{ 2015ء میں سامنے آنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب} قارئین الفضل کی خدمت میں ماہ نومبر، دسمبر 2015ء کے دوران پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے متعددواقعات میں سے بعض واقعات کا خلاصہ پیش ہے۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل سے اپنے حفظ وامان میں رکھے، اسیران کی رہائی اورشریروں کی پکڑ کا سامان فرمائے۔ آمین ………………… جہلم میں احمدیوں کی فیکٹری جلا دی گئی جہلم، 20؍ نومبر2015ء : ہماری گزشتہ رپورٹ میں جہلم میں ہونے والے افسوسناک واقعات کا ذکر چل رہا تھا۔ اس قسط میں اس واقعہ کی بابت مزید کچھ تفصیلات پیش ہیں ۔ جہلم میں ہونے والے واقعہ کے تعلق میں جماعتِ احمدیہ کے ممبران نے اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ فیکٹری پر ہونے والا حملہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کے پانچ روز بعد 25؍ نومبر کی اشاعت میں انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق جہلم میں ہونے والے ہنگاموں اور ان کے بعد فیکٹری کو آگ لگانے کا واقعہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اس واقعہ کی تفتیش کرنے والے افسران کے نزدیک اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس واقعہ کے پیچھے بعض شر پسند عناصر کی سوچی سمجھی سازش کا ہاتھ تھا۔ جو بھی مقامی لوگ فیکٹری کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے انہوں نے فیکٹری کے بعض ملازمین سے بھی ساز باز کر رکھی تھی۔‘ بعد ازاں ایک اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون نے اپنی 2؍ دسمبر کی اشاعت میں اس خبر کا انکشاف کیا کہ اس واقعہ کے پیچھے جن فیکٹری ملازمین کا ہاتھ تھا وہ دراصل اپنی تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد جہلم شہر اور اس کے گرد و نواح میں احمدیوں کے لئے حالات اس قدر ناسازگار ہو گئے کہ علاقہ کے قریبًا تمام ہی احمدیوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ حالات جب انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر نکلتے دکھائی دیے تو حکومتی انتظامیہ کی جانب سے اس فتنہ کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے انتظامات کیے گئے۔ لیکن پھر بھی اس واقعہ میں ملوث کسی ’بڑے ملّاں ‘ کو نہ تو گرفتارکیا گیا اور نہ ہی اس سے پوچھ گچھ کرنا مناسب سمجھا گیا۔ بعض رپورٹس کے مطابق کچھ مؤذنوں کو گرفتار کیا گیا لیکن ان حالات و واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی گرفتاری کسی بڑے ذمہ دار کی حرکات پر پردہ ڈالنے کے لئے ڈالی گئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد ایک مثبت تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ انگریزی اخبارات و رسائل میں سے اکثر نے کھل کر اس واقعہ کے خلاف آواز اٹھائی اور تصویر کا درست رخ پیش کرنے کے لئے پچیس سے زائد خبریں اور مختلف مفکرین کے کالم شائع کیے۔ جبکہ اردو پریس نے ہمیشہ کی طرح خبر کو درست طریق پر شائع کرنے کی بجائے اپنے مفاد اور مصلحتوں کے مطابق تصویر عوام کے سامنے رکھی۔ ٹی وی پر آنے والے پروگرامز میں بھی اس دفعہ اس بات کو کھل کر زیرِ گفتگو لایا گیا۔ اور اکثر لوگوں نے بشمول مذہبی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والوں کے اس نقطہ کو اٹھایا کہ سنی سنائی بات پر اعتماد کرنے کی بجائے بات کی مکمل تحقیق کیے بغیر کوئی قدم اٹھانا غیر مناسب اور غیر اسلامی ہے۔ ……………… ایک احمدی پر قاتلانہ حملہ گلشن اقبال، کراچی 18؍ نومبر2015ء: چوہدری منیر احمد رات کے گیارہ بجے اپنی گاڑی پر اپنے گھر واپس آ رہے تھے۔ جب وہ دروازے کے سامنے پہنچے تو دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ ایک گولی ان کے کندھے پر لگی جو کندھے کے اندر رہ گئی جبکہ تین گولیاں ان کی گاڑی پر لگیں ۔ منیر احمدہمت کر کے اپنی گاڑی گھر کے اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ انہیں فوری طور پر ان کے ایک ہمسائے نے لیاقت نیشنل ہسپتال پہنچایا جہاں فوری طبی امداد دینے سے ان کے بہتے ہوئے خون کو روکا گیا۔ چند گھنٹوں کے بعد انہیں ہسپتال سے گھر بھجوادیا گیا۔ 21؍ نومبر کے روز ڈاکٹرز نے ایک کامیاب آپریشن کے ذریعہ ان کے کندھے میں موجود گولی کو نکال لیا۔ ………………… دھمکی آمیز پمفلٹ مجلس تحفظ ختم نبوّت پشاور نے احمدیوں کے خلاف ایک پمفلٹ کو پرنٹ کروا کر تقسیم کروایا۔ نیز اس پمفلٹ کو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پھیلایا گیا۔ اس پمفلٹ میں پشاور سے تعلق رکھنے والے احمدی ڈاکٹرز کو قتل کرنا ’جہاد‘ قرار دیا گیا۔ اس پمفلٹ سے کچھ حصے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں : ’ایک عام مسلمان قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں پر کیسے خاموش سکتا ہے۔‘ ’کون ہے جو قادیانیوں کی بے لگام زبان پر لگام ڈالے؟‘ ’اے مسلمان بھائیو!ہماری صفوں میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جن کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ تمہیں گمراہ کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ تمہارا غلط علاج کر کے تمہارے ایمان کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ ان کی حقیقی سزا ’قتل‘ کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ایسے لوگوں کو کھلے عام قتل کرنا جہاد ہے۔ ‘ ’یہ لوگ (فہرست میں موجود ڈاکٹرز) اور ان کے قادیانی کافر ساتھی ڈاکٹری کے مقدّس پیشہ کی آڑ میں اپنے عقائد کا پرچار کر رہے ہیں ۔یہ لوگ دن رات ہماری نئی نسل کے ایمان کو تباہ کر رہے ہیں ۔ اے مسلمان بھائیو! جاگو اور اپنے فرض کو سمجھو۔‘ ’پوری کوشش کروکہ قادیانیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ۔‘ اس پمفلٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ’قادیانی شیزان اور بازید خیلی ڈاکٹر قادیانیوں کی سرگرمیوں کو مالی معاونت دینے میں سرِ فہرست ہیں ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلنا چاہیے؟تم کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کے طلبگار ہو گے؟‘ اس پمفلٹ میں پشاور میں رہنے والے احمدی کاروباری حضرات اور ڈاکٹرز کے نام اور ان کے مکمل ایڈریسز دیے گئے ہیں ۔اس پمفلٹ کے آخر میں پمفلٹ جاری کرنے والی تنظیم کامکمل نام، پتہ، فون نمبر اور ویب سائٹ کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ۔ کیا حکومتی انتظامیہ کے لئے شدّت پسندی، نفرت انگیزی اورہشت گردی کو فروغ دینے والے اس پمفلٹ کو شائع کرنے والے لوگوں تک پہنچنا کسی بھی طرح مشکل ہو سکتا ہے؟ جماعتِ احمدیہ کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پمفلٹ کے خلاف شکایت پہنچا دی گئی ہے۔ ………………… ’’نوٹ:قادیانی حضرات مجھے ووٹ ڈالنے کی زحمت نہ کریں ‘‘ اسلام آباد؛ 29؍ نومبر 2015ء: ظہیر الدین بابر نے بی بی سی کے لئے رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایاکہ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں ایک آزاد امیدوار شیراز فاروقی نے اپنے منشور پر مبنی پمفلٹ پر لکھا ’’قادیانی حضرات مجھے ووٹ ڈالنے کی زحمت نہ کریں ‘‘۔ جب اس سے اس بارہ میں سوال کیا گیا تو اس نے جوابًا کہا: ’میں نے جب ووٹروں کی فہرست دیکھی۔ میرا دماغ گھُوم گیا۔ میرا ضمیر گوارا نہیں کیا کہ اِن لوگوں سے ووٹ لے کر آگے آؤں ۔‘ اپنے حلقے کے احمدی ووٹروں کو اپنے لئے ووٹ ڈالنے سے منع کرنے کے متعلق ضابطۂ اخلاق کی تشریح کے لئے بی بی سی نے اِس کی تیاری اور نفاذ کے ذمہ دار متعدد افسران سے بات کی تو اُن میں بھی اختلافِ رائے تھا۔ کوئی بھی باضابطہ طور پر سرکاری موقف نہیں دینا چاہتا تھا۔ ایک تشریح یہ تھی کہ ’امیدوار نے کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ذاتی طور پر اُس سے مستفید ہونے سے کنارہ کشی کی۔ اس لئے ضابطے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ ‘ ایک افسر نے سوال اٹھایا کہ ’کل شیعہ سُنی پر ایسے جُملے لکھے جائیں تو کیا ہو گا؟ کسی بھی کمیونٹی کے ساتھ مذہب اور فرقے کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ ‘ جماعت احمدیہ کے ترجمان اس صورتحال کو انتخابی نظام کا ’امتیازی سلوک‘ قرار دیتے ہیں ۔ وہ دو ہزار دو کے جوائنٹ الیکٹوریٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’الیکشن کے رائج الوقت طریقے میں دو فہرستیں بنتی ہیں ۔ ایک میں مسلمان، عیسائی، ہندو، سکھ شامل ہیں ۔ جبکہ صرف ایک کمیونٹی کو الگ کر کے لکھا جاتا ہے کہ یہ قادیانی ہیں ۔ اس بنیاد پر جماعتِ احمدیہ انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنتی۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کے مرکز ربوہ میں 33 ہزار ووٹ ہیں اور بلدیاتی انخابات میں ایک ووٹ بھی کاسٹ نہیں کیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق یہ خدشات بھی رہتے ہیں کہ الگ انتخابی فہرست پُر تشدد عناصر کو مقامی احمدیوں کی نشاندہی کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ………………… احمدیوں کی تذلیل کرنے والا شخص فوری ضمانت پر رہا لاہور، 9تا14 دسمبر2016ء: 9؍ دسمبر کے روز حفیظ سنٹر کی ایک دکان پر ایک پوسٹر نوٹس میں آیا جس پر تحریر تھا ’یہاں پر قادیانی(۔) کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔ ایک مشہور صحافی رضا رومی نے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا کے ذریعہ اس کی رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اس پراحتجاج بھی کیااور ایک بہت بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر ان کا ساتھ دیا۔ اس پر انتظامیہ نے اس حرکت کو نیشنل ایکشن پلان کے خلاف پاتے ہوئے کارروائی کی اورنفرت انگیزی کی اس شرمناک حرکت کرنے والے دکاندار عابد ہاشمی اور اس کے ایک ساتھی نعمان کو گرفتار کرلیا۔ نیز انہوں نے اس دکان سے وہ پوسٹر بھی اتار لیا۔ملزمان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان دفعہ 295-A اور MPO-16 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی اور ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کو دو ہفتے کے ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔ اگلے ہی روز پلازہ کے دکانداروں نے اس شرّ پسند کے حق میں اکٹھے ہو کر احتجاج کرنا شروع کر دیا اور گلبرگ کی مین بلیوارڈ کو ایک گھنٹے تک بلاک کیے رکھا۔ اس پرانتظامیہ نے فوری طور پراپنا فیصلہ واپس لینے کا ارادہ کر لیا۔ نعمان کو تو گرفتاری ڈالے بغیر رہا کر دیا گیا۔ جبکہ عابد ہاشمی کو ماڈل ٹاؤن کی عدالتوں میں لے جایا گیا جہاں پر حفیظ سنٹر کے کچھ دکاندار اور ختمِ نبوّت کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے کچھ شرّ پسند نعرہ بازی کرتے ہوئے پہلے ہی اکٹھے ہو چکے تھے۔ چنانچہ وہاں پر ایک جج نے عابد ہاشمی کو بھی ضمانت پر رہا کر دیا۔ یہ شخص شاید چوبیس گھنٹے سے کچھ کم ہی حوالات میں قید رہا ہو گا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتِ پنجاب کی رِٹ کس حد تک قائم ہے کہ قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے کو انہیں کس قدر جلد رہا کرنا پڑا! (باقی آئندہ) …………………