{ 2015ء میں سامنے آنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب} قارئین الفضل کی خدمت میں 2015ء کے دوران پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے متعددواقعات میں سے بعض کا خلاصہ پیش ہے۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل سے اپنے حفظ وامان میں رکھے، اسیران کی جلد رہائی اورشریروں کی پکڑ کا سامان فرمائے۔ آمین ………………… احمدی کتاب فروش گرفتار 8 سال قیداور جرمانہ کی سزا سنا دی گئی ربوہ، 02؍ دسمبر2015ء : پاکستان کے صوبہ پنجاب کے انسداد دہشت گردی کے ڈیپارٹمنٹ (CTD) کے افسران نے ایلیٹ فورس کے اہلکاروں اور پولیس کے ہمراہ ربوہ شہر کے گولبازار میں واقع ایک بک شاپ پر چھاپہ مار کر دکان کے مالک عبدالشکور المعروف شکور بھائی اور ان کے ملازم مظہر عباس کوجو شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ حکومتی اہلکاروں نے بعض کتابیں ، کچھ نقدی اور کچھ پرائز بانڈز بھی ضبط کر لیے۔ انہوں نے بک شاپ کے اندرون بیرون کی بہت سی تصاویر لیں۔ انہوں نے کچھ رسائل خریدکر ان کی رسید طلب کی، اس رسید پر دکان کی مہر لگوائی اور وہ مہر بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ غالبًا اس سے قبل وہ اتنے بے ضرر اور پُر امن ’دہشت گردی‘ کے ملزم سے کبھی نہیں ملے ہوں گے۔ ایک ماہ کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ایک جج راجہ پرویز اختر نے ایک مختصر ٹرائل کے بعد عبدالشکور کو انسداد دہشت گردی کی دفعہ 9/11-Wکے تحت پانچ سال قید اور تعزیراتِ پاکستان دفعہ 298-C کے تحت تین سال قید اور چھ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنادی۔ جن کتب کو ان لوگوں نے ضبط کیا ہے ان میں بعض ِ قرآن کریم کے تراجم، تفسیر صغیر مصنفہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ، تذکرۃ المہدی (سونح حیات حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام)، روزنامہ الفضل کا خصوصی نمبر، ماہنامہ مصباح (احمدی خواتین کا رسالہ) ودیگر شامل ہیں۔ مذکورہ بالا کتب میں سے اکثرکی ترویج و تقسیم پر اگست2015ء میں متحدہ علماء بورڈ کی سفارش پر حکومتِ پنجاب کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک حکمنامہ میں یکسر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اگر اس معاملہ پر درست طور پر تحقیق کروائی جائے تو یہ ثابت ہو گا کہ احمدیوں کی کوئی کتاب انسداد دہشتگردی کے لئے جاری کردہ شقوں کے تحت نہیں آتی بلکہ احمدیوں کی کتب پر پابندی لگایا جانا حکومتِ پاکستان کے اپنے قانون کی بعض شقوں کی خلاف ورزی میں احمدیوں کے بنیادی حقوق سے ان کو محروم کردینے کے مترادف ہے۔ عبدالشکور کی گرفتاری یقینی طور پر اس ڈیپارٹمنٹ (CTD)کے منشور اور نیشنل ایکشن پلان کی سفارشات کے سراسر خلاف ہے۔ احمدی تو یہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی اعلیٰ سطح کی کمیٹی میں الفضل اور مصباح میں سے ’قابل اعتراض‘ مواد کاانصاف کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بغور جائزہ لے کر انہیں بھی بتایاجائے کہ ان میں ایسا کیا لکھا ہے جس سے دہشتگردی کو کسی بھی طرح فروغ ملتا ہے۔مزید برآں اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا جائے کہ احمدیوں کی طرف سے شائع کیے جانے والے قرآنِ کریم کے تراجم کس طرح علماء بورڈ کی جانب سے پابندی کے تحت لائے جا سکتے ہیں۔ عبدالشکور ایک سینئر سیٹیزن ہیں۔ ان کی عمر ستّر سال سے زائد ہے۔ بک شاپ کے ساتھ ساتھ یہ آنکھوں کے چشموں کی فروخت کا کام بھی کرتے ہیں۔ یہ اپنی نفاست طبع اور نرم دلی کی وجہ سے بازار میں ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ غیر احمدی گاہکوں میں بھی بہت مشہور ہیں۔ ربوہ کے گرد و نواح میں موجود دیہی علاقوں سے لوگ خاص طور پر ان کے پاس عینک بنوانے آتے ہیں اور اگر کوئی غریب ہو تو اس کو خاص رعایت پر یا بعض اوقات بالکل مفت عینک مہیا کر دی جاتی ہے۔ جہاں تک اس مقدمہ کے تفتیشی آفیسر کا تعلق ہے تو اس نے اپنے تفتیشی دائرے کو پھیلانے کی بہت کوشش کی اور ان کتب کے مصنفین کو بھی زیرِ الزام لانے کی کوشش کی جن میں سے بعض عرصہ دراز سے وفات یافتہ ہیں۔ حکومتِ پاکستان اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ وہ ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ لڑ رہی ہے۔ شکور بھائی کی دکان پر مارے جانے والے اس چھاپہ میں انسداد دہشتگردی کے ادارہ کے کارندوں ، ایلیٹ فورس، پولیس اہلکاروں نے مل کر اپنا وقت اور حکومت کا پیسہ خرچ کرتے ہوئے ایک انتہائی سادہ، شریف النفس اور سادہ لوح شہری کو گرفتار کیا۔ اور پھر پراسیکیوٹرز، مجسٹریٹس اور ججوں نے کئی ہفتے لگا کر انہیں سزا کا مستحق قرار دے دیا۔ اگر صوبائی یا وفاقی انتظامیہ دہشتگردی کے خلاف اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروانا چاہتی ہے توانہیں شریف اور نافع الناس شہریوں کے بجائے حقیقی دہشتگردوں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا۔ متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ اچھی طرح تحقیق کریں اور ان کو تمام تر تحقیق کر لینے کے بعد اس بات کا یقین آ جائے گا کہ اگرچہ پاکستان کی حکومت اور شہریوں نے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو تکالیف پہنچانے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی لیکن پھر بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی بھی کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا گیا جسے دہشتگردی قرار دیا جا سکتا ہو۔ …………………………… مذہب کے نام پر ایک بے گناہ ’احمدی مسلمان‘ کے متعلق پاکستان کی اعلیٰ عدالت کی بے حسی! لاہور: طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ کو جو ماہنامہ انصار اللہ کے پرنٹر ہیں پولیس نے 30؍ مارچ2015ء کے روز لاہور میں عدالت کے احاطہ سے گرفتار کر لیا تھا۔ طاہر مہدی اپنے اوپر قائم کیے جانے والے ایک اور مقدمہ کے سلسلہ میں ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے کے لئے وہاں موجود تھے۔ طاہرمہدی انصار اللہ کے علاوہ دیگر کئی کتب و رسائل کے پرنٹر بھی ہیں۔ طاہر مہدی کو جس مقدمہ کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا وہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-Aاور امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کی دفعہ 298-Cکے تحت لگ بھگ ایک سال پہلے ان پر تھانہ ملّت ٹاؤن میں سراسر جھوٹے طور پر مُلّاں کے ایماء پر قائم کیا گیا تھا۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ ماہنامہ انصار اللہ کے جس شمارہ کو بنیاد بناتے ہوئے ایک مُلّاں نے ذاتی طور پر طاہر مہدی کے خلاف مقدمہ درج کروایا اس میں سے آ ج تک مدعیان، ججز اور وکلاء کوئی بھی ایسا قابلِ اعتراض مواد نہیں پیش کر سکے جس کو بنیاد بنا کر اتنا سخت مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہو، یا جس سے قانون کی مخالفت ہوتی ہو، لیکن پھر بھی سپریم کورٹ نے طاہر مہدی کی ضمانت لینے سے انکار کر دیا۔ وکیل استغاثہ نے اس مقدمہ میں طاہر مہدی کی ضمانت کے خلاف دلائل دیے جبکہ نوائے وقت لاہور کے 9؍ فروری 2013ء کے شمارہ میں شائع شدہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق حکومت کا کام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہے نہ کہ ان کی پامالی۔ ذیل میں ہم طاہر مہدی کی گرفتاری سے اب تک کے واقعات کو خلاصۃً درج کیے دیتے ہیں : 30؍ مارچ2015ء: طاہر مہدی کو پولیس نے گرفتار کر کے ان کا تین روز ہ ریمانڈ حاصل کیا۔ریمانڈ کے بعدانہیں جیل /جوڈیشل کسٹڈی میں بھیج دیا گیا۔ 8؍ اپریل2015ء: جج نے ان کی ضمانت کی درخواست کو پانچ روز تک سن کر اسے مسترد کر دیا۔ 22؍ اپریل2015ء: سیشن کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ 28؍ مئی2015ء: لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے اس کیس پر فیصلہ سنانے سے معذرت کرتے ہوئے اسے چیف جسٹس کی طرف بھجوا دیا۔ 16؍ جون2015ء: لاہور ہائی کورٹ نے 18؍ جون کی تاریخ ڈال دی۔ 22؍ جون 2015ء: اگلی تاریخ 6؍ جولائی کی دے دی گئی۔ 13؍ جولائی2015ء: لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے مقدمہ کی کارروائی سننے کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ وہ طاہر مہدی کی ضمانت لینا منظور کرتا ہے۔ لیکن جب تحریری فیصلہ پر دستخط کرنے کا موقع آیا تو اسی جج نے یہ کہتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ 15؍ جولائی کے روز اس مقدمہ پر مزیدسماعت کرنا چاہتا ہے۔ 15؍ جولائی2015ء: مذکورہ بالا جج نے اس مقدمہ کو چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے یہ تجاویز بھی دیں کہ ضمانت کی اس درخواست کو دو رکنی بنچ سنے۔ اس پر چیف جسٹس منظر احمد ملک نے جسٹس مظہر اقبال سندھو اور جسٹس شاھرام سرور چوہدری کو اس درخواست کی سماعت کرنے کے لئے احکامات جاری کیے۔ 6؍ اگست2015ء: ججز کے دو رکنی بنچ نے طاہر مہدی کی درخواست برائے ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے اس مقدمہ میں انسدادِ دہشتگردی کی دفعہ 8-Wکو بھی لگاتے ہوئے اس مقدمہ کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں بھجوا دیا۔ 8 ؍ دسمبر 2015ء: سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے طاہر مہدی کی درخواست برائے ضمانت مسترد کر دی۔ 30؍ دسمبر2015ء: طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ پرنٹر روزنامہ الفضل ، ماہنامہ انصار اللہ و دیگر رسائل محض احمدی ہونے کی وجہ سے اپنے اوپر قائم کیے جانے والے جھوٹے مقدمہ کی پاداش میں سزا بھگت رہے ہیں۔ احمدیوں کے ساتھ عام طور پر پاکستان کی عدالتوں میں ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اوّلًا انہیں مذہبی بنیادوں پر جھوٹے کیسوں میں پھنسایا جاتا ہے اور اس کے بعد مقدمات کا فیصلہ آنے تک ضمانت حاصل کرنا بھی از حد مشکل ہوتا ہے۔ ایک طرف حکومت ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کی علمبردار نظر آتی ہے تو دوسری جانب ایک احمدی پرنٹر کو انصاف کے تمام تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے قیدو بند کی صعوبتوں میں مبتلا رکھا جارہا ہے۔ ………………………… انتظامیہ کی دیہاتی احمدیوں سے زیادتی ذیل میں درج کیے جانے والے تین واقعات 2015ء کے دوران پیش آئے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر انہیں شامل نہیں کیا جا سکا۔ ریکارڈ کی غرض سے یہاں درج کیے جاتے ہیں۔ حکومتِ پنجاب نے 2015ء میں حساس جگہوں کی حفاظت کے ایک ایکٹ کا اجراء کیا جو کہ ایک خوش آئند بات تھی۔ مقامی پولیس نے احمدیوں کو اس ایکٹ کے تحت اپنی مساجد میں حفاظتی انتظامات مکمل کرلینے کی ہدایات جاری کیں۔ یہاں تک تو بالکل ٹھیک! لیکن پاکستان میں دیہاتی آبادیوں کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ سی سی ٹی وی کیمرا سسٹم نصب کروانے، چار دیواری تعمیر کرنے، روکیں قائم کرنے اور مورچے بنانے میں جو رقم اور دیگر امور درکار ہوتے ہیں انہیں مہیا کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لیکن ادھر پولیس نے احکامات جاری کیے اور ساتھ ہی احمدیہ مساجد کی انسپکشن کرکے متعلقہ آلات نصب نہ پاتے ہوئے ذمہ دار احمدیوں کے خلاف مقدمات درج کر دیے۔ ان احکامات کو ایک بٹن دبا کر تو پورا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چک نمبر 427-TDA، ضلع لیّہ: پولیس نے 26؍ اپریل کو احمدیوں کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ اپنی مسجد کے اردگرد چار دیواری تعمیر کریں۔ اگلے ہی روز 27؍ اپریل کو پولیس نے بشیر احمد کو بلوا کر مسجد کے گرد چار دیواری نہ قائم کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا۔ چک نمبر 170-TDA، ضلع لیّہ: مذکورہ بالا واقعہ سے ملتا جلتا واقعہ یہاں بھی ہوا۔ پولیس نے یہاں کے رہائشی احمدی طارق احمد کی ملکیتی ایک پراپرٹی پربغیر کسی اطلاع کے چھاپہ مارا۔طارق احمد اپنے خاندان کے ساتھ یہاں نماز ادا کیا کرتے تھے۔اگرچہ انہیں اس سے قبل اس جگہ کی حفاظت کے لئے کوئی بھی احکامات یا ہدایات موصول نہ ہوئی تھیں اور طارق اس وقت وہاں موجودبھی نہ تھے لیکن پھر بھی ان کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا۔ طارق نے انتہائی پریشانی کے عالم میں فوری طور پر عدالت میں حاضر ہو کر ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی۔ مذکورہ بالا دونوں واقعات حکومتی انتظامیہ کی جانب سے ’تشدّد‘ کے سوا اور کیا کہلا سکتے ہیں ! ایسی پولیس گردی کے واقعات کی بلا استثناء مذمّت کے ساتھ ساتھ ان کی روک تھام ہونی چاہیے۔ جوئیہ، گوٹھ احمدیہ ضلع خوشاب: 28؍ مارچ کے روز منور دین کو احمدیہ مسجد کی حفاظت کے لئے 9اقدامات کرنے کے لئے کہا گیا۔ اور چار روز بعد 2؍ اپریل کو ان کے خلاف عدمِ تعاون پر مقدمہ درج کر لیا گیا! …………… (باقی آئندہ)