۔)

دراصل یہ حدیث قرآن کریم کی آیات فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَ خَسِفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ(القیامۃ8:تا11)کی تفسیر ہے اور اس کی تائید انجیل اور دوسرے بزرگوں کی تشریحات سے بھی ہوتی ہے ۔ (متی باب 24 آیت 30۔ حجج الکرامہ صفحہ 344)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس نشان کے ظہور کے سلسلہ میں فرماتے ہیں

’’جب سے نسلِ انسانی دنیا میں آئی ’’نشان‘‘ کے طور پر یہ خسوف و کسوف صرف میرے زمانہ میں میرے لئے واقع ہوا ہے اورمجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اُس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور دوسری طرف اُس کے دعویٰ کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہوگیا ہو اوراُس نے اس خسوف وکسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہو۔ …کسوف خسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں۔ نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت (خاص معین تاریخوں میں ) صرف ایک دفعہ ہوا ہے ۔

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ329 ،330 حاشیہ)

محترم پروفیسر حافظ ڈاکٹر صالح محمد الٰہ دین صاحب سابق صدر شعبہ فلکیات عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد(آپ حافظِ قرآن تھے۔ آپ کو قرآن کریم سے خاص تعلق تھا۔ دنیاوی تعلیم بھی پی ایچ ڈی تھی اور اسٹرانومی میں انہوں نے بڑا نام پیدا کیا ہے لیکن سائنس کو ہمیشہ قرآن کے تابع رکھا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے انہوں نے فزکس میں ایم ایس سی کی پھر بعد میں انہوں نے امریکہ سے اسٹرانومی، ایسٹروفزکس میں پی ایچ ڈی کی ۔ 1963ء میں Observatory University of Chicago USA سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔آپ بڑی خصوصیات کے حامل تھے، علمی لحاظ سے ان کے قریباًپچاس مضامین اور ریسرچ پیپر بین الاقوامی رسالوں میں شائع ہوئے ہیں اور جن پر کئی ایوارڈز بھی ان کو ملے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگناد سہا (Megnanad Saha) ایوارڈ فارتھیوریٹیکل سائنس 1981ء میں آپ کو دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بے تحاشا ایوارڈ ان کو ملے ہیں۔Lunar and Solar Eclipses اور Dynamic of galaxies آپ کے پسندیدہ مضمون تھے جن میں قرآن اور احادیث میں سورج چاند گرہن بطور صداقت حضرت مسیح موعود اور امام مہدی بیان ہوا ہے۔95۔1994ء میں اس نشان پر صد سالہ پروگرام کے تحت کئی جماعتی رسائل میں آپ کے مضامین بھی شائع ہوئے۔ مختلف یونیورسٹیز کے ریسرچ سکالر اور ریسرچ فیلو بھی تھے۔ یہ لمبی ایک فہرست ہے ۔ پھر Great minds of the 21st century, American biographical institute Raleigh U.S.A 2003 نے ان کو 2003ء میں ایوارڈ بھی دیا۔)نے مہدی دوران کی صداقت کی دو علامات یعنی کسوف و خسوف جن کا قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مذکورہ بالا میں ذکر ہے، کے موضوع پر اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں اس کی تصریح کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔

مذہب اسلام میں مصلح آخر الزمان کے وقت میں سورج ، چاند گرہن کے نشان کا ذکر بہت نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ القیامۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَ خَسَفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ (القیامۃ8:تا11) یعنی ’’ پس جس وقت آنکھیں پتھرا جائیں گی اور چاند گرہن ہوگا اور سوج اور چاند اکٹھے کئے جائیں گے یعنی سورج کو بھی گرہن لگے گا تب اس روز انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟

اس آخری زمانہ میں ہونے والے گرہنوں کی تفصیل ہمیں ایک مشہور حدیث سے ملتی ہے ۔ چوتھی صدی ہجری میں حضرت علی بن عمر البغدادی الدار قطنی (306ھ ؍ 918ء تا 385ھ ؍ 995ء) بلند پایہ محدث گزرے ہیں۔ وہ اپنی سنن دار قطنی میں حضرت امام باقر محمد بن علی رضی اللہ عنہ (جو حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے) کی روایت سے یہ حدیث درج فرماتے ہیں۔

اِنَّ لِمَہْدِیِّنَا آیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَ تَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ۔ (سنن دارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلٰوۃ الخسوف جلد اوّل صفحہ 188مطبع انصاری دہلوی)

یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں وہ کبھی نہیں ہوئے (یعنی کبھی کسی دوسرے کے لئے نہیں ہوئے) جب سے کہ آسمان اور زمین پیدا ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں کہ رمضان کے مہینہ میں اوّل رات کو گرہن لگے گا (یعنی گرہن کی راتوں میں سے اوّل رات کو) اور سورج کو درمیان میں گرہن لگے گا (یعنی گرہن کے دنوں میں سے درمیانے دن کو) اور یہ ایسے نشان ہیں کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کیا کبھی (کسی دوسرے مامور و مدعی کے لئے ) نہیں ہوئے۔

گرہن کی تاریخوں کا ذکر نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب حجج الکرامہ میں لکھتے ہیں۔

’’گویم خسوف قمر نزد اہل نجوم متقابل شمس بر ہیئت مخصوص میشود در غیر تاریخ سیزدہم و چہار دہم و پانزدہم اتفاق می افتدو ہمچنیں کسوفِ شمس بر ہیئت بر شکل خاص در غیر تاریخ بست و ہفت و بست و ہشت و بست و نہم میشود‘‘

(حجج الکرامہ صفحہ 344 ۔ مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال)

یعنی مَیں کہتا ہوں کہ اہل نجوم کے نزدیک چاند گرہن سورج کے مقابل آنے سے ایک خاص حالت میں سوائے تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں اور اسی طرح سورج گرہن بھی خاص شکل میں سوائے ستائیسویں ، اٹھائیسویں اور انتیسویں تاریخوں کے کبھی نہیں لگتا۔

پیشگوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن اوّل رات میں ہوگا اور سورج گرہن درمیان میں۔ لہٰذا چاند گرہن کے لئے تیرھویں رمضان اور سورج گرہن کے لئے اٹھائیسویں رمضان مقرر ہوئے۔

اس پیشگوئی کے سلسلہ میں متعدد اعتراضات کئے گئے

جو اعتراضات آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) پر کئے گئے ان میں یہ اعتراض بھی تھا کہ سورج گرہن چاندگرہن کے بارے میں جو پیشگوئی ہے وہ پوری نہیں ہوئی؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ نشان آسمانی دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق 1311ھ بمطابق 1894ء میں رمضان المبارک کی مقرر کردہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگے۔ چاند گرہن رمضان المبارک کی ابتدائی تیرھویں رات 21؍ مارچ کو ہوا اور سورج گرہن 28 رمضان المبارک بروز جمعہ 6 ؍ اپریل کو۔ 1894ء کی جنتری کے علاوہ گرہن کا ذکر اخبار آزاد اور سیول اینڈ ملٹری گزٹ میں بھی ہوا۔ پروفیسر T.R Von Oppolzir کی کتاب Canon of Eclipses میں B.C 1208 سے لے کر A.C.1261 کے گرہنوں کی انگریزی تاریخیں دی گئی ہیں۔ اس کتاب سے بھی مذکورہ بالا تاریخوں کی تصدیق ملتی ہے۔ یہ کتاب عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد کے شعبہ ہیئت کی لائبریری میں موجود ہے۔ 1894ء کے Nautical Almanal London سے بھی تصدیق حاصل کی جاسکتی ہے۔

1311ھ ؍ 1894ء کے رمضان کے گرہنوں کی خصوصیات

اس نشان کے ظاہر ہونے کے بعد حضرت بانیء سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی کتاب نورالحق حصہ دوم تحریر فرمائی جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ’’اس نشان سے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی‘‘۔ آپ نے اپنے الہام کی روشنی میں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ حدیث شریف میں اَوَّلَ لَیْلَۃ کے جو الفاظ آئے ہیں اس سے مراد چاند گرہن کی پہلی رات یعنی 13 ؍ رمضان کی رات ہے اور فِی النِّصْف کے جو الفاظ آئے ہیں اس سے مراد سورج گرہن کا درمیانی دن یعنی 28؍ رمضان ہے۔ چنانچہ گرہن انہیں تاریخوں میں ہوئے نیز آپ نے اپنی کتاب میں یہ ایمان افروز بات بھی بتائی کہ پیشگوئی کے اوّل اور نصف کے الفاظ دو طرح سے پورے ہوئے۔ ایک تاریخوں کے لحاظ سے ۔ دوسرے وقت کے لحاظ سے۔ وقت کے لحاظ سے اس طرح پورے ہوئے کہ چاند گرہن قادیان میں اوّل رات یعنی رات کے شروع ہوتے ہی ہوگیا اور سورج گرہن قادیان میں دوپہر سے پہلے ہوا۔

Calcutta standard time کے مطابق ہندوستان میں چاند گرہن شام کو سات بجے اور ساڑھے نو بجے کے درمیان ہوا اور سورج گرہن دن کو 9 بجے اور 11 بجے کے درمیان۔

(الفضل 17؍ اگست1973ء)

سورج گرہن کے نصف ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں۔

’’یہ قول کہ سورج گرہن اس کے نصف میں ہوگا اس سے یہ مراد ہے کہ سورج گرہن ایسے طور سے ظاہر ہوگا کہ ایّام کسوف کو نصفا نصف کردے گا اور کسوف کے دنوں میں سے دوسرے دن کے نصف سے تجاوز نہیں کرے گا کیونکہ وہی نصف کی حد ہے۔ پس جیسا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کیا کہ گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو چاند گرہن ہو ایسا ہی یہ بھی مقدر کیا کہ سورج گرہن کے دنوں میں سے جو وقت نصف میں واقع ہے اُس میں گرہن ہو۔ سو مطابق خبر واقع ہوا اور خدا تعالیٰ بجز ایسے پسندیدہ لوگوں کے جن کو وہ اصلاح خلق کے لئے بھیجتا ہے کسی کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا۔ پس شک نہیں کہ یہ حدیث پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو خیر المرسلین ہے ۔ ‘‘ (نور الحق حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ204،205 اردو ترجمہ)

ایک اور لطیف بات جس کا ذکر حضرت بانیء سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی کتاب نورالحق حصہ دوم میں فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے چاند گرہن کے لئے تو خسف کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو عام طور پر چاند گرہن کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن سورج گرہن کے لئے کسف کا لفظ استعمال نہیں فرمایا جو عام طور پر سورج گرہن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ سورج گرہن کے لئے جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں

’’قرآن نے کسوف کو کسوف کے لفظ سے بیان نہیں کیا تا ایک امر زائد کی طرف اشارہ کرے کیونکہ سورج گرہن جو بعد چاند گرہن کے ہوا یہ ایک غیر معمولی اور نادرۃ الصور تھا اور اگر تو اس پر کوئی گواہی طلب کرتا ہے یا مشاہدہ کرنے والوں کو چاہتا ہے ۔ پس اس سورج گرہن کی صور غیبیہ اور اشکال عجیبیہ مشاہدہ کرچکا ہے پھر تجھے اس بارے میں وہ خبر کفایت کرتی ہے جو دو مشہور اور مقبول اخبار یعنی پانیر ( Poiner) اور سیول ملٹری گزٹ میں لکھی گئی ہے اور وہ دونوں پرچے مارچ 1894ء میں شائع ہوئے ہیں ۔‘‘

(نور الحق حصہ دوم۔ جلد 8 صفحہ214 اردو ترجمہ)

گرہنوں کے اقسام ہوتے ہیں۔ بعض گرہن خفیف ہوتے ہیں اور بعض نمایاں ہوتے ہیں۔ پروفیسر J.A. Mitchellنے اپنی کتاب Eclipses of The Sun Columbia university press, New York 5th edition 1951 Pages 53 میں سورج گرہن کے چار اقسام کا ذکر کیا ہے اور یہ چار اقسام یہ ہیں۔

1- Partial 2- Annular 3- Annular Total 4- Total

Partial گرہن میں سورج کا کچھ حصہ تاریک ہوتا ہے ۔

Annular گرہن میں سورج کا درمیانی حصہ تاریک ہوتا ہے لیکن اطراف کا حصہ تاریک نہیں ہوتا۔

Total گرہن میں سورج تمام کا تمام تاریک ہوجاتا ہے۔

Annular Total جیسا کہ نام سے ظاہر ہےAnnular اور Total کے درمیان کی قسم ہے۔ یہ تیسری قسم کا گرہن سب سے زیادہ نایاب ہے۔

پروفیسر Mitchell نے ماضی کے گرہنوں کا جائزہ لینے سے یہ استنباط کیا ہے کہ اوسطاً صدی میں 237 سورج گرہن ہوئے جن میں سے صرف دس اس قسم کے تھے۔ 28؍ رمضان المبارک 1311ھ میں گرہن اس تیسری قسم کا تھا اس لئے وہ عام سورج گرہن سے مختلف تھا۔ جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ذکر فرمایا ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ چاند کو جب گرہن لگتا ہے تو زمین کے نصف کرّہ سے زیادہ حصہ سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن سورج گرہن کم علاقہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کئی دفعہ ایسے مقامات پر سورج گرہن ہوتا ہے جہاں سمندر ہوتا ہے یا آبادی کم ہوتی ہے۔1894ء کا سورج گرہن ایشیا کے کئی مقامات سے دیکھا جا سکتا تھا جس میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ جہاں پیشگوئی کے مقصود سیدنا حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور آپ کے صحابہ نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں بھی حق کے طالبوں کے لئے نشان ہے کہ گرہن ہندوستان سے دیکھا جاسکتا تھا۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں

’’ اے بندگان خدا ! فکر کرو اور سوچو کہ کیا تمہارے نزدیک جائز ہے کہ مہدی تو بلاد عرب اور شام میں پیدا ہو اور اس کا نشان ہمارے ملک میں ظاہر ہو اور تم جانتے ہو کہ حکمت الٰہیہ نشان کو اس کے اہل سے جدا نہیں کرتی۔ پس کیونکر ممکن ہے کہ مہدی تو مغرب میں ہو اور اس کانشان مشرق میں ظاہر ہو اور تمہارے لئے اس قدر کافی ہے اگر تم طالب حق ہو ۔‘‘ (نور الحق حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 215،216 اردو ترجمہ )

پروفیسر Oppolzerکی کتاب Canon Eclipses میں صرف نمایاں سورج گرہنوں کے مقامات کو نقشہ کے ذریعہ دکھایا گیا ہے۔ 1894ء کے رمضان کا سورج گرہن چونکہ نمایاں قسم کا تھا اس لئے اس کے Track کو پروفیسر Oppolzer نے map سے بتایا ہے۔ اس کتاب کے Chart 148 میں اس سورج گرہن کے راستہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 1894ء Nautical Almanal میں بھی اس سورج گرہن کے راستہ کو map سے بتایا گیا ہے۔ دونوں کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سورج گرہن کا راستہ ہندوستان میں سے گزرتا ہے۔

1312ھ ؍ 1895ء میں دوسری دفعہ رمضان میں گرہن

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ دو دفعہ رمضان میں گرہن ہوگا۔

’’ اِنَّ الشَّمْسَ تَنْکَسِفُ مَرَّتَیْنِ فِیْ رَمَضَانَ ‘‘

( مختصر تذکرہ قرطبی صفحہ 148)

چنانچہ اگلے سال 1895ء میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہوئے۔ یہ گرہن قادیان سے نظر نہیں آئے۔ انگلستان اور امریکہ کے بعض علاقوں سے نظر آسکتے تھے۔ چاند گرہن 11؍ مارچ 1895ء میں ہوا اور سورج گرہن 26؍مارچ 1895ء کو ہوا۔ ان گرہنوں کے وقت بھی قادیان میں رمضان کی تاریخیں 13 اور 28 تھیں۔ مقام کے بدلنے سے تاریخیں بدل سکتی ہیں۔ اس دفعہ کا سورج گرہن نمایاں قسم کا نہیں تھا۔ لہٰذا پروفیسر Van Oppolzer نے اپنی کتاب میں اس کے لئے map نہیں دیا ہے۔

حضرت بانیء سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میںجو 1907ء میں شائع ہوئی ان گرہنوں کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں

’’جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہوچکا ہے۔ اوّل اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چونکہ اس گرہن کے وقت مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویّت کا نشان قرار دے کر صدہا اشتہار اور رسالے اردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے۔ اس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعیّن ہوا ۔ دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ بارہ برس پہلے اس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اِس نشان کے بارہ میں خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہوکر قبل اس کے کہ جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوںمیں مشہور ہوچکی تھی ۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی جلد 22 صفحہ202)

مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ کی تشریح

حدیث شریف میں مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ کے جو الفاظ آتے ہیں اس کی تشریح مناسب معلوم ہوتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی سے یہ سمجھتے ہیں کہ 1894ء سے پہلے رمضان کے مہینے میں13 اور 28 تاریخوں میں گرہن کبھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ تصور واقعات کے خلاف ہے۔ خاکسار نے جو تحقیق اپنے دوست Dr. Goswemi Mohar Ballebl کے ساتھ کی ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کم و بیش ہر22 سال میں ایک سال یا مسلسل دو سال ایسے آتے ہیں جبکہ چاند اور سورج دونوں کو رمضان کے مہینے میں گرہن لگتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی مقام سے دونوں گرہن نظر آئیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیں ریویو آف ریلیجنزجون 1992ء۔ کسی معین جگہ سے معین تاریخوں میں دونوں گرہنوں کا نظر آنا اس واقعہ کو کافی نایاب بنا دیتا ہے۔ ایسا صدیوں میں ایک دفعہ ہوتا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے لے کر اب تک 109دفعہ سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں رمضان کے مہینہ میں ہوئے ہیں لیکن ان میں سے صرف 2 یا 3 دفعہ ہی ایسا ہوا کہ 13؍ رمضان اور 28؍رمضان کو یہ گرہن قادیان سے نظر آسکتے تھے۔ مزید ایمان افروز بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے لے کر اب تک صرف 1894ء (1311ھ) ہی ایک ایسا سال تھا جب کہ نہ صرف 13 اور 28؍رمضان کو قادیان پر گرہن ہوئے بلکہ اَوَّلَ لَیْلَۃٍ کی پیشگوئی کے الفاظ اس طرح بھی پورے ہوئے کہ چاند گرہن قادیان میں رات کے شروع ہوتے ہی ہوگیا۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔

مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ کے الفاظ سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان تاریخوں میں گرہن پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ مراد ہے کہ ایسے نشان کبھی کسی مدعی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا مدعی کا موجود ہونا ضروری ہے۔ دار قطنی کے الفاظ اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ میں لام افادیت کا ہے جس سے ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ان دونوں نشانوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں۔

’’ ہمیں اس بات سے بحث نہیں کہ ان تاریخوں میں کسوف خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتدائے دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے؟ ہمارا مدعا صرف اس قدر ہے کہ جب سے نسل انسان دنیا میں آئی ہے نشان کے طور پر یہ خسوف و کسوف صرف میرے زمانہ میں میرے لئے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعویٰ کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہوگیا ہو اور اس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لئے ایک نشان ٹھہرایا ہو اور دار قطنی کی حدیث میں یہ تو کہیں نہیں ہے کہ پہلے کبھی کسوف خسوف نہیں ہوا۔ ہاں یہ تصریح سے الفاظ موجود ہیں کہ نشان کے طور پر یہ پہلے کسوف و خسوف نہیں ہوا کیونکہ لَمْ تَکُوْنَا کا لفظ مؤنث کے صیغہ کے ساتھ دارقطنی میں ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نشان کبھی ظہور میں نہیں آیا اور اگر یہ مطلب ہوا کہ کسوف خسوف پہلے کبھی ظہور میں نہیں آیا تو لَمْ یَکُوْنَا مذکر کے صیغہ سے چاہیے تھا نہ کہ لَمْ تَکُوْنَا کہ جو مؤنث کا صیغہ ہے جس سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اٰیَتَیْن ہے یعنی دو نشان کیونکہ یہ مؤنث کا صیغہ ہے۔ پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ خسوف کسوف ہوچکا ہے اُس کے ذمہ یہ بارِ ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدعی مہدویت کا پتہ دے جس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہو اور یہ ثبوت یقینی اور قطعی چاہیے اور یہ صرف اسی صورت میں ہوگا کہ ایسے مدعی کی کوئی کتاب پیش کی جائے جس نے مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دار قطنی کی مقرر کردہ تاریخوں کے موافق ہوا ہے وہ میری سچائی کا نشان ہے۔

غرض صرف خسوف کسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں ۔ نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت صرف ایک دفعہ ہوا ہے اور حدیث نے ایک مدعی مہدویت کے وقت میںاپنے مضمون کا وقوع ظاہر کرکے اپنی صحت اور سچائی کو ثابت کردیا ۔‘‘

(چشمہء معرفت ۔ روحانی خزائن جلد23 صفحہ329،330 حاشیہ)

نیز حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں

’’ در حقیقت آدم سے لے کر اس وقت تک کبھی اس قسم کی پیشگوئی کسی نے نہیں کی اور یہ پیشگوئی چار پہلو رکھتی ہے ۔

1۔ یعنی چاند کا گرہن اس کی متعلقہ راتوں میں سے پہلی رات میں ہونا۔

2۔ سورج کا گرہن اس کے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میںہونا۔

3۔ تیسرے یہ کہ رمضان کا مہینہ ہونا۔

4۔ چوتھے مدعی کا موجود ہونا جس کی تکذیب کی گئی ہو۔

پس اگر اس پیشگوئی کی عظمت کا انکار ہے تو دنیا کی تاریخ میں سے اس کی نظیر پیش کرو اور جب تک نظیر نہ مل سکے تب تک یہ پیشگوئی ان تمام پیشگوئیوں سے اوّل درجہ پرہے جن کی نسبت آیت فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَداً کا مضمون صادق آسکتا ہے کیونکہ اِس میں بیان کیا گیا ہے کہ آدم سے آخیر تک اس کی نظیر نہیں‘‘ ۔

(تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ136 )

چاند گرہن، سورج گرہن کے نشان ایسے نشان ہیں جو کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس نے سورج اور چاند اور زمین کو پیدا کیا ہے بکلّی اس کے اختیار میں ہے جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو الہام ہوئے کہ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اُس کو مانو گے یا نہیں؟ پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کرو گے یا نہیں؟

اس نشان کے کئی ایمان افروز پہلو ہیں۔ مختلف مذاہب کی کتابوں میں ان نشانوں کا ذکر پایا جانا، قرآن مجید میں ان کا نمایاں طور پر ذکر ہونا۔ حدیث شریف میں پیشگوئی کی تفصیل پائی جانا اور یہ بتایا جانا کہ ایسا نشان کسی اور مامور کے لئے کبھی ظاہر نہیں ہوا۔

حضرت محمد بن علی امام باقر جو آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں کا حدیث کے راوی ہونا ۔ بزرگانِ دین کا ان نشانوں کا ذکر کرنا۔ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں اس پیشگوئی کا پایا جانا۔ ان گرہنوں کا ٹھیک دعویٰ مہدویت کے بعد انتہائی مخالفت کے وقت میں وقوع ہونا۔ ان گرہنوں کا بڑی باریکیوں کے ساتھ پیشگوئی کے شرائط کو حرف بحرف پورا کرنا۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا بڑی تحدی کے ساتھ ان گرہنوں کا اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش کرنا۔ آپ کا یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ یہ نشانات میرے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ اعلان کرنا کہ یہ نشانات میری تصدیق کے لئے ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں جو ہر متلاشی حق کو سچائی کو قبول کرنے کی پُرزور دعوت دیتے ہیں۔

حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں

اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاء جَآئَ الْمَسِیْح جَآئَ الْمَسِیْح

نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار

یعنی سنو ! آسمان سے آواز آرہی ہے کہ مسیح آگیا مسیح آگیا

نیز فرماتے ہیں

آسمان بارد نشان الوقت میگوید زمیں

ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند

نیز فرماتے ہیں

آسمان میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ

چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

نیز فرماتے ہیں

یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا

یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا

(ڈاکٹر صالح محمد الٰہ دین صاحب کے مضمون سے اقتباسات ۔ مصباح مئی 1994ء صفحہ 32 تا 52 سے دئیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اس عنوان پر مضمون خالد اگست 1994ء اور ریویو آف ریلیجنز انگلش ستمبر 1994ء میں بھی شائع ہوا تھا۔( ناشر)

……………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button