رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء

خطبہ جمعہ۔

بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی چند لفظوں میں دنیا اور تمام قوموں کے درمیان امن قائم کرنے کی بنیاد بیان فرماد ی تھی۔ پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوسرے کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔میرے خیال میں یہ ازلی ابدی اصول آج بھی وہی اہمیت رکھتا ہے جیسے کہ ماضی میں رکھتا تھا۔ اسلام امن قائم کرنے کے لئے امانتوں کے حق پورے کرنے پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ ہر معاشرے میں ہر فرد کے ذمہ بعض امانتیں اور فرائض ہوتے ہیں اور معاشرے کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ عام شہری اور حکمران ایک دوسرے کے فرائض حقیقی انصاف سے ادا کریں ۔ بڑی طاقتوں اوراقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کوبھی عَہدوں اور امانتوں کے حق اداکرنے کایہ اصول ہمیشہ مقدم رکھنا چاہئے۔ بعض بڑی طاقتیں اپنے کاروباری مفادات کو ہرچیز پر فوقیت دیئے ہوئے ہیں اوردوسرے ملکوں کو جدیدترین اسلحہ بیچ رہی ہیں۔ اگر ہم حقیقت میں امن چاہتے ہیں تو ہمیں عدل سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں عد ل و انصاف کو اہمیت دینا ہوگی۔

(یارک یونیورسٹی (ٹورانٹو) میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب)

٭… خلیفۃالمسیح نے جو کچھ بھی کہا دل کی گہرائی سے کہا۔ …٭… خلیفۃالمسیح کو دنیا کے مسائل اور مشکلات کا خوب علم ہے۔ …٭… خلیفہ صاحب نے امن کے حوالہ سے خوب اچھی باتیں کیں۔ …٭…خلیفۃالمسیح نے جو بھی باتیں کہیں وہ خلوص نیت سے کہیں۔ وہ کسی کو خوش کرنے نہیں آئے تھے، نہ ہی کوئی بات منوانے بلکہ ان کی باتیں صرف سچائی کی باتیں تھیں جو خود ہی سمجھ آرہی تھیں۔ …٭… احمدیہ جماعت حقیقی اسلام کا نمونہ ہے لیکن افسوس ہے

(رپورٹ مرتّبہ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)


28؍اکتوبر 2016ءبروز جمعۃالمبارک

آج نماز فجر کے وقت میں پندرہ منٹ کی تبدیلی ہوئی تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نئے وقت کے مطابق چھ بج کر 45 منٹ پر ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

آج جمعۃالمبارک کا دن تھا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے پِیس ویلیج کے علاوہ اردگرد کی جماعتوں سے بڑی تعداد میں احباب جماعت مردوخواتین شامل ہوئے۔بعض لوگ امریکہ سے بھی بڑے لمبے سفر طے کرکے آئے تھے۔ بعض بذریعہ کار چار سے پانچ گھنٹے کا سفر طے کرکے پہنچے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو بذریعہ جہاز چار گھنٹے کا سفر طے کرکے پہنچے تھے تاکہ اپنے آقا کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرسکیں۔

نماز جمعہ کی مجموعی حاضری 9356 تھی جس میں پانچ ہزار سے زائد مرد احباب اور چار ہزار سے زائد خواتین تھیں۔مَردوں کے لئے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ کے دونوں ہال اور مسجد کے بیرونی احاطہ میں دو بڑی مارکیز لگاکر انتظام کیا گیا تھا۔خواتین کے لئے ’’ایوان طاہر‘‘ میں اور اِس کے علاوہ دو بڑی مارکیز لگاکرانتظام کیا گیا تھا۔

دُور کی جماعتوں سے صبح سے ہی لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئے کہ شعبہ خدمت خلق کو دو ہزار سات سو کاروں کی پارکنگ کا انتظام کرنا پڑا۔ اور شعبہ ضیافت نے ان مہمان احباب کے لئے دوپہر کو ساڑھے چھ ہزار افراد کا کھانا تیار کیا اور پھر شام کے لئے قریباً پانچ ہزار احباب کا کھانا تیار کیا۔ بعض مہمانوں نے رات بھی قیام کیا۔ ان کی رہائش کا انتظام بھی کیا گیا۔

خطبہ جمعہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بج کر 35 منٹ پر ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لاکر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا:

تشہد، تعوذ ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بچوں کو وقف کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ روزانہ مجھے والدین کے خط ملتے ہیں۔ بعض دنوں میں ان کی تعداد بیس پچیس ہو جاتی ہے جس میں ماں باپ اپنے ہونے والے بچوں کو وقف نَو میں شامل کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جب یہ تحریک فرمائی تھی ،پہلے مستقل نہیں تھی پھر آپ نے اسے مستقل کر دیا اور جماعت نے بھی خاص طور پر ماؤں نے اس پر ہر ملک میں لبیک کہا۔ آج سے بارہ تیرہ سال پہلے جماعت کی جو اس طرف توجہ ہوئی تھی اس کی وجہ سے جو تعداد واقفین نَو کی 28000 سے اوپر تھی اب یہ تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 61000 کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے چھتیس ہزار سے اوپر لڑکے ہیں اور باقی لڑکیاں۔ گویا وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے وقف کرنا ہے۔ لیکن صرف بچوں کو وقف کے لئے پیش کرنے سے ماں باپ کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بیشک ایک احمدی بچے کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر ہے اور والدین اپنے بچے کی بہتری ہی چاہتے ہیں۔ اس کی دنیاوی تعلیم بھی چاہتے ہیں۔ تربیت بھی چاہتے ہیں۔ دینی تعلیم بھی چاہتے ہیں اگر وہ دینی رجحان رکھنے والے والدین ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر بچہ اور خاص طور پر وقف نَو بچہ ان کے پاس جماعت کی امانت ہے جس کی تربیت اور اسے جماعت اور معاشرے کا بہترین حصہ بنانا والدین کا فرض ہے لیکن واقفین نَو بچوں کی تربیت ان کی دینی اور دنیاوی تعلیم پر خاص توجہ اور انہیں بہتر طور پر تیار کر کے جماعت کو دینا اس لحاظ سے بھی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ پیدائش سے پہلے ماں باپ یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ بھی ہمارے ہاں پیدا ہونے والا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی اسے خدا کے لئے ،اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے مشن کی تکمیل کے لئے جو تکمیل اشاعت ہدایت کا مشن ہے، جو اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا مشن ہے ،جو خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف دنیا کو توجہ دلانے کا مشن ہے ،جو ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی اسلامی تعلیم دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کا مشن ہے، اس کے لئے پیش کرتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پس یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو وقف نَو بچوں کے والدین خاص طور پر ماں اپنے ہونے والے بچے کی پیدائش سے پہلے خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد کرتے ہوئے پیش کرتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ کسی وقف نَو بچے کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ ہم نے اگر وقف کیا تو ہم دنیاوی طور پر کس طرح گزارہ کریں گے یا یہ وسوسہ دل میں پیدا ہو جائے کہ ہم ماں باپ کی مالی خدمت کس طرح کریں گے۔ جو واقفین نَو لڑکے خاص طور پر اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں خود بھی اپنی ظاہری اور مالی حالت کی بہتری کی بجائے روحانی حالت میں بہتری کی کوشش کریں۔

واقفین نَو کو تو اپنے قناعت کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے۔ اپنی قربانی کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ واقفین نَو کو جہاں قربانی کا معیار بڑھانا ہے وہاں اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی بلند کرنا چاہئے، اپنی وفا کے معیار کو بھی بڑھانا چاہئے۔ اپنے اور اپنے والدین کے عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام صلاحتیوں اور استعدادوں سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دین کی خاطر، دین کی سربلندی کی خاطر کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تب اللہ تعالیٰ بھی نوازتا ہے اور کسی کوبغیر جزا کے اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑتا ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اپنی دنیاوی تعلیم کے دوران مختلف دوروں سے گزرتے وقت بجائے خود فیصلے کرنے کے جماعت سے پوچھیں کہ ہمیں کس لائن میں جانا ہے۔ لائن منتخب کرنے کے بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ واقفین نَو لڑکے جامعات میں جا کر مربی اور مبلغ بننے کو پہلی ترجیح دیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہر وہ احمدی جو چاہتا ہے کہ ان کی نسلیں نظام جماعت سے وابستہ رہیں انہیں چاہئے کہ اپنے گھروں کو احمدی گھر بنائیں، دنیا داروں کے گھر نہ بنائیں ورنہ اگلی نسلیں دنیا میں پڑ کر نہ صرف احمدیت سے دور چلی جائیں گی بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی دور ہو جائیں گی اور اپنی دنیا و عاقبت دونوں برباد کریں گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا یہ خطبہ جمعہ دو بج کر تیس منٹ پر ختم ہوا۔[ خطبہ جمعہ کا مکمل متن ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کے 18دسمبر 2016ء کے شمارہ میں شائع ہوچکا ہے۔]

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جمعہ و نماز عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

آج کا خطبہ جمعہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ دنیابھر میں Live نشر کیا گیا۔

یارک یونیورسٹی (ٹورانٹو) میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب آج پروگرام کے مطابق York University (ٹورانٹو) میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب تھا۔

York University کینیڈا کی بڑی یونیورسٹیز میں سے ایک ہے۔ اس یونیورسٹی کی تاریخ 1959ء سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں 11فیکلٹیز ہیں اور اس وقت 53 ہزار سے زائد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اساتذہ کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے۔ اس یونیورسٹی سے اب تک تین لاکھ کے قریب طلباء تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوچکے ہیں جو مختلف شعبہ جات میں اپنی خدمات بجالارہے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھ بجے اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور پولیس کے Escort میں یونیورسٹی کے لئے روانہ ہوئے۔ پولیس کے بارہ موٹرسائیکل قافلہ کو Escort کر رہے تھے۔

قریباً پندرہ منٹ کے سفر کے بعد چھ بج کر پندرہ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یونیورسٹی میں تشریف آوری ہوئی۔ یونیورسٹی کے مین گیٹ پر چانسلر آف یارک یونیورسٹی Greg Sorbara صاحبہ اور رضا مریدی صاحب نے جو کہ "Minister of Research, Innovation and Science” ہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور اپنے ساتھ ایک گیسٹ روم میں لے آئے۔ یہاں مختصر قیام کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف امور پر گفتگو فرمائی۔

آج کی تقریب ’’احمدیہ مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘‘ کے تعاون سے ہو رہی تھی۔ حضور انور کے استفسار پر صدر AMSA نے بتایا کہ اس وقت یونیورسٹی میں 80 احمدی طلباء اور 150 احمدی طالبات تعلیم حاصل کررہی ہیں اور احمدی طلباء کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو یہاں سے تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوچکی ہے۔

بعد ازاں ساڑھے چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لے آئے جہاں طلباء، اساتذہ اور مہمان حضرات کی بڑی تعداد اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکی تھی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم باسل بٹ صاحب طالب علم جامعہ احمدیہ کینیڈا نے کی اور اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

اس کے بعد امیر صاحب جماعت احمدیہ کینیڈا نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

چانسلر آف یارک یونیورسٹی کا ایڈریس

بعد ازاں گریگ سوربارا (Greg Sorbara) چانسلر آف یارک یونیورسٹی نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

’السلام علیکم۔ عزّت مآب خلیفۃالمسیح!

مَیں بطور چانسلر یارک یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مَیں آپ کے خطاب کا انتظار کر رہا ہوں۔ مَیں سوچتا ہوں کہ سامعین میں سے اکثر جانتے ہوں گے کہ خلیفۃالمسیح 2003ء سے جماعت احمدیہ کے روحانی لیڈر ہیں۔ اس مقام پر خلیفۃالمسیح کو جماعت احمدیہ کے لاکھوں افراد کی روحانی تربیت کرنی ہے جو کہ تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ نے زراعت کے بارہ میں تعلیم حاصل کی ہے اور زمین کی دیکھ بھال کا آپ کو تجربہ ہے۔ آپ میں سے اکثر کو نہیں معلوم ہوگا کہ آپ نے افریقہ غانا میں زراعت کا ایک معجزہ دکھایا تھا اور وہ یہ تھا کہ پہلی مرتبہ غانا میں گندم اُگائی گئی۔

عزت مآب خلیفۃالمسیح! جماعت احمدیہ کینیڈا کی پچاس سالہ تقریبات منعقد ہورہی ہیں، یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے لوگ کینیڈا بھر میں جوش و خروش کی کیفیت میں ہیں۔ آپ نے تمام مصروفیات کے باجود جماعت کو پچھلے کئی ہفتوں سے بہت وقت دیا ہے۔ آپ کی موجودگی نے وینکوور سے کیلگری اور ٹورانٹو سے آٹوا تک سب کو متأثر کر رکھا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت تیزی سے پھیل رہی ہے جس طرح اَور دوسری کینیڈین تنظیمیں پھیل رہی ہیں۔ جماعت کا مشن ہے کہ : ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ جماعت کے ایسے مشن کی آواز پوری دنیا میں پہنچنی چاہئے۔

جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ میرا تعلق اس جماعت سے کم از کم مقامی طور پر یارک ریجن میں کافی دیر سے ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جماعت کی ابتدا میں یہاں کے ایک مبلغ کی محنت سے وان (Vaughn) میں ایک خوبصورت اور پُرکشش مسجد کی تعمیر شروع ہوئی اور مکمل ہوئی۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اس مسجد کے اطراف کئی ہزار لوگ بس چلے ہیں۔ خاص طور پر اُن لوگوں نے اپنا اثر اپنے اطراف میں اور دوسری جگہوں پر ڈالا ہے۔

ہم سب خلیفۃالمسیح کے خطاب کو سننے کے لئے منتظر ہیں اور خاص طور پر مَیں کیونکہ یہاں کا چانسلر ہونے کی حیثیت سے مَیں سننا چاہتا ہوں کہ آپ کیا خطاب فرمائیں گے۔

مَیں دعا کرتا ہوں کہ آپ کے خطاب سے اور آپ کے مشن کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے موقع دیا کہ مَیں اس پوڈیئم پر اپنا کچھ اظہارِ خیال کرسکوں۔ شکریہ۔‘

"Minister of Research, Innovation and Science”

رضامریدی صاحب کا ایڈریس

بعدازاں رضامریدی صاحب (Minister of Research, Innovation and Science) نے اپنا ایڈریس پیش کیا:

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! چانسلر Sorbara صاحب اور تمام حاضرین!

مَیں بہت خوش نصیب ہوں کہ آج مَیں وزیراعلیٰ صوبہ اونٹاریو کیتلن وِن اور اونٹاریو کی حکومت کی طرف سے آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

ہم اونٹاریو میں آپ کی مہمان نوازی کرکے بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہم آپ کے ٹورانٹو اور صوبہ اونٹاریو کے مستقبل کے دَوروں کے منتظر رہیں گے۔ یہ علاقہ ملٹی کلچر ہے اس میں اظہار رائے کی کھلی آزادی ہے نیز مذہبی رواداری بھی ہے جس پر تمام کینیڈا میں ہم عمل کرتے ہیں۔ ٹورانٹو کے اندر 200 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ مذاہب پر لوگ عمل کرتے ہیں۔ نہ صرف ٹورانٹو میں بلکہ تمام کینیڈا میں ہر کوئی اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرتا ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم کینیڈین ہیں اور ہم آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں۔ بے شک وہ اسلام کی کوئی شاخ ہو یا عیسائیت کی یا یہودیت کی، ہندوازم، بدھ ازم یا کوئی بھی اَور مذہب ہو۔ یہ کینیڈا کی خوبصورتی ہے۔

کچھ سال قبل مَیں نے اونٹاریو Legislature میں یہ Motion پیش کیا تھا جو کہ 21 فروری انٹرنیشنل زبانوں کا دن تھا۔ بعض آپ میں سے جانتے ہوں گے کہ اس پیشکش کی شروعات بنگلہ دیش سے ہوئی جہاں پاکستانی فوج نے کئی طالبعلموں کو مار دیا جو اپنی زبان بولنے کے لئے کوشش کررہے تھے۔ اس سانحہ کے سبب UNO نے انٹرنیشنل زبانوں کا دن شروع کیا۔ مجھے یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ مَیں اس دن کو اونٹاریو Legislatureمیں لے کر آیا۔ اس طرح اونٹاریو میں بھی انٹرنیشنل زبانوں کا دن منایا جانے لگا۔ اس کے حق میں تمام پارلیمنٹ کے ممبروں نے ووٹ دیا تھا۔ مَیں نے اپنے ایڈریس میں اس دن کہا کہ اگر مَیں دنیا کی چھ ہزار زبانوں میں hello کہنا چاہوں تو ہم کئی ہفتے یہاں کھڑے رہیں گے۔ لیکن میں نے چالیس مختلف زبانوں میں یہ کہا۔ السلام علیکم کے ساتھ اور کئی زبانوں میں سلام کیا۔ یہ کینیڈا ہے جہاں ہم ایک دوسروں کی خاصیتوں کو قبول کرتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا مختلف ہونا ہی ہماری قوت ہے۔ دنیا کے بعض ممالک میں وہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ مذہب کی آزادی ہونی چاہئے اور زبانیں بولنے کی آزادی ہونی چاہئے۔

آج ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت ساری جنگیں چل رہی ہیں۔ ان کی بنیادی وجہ اپنے ملک پر فخر کرنا اور دوسروں کے مذہب، زبان اور رواج وغیرہ کی عزت نہ کرنا ہے۔ یہ میرے مذہب میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ مَیں مسلمان پیدا ہوا تھا اور یہ سب مشرقِ وسطیٰ میں دیکھا جا رہا ہے۔ وہاں بہت مسائل ہیں۔ لیکن اسلامی دنیامیں ایک رہنما ہیں جو کہ حضرت مرزا مسرور احمد ہیں۔

خلیفۃالمسیح آپ مسلم دنیا کو اپنی تعلیم، کتب، تقاریر اور میٹنگ کے ذریعہ راہنمائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ امن، اخوت، تمام لوگوں میں انصاف وغیرہ کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم بہت خوش ہیں کہ آپ نے یہ قدم اٹھایا۔ نیز ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ یہاں آئے۔ آپ کے ساتھ میری دوسری ملاقات ہے۔ پہلی ملاقات کچھ سال قبل ہوئی تھی جب McQuinty اونٹاریو کے Premier تھے۔ تب Hilton ہوٹل میں آپ سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آج بھی مَیں خوش قسمت ہوں کہ آپ کے ساتھ ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی کئی مرتبہ ملنے کا موقع ملے گا۔ ایک مرتبہ پھر اونٹاریو میں خوش آمدید۔ ہم آپ کے آئندہ مزید دَوروں کے منتظر رہیں گے۔

آخر میں مَیں کہوں گا ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ یہ ایک بہت اچھا پیغام ہے اور مَیں اس کی ہمیشہ بات کرتا رہتا ہوں۔

یہاں سے جانے سے قبل مَیں ایک خاص احمدی کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے تو اس جماعت سے بہت مردوخواتین ایسے ہوئے ہیں جو اپنی خصوصیت رکھتے ہیں لیکن ایک ان میں سے بہت عظیم وجود پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ آپ میں سے بعض جانتے ہوں گے کہ مَیں خود Physicist ہوں۔ وہ سائنس کے بہت عظیم وجود ہیں جنہوں نے انسانیت اور سائنس کی خوب خدمات سرانجام دی ہیں۔ ہمیں ہمیشہ انہیں یاد رکھنا چاہئے۔ انہوں نے اٹلی میں ایک سینٹر بنایا تھا جس کا نام Centre for Theoretical Physics ہے۔ اس میں تمام دنیا سے سائنسدان اکٹھے ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور تحقیق کو مزید بڑھائیں۔

ایک مرتبہ پھر خلیفہ صاحب کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ پھر ہمارے ہاں تشریف لائے۔ خاص کر سال کے اس وقت جب ہم جماعت احمدیہ کینیڈا کا پچاس سالہ جشن منا رہے ہیں۔ شکریہ۔ السلام علیکم۔

حضور انور ایدہ اللہ کا خطاب

بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں اپنا خطاب فرمایا۔ خطاب کا موضوع تھا: "Justice in an unjust world”۔ اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب کا آغاز بسم اللہ الرحمان الرحیم سے فرمایااور اس کے بعد تمام مہمانوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کہا۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج ہمارے گرد دنیا مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اور ترقی کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں تو بلاشبہ غیرمعمولی ترقی ہوئی ہے۔ تکنیکی ترقی کو لیں تو روز بروز جدید تکنیکی اور سائنسی ایجادات ہورہی ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ترقی ہو رہی ہے۔ مثلاً جدید ذرائع مواصلات اور الیکٹرانکس میں مسلسل تیزی سے ترقی ہو رہی ہے اور اس ترقی اور ریسرچ سے ہماری زندگیوں میں کافی آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرکے آگے بڑھا ہے اور اپنی مہارت، پیداوار اور سہولیات میں اضافہ کیا ہے۔ تاہم یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ جہاں انسانیت تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے وہاں اس میں دُوریاں پڑ رہی ہیں اور مسلسل تفرقہ کا شکار ہورہی ہے۔عالمی امن اور استحکام دن بدن تباہ ہو رہاہے اور خطروں سے گھِر رہا ہے۔ بعض ممالک کے حکمران اور حکومتیں اپنی عوام کے حقوق مہیا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں اور ان پر شدید مظالم کر رہی ہیں اور ناانصافی برت رہی ہیں ، جس کے ردّعمل میں عوام بھی ان کی مخالفت میں اُٹھ رہی ہے اور باغی گروہ بن رہے ہیں اور اس قسم کے متنازعہ علاقے دہشتگردوں اور انتہاپسندوں کے لئے زرخیز میدان بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح ایسے گروہوں نے بہت سے ممالک میں اپنی جڑیں پکڑ لی ہیں۔ بعض ایسی مثالیں بھی ہیں کہ جن ملکوں میں خانہ جنگی ہو رہی ہے وہاں بعض بیرونی طاقتیں ان ملکوں کے حکمرانوں کی مدد کرر ہی ہیں جبکہ بعض باغی عناصر کی مدد کرر ہی ہیں۔ چنانچہ دونوں گروہوں کو ظاہری اور خفیہ طور پر بیرونی معاونت حاصل ہے۔ اور اس کے نتائج ہم سب خون خرابہ، فساد اور معصوم لوگوں کے بہیمانہ قتل و غارت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جہاں جدید ٹیکنالوجی اچھائی کی محرک بنی ہے، وہاں اسے برائی اور تباہی کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایسی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی گئی ہے کہ ایک بٹن کے دبانے سے قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔ مَیں وسیع تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی طرف اشارہ کررہا ہوں جوہماری سوچ سے بھی بڑھ کر دہشت، تباہی اور بربادی کرنے کے قابل ہیں۔ایسے ہتھیار تیار کئے جارہے ہیں جو کہ نہ صرف موجودہ تہذیب کو تباہ کرسکتے ہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی دُکھ اور تکلیف ہی چھوڑیں گے۔ موجودہ دور میں ہم معاشرے کی بہت سے طبقات میں دوہرے معیار اور منافقت دیکھ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بدامنی، ان لوگوں کے لئے جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں، سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

احمدیہ مسلم جماعت عالمگیر کے امام ہونے کی حیثیت سے یہ وہ مسئلہ ہے جو کہ مجھے ہر دوسرے مسئلہ سے زیادہ پریشان کئے ہوئے ہے۔ بطور ایک مسلمان رہنما، میرے لئے یہ ذاتی طور پر تکلیف کا باعث ہے کہ آج جو فساد برپا ہے اس کا مرکز نام نہاد مسلمان ہیں اور اس تمام فساد کو اسلام سے منسوب کیا جارہا ہے۔ ایک طرف توزیادہ تر جنگیں اور جانوں کا نقصان مسلمان دنیا میں ہو رہاہے جبکہ دوسری طرف نام نہاد مسلمانوں نے اپنی دہشت کا دائرہ مزید پھیلا دیا ہے اور یہاں مغرب میں بھی معصوم لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے نفرت انگیز اور بُرے اعمال کو اسلام کے نام پر جائز قرار دے رہے ہیں۔ اسلام کی خدمت کرنے کی بجائے، یہ تمام اسلام کے نام کو بدنام کرنے کے درپیَ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلام کے لفظ کا مطلب ہی امن ، تحفظ اور محبت ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس لحاظ سے ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ یا تو دہشتگردوں اور انتہاپسندوں کے مذموم اقدامات کلیۃً اسلام کی تعلیمات کے مخالف ہیں یا پھر یہ ماننا ہو گا کہ امن کی بجائے اسلام حقیقتاً ایسا مذہب ہے جو انتہاپسندی اور فساد کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ جاننے کے لئے کہ ان دونوں مخالف بیانات میں سے کون سا ٹھیک ہے، ہمیں بہرصورت اسلام کی حقیقی تعلیمات دیکھنا ہوں گی۔ ہمیں اسلام کے بنیادی مأخذ یعنی اس کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کو دیکھنا ہوگا اور مزیدیہ کہ اس کے بانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کو دیکھنا ہوگا۔ اس لئے جو وقت میسر ہے اس میں آپ کے سامنے مَیں اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کر تاہوں جس کے بعد آپ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے کہ دنیا میں موجود تفرقہ اور فساد اسلامی تعلیم کے باعث ہے یا پھر اس کی وجہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دُوری ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی چند لفظوں میں دنیا اور تمام قوموں کے درمیان امن قائم کرنے کی بنیاد بیان فرماد ی تھی۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوسرے کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ میرے خیال میں یہ ازلی ابدی اصول آج بھی وہی اہمیت رکھتا ہے جیسے کہ ماضی میں رکھتا تھا۔ یقیناً ہر انسان اپنے لئے امن اور تمام پریشانیوں اور دکھوں سے خلاصی پسند کرتا ہے۔ ہر انسان امید کرتا ہے کہ اس کے پاس پُرسکون زندگی کے ذرائع ہوں جس میں سختیاں نہ ہوں۔ ہر انسان اچھی صحت چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگیوں سے تلخی اور درد کو دُور کرسکے۔ ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاشرے میں اس کا ایک اچھا مقام ہو اور دوسروں سے عزت ملے۔ اسی طرح ہر حکومت اور ہر قوم بھی ایسی خوشحالی اور ترقی چاہتی ہے۔ تاہم کتنی قومیں اور کتنے ممالک ہیں جو درحقیقت دوسروں کے لئے بھی امن، ترقی اور کامیابی چاہتے ہیں؟زبانی دعووں کی حدتک تو یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہاں ہم دوسروں کے لئے بہتر چاہتے ہیں۔ تاہم عملاً یہ بہت زیادہ مشکل اور دشوار ہے۔ جہاں بھی فائدہ کی بات ہو، اکثر لوگ اپنے مفاد اور اپنی بھلائی کو دوسروں کے حقوق پر فوقیت دیتے ہیں ۔ یہ انفرادی سطح پر بھی سچ ہے اور اجتماعی طور پر قومی سطح پر بھی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

افسوس ہے کہ آج ہمیں بے غرضی کی بجائے خود غرضی ہی نظرا ٓتی ہے۔ اکثر لوگ اور قومیں اپنے حقوق کو فوقیت دیتے ہیںاوراپنے مقاصد اور خواہشات پوری کرنے کی خاطر دوسروں کے حقوق پامال اور غصب کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔مسلمان دنیا میں تواس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران اورعوام نے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات چھوڑدی ہیں اور فتنہ وفساد میں پڑے ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ حکمران اپنی عوام کو تحفظ دینے اور ان کے حقوق قائم کرنے کے فریضہ میں ناکام ہو چکے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے باغی گروہ بھی درست اورانصاف کے طریق سے بھٹک گئے ہیں۔ ہم بار بار مشاہدہ کرتے ہیں کہ دنیا کی اہم طاقتیں انصاف اور استحکام کے رستہ پر چلنے کی بجائے صرف اپنے مفادات حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔ وہ مسلمان حکومتوں کی مدد یا مخالف گروہوں کی مدد کا فیصلہ کریں، اس کی بنیاد اس پر نہیں ہوتی کہ کیا ٹھیک اور درست ہے، بلکہ اس پر ہوتی ہے کہ کون سا گروہ ان کے مفادات بہتر طور پر پورے کرسکتا ہے۔ جبکہ اسلام تو کہتا ہے کہ جیسے ہم اپنی بہتری کی خواہش رکھتے ہیں اوراس کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمیں دوسروں کی بہتری اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر اس سنہری اصول پر عمل کیا جائے تو اس سے دنیا میں حقیقی امن اور تحفظ کی راہ ہموار ہوگی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسلام امن قائم کرنے کے لئے امانتوں کے حق پورے کرنے پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم کی سورہ نساء آیت نمبر 59 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کرواور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو توانصاف کے ساتھ حکومت کرو۔یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت سننے والا (اور) گہری نظررکھنے والاہے۔

اس آیتِ کریمہ میں مسلمانوں کو واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ ان امانتوں کا حق ادا کریں جو ان کو دی گئی ہیں۔ ان میں وہ امانتیں اورعہد بھی شامل ہیں جو انفرادی سطح پر کئے جاتے ہیں اور وہ بھی جو اجتماعی سطح پر کئے جاتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جہاں تک ذاتی امانتوں کا تعلق ہے تو انسان کونہ دوسروں کی املاک اور حقوق غصب کرنے چاہئیں اور نہ ہی دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے رُوگردانی کرنی چاہئے۔ جہاں تک اجتماعی امانتوں کا تعلق ہے تو اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عوام،ریاست کے لئے ایسے نمائندے منتخب کرے جو ان کے خیال میں قوم کا حقیقی سرمایہ ہوں۔ جب انتخاب اور نامزدگی کا موقع آئے تو یہ نہ ہو کہ صرف اپنے اتحادی اور پارٹی ممبر کو ہی ووٹ دینا ہے ، بلکہ چاہئے کہ وہ یہ دیکھے کہ جس عہدہ کے لئے انتخاب کیا جارہا ہے اس کے لئے کون زیادہ موزوں اور قابل ہے۔ اس کے بعد جو منتخب ہوجائیں اور جنہیں حکومت کی کلید سپرد کردی جائے تو پھر انہیں اپنے فرائض مکمل دیانتداری اور انصاف سے ادا کرنے چاہئیں۔پس یہ تعلیم جمہوریت کا وہ معیار ہے جسے اسلام بڑے فخر سے پیش کرتا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ہر معاشرے میں ہر فرد کے ذمہ بعض امانتیں اور فرائض ہوتے ہیں اور معاشرے کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ عام شہری اور حکمران ایک دوسرے کے فرائض حقیقی انصاف سے ادا کریں ۔اگر مسلمان دنیا ان اصولوں پر عمل کرتی تو ہم وہ فتنہ و فساد نہ دیکھتے جس کی لپیٹ میں آج کئی ملک آچکے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں ذاتی طور پر یقین رکھتا ہوں کہ اس قرآنی اصول کی عالمگیر اہمیت ہے اورصرف مسلمان دنیا کے لئے نہیں بلکہ یہ تمام دنیا کے لئے مفید ہے۔ تمام ملکوں کے شہریوں کو اپنی پارلیمان اور اسمبلیوں کے لئے ایسے افراد کو منتخب کرنا چاہئے جن کو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قوم کی بہتری اور ترقی کے لئے کام کریں گے۔ جہاں افراد یا کسی مخصوص پالیسی کے لئے ووٹ دینے کا معاملہ ہو وہاں ذاتی تعلقات اور پارٹی کی پیروی کرنے کی بجائے یہی رہنمااصول اپنا نا چاہئے۔ اگر ملکی رہنماکرپٹ اور ذاتی مفادات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنے لوگوں کی ترقی کے لئے کوشش کرنے والے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اپنی حکومتوں کے خلاف کھڑے ہوں یا خانہ جنگی اور اختلافات بڑھیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس سے بڑھ کر پھر بڑی طاقتوں اوراقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کوبھی عہدوں اور امانتوں کے حق اداکرنے کا یہ اصول ہمیشہ مقدم رکھنا چاہئے۔ کمزور ملک ہمیشہ بڑی طاقتوں سے مدد لینے پر مجبور ہوتے ہیں اس لئے بڑی طاقتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اس امانت کا حق ادا کریں جو کمزور ممالک نے ان کے سپرد کی ہوئی ہے۔بڑی طاقتوں کوچاہئے کہ وہ پسماندہ ممالک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں اورانہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ کمزور ممالک کی ترقی اور خوشحالی میں ہی دنیا کا فائدہ ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسی طرح اقوامِ متحدہ میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بعض ممالک تو اپنی ناجائز طاقتوں کا اظہارکرتے پھریں یا سیکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران صرف ذاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے طریق پر ویٹو کا حق استعمال کریں جس سے اکثریت کا مفاد خطرہ میں پڑجائے ۔بلکہ اقوامِ متحدہ کے تمام ممبران کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کریں اور دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے عہد کو پوراکریں جس پر اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پس یہ قومیں نہ تو اپنے عہدوں کو پورا کررہی ہیں اور نہ ہی عدل وانصاف کے ساتھ کام کررہی ہیں۔حال ہی میں اقوام متحدہ کے سابق اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری Anthony Banbury نے ایک آرٹیکل شائع کیا جس میں انہوں نے اقوام متحدہ (جہاں وہ خود کام بھی کرچکے ہیں)کی اپنے مقاصد میں ناکامی کا ذکر کیا۔ وہ نیویارک ٹائمز میں لکھتے ہیں: مَیں اقوام متحدہ سے پیار کرتا ہوں مگر وہ ناکام ہو رہی ہے۔ بیوروکریسی بہت زیادہ ہے اور نتائج بہت کم ۔ اقوام متحدہ کے اصولوں اور مقاصد پر عمل کرنے کی بجائے یا حقیقت کو بنیاد بنانے کی بجائے بہت سے فیصلے سیاسی وجوہات کی بناء پر کردیئے جاتے ہیں۔

پھر لکھتے ہیں: اگر اقوام متحدہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کی ازسرِ نو تجدید کی ضرورت ہے جہاں ایک بیرونی کمیٹی ہو جو سسٹم کی نگرانی کرے اور مناسب تبدیلیوں کی سفارش کرے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پس اقوام متحدہ کے قریبی بھی اب اعلانیہ اس کی کمیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ دنیا کا امن او رسلامتی برقراررکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ جہاں تک مغربی ممالک کی غلط خارجہ پالیسیوں کی بات ہے تواس کی گزشتہ سالوں میں تازہ مثال 2003ء میں ہونے والی عراق کی جنگ ہے۔ یوکے کے سابق وزیر خارجہ David Miliband جو اس وقت انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے صدر ہیں نے کچھ عرصہ پہلے عراق کی جنگ کے دیرینہ اثرات کے حوالہ سے بات کی۔ عراق میں دہشتگردی اور مستقل عدم استحکام کے حوالہ سے اخبار The Observer کو انٹرویو دیتے ہوئے David Miliband صاحب نے کہا: عراق کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ عراق پر ہونے والا حملہ یا اس کے بعد کے حالات کوخاص طور پردیکھاجائے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا صدام حسین عراق کو متحد رکھ سکتا تھا یا داعش جیسی تنظیموں سے عراق کو بچا سکتا تھا تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس کا معمولی امکان تھا۔یہ بیان سابق ممبربرٹش پارلیمنٹ کا ہے جنہوں نے عراق جنگ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

اسی طرح ایک مشہور کالم نگارPaul Krugman نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ کہ عراق کی جنگ کوئی معصومانہ غلطی نہ تھی۔ یہ ایک ایسا معرکہ تھا جس کی بنیاد انٹیلیجنس کی خبروں پر رکھی گئی تھی جو بعد میں غلط نکلیں۔ عوام کی تسلی کے لئے جو دلائل دئے گئے وہ صرف اور صرف بہانے اور جھوٹے بہانے تھے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:


چنانچہ جن لوگوں نے ابتدائی طور پر عراق کی جنگ کی حامی بھری یا وہ جو اقوامِ متحدہ کے حامی تھے وہ بھی اپنی غلطیوں اور ان کے بھیانک نتائج تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ ایسی ناانصافیوں نے دنیا کے امن کو تبا ہ و برباد کر ڈالا ہے اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو حکمران بننے اور آگے بڑھنے کے قابل بنادیا ہے۔ ایسے گروہ اب نہ صرف مسلم دنیا بلکہ ساری انسانیت کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

لیکن ابھی بھی نہیں لگتا کہ دنیا ماضی کے سبق سے کچھ سیکھ رہی ہے ۔ وزارت خارجہ کی غیر منصفانہ پالیسیاں ابھی بھی غالب ہیں اور مختلف ممالک میں جنگ بھڑکا رہی ہیں جس کے نتیجہ میں معصوم بچوں ، عورتوں اور مردوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ بعض بڑی طاقتیں اپنے کاروباری مفادات کو ہرچیز پر فوقیت دئے ہوئے ہیں اوردوسرے ملکوں کو جدیدترین اسلحہ بیچ رہی ہیں باوجوداس کے کہ صاف نظرآرہاہے کہ یہ اسلحہ معصوم لوگوں کو ناکارہ کرنے اور اَن گنت جانوں کے ضیاع کے لئے استعمال ہورہاہے۔ میں جو بھی کہہ رہا ہوں کوئی ڈھکی چھپی یا نئی بات نہیں بلکہ یہ باتیں ایک عرصہ سے عام ہیں۔ مثلاً بعض مغربی ممالک سعودی عرب کومسلسل اسلحہ بیچ رہے ہیں جو یمن کے لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ کسی مسلمان ملک کے پاس اتنے بڑے پیمانے پر اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں نہیں جو ایسے جان لیوا اور جدید ہتھیار بنا سکیں۔ پس مغربی ممالک ہی ان کا ذریعہ ہیں۔ بعض بڑی طاقتیں مسلمان حکومتوں کو اسلحہ بیچ رہی ہیں جبکہ دوسری حکومتیں انہی ملکوں میں باغی عناصر کو اسلحہ بیچ رہی ہیں ۔ پس ہردو فریق کو بیرونی طور پراسلحہ اور مدد فراہم کی جارہی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

عام فہم بات ہے کہ اگراسلحہ کی یہ تجارت روک دی جائے تو مسلمان ممالک کے پاس ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے کوئی اسلحہ نہ رہے گا۔یہاں تک کہ بعض مغربی ممالک کے تجزیہ نگاروں نے بھی اس قسم کی عالمی تجارت کرنے والوں کی منافقت اور اخلاقی گراوٹ پر آواز اٹھائی ہے۔ لیکن اس کے باجود اگر اس تجارت کے متعلق سوال کیا جائے تو حکومتیں یاتو ایسے سوالات کوبالکل ہی نظرانداز کر دیتی ہیں یا ایسے کاموں کو جائزقراردینے کی کوشش کرتی ہیں جو کہ صریحاً ناجائز ہیں۔ اگر انہیں کسی بات کی فکر ہے تو یہ کہ ان کے چیک کلیئر ہوں تا کروڑوں ڈالرز ان کے قومی بجٹ میں شامل ہو سکیں۔ مختصر یہ کہ پیسہ بولتا ہے اور اخلاقیات کا نام و نشان بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اب ایسے ماحول میں زمین پر امن کیسے قائم ہو سکتا ہے جہاں دہشتگرد تنظیمیں کثیر تعداد میں بھاری اسلحہ اور فنڈز حاصل کرنے میں مسلسل کامیاب ہو تی نظر آرہی ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں اکثر یہ سوال اٹھاتا ہوں کہ دہشتگرد تنظیم داعش کے لئے یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ اتنی امیر ہو گئی۔ وہ اپنے کروڑوں ڈالرز کہاں سے حاصل کرتی ہے؟ اس کی فنڈنگ ابھی تک کیوں نہیں روکی گئی؟ وہ کس طرح تیل کی تجارت اور اسلحہ خرید رہے ہیں؟ مغربی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے توطاقتور ملکوں پر بھی نہایت سخت پابندیاں لگائی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ داعش جیسی تنظیموں کی فنڈنگ کو نہیں روک سکے؟ اب اس قدر تاخیرکے بعد بھی جب داعش کی فنڈنگ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے تب بھی وہ کروڑوں ڈالرز کما رہے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حال ہی میں کینیڈا کے وزیر برائے امن عامہ (Public Safety) نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ داعش کو اسلامی مملکت کے نام سے کبھی نہیں پکاریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ داعش نہ تو اسلام ہے اور نہ ہی کوئی مملکت ہے۔ ان کا یہ بیان بہت عمدہ تھا اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغربی ممالک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے جنگ و جدل کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ تاہم ان گروپس کی فنڈنگ اور نشونما کو روکنے کے لئے مؤثر طریقے اختیار نہیں کئے گئے ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں نے دنیا میں جاری عدل وانصاف کی کمی کے متعلق تفصیلی بات کی ہے اس لئے اب میں بیان کروں گا کہ اسلام کے نزدیک عدل کے کیا معنی ہیں؟ جیسا کہ وقت محدود ہے میں قرآن کریم کی دو آیات بیان کروں گا جو کہ اسلام کی بے نظیر عدل اور انصاف کی تعلیم پر روشنی ڈالتی ہیں۔ سورۃ نساء کی آیت نمبر 136 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اے ایماندارو! تم پوری طرح انصاف پر قائم رہنے والے (اور)اللہ کے لئے گواہی دینے والے بن جاؤ۔ گو (تمہاری گواہی) تمہارے اپنے(خلاف) یا والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف (پڑتی )ہو۔اگر وہ (جس کے متعلق گواہی دی گئی ہے) غنی ہے یا محتاج ہے تو (دونوں صورتوں) میں اللہ ان دونوں کا (تم سے)زیادہ خیرخواہ ہے۔ اس لئے تم (کسی ذلیل) خواہش کی پیروی نہ کیاکرو۔تاعدل کرسکو اور اگر تم (کسی شہادت کو) چھپاؤ گے یا (اظہارحق سے) پہلو تہی کروگے تو (یادرکھوکہ) جو کچھ تم کرتے ہوئے اللہ اس سے یقیناً آگاہ ہے۔

اس سورۃ میں مسلمانوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے خلاف اور اپنے گھر والوں کے خلاف بھی گواہی دینے کے لئے تیار رہیں تاکہ سچ کا بول بالا ہو اور عدل قائم ہوسکے۔ ایک مسلمان کی سچائی کے ساتھ وابستگی ہر چیز سے بالا ہونی چاہئے۔ اسی طرح سورۃ المائدہ کی آیت 9 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اے ایماندارو! تم انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے لئے ایستادہ ہوجاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ تم انصاف کرو، وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اوراللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے یقیناً آگاہ ہے۔

مسلمانوں کو اپنے ہی نفسوں کے خلاف گواہی دینے کی نصیحت کرنے کے بعد اس آیت میں قرآن کریم نصیحت کرتا ہے کہ مسلمان تمام لوگوں سے عدل اور احسان کا سلوک کریں چاہے وہ ان کے مخالف اور دشمن ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ انصاف کا وہ اعلیٰ معیار ہے جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ لیکن اگر موجودہ اسلامی حکومتیں ان تعلیمات پر عمل پیرا نہیں تو یہ ان کا قصور ہے۔ لہٰذا ان حکومتوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اسلام کو مورد الزام ٹھہراناناانصافی اور غلط ہوگا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں پھر سے کہتا ہوں کہ مغربی دنیا بھی ذمہ داری سے بَری نہیں ہے اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ ذاتی مفادات پورے کریں یا غیر جانبدارانہ طور پر ہماری آئندہ نسلوں کے بہتر اور روشن مستقبل کے لئے کام کریں ۔ اگر ہر پالیسی کی بنیاد عدل اور انصاف پر ہوگی تو تمام اختلافات جنہوں نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے خود بخود بغیر کسی فساد، خون ریزی اور ظلم کا رستہ اپنائے حل ہوجائیں گے۔ اگر ہم حقیقت میں امن چاہتے ہیں تو ہمیں عدل سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں عدل و انصاف کو اہمیت دینا ہو گی۔ جیسا کہ اسلام کے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں دوسروں کے لئے وہی پسند کرنا چاہئے جو اپنے لئے پسند کریں ۔ ہمیں دوسروں کے حقوق کی پاسداری کے لئے بھی ویسا ہی عزم اور جوش دکھانا چاہئے جیسا کہ ہم اپنے لئے دکھاتے ہیں ۔ ہمیں اپنی سوچ کو بلند کرنا چاہئے اور اپنے فائدہ کی بجائے صرف وہی دیکھنا چاہئے جو دنیا کے لئے اچھاہے۔ اس دور میں امن قائم کرنے کے یہی ذرائع ہیں۔

خطاب کے آخر میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں دل کی گہرائیوں سے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام فریقوں اور تمام قوموں کو فہم وفراست عطاء کرے تا وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے بے غرض ہو کر مل جل کر کام کرنے والے ہوں۔ ان الفاظ کے ساتھ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

حضور انور کا یہ خطاب سات بج کر 35 منٹ پر ختم ہوا۔ تمام حاضرین نے کھڑے ہوکر کافی دیر تک تالیاں بجائیں۔

آخر پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یونیورسٹی کے چانسلر Greg Sorbara اور منسٹر رضامریدی صاحب کے ساتھ گیسٹ روم میں تشریف لے آئے۔ یہاں چائے اور ریفریشمنٹ کا پروگرام تھا۔ اس دوران حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یونیورسٹی کے چانسلر اور منسٹر رضامریدی صاحب سے مختلف امور پر گفتگو فرمائی۔

آٹھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی واپس پیس ویلیج کے لئے روانگی ہوئی۔ پولیس نے قافلہ کو Escort کیا۔ قریباً پچیس منٹ کے سفر کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پیس ویلیج تشریف آوری ہوئی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مکرم ڈاکٹر ابراہیم احمد منیب صاحب ابن مکرم سیّد میر محمود احمد ناصر صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔ ڈاکٹر ابراہیم صاحب کا گھر پِیس ویلج میں ناصر سٹریٹ پر واقع ہے۔ یہاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کچھ دیر قیام فرمایا۔ اس دوران ناصر سٹریٹ پر پیس ویلج کے مکینوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوچکا تھا اور مسلسل نعرے لگا رہا تھا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ناصر سٹریٹ اور احمدیہ ایونیو سے گزرتے ہوئے اپنی رہائشگاہ بشری سٹریٹ پر آنا تھا۔ یہ سارا راستہ ہی مردوخواتین اور بچوں، بچیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ لوگ جمع تھے کہ جب بھی ان کے پیارے آقا کا اس راستہ سے گزر ہوگا تو وہ جہاں اپنے آقا کا دیدار کریں گے وہاں السلام علیکم کہنے کی سعادت پائیں گے۔

رات ساڑھے دس بجے جب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر آنے کے لئے پیدل روانہ ہوئے تو ان عشّاق نے بڑے پُرجوش انداز میں نعرے بلند کئے۔ ہر طرف سے السلام علیکم حضور! کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ خواتین اور بچیاں اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔ اس راتہ پر دائیں بائیں ہر طرف سے سینکڑوں کیمرے مسلسل تصاویر بنا رہے تھے۔ حضور انور کے ایک ایک لمحے کی تصویر جہاں ان کے دلوں پر بن رہی تھی وہاں ان کے کیمروں میں بھی محفوظ ہو رہی تھی۔ اللہ یہ سعادتیںا س بستی کے مکینوں کے لئے مبارک کرے۔

بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

یارک یونیورسٹی (ٹورانٹو) میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کے بعد تقریب میں شامل مہمانوں کے تأثرات

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطاب نے سامعین کے دلوں پر گہرا اثر ڈالا اور بعض مہمانوں نے برملا اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔

٭ Cat Courier، Indigines Elder Member of University of Toronto نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: آج کا دن ایک تحفہ تھا۔ ایسی باتیں سن کر بہت لطف آتا ہے کہ ہم سب مل کر دنیا کے امن کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کی خدمت اور انسانوں کے برابر کے حقوق کے بارہ میں سن کر دل کو خوشی ہوتی ہے۔ جو بات مجھے خاص طور پر پسند آئی، وہ یہ تھی کہ خلیفۃالمسیح نے جو کچھ بھی کہا وہ دل کی گہرائی سے کہا۔ جب کوئی سچا ئی کی باتیں دل سے کرتا ہے تو وہ ہمیشہ یادگار رہتی ہیں۔ یہ بھی کہ وہ دنیا کی دوسری طرف سے آکر وہی پیش کررہے ہیں جسے ہم پسند کرتے ہیں۔ مَیں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کررہا ہوں کہ آج کی اس تقریب میں شامل ہوا۔

٭ John Muthangi، Kenyan Catholic Priest From North York نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: خلیفۃالمسیح کو دنیا کے مسائل اور مشکلات کا خوب علم ہے۔ یہ سن کر مَیں بہت حیران ہوا تھا کہ ان کو کتنا گہرا علم ہے۔ جو باتیں انہوں نے قرآن کریم سے پیش کیں وہ نہایت آسان زبان میں سمجھ آگئیں۔ یہ بات خاص طور پر مجھے پسند آئی کہ خلیفہ صاحب نے بیان کیا کہ دنیا میں جو مختلف جنگیں ہورہی ہیں وہ کسی خاص طاقت کی مدد یا اس کی سرپرستی میں ہورہی ہیں اور اگر بڑی حکومتیں امداد کرنا چھوڑ دیں یہ سب کچھ ختم ہوسکتاہے۔

٭ ایک طالبہ علم Sheryl Cress نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ بہت اچھا موقع تھا جس میں ہم سب کو اسلام کی بعض حقیقی تعلیمات کا پتہ لگا۔ اب مجھے اسلام کا کچھ علم حاصل ہوگیا ہے۔ اب مَیں صرف گمان پر نہیں چل رہی۔ خلیفہ صاحب نے امن کے حوالے سے خوب اچھی باتیں کیں۔ یہ بات خاص طورتعریف کے لائق ہے کہ خلیفہ صاحب نے سمجھایا کہ ہم میں بہت ساری تعلیمات کے حوالہ سے ملتی جلتی ہیں لیکن ہماری ایک دوسرے سے ناآشنائی کی وجہ سے سمجھی نہیں جاتیں۔ یہ بات سمجھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے کہ ہماری اور آپ لوگوں کی بنیادی اقدار ایک ہی ہیں۔ آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے اس پروگرام کا انعقاد کیا۔

٭ Candidate of Record Constentine Tubus، Conservative Party Vaughn نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میرے علاقہ میں بہت احمدی رہتے ہیں۔ پہلی دفعہ خلیفۃالمسیح کی باتیں سن کر بہت اچھا لگا۔ مجھے پتہ لگا ہے کہ خلیفۃالمسیح نے یورپین پارلیمنٹ اور دنیا کے دوسرے حکومتیں اداروں میں خطاب کیا ہے۔ اس لحاظ سے آج مجھے خوشی ہے کہ مجھے خلیفۃالمسیح کی باتیں سننے کا موقع ملا۔ یہ بات خلیفۃالمسیح نے خوب واضح کی کہ آج انسانیت کے لئے امن کتنا ضروری ہے۔ اگر امن نہیں ہے تو باقی سب ہیچ ہے۔ ان کی باتیں نہایت آسان لیکن خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ بات تعریف کے لائق ہے کہ آج کی دنیا میں جبکہ مسلمانوں میں بہت انتہا پسند تنظیمیں فساد برپا کر رہی ہیں ایک ایسی اسلامی جماعت ہے جو کھلے طور پر اس فساد کو بُرا کہتی ہے اور اسلام کے بارہ میں صحیح پیغام پہنچاتی ہے۔

٭ Yousar Albrani جرنلسٹ نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ خلیفۃالمسیح نے آپس میں صلح کے ساتھ رہنے کے بارہ میں بتایا۔ ایک جرنلسٹ ہونے کے لحاظ سے مَیں اکثر امن اور عورتوں کے حقوق کے بارہ میں لکھتی ہوں۔ لیکن جب ایک اتنا بڑا لیڈر اس بارہ میں بات کرتا ہے تو وہ ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ وہ دنیا کے تمام لوگوں کو ایک اچھا پیغام دے رہے ہیں۔ یہ بات خلیفۃالمسیح نے وضاحت سے بیان کی کہ اسلامی دنیا میں جو مسائل چل رہے ہیں۔ ان کے پیچھے دوسری حکومتوں کا ہاتھ ہے۔ یہ بات میرے دل کو بہت اچھی لگی کہ خلیفۃالمسیح نے فرمایا کہ ان کو ذاتی طور پر دکھ ہوتا ہے جب وہ دنیا کے حالات کے بارہ میں پڑھتے ہیں۔ مَیں آپ کو اور خلیفۃالمسیح کو کہوں گی کہ یہ اچھا کام جاری رکھیں کیونکہ اس وقت دنیا کو اس کی اشد ضرورت ہے۔

٭ Swami Bhagwan Shankar، Divine Light Awakening Society Canada نے کہا کہ مَیں عظیم خلیفۃالمسیح کے بارہ میں سب سے پہلے یہ کہنا چاہوں گا کہ جو روحانیت ان کو حاصل ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ جب سے مَیں نے ان کو دیکھا ہے میرے دل کو ایک خاص لذّت حاصل تھی۔ ان کو دیکھ کر ہی ایک روحانیت قائم رہی۔ مَیں ان کے لئے بہت خوش ہوں کہ وہ یہاں آئے۔ ان کے پاس ایک خاص خداداد طاقت ہے۔ وہ دل کی گہرائی سے تمام دنیا کے امن کی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں انہوں نے یہ بات نہایت واضح کردی کہ اسلام کا دہشتگردی اور انتہاپسندی سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے۔ یہ قرآن کریم کی بات مجھے بہت پسند آئی کہ انسان کو سب سے پہلے خودغرضی کو چھوڑ کر دوسروں کے بارہ میں سوچنا چاہئے۔ بے شک اگر اپنی کوئی برائی یا اپنے کسی قریبی کی برائی کو تسلیم کرنا پڑے۔ کیونکہ سچائی سچائی ہی ہے۔ یہ بات بھی انہوںنے بتائی کہ بڑی حکومتیں چھوٹی حکومتوں پر پابندیاں تو لگا دیتی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ایسے کام کرتی ہیں جن سے دنیا کا امن خراب ہوتا ہے اور ان تنظیموں کو بڑھاوا ملتا ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں ہم امن قائم نہیں کرسکتے اگرچہ تمام روحانی کتب میں امن کے بارہ میں لکھا ہے اور ہمارے پاس پیسہ بھی خوب ہے۔ یہ بات بھی خلیفہ صاحب نے سمجھائی کہ اگر ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں تو ہم اس کی تمام مخلوق سے کیوں نہیں کرتے۔ مَیں یہ نہیں کہوں گا کہ میرے خیال میں بلکہ مجھے کامل یقین ہے کہ خلیفۃالمسیح نے جو بھی باتیں کہیں وہ خلوص نیت سے کہیں کیونکہ میرا دل ان کی باتوں سے لرزتا تھا۔ ان کو دیکھ کر ہی ایک خاص لذّت حاصل ہوتی تھی۔ وہ کسی کو خوش کرنے نہیں آئے تھے نہ ہی کوئی بات منوانے بلکہ ان کی باتیں صرف سچائی کی باتیں تھیں جو خود ہی سمجھ آ رہی تھیں۔ مَیں بھی انہیں کی طرح دعا کرتا ہوں کہ انسانیت کو ان تمام اقدار کا علم ہوجائے اور وہ ان کی قدر کریں۔

٭ ٹورانٹو سے آنے والی ایک مہمان Hillary Puncarad نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفۃالمسیح نے آج اسلام کی بہت سی باتیں پس منظر کے ساتھ ہمیں سمجھائیں جبکہ میڈیا ایسا نہیں کرتا۔ اسلام کے بارہ میں انہوں نے جو باتیں بیان کیں وہ سن کر بہت اچھا لگا۔ مَیں ایک بدھسٹ ہوں اور مجھے بتایا گیا کہ خلیفۃالمسیح کی حیثیت دلائی لاما یا پوپ کی مانند ہے۔ اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے کہ مَیں اُن کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں بیٹھ سکی۔ میرے خیال میں بہت لوگوں کو ان کا پیغام دیکھنا اور سننا چاہئے اس سے بہت فائدہ ہوگا۔

٭ Mississauga سے آنے والی ایک مہمان خاتون Sharmain صاحبہ نے کہا کہ آج جو باتیں خلیفۃالمسیح نے کیں وہ بہت حکیمانہ تھیں۔ یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ خلیفۃالمسیح سیدھی بات کرتے ہیں اور ایسی بات کرنے سے بالکل نہیں ڈرتے۔ احمدیہ جماعت حقیقی اسلام کا نمونہ ہے لیکن افسوس ہے کہ میڈیا اسلام کی یہ تصویر نہیں پیش کرتا۔ جو بھی باتیں خلیفۃالمسیح نے کہیں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ سب سچ ہیں۔ مَیں ہمیشہ اسلام کے بارہ میں یہ گمان رکھتی تھی لیکن آج خلیفۃالمسیح نے وہ سب کچھ آسان زبان میں سمجھا دیا۔ جتنا بھی مجھے علم ہے کہ جماعت احمدیہ مختلف خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے اور مَیں کہوں گی کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ خلیفۃالمسیح کی باتوں سے مجھے سوچنا پڑتا ہے کہ مَیں کیا خدمت کر رہی ہوں اور مَیں خود کتنی نیک ہوں۔ مَیں اپنی زندگی میں کیا کر رہی ہوں۔ خلیفۃالمسیح نے بالکل ٹھیک کہا کہ دنیا کو صرف پیسے کی فکر ہے لیکن اصل فکر دوسروں کے امن اور ہمدردی کی ہونی چاہئے۔ خلیفۃالمسیح کو بات کرنے کا بہت اچھا انداز حاصل ہے۔ وہ نہایت حکیمانہ طور پر باتیں سمجھاتے ہیں۔ وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن کو سن کر انسان سوچ میں پڑجاتا ہے اور جس سے علم کی مزید پیاس پیدا ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوا ہے کہ تمام سامعین کو یہی محسوس ہوا ہوگا۔

٭ Mario Romaldi مہمان از نارتھ یارک نے کہا کہ جو باتیں خلیفۃالمسیح نے کہیں وہ سب عام سچائیاں ہیں۔ کوئی بھی شخص جو سن رہا تھا نہیں کہہ سکتا کہ خلیفۃالمسیح کی بات کے ساتھ مَیں متفق نہیں ہوں خواہ وہ کیساہی عقیدہ رکھتا ہو ۔ دنیا کا امن صرف سب لوگوں کو مل کر ایک مقصد کے لئے کام کرنے پر حاصل ہوسکتا ہے۔ بہت سے لوگ ہال میں موجود تھے لیکن خلیفہ صاحب نے اس انداز میں باتیں فرمائیں کہ لگ رہا تھا جیسے اکیلا انسان ان سے گفتگو کر رہا ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button