٭…مسجد کی تعمیر کا اصل اور بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہو جہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے اور پیار پھیلانے کے لئے جمع ہوں ۔٭…وہ تمام لوگ جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق عبادات بجالاتے ہیں وہ ہرگز رحم سے عاری اور ظالم نہیں ہوسکتے بلکہ وہ پیار، محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور جوبنی نوع انسان کے لئے ایک لامتناہی رحمت کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔٭… جہا ں اسلام نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ مساجد تعمیر کریں اور ان کی حفاظت کریں وہاں اسلام دیگر تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کی حفاظت کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مذاہب اور ان کی عبادتگاہوں کا احترام کریں اور انہیں تحفظ فراہم کریں۔٭…ہم طاقت یا جبر کے ذریعہ نہیں بلکہ پیار اور محبت سے اسلامی تعلیمات پھیلا رہے ہیں۔ ہماری جماعت اور ہماری مساجدان مقاصد کو پورا کرتی ہیں جن مقاصد کو لے کر خانہ کعبہ تعمیر کیا گیا تھا کہ دنیا میں امن قائم کیا جائے۔ ہماری مساجد امن کی مشعلیں ہیں جو اپنے ماحول کو منور کرتی ہیں۔ ٭…دنیا میں جہاں بھی ہماری مسجدیں بنتی ہیں یا ہماری جماعتیں قائم ہوتی ہیں وہاں کے مقامی افراد اس بات کو جلد ہی سمجھ جاتے ہیں کہ ہم امن، ہم آہنگی اوربرداشت کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ ٭… ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس دَور میں حقیقی جہاد ، تلوار یا اسلحہ کا جہاد نہیں بلکہ اصلاحِ نفس کا جہاد ہے۔ یہ جہاد اپنے نفسوں میں نیک تبدیلیاں لانے کا ہے اور یہ اسلام کی سچی اور امن پسند تعلیمات دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا جہاد ہے۔ ہم یہ افریقہ میں کررہے ہیں، یورپ میں، ایشیا میں، امریکہ میں، آسٹریلیا میں اور یقینا دنیا کے ہر علاقہ میں کر رہے ہیں۔ اور یہاں جاپان میں بھی ہمارا یہی مقصد ہے کہ اس معزز قوم کے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کریں۔٭… ہم جاپانی افراد کو بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام وہ مذہب ہے جو ہمیں اپنے خالق کی پہچان کرنے اور اس سے تعلق قائم کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ آج سے انشاء اللہ یہ مسجد جو جاپان میں ہماری سب سے پہلی مسجد ہے، اس شہر میں اور تمام جاپان میں ہمیشہ یہی پیغام پہنچائے گی۔ اس کے مینار یہ اعلان کریں گے کہ اسلام امن، تحفظ اور ہم آہنگی کا مذہب ہے۔ اسلام خداتعالیٰ اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا مذہب ہے۔٭… آخر پر مَیں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تمام لوگوں کے لئے ہماری مساجد کے دروازے کھلے ہیں اور یہ دروازے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ہمیشہ کھلے رہیں گے جوایک خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ (مسجد بیت الاحد کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دلنشیں بصیرت افروز خطاب) ٭…ہم پیرس میں دہشتگردی کے بعد ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ امام جماعت احمدیہ کی آمد اور اس مسجد کی تعمیر نے ہماری گھبراہٹ اور پریشانی کو یکسر ختم کر دیا ہے۔٭…ہمیں خلیفۃ المسیح کے ساتھ مل کر امن کے لئے کام کرنا چاہئے۔ ٭…خلیفۃ المسیح نے بہت آسان طریق سے اسلام کے بارہ میں بیان کیا۔ ان کی باتیں بہت جلد سمجھ آنے والی تھیں۔ ٭…جو اسلام امام جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے اس کے ماننے میں کسی شنٹو کے پیروکار، عیسائی ، بدھسٹ یا کسی اور مذہب کے پیروکار کو کوئی عار نہیں ہے۔ ٭…آج کا یہ دن میری زندگی کی کایاپلٹ دینے والا دن تھا۔ خلیفۃ المسیح نے میرااسلام اور مسلمانوں کے بارہ میں نظریہ کلیتہً تبدیل کردیاہے۔ خلیفۃالمسیح نے فرمایاہے کہ یہ تلوارسے جہادکرنے کا زمانہ نہیں بلکہ پیارسے جہاد کرنے کا زمانہ ہے۔ ٭…جب آپ خلیفہ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کو اپنے اندر ایک سکون محسوس ہوتاہے۔ خلیفہ کی روح واقعی بہت پُرامن ہے۔٭…خلیفۃ المسیح کا خطاب ایک امن کا پیغام تھا۔ میراخیال ہے کہ اب اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر لوگوں کے بیچ جو خلیج ہے وہ دُور ہوجائے گی اورجاپان میں اسلام پھیلنے لگ جائے گا۔ (بیت الاحد کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کے تأثرات) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسجد بیت الاحد کا وسیع پیمانے پر تعارف… اسلام احمدیت کے حقیقی پیغام کی تشہیر۔ ٭…لوگوں کو احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ چندہ ایک ایسی چیز ہے جس کا حکم ہے۔ یہ تزکیۂ نفس کے لئے ضروری ہے۔ ٭…عبادتوں، نمازوں کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ ہونی چاہئے۔ عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی تو اس کے نتیجہ میں مالی قربانیوں کی طرف خودبخود توجّہ پیدا ہوگی۔ ٭…وصیّت کرنے والوں کا معیار بہت زیادہ بلند ہونا چاہئے۔ یہ معیار بلند رہیں گے تو خلافت کا انعام عطا ہوتا رہے گا۔٭…موصیوں کے روحانی معیار بلند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے ارشادات بتائے جائیں۔ یہ سلسلہ باقاعدہ ایک انتظام کے تحت مسلسل جاری رہنا چاہئے۔ ٭…ہر خطبہ کے بعد ایک سوالنامہ نکال کر اس کے Points بنائیں کہ اس خطبہ میں یہ یہ مضامین اور امور بیان ہوئے ہیں۔ اس کو نکال لیں اور جماعتوں کو بھجوائیں۔ یہ صدر/مبلغ انچارج کا بھی کام ہے۔ ٭…تبلیغ کے میدان تب کھلتے ہیں جب آپ کے اپنے نمونے ٹھیک ہوں گے۔٭… گھروں میں نظام جماعت پر تنقید نہیں ہونی چاہئے۔ ٭…نوجوانوں کو اپنے ساتھ کام میں شامل کریں۔ جو خدّام پیچھے ہٹے ہوئے ہیں ان کو اپنے ساتھ کام میں لگائیں۔ ٭…آپ میں سے ہر ایک اپنا حق چھوڑے اور دوسرے کا حق دے تو اسی سے آپ کے آپس کے جھگڑے اور ناراضگیاں ختم ہوں گی۔ ٭… خدام میں یہ روح پیدا کریں کہ وہ یہ نہ دیکھیں کہ بڑے کیا کررہے ہیں بلکہ وہ یہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے احمدیت کو سچّا سمجھ کر مانا ہے۔٭… مجلس عاملہ کے ممبران اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ وہ کہاں تک عاجز بنے ہیں اور ان میں کس حد تک برداشت کا مادہ پیدا ہوا ہے۔٭…آئندہ نسل کی تربیت بہت بڑی ذمّہ داری ہے۔ اس پر سوچیں اور غور کریں کہ نوجوان نسل کے لڑکوں اور لڑکیوں کو کس طرح سنبھالنا ہے۔ ٭…تربیت کا ایک بہت بڑا ذریعہ MTA بھی ہے۔ MTA سے مستقل تعلق جوڑنا چاہئے۔ ٭…عاملہ کے ممبران کو سب سے زیادہ استغفار کرتے رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ان کی صحیح رہنمائی فرمائے اور سابقہ غلطیوں سے معاف فرمائے اور آئندہ غلطیوں سے بچائے۔ (نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ جاپان کے ساتھ میٹنگ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نہایت اہم ہدایات) ناگویا سے ٹوکیو کے لئے روانگی ……………………… 21؍نومبر 2015ء بروز ہفتہ (دوسرا حصہ) ……………………… خطاب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع افتتاحی تقریب مسجد بیت الأحد تشہد، تعوذوتسمیہ کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تمام معزز مہمانان کرام! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ سب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی، رحمت اور برکتیں نازل ہوں۔ سب سے پہلے میں اس موقع پر اپنے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرنا چاہتاہوںجو آج اس تقریب میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں جہاں ہم مسجد بیت الاحد جس کا مطلب ’ایک واحد خدا کا گھر‘ ہے کے افتتاح کی خوشی منارہے ہیں۔ آپ کی تشریف آوری اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کھلے دل والے اور مہربان لوگ ہیں۔ میں یہ اس لئے کہہ رہاہوں کہ باوجود اس کے کہ آپ میں سے اکثر غیر مسلم ہیں آپ لوگوں نے خالصتاً ایک مذہبی تقریب کی دعوت قبول کی ہے جو کہ مسجدکے افتتاح کی تقریب ہے ۔ لیکن آپ کی تشریف آوری کے باجود بھی آپ میں سے شاید بعض ایسے ہوں جو اس مسجد کے افتتاح یا اسلام کے بارہ میں خدشات رکھتے ہوں ۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ شاید یہ بھی سوچتے ہوں کہ جن احمدی احباب کو آپ ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ تو ٹھیک ہیں اور امن پسند ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ اُن احمدی مسلمانوں کے متعلق شاید فکرمند بھی ہوں جنہیں آپ ذاتی طور پر نہیں جانتے۔ یا ممکن ہے کہ آپ کو خوف ہو کہ مسجد معاشرے کے اندر فساد یا تفرقہ اور پریشانی بڑھانے کا باعث بن جائے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس قسم کے خوف ایک حد تک جائز بھی ہیں۔ کیونکہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ بعض نام نہادمسلمان ایسے بھی ہیں جو دنیا کے لئے شدید تکلیف اور اذیّت کا باعث بن رہے ہیں اور اسلام کے نام پر نہایت نفرت انگیز کام کررہے ہیں۔ تاہم میں واضح کردوں کہ اسلامی تعلیمات اور حقیقی مسجد کا مقصدصرف اور صرف امن کا قیام اور معاشرہ کے اندر یکجہتی پیدا کرنا ہے۔ مسجد کی تعمیر کا اصل اور بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہو جہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے اور پیار پھیلانے کے لئے جمع ہوں ۔ قرآن کریم کی سورۃ الذٰریٰت کی آیت 57 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جنّ و انس یعنی تمام بنی نوع انسان خواہ وہ امیر ہیں یا غریب، طاقتور ہیں یا کمزور ان کی تخلیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنے خدا کی عبادت کریں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ دورِ حاضر میں انسان مذہب سے دور ہوگیاہے اور اکثر لوگ اپنے خالق کو بھلا بیٹھے ہیں اور ایسے لوگوں میں بھی اضافہ ہورہاہے جو خدا کی ہستی پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ بعض ایسے لوگ یا گروہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات کو اس حد تک بگاڑ دیاہے کہ وہ دنیا میں مذہب کی خوفناک اوربھیانک تصویر پیش کررہے ہیں۔ مَیں یہ تسلیم کرتاہوں کہ ایسے نام نہاد مسلمان موجود ہیں جو اسلام کو نہایت خطرناک اور وحشیانہ طریق پر پیش کررہے ہیں ۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دوسرے مذاہب سے موازنہ کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ آجکل مسلمان سب سے زیادہ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیراہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ اسلام کے اندر بعض دہشتگرد گروہ اور شدت پسند عناصربھی پیدا ہوچکے ہیں جو مذہب پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ گوکہ ایسے شدت پسند اپنے آپ کو مذہب کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ان کے نظریات اور ان کی حرکات کا اسلام کی اصل تعلیمات سے دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ سچائی تو یہ ہے اور ہمیشہ یہی رہے گی کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی پُرامن تعلیمات کا تاریخ عالم میں کوئی ثانی نہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس تمام مسلمانوں کا مرکز جس کی طرف وہ منہ کرکے جھکتے ہیں اورعبادت بجالاتے ہیں وہ بیت اللہ ہے۔ یعنی خانۂ کعبہ جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ یہ امن اور سلامتی کا مرکز ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ یونس کی آیت 26 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’وہ بنی نوع انسان کو امن و سلامتی کے گھر کی طرف بلاتاہے۔ ‘ پس مساجد لوگوں کو جمع کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور امن کو پھیلانے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: عربی لغت میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے ’الصلوٰۃ‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اور اس اصطلاح کا اصل مطلب پیار، محبت، خیر خواہی ، بھلائی اور رحمت ہے۔ پس وہ تمام لوگ جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق عبادات بجالاتے ہیں وہ ہرگز رحم سے عاری اور ظالم نہیں ہوسکتے بلکہ وہ پیار، محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور جوبنی نوع انسان کے لئے ایک لامتناہی رحمت کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ حقیقی عبادت لوگوں کو بے حیائی اور برے کاموں اور فساد سے روکتی ہے اور بنی نوع انسان کو بدی اور گناہ کی پکڑ سے آزاد کرتی ہے۔پس حقیقی عبادت اللہ تعالیٰ کے فضل، پیار اوراحسان کے حصول کادروازہ ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب ایک مسلمان کسی سے ملتاہے تو سب سے پہلے وہ ’السلام علیکم ‘ کہتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر سلامتی اور امن نازل ہو۔ یہ ایک ایسی دعاہے جو ہرقسم کے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیتی ہے۔اس لئے یہ واضح ہو کہ ہماری مساجد بالکل اسی نیّت اورانہی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں جن کے لئے خانہ کعبہ بنایاگیاتھا۔ یہ مساجد انسانیت کے لئے امن کی شمعیں ہوتی ہیں اور ایسی جگہیں ہوتی ہیں جہاںمرد، خواتین اور بچے جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالائیںاور معاشرہ میں امن اور محبت کو فروغ دیں۔ اگر ہر مسلمان بلکہ ہر شخص ان اصولوں پر عمل پیراہوجائے تو دنیاکی شکل ہی یکسر بدل جائے۔ ہر قسم کے اختلافات، نفرتیں اور شکوے شکایتیں ختم ہوجائیں اوران کی جگہ پیار اور محبت ، ہمدردی اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوجائے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہا ں اسلام نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ مساجد تعمیر کریں اور ان کی حفاظت کریں وہاں اسلام دیگر تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کی حفاظت کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مذاہب اور ان کی عبادتگاہوں کا احترام کریں اور انہیں تحفظ فراہم کریں۔ درحقیقت عالمی مذہبی آزادی اسلام کا نہایت اہم اور ناگزیراصول ہے۔ اس سنہری اصول کا ذکر قرآن کریم میں ملتاہے ۔کفارِ مکہ کی طرف سے اسلام کے بانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں پر دس سال نہایت بے دردی کے ساتھ اور بہیمانہ اندازمیں مظالم ڈھائے گئے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپناوطن چھوڑنے پر مجبور کیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوںنے اس امید کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کرلی کہ وہ وہاں امن اور تحفظ کے ساتھ رہ پائیں گے ۔ لیکن کفارِ مکہ نے مسلمانوں کاپیچھانہ چھوڑا بلکہ جارحانہ رنگ میں مسلمانوں کے پیچھے لگے رہے۔ انہوں نے باقاعدہ ایک طاقتور اور اسلحہ سے لیس فوج تیارکرلی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر جنگ مسلّط کردی۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی جنگ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ الحج کی آیت 41 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ظالم صرف اسلام کوہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کو ختم کردینا چاہتے تھے۔ اور اگر انہیں طاقت سے روکا نہ جاتا توہرگرجا، کلیسا، مندر اور دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کو سخت خطرہ لاحق ہوجاتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے کی اجازت دی تو یہ صرف اسلام کی حفاظت کے لئے نہ تھی بلکہ ہرمذہب کی حفاظت کے لئے تھی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ تمام امور ذہن میں رکھتے ہوئے وہ تمام لوگ جو اسلام سے ڈرتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان دنیا میں بد امنی بڑھانے کا باعث ہیں، انہیں اپنے ذہنوں سے ایسے تما م خدشات دور کر لینے چاہئیں۔ اور یقین رکھیں کہ سچے مسلمان کسی قسم کے خطرہ اور نقصان کا باعث نہیں بنیں گے۔ بلکہ وہ ہمیشہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل کرمعاشرہ کو امن، ہم آہنگی اور انسانیت کے سایہ تلے جمع کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اور انہی مقدس کاموں کی انجام دہی کے لئے ہی مساجد بنائی جاتی ہیں۔ تاہم آپ میں سے بعض تعجب کریں گے کہ اگر مساجد حقیقتاً امن کی جگہیں ہیں تو ہم مسلم دنیا میں اس قدر اختلافات اور فسادات کیوںدیکھتے ہیں، خاص طورپر جبکہ بہت سی مساجد ہیں جہاں مسلمان اللہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں؟ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں مذہب کی تاریخ دیکھنی ہو گی۔ تمام مذاہب اور ان کی تعلیمات ان مذاہب کے بانیان کی وفات کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ بگاڑ دی گئیں۔ اسی طرح ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد مسلمانوں کی اکثریت بھی اسلام کی اصل تعلیمات سے دور ہٹ گئی۔ دراصل اسلام کا انحطاط ہونا ہی تھا کیونکہ بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک وقت گزرنے کے بعد مسلمان روحانی تاریکی کے دَور میں داخل ہوجائیں گے اور ان کے اعمال اسلامی تعلیمات سے بہت دُور ہوجائیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایسے دَور میں اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مسیح ِ موعود اورامام مہدی بنا کر مبعوث فرمائے گا تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات دنیا میں ازسرِ نو قائم کی جائیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم احمدی مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ اس عظیم پیشگوئی کے مطابق ہماری جماعت کے بانی کو مسیح ِ موعود اور امام مہدی بنا کر بھیجا گیا ہے تاکہ وہ دنیا کو اسلام کی اصل تعلیمات سے آشکار کریں۔ حضرت اقدس مسیح ِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنی نوع انسان کو اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کے آگے سرنگوں کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ نے بنی نوع انسان کو تمام مظالم اور ناانصافیاں ختم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہم آہنگی سے رہنے اور ایک دوسرے کے جائز حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ نے اس بات کو بڑے وثوق سے بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمت تھے۔ اور فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم کے مطابق دینی امور میں کوئی جبر نہیں ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم احمدی مسلمان اپنی جماعت کے بانی کو مسیح ِ موعود اور امام مہدی تسلیم کرتے ہوئے ان مقدس اور اعلیٰ تعلیمات پر عمل کرنے کے دعویدار ہیں۔ آج بطور ایک مذہبی جماعت کے ہم مسلسل حضرت اقدس مسیح ِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات دنیا کے تمام حصوں میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم طاقت یا جبر کے ذریعہ نہیں بلکہ پیار اور محبت سے اسلامی تعلیمات پھیلا رہے ہیں۔ ہماری جماعت اور ہماری مساجدان مقاصد کو پورا کرتی ہیں جن مقاصد کو لے کر خانہ کعبہ تعمیر کیا گیا تھا کہ دنیا میں امن قائم کیا جائے۔ ہماری مساجد امن کی مشعلیں ہیں جو اپنے ماحول کو منور کرتی ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ ایک گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کالا کسی گورے شخص پر فضیلت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ نہ ہی کسی عرب کو کسی عجمی پر فضیلت ہے اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت ہے۔ اور نہ ہی کوئی امیر شخص کسی غریب پر کوئی فضیلت رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کی فضیلت اس کے خاندان، دولت اور نسل پر نہیں بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ اس کا خداتعالیٰ سے تعلق کیسا ہے اور اس بات پر منحصر ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حکموں پر کس قدر عمل کرتا ہے۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ تمام لوگ برابر ہیں اور ہم رنگ ونسل پر مبنی ہر قسم کی تفریق کے خلاف ہیں۔ جہاں ایک طرف ہم اسلام کا پیغام پھیلا رہے ہیں وہاں ہم بنی نوع انسان کے حقوق بھی پورے کر رہے ہیں اور جو بھی ضرورتمند ہیں انہیں سہولت اور آرام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم افریقہ میں ، ایشیا میں اور دنیا کے دیگر ترقی پذیر علاقوں میں اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے خدمت بجا لا رہے ہیں۔اسی طرح یہاں جاپان میں بھی خدمت کرتے ہیں جیسا کہ یہاں بعض مقررین نے ذکر بھی کیا ہے۔ دنیا میں ہماری مساجد اور ہماری جماعت کو انسانیت کی بے نفس خدمت کرنے والی جماعت سمجھا جاتاہے۔ہم سکول اور ہسپتال چلا رہے ہیںجودنیا کے دُور افتادہ علاقوں میں ضرورتمند افراد کو بلاتفریق رنگ و نسل تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ہم تکلیفوں میں گھرے افراد کے آنسو پونچھتے ہیں۔ ہم ان کے غم، بے چینی اور تکلیفیں دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور ان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے میں ان کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ دنیا میں جہاں بھی ہماری مسجدیں بنتی ہیں یا ہماری جماعتیں قائم ہوتی ہیں وہاں کے مقامی افراد اس بات کو جلد ہی سمجھ جاتے ہیں کہ ہم امن، ہم آہنگی اوربرداشت کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس دَور میں حقیقی جہاد ، تلوار یا اسلحہ کا جہاد نہیں بلکہ اصلاحِ نفس کا جہاد ہے۔ یہ جہاد اپنے نفسوں میں نیک تبدیلیاں لانے کا ہے اور یہ اسلام کی سچی اور امن پسند تعلیمات دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا جہاد ہے۔ ہم یہ افریقہ میں کررہے ہیں، یورپ میں، ایشیا میں، امریکہ میں، آسٹریلیا میں اور یقینا دنیا کے ہر علاقہ میں کر رہے ہیں۔ اور یہاں جاپان میں بھی ہمارا یہی مقصد ہے کہ اس معزز قوم کے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کریں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم جاپانی افراد کو بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام وہ مذہب ہے جو ہمیں اپنے خالق کی پہچان کرنے اور اس سے تعلق قائم کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ آج سے انشاء اللہ یہ مسجد جو جاپان میں ہماری سب سے پہلی مسجد ہے، اس شہر میں اور تمام جاپان میں ہمیشہ یہی پیغام پہنچائے گی۔ اس کے مینار یہ اعلان کریں گے کہ اسلام امن ، تحفظ اور ہم آہنگی کا مذہب ہے۔ اسلام خداتعالیٰ اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا مذہب ہے۔ اب جبکہ یہ مسجد تعمیر ہو چکی ہے مجھے یقین ہے کہ مقامی احمدی اسلام کی کامل تعلیمات پرپہلے سے بھی بڑھ کر عمل کریں گے اورآپ سب پر اس کی حقیقت واضح کریں گے، انشاء اللہ۔ مقامی احمدی اسلام کی حقیقی اور اصل تعلیمات پر عمل کرنے والے اور ان کی تبلیغ کرنے والے ہوں گے اور ان لوگوں کے شکوک و شبہات دُور کریں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک انتہا پسند مذہب ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یقینا پہلے سے کہیں زیادہ اب دنیا کو امن اور مفاہمت کی ضرورت ہے۔ پس ہم سب کو باہم دوستی کا ہاتھ تھام کر دنیا کے امن کے لئے کام کرنا چاہئے۔ یہ صرف خداتعالیٰ کے حقوق قائم کرکے اور ایک دوسرے کے حقوق قائم کر کے ہی ممکن ہے کہ ہم پُرامن دنیا کا نظارہ کرسکیں اورامن و سکون سے رہ سکیں۔ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ دنیا کے کس حصہ میں بستے ہیں، اگر وہ ایک دوسرے سے مخلص ہوں اور تعلقات استوار کرنے والے ہوں تو فساد، خونریزی اور جنگ و جدل سے بھری دنیا جوہم دیکھ رہے ہیں، یہ امن، برداشت اور ہم آہنگی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آخر پر مَیں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تمام لوگوں کے لئے ہماری مساجد کے دروازے کھلے ہیں اور یہ دروازے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ہمیشہ کھلے رہیں گے جوایک خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان راستوں پر چلیں جو خداتعالیٰ کے انعامات اور فضلوں کو جذب کرنے والے ہیں اور تمام دنیا اس کی برکات کی وارث بن سکے۔ اللہ کرے کہ ہم دنیا میں حقیقی اور نہ ختم ہونے والا امن دیکھیں۔ آمین۔ ان الفاظ کے ساتھ مَیں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا آج کے پروگرام میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ ……………………… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب چھ بج کر 52منٹ تک جاری رہا۔ جونہی خطاب ختم ہوا تمام مہمان بڑی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعاکروائی۔ ٭ اس کے بعد پروگرام کے مطابق مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ تمام مہمانوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں کھانا کھایا۔ ڈنر کے بعد مہمانان نے باری باری حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت ہر ایک سے گفتگو بھی فرمائی۔ ہر ایک نے درخواست کرکے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصاویر بنوانے کی بھی سعادت حاصل کی۔ ہر آنے والا مہمان حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت وجود سے فیضیاب ہوا اور ہر ایک حضورانور کی شخصیت اور حضورانور کے خطاب سے انتہائی متاثر ہوا۔ اس پروگرام کے بعد آٹھ بجکر 30منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں اور نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ تشریف لے آئے۔ ……………………… مہمانوں کے تأثرات آج حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب نے مہمانوں پر گہرااثر ڈالا۔ بہت سے مہمانوں نے اس حوالہ سے برملا اپنے جذبات، خیالات اور تاثرات کا اظہار کیا۔ ٭ ’واتا نابے کانے‘ صاحب (Watanabe Kane) ایک بدھ پریسٹ ہیں۔ وہ بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ اپنے تأثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہنے لگے: امام جماعت احمدیہ کی آمد بہت ہی اچھے وقت پر ہوئی جبکہ ہم پیرس میں دہشتگردی کے بعد ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ انہوں نے جس خوبصورت اور آسان فہم انداز میں بات کی اور اسلام کی تعریف کی اس سے یہ ہیجانی کیفیت جو ہمارے دلوں میںاسلام کے بارہ میں گھر کئے ہوئے تھی ختم ہوئی ہے ۔ امام جماعت احمدیہ کی آمد اور اس مسجد کی تعمیر نے ہماری گھبراہٹ اور پریشانی کو یکسر ختم کر دیا ہے۔ ٭ ’ایتو ہیروشی‘ صاحب (Ito Hiroshi) ایک وکیل ہیں اور انہوں نے مسجد کی خرید وغیرہ کے سلسلہ قانونی معاونت فراہم کی تھی۔ انہو ںنے اپنے تأثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: یہ میری زندگی کا سب سے بہترین دن تھا کیونکہ میں سب سے بہترین انسان سے ملا ہوں۔ امام جماعت احمدیہ کی تمام باتیں حق پر مبنی تھیں۔ جہاں انہوں نے امن اور نرمی کی تلقین کی ہے وہیں انہوں نے عدل اور انصاف کے فروغ کی بات بھی کی ہے جو بہت ہی اچھی بات ہے۔ ٭ تھامیا یوکیکو صاحبہ (Tamiya Yukiko) جو مسجد کی آرکیٹیکٹ ہیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: آج اس پر وقار مجلس میں حضور کی موجودگی میں مجھے یوں لگا کہ دنیا ایک ہو گئی ہے اور باہمی تما م فاصلے مٹ گئے ہیں ۔ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کے تعمیر کے مکمل ہونے پر میں آپ کو مبارکباد دیتی ہوں۔ ٭ ایک طالبعلم ’کوبایاشی کوہجی صاحب‘ (Kobyashi Koji) بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ انہوں نے کہا: میں ایک یونیورسٹی کا طالبعلم ہوں اور میرا گھرانہ بدھسٹ پریسٹز کا گھرانہ ہے اور میرا گھر ٹیمپل ہے ۔ مجھے اسلام میں کافی دلچسپی تھی تاہم کبھی موقع نہیں ملا کہ کسی مسلمان سے بات کر سکوں۔ کتابوں سے جو مل سکا وہ پڑھا تاہم آج اس افتتاحی تقریب میں شرکت کر کے اور His Holinessکی باتیں سن کر مجھے اسلام کی اصل تصویر نظر آئی ہے اور ایک نیا باب مجھ پر کھلا ہے۔ ٭ ایک جاپانی خاتون یوکی سانگی ساکی صاحبہ (Yuki Sngisaki) نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اس پر وقار تقریب پر دعوت کے لئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اس شہر میں اتنی شاندار مسجد کا بننا ہمارے لئے بھی بہت خوشی کی بات ہے۔ میں ایک یونیورسٹی کی طالبعلم ہوں اور مختلف مذاہب پر تحقیق کر رہی ہوں۔ اس تقریب میں شامل ہونے کے بعد مجھے احساس ہو ا ہے کہ ہمارا اسلام کے بارہ میں علم بہت تھوڑا ہے جس کی وجہ سے ہم غلط فہمی کا شکار ہیں۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب اس زمانہ کی ضرورت ہے۔ میں نے اس خطاب سے اسلام کے بارہ میں بہت کچھ سیکھاہے۔ ہم جاپانی لوگ اسلام کے متعلق زیادہ نہیں جانتے بلکہ اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ مگر آج خلیفۃالمسیح کے خطاب سے ہمیں پتہ چلاہے کہ اسلام اصل کیا چیز ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفۃ المسیح امن کے پیامبر ہیں۔ موصوفہ نے کہا: اس تقریب میں شامل ہونے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسلام کے بارہ میں کتابیں پڑھنے سے اور اس کی تاریخ پڑھنے سے ہم اس کا اصل چہرہ نہیں دیکھ سکیں گے اس کے لئے اس طرح کی اور تقاریب منعقد کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسجد کے بننے کے بعد میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کے مواقع مزید آئیں گے۔امام جماعت احمدیہ اور ان کی جماعت سے ملنے کا موقعہ ملا۔ باہمی محبت اور امن اور آشتی مجھے ان کے چہروں پر نظر آئی۔ اور ان سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے ان میں بہت پیار اور محبت نظر آئی۔ ٭ ایک اور جاپانی دوست ’تھویا ساکورائی‘ صاحب(Toya Sakurai) بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: آج اس تقریب میں شامل ہونے اور امام جماعت احمدیہ کی باتیں سننے سے اس دنیا کے امن کے بارہ میں سوچنے کا موقع ملا ۔ اس موقع کے فراہم کرنے کے لئے میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔خلیفۃ المسیح نے صرف امن کے متعلق ہی بات کی اور دنیا کو مخفی خطرات سے بھی آگاہ کیا۔ خلیفۃ المسیح نے ہمارے ان خدشات کو بھی دور کیا کہ مسلمان دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ میں باربار یہی کہوں گاکہ ہمیں خلیفۃ المسیح کے ساتھ مل کر امن کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کے بارے میں پڑھیں اور اس کو سمجھیں۔ ٭ ایک جاپانی دوست ’ای نواُئے تھاکاؤ‘ صاحب جو اس تقریب میں شامل تھے انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: بہت ہی خوبصورت مسجد کی تعمیر مبارک ہو۔ 30سال پہلے میں جاپان میں احمدی مبلغ سے ملاتھا اور ان سے اسلام کے متعلق بہت سی باتیں سیکھنے کا موقع ملا ۔ آج 30سال بعد امام جماعت احمدیہ کی باتیں سن کر میری یادداشت پھر واپس آئی ہے جس کی مجھے بہت خوشی ہے ۔ میں آئندہ بھی جماعت کی مدد کرنے اور ان سے تعلق رکھنے کا عہد کرتا ہوں۔ مجھے، میری بیوی اور بیٹے کو دعوت دینے کا بہت شکریہ۔ ٭ اسی طرح ایک اور جاپانی دوست جو کہ سکول میں ٹیچر ہیں انہوں نے کہا: احمدی احباب نے مشکل اوقات میں ہمیشہ ہماری مدد کی ہے یہ بات میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ میں یہیں پاس ایک سکول کا ٹیچر ہوں۔ آج کے بعد میں اپنے سکول کے بچوں کو یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ ’’خطرناک ‘‘ نہیں ۔ امام جماعت احمدیہ اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے ملاقات کا بہت حسین موقع تھا۔ ٭ ایک دوست کہنے لگے: خلیفۃ المسیح نے بہت آسان طریق سے اسلام کے بارہ میں بیان کیا۔ ان کی باتیں بہت جلد سمجھ آنے والی تھیں۔ ٭ پھرایک اور دوست جو اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: اس تقریب میں شامل ہوکر خلیفۃ المسیح کا خطاب سننے کے بعد مجھے معلوم ہو ا ہے کہ ہمیں اسلام کی بنیادوں سے واقفیت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ جاپان ایک جزیرہ ہے اور یہاں کے لوگ بھی اسی طرح باہر کی دنیا سے بند اور ناواقف ہیں۔ اسی لئے وہ اسلام کے متعلق ’’دہشتگردی ‘‘ کے تصوّر سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ مجھے امید ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی آمد اور اس مسجد کی تعمیر اس تصور کو بدلنے میں ایک مثبت ذریعہ بنے گی۔ ٭ مسجد کے ہمسایہ میں رہنے والے ایک جاپانی دوست انوکین صاحب (Oono Ken) نے بیان کیا: میں مسجد کے پاس ہی رہتاہوں۔ اور مسجد کی اس افتتاحی تقریب میں شامل ہوکر اور اسلام کے بارہ میں جان کر بہت خوش ہواہوں۔ میں چاہتاہوں کہ اب اسلام کے بارہ میں مزید معلومات کے لئے آئندہ بھی اس مسجد میں آتا رہا ہوں۔ ٭ ایک جاپانی دوست ’اتو ہیروکی‘ صاحبہ نے کہا: میں اس مجلس میں شامل ہو کر بہت خوش ہوا ہوں۔ امام جماعت احمدیہ کی باتوں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے جس پر میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ ٭ ایک اور جاپانی دوست ’میزونویوتا‘ صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں نے اس طرح کی تقریب میں پہلے کبھی شرکت نہیں کی۔ آج اس تقریب میں شامل ہوکر اور خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر مجھے پہلی بارعلم ہوا ہے کہ مسجد کے مقاصد کیا ہوتے ہیں۔ ٭ ایک جاپانی ڈاکٹر ’مائدہ ناؤتو ‘ صاحب بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ موصوف احمدی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ تین سال سے چندہ دے رہے ہیں اور ہیومینٹی فرسٹ کے کاموں میں جماعت کی طرف سے رضاکارانہ طور پر خدمت پیش کرتے ہیں۔موصوف نے کہا: جو اسلام امام جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے اس کے ماننے میں کسی شنٹو کے پیروکار، عیسائی ، بدھسٹ یا کسی اور مذہب کے پیروکار کو کوئی عار نہیں ہے۔ ٭ ایک دوست ’متسو ایشی کاوا صاحب‘ (Mitsuo Ishikawa) نے بیان کیا: ’’اسلام کا مطلب امن اور باہمی سلامتی ہے‘‘ امام جماعت احمدیہ کے یہ الفاظ میرے دل میں اتر گئے ہیں ۔ ٭ ایک جاپانی دوست ’چیکا موتوناؤ کی‘ صاحب (Chikamoto Naoki) کہنے لگے: مسجد کی تعمیر بہت بہت مبارک ہو۔ امام جماعت احمدیہ کی آمد سے اس تقریب کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ میں بہت متأثر ہوا ہوں۔ ٭ برازیل سے تعلق رکھنے والے ایک غیر مسلم دوست مسجد کے افتتاح کی اس تقریب میں شامل تھے۔ موصوف نے اپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: بہت ہی دلچسپ تقریب تھی۔ میں نے برازیل میں کبھی مسلمانوں کی اس طرح کی تقریب نہیں دیکھی۔ آج خلیفۃ المسیح کی باتیں سن کر مَیں نے اسلام کے بارہ میں بہت کچھ سیکھاہے۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر میں بہت جذباتی ہوگیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ خلیفۃ المسیح کے الفاظ دلوں کو بدلنے والے ہیں۔ خلیفۃ المسیح نے بتایاکہ دہشتگرد گھناؤنے کام کرتے ہیں لیکن اسلام کی اصل تعلیمات تو بہت اچھی ہیں۔اس سے پتہ چلتاہے کہ میڈیا جو اسلام کے بارہ میں بتاتاہے وہ حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔ ٭ ایک جاپانی خاتون Mrs Uzuki صاحبہ نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے بیان کیا: میرا خیال ہے آج کا یہ دن میری زندگی کی کایاپلٹ دینے والا دن تھا۔ خلیفۃ المسیح نے میرااسلام اور مسلمانوں کے بارہ میں نظریہ کلیتہً تبدیل کردیاہے۔ خلیفۃالمسیح نے فرمایاہے کہ یہ تلوارسے جہادکرنے کا زمانہ نہیں بلکہ پیارسے جہاد کرنے کا زمانہ ہے۔ خلیفۃ المسیح کی باتوں کا مجھ پر بہت گہرا اثرہواہے۔ میں تو کہوں گی کہ سب لوگوں کو یہاں آکر یہ مسجد دیکھنی چاہئے اور احمدیوں سے اسلام کے بارہ میں سیکھنا چاہئے۔ ٭ ایک جاپانی خاتون Mrs Haiashi صاحبہ کہنے لگیں: دو سال پہلے بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے جاپان میں ایک تقریب کا انعقاد ہواتھا۔میں اس تقریب میں بھی شامل تھی لیکن اس وقت اس تقریب میں شامل ہونے کے بعد بھی میرے ذہن میں کچھ سوال باقی رہ گئے تھے۔ لیکن آج خلیفۃ المسیح نے اپنے خطاب میں میرے ان تمام سوالوں کے جوابات دے دیئے ہیں۔ اب میرے دل میں اسلام کے بارہ میں کسی قسم کا کوئی خدشہ یا خوف باقی نہیں رہا۔ آج میں نے یہ سیکھاہے کہ اسلام دنیا کے لئے خطرہ نہیں ہے بلکہ ہم سب کو یکجاکرسکتاہے۔ ٭ ایک جاپانی خاتون Miss Maho Haden صاحبہ نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے بیان کیا: خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی ایک امن کے پیغمبر ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ واضح طور پر بتایاکہ انسانیت کی خدمت کرنا بھی اسلام کا ایک لازمی جزو ہے۔ موصوفہ کہنے لگیں: جب آپ خلیفہ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کو اپنے اندر ایک سکون محسوس ہوتاہے۔ خلیفہ کی روح واقعی بہت پُرامن ہے۔ ٭ اسی طرح ایک اور جاپانی خاتون ’کوبایاشی ناکاؤ‘ صاحبہ جو کہ سکول میں ٹیچر ہیں انہوں نے کہا: مجھے خلیفۃ المسیح کا خطاب سننے سے پہلے دفتر میں ان سے ملاقات کرنے کا بھی موقع ملا۔ خلیفۃ المسیح نے ملاقات کے دوران اور پھر بعد میں اپنے خطاب کے ذریعہ میرے تمام سوالات کے جوابات دے دیئے۔ اب میراپختہ یقین ہے کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے۔ میں یہاں بعض اپنے طالبعلموں کو ساتھ لے کر آئی تھی۔یہ طالبعلم پہلے اسلام سے خوفزدہ تھے لیکن خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر ان کا نظریہ تبدیل ہوگیاہے۔ بلکہ خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر وہ سخت حیران ہوئے اور مسجد میں اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھنے لگ گئے۔ میں چاہتی ہوں کہ جاپانیوں اور احمدیوں کے بیچ اس تعلق میں اضافہ ہوتاچلاجائے۔ ٭ ایک جاپانی طالبعلم Ichino Noriyuki صاحب کہنے لگے: خلیفۃ المسیح کا خطاب ایک امن کا پیغام تھا۔ میراخیال ہے کہ اب اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر لوگوں کے بیچ جو خلیج ہے وہ دُور ہوجائے گی اورجاپان میں اسلام پھیلنے لگ جائے گا۔ ……………………… پرنٹ میڈیا اور ویب سائٹس کی کوریج جاپان کے پرنٹ میڈیااور ویب سائٹس پر بھی مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے بڑی وسیع پیمانہ پر کوریج ہوئی۔ ٭ ایک اخبار The Daily Yomiuri (یَومِی اُوْرِی) جس کی اشاعت ایک کروڑ 12لاکھ ہے۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اخبار شمار ہوتی ہے۔ اس اخبار نے درج ذیل سرخی کے ساتھ خبردی۔ [’اسلام کا اصل چہرہ‘۔ نئی تعمیر شدہ مسجد میں (سانحہ پیرس کے) ہلاک شدگان کے لئے دعا کی گئی] خبر کی تفصیل دیتے ہوئے اخبار نے لکھا؛ جاپان میں 200سے زائد افرادپر مشتمل ’’احمدیہ مسلم جماعت جاپان‘‘ نے جمعہ مورخہ 20نومبر کو سوشیما شہر میں اپنی نوتعمیرشدہ مسجد کے افتتاح کے موقع پر نماز جمعہ میں سانحہ پیرس میں ہلاک شدہ گان کے لئے بھی دعا کی۔ اس موقعہ پر دنیا بھر سے آئے افراد جن کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ تھی موجود تھے۔ خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے اپنے خطاب میں سانحہ پیرس کو ’انسانیت کے خلاف ایک گھناؤنا جرم ‘ قرار دیتے ہوئے شدّت پسند تنظیم داعش کی بھر پور مذمت کی اور اپنی جماعت کے افراد کو تلقین کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ جاپانی قوم تک اسلام کی اصل تعلیم پہنچانے کی ذمّہ داری اٹھائیں۔ ٭ اسی خبر کو انٹرنیٹ پر پانچ دیگر ویب سائٹس نے ڈالا ہے۔ ان میں Yahoo Japan، Biglobe، MSN Japan، Goo News اور Rakuten شامل ہیں۔ ان سب ویب سائٹس کے ناظرین کی کل تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ ٭ اخبار Daily Asahi، جس کی اشاعت 80لاکھ سے زائد ہے، نے درج ذیل سُرخی کے ساتھ خبر شائع کی؛ [ہمارا عقیدہ ہم آہنگی ہے] خبر کی تفصیل دیتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ؛ جماعت احمدیہ جاپان کی ’’مسجد‘‘ تعلیم و تربیت کے مرکز کی تعمیر سوشیما شہر میں مکمل ہوئی ہے ۔ یہ مسجد 4مناروں اور ایک گنبد سے آراستہ ہے اوریہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے اس میں 500نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ دوسری منزل پر دفاتر ، گیسٹ ہاؤسز ، لنگر خانہ، میٹنگ روم، سیمینار روم بنائے گئے ہیں۔ یہ مسجدبلا تفریق قومیت و مذہب ہر کسی کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے گی۔ نمازوں اور عبادات کے علاوہ یہاں عربی، انگلش اور اردو سکھانے کے لئے رضاکارانہ طور پر کلاسز کا اہتمام کیا جائے گا۔ یہ وہ مذہبی جماعت ہے جس کی بنیادی تعلیمات کامل امن و آشتی پر مبنی ہیں۔جاپان میں اس جماعت کے ممبران کی تعداد 200سے زائد ہے جو قریباً 15مختلف قوموں سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ جماعت رضاکارانہ خدمات میں بھی پیش پیش ہے ۔کوبے، نیگاتااور شمال مشرقی جاپان کے زلزلہ کے وقت نیز امسال آنے والے سیلاب کے موقع پر اس جماعت نے سب سے پہلے اپنی عملی خدمات پیش کی ہیں ۔ 20نومبر کی دوپہر کو نو تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح عمل میںآئے گا ۔ اس کا افتتاح لندن سے آنے والے، جماعت احمدیہ عالمگیرکے سربراہ کریں گے ۔ ٭ اسی خبر کو Yahoo Japan، Biglobe اور Ameba نے اپنی ویب سائٹس پر بھی ڈالا ہے۔ ان سب ویب سائٹس کے ناظرین کی تعداد 75لاکھ سے زائد ہے۔ ٭ JiJi Press (News Agency): یہ ایجنسی جاپان میں مختلف اخباروں، ٹی وی چینلز، رسالہ جات کو خبریں مہیا کرتی ہے، جن کی مجموعی تعداد 75ہے۔ اس طرح ان کی ایک خبر تقریباً 65لاکھ لوگوں تک پہنچتی ہے۔ اس ایجنسی نے درج ذیل سُرخی کے ساتھ خبردی؛ [جاپان کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر مکمل۔ ’امن چاہتے ہیں‘ مقامی احمدیوں کی دعا] خبر کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا کہ؛ بڑھتی ہوئی اسلامی تنظیم ’’احمدیہ مسلم جماعت‘‘ کے مرکز سوشیما شہر میں مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔جماعت کے مطابق اس مسجد میں 500افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں اس لحاظ یہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے۔برطانیہ سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ عالمگیرکے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے سانحہ پیرس کے متعلق فرمایا ’یہ بہت ظالمانہ اور غیر انسانی فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے‘ نیز فرمایاکہ ’اسلام کی ترقی کے لئے ہمیں تلوار کی نہیں بلکہ اپنے اندر کی برائی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘ امام جماعت نے بھر پور انداز میں شدت پسندی کی مذمت کی۔ ٭ Yahoo Japan، MSN News اور Ameba وغیرہ نے بھی اس خبر کو اپنی ویب سائٹس پر ڈالا ہے۔ ان ویب سائٹس کے وزیٹرز کی تعداد 75لاکھ ہے۔ ٭ اخبار Mainichi Shinbun (مَائی نِیچِی شِمْ بُنْ) نے درج ذیل سُرخی کے ساتھ خبر شائع کی؛ [جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح۔ اسلام کے تعارف کا مرکز] خبر کی تفصیل شائع کرتے ہوئے لکھا کہ: مسلمانوں کی ایک تنظیم جماعت احمدیہ کے عالمگیر سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے 20نومبرکو آئی چی صوبہ کے سوشیما شہر میں جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے نماز کے لئے جمع ہونے والے 150سے زائد افراد سے خطاب فرماتے ہوئے دہشتگردی اورشدت پسندی کی مذمت کی ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ: ’طاقت کے زور پر اسلام پھیلانے کا نظریہ غلطی خوردہ ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع اور انہیں پہنچنے والی تکالیف خداتعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہیں۔‘ مسجد میں نماز کے لئے آئے ہوئے کالج کے ایک طالب ِ علم نے بتایا کہ،’داعش کی وجہ سے اسلام کا نام بدنام ہو رہا ہے۔ مسجد کے امام انیس احمد ندیم صاحب نے بتایا کہ دہشتگردی کا اسلام کی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ہم اس شہر کے لوگوں کو اور اپنے جاپانی بھائیوں کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا چاہتے ہیں۔ ٭ چنانچہ ان اخبارات میں خبروں اشاعت کے ذریعہ تین کروڑافراد تک پیغام پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ ویب سائٹس ایڈیشن کے ذریعہ ایک کروڑ افراد تک پیغام پہنچا۔ ……………………… 22؍نومبر 2015ء بروز اتوار ……………………… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے ’’مسجد بیت الاحد‘‘ تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔ صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیںا ور ہدایات سے نوازا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دس بجکر 45منٹ پر اپنے رہائشی حصہ سے باہر تشریف لائے اور ’’مسجد بیت الاحد‘‘ کے لئے روانگی ہوئی۔ سوا گیارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسجد بیت الاحد تشریف آوری ہوئی۔ ………………………… نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ جاپان کے ساتھ میٹنگ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے جہاں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ جاپان کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔ حضور انور نے دعا کروائی۔ ٭ حضور انور نے جنرل سیکرٹری صاحب سے جماعتوں کی تعداد اور تجنید کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر جنرل سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ ہماری دو جماعتیں ہیں ناگویا اور ٹوکیو اور کُل تجنید 189 ہے۔ دونوں جماعتوں کے صدران ہیں اور ان کی اپنی اپنی عاملہ بھی ہے۔ ٭ بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نیشنل سیکرٹری مال سے چندہ دہندگان کی تعداد اور کمانے والے افراد کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ جس پر سیکرٹری مال نے بتایاکہ چندہ دہندگان کی تعداد 72 ہے جبکہ کمانے والے افراد قریباً پچاس ہیں۔ اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کے پاس معین ڈیٹا ہونا چاہئے۔ قریباً کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ معین تعداد بتانی چاہئے۔ اب تو کمپیوٹر سسٹم ہے۔ آپ اپنا نام وائز مکمل ڈیٹا فِیڈ کرسکتے ہیں کہ کمانے والے کتنے ہیں۔ ان میں سے چندہ دینے والے کتنے ہیں، کتنے موصی ہیں اور کتنے غیرموصی ہیں۔ موصی خواتین کی تعداد کیا ہے۔ وصیت کرنے والے طلباء کی تعداد کیا ہے۔ پھر شرح کے ساتھ چندہ دینے والوں کی تعداد کیا ہے اور غیرشرح سے دینے والوں کی تعداد کیا ہے۔ یہ سارا ریکارڈ آپ کے پاس ہونا چاہئے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ افراد جماعت کو بتانا چاہئے کہ چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ اگر آپ پوری شرح کے ساتھ نہیں دے سکتے تو کم شرح پر چندہ دینے کی باقاعدہ اجازت لیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ لوگوں کو احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ چندہ ایک ایسی چیز ہے جس کا حکم ہے۔ یہ تزکیۂ نفس کے لئے ضروری ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مَیں تمہیں عطا کرتا ہوں اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ تو یہ چندہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے پاس یہ ریکارڈ بھی ہونا چاہئے کہ چندہ عام دینے والے کتنے ہیں اور چندہ وصیت دینے والے کتنے ہیں۔ پھر یہ کہ چندہ عام کتنا آتا ہے۔ اس کا کیا بجٹ ہے۔ اور چندہ وصیت کتنا آتا ہے۔ اس کا علیحدہ حساب رکھنا چاہئے۔ ٭ نیشنل سیکرٹری تربیت کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ اگر تربیتی نظام صحیح کام کر رہا ہو اور صحیح تربیت ہو رہی ہو تو پھر ہر فرد کو اپنے ایمان میں اور اپنے اعتقاد میں بڑھنا چاہئے۔ عبادتوں، نمازوں کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ ہونی چاہئے۔ عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی تو اس کے نتیجہ میں مالی قربانیوں کی طرف خودبخود توجّہ پیدا ہوگی۔ اسی ترتیب سے خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ عبادت کو پہلے رکھا ہے اور مالی قربانی کو بعد میں رکھا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اگر عبادت کی طرف توجہ ہوگی تو پھر مالی قربانی کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی۔ اس طرح آپ کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ حضور انور نے فرمایا کہ مَیں جب بھی یہاں آتا ہوں۔ آپ کو بتاکر، سمجھاکر جاتا ہوں۔ جانے کے ایک ماہ بعد آپ بھول جاتے ہیں اور وہی مسائل دوبارہ پیدا ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف شکوے، شکایتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ٭ نیشنل سیکرٹری تبلیغ کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ تبلیغ کریں گے تو لوگ سنیں گے کہ آپ کا پیغام بہت اچھا ہے۔ لیکن جب اندر آکر آپ کے عمل کو دیکھیں گے تو کیا کہیں گے کہ آپ کا نمونہ صحیح نہیں ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ پہلے بھی کئی لوگ آئے، جماعت میں شامل ہوئے۔ پھر آپ کے نمونے کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے اور بعض چھوڑ گئے۔اب بھی جو قائم ہیں ان کو بھی آپ لوگوں سے شکوے ہیں کہ آپ کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ پس ضروری ہے کہ اپنے اچھے عملی نمونے دکھائیں اور آپ کا قول و فعل ایک ہونا چاہئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب دنیا کی آپ پر نظر ہے۔ گزشتہ دنوں مَیں ہالینڈ کے دورہ پر تھا۔ وہاں ملنے والے مہمانوں میں سے ایک نے بتایا کہ آپ کی تعلیم بہت اچھی ہے۔ آپ کی باتیں ہمارے دل کو لگی ہیں۔ ہم پر اثر کیا ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ احمدی اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ کل شام کی تقریب میں ایک ڈاکٹر آئے تھے۔ کہنے لگے کہ آپ کا پیغام بہت اچھا ہے۔ اس کے ماننے میں کسی شنٹو کے پیروکار، عیسائی اور بدھسٹ یا کسی اَور مذہب کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ حضور انور نے فرمایا کہ لیکن جب وہ نمونے دیکھیں گے تو پھر وہ اعتراض کریں گے۔ ٭ حضور انور نے فرمایا کہ شعبہ تربیت کو بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹری تربیت خود، صدر جماعت، مبلغ انچارج اور عاملہ کے ممبران اور پھر افراد جماعت سب کو اپنے نمونے دکھانے ہوں گے۔ اپنے معیار بہتر کرنے ہوں گے تو اس طرح چندہ کا معیار بہتر ہوگا۔ بتانا پڑے گا کہ چندہ خدا کے حکموں میں سے ایک حکم ہے اور یہ کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ وصیّت کے معیار کو بہتر کرنا ہے۔ یہ کوئی معمولی نظام نہیں ہے، رسالہ ’’الوصیّت‘‘ کو پڑھیں۔ وصیّت کے نظام کو خلافت کے نظام کے ساتھ جوڑا ہے، خلافت کا انعام عطا ہونے کی شرائط کیا ہیں؟ یہی ہیں کہ اپنے ایمان کے اعلیٰ معیار پر ہوں گے، عمل صالح بجالانے والے ہوں گے اور عبادتوں کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وصیّت کرنے والوں کا معیار بہت زیادہ بلند ہونا چاہئے۔ یہ معیار بلند رہیں گے تو خلافت کا انعام عطا ہوتا رہے گا۔ ٭ حضور انور نے سیکرٹری وصایا سے موصیان کی تعداد کے حوالہ سے رپورٹ طلب فرمائی۔ سیکرٹری وصایا نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ موصیان کی کُل تعداد 46 ہے۔ مرد حضرات 27 ہیں اور باقی 19 خواتین ہیں جو اپنے جیب خرچ پر چندہ ادا کرتی ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ کمانے والوں میں سے نصف تعداد ہونی چاہئے۔ مَیں نے نصف کا جو ٹارگٹ دیا تھا وہ کمانے والوں میں سے نصف افراد کادیا تھا۔ اگر آپ کے 72 کمانے والے ہیں تو ٹارگٹ کے مطابق کم از کم 36 افراد موصی ہونے چاہئیں تھے۔ ابھی 27 ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی نو (9) کی کمی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ موصی کے تقویٰ کا معیار بہتر ہوتا ہے اس لئے اس کا چندہ بھی بہتر ہوتا ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر موصی اور غیرموصی ایک ہی جگہ پر کام کررہے ہوں تو موصی کی آمد زیادہ ظاہر ہورہی ہوتی ہے اور دوسرے کی کم ظاہر ہورہی ہوتی ہے۔ پس آپ کے تربیت کے معیار بہتر ہوں گے تو چندہ کا معیار بھی بہتر ہوگا۔ حضور انور نے فرمایا کہ صرف وصیت کروادینا کافی نہیں ہے۔ وصیت کے تعلق میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے، اقتباسات اور خلفاء کے حوالے ارشادات ایک سرکلر کی صورت میں موصیان کو بھجواتے رہا کریں۔ مختلف وقفوں سے یہ سرکلرز جاتے رہنے چاہئیں۔ حضور انور ایدہ اللہ نے نیشنل سیکرٹری وصایا کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایاکہ اگر آپ کو جماعتی عہدیداران اور عاملہ کی طرف سے تعاون نہیں ملتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تھک کر بیٹھ جائیں۔ خدا تعالیٰ نے یہ تو نہیں فرمایا کہ تھک کر بیٹھ جاؤ۔ خداتعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ تمہارا کام نصیحت کرنا ہے اور نصیحت کرتے چلے جانا ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ مستقل کام کرتے چلے جائیں۔ اگر آپ کے کام کے نتائج اس دنیا میں اچھے نہیں نکلتے لیکن نیّتوں میں درد ہے کہ جماعت ترقی کرے، آگے بڑھے تو خدا کے ہاں اس کا وزن ہے۔ آپ کو خدا کے ہاں اس کا اجر مل جائے گا۔ پس اپنا کام کئے جائیں۔ اطاعت کا ثواب مل رہا ہے۔ نیّت کا ثواب مل رہا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ صرف وصیت کروانا اور پیسے اکٹھے کرنا تو کام نہیں ہے۔ موصیوں کے روحانی معیار بلند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے ارشادات بتائے جائیں۔ یہ سلسلہ باقاعدہ ایک انتظام کے تحت مسلسل جاری رہنا چاہئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ پیغامی جب علیحدہ ہوئے تو وصیت کا نظام ان میں ختم ہوگیا۔ اب وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب شائع کرتے ہیں، رسالہ الوصیت بھی شائع کرتے ہیں لیکن اب اس پر کس طرح عمل کریں گے۔ ان کے پاس نہ وصیّت کا نظام ہے اور نہ خلافت کا نظام ہے۔ اب اس تعلیم پر تو وہ عمل نہیں کرسکتے۔ اس لئے آپ نے صرف پیسے اکٹھے نہیں کرنے بلکہ موصیان کے روحانی معیار کو بھی بلند کرنا ہے۔ حضور انور نے سیکرٹری وصایا کو فرمایا کہ آپ مجھے جو خطوط لکھتے ہیں اس میں یہ بھی لکھا کریں کہ مَیں نے وصیّت کے بارہ میں یہ کام کیا ہے۔ آپ کے نزدیک جو اچھے نتائج نکلے ہیں، وہ مجھے بتائیں کہ کیا نتائج نکلے ہیں تاکہ مجھے بھی خوشی ہو کہ اچھا کام ہورہا ہے اور اچھے نتائج نکل رہے ہیں۔ سیکرٹری وصایا نے بتایا کہ موصیوں کی تعداد میں گزشتہ سالوں میں چار کا اضافہ ہوا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو چار کا اضافہ ہوا ہے، یہ بات بھی دیکھنے والی ہے کہ موصیان کی روحانیت میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ ان کے دینی معیار اور اخلاص میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ ان کی نمازوں کی حاضری میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب باتیں بھی دیکھنے والی ہیں۔ اس کا بھی جائزہ لیتے رہا کریں۔ ٭ MTA پر نشر ہونے والے خطبہ جمعہ کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ یہاں جاپان میں رات 10 تا 11 بجے خطبہ جمعہ Live آتا ہے۔ تو اس وقت سب سُن لیا کریں۔ پھر ہر خطبہ کے بعد ایک سوالنامہ نکال کر اس کے Points بنائیں کہ اس خطبہ میں یہ یہ مضامین اور امور بیان ہوئے ہیں۔ اس کو نکال لیں اور جماعتوں کو بھجوائیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ صدر/مبلغ انچارج کا بھی کام ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے ملاقاتوں کے دوران یہاں جائزہ لیا ہے۔ ناگویا (Nagoya) میں مہینے میں ایک آدھ خطبہ سنتے ہیں۔ ہم MTA پر کئی ملینز ڈالرز خرچ کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے MTA کے ذریعہ تبلیغ کا میدان کھلا ہے اور لوگ احمدیت میں شامل ہورہے ہیں۔ لیکن یہاں جماعت کی تربیت نہیں ہورہی تو پھر آپ اس سے کیا فائدہ اٹھارہے ہیں؟ اس طرف آپ کو توجہ کرنی چاہئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ سب سے اہم اور ضروری بات آپ لوگوں کے اپنے نمونے ہیں۔ تبلیغ کے میدان تب کھلتے ہیں جب آپ کے اپنے نمونے ٹھیک ہوں گے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب یہاں مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ دورانِ تعمیر کئی مسائل اٹھتے رہے ہیں۔ کچھ صحیح ہوں گے اور کچھ بدظنّیوں پر مشتمل ہوں گے۔ آپ نے لکھ دیا، رپورٹ بھجوادی۔ اس کے بعد آپ بری الذمّہ ہوگئے۔ اگر لکھنے اور رپورٹ بھجوانے کے بعد آپ نے اچھا نمونہ نہ دکھایا، اطاعت کا مظاہرہ نہ کیا تو آپ اطاعت سے باہر ہوگئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ سب کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ ہم جو عہدیدار ہیں خدمت کے لئے ہیں اور ہمدردی رکھنے کے لئے ہیں۔ اگر کسی کو احساس پیدا ہوجائے کہ آپ اُس کے ہمدرد ہیں تو کوئی پاگل تو نہیں ہے کہ وہ کہے مَیں آپ کی بات نہیں مانتا۔ اگر آپ ہمدرد نہیں، آپ کے اندر رحم کے جذبات نہیں تو پھر دوسروں سے آپ کیا توقع رکھیں گے۔ اس کے لئے صدر جماعت/ مشنری انچارج کی سب سے بڑی ذمّہ داری ہے۔ پھر عاملہ کے تمام ممبران اور تمام جماعتی عہدیداران کی ذمّہ داری ہے۔ ٭ صدر مجلس انصاراللہ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انصار کی تعداد 34 ہے۔ بعض انصار رابطے میں کمزور ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو پیچھے ہیں ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ایسے لوگوں سے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ان کو قریب لانے کی کوشش کی جائے۔ اگر پیچھے ہٹنے والے کا کسی عہدیدار سے تعلق ہے تو وہ یا جس سے تعلق ہے وہ رابطہ رکھے۔ حضور انور نے فرمایا کہ گھروں میں نظام جماعت کا احساس پیدا ہوجائے تو تربیت کے مسائل حَل ہوجاتے ہیں۔ گھروں میں نظام جماعت پر تنقید نہیں ہونی چاہئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ تربیت کے شعبہ کو بہت فعّال ہونے کی ضرورت ہے۔ تربیت کا شعبہ فعّال ہوگا تو وصیّت بڑھے گی اور جب موصیوں کی تعداد بڑھے گی تو پھر آمد بھی بڑھے گی۔ حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے جرمنی والوں کو ہدایت دی تھی کہ جو لوگ ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں سؤر، شراب وغیرہ کی خریدوفروخت ہوتی ہے تو ایسے لوگوں سے چندہ نہیں لینا۔ اگر کام کرنے کی کوئی اضطراری کیفیت ہے تو وہ ان کام کرنے والوں کی ہے، جماعت کی نہیں ہے۔ چنانچہ جماعت نے ایسے لوگوں سے چندہ نہیں لیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح جب ان لوگوں سے چندہ نہیں لیں گے تو بجٹ پر اثر پڑے گا اور آمد کم ہوگی۔ لیکن ان کا خیال غلط نکلا۔ بجائے آمد کم ہونے کے دو لاکھ یورو زیادہ آمد ہوئی۔ ٹوکیو میں جماعت نے 1991ء میں ایک قطعہ زمین خریدا تھا۔ اس قطعہ زمین کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا اور فرمایا کہ اس قطعہ زمین کی خرید کے حوالہ سے جو طریق کار تھا وہ صحیح نہیں تھا۔ کسی بھی جائداد کی خرید کے حوالہ سے مختلف امور اور پہلو مدّنظر رکھے جاتے ہیں لیکن یہاں وہ مدّنظر نہیں رکھے گئے۔ حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ابھی اس جگہ کو رکھیں۔ فروخت نہیں کرنا۔ حضور انور نے صدر صاحب ٹوکیو کو ہدایت فرمائی کہ وہ زمین کا جائزہ لیں کہ فی الحال اس کا کیا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ناگویا کے پہلے مشن ہاؤس کے حوالہ سے بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض انتظامی ہدایات دیں۔ ٭ نیشنل سیکرٹری سمعی و بصری کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ جماعتی پروگراموں کے علاوہ ڈاکومنٹری پروگرام بھی بنائیںا ور نوجوانوں کو اپنے ساتھ کام میں شامل کریں۔ جو خدّام پیچھے ہٹے ہوئے ہیں ان کو اپنے ساتھ کام میں لگائیں۔ ان کو اپنے قریب لائیں۔ ان کے دلوں میں جو شکوے ہیں دُور ہوجائیں گے۔ ایک آپ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں گے دوسرے ان کی تربیت بھی ہوجائے گی۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے یہاں کئی خوبصورت جگہیں ہیں۔ پہاڑ Fuji ہے۔ بڑی جھیلیں ہیں، خوبصورت علاقے ہیں۔ ان کی ڈاکومنٹری بنائیں۔ اگر آپ جاپانی زبان میں تیار کریں تو اس کو اردو، انگریزی میں ڈَب (Dub) کیا جاسکتا ہے۔ MTA پر دکھائی جائے گی اور پروڈیوسر، کیمرہ مین اور دوسرے کام کرنے والے خدام کے نام آئیں گے تو ان کا حوصلہ بڑھے گااور کام کرنے کا مزید شوق پیدا ہوگا۔ حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے اپنے خطبہ جمعہ میں نصائح کی ہیں۔ ان پر عمل کریں۔ اپنے دلوں کے کینے اور بغض دُور کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اپنی رنجشوں کو دُور کریں اور آپس میں پیار و محبت کا سلوک رکھیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ سلامتی لینے کے لئے سلامتی دینی پڑتی ہے۔ کل ایک جاپانی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ سلامتی کس طرح بڑھے گی۔ تو مَیں نے اس کو یہی جواب دیا تھا کہ حقوق لینے کی نہیں، حقوق دینے کی بات ہوگی اور دوسروں کے حقوق دو گے تو پیار و محبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم ہوگی اور اس سے سلامتی بڑھے گی۔ پس آپ میں سے ہر ایک اپنا حق چھوڑے اور دوسرے کا حق دے تو اسی سے آپ کے آپس کے جھگڑے اور ناراضگیاں ختم ہوں گی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ صحابی ایک شخص سے گھوڑا خریدنے کے لئے گئے تو اُس شخص نے گھوڑے کی جو قیمت بتائی وہ کم تھی۔ اس پر اس صحابی نے کہا کہ اس گھوڑے کی قیمت تو بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ گفت و شنید کے بعد اس صحابی نے اس گھوڑے کو زیادہ قیمت دے کر خریدا جبکہ گھوڑے کا مالک کم قیمت لینا چاہتا تھا۔ اس پر جب صحابیؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے زیادہ قیمت کیوں ادا کی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر بیعت کی ہوئی ہے کہ مَیں ہر مسلمان کی خیرخواہی چاہتا رہوں گا۔ حضور انور نے فرمایا: پس جب ہر ایک اپنا حق چھوڑے گا اور دوسرے کا حق ادا کرے گا اور اپنی ذمّہ داری کا احساس کرے گا تو آپ کی پچاس فیصدی اصلاح ہوجائے گی۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ سب سچائی پر قائم ہونے کی کوشش کریں۔ نوجوانوں کو شکوے ہیں کہ سچائی کی کمی ہے۔ ہر ایک اپنے مفاد کے لئے بات کو گول مول کرکے پیش کرتا ہے۔ اپنی غلطی ہے تو اقرار کریں اور اپنی غلطی مان لیں۔ ٭ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ جاپان کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنے خدام میں یہ روح پیدا کریں کہ وہ یہ نہ دیکھیں کہ بڑے کیا کررہے ہیں بلکہ وہ یہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے احمدیت کو سچّا سمجھ کر مانا ہے۔ اگر کہیں کمزوریاں ہیں تو وہ ہم نے دُور کرنی ہیں اور جماعت سے پختہ تعلق پیدا کرنا ہے۔ اگر آپ کوئی کمی دیکھتے ہیں تو اپنے اندر سچائی کے معیار بلند کرکے اس کمی کو دُور کرنا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نصیحت کرنے کا حکم دیا ہے اور نصیحت برداشت سے ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بڑی سخت طبیعت کے لوگ بھی آتے تھے۔ آپؐ انہیں صبر، برداشت اور مستقل مزاجی کے ساتھ نصیحت فرماتے تھے۔ حضور انور نے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ لوگوں میں کمیاں ہیں تو آپؑ نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ لوگ ایسے ہیں تو کس طرح سے کام ہوگا۔ اس پر آپؑ کو الہام ہوا: ’’باہمیں مرد ماں بباید ساخت‘‘ یعنی انہی لوگوں سے کام لینا ہے، انہی لوگوں کے ساتھ گزارا کرنا ہے۔دعا کرو اور کام لیتے رہو۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ اپنے اندر دیکھیں کہ آپ کا برداشت کا مادہ پورا حق ادا کرچکا ہے؟ جو شخص بات نہیں مانتا اور باز نہیں آتا تو کیاآپ نے چالیس دن تک اُس کی اصلاح کے لئے رو رو کر دعا کی ہے؟ اگر نہیں کی تو پھر آپ کی طرف سے اصلاح کی کارروائی میں کمی ہے۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ کام کرتے جائیںا ور اپنی نیّت نیک رکھیں۔ باقی خدا پر چھوڑ دیں اور سچّے ہوکر جھوٹوں کی طرح تذلّل اختیار کریں۔ کون کب تک باتیں کرے گا۔ آخر تھک ہار کر چُپ ہو جائے گا۔ حضور انور نے فرمایا کہ جو آپ سے بات نہیں کرتے اور اچھے رویّہ کا اظہار نہیں کرتے تو آپ نے جب بھی ایسے لوگوں کو ملنا ہے تو سلام کریں۔ اگر وہ جواب نہیں دیتا تو یہ اس کا فعل ہے۔ اگر گالی نکال دیتا ہے تو اس کا فعل ہے لیکن آپ نے رویّہ اچھا رکھنا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ مجلس عاملہ کے ممبران اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ وہ کہاں تک عاجز بنے ہیں اور ان میں کس حد تک برداشت کا مادہ پیدا ہوا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اِسی سے دخل ہو دارالوصال میں آپ لوگوں میں عاجزی، انکساری پیدا ہوگی تو آپ کامیاب ہوں گے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ دل سے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ دوسرے فریق کی اصلاح کرے۔ جس طرح اپنے لئے دعا کرتے ہیں اسی طرح دوسرے کے لئے دعا کیا کریں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ نوجوانوں کے تأثرات یہ ہیں کہ ہمارے بڑوں میں سچائی نہیں ہے تو تربیت کیا کریں گے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب یہ آپ کی ذمّہ داری ہے کہ یہ دیکھیں کہ نوجوان نسل کے لئے کیا کرنا ہے۔ آئندہ نسل کی تربیت کی بہت بڑی ذمّہ داری ہے۔ اس پر سوچیں اور غور کریں کہ نوجوان نسل کے لڑکوں اور لڑکیوں کو کس طرح سنبھالنا ہے۔ یہاں کے معاشرہ اور ماحول میں والدین کی بھی یہ بہت بڑی ذمّہ داری ہے کہ بچوں کی تربیت کریں اور پھر سب سے بڑھ کر عہدیداران کی ذمّہ داری ہے۔ ان ملکوں کے ماحول میں بچے سچ بولتے ہیں اور یہ بات حقیقت ہے کہ جو سچّی بات ہے وہ بچّے کہہ دیتے ہیں۔ اس لئے آپ کو بچوں سے سوالات نکالنے چاہئیں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ بچوں کے ذہنوں میں کیا ہے۔ وہ کس طرح اپنے بڑوں اور جماعتی عہدیداروں کو دیکھتے ہیں۔ پھر اس کے مطابق تعلیمی و تربیتی پروگرام ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ بڑے اپنے گھروں میں ایسی باتیں نظام کے بارہ میں نہ کریں جو بچوں کے ذہن اور ان کی تربیت کو خراب کرتی ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ بچوں کو سمجھائیں کہ انہوں نے اصل حقیقت اور تعلیم دیکھنی ہے، بڑوں کو نہیں دیکھنا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ یہ نہ دیکھیں کہ پاکستانی لوگ کیا کررہے ہیں۔ آپ نے بیعت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کی ہے اس لئے آپؑ کی تعلیم کی اتّباع کریں۔ بڑوں میں جو خامیاں ہیں اُن کی طرف نہ دیکھیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ بچے جو سوالات کرتے ہیں تو سیکرٹریان تربیت کا کام ہے کہ بچوں کو ان کے سوالات کے جواب دیں اور انہیں مطمئن کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ تربیت کا ایک بڑا ذریعہ MTA بھی ہے۔ MTA سے مستقل تعلق جوڑنا چاہئے۔ MTA سے رابطہ رکھیں۔ ٭ عاملہ کے بعض ممبران نے عرض کیا کہ مرکز سے نمائندوں کو وقفہ وقفہ سے جاپان کا دورہ کرنا چاہئے تاکہ جماعت کے مسائل بھی کم ہوں اور جماعت کو ایک طاقت ملتی رہے گی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اب جو مَیںنے دورہ کیا ہے اور آپ کو بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایات دی ہیں۔ مَیں دیکھوں گا کہ آپ ان پر کیا عمل کرتے ہیں۔ پہلے ان پر تو عمل کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ افریقہ میں تو کوئی نمائندے نہیں جاتے اور ان لوگوں نے خلیفہ کو دیکھا بھی نہیں ہے لیکن اگر ان کے اخلاص اور وفا کو دیکھا جائے تو پاکستان میں بعض ایسے افراد جو اپنے آپ کو صحابہ سے وابستہ کرتے ہیں ان کو شرم آجائے۔ حضور انور نے فرمایا کہ عاملہ کے ممبران کو سب سے زیادہ استغفار کرتے رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ان کی صحیح رہنمائی فرمائے اور سابقہ غلطیوں سے معاف فرمائے اور آئندہ غلطیوں سے بچائے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی عاملہ کی ہر ماہ جو میٹنگ ہوتی ہے اس میں تربیتی امور کا جائزہ لیا کریں۔ جو آپ کی عملی حالتیں ہیں اس کا جائزہ لیا کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے پہلے بھی اپنے ایک خطبہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ جو چھوٹی سے چھوٹی انفرادی برائی ہے اس کو قومی برائی بننے سے قبل روکنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب بچے یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مسجد کے باہر جو جوتے اتارے جاتے ہیں وہ بکھرے ہوتے ہیں جبکہ ہمیں سکول میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ جوتے اتارنے ہیں تو ایک ترتیب سے رکھیں۔ چنانچہ وہاں ہم بڑی ترتیب سے رکھتے ہیں۔ اب بچے کہیں گے کہ ہمارے اخلاق اچھے نہیں ہیں جبکہ جاپانیوں کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے دین کی؟ حضور انور نے فرمایا کہ جاپانیوں کے جو اچھے اخلاق ہیں ان کو اپنائیں، حکمت کی بات جہاں سے بھی ملے لے لینی چاہئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ ہر عہدیدار جو مسجد آتا ہے اگر وہ دیکھے کہ جوتیاں بکھری پڑی ہیں تو اٹھاکر ریک (Rack) میں رکھ دے، ترتیب سے رکھ دے تو جوتی اتارنے والے کی بھی اصلاح ہوجائے گی اور بچوں کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ نیشنل مجلس عاملہ جاپان کی یہ میٹنگ بارہ بج کر 55 منٹ تک جاری رہی۔ ……………………… بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی دوسری منزل پر قائم دفاتر، لجنہ ہال، گیسٹ روم اور رہائشی حصوں کا معائنہ فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہ شفقت کچھ دیر کے لئے مبلغ انچارج کی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بج کر پانچ منٹ پر مسجد میں تشریف لاکر نماز ظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ ……………………… نمازوں کی ادائیگی کے بعد پروگرام کے مطابق نیشنل عاملہ کے ممبران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ مسجد کے افتتاح کے موقع پر موجود مبلغین نے بھی اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ بعد ازاں جماعت احمدیہ ناگویا کے ممبران اور بیرونی ممالک سے آنے والے مہمانان نے بھی حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ اس کے بعد یہاں سے روانہ ہوکر ایک بج کر 55 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔ ……………………… ناگویا سے ٹوکیو کے لئے روانگی آج پروگرام کے مطابق ناگویا (Nagoya) سے بذریعہ ٹرین ٹوکیو (Tokyo) کے لئے روانگی تھی۔ چار بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل سے باہر تشریف لائے۔ ہوٹل کی لابی (Lobby) میں خواتین اور بچیاں اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھیں۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے سب کو السلام علیکم کہا اور اجتماعی دعا کروائی۔ اس کے بعد ناگویا ریلوے سٹیشن کے لئے روانگی ہوئی۔ چار بجکر پندرہ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ یہاں سے ٹوکیو کے لئے ٹرین کی روانگی چار بج کر 32 منٹ پر تھی۔ گاڑی ٹھیک اپنے وقت پر اپنے پلیٹ فارم پر پہنچی اور چار بج کر 35 منٹ پر یہاں سے ٹوکیو کے لئے روانہ ہوئی۔ ناگویا سے ٹوکیو کا فاصلہ قریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر ہے۔ اس بُلٹ ٹرین Nozomi سپر ایکسپریس کی رفتار بعض جگہوں پر 280کلومیٹر فی گھنٹہ اور بعض جگہوں پر 300کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔ راستہ میں یہ ٹرین صرف Yokohama کے ریلوے اسٹیشن پر رُکی اور چھ بج کر آٹھ منٹ پر ٹوکیو کے Shinagawa ریلوے اسٹیشن پر پہنچی۔ ریلوے اسٹیشن پر صدر جماعت ٹوکیو نے بعض جماعتی عہدیداران کے ساتھ حضور انور کو خوش آمدید کہا۔ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھ بج کر 30منٹ پر اپنی جائے رہائش Hilton ہوٹل تشریف لے آئے۔ سات بج کر پچاس منٹ پر ہوٹل کے ایک ہال میں (جو نمازوں کی ادائیگی کے لئے حاصل کیا گیا تھا) حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔ (باقی آئندہ)