متفرق مضامینمضامین

مصالح العرب (قسط ۴۴۲)

(محمد طاہر ندیم۔مربی سلسلہ عربک ڈیسک یوکے)

(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )

مکرمہ احلام الحامدی صاحبہ

مکرمہ احلام الحامدی صاحبہ کاتعلق حضرموتؔ کے علاقے سے ہے جہاں ان کی پیدائش1983ء میں ہوئی اور انہیں 2013 ء میں بیعت کی توفیق ملی۔وہ احمدیت کی طرف اپنے سفر کی داستان کچھ یوں بیان کرتی ہیں

میری عمر بارہ سال تھی اورمیں اپنے والدین کے ساتھ مکۃ المکرمہ کے ایک مدرسہ میں پڑھ رہی تھی۔تاریخ اسلام میرا پسندیدہ مضمون تھا۔جب میری استانی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے غزوات کے بارہ میں بات کرتی تو میں اس میں اس قدر ڈوب جاتی کہ مجھے ایسے معلوم ہوتا جیسے یہ تمام واقعات میری آنکھوں کے سامنے ہورہے ہوں۔ مسلمانوں کی فتوحات، ابتلاء میں صبر اور قربانیوں کی داستانیں سن کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہتی۔

جب میری استانی اپنا لیکچر دے کر چلی جاتی تو میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے شروع ہوجاتے۔ میں خود کلامی کی حالت میں کہتی کہ اگر مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تو کیا آپ پر ایمان لانے والوں میں ہوتی یا خدا نخواستہ آپ کا انکار کرکے کفار کے گروہ میں شامل ہوجاتی؟!کیا مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء کی بیعت کرتی یا خدا نخواستہ بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہوتی؟!

گو ان سوالوں کے بارہ میں سوچ کر میں اکثر غمگین ہوجاتی لیکن دل میں یہ خواہش بشدت جوش مارتی کہ انبیاء اور خلفاء کے زمانے کا کچھ حصہ ہمیں بھی تو ملنا چاہئے تھاتا کہ ہم بھی معرفتِ حق کے اس تجربہ سے گزرتے۔

نام کا اسلام اور میرے سوالات

خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔ لیکن میرے خاندان کا اسلام دراصل اپنے باپ دادا کے دین کی پیروی کا نام تھا۔ خرافات اورخلاف دین امور نے ہمیں جہالت ، گمراہی اور عجیب خوف کی ایسی حالتوں کی طرف دھکیل دیا تھاجن میں جھوٹ اور نفاق کی کھلی اجازت تھی۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ ہمارے اس اسلامی معاشرے میں کھلے عام کہا جاتاتھا کہ ابراہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ تین جھوٹ بولے تھے۔ اسی طرح مولوی حضرات کے ایک دوسرے کے خلاف گندے فتاویٰ اوربدکلامی، نیزجنّ،حسد اورنظر لگنے جیسے مسائل میں جس طرح شرک کیا جاتا تھا اس کی کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔

میں نے قرآن کریم کی تفاسیر اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا تو میری حیرت او رسوالوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ان میں سے چند ایک یہ تھے:

نبی کریم ﷺ پر جادوکیسے ممکن ہوگیا؟ صرف یہی ایک بات مزید الجھے ہوئے سوالوں کو جنم دیتی تھی۔

پھر یہ سوال کہ نوح علیہ السلام کی قوم تو کسی معین مقام پر موجود تھی پھر ان کو تباہ کرنے کی خاطر ساری زمین کو ہی تہِ آب کیوں کردیا گیا؟

حواریوں کے لئے آسمان سے وہ مائدہ کیسے نازل ہوا جس میں طرح طرح کے لذیذ وطیب کھانے شامل تھے؟

مَیں نے تفاسیر میں نبیوں کی شان میں بہت سی گستاخیاں پڑھیں۔ان تفاسیر میں مذکورحضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ مجھے بالکل پسند نہ آیا۔

اسی طرح یاجوج وماجوج کے قصے اور دجال کے معجزات اور خارق عادت امور کے بارہ میں میرے سوالات اس قدر تھے کہ اگر لکھنے لگوں تو کئی دفتر درکار ہوں گے۔

میں کہتی تھی کہ اگریہ تفاسیر درست ہیں توان میں مذکور گزشتہ زمانوں کے معجزات میں سے کچھ تو اس خیر امّت میں بھی نظر آنے چاہئیں۔لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔

کنارہ کشی اختیار کرلی

قریب تھا کہ میں دین سے دور ہو کر الحاد کی رو میں بَہ جاتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے بچایا اور میں بکثرت یہ دعا کرنے لگی کہ خدایا مجھے توخودعلم عطا فرما اور مجھے اسلام کی حقیقت اور اس کا فہم عطا فرما۔

میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ناسخ ومنسوخ او ردیگر امور دین کے بارہ میں بحث کرتی تو وہ مجھے بحث کرنے سے روکتے ہوئے کہتے کہ یہود بھی تمہاری طرح اپنے انبیاء سے بحثیں کرتے تھے اِس لئے گمراہ ہوگئے۔

مجبورًا میں نے ان سے کنارہ کرلیا حتی کہ شادی بیاہ کی تقاریب سے بھی دور رہنا شروع کردیا کیونکہ ان میں بھی رقص و غناء جیسے بہت سے امور تھے جو میری فطرت کے خلاف تھے۔ میرے اعتراضات کی بنا پر کچھ لوگوں نے مجھ سے او رکچھ سے میں نے دوری اختیار کرلی۔

ان میں سے بعض نے مجھ سے کہا کہ تم بیمار ہواور تمہیں کسی مولوی سے دم درود کروانا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تمہارے اوپر جنّوں کا سایہ ہو۔ لیکن چونکہ مجھے ان کے غلط عقائد اور اپنی ذات کا بہت اچھی طرح علم تھا اس لئے میں نے ان کی بات سنی اَن سنی کردی۔

میری شادی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی عطا فرمائی۔ میرا خاوند کئی کئی روز تک جاب کی وجہ سے گھر سے غائب رہتا اور مَیں گھر میں بچوں کے ساتھ اکیلی ہوتی تھی۔ ایسے میں وقت گزارنے کا ٹی وی ہی ایک واحد ذریعہ تھا لیکن میں اس بارہ میں بھی شدت پسند تھی او رٹی وی کو زیادہ دیکھنا پسند نہ کرتی تھی۔ کبھی کبھار میں ٹی وی لگا کر بعض اچھے دینی چینلز تلاش کرنے کی کوشش کرتی لیکن کسی چینل سے میری روحانی پیاس نہ بجھ سکی۔

جھوٹے لوگ!

میری دعا جاری رہی اور اسی عرصہ میں مَیں نے بکثرت ایسے رؤیا دیکھے جو قرب قیامت کی نشانیوں کے پورا ہونے کے مناظر پر مشتمل تھے۔کبھی میں دیکھتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہورہا ہے او رکبھی یہ کہ لوگ خدا کے سامنے حساب کتاب کے لئے پیش ہیں اور یوم حشر برپا ہے۔

ان میں سے ایک رؤیا ایسا ہے جسے میں زندگی بھر نہیں بھلا سکوں گی۔ میں نے خواب میں ایک مشہور ومعروف مولوی کو زمین پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کے جسم پر مہندی سے نقش ونگار کئے گئے تھے۔میں یہ دیکھ کر سخت حیران ہوئی اور بے اختیار ی کے عالم میں میرے منہ سے نکلا یہ جھوٹے لوگ ہیں۔پھرگھبرا کر میری آنکھ کھل گئی اور میری زبان پر یہی الفاظ تھے کہ یہ جھوٹے لوگ ہیں۔

اتفاق یا تقدیر الٰہی!

انہی ایام میں ایک بار میرا خاوند کام سے چھٹی پر گھر آیا تو اس نے بعض نیوز چینلز کو تلاش کر کے محفوظ کر لیا ۔ چونکہ اسے علم تھا کہ میں ایسے چینلز دیکھنا پسند نہیں کرتی اس لئے اس نے کہا کہ جب وہ چھٹی کے بعد واپس جائے گا تو ان چینلز کو حذف کر دے گا۔ہم مختلف امور میں ایسے الجھے کہ میرے خاوند کے جانے کا وقت آگیا اور وہ ان چینلز کو حذف کئے بغیر ہی چلا گیا۔ کچھ روز کے بعد میں نے ٹی وی آن کیا تو دیکھا کہ اس پر بہت سے غیر ضروری چینل کھل رہے ہیں۔ میں نے ایک ایک کر کے سب کو حذف کرنا شروع کیا تو ایسے میں ایم ٹی اے کھل گیا جس پر اس وقت پروگرام الحوار المباشر لگا ہوا تھا ۔ میں نے یہ چینل پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ چپ چاپ میں نے اس پروگرام کو سننا شروع کردیا۔ پروگرام مجھے اس قدر پسند آیا کہ فخر سے میرا سر بلند ہونے لگا اور شرکائے پروگرام کی باتیں سنتے ہوئے بے اختیار ہو کر میرے منہ سے کئی مرتبہ یہ الفاظ نکلے کہ: یہ بات درست ہے، یہی حق ہے اور حقیقت کو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔

دوران پروگرام جب ندیم صاحب کچھہ بولنے لگے تو میں سوچ میں پڑگئی کہ میں نے اس شخص کو کہیں دیکھا ہے۔ لیکن کہاں؟ بالآخر مجھے یاد آیا کہ میں نے کچھ سال قبل ایک رؤیا میں ایک بہت بڑا سا خیمہ دیکھا تھا جس میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ میں بھی اس خیمہ میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھی اور جب اس کے دروازے پر پہنچی تو ندیم صاحب نے اس کا دروازہ کھولا اور مجھے اندر آنے کی دعوت دی۔

یہ سب کچھ یاد کر کے میں تو سکتہ میں آگئی۔ کئی سال پرانا یہ رؤیا، اور پھر اس چینل کا حذف ہونے سے بچ جانا اور پھر میرا یہ پروگرام اس وقت دیکھنا جب اس پر وہی شخص نظر آرہا تھا جسے میں نے قبل ازیں اپنے رؤیا میں دیکھا تھا، کیا یہ سب اتفاق تھا؟! ہرگز نہیں۔ یہ سوچ کر مَیں نے دن رات یہ چینل دیکھنا شروع کردیا۔

اب تو میں جلدی جلدی اپنا کام ختم کرکے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی اور اس چینل کے پروگرام دیکھتی رہتی۔ کئی بارایسے مفاہیم اور تسکین بخش معارف سننے کو ملتے کہ میں جوش میں آکر بے اختیاری کے عالم میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتی ۔

بچوں کو میرے پاس لے آؤ

میں بہت خوش تھی۔میرے بچوں نے بھی میرے اندر یہ تبدیلی محسوس کی اور میں نے بھی ان کے ساتھ بھی احمدیت اورایم ٹی اے کی باتیں کرنی شروع کردیں۔اسی رات میں نے خواب میں آنحضرت ﷺ کو دیکھا۔آپ دور کھڑے تھے اوراپنے دست مبارک سے اشارہ فرماتے ہوئے مجھے ارشاد فرما رہے تھے کہ اپنے بچوں کومیرے پاس لے آؤ۔

میں خواب سے بیدار ہوئی تو بہت خوش اور منشرح الصدر تھی۔ اس رؤیا کے ذریعہ مجھے یہ ہدایت دی گئی تھی کہ مجھے احمدیت کی نعمت میں اپنے بچوں کو بھی شریک کرنا چاہئے ۔

چنانچہ اس کے بعد میں نے بچوں کو روایتی عقائد کی غلطیوں سے آگاہ کرنا شروع کردیا اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔

بیعت

حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات ازدیادِ روحانیت اور ایمان میں اضافہ کا باعث ٹھہرے۔ہر خطبہ مجھے بیعت کے مرحلہ کو عبور کرنے کے قریب سے قریب تر کرتا چلا گیا۔

پھرمیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں اور بہت سے پروگرام دیکھے جس کے بعد اس یقین پر قائم ہوگئی کہ یہی سیدھی راہ اورحقیقی اسلام ہے۔چنانچہ میں نے بیعت ارسال کردی۔ یہ 2013ءکی بات ہے۔

بیعت کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ میں مخالفین کے مزاعم کا ردّ مضبوط دلائل سے کرنے لگی ۔ لیکن اللہ جسے چاہے اسے ہی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔اورلوگوں کی اکثریت غفلت کا شکار ہے۔

تسلی بخش رؤیا سے شکوک کا خاتمہ

بعض لوگوں کے کہنے پر میرے دل میں بھی یہ خیال ایک شک بن کر پنپنے لگا کہ مولوی حضرات نے تو دین کے علوم کو کھنگالا ہوا ہے اور بڑے بڑے جامعات اورمدارس سے پڑھے ہوئے ہیں، پھر وہ اس جماعت میںشامل ہونے کی بجائے اس کی تکفیر پر کیوں بضد ہیں۔میں اس بارہ میں سوچتی رہی اور ساتھ خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرتی رہی تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ میری تسلی کرا دی۔

میں نے خواب میں ایک ہوٹل نما بڑی سی عمارت دیکھی جس میں بہت سے فلیٹس تھے۔ میں نے اس میں سے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے ایک فلیٹ لیااوراس میں چلی گئی۔ میں اس فلیٹ کے اندر تھی کہ مجھے بعض ایسے مولویوں کی آوازیں سنائی دیں جنہیں میں جانتی تھی۔ وہ مشہور ومعروف مولوی حضرات ہیں اور اکثر ٹی وی پر آتے رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے بھی ایک نواحی فلیٹ لیااور اس میں داخل ہونے لگے۔ میں اپنے فلیٹ کے دروازے میں کھڑے ہو کر انہیں دیکھ رہی تھی کہ اچانک گہرا سیاہ دھواں ان کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے یہ دیکھ کرچیختے ہوئے اپنے فلیٹ کا دروازہ بند کر لیا اوراپنے بچوں کو لے کر بیٹھ گئی۔یہ دھواں مولویوں کے فلیٹ میں داخل ہوا اوران کی چیخیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ ایسے لگ رہا تھاجیسے وہ اس دھوئیں سے جلنے لگے ہیں۔وہ مدد کے لئے فریاد کرتے رہے تاآنکہ ان کی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔گویا اس کثیف دھوئیں نے ان کا کام تمام کردیا تھا۔ اس کے بعد مارے خوف کے میری آنکھ کھل گئی۔اس خواب کے بعد میری تسلی ہوگئی۔

اللہ تعالیٰ نے استجابت دعاکے ذریعہ بھی مجھے ثبات قدم عطا فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں جب بھی خط لکھتی ہوں اورآپ دعا کرتے ہیں تو آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

آخر پر یہی کہتی ہوں کہ کاش میرے مسلمان بھائی میری آواز سنیں اورامام الزمان کو قبول کر کے اس سفینۂ نجات میں سوار ہوجائیں جس کے بغیر آج کوئی امان نہیں ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button