حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزرپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

ز… مساجد ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ نہ صرف عبادت کے لئے بلکہ مل بیٹھنے کے لئے بھی۔… ز… اگر میں اسلام کی تعلیمات کو اختصار کے ساتھ دو جملوں میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ اپنے خالق حقیقی سے محبت کرو اور اس کے حقوق ادا کرو۔ نیز اس کی مخلوق سے محبت کرو اور اس کے حقوق ادا کرو۔… ز… ہم جس ملک میں سکونت اختیار کرتے ہیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کہ ’وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے‘ پر عمل کرتے ہیں۔ … ز… اگر ہم حقیقی مسلمان ہیں اوراسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرتے ہیں توہماری جماعت میں نہ صرف مہاجرین کے ذریعہ اضافہ ہوگا بلکہ یہاں کے مقامی لوگ بھی اس پیغام کو قبول کرنے والے ہوں گے۔ ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا ہے اور جب لوگوں کو یہ اچھا پیغام ملتا ہے تو ان میں سے بعض قبول بھی کر لیتے ہیں۔ جو مذہب کی طرف رجحان رکھتے ہیں وہ ان سچی تعلیمات کو قبول کرلیتے ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اگر پانچ دس سال نہیں مگر آخر کار کینیڈین لوگوں کی ایک بڑی تعداداسلام کا سچا پیغام قبول کرلے گی جوکہ محبت ، امن اور آشتی کا پیغام ہے۔

(لائیڈمنسٹر (کینیڈا) میں منعقدہ پریس کانفرنس میں حضورانور ایدہ اللہ کی طرف سے صحافیوں کے سوالات کے جوابات)

ز… مَیں خلیفۃ المسیح کی قیامِ امن اور یکجہتی کے لئے کی جانے والی کوششوں سے بہت متاثرہواہوں۔ … ز… خلیفۃ المسیح نے جو پیغام دیا ہے اس میں رحم، نرمی اور عاجزی ہی نظرآئی ہے۔ انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم جماعت احمدیہ کو قریب سے دیکھیں اور جانیں کہ وہ کس طرح معاشرہ کا حصہ ہیں۔… ز… یہ لائیڈمنسٹر کا اعزاز ہے کہ اسے اتنی عظیم شخصیت کی میزبانی کرنے کا موقع مل رہاہے۔… ز… میرے خیال میں اسلام کے متعلق جاننے کے لئے یہ ایک زبردست موقع تھا۔… ز… موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں خلیفۃ المسیح کا یہ خطاب بار بار سننے کی ضرورت ہے تا کہ لوگ اسے سمجھ سکیں۔ … ز… لائیڈمنسٹر میں جماعت احمدیہ ایک چھوٹی جماعت ہے لیکن بہت بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کررہی ہے۔… ز… آج کے خطاب میں خلیفۃ المسیح نے ان تمام منفی تصورات کا جواب دیا جو لوگوں کے دلوں میں اسلام اور مسجد کے بارہ میں آسکتے ہیں ۔ … ز… مجھے خلیفہ کی شخصیت میں امن ہی امن نظر آیا۔ انہوں نے بڑی وضاحت سے اپنے اور جماعت کے عقائد بیان کئے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس پیغام کو فروغ دیں ۔ … ز…میں خلیفۃ المسیح کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ خلیفۃ المسیح دنیا کواور اس کے مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔… ز… حضور میں روحانیت اور مذہب دونوں یکساں نظر آئے۔

(مسجد بیت الامان لائیڈمنسٹر کی افتتاحی تقریب میں شامل بعض معزز مہمانوں کے تأثرات)

فیملی ملاقاتیں۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے احمدی طلباء اور طالبات کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نشستوں کا انعقاد۔

طلباء و طالبات کی مختلف موضوعات پر Presentations ، طلباء و طالبات کے سوالات کے جوابات اور مختلف موضوعات پر زرّیں ہدایات۔ سسکاٹون سے روانگی اورکیلگری میں ورودمسعود۔ ایئرپورٹ پر حکومتی نمائندگان کی طرف سے بھی استقبال۔ مسجد بیت النور کیلگری میں کثیر تعداد میں احباب جماعت کی طرف سے والہانہ استقبال

6 نومبر2016ء بروز اتوار

(حصہ دوم)

پریس کانفرنس

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ روم میں تشریف لے آئے جہاں پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ درج ذیل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندے اور جرنلسٹس موجود تھے

The Vermillion Standard

Lloyd Minister Goat Radio 106.1

Lloyd Minister News Cape Tv News

Lloyd Minister Meridian Booster

لائیڈ منسٹر میں جماعت کی تاریخ میں یہ پہلی پریس کانفرنس تھی۔ جرنلسٹس نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درج ذیل سوالات کئے۔

٭ ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ آپ کے لائیڈمنسٹرکے سفر کی وجہ کیا بنی کیونکہ لائیڈمنسٹر Prairie میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہماری جماعت کی یہاں یہ پہلی مسجد ہے ۔ اس عمارت کی تعمیر بطور مسجد تو نہیں ہوئی تھی لیکن ایک عمارت کو تبدیل کرکے اسے مسجد کی شکل دی گئی ہے۔ اب ہمارے پاس کم از کم باجماعت نماز کے لئے جگہ موجود ہے۔ مساجد ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ نہ صرف عبادت کے لئے بلکہ مل بیٹھنے کے لئے بھی۔ چونکہ میں کینیڈا کا دورہ کر رہا ہوں تو میں نے مناسب سمجھا کہ کیلگری جاتے ہوئے لائیڈمنسٹر میں بھی کچھ دیر قیام کروں۔

٭ ایک دوسرے جرنلسٹ نے سوال کیا کہ آپ لائیڈمنسٹر کے لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے جو کہ اسلام کے بارہ میں کچھ تحفظات بھی رکھتے ہیں؟ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اوریہاں کے لوگ اسلام سے متعارف بھی نہیں ہیں۔ اور احمدیت سے بالکل نا واقف ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ نے میرا خطاب تو سن لیا ہے جس میں یہ ساری باتیں بیان کی جا چکی ہیں۔ لوگوں کو مسلمانوں اور خاص طور پر احمدی مسلمانوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم احمدی مسلمان اسلام کی سچی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر میں اسلام کی تعلیمات کو اختصار کے ساتھ دو جملوں میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ اپنے خالق حقیقی سے محبت کرو اور اس کے حقوق ادا کرو۔ نیز اس کی مخلوق سے محبت کرو اور اس کے حقوق ادا کرو۔ اس تعریف کے بعد میرے خیال میں لائیڈ منسٹر کے کسی شخص کے ذہن میں خوف نہیں ہونا چاہئے۔

٭ ایک جرنلسٹ نے سوال کیاکہ آپ کے جماعت احمدیہ کی صوبہ سسکاچیوان اور کینیڈا میں ترقی کے بارہ میں کیا تأثرات ہیں؟

اس پر حضورانور نے فرمایا: کینیڈا میں مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ جو احمدی یہاں آرہے ہیں زیادہ تر تو پاکستان سے ہیں اور کچھ شام اور افریقہ کے ممالک سے ہیں۔ اور ہماری جماعت اس وقت مہاجرین اور پناہ گزینوں کی آمد سے بڑھ رہی ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ جو پیغام ہم لوگوں کو پیش کر رہے ہیں اسے یہاں کے مقامی باشندے بھی قبول کریں گے۔ کیونکہ جب آپ لوگوں کو کوئی اچھی چیز دیتے ہیں یا اچھا پیغام دیتے ہیں تو لوگ اسے قبول بھی کرتے ہیں۔

٭ ایک اور جرنلسٹ نے سوال کیاکہ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا کہ آپ کینیڈا کا دورہ کر رہے ہیں۔ تو اس دوران آپ کو بہت سے سیاسی لیڈروں سے بھی ملنے کا موقع ملا ہوگا۔ ان لوگوں کے کیا تأثرات ہیں؟ اور اسلام اور مسلمانوں کے یہاں مقبول ہونے کے حوالہ سے آپ کا اپنا کیا تاثر ہے ؟ کیا یہاں کے لوگوں کا اسلام کے بارہ میں خوف کم ہوگا ؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں تو صرف آپ کے سیاسی لیڈروں سے ملا ہوں ۔ وہ تو مذہب کے معاملہ میں لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر جماعت سے واقف ہیں۔ ابھی تک جتنے لیڈرز سے ملا ہوں انہوں نے بڑی خوشی کا اظہارکیا اوران کو علم ہے کہ انہیں جماعت احمدیہ سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہماری جماعت ہرطرح سے کینیڈین معاشرے کا حصہ ہے۔اور ہم جس ملک میں سکونت اختیار کرتے ہیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کہ ’وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے‘ پر عمل کرتے ہیں۔ تو اگر ہم اس تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کریں تو میرا نہیں خیال کہ ان کو اسلام کے بارہ میں کوئی شکوک و شبہات ہوں گے۔

٭ ایک جرنلسٹ نے سوال کیاکہ آپ کا وقت یہاں کیسا گزرا؟ کیا آپ کو یہاں آکر خوشی ہوئی اورکیا آپ اپنی جماعت سے مطمئن ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں جب بھی کہیں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ افرادِ جماعت ترقی کر رہے ہیں اور جماعت ترقی کر رہی ہے اور لوگ اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ اب ہماری یہاں مسجد بھی ہے اور موقع بھی کہ اسلام کی سچی اور صحیح تعلیمات لوگوں تک پہنچائی جائیں تو مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور میری دعا ہے کہ یہ لوگ پہلے سے بڑھ کر ترقی کرتے چلے جائیں۔

٭ ایک جرنلسٹ نے عرض کیاکہ کیا آپ اپنے احباب جماعت کو لائیڈ منسٹر آنے کی حوصلہ افزائی کریں گے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر یہاں پر ملازمتیں ہیں تو پھر میں ضرور یہاں آنے کے لئے کہوں گا۔ ہم نے سالوں پہلے اپنے احباب جماعت کو سسکاچیوان آنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اسی وجہ سے یہاں اب جماعت قائم ہے ورنہ یہاں جماعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ سسکاٹون میں اب جماعت ایک ہزار سے اوپر ہے اور ریجائنا میں تین سو سے کچھ زائد ہیں اور اسی طرح لائیڈمنسٹر اور بعض چھوٹے قصبوں میں جماعتیں قائم ہیں۔ تو اگر لوگوں کے پاس ملازمتوں کے مواقع ہوں گے تو وہ ضرور آئیں گے۔ اور ہمیں تو اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر جگہ احمدی ہوں تاکہ وہاں کے باشندے اسلام پر صحیح طریق پر عمل ہوتا دیکھ سکیں۔

٭ ایک جرنلسٹ نے سوال کیاکہ آپ آئندہ سال یا آئندہ پانچ سالوں میں لائیڈمنسٹر اور مغربی کینیڈا میں اپنی جماعت کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں ؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر ہم حقیقی مسلمان ہیں اوراسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرتے ہیں توہماری جماعت میں نہ صرف مہاجرین کے ذریعہ اضافہ ہوگا بلکہ یہاں کے مقامی لوگ بھی اس پیغام کو قبول کرنے والے ہوں گے۔ ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا ہے اور جب لوگوں کو یہ اچھا پیغام ملتا ہے تو ان میں سے بعض قبول بھی کر لیتے ہیں۔ جو مذہب کی طرف رجحان رکھتے ہیں وہ ان سچی تعلیمات قبول کر لیتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگر پانچ دس سال نہیں مگر آخر کار کینیڈین لوگوں کی ایک بڑی تعداداسلام کا سچا پیغام قبول کرلے گی جوکہ محبت ، امن اور آشتی کا پیغام ہے۔ کیا آپ کو یہ پیغام پسند نہیں؟

اس پر جرنلسٹ نے عرض کیاکہ مجھے بھی یہ پیغام پسند ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ اگر آپ کو یہ پیغام پسند ہے تو پھر آپ قبول کیوں نہیں کر لیتے؟

٭ ایک جرنلسٹ نے عرض کیاکہ کیا آپ لائیڈمنسٹر کے رہنے والوں سے کچھ کہنا چاہیں گے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:لائیڈمنسٹر ایک چھوٹا قصبہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں کی آبادی تیس ہزار ہے اور اکثر لوگ ایک دوسرے سے واقف ہیں یا وہ جانتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں کیا ہو رہا ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جس شخص نے یہ قصبہ آباد کیا تھا اس نے کہا تھا کہ سوائے سفید فام لوگوں کے اور کسی قوم کے لوگ یہاں نہیں آئیں گے۔ مگر اب یہاں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آباد ہیں۔ تو ہم سب کو مل کر پُر امن طریق سے رہنا چاہئے اور ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہئے تاکہ یہ قصبہ ایک مثالی جگہ بن جائے جس کی پیروی کرتے ہوئے باقی لوگ بھی امن و امان سے رہ سکیں۔ ایک بڑے شہر کا ماحول تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ایک چھوٹے علاقہ میں یہ ممکن ہے۔ مگر اس کا دارومدار یہاں کے لوگوں پر ہے۔ اور یہ چھوٹے علاقہ کے باسیوں کی صفت ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر میں کبھی بھی کینیڈا میں منتقل ہوا تو کسی چھوٹے علاقہ میں رہنا پسند کروں گا۔

اس پر جرنلسٹ نے عرض کیاکہ کیا آپ لائیڈمنسٹر میں رہنا پسند کریں گے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر آپ قبول کرلیں تو لائیڈ منسٹر میں بھی قیام کرسکتا ہوں۔

یہ پریس کانفرنس دو بجکر بیس منٹ پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد پروگرام کے مطابق لائیڈ منسٹر اور ایڈمنٹن کی مجالس عاملہ، جماعتی عہدیداران اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان نے درج ذیل دس گروپس کی صورت میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

1۔ نیشنل مجلس عاملہ لائیڈمنسٹر

2۔ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ لائیڈمنسٹر

3۔ مجلس عاملہ انصاراللہ لائیڈمنسٹر

4۔ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ایڈمنٹن ایسٹ

5۔ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ایڈمنٹن ویسٹ

6۔ قافلہ ڈرائیورز Prairie سیکشن

7۔ حفاظت خاص ٹیم Prairie سیکشن

8۔ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ Prairie ریجن

9۔ نیشنل پبلک ریلیشن ٹیم

10۔ بیت الامان مسجد کی تعمیر میں کام کرنے والے رضاکار

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الامان تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد احباب جماعت مسجد کے بیرونی احاطہ میں جمع ہوگئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہاں روانگی سے قبل اجتماعی دعا کروائی۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہ شفقت کچھ دیر کے لئے مرزا اختر صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔ موصوف نے لائیڈمنسٹر کے دورہ کے دوران اپنا گھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رہائش کے لئے پیش کیا تھا۔ لیکن اس کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنی قیامگاہ ہوٹل Meridian Inn تشریف لے آئے۔

آج پروگرام کے مطابق لائیڈمنسٹر Lloyd Minister سے واپس سسکاٹون (Saskatoon) کے لئے روانگی تھی۔ پروگرام کے مطابق تین بجکر پچپن منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی قیامگاہ سے باہر تشریف لے آئے۔ حضور انور نے دعا کروائی اور قافلہ کی سسکاٹون کے لئے روانگی ہوئی۔ مقامی پولیس نے لائیڈمنسٹر شہر کی حدود سے باہر تک قافلہ کو Escort کیا۔ اس کے بعد موٹروے پر سفر شروع کیا۔ لائیڈ منسٹر سے سسکاٹون کا فاصلہ 295 کلومیٹر ہے۔ قریباً سوا تین گھنٹے کے سفر کے بعد جب قافلہ سسکاٹون شہر کی حدود میں داخل ہوا تو سسکاٹون شہر کی مقامی پولیس نے قافلہ کو Escort کیا۔

سوا سات بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہوٹل Marriott تشریف آوری ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے اپارٹمنٹ تشریف لے گئے۔

بعدازاں آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے Prairie Land سنٹر میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنی قیامگاہ پر تشریف لے گئے۔

مہمانوں کے تأثرات

مسجد بیت الامان کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا گہرا اثر ہوا۔ بہت سارے مہمان تأثرات اور جذبات کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے۔

ان میں سے چند مہمانوں کے تأثرات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

٭ تقریب میں شامل مہمان جان گورملی (John Gormley)صاحب جو ریڈیوپر ایک پروگرام کے میزبان ہیں اور انہوں نے تقریب کے آغاز میں ایڈریس بھی کیا۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: میرے خیا ل میں خلیفۃ المسیح نے مسجد کے کردار کے حوالہ سے بہت سے اہم نکات پیش کئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مسجد صرف عبادات ہی کے لئے نہیں بلکہ کمیونٹی کے جمع ہونے کی بھی جگہ ہے۔اور جماعت احمدیہ اس حوالہ سے بہت کام کر رہی ہے۔ جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو تا ہے تو جماعت احمدیہ ہی سب سے پہلے آپس کے تعلقات بڑھانے اور مختلف مذاہب کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

موصوف نے کہا: مجھے خلیفۃ المسیح کا انٹرویو لینے کا بھی موقع ملا۔ میں خلیفۃ المسیح کے علم اور بصیرت سے بہت متاثر ہواہوں۔ خلیفۃ المسیح نہ صرف بڑے شہروں کے مسائل سے واقف ہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں کے مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔

موصوف نے کہا: میں خلیفۃ المسیح کی قیامِ امن اور یکجہتی کے لئے کی جانے والی کوششوں سے بہت متاثرہواہوں۔ ان کا کہناہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ جماعت احمدیہ کے لوگ پوری طرح معاشرے کا حصہ ہیں اور جہاں کہیں بھی آباد ہیں وہاں بھرپور طور پر لوگوں میں گھل مل گئے ہیں۔ جہاں بھی جماعت کے لوگ ہیں وہ وہا ں کی کمیونٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔

٭ ڈاکٹر مائیکل ڈائیچک(Dr. Michael Diachuk) صاحب لائیڈ منسٹر کی ایجوکیشنل کمیونٹی کے لئے کام کرتے ہیں۔ انہو ں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا خلیفۃ المسیح کو دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا ۔اس سے قبل میں نے CBC پر ان کا انٹرویو دیکھا تھا۔مجھے یہاں آکر بے انتہا خوشی ہوئی ہے۔ خلیفۃ المسیح نے جو پیغام دیا ہے اس میں رحم، نرمی اور عاجزی ہی نظرآئی ہے۔ انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم جماعت احمدیہ کو قریب سے دیکھیں اور جانیں کہ وہ کس طرح معاشرہ کا حصہ ہیں۔ میں نے خود بھی کئی احمدی احباب کے ساتھ مل کر کام کیاہے اور آج مجھے وہی جھلک یہاں نظر آئی ہے۔اگر آپ مغربی کینیڈا کی کمیونٹی کو دیکھیں تو جو کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے یہ نہایت اہم کام ہے۔ اور مغربی کینیڈا کے بارہ میں اکثر لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ ہم زیادہ تنگ نظر ہیں۔ لیکن یہاں پر اچھے لوگ بھی ہیں۔ خلیفۃ المسیح کا یہاں موجودہونا بھی ظاہر کرتاہے کہ ساری دنیا ایک ہی کمیونٹی ہے۔

موصوف نے کہا میرے خیال میں یہاں آج تک کوئی اس بلند پائے کا مذہبی رہنما نہیں آیا اور ہمارے شہر کو اس بات کی قدر کرنے کی ضرورت ہے کہ خلیفہ جن چیزوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں ہم ان پر عمل کریں اور ہر طرح سے لوگوں کو یہاں خوش آمدید کہیں۔

٭ اس تقریب میں شامل ایک مہمان ڈیرل رائٹ (Darrel Wright) صاحب نے حضورانور کے خطاب کے حوالہ سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میرے خیال میں ہماری کمیونٹی میں ایسی آواز کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ لائیڈمنسٹر کا اعزاز ہے کہ اسے اتنی عظیم شخصیت کی میزبانی کرنے کا موقع مل رہاہے۔ میرے لئے اوریہاں پر موجود دوسروں کے لئے اسلامی تعلیمات کے متعلق جاننے کا یہ بہترین موقع تھا۔ مغربی ممالک میں اور مغربی کینیڈا میں اسلام کے بارہ میں بعض منفی تصورات پائے جاتے ہیں اور خلیفۃ المسیح نے اسی موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ خلیفۃ المسیح کا پیغام تمام کینیڈین لوگوں کے لئے ہے کہ مذہب کے بارہ میں انسان کو روشن خیال ہونا چاہئے اور ان کو سمجھنا چاہئے کہ لوگوں میں مختلف مزاج ہوتے ہیں اور مذہبی تنظیموں کا اپنا مفاد بھی ہوسکتا ہے اور مذہب اور مفاد دونوں بعض دفعہ مل جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ لوگ اس بارہ میں جانیں۔

٭ اس تقریب میں شامل ایک مہمان شیرل کراس (Cheryl Cross) صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مسلمان کمیونٹی کے لئے یہ ایک عظیم دن ہے۔ انہوں نے بہت محنت سے تمام انتظامات کئے اور یہ پروگرام یہاں منعقد کیا۔ خلیفۃ المسیح کا بیان نہایت سادہ اور واضح الفاظ میں تھا جس کی وجہ سے ان کا پیغام بآسانی سمجھ میں آجانے والا تھا۔

٭ ایک مہمان رچرڈ براؤن(Richard Brown) صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا یہ لائیڈمنسٹر کے لئے بڑے اعزازکی بات ہے کہ خلیفۃ المسیح یہاں تشریف لائے۔جو لوگ یہاں موجود تھے ان کوخلیفۃ المسیح کی موجودگی کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ لیکن جولوگ یہاں نہیں آسکے ان کو شاید ابھی اندازہ نہیں ہوا کہ یہاں کتنا بڑا پروگرام منعقد ہوا۔ شاید کچھ دن بعد انہیں اندازہ ہو۔میرے خیال میں اسلام کے متعلق جاننے کے لئے یہ ایک زبردست موقعہ تھا۔ اور لائیڈمنسٹر کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ انہیں خلیفۃ المسیح کی میزبانی کرنے کا موقع ملا۔

٭ ایک اور مہمان انتھونی ہنڈرسن (Anthony Henderson) صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: خلیفۃ المسیح نے اس بات پر بہت زور ڈالا اور توجہ دلائی کہ مسلمان امن کا پرچار کرتے ہیں اور مساجد بھی یہی پیغام دیتی ہیں۔ مسجدیں سب کے لئے عبادت کا مرکز ہیں اورسب کے لئے کھلی ہیں۔ موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں خلیفۃ المسیح کا یہ خطاب بار بار سننے کی ضرورت ہے تا کہ لوگ اسے سمجھ سکیں۔ میں نے قرآن کا مطالعہ بھی کیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ عام طور پر مسلمان انتہاپسند نہیں ہیں۔

٭ سابق منسٹر برائے امیگریشن اینڈ ڈیفنس جیسن کینی (Jason Kenny) صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: لائیڈمنسٹر میں جماعت احمدیہ ایک چھوٹی جماعت ہے لیکن بہت بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کررہی ہے۔ اس وقت جو دنیا کے حالات ہیں اور انتہاپسندی کے بارہ میں غلط تصورات ہیں کہ اسلام انتہاپسندی کی اجازت دیتا ہے ایسی صورتحال میں جماعت احمدیہ ایک اکسیر کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ اسلام ہے جو کینیڈا کی تہذیب کے عین مطابق ہے اور امن کا ضامن ہے۔ اور میرے خیال میں مسجد کا افتتاح اور خلیفۃ المسیح کا دورہ اس پورے علاقہ کے لئے علم میں اضافہ کا باعث ہوگا اور لوگوں کے سامنے اسلام کا خوبصورت چہرہ پیش کرے گا۔

موصوف نے کہا: خلیفۃ المسیح کے خطاب سے بھی ظاہر تھاکہ جماعت کا اس ملک کی اقدار سے کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ جماعت ہر موڑ پرہمارے ملک کی مدد کرتی ہے۔ احمدی محب وطن ہیں اور معاشرہ میں مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔

موصوف نے کہا:آج کے خطاب میں خلیفۃ المسیح نے ان تمام منفی تصورات کا جواب دیا جو لوگوں کے دلوں میں اسلام اور مسجد کے بارہ میں آسکتے ہیں ۔ مسجد کا افتتاح ایک نہایت مثبت قدم ہے اورہماری مذہبی آزادی کی اقدار عین اس کے مطابق ہیں۔

موصوف نے کہا:میں خلیفۃ المسیح کو بڑی اچھی طرح جانتاہوں اور متعدد دفعہ لندن میں ان سے ملاقات کر چکا ہوں۔آج کا دن لائیڈمنسٹر کے لئے عظیم دن ہے۔ جماعت بڑے شہروں میں تو پھیل رہی ہے اور وہاں کام کررہی ہے لیکن جو افراد اور گھرانے یہاں آباد ہیں وہ بھی اس معاشرے میں اچھائی پھیلا رہے ہیں ۔

٭ ایک مہمان اینا گسٹاک(Anna Gustack) صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: میں نے سنا تھا کہ اسلام امن پسند مذہب ہے لیکن جو کچھ خبروں میں نظر آتا ہے اور جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے وہ تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ مگر آج خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر مجھے بہت حوصلہ ہوا ہے۔ مجھے خلیفہ کی شخصیت میں امن ہی امن نظر آیا۔ انہوں نے بڑی وضاحت سے اپنے اور جماعت کے عقائد بیان کئے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس پیغام کو فروغ دیں اور دنیا کو بتائیں کہ مسلمان کس طرح معاشرے اور دنیا کو بہتر بنا رہے ہیں۔

موصوفہ نے کہا:مجھے بے حد خوشی ہے کہ میں آج کے پروگرام میں شامل ہوئی۔ اور مجھے خلیفہ کی یہ بات بھی بہت اچھی لگی جو لوگ آج یہاں پروگرام میں شامل ہورہے ہیں وہ نہایت دلیر اور نڈر ہیں۔ یہ میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے۔

٭ سسکاچوان کی Legislative Assembly کے ممبر کولین ینگ(Colleen Young) نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: میں خلیفۃ المسیح کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ خلیفۃ المسیح دنیا کواور اس کے مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں اور لوگوں کی اچھائی کو دیکھتے ہیں کہ اگر ہم مل کر کام کریں گے تو سب کے لئے ایک بہتر دنیا بنا سکتے ہیں۔ میرے بہت سے دوست ہیں جن کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور انہوں نے یہاں کی کمیونٹی میں بہت سے اچھے کام کئے ہیں اور بہت سے کام رضاکارانہ طور پر انجام دئے ہیں۔

موصوف نے کہا: خلیفۃ المسیح ایک نہایت عاجز اور نرم دل انسان ہیں ۔میرے خیال میں خلیفۃ المسیح کے اس دورہ کا یہاں بہت اثر ہوگا۔ خلیفۃ المسیح کا یہاں اس چھوٹے سے علاقہ میں آنا اور نئی مسجد کا افتتاح کرنا اور جماعت احمدیہ کے 50 سال ہونے پر ہمارے ساتھ شامل ہونا ہماری خوش نصیبی ہے۔

٭ ایک مہمان رفات سعید (Raffath Sayeed) صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: خلیفۃ المسیح کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی خاص طور پر کہ وہ چھوٹی جگہ تشریف لائے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں توجہ بھی ملی ہے اور ہمارے شہر میں نور بھی آیا ہے کمیونٹی میں بھی اور ایمان میں بھی۔ حضور سے اچھائی نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ روحانیت اور مذہبی ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ کبھی دونوں آپس میں نہیں ملتے لیکن حضور میں روحانیت اور مذہب دونوں یکساں نظر آئے۔

٭ لائیڈ منسٹر کے نئے منتخب شدہ میئر جیرلڈ آلبرز (Gerald Aalbers) نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میرے لئے بڑے فخر کی بات ہے کہ میں لائیڈمنسٹر کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ خلیفۃ المسیح سے ملنا میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب امن اور امید کا تھا۔ اس خطاب نے سب کو یکجا کردیا۔ میرے خیال میں معاشرے میں مذہب ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اس لئے خلیفۃ المسیح کا خطاب خاص اہمیت کا حامل ہے۔

میڈیا کوریج

اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لائیڈ منسٹر کے دورہ کے دوران ٹی وی و ریڈیو چینلز اور اخبارات نے مسجد بیت الامان کے افتتاح کے حوالہ سے کوریج دی اور اس سارے علاقہ میں جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔ جن ٹی وی و ریڈیو چینلز اور اخبارات میں اس حوالہ سے خبریں نشر ہوئیں ان کا اختصار کے ساتھ ذیل میں ذکرہے۔

٭ لائیڈ منسٹر کا سب سے اہم ٹیلی ویژن چینل Newscap TV News نے ایک فوٹیج نشر کی جس میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو نمازپڑھاتے دکھایاگیا۔ اسی طرح جب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی لائیڈ منسٹر سے روانگی ہوئی اس کی ویڈیوبھی نشر ہوئی۔ اس کے علاوہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مسجدبیت الامان کے افتتاحی پروگرام میں خطاب کو اپنی main bulletin میں دکھایا۔ اس کے ذریعہ 17ہزار لوگوں تک خبر پہنچی۔

٭ لائیڈ منسٹر کے سب سے بڑے اخبار The Meridian Booster نے بھی اپنی آن لائن اخبار اور باقاعدہ شائع ہونے والی اخبار میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لائیڈ منسٹر کے دورہ اور مسجد بیت الامان کے افتتاح کے حوالہ سے خبریں شائع کیں۔ اس اخبار کو پڑھنے والوں کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہے۔

٭ لائیڈ منسٹر کا سب سے اہم ریڈیو چینل The Goat Radio نے بھی اس حوالہ سے ایک آرٹیکل شائع کیا جس کے ذریعہ پانچ ہزار لوگوں تک پیغام پہنچے گا۔

٭ Vermilion Alberta کے سب سے بڑے اخبارThe Vermilion Standard نے بھی اس حوالہ سے آن لان اورپرنٹ اخبار میں خبر شائع کی۔ اس کے ذریعہ اڑھائی ہزار لوگوں تک پیغام پہنچا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لائیڈ منسٹر میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ کے باعث 39ہزار5 صد سے زائد کینیڈین لوگوں تک پیغام پہنچا۔

7 نومبر2016ء بروز سوموار

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح سات بجے Prairie Land سنٹر میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی قیامگاہ پر تشریف لے آئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے اور اپنے دست مبارک سے ہدایات سے نوازا۔

پروگرام کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز Prairie Land سنٹر تشریف لائے جہاں فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

فیملی ملاقاتیں
آج صبح کے اس سیشن میں 62 خاندانوں کے 232 افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ ملاقات کرنے والی یہ فیملیز Lloyd Minister اور Edmonton سے آئی تھیں۔ لائیڈ منسٹر سے آنے والی فیملیز 240 کلومیٹر اور ایڈمنٹن (Edmonton) سے آنے والی فیملیز 560 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ملاقات کے لئے پہنچی تھیں۔

ان سبھی فیملیز نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

آج ملاقات کرنے والوں میں ایک Indigenous فیملی میاں بیوی بھی شامل تھے۔ ان کا تعلق کینیڈا کے قدیم قبائل سے ہے۔ ان کو کینیڈا کی First Nation اور Aboriginal بھی کہا جاتا ہے۔

یہ ملاقات کرنے والی فیملی سسکاٹون سے 450 کلومیٹر دور کے علاقہ سے سفر کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے آئی تھی۔

Aboriginal’s کے اس علاقہ میں چند سال قبل ایک مخلص احمدی دوست مکرم منیر صدیق صاحب ہائی سکول میں ٹیچر تھے۔ موصوف نے اپنے اعلیٰ اخلاق اور کردار اور محبت سے ان لوگوں کے دل جیتے۔ اس علاقہ میں ہر چھوٹا بڑا ’منیر صدیق صاحب‘ سے بہت پیار اور اخلاص کا اظہار کرتا جس کا مظاہرہ منیر صدیق صاحب کی اچانک وفات پر سامنے آیا۔ منیر صدیق صاحب حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے تھے۔

ان کی وفات پر قریباً ساٹھ Indigenous افراد ان کے جنازہ میں شرکت کے لئے 560 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے سسکاٹون آئے۔ پھر جب مرحوم کا جنازہ ٹورانٹو لایا گیا تو بھی ان کے چند نمائندے اڑہائی تین ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کرکے ٹورانٹو مرحوم کی بیوہ اور بچوں سے ملنے کے لئے آئے اور اپنی کمیونٹی کی جانب سے ایک رقم تالیف قلب کے طور پر مرحوم کی بیوہ کو پیش کی۔

بعدازاں انہوں نے اپنے مخصوص علاقہ میں بھی مرحوم کی وفات کے حوالہ سے ایک پروگرام بنایا جس میں جماعت کو بھی مدعو کیا۔ اس طرح مکرم منیر صدیق صاحب مرحوم کے اعلیٰ اخلاق، کردار اور محبت و پیار اور دینی اقدار کی وجہ سے ان قدیم باشندوں کے جماعت کے ساتھ بڑے مفید رابطے اور تعلقات قائم ہوئے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام دو بجکر پینتالیس منٹ پر ختم ہوا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز ظہر وعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔

پچھلے پہر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا۔

بعدازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھ بجکر پچاس منٹ پر Prairie Land سنٹر تشریف لے آئے۔ جہاں یونیورسٹیز اور کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نشستیں تھیں۔

یونیورسٹیز اور کالجز کی طالبات کی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نشست

سات بجے طالبات کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نشست شروع ہوئی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ سکینہ وجاہت صاحبہ نے کی اور اس کا انگریزی ترجمہ نائلہ انور صاحبہ نے پیش کیا۔

اس کے بعد ’’علم کی فرضیت‘‘ کے حوالہ سے عزیزہ ثنا خان صاحبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ پیش کی۔ جس کا انگریزی ترجمہ عزیزہ ثانیہ ناصر صاحبہ نے پیش کیا۔

بعدازاں عزیزہ نتاشہ رحمٰن صاحبہ نے ’’قرآن کریم کی رُو سے حضرت موسیٰ کے زمانے کے فرعون‘‘ کے عنوان پر ایک پریزنٹیشن دی۔

موصوفہ نے بتایا کہ کینیڈا میں ہر سال ستمبر کے مہینہ میں سائنس کے علوم کی ترویج کے لئے مختلف تقریبات کی جاتی ہیں۔ اس سال جماعت احمدیہ کینیڈا کے پچاس سالہ جوبلی کی وجہ سے جماعت نے بھی ’’سائنس اور قرآن کریم‘‘ پر نمائش منعقد کی۔ اس میں سے دو عناوین پیش خدمت ہیں۔

٭ پہلا عنوان حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون کے بارہ میں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قوم کو فرعون کی ظالمانہ حکومت سے نجات دلانے کے لئے ہجرت کرنے کو کہا۔ جس کی مخالفت میں فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ علیہ السلام کا تعاقب کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو تو بچا لیا مگر فرعون کو غرق کر دیا۔

تاریخ دان کہتے ہیں کہ یہ فرعون (Ramesses II) 1279BCتا 1300BC یا اس کا بیٹا Merneptah (چار سال کا دور تھا)ہو گا۔ ان دونوں کی mummies 1881اور 1898 میں بالترتیب دریافت ہوئیں۔ ان دونوں کی mummies قاہرہ کے میوزیم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پندرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ فرعون کا جسم محفوظ رہے گا۔ قرآن کریم کے علاوہ یہ بات کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ اس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ یونس کی آیت 93 میں آیا ہے۔ ’’ پس آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات بخشیں گے تاکہ تُو اپنے بعد آنے والوں کے لئے ایک عبرت بن جائے۔‘‘

1975ء میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر Maurice Bucaille نے ایک تحقیق کی اور ثابت کیا کہ Merneptah کی موت طبعی موت نہیں تھی بلکہ وہ ڈوب کر مرا تھا۔ اس وقت اس کو قرآن کریم کی اس پیشگوئی کا کوئی علم نہیں تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں یہ پیشگوئی تھی تو اس نے عربی زبان سیکھی اور بعد میں وہ مسلمان ہو گیا۔ 1976ء میں اس ڈاکٹر نے ایک کتاب The Bible, The Quran and Scienceلکھی۔ جس میں اس نے ثابت کیا کہ قرآن اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں ہے جبکہ بائبل میں تضاد پایا جاتا ہے۔

٭بعد ازاں دوسری presentation نائلہ چوہدری صاحبہ نے قرآن کریم میں دو سمندروں کے ملائے جانے کی پیشگوئی کے بارے میں پیش کی۔ موصوفہ نے بتایا کہ قرآن کریم میں سورۃ الرحمن کی آیات 20-21 اس پیشگوئی کا اس طرح ذکر ہے کہ ’’ وہ دو سمندروں کو ملا دے گا جو بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔ (سرِدست)اُن کے درمیان ایک روک ہے (جس سے) وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔‘‘

اس نئے دور میں بالکل ایسا ہی ہوا کہ دو سمندروں کو ملایا گیا۔ 1859 سے 1869 کے دوران سوئز کنال Suez Canal اور 1903تا1914 کے دوران Panama Canal کے بننے سے دنیا نے سمندروں کو ملتے دیکھا۔ اس طرح قرآن کریم کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر اللہ تعالیٰ سورۃ الفرقان کی آیت 54 میں بھی فرماتا ہے کہ ’’ اور وہی ہے جو دو سمندروں کو ملا دے گا۔ یہ بہت میٹھا اور یہ سخت کھارا (اور) کڑوا ہے اور اُس نے ان دونوں کے درمیان ایک روک اور جدائی ڈال رکھی ہے جو پاٹی نہیں جا سکتی۔‘‘

جدید دور کی سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ جہاں سمندر ملتے ہیں وہاں پر ایک روک اور جدائی پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں بیان شدہ حقیقت Mediterra- nean اور Atlantic کے جوڑ پر واضح طور پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی پیشگوئیاں بڑے واضح طور پر پوری ہوئی ہیں۔ پندرہ سو سال قبل آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں انسان ایسی باتیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں۔

٭ اس کے بعد سدرہ حق صاحبہ نے جو یونیورسٹی آف سسکاچیوان میں دوسرے سال کی میڈیکل طالبہ ہیں دمہ (Asthma)پر تحقیق پیش کی۔

موصوفہ نے بتایا کہ دمہ ہمارے پھیپھڑوں پر اثر کرتا ہے۔ دمہ بچوں میں زیادہ ہوتا ہے جبکہ بڑوں میں بھی ہو جاتا ہے۔ 4تا 11 سال کی عمر کے بچوں میں 16% فیصد بچوں کو دمہ ہوتا ہے جبکہ بڑوں میں 9% فیصد تک ہوتا ہے۔ کینیڈا میں تیس لاکھ لوگوں کو دمہ کی تکلیف ہوتی ہے اور ہر سال تقریباً اڑہائی سو افراد دمہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ دمہ میں سانس کی دشواری، سینہ کی تنگی اور صبح یا شام کو زیادہ کھانسی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا مکمل علاج معلوم ہے۔ اگرچہ ہم علامات کو دیکھ کر پرہیز کے ذریعہ اس کو بڑھنے سے بچا سکتے ہیں۔ اس کا وقتی علاج Puffersیا Nebulizers سے کیا جاتا ہے یا بعض دفعہ لمبے عرصہ تک کے لئے دوائیاں دی جاتی ہیں۔

دمہ کا سدّ باب ایک اور طریقہ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جن ماؤں نے حمل کے دوران Fish Oilکھایا تھا ان کے بچوں میں دمہ کی بیماری 63% کم تھی۔ ایک تحقیق کے مطابق Fast Food، موٹاپا، زیادہ نمکین کھانے اور ہر روز 5گھنٹہ ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے دمہ کی شکایت ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ زیادہ پھل اور سبزیاں، وٹامن ای (E) اور سی (C)، اومیگا Omega 3، فیٹی ایسڈ، میگنیزئم اور antioxidant کھانے کی وجہ سے دمہ میں بہت حد تک کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گھر کی صفائی، پالتو جانور کو گھروں میں نہ رکھنے اور سیگرٹ نوشی سے پرہیز دمہ ہونے سے بچاتا ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پریشانی سے بچنے، ذہنی سکون، یوگا کرنے سے دمہ کی تکلیف سے بچا جا سکتاہے۔ اسی طرح نماز کی وجہ سے بھی دمہ کی تکلیف سے بچا جا سکتا ہے۔

مجلس سوال و جواب

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے سوال کیا کہ حال ہی میں کینیڈا میں physician assisted suicide کا قانون پاس ہوا ہے۔ ایک مسلمان کو اسلامی تعلیم کے مطابق کیا کرنا چاہئے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر اس سے مراد mercy killing ہے تو پھر یہ خودکشی تو نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر مارتا ہے۔ یہ یورپ اور بعض دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص لمبی بیماری میں ہے اور سخت تکلیف کاٹ رہا ہے اور اسے کوئی سنبھالنے والا نہیں ہے تو مریض کہتا ہے کہ مجھے مار دو۔ تو ڈاکٹر رحم کے نام پر اسے مار دیتے ہیں۔ لیکن اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی دی ہے اور جب تک سانس ہے تو زندہ رہنا چاہئے۔ لیکن بلا وجہ زندگی کو لمبا کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اگر کوئی قومہ میں ہے تو بعض اوقات ڈاکٹرز Ventilator لگا کر اس کی زندگی کو لمبا کرتے ہیں۔ یہ زندگی تو ہے مگر کوالٹی آف لائف نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہہ دیتا ہوں کہ 48گھنٹہ تک Ventilator لگا کر دیکھ لو۔ اُس کے بعد اللہ کی مرضی ہے۔ لیکن از خود انجیکشن دے کر یا کسی اور طریق سے مارنا غیر انسانی (Inhumane)ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہاں بوڑھوں کو گھروں میں نہیں رکھتے اور تنگ آ کر اولڈہاؤس میں چھوڑ دیتے ہیں۔ جب ان کے بچے انہیں چڑ کر جواب دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اچھا پھر ہمیں مار دو۔ اور کیا ہو سکتا ہے؟ ماں باپ کی خدمت کرنا ہماری روایت ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے کا جہان میں ثواب ملے گا۔

٭ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک طالبہ سے دریافت فرمایا کہ وہ کس یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں اور کیا ان کی یونیورسٹی کا شمار کینیڈا کی پہلی دس یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے؟ نیز سسکاچوان میں کل کتنی یونیورسٹیز ہیں؟

اس پر طالبہ نے عرض کیا کہ وہ یونیورسٹی آف سسکاچوان میں پڑھ رہی ہیں جو ریٹنگ میں آخری نمبر پر آتی ہے۔ پہلی دس یونیورسٹیز میں زیادہ تر انٹاریو میں ہیں۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر یونیورسٹی آف سسکاچون پہلی دس بہترین یونیورسٹیوں میں نہیں آتی تو اس یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈرز کو جماعت کا میڈل نہیں ملنا چاہئے۔ ہم تو صرف پہلی دس یونیورسٹیوں کو ہی دیتے ہیں۔

٭ حضور انور کے دریافت فرمانے پر ایک طالبہ نے بتایا کہ سسکاچوان صوبہ میں دو یونیورسٹیز ہیں۔ ایک یونیورسٹی آف ریجائنا اور دوسری یونیورسٹی آف سسکاچیوان جو کہ سسکاٹون میں ہے۔ یونیورسٹی آف سسکاچوان میں تقریباً سارے ڈیپارٹمنٹ ہیں مگر جرنلزم، آرکیٹیکچر اور سوشل ورک یونیورسٹی آف ریجائنا سے ہوتا ہے۔

٭ حضور انور کے دریافت فرمانے پر ایک طالبہ نے بتایا کہ یونیورسٹی آف سسکاچوان میں پچیس ہزار کے قریب طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نیز اس یونیورسٹی سے ملحق کئی کالجز بھی ہیں جو چھوٹے شہروں میں ہیں اور بیچلر کی ڈگری دیتے ہیں۔

٭ حضور انور کے دریافت فرمانے پر ایک اور طالبہ نے بتایا کہ یونیورسٹی آف ریجائنا میں دس ہزار طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے ایک دو کالجز بھی ہیں لیکن خاص شعبے یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ہیں اور زیادہ تر پروفیشنل پروگرامز بھی مین کیمپس میں ہوتے ہیں۔

٭ایک طالبہ نے عرض کیا کہ وہ سوشل ورک میں بیچلر کر رہی ہیں۔ کیا انہیں اس شعبہ میں ماسٹر کرنا چاہئے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر وقت ہے تو کر لیں۔ لیکن اگر اچھا رشتہ ہو جائے تو شادی کرلیں۔ جب اچھا رشتہ نہیںآتا تو اس وقت تک پڑھائی کرلیں لیکن جب رشتہ آ جائے تو شادی کر لیں۔

٭ اس کے بعد ایک لجنہ ممبر نے عرض کیا کہ وہ Early Childhood Education میں ڈپلومہ کر رہی ہیں اور ان کی تین بیٹیاں ہیں۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بڑی اچھی بات ہے کہ ماں بیٹی اکٹھی ہی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں۔

٭ حضور انور کے استفسار پر ایک طالبہ نے بتایا کہ یونیورسٹی آف سسکاچوان میں احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن موجود ہے۔ یہاں 35 لڑکیاں ہیں جبکہ یونیورسٹی آف ریجائنا میں نہیں ہے کیونکہ وہاں صرف تین احمدی طلباء ہیں۔ نیز احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی پریذیڈنٹ نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں سیمینارز بھی کرتی ہیں اور نمائشیں وغیرہ بھی لگاتی ہیں۔

٭ حضور انور کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں Behind the Veil کے موضوع پر سیمینار کیا گیا تھا جس میں ہم نے اسلام میں عورتوں کے حقوق پر بات کی تھی اور وہ بہت کامیاب ہوا تھا۔

٭ بعدازاں ایک طالبہ نے سوال کیا کہ ویسٹرن سوسائٹی میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ ہے کہ cousin marriage نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے بچوں میں geneticallyمسائل ہوجاتے ہیں۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ جو ریسرچ کرتے ہیں وہ صرف مسلمانوں پر ہی کرتے ہیں۔ کیا ان کے ہاں genetics کے مسائل نہیں ہوتے۔ یہ مسائل تو کئی نسلوں میں چل رہے ہوتے ہیں۔ کہیں بھی آکر کسی کو بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے جائز کہا ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کیا ہو۔ ہمارے خاندان میں تو چار نسلوں سے cousin marriages ہو رہی ہیں مگر ابھی تک تو اللہ کا فضل ہی ہے۔

٭ ایک طالبہ نے سوال کیا کہ اکثر جب زندگی میں مشکلات ہوتی ہیں تو دعا میں درد، جوش اور جنون ہوتا ہے۔ مگر جب آسانی آتی ہے تو خدا کا شکر تو پیدا ہوتا ہے لیکن دعا میں وہ درد جوش اور جنون نہیں رہتا۔ اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: خدا کا صحیح شکر بھی نہیں ہوتا۔ اگر صحیح شکر ہو تو یہی درد پیدا ہو جاتا ہے۔ لوگ جب کسی قریبی یا پیارے سے ملتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پیار زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی صحیح شکر گزاری ہو تو اس میں جوش پیدا ہو جانا چاہئے۔ حالات ایک جیسے تو نہیں رہتے۔ اس لئے اچھے حالات میں بھی اللہ کو یاد رکھنا چاہئے۔

٭ ایک طالبہ نے سوال کیا جیساکہ ہمیں معلوم ہے کہ موسم کو تبدیلیوں سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ماحول کی (حفاظت) کی طرف توجہ دیں۔ لیکن جماعتی پروگراموں میں Recycling نہیں ہوتی اور سٹائروفوم Styrofoam کا بہت استعمال ہوتا ہے۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر گورنمنٹ نے تحریک چلائی ہوئی ہے کہ کلائمیٹ فرنڈلی (Climate Friendly)ہونا چاہئے تو گورنمنٹ اُن فیکٹریز کو کیوں نہیں بَین (Ban) کردیتی۔ لیکن سٹائروفوم (Styrofoam) کا استعمال تو ویسے بھی غلط ہے۔ یہ زہریلی ہوتی ہے اس لئے اس کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

٭اس پر لجنہ نے عرض کیا کہ ماحول کی حفاظت کے لئے کیا جماعت کو بھی کچھ کرنا چاہئے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پہلے آپ اپنی لجنہ کو توجہ دلائیں۔ ان سے برتن دھلوائیں۔ خدام الاحمدیہ یوکے نے اپنے اجتماع کے لئے سارے پلاسٹک کے برتن پاکستان سے ایک احمدی کی فیکٹری سے منگوائے تھے جو وہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ پلیٹیں ایک دو مرتبہ دھو کر ایک سال کے لئے استعمال ہو جاتی ہیں اور بعد میں اسے Recycleکر دیتے ہیں۔٭ایک طالبہ نے سوال کیا کہ آج کل مریخ پر جانے کی ریسرچ ہو رہی ہے کہ لوگوں کو مریخ پر جانا چاہئے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا یہ انسانیت کی خدمت ہے؟


اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر انسان وہاں جا کر زندہ رہ سکتا ہے اور نارمل زندگی گزار سکتا ہے تو بے شک چلا جائے۔ کئی Planet ایسے ہیں جہاں آبادیاں ہیں۔ تو اگر انسان وہاں جا کر رہ سکتا ہے تو رہ لے۔ لیکن ابھی کون سا دنیا ختم ہو گئی ہے۔ ابھی تو رہنے کے لئے کینیڈا کا بھی ایک بہت بڑا حصہ پڑا ہوا ہے اس لئے مریخ پر جا کر رہنے کی کیا ضرورت ہے۔

٭ ایک طالبہ نے عرض کیا کہ کیا آپ سسکاٹون کی مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائیں گے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مسجد کے افتتاح کے لئے تو نہیں آ سکتا۔ مسجد کا افتتاح ہو جائے گا۔ دو مہینہ بعد دوبارہ آنا تو ممکن نہیں ہے۔ پھر کبھی اللہ نے موقع دیا تو آجائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔

٭ ایک طالبہ نے سوال کیا کہ کینیڈا کی تاریخ میں یورپین لوگوں کی طرف سے Indigenous لوگوں پر بہت ظلم ہوا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی ثقافت اور مذہبی عقائد کو کھو دیا اور یہ لوگ نشہ وغیرہ میں پڑ گئے اور پھر ان کی طرف سے تشدد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ سسکاچیوان میں ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ ہم انہیں خدا اور اسلام کی طرف کس طرح بلا سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تم ان کو اسلام کی صحیح تعلیم بتاؤ۔ آج صبح ہی مجھے ایک فیملی ملنے آئی تھی۔ ان کی اپنی روایات اور مذہب بھی ہے۔ ان لوگوں کو بتانا چاہئے کہ اسلام کیا کہتا ہے۔ اسلام تو نا انصافی نہیں کرتا۔ اس فیملی کا Head قرآن کریم پڑھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں قرآن کریم کے بہت قریب آگیا ہوں۔ کہتا ہے کہ عیسائیت نے ہم پر بڑے ظلم کئے ہیں۔ تو اگر آپ اسلام کی صحیح تعلیم بتائیں تو لوگ سمجھیں گے۔

ویسے تو جمہوریت اور انصاف کے بڑے نعرے مارے جاتے ہیں لیکن indigenousکے ساتھ بھی بعض جگہ پر discrimination ہوتی ہے۔ تو ان کے علاقوں میں جا کر اسلام کی تبلیغ کرنی چاہئے۔ افریقہ کے بارہ میں سمجھا جاتا ہے کہ وہاں تو سب افریقن ہیں اس لئے ایک دوسرے کو کچھ نہیں کہتے ہوں گے۔ لیکن وہاں بھی بعض جگہ پر discriminationہوتی ہے۔ وہاں قبائلی نظام چلتا ہے اور Pygmy جوکہ چھوٹے قد کے لوگ ہوتے ہیں ان کو بڑی نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ مذہب کو نہیں مانتے اس لئے وہاں عیسائی بھی نہیں گئے۔ اب ہم نے وہاں جا کر تبلیغ شروع کی ہے اور ان کو پتہ لگنا شروع ہوا ہے اور ان میں سے کئی لوگ، سینکڑوں بلکہ ہزاروں احمدیت قبول کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ بلکہ قرآن بھی پڑھ رہے ہیں۔ اسلام بھی سیکھ رہے ہیں۔ تو اگر صحیح طرح اسلامی تعلیم بتائی جائے اور ان کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا جائے تو وہ مان لیتے ہیں۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے سوال کیا کہ 1947ء میں چوہدری ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے اقوامِ متحدہ میں فلسطین اور اسرائیل کی دو سٹیٹس کا ایک حل بتایا تھا جو ردّ کر دیا گیا تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس مسئلہ کا کوئی ممکنہ حل ہے؟ مسلمان اس حوالہ سے کیا کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کا کوئی حل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ انصاف نہیں کر رہے۔ پہلے ایک حد بناتے ہیں اور اس کے بعد ہر چھ مہینہ یا سال بعد اُن کو ابال چڑھتا ہے اور کچھ نہ کچھ بڑھاتے چلے جارہے ہیں اور فلسطین پر آہستہ آہستہ قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ ظلم تو نہیں رُک رہا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اسرائیلیوں کو یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ آباد کرے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم ظلم سے نہیں باز آؤ گے تو پھر تمہارے ہاتھ سے یہ ملک نکل جائے گا۔ دوسری طرف مسلمانوں کو یہ کہا ہے کہ تم ہتھیاروں سے اور بندوقوں سے نہیں جیت سکتے ۔ اپنی اصلاح کرو۔ صحیح مسلمان بنو اور دعاؤں سے اور اپنے عمل سے ثابت کرو کہ تم حقیقی مسلمان ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں یہ ملک واپس کر دے گا۔ اس لئے اگرکسی وقت اس مسئلہ کے حل کا کوئی امکان ہے تو صرف ان مسلمانوں کے ذریعہ سے جو صحیح رستے پر چلنے والے ہوں گے۔ اگر احمدی چلتے رہیں گے تو ہو سکتا ہے کسی زمانہ میں احمدیت کے ذریعہ سے یہ ملک دوبارہ واپس مل جائے۔ لیکن اس وقت جو حالات ہیں ان میں تو مسلمان خود ظالم بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں تو انہیں یہ ملک واپس نہیں ملے گا اور نہ ہی یہ تلوار کے زور سے ملنا ہے۔ پہلے بھی اسرائیل دو دفعہ تبا ہ ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہی بادشاہوں کے ذریعہ حملے کروا کر اسے تباہ کروایا ہے۔ اور اب جو ہونا ہے وہ ہتھیاروں سے نہیں ہونا وہ دعاؤں سے ہونا ہے۔

طالبات کی حضور انور کے ساتھ یہ نشست سات بج کر چالیس منٹ تک جاری رہی۔

یونیورسٹیز اور کالجز کے احمدی طلباء کی حضورانور ایدہ اللہ کے ساتھ نشست

بعد ازاں پروگرام کے مطابق سات بجکر پینتالیس منٹ پر یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نشست شروع ہوئی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم ہبۃاللہ صاحب نے کی اور اس کا انگریزی ترجمہ عزیزم وجاہت احمد صاحب نے پیش کیا۔

بعد ازاں نعمان حسن صاحب نے Cystic Fibrosis کے عنوان پر presentation دی۔ نعمان حسن صاحب نے ڈیپارٹمنٹ آف سائیکالوجی میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور اب وہ میڈیسن کے پہلے سال میں ہیں۔

موصوف نے اپنی presentation دیتے ہوئے بتایا کہ Cystic Fibrosis ایک بیماری ہے جس کی کوئی دوا نہیں بنی لیکن بعض دوائیں جو دی جاتی ہیں ان سے صرف symptoms پر اثر پڑتا ہے۔ اب synchrotron technology کو استعمال کر کے اس پر studies کی گئی ہیں۔مگر اس کا تجربہ صرف جانوروں پرہی کیاجارہاہے۔ فی الحال جانوروں پر تجربہ کرکے سیکھ رہے ہیں تاکہ بعد میں دواساز اداروں کو ادویات بنانے کے لئے دیا جاسکے۔

اس پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان کمپنیوں نے تو صرف پیسے کمانے ہوتے ہیں۔ آپ کی ریسرچ کا کیا نتیجہ آیاہے؟ کیا یہ nano technology سکین کرنے کے لئے بھی استعمال ہوسکتی ہے؟

اس پر عزیزم نعمان صاحب نے عرض کیاکہ ابھی نتائج دیکھے جارہے ہیں اور nano technology کے ذریعہ سکین کرنے کے بارہ میں سٹڈی نہیں کی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہماری ایشین خواتین میں Uterus Cystic Fibrosisi بہت عام ہے۔

اس پر نعمان صاحب نے عرض کیاکہ سب سے زیادہ Caucasian لوگوں میں پائی جاتی ہے اور اس کے بعد ایشین لوگوں میں اس کی ریشو (Ratio) زیادہ ہے۔

٭ اس کے بعدحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر ایک خادم مشرف نوید خان صاحب نے بتایاکہ انہوں نے organic chemistry میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور اس وقت کینیڈا میں بطور post doctor fellow کام کررہے ہیں۔

انہوں نے Organic Synthesis کے عنوان پر اپنی Presentation دی تھی۔ اس حوالہ سے انہوں نے بتایاکہ انہوں نے ایک نیا synthetic method بنایاہے جو کہ Good American Journal میں شائع ہوا۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ اس agro chemical کو سپرے کے ذریعہ استعمال کیاجاتاہے یا کوئی اور طریق ہے؟

اس پر مشرف نوید خان صاحب نے عرض کیاکہ لیب میں ٹیسٹ کرنے کے لئے مائیکرو پلیٹس ہوتی ہیں جن پر اس کمپاؤنڈ کو dissolve کرکے چیک کیا جاتا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ اس کیمیکل کے فوائد کیا ہیں؟ کیا اس کو anti-bacterial کہیں گے یا anti fungal ؟

اس پر مشرف صاحب نے عرض کیاکہ اس پراسس کے مطابق oxodiozol بنایاگیاہے جو کہ دوائیوں میں استعمال ہوسکتاہے جن کو فنگس یا insects کے خلاف بھی استعمال کیاجاسکتاہے جس کے نتیجہ میں فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہاں تو خشک موسم ہے۔ کیا یہاں فصلوں میں فنگس آتی ہے؟

اس پر مشرف صاحب نے عرض کیاکہ یہاں پر کنولا اور mustard وغیرہ کی کافی پیداوار ہے اور ان فصلوں میں فنگس آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مشرف صاحب نے عرض کیاکہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیاتھااوراس کے بعد جرمنی سے ماسٹرز کیاہے۔پھر یوکے سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ اس کے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی جاب یوکے میں کی اور اب کینیڈا میں کررہے ہیں۔ لیکن مستقل جاب نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی ملک کا residence status نہیں مل سکا۔ اب وہ دوبارہ کوئی جاب تلاش کررہے ہیں۔

٭ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مجھے پتہ چلاہے کہ سسکاچوان کی یونیورسٹیز کی ranking اتنی اعلیٰ نہیں ہے۔ لیکن ہم نے میڈل دینے کا criteria بنایاہواہے اس کے مطابق تو پہلے دس نمبر پرآنے والی یونیورسٹیوں کے طالبعلموں کو دیاجاتاہے۔ اس لحاظ سے سسکاٹون یونیورسٹی کا تو کوئی طالبعلم میڈل نہیں لے سکتا۔ اس لئے اس کو بدلناپڑے گا کہ ہر سٹیٹ کی پہلی یا پہلی دو یونیورسٹیوں کے طلباء میڈل حاصل کرسکتے ہیں۔

٭ اس کے بعد توصیف احمد خان صاحب نے بتایا کہ وہ بھی post doctorate fellowship کررہے ہیں۔ اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق ’شہد‘ پر ریسرچ کررہے ہیں۔موصوف نے بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں شہد کی مکھی کا ذکرکیاہے۔نیز قرآن کریم میں آیاہے کہ شہد میں شفاء ہے۔ میر ی ریسرچ کا موضوع شہد اور چینی میں فرق دیکھنا ہے کہ آیا شہد چینی سے بہتر ہے یا نہیں؟ ابھی تو ڈاکٹرز یہی کہتے ہیں کہ شہد بھی چینی کی ہی ایک قسم ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ چینی اور شہد میں فرق ہے۔ چینی لوگ بناتے ہیں اور شہد اللہ تعالیٰ کے الہام سے بنتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں نے پڑھا تھا کہ ایک آدمی جسے کینسر تھا اس نے sugar بالکل ختم کر دی ۔اپنی ہر چیز سے شوگر نکال دی اور وہ پچھلے دس سال سے survive کر رہا ہے اوراس کا کینسر بھی subside کر گیا ہے۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ اس نے شہد استعمال کیا ہے یا نہیں۔لیکن اس نے چینی کے ذریعہ اپنا کینسر کنٹرول کر لیا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا Manuka honey کے بارہ میں کیا ریسرچ آئی ہے؟ آپ کو نیو زی لینڈ سے پتہ کرنا پڑے گاکیونکہ Manuka نیوزی لینڈ میں ہوتا ہے۔ وہ بڑے دعوے کرتے ہیں کہ اس شہد کی یہ یہ خاصتیں ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ڈنمارک سے بھی پتہ کریں۔ انہوں نے propolis پر ریسرچ کی تھی۔

اس پر توصیف خانصاحب عرض کیا کہ propolis پر پورے یورپ میں ہی ریسرچ ہورہی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ویسے تو سارے یورپ میں ہورہی ہے لیکن شروع ڈنمارک سے ہی ہوئی تھی۔ وہاں سے بھی پتہ کرنا چاہئے کہ انہوں کن اقسام پرریسرچ کی ہے۔ ہمارے ایک البراکی صاحب بھی ہیں جو پہلے امریکہ میں تھے اور اب یہاں ٹورانٹو میں آ گئے ہیں۔ ان کا بیٹابھی ریسرچ کر رہا ہے ۔ ان کو بھی اپنی ریسرچ میں شامل کر لینا تھا ۔ان کا شہد کی مکھیوں کا بہت بڑا فارم بھی تھا۔

اس پر عزیزم توصیف صاحب نے عرض کیاکہ وہ ان کے ساتھ رابطہ میں ہیں۔ وہ اس بات پر ریسرچ کررہے ہیں کہ شہد کی مکھیوں میں کمی کیوں واقع ہورہی ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ فصلوں پر کثرت کے ساتھ Insecticides استعمال ہو ر ہے ہیں۔ یہی اس کی بڑی وجہ ہے۔

٭ ایک طالبعلم نے سوال کیاکہ insecticide کا شہد پر کوئی اثر پڑتاہے؟ اس پر توصیف صاحب نے بیان کیاکہ شہد کی مکھی بڑی اچھی طرح سے impurities نکال دیتی ہے اس لئے اس کا شہد پر اثر نہیں پڑتا۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاinsecticides کا residual effect تو نہیں ہوگا لیکن جس فصل یا پھول پر insecticide spray کیا ہوا ہے وہاں شہد کی مکھی نے جاکر nectar تو لینا ہی ہوتاہے۔ اس لئے بعض اوقات وہ شہد بنانے سے پہلے ہی مرجاتی ہیں۔ اس لئے تو مکھیاں مر رہی ہیں۔ تقریباً تیس فیصد فارمز ہیں تباہ ہو گئے ہیں۔اور اس کی بڑی وجہ insecticides ہی ہیں۔

طلباء کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ کلاس آٹھ بجکر پچیس منٹ تک جاری رہی۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تمام طلباء کو قلم عطا فرمائے اور حضور انور نے باری باری ہر طالبعلم سے دریافت فرمایا کہ وہ کس کلاس میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں، کون سا مضمون لیا ہوا ہے۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آٹھ بجکر پینتالیس منٹ پر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سسکاٹون کی زیر تعمیر مسجد کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے ۔ سسکاٹون میں تعمیر ہونے والی یہ پہلی احمدیہ مسجد ہے۔ جماعت سسکاٹون نے اپنی مسجد کی تعمیر کے لئے 16 ایکڑ کا قطعہ زمین 1988 ء میں خریدا تھا۔ 2005ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ کینیڈا کے دوران 20 جون 2005ء کو اس قطعہ زمین کا معائنہ فرمایا تھا اور مسجد اور اس کمپلیکس کی تعمیر کے نقشہ جات بھی ملاحظہ فرمائے تھے۔

اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قطعہ زمین پر بڑی خوبصورت اور وسیع و عریض مسجد تعمیر ہورہی ہے۔ مسجد کے ساتھ جماعتی دفاتر، مشن ہاؤس، نمائش ہال، ملٹی پرپز ہال (جس میں Indoor کھیلوں کا بھی انتظام ہوگا) رہائشی حصہ، گیسٹ ہاؤس اور دیگر مختلف حصے بھی تعمیر ہو رہے ہیں۔ ایک بڑا وسیع و عریض کمپلیکس ہے۔

حضور انور نے تفصیل سے اس سارے کمپلیکس کا معائنہ فرمایا اور ساتھ ساتھ انتظامیہ سے مختلف امور دریافت فرماتے رہے۔ مسجد کا ایک بہت بڑا گنبد بھی ہے اور ایک بلند مینارہ بھی ہے جو ہر آنے جانے والے کو دور سے نظر آتا ہے۔ یہ مسجد مین روڈکے قریب ہے اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں گزرنے والے مسافر اس مسجد کو دیکھتے ہیں۔

مسجد کے معائنہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہ شفقت مکرم بلال انور صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔ بلال انور صاحب نے اپنا نیا گھر مسجد کے قریب ہی تعمیر کیا ہے اور انہوں نے سسکاٹون کے دورہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رہائش کے لئے اپنا گھر بھی پیش کیا تھا۔ لیکن اس کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔

بعدازاں دس بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنی قیامگاہ پر تشریف لے آئے۔

8 نومبر2016ء بروز منگل

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح سات بجے Prairie Land سنٹر میں تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ خواتین کے ہال میں تشریف لے گئے اور سب کو السلام علیکم کہا۔ خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس ہوٹل تشریف لے آئے۔ پولیس نے نماز پر جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے قافلہ کو Escort کیا۔

سسکاٹون سے روانگی اور کیلگری میں ورودمسعود

آج پروگرام کے مطابق سسکاٹون سے کیلگری کے لئے روانگی تھی۔ سسکاٹون جماعت کے مقامی احباب مردوخواتین ہوٹل کے بیرونی حصہ میں جمع تھے۔ صبح ساڑھے نو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی اپارٹمنٹ سے باہر تشریف لائے اور جماعتی عہدیداران سے گفتگو فرمائی۔ بعدازاں نوبجکر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اجتماعی دعا کروائی اور قافلہ پولیس کے Escort میں ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہوا۔ قریباً بیس منٹ کے سفر کے بعد دس بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایئرپورٹ پر تشریف آوری ہوئی۔

حضور انور کی آمد سے قبل سامان کی بکنگ اور بورڈنگ کارڈ کے حصول کی کارروائی مکمل ہوچکی تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ لاؤنج میں تشریف لے آئے۔

سسکاٹون سے کیلگری تک اس سفر میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا العالی اور قافلہ کے ممبران کے علاوہ 14 احباب کو سفر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جن میں امیر صاحب کینیڈا مع اہلیہ، نائب امیر ڈاکٹر اسلم داؤد صاحب، جنرل سیکرٹری صبیح ناصر صاحب، صدر مجلس خدام الاحمدیہ، نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ، سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ، صدر لجنہ اماء اللہ، سید عامر سفیر صاحب ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز، طارق ہارون ملک صاحب (رسالہ ریویو آف ریلیجنز)، بشیر احمد ناصر صاحب فوٹو گرافر، سید قمر سلیمان صاحب وکیل وقف نو تحریک جدید ربوہ، ڈاکٹر تنویر احمد صاحب آف امریکہ (موصوف ڈاکٹر صاحب اس سفر میں قافلہ کے ساتھ ڈیوٹی پر ہیں) شامل ہیں۔

گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جہاز پر سوار ہوئے۔ ایئر کینیڈا کی پرواز AC8581، گیارہ بجکر بیس منٹ پر سسکاٹون سے کیلگری کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہوئی۔ ایک گھنٹہ پچیس منٹ کی پرواز کے بعد جہاز کیلگری کے وقت کے مطابق گیارہ بجکر پینتالیس منٹ پر کیلگری کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا۔ (کیلگری کا وقت سسکاٹون سے ایک گھنٹہ پیچھے ہے)۔

ایئرپورٹ پر پروٹوکول آفیسرز نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔

مکرم ملک عبدالباری صاحب نائب امیر جماعت کینیڈا اور دیگر جماعتی عہدیداران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال کیا۔

حکومت کی طرف سے نیشنل ممبر پارلیمنٹ Deepak Obrai صاحب، صوبہ البرٹا کے صوبائی ممبر پارلیمنٹ Graham Sucha صاحب اور صوبائی ممبر پارلیمنٹPrab Gill صاحب بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ ان سبھی نے حضور انور سے شرف مصافحہ حاصل کیا اور تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت ان سے گفتگو بھی فرمائی۔

بعدازاں بارہ بجکر بیس منٹ پر ایئرپورٹ سے مسجد بیت النور کیلگری کے لئے روانگی ہوئی۔ پولیس کے دس سے زائد موٹر سائیکل قافلہ کو Escort کر رہے تھے اور آگے اور دائیں بائیں چلتے ہوئے راستہ کلیئر کر رہے تھے۔

قریباً بیس منٹ کے سفر کے بعد بارہ بجکر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ’’مسجد بیت النور‘‘ کیلگری تشریف آوری ہوئی جہاں ہزاروں کی تعداد میں احباب جماعت نے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔

استقبال کرنے والوں میں کیلگری کی مقامی جماعت کے علاوہ کینیڈا کی دوسری جماعتوں ٹورانٹو، سسکاٹون، ایڈمنٹن، وینکوور اور بعض دوسری جماعتوں کے علاوہ امریکہ کی مختلف جماعتوں سے آنے والے احباب بھی شامل تھے۔

جونہی حضور انور کی گاڑی مسجد بیت النور کے قریب پہنچی۔ ساری فضا نعرہ ہائے تکبیر، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، غلام احمد کی جے، خلافت احمدیہ زندہ باد، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس زندہ باد کے والہانہ اور پُرشگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ اھلاً و سھلاً و مرحبا کی آوازیں ہر طرف بلند ہورہی تھیں۔ بچوں اور بچیوں کے گروپس خیرمقدمی گیت پیش کررہے تھے۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا۔ مسجد کے سامنے والے حصہ میں خواتین کھڑی تھیں جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خواتین کے قریب پہنچے تو خواتین نے بڑے بھرپور انداز میں اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا اور شرف زیارت حاصل کیا۔

بعدازاں حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے ایک بار پھر سب کو السلام علیکم کہا اور اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کے مرکزی کچن کا معائنہ فرمایا۔ حضور انور ڈائننگ ہال میں بھی تشریف لے گئے، بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خواتین کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں خواتین اپنے پیارے آقا کی زیارت سے فیضیاب ہوئیں

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے بیرونی احاطہ میں تشریف لے آئے اور یہاں نصب مارکیز کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ اس پر منتظمین نے بتایا کہ ایک مارکی میں لنگرخانہ قائم کیا گیا ہے اور باقی دو مارکیز کھانا کھانے کے لئے استعمال ہوں گی۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج شام کے اس سیشن میں کیلگری جماعت کے 42 خاندانوں کے 160 افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ ملک سیریا سے آئے ہوئے ایک مہاجر خاندان نے بھی ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

ان سبھی احباب نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت بھی حاصل کی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔ ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجکر دس منٹ تک جاری رہا۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔

کیلگری کا شہر کینیڈا کے صوبہ البرٹا (Alberta) میں دو دریاؤں Bow River اور Elbow River کے سنگم پر واقع ہے اور 1870ء سے آباد ہے۔ اس شہر کے گردونواح میں سرسبز و شاداب قطعات زمین اور شہر کے ایک طرف برف سے ڈھکی ہوئی راکی کوہسار (Rocky Mountains) کی چوٹیاں بہت خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔

کیلگری میں جماعت کا قیام 1977ء میں ہوا اور 1978ء میں جماعت نے بطور مشن ہاؤس ایک چھوٹا سا مکان خریدا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جماعت کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدائی سالوں میں یہاں کیلگری کی جماعت کا سالانہ بجٹ صرف چند سو ڈالرز تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کیلگری نے یہاں پندرہ ملین ڈالرز کی لاگت سے ایک بہت خوبصورت، وسیع و عریض مسجد اور جماعتی سنٹر پر مشتمل ایک پورا کمپلیکس تعمیر کیا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے 2005ء کے دورہ کینیڈا کے دوران 18 جون 2005ء کو کیلگری میں اس پہلی مسجد بیت النور کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور پھر اپنے 2008ء کے دورہ کینیڈا میں 4 جولائی 2008ء کو اس مسجد کا افتتاح فرمایا تھا۔

کیلگری کی یہ ’مسجد بیت النور‘ شہر کے نارتھ ایسٹ علاقہ میں ہے۔ مسجد کے قطعہ زمین کا رقبہ چار ایکڑ ہے اور یہاں مسجد اور پورے کمپلیکس کی تعمیر کا مجموعی رقبہ 48 ہزار مربع فٹ ہے۔

مسجد بیت النور کے مین ہال کے علاوہ مسجد کے دونوں اطراف لابی (Lobby) ہے۔ ایک طرف مردوں کے لئے اور دوسری طرف خواتین کے لئے یہ لابی استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ 7200 مربع فٹ کے رقبہ پر ایک ملٹی پرپز (multi-purpose) ہال تعمیر کیا گیا ہے۔ 1790 مربع فٹ پر ڈائننگ ہال تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک بہت بڑے کمرشل کچن اور سٹور کی سہولیات بھی موجود ہیں۔

اس کمپلیکس کی دونوں منازل پر بڑی تعداد میں دفاتر موجود ہیں۔ ریجنل امیر، مبلغ سلسلہ، جماعتوں کے لوکل صدران، ان کی عاملہ اور ذیلی تنظیموں کے دفاتر موجود ہیں اور جدید سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔

واقفین نو بچوں اور بچیوں کے لئے اور دیگر خدام، اطفال اور ناصرات کے لئے مختلف کلاس روم بھی یہاں بنے ہوئے ہیں جہاں ان کی تعلیمی و تربیتی کلاسز ہوتی ہیں۔ اس کمپلیکس میں داخل ہونے کے لئے مختلف اطراف سے راستے ہیں۔

یہ مسجد اور کمپلیکس جدید طرز پر تعمیر کیا گیا ہے اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے کیلگری شہر میں یہ منفرد اہمیت کی حامل عمارت ہے جس کا روشن مینار اور گنبد بہت دور سے نظر آتے ہیں اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

اسی کمپلیکس کے ایک احاطہ میں گیسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے یہاںکیلگری میں قیام کے دوران حضورانور کی رہائش، اسی رہائشی حصہ میں ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button