ماخوذاز کتاب’ فقہ المسیح‘ مرتبہ: انتصار احمد نذر۔(صدر شعبہ فقہ جامعہ احمدیہ ربوہ) نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنامناسب نہیں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن شریف کی لمبی سُورتیں یاد نہیں ہوتیں اور نماز میں پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کیا ایسا کرسکتے ہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر سامنے کسی رحل یا میز پر رکھ لیں یا ہاتھ میں لے لیں اور پڑھنے کے بعد الگ رکھ کر رکوع سجود کرلیں اور دوسری رکعت میں پھر ہاتھ میں اُٹھالیں۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا: ’’اِس کی کیا ضرورت ہے ۔ آپ چند سورتیں یاد کرلیں اور وہی پڑھ لیا کریں۔ ‘‘ ( ذِکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 174 ) امام وقت کے بلانے پر نماز توڑنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں مسجد مبارک میں ظہر کی نماز سے پہلی سنتیں پڑھ رہا تھاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الفکر کے اندر سے مجھے آواز دی ۔ میں نماز توڑ کرحضرت کے پاس چلا گیا اور حضرت سے عرض کیا کہ حضور میں نماز توڑ کر حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا کیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر اس حجرہ کا نام ہے جو حضرت کے مکان کا حصہ ہے اور مسجد مبارک کے ساتھ شمالی جانب متصل ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت عمومًا اس کمرہ میں نشست رکھتے تھے اور اسی کی کھڑکی میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ رسول کی آواز پر نماز توڑ کر حاضر ہونا شرعی مسئلہ ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ عمل صالح کسی خاص عمل کا نام نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ163) ضرورتًا نماز توڑنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز ظہر یا عصر شروع ہوچکی تھی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام درمیان میں سے نماز توڑکرکھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کرکے نماز میں آملے اور جو حصہ نماز کا رہ گیا تھا وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا۔ یہ معلوم نہیں کہ حضوربھول کر بے وضو آگئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ783) سخت مجبوری میں نماز توڑناجائز ہے افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آجاوے اور دروازہ کو ہلا ہلاکر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس کیا گیا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا:ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا (یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لئے فرمایا)کیونکہ اگر اس کے التواسے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔ احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضررپہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اورجانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اورنماز فاسد نہیں ہوتی ، بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے کیونکہ وقت کے اندر نما ز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اشد ضرورتوں کے لئے نازک موقع پر یہ حُکم ہے۔ یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجت کو مقدم رکھ کر نماز کی پرواہ نہ کی جاوے اور اسے بازیچۂ طفلاں بنادیا جاوے ورنہ نماز میں اشغال کی سخت ممانعت ہے اوراللہ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے۔ (البدر 24نومبر1904ء صفحہ4) عورت مرد کے پیچھے الگ صف میں نماز پڑھے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے۔ تو میں اوپر کوٹھے پرگیا۔ حضور تنہائی میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے اوررکوع و سجود لمبے کرتے تھے۔ ایک خادمہ غالبًا مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی۔ حضور کے برابر مصلیٰ پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ کر چلی گئی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے۔ حضورؑنے فرمایا اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے ۔ میں نے کہا حضور تابی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں ۔ وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ122) نماز میں عورتوں کی الگ صف حضرت میر محمداسحاق صاحب ؓ فرماتے ہیں :۔ بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب و عشا ء اندر عورتوں کو جماعت سے پڑھائیں۔میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا۔ عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں۔ (ماہانہ الفرقان ستمبر، اکتوبر1961ء صفحہ49) نماز میں مجبورًاعورت کو ساتھ کھڑا کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھاکہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُمّ المومنین کواپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کرلیتے حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے ۔ مَیں نے حضرت اُمّ المومنین ؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہوکر چکر آجایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہوکر نماز پڑھ لیا کرو۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ636،637) امام کاجھرًا بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اکثر طورپرامام صلوٰۃ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہوتے تھے اور وہ بالجہر نمازوں میں بسم اللہ بالجہر پڑھتے اور قنوت بھی کرتے تھے اور حضرت احمد علیہ السلام ان کی اقتداء میں ہوتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مسائل میں حضرت صاحب کسی سے تعرض نہیں فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ سب طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر خود آپ کااپنا طریق وہ تھا جس کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکثر اختیار کیا ہے۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ735) نمازوں میں قنوت کی دعائیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے اور صبح او رمغرب اورعشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا۔ قنوت میں پہلے قرآنی دعائیں پھر بعض حدیث کی دعائیں معمول ہوا کرتی تھیں۔ آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے۔ جو دُعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیں ان کو بیان کردیتا ہوں۔ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار (البقرہ :202) رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ ۔۔۔۔۔۔ (اٰل عمران:195) رَبَّنَا ظَلَمۡنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الۡخَاسِرِیۡنَ (الاعراف :24) رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ أَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعۡیُنٍ وَاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ إِمَامًا ( الفرقان :75) رَبَّنَا لَاتُؤَاخِذۡنَا إِن نَّسِیۡنَا أَوۡ أَخۡطَأۡنَا۔۔۔۔۔۔۔۔ (البقرۃ:287) رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَاماً۔۔۔ (الفرقان:66) رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡۡنَنَا وَبَیۡۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَأَنتَ خَیۡۡرُ الۡفَاتِحِیۡنَ (الاعراف:90) رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلۡقَوۡمِ الظَّالِمِیۡنَ (یونس :86) رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ إِذۡ ہَدَیۡۡتَنَا (اٰل عمران:9) رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیۡاً یُّنَادِیۡ لِلإِیۡمَانِ أَنۡ آمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَآمَنَّا ( اٰل عمران:194) اَللّٰہُمَّ اَیِّدِالۡاِسۡلَامَ وَالۡمُسۡلِمِیۡنَ بِالۡاِمَامِ الۡحَکَمِ الۡعَادِلِ اَللّٰہُمَّ انۡصُرۡ مَنۡ نَصَرَ دِیۡنَ مُحَمَّدٍؐ وَاجۡعَلۡنَا مِنۡھُمۡ وَاخۡذُلۡ مَنۡ خَذَلَ دِیۡنَ مُحَمَّدٍؐ وَّلَا تَجۡعَلۡنَا مِنۡھُمۡ خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائیں گے کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ804،805) مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا فرمایا:’’آج کل چونکہ وباکا زور ہے اس لئے نمازوں میں قنوت پڑھنا چاہئے۔ ‘‘ (البدر یکم مئی 1903ء صفحہ115کالم 2) فرمایا: قرآن شریف کا منشاء یہ ہے کہ جب عذاب سر پر آپڑے پھر توبہ عذاب سے نہیں چھڑا سکتی۔اس سے بیشتر کہ عذابِ الٰہی آکر توبہ کا دروازہ بند کردے توبہ کرو۔ جبکہ دنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں۔ جب بلا سرپر آپڑے تو پھر اس کا مزہ چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہیے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اُٹھنے کی کوشش کرے اورپانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملادیں۔ ہرایک قسم کی خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کریں۔ (الحکم 24جولائی 1901ء صفحہ1،2)