متفرق مضامین

خلافت کی ایک برکت ۔ تمکنت ِدین

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خداتعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اُس کو مٹا تا ہے اور پھر گویا اس امر کا ازسرِنَواس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے(حضرت مسیح موعودؑ)

نبی کا کام تخم ریزی ہوتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے مطابق یہ کام کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنے پاس بلالیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ جماعت مومنین میںاپنے ہاتھ سے خلافت کا نظام جاری فرماتاہے گویا نبوت وخلافت لازم وملزوم ہیں۔ خلافت نبوت کا ظل کامل ہوتی ہےجس کے ذریعہ آفتابِ نبوت کا پورا پورا عکس اس ماہتابِ خلافت میں نظر آتاہے۔ نظام خلافت کے ذریعہ جماعتِ مومنین کے خوف کو امن میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ دین کو ترقی، استحکام اور تمکنت عطا ہوتی ہے۔ برکات خلافت درحقیقت برکاتِ نبوت کا تسلسل ہوتا ہے۔ جماعت مومنین، خلافت کے انعام اور اُس کی برکات کی اُس وقت تک اہل رہتی ہے جب تک اُس کا ایمان حقیقی ایمان ہواور وہ صالح اعمال بجالارہی ہو۔ خلافت کے ذریعہ جو فیوض وبرکات خلافت پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتے ہیں اُن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی آیت استخلاف میں خوب کھول کر بیان فرمادیا ہے۔ اس آیت کریمہ کی رو سے عطا ہونے والی تائیدات اور برکات خداوندی کا کچھ ذکر درج ذیل ہے:۔

وعدۂ الٰہی اور اُس کا ظہور

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کہ حقیقی ایمان رکھنے والوں اور صالح اعمال بجالانے والوں سے وہ ایک وعدہ کرتا ہے۔ وعدۂ خلافت کا یہ فعل اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ لہٰذا اس وعدہ کے ایفاکی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ جو وعدہ کرتا ہے اُس کا ایفا بھی اُسی کے ذمہ ہوتا ہے۔ انسان ضعیف البنیان ہے اگر کوئی وعدہ کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اُس کا ایفا بھی کرسکے۔ کیونکہ اُس کے اندر ہزار ہا ایسی کمزوریاں ہیں جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنے کیے گئے ہر وعدہ کو پورا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔مثلاً موت فوت کا لازمہ جو یقینی طور پر ہر انسان کے شامل حال ہے وہی اُس کے کیے ہوئے وعدے کی وفا میں روک بن سکتی ہے۔ لیکن ہمارا خالق ومالک، حیّ وقیّوم ہے اُس کی تمام قوتیں، طاقتیں اور ارادے لازوال ہیں۔اُس کی شان علٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدیرہے۔وہ اپنے ہر عزم اور ارادے کو جب چاہے پورا کرنے کی دائمی قدرت رکھتا ہےاور اُس کی اسی قدرت نمائی سے اُس کی خدائی اور اُس کے وجود کا ثبوت ملتاہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے :؎

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ مَیں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

انعام خلافت عطا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ کے جو الفاظ رکھے ہیں اُن میں بھی اُس نے اپنی کامل قدرت اور اپنے کامل اختیار واقتدار کا پورے زور اور قوت سے اظہار واعلان فرمایا ہےاور حقیقی ایمان کے حامل مومنوں کو یقین کامل دلایا ہے کہ اگر وہ ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے صالح اعمال بجالائیں گے تو میں ضرور بالضرور اُن میں خلافت قائم کردوں گا۔ عین اُسی طرح جس طرح انبیائے سابقین کے زمانوں میں اورپھر سیدالمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مبارک دور میں اُس نے یہ وعدۂ خلافت راشدہ پورا کرکے دکھایا۔دور آخرین میں مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ایک بار پھر اُس جلیل وقدیر نے اپنی قدرت کا یہ جلوہ پوری شان سے دکھایا۔

حقیقی ایمان اور صالح اعمال کی شرط

خلافت کا انعام عطا کرنے کے الٰہی وعدہ کے ایفا کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو شرائط رکھی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُس جماعت کا جس سے وعدہ کیا جارہا ہے، ایمان خدا کی نظر میں حقیقی ایمان ہواور پھر اُس کے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں صالح اعمال کا درجہ رکھتے ہوں۔حضرت محمد رسول اللہﷺ تک یہی ہوتا آیا ہے کہ ان جملہ انبیاء علیہم السلام کے ماننے والے جب تک حقیقی ایمان کی دولت سے مالامال رہے اور اُن کے اعمال جب تک بارگاہِ الٰہی میں مقبول رہے وہ خلافت کے انعام کے مستحق قرار پاتے رہے اور جب یہ دونوں چیزیں نہ رہیں وہ نعمتِ خلافت سے محروم کردیے جاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ظہور آج پھراللہ اور رسول ﷺ کے وعدوں کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت احمدیہ کے قیام کے ذریعہ ہوا۔ایک سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کا قائم رہنا اُ س کی اس فعلی شہادت کا ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ کا ایمان خدا کی نظر میں حقیقی ایمان ہے اور من حیث الجماعت اُس کے اعمال بھی خدا کی نظر میں مقبول ہیں۔

تمکنت دین

خلافت کی ایک بہت بڑی برکت تمکنت دین ہے۔نبی کی وفا ت کے بعد دشمن یہ خیال کرتے ہیں کہ اب یہ جماعت ختم ہوجائے گی۔ایسے وقت میں خدا تعالیٰ خلافت حقّہ کی برکت سے دین کو مضبوطی اور استحکام عطا فرماتا ہے اور وہ کام جن کی ابتدا نبی کے زمانہ میں ہوتی ہے خلفاء کے زمانہ میں پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمۡ دِیۡنَھُمُ الَّذِیۡ ارۡتَضٰی لَھُمۡ(النور:۵۶)اور اُن کے لیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا۔سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خداتعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اُس کو مٹا تا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سرِ نَواس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۵۲۴۔ ۵۲۵، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

تاریخ اسلام گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں خلافت راشدہ قائم رہی،دین اسلام نے ہر جہت سے شانداراوربےمثال ترقی کی۔رسول کریم ﷺکے خدا کی رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں سے معمور اور خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فضلوں اور نعمتوں سے بھرپور دور کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی۔ اگرچہ اس کا عرصہ تیس سال کے مختصر ترین ماہ وسال پر مشتمل ہے مگر اس مبارک دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو حیرت انگیز اور عظیم الشان کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوئیں انہیں دیکھ کر بڑی بڑی طاقتور اور مضبوط سلطنتوں کے محلات پر لرزہ طاری ہوگیا اور دشمن حیرت و حسرت سے ان کامیابیوں کو دیکھنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف یہ کہ اندرونی انتشار اور افتراق کے فتنے اپنی موت آپ مرگئے بلکہ اسلام کی سطوت وشوکت کے پرچم چاروں طرف دور دراز علاقوں اور ملکوں پر لہرانے لگے۔ تیس سال کے اندر اندر مشرق میں چین اور افغانستان،مغرب میں شمالی افریقہ،طرابلس،شمال میں قزوین تک اور جنوب میں حبشہ تک اسلامی سلطنت قائم ہوگئی۔

آج بھی انصاف پسند مؤرّخ ماضی کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہے تو وہ حیرت واستیعاب کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے کہ اس تیزی وسرعت سے صحرائے عرب کے بادیہ نشین،اقوامِ عالم پر کیسے چھاگئے۔چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرانس کے ایک مؤرخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اُس زمانہ کی نسبت فرانس کا ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کی ایک بات عجیب تھی۔ لوگ کہتے ہیں وہ جھوٹاتھا مگرمیں کہتا ہوںکہ وہ کیسے جھوٹا ہوسکتا ہے۔ اس کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ اس کو غلطی لگی تھی۔ وہ لکھتا ہے کہ مَیں اس نظارہ کو دل میںلاکر حیران ہوجاتا ہوں کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک چھوٹی سی مسجد میںجس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی تھی جو بارش کے وقت ٹپکنے لگ جاتی تھی اور نمازیوں کو کیچڑ میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی اس میں بیٹھ کر کچھ لوگ جن کو تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا بھی میسر نہیںتھا یہ باتیں کرتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آجاوینگے اور جو دین ہم پھیلانا چاہتے ہیں اس کو پھیلادینگے اورپھر باوجود اس بے بضاعتی کے وہ اپنی بات کو پورا کرکے دکھا دیتے ہیں۔ یہ ایک معمولی بات نہیں بلکہ غیر معمولی بات ہے۔ اس بات کو سوچنا چاہئے۔ ‘‘(قیام توحید کے لئے غیرت، انوارالعلوم جلد ۵ صفحہ ۲۳-۲۴)

حق یہ ہے کہ یہ خلافت راشدہ ہی کی تاثیرات اور فیوض وبرکات کا کرشمہ تھا جو دنیا نے دیکھا۔ اور آج جب ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہودعلیہ السلام کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ کی ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط عدیم المثال کامیابیوںاور کامرانیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو قلوب ربّ کریم کی حمدوثنا سے لبریز ہوجاتے ہیں اور گردن خدا تعالیٰ کی تائیدات اور فضلوں کے نظاروں کے سامنے خم ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے خبر پاکر جو پیشگوئیاں فرمائی تھیں وہ اس ایک صدی میں اس تیزی اور اس شان سے پوری ہوئیں کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔ آپ نے خدا سے خبر پاکر فرمایا تھا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۳۲۹)پھر فرمایا تھا مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ …’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔ ‘‘(تذکرہ صفحہ ۲۶۰۔ ایڈیشن ۲۰۰۴ء )پھر آپ نے خدا سے خبر پاکر یہ اطلاع دی کہ خدا مجھے ایک ایسا فرزند موعود، مصلح موعود ( محمود)عطا کرے گا جو: ’’ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ ‘‘… ’’قومیں اُس سے برکت پائیں گی۔‘‘

اس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے خبربھی سنائی کہ تا اُس پسرموعود کے ذریعہ : …’’دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ ‘‘(اشتہار۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء۔آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۶۴۷)

یہ سب باتیں جو بظاہر خواب وخیال سمجھی جاتی تھیں اور دشمن ان باتوں کو دیوانے کی بڑ قرار دیتا تھا۔ مگر چونکہ یہ زندہ اور قادرو توانا خدا کا کلام اور الہام تھا جو پوراہوکر رہا اور خلافت ِمسیح موعود مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔شجر خلافت کو جڑوں سے اکھیڑنے کے ارادہ سے آنے والے بےشمار طوفان حصار خلافت سے جس زور سے ٹکراتے رہے اُسی زور سے پاش پاش ہوتے رہے۔ خلافت کا نظام اور اُس کا کام ہر آنے والے دن میں پھولتا اور پھلتا چلا گیا۔سرزمین ہند کی گمنام بستی قادیان میں خلافت کا جو پودا لگا تھا وہ ایک سایہ دار شجر بنتا گیا۔ اُس کی شاخیں ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی بر اعظم ایشیا تک محیط ہوگئیں۔براعظم ایشیا سے آگے یہ شاخیں یورپ، افریقہ، امریکہ، روس، چین، جاپان، آسڑیلیا الغرض دنیا کے ہر بر اعظم اور دنیا کے تمام کناروں تک پھیل گئیںاور خلافت کا یہ آسمانی شجر خوش رنگ پھولوں سے مہکنے لگا۔اِسے کثرت سے شیریں پھل لگنے لگے اور اس پر ایسی بہارو رونق آئی کہ دنیا کی بے شمار اقوام اس کے ٹھنڈے سائے تلے آرام کرنے لگیں۔

آج ہمارے محبوب امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جس طرف بھی نگاہ اُٹھاتے ہیں خدا کی رحمتیں آپ کی پیشوائی اور استقبال کے لیے آتی ہیں۔ آپ جس ملک اور سرزمین کا دورہ فرماتے ہیں اُس ملک کے عمائدین اور سربراہ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ بڑی بڑی حکومتوں کے ایوانوں میں آپ کے استقبال ہوتے ہیں اور جب بڑے بڑے ملکوں میں جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسے ہوتے ہیں تو ان حکومتوں کے سربر آوردہ افراد، ممبران پارلیمنٹ اور سربراہان حکومت کے خصوصی نمائندگان اُن جلسوں میں حاضر ہوتے اور خلافت اور خلافت کا تاج اپنے سرپر سجانے والی اس جماعت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اسے اپنے ملکوں اور سرزمینوں کے لیے باعث رحمت قرار دیتے ہیں۔ بے شمار مبلغ،ہزاروں مساجد،اَن گنت مراکز،لاکھوں کتب، مضبوط پریس، ویب سائٹس، سکولوں، ہسپتالوںاور رفاہی اداروںکا ایک جال دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے علاوہ ازیں مسلم ٹیلیوژن احمدیہ چوبیس گھنٹے اسلام احمدیت کے نام اور پیغام کو دنیا میں پھیلا رہا ہے۔محض خدا تعالیٰ کے فضل، نصرت اور تائید سے لاکھوں نہیں،کروڑوں سعید روحیں مسیح موعودؑ کے مقدس دامن سے وابستہ ہوچکی ہیں اور بیعتوں کا یہ سلسلہ دن رات جاری وساری ہے۔؎

بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں

لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں

قرون اولیٰ کے مسلمان خلافت جیسی نعمت عظمیٰ سے محروم ہوکررفتہ رفتہ قعرِ مذلت میں ایسے گرے کہ دوبارہ اٹھنے کی طاقت باقی نہ رہی۔ آج بھی برکاتِ خلافت سے محروم امت مسلمہ جس کرب اور اذیت میں مبتلا ہے اس کی ہلکی سی جھلک ذیل میں دیے گئے چند بیانات میں دکھائی دیتی ہے۔ ماہنامہ جدوجہد لاہور لکھتا ہے:’’مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تیس ممالک کا ایک عظیم اسلامی بلاک صرف اتحاد واتفاق کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی اقوام سے پٹ رہا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر اس دشمن اسلام اقوام متحدہ کو چھوڑ کر خلافت اسلامیہ کا احیاء کریں۔ ایک فعال قوت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘(ماہنامہ جدوجہد لاہور اگست۱۹۷۴ء)

اخبار جنگ میں ایک کالم نگار لکھتا ہے :’’دنیا کا ہر پانچواں انسان مسلمان ہے لیکن اس کے برعکس سیاسی ومذہبی سطح پر کوئی اتفاق واتحاد نہیں اور مسلمان ملکوںکی حیثیت ایک منتشر اور باہم دست وگریباں گروہ کی سی ہے۔ ایک متحدہ اور متفقہ امت مسلمہ کا کوئی وجود نہیں جس کا ایک مرکز ہو اور جس کے مقاصد میں یکسانیت ہو۔ ‘‘(اخبار جنگ جنوری ۱۹۹۲ء بحوالہ مشکوٰۃ قادیان مئی ۲۰۱۰ء صفحہ ۲۰)

پس خلافت ایک عظیم نعمت ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کی تمام تر ترقیات وابستہ ہیں۔اس لیے اس نعمت کے عطا ہونے پر جہاںہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے وہیں اطاعت خلافت کے عملی نمونوں کا اظہار بھی ضروری ہے تاکہ ہمارے اور ہماری نسلوں کے دلوں میں خلافت کی اہمیت و عظمت ہمیشہ جاگزیں رہے اور ہم اس انعام سے پوری طرح فیضیاب ہوتے رہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button