https://youtu.be/aIVc7HSD7WI حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیر غور نظم آپ کی کتاب سرمہ چشم آریہ مطبوعہ ۱۸۸۶ء کے صفحہ ۸۹؍ پر درج ہے جو روحانی خزائن جلد دوم کے صفحات ۱۳۷-۱۳۸ پر شامل اشاعت ہے اور درثمین میں ساتویں نمبر پر درج ہے۔ اس نظم کے کل آٹھ اشعار ہیں۔ ۱۔دنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں حِرص وآزhirs-o-aaz: ہوس،لالچ Greediness, avarice پیسہ paisa:سکہ، ہندوستانی روپے کا سوواں حصہ، نہایت کم قیمتA coin equal to hundredth of Indian Rupee, very low value (اس شعر میں اسے پیسے پڑھیں گے ) لوگ دنیا کمانے کی لالچ اور ہوس میں بڑی محنت اور مشقت کرتے ہیں۔اگر ایک پیسے کا بھی نقصان ہوجائے یعنی تھوڑا سا بھی خسارہ ہو تو ان کی جان نکل جاتی ہے۔ان کی زندگی کا مقصد پیسہ، دولت اور دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اُخروی زندگی کا خیال نہیں آتا۔ ۲۔زر سے پیار کرتے ہیں اور دل لگاتے ہیں ہوتے ہیں زر کے ایسے کہ بس مر ہی جاتے ہیں زر zar:دولت، سرمایہ Money, capital دنیا پرست دنیا کی دولت سے پیار کرتے ہیں۔ ان کے دل میں ایک ہی ہوس ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کر لی جائے۔ان کا جینا مرنا پیسے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ۳۔جب اپنے دلبروں کو نہ جلدی سے پاتے ہیں کیا کیا نہ ان کے ہجر میں آنسو بہاتے ہیں دلبر dilbar:محبوب Beloved ہجر hijr: دُوری Separation زندگی کا مقصد دولت کمانا ہوتا ہے۔اس لیے جلدی سے جلدی زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی دھن میں رہتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے اپنی محبوب دولت جلدی سے نہ پا سکیں تو شدید غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں آہ و زاری کرتے ہیں۔ روتے دھوتے ہیں۔ ۴۔پر ان کو اس سجن کی طرف کچھ نظر نہیں آنکھیں نہیں ہیں کان نہیں دل میں ڈر نہیں سجن sajan:پیارا، محبوب Beloved دنیا والے دنیا کو ہی سب سے بڑی نعمت سمجھتے ہیں۔ سب سے زیادہ پیار کے قابل ہستی یعنی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔دولت دنیا نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی قدرتیں دکھائی نہیں دیتیں۔ کان بھی بہرے ہوتے ہیں کوئی خیر کی آواز نہیں سنتے۔ دل میں خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا تا کہ سوچیں کہ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ قیامت کے دن اپنے مالک کو کیا جواب دیں گے۔ ۵۔ان کے طریق و دھرم میں گو لاکھ ہو فساد کیسا ہی ہو عیاں کہ وہ ہے جھوٹ اعتقاد طریق tareeq:راستہ، سبیل، مسلک Way of life, religion دھرم dharm:مذہب Religion عیاں ayaaN, iyaaN:ظاہر، علانیہClear, manifest, obvious, apparent اِعتقاد i‘teqaad:عقیدہ، ایمان Faith, belief ان کے مذہب، مسلک اور عقیدے میں کتنی بھی خامیاں ہوں انہیں نظر نہیں آتیں۔ جو باپ دادا سے سنا یقین کرلیا لیکن جب انہیں بتایا جائے کہ یہ عقیدہ جھوٹ پر مبنی ہے اور وہ واضح نظر آرہا ہو تب بھی ان کو سمجھ نہیں آتی ان کی آنکھیں سچ اور حق دیکھنے کی صلاحیت ہی کھو دیتی ہیں۔ ۶۔پر تب بھی مانتے ہیں اسی کو بہر سبب کیا حال کردیا ہے تعصّب نے ہے غضب بہر سبب bahar sabab:(بہ ہر سبب) ہر وجہ سے، ہر طریق سےIn every condition, in any case تعصّب ta-‘as-sub: بےجا حمایت، طرفداری، ضد، ہٹ دھرمیReligious prejudice, bias غضب ghazab:افسوس، ظلم، اندھیر، برائی کی زیادتی پر بھی بولا جاتا ہےWhat a calamity!y! غلط عقیدوں کا جھوٹ واضح کرکے سمجھا دیا جائے پھر بھی اسی پر قائم رہتے ہیں۔ افسوس ! ضد اور ہٹ دھرمی ان کو حق قبول کرنے سے روکتی ہے۔ بے جا جھوٹے عقیدوں پر قائم رہنے کی ضد نے ان کا برا حال کردیا ہے حق سے دور جاپڑے ہیں۔ ۷۔دل میں مگر یہی ہے کہ مرنا نہیں کبھی ترک اس عیال و قوم کو کرنا نہیں کبھی ترک کرنا tark kernaa:چھوڑنا Forsake,e, عیال 'ayaal, 'iyaal:بال بچے، بیوی بچے، متعلقین، خاندان Family ان کے دل میں اس بات کا خوف نہیں رہا کہ مر کے خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ نادان سمجھتے ہیں جیسے یہ زندگی دائمی ہے جیتے ہی رہیں گے موت نہیں آئے گی ہمیشہ اسی گھر، خاندان اور قوم میں رہیں گے۔ یہ ان کی خام خیالی ہے. ۸۔اے غافلاں وفا ونکند ایں سرائے خام دنیائے دوں نماند و نماند بکس مدام اے غافلاں ay ghaafelaaN:اے غا فلو!، بےپرواہ ،بے خبر لوگو!O negligent people وفا wafaa:ساتھ دینا، خلوص Loyalty, sincerity, faithfulness نکند na kunad:نہیں کرتی Does not observe eeN ایں:This یہ سرائے خام saraa-‘e-kham:عارضی قیام کی بودی جگہA transitory, impermanent, immaterial abode دُنیائے دوں dunyaa-‘e-dooN:حقیر، فانی، بے حقیقت دُنیاThis base and vile world نماند namaaNd:نہ رہے گی Shall not remain بہ کس ba kas:کسی کے ساتھ with anyone مدام mudaam:سدا، ہمیشہ Forever, eternally perpetual, everlasting (O! negligent people, this transitory and vile world has never been faithful to anyone nor will it ever be) اے نادان لوگو!یہ دنیا عارضی قیام کی جگہ ہے کسی سےوفا نہیں کرتی۔ ہمیشہ ساتھ نہیں رہتی۔ یہ حقیر، فانی، بے حقیقت دنیا نہ کسی کے ساتھ رہی ہے نہ رہے گی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا:’’ہائے افسوس جو لوگ دنیا کے پرستار ہیں اور قومی تعصبوں کی زنجیر میں گرفتار وہ اپنے بدعقیدوں کو کسی ڈھب چھوڑنا نہیں چاہتے۔ قوم کا رعب ان کے دلوں پر ایسا غالب ہے کہ جو مخلوق پرستی کی حد تک پہنچ گیا ہے خدائے تعالیٰ کا ان کے دلوں میں اتنا بھی قدرنہیں جو ایک بوڑھی عورت کو اپنے گھر کی سوئی کا ہوتا ہے۔‘‘ (سرمہ چشمہ آریہ، روحانی خزائن جلد ۲صفحہ۱۳۷)