محبتِ الٰہی کے تناظر میں آنحضرتﷺ کی پاکیزہ سیرت کا ایمان افروز اوردلنشین تذکرہ۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۶؍دسمبر ۲۰۲۵ء
٭…الله تعالیٰ کی محبّت حاصل کرنے کے طریق بھی آپؐ کے اُسوہ سے ہی سیکھنے ہوں گے
٭… آنحضرتؐ کی ساری زندگی عشقِ الٰہی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اِنہی عشقِ الٰہی کے نظاروں کو دیکھ کر مکّہ کے لوگ یہی کہتے تھے کہ اِنَّ مُحَمَّدً عَشِقَ رَبَّہٗ یعنی محمد(صلی الله علیہ وسلم) تو اپنے ربّ پر عاشق ہو گیا ہے
٭… آج ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آنحضرتؐ کےحقیقی ماننے والے ہیں اور ہم نے آپؐ کے غلامِ صادق کے ہاتھ پر بیعت کر کے یہ تجدید اور وعدہ کیا ہے کہ آئندہ ہم اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، تو ہمیں اِس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم نے ہر کام خالصتاً الله تعالیٰ کے لیے کرنا ہے اور اُس کی محبّت میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے
٭… پاکستان کے احمدیوں اور دنیا کے مظلوموں کے لیے دعاؤں کی تحریک
٭…مولانا جلال الدین نیّر صاحب سابق صدر، صدر انجمن احمدیہ قادیان و صدر مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ قادیان اور مکرم میر حبیب احمد صاحب کی وفات پر مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۶؍فتح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۶؍دسمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گذشتہ خطبے میں مَیں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں۔
آج الله تعالیٰ کی محبّت کے حوالے سے آپؐ کی سیرت کے کچھ پہلو بیان کروں گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ کی سیرت کے اِس پہلو سے الله تعالیٰ کی آپؐ سے محبّت کا بھی اظہار ہوتا ہے، صرف آپؐ کی ہی الله تعالیٰ سے محبّت نہیں ، بلکہ الله تعالیٰ کی بھی آپؐ سے محبّت ہے اور پھر الله تعالیٰ نے اِس اظہار کے بعدآپؐ کی راہنمائی فرمائی اور پھر کس طرح اِس محبّت میں مزید بڑھ کر آپؐ نے اپنی اُمّت کی تربیت اورراہنمائی بھی کی۔
الله تعالیٰ قرآنِ کریم میں سورۃ الضّحیٰ میں فرماتا ہے کہ وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَھَدٰی اور جب اُس نے تجھے اپنی قوم کی فکر میں سرگرداں دیکھا، تو اُن کی اصلاح کاصحیح طریقہ تجھے بتا دیا اور الله تعالیٰ کی محبّت کے لحاظ سے اِس آیت کے یہ معنی بنیں گے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے اپنی محبّت میں بے انتہا صدمہ رسیدہ دیکھا، تو آخر تجھے وہ راستہ بتا دیا، جس پر چل کے تُو ہمارے پاس پہنچ گیا۔
اِس سے الله تعالیٰ نے سند دے دی کہ تُو الله تعالیٰ کی محبّت میں سر شار ہے۔ اِس محبّت کا اظہار ہم مختلف روایات میں دیکھتے ہیں، جو محبّت الله تعالیٰ نے آپؐ سے کی تھی اور جو آپؐ کو الله تعالیٰ سے محبّت تھی۔
آپؐ ہی وہ کامل انسان ہیں کہ جن کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ہاں! الله تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ تمہارے لیے اُسوہ ہے، اِن کی پیروی کرنے کی کوشش کرو۔ یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے یہ بھی اعلان کروا دیا کہ لوگوں کو بتا دو کہ تُو کہہ دے کہ اَے لوگو! اگر تم اللہ سے محبّت رکھتے، ہو تو میری اتّباع کرو، اِس صورت میں وہ بھی تم سے محبّت کرے گا، اور تمہارے قصور بخش دے گا ۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پس الله تعالیٰ کی محبّت حاصل کرنے کے طریق بھی آپؐ کے اُسوہ سے ہی سیکھنے ہوں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ الله تعالیٰ سے آپؐ کی محبّت کے جو نظارے ہمیں نظر آتے ہیں، احادیث میں ایسی روایات ملتی ہیں کہ آپؐ الله تعالیٰ سےاُس کی محبّت کے طلبگار ہوتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اَے الله! مَیں تجھ سے تیری محبّت مانگتا ہوں اور اُس کی محبّت جو تجھ سے محبّت کرتا ہے اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں ، جو مجھے تیری محبّت تک پہنچا دے۔ اَے الله! تُو اپنی محبّت مجھے میری ذات، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔
پس یہ وہ دعا ہے، جو آج ہر اُس شخص کو کرنی چاہیے کہ جو آنحضرتؐ سے محبّت کا دعویٰ کرتا ہے اور جو یہ چاہتا ہے کہ وہ بھی الله تعالیٰ سے محبّت کا اظہار کرے، الله تعالیٰ کا محبوب بنے اور الله تعالیٰ اِس پر اپنا فضل فرمائے۔
الله تعالیٰ سے محبّت کے ایک واقعے کا ذکر حضرت عائشہؓ نے یُوں بیان فرمایا ہے کہ مَیں ایک رات رسول اللهؐ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی ، تو مَیں نے رات میں آپؐ کو موجود نہ پایا، مَیں نے رات کے اندھیرے میں آپؐ کو ٹٹولا، تو میرا ہاتھ آپؐ کے پیروں پر لگا، آپؐ سجدے میں تھے اور الله تعالیٰ سے یہ دعا کر رہے تھے کہ مَیں تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں تیری ناراضگی سے، اور تیرے عفّو کی پناہ میں آتا ہوں تیری سزا سے، مَیں ثناء کو تجھ پر شمار نہیں کر سکتا۔ تُو ویسا ہی ہے، جیسے تُو نے اپنے آپ کی تعریف کی ہے۔
اِسی طرح حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللهؐ کی میرے ہاں باری تھی، مَیں سو گئی، تو آپؐ خاموشی سے باہر تشریف لے گئے۔مَیں نے گمان کیا کہ شاید آپؐ اپنی کسی دوسری بیوی کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ مَیں غیرت سے باہر نکلی، تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپؐ ایک کپڑے کی گٹھڑی کی طرح زمین پر سجدہ ریز ہیں، مَیں نے آپؐ کو کہتے ہوئے سنا: تیرے لیے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں، میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے، اے میرے ربّ!یہ میرے دونوں ہاتھ ہیں، جو تیرے سامنے دراز ہیں اور جو کچھ مَیں نے اِن کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا، وہ بھی تیرے سامنے ہے۔
اب آنحضرتؐ تو ایسے کامل انسان تھے ، سوائے نیکیوں کے جن سے کچھ نظر ہی نہیں آتا، لیکن آپؐ بھی فرماتے ہیں کہ مَیں نے اپنی جان پر ظلم کیا، وہ تیرے سامنے ہے۔ اے بہت عظمتوں والے! جس سے ہر بڑی سے بڑی بات کی اُمیدکی جاتی ہے۔ تُو سب بڑے گناہوں کو بخش دے۔آپؓ بیان کرتی ہیں کہ پھر آپؐ نے اپناسرِ مبارک اُٹھایا اور مجھے دیکھ لیا، تو فرمایا کہ کس بات نے تجھے باہر نکالا؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ جو گمان مَیں نے کیا تھا، اِس وجہ سے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یقیناً بعض گمان گناہ ہو جایا کرتے ہیں۔ کیا تجھے مجھ پر شک ہوا؟ یہ تو گناہ ہے۔ الله سے بخشش مانگا کرو۔ پس بدگمانی سے بچنے کے لیے ہر معاملے سے الله سے بخشش مانگنا، اِستغفار کرنا بہت ضروری ہے۔پھر آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جبرئیل میرے پاس آئے تھے اور اُنہوں نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ اِس لیے تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو، جو شخص یہ کلمات پڑھے گا، وہ سجدے سے سر اُٹھانے سے پہلے بخشا جائے گا۔
ایک اور روایت کےمطابق جبرئیلؑ نے کہا کہ آپؐ کا ربّ آپؐ کو ارشاد فرماتا ہے کہ آپؐ اہلِ بقیع کے پاس جائیں اور اُن کے لیے بخشش مانگیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ مَیں بھی اِس ثواب میں داخل ہو سکتی ہوں، اب مَیں بھی وہاں سے ہو کر آئی ہوں ، تو مَیں کیا دعا کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ تم کہو کہ مومنوں اور مسلمانوں میں سے اِس گھر والوں پر سلام ہو اور الله تعالیٰ ہم میں سے آگے جانے والوں اور بعد میں جانے والوں پر رحم فرمائے، اور اگر الله نے چاہا، تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔
حضرت ابنِ عمر رضی الله عنہما نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ رسول الله ؐکی سب سے پیاری اور عجیب بات ، جو آپؓ نے دیکھی ہو،وہ مجھے بتائیں؟ یہ سن کر حضرت عائشہؓ رو پڑیں اور پھر فرمایا کہ آپؐ کا ہر معاملہ ہی پیارا اَور عجیب تھا۔ پھر حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ آپؐ میری باری کی رات میرے پاس تشریف لائے اور مَیں نے آپؐ کا جسم محسوس کیا، تو آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہ! اگر مجھے اجازت دو ، تو آج کی بقیہ ساری رات مَیں اپنے ربّ کی عبادت کروں؟ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے آپؐ کا قُرب اور خواہش دونوں محبوب ہیں۔ وضو کرنے کے بعد آپؐ کھڑے ہوئے اور قرآنِ کریم پڑھنے لگے اور رونے لگے، یہاں تک کہ مَیں نے دیکھا کہ آنسو آپؐ کے دامن تک پہنچ گئے۔ پھر آپؐ نے اپنے دائیں پہلو پر ٹیک لگائی اور اپنے دائیں ہاتھ کو رُخسار کے نیچے رکھا اور پھر رونے لگے، یہاں تک کہ مَیں نے دیکھا کہ آنسو زمین تک پہنچ گئے۔ پھر حضرت بلالؓ آپؐ کو فجر کی اطلاع دینے کے لیے آئے، جب اُنہوں نے آپؐ کو روتے ہوئے دیکھا، تو عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! آپؐ رو رہے ہیں؟ حالانکہ الله تعالیٰ نے آپؐ کے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا مَیں شکر گزار بندہ نہ بنوں!
آنحضرتؐ کی ساری زندگی عشقِ الٰہی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اِنہی عشقِ الٰہی کے نظاروں کو دیکھ کر مکّہ کے لوگ یہی کہتے تھے کہ اِنَّ مُحَمَّدً عَشِقَ رَبَّہٗ یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم تو اپنے ربّ پر عاشق ہو گیا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آنحضرتؐ کا یہ اُسوہ اور الله تعالیٰ کی محبّت کا یہ نمونہ تھا جس کی چند مثالیں مَیں نے پیش کی ہیں، اِسی نمونے کا اثر تھا کہ صحابہؓ میں ایک انقلاب پیدا ہوا اَور اُنہوں نے وہ مقام پایا کہ جس کا اِس سے پہلے تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور یہی وہ کامل اور مکمل تعلیم ہے کہ جسے آپؐ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنایا۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے آپؑ کو بھی آنحضرتؐ کی کامل پیروی کی وجہ سے نوازا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے خواب میں دو دفعہ پنجابی میں مصرعے بتلائے گئے۔ ایک تو یہی کہ جے تُو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو۔ اور ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے ، اِس میں ایک مجذوب ، جس میں محبّتِ الٰہی کا جذبہ ہو، میری طرف آ رہا ہے۔ جب مَیں پاس پہنچا، تو اُس نے یہ شعر پڑھا
عشقِ الٰہی منہ پر وسّے ولیاں اے نشانی
یعنی ولیوں کی نشانی یہی ہے کہ اِن کے منہ پر عشقِ الٰہی برستا ہے۔
مزید برآں حضورِ انور نے فرمایا کہ پس یہ آپؑ کا نمونہ تھا اور اِس لیے آپؑ نے جماعت قائم فرمائی تھی ۔
آج ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آنحضرتؐ کےحقیقی ماننے والے ہیں اور ہم نے آپؐ کے غلامِ صادق کے ہاتھ پر بیعت کر کے یہ تجدید اور وعدہ کیا ہے کہ آئندہ ہم اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، تو ہمیں اِس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم نے ہر کام خالصتاً الله تعالیٰ کے لیے کرنا ہے اور اُس کی محبّت میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے۔
جب ہم یہ کریں گے، تو پھر ہی ہم الله تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بھی بن سکیں گے، آنحضرتؐ کی اُمّت میں ہونے کا صحیح حق ادا کر سکیں گے اور حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنے کا حق ادا کر سکیں گے اور آپؑ کے حقیقی ماننے والوں میں شمار ہو سکیں گے۔ الله تعالیٰ ہمیں اِس بات کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں حضورِ انور نے
پاکستان کے احمدیوں اور دنیا کے مظلوموں کے لیے دعاؤں کی تحریک فرمائی
جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ ہو سکتی ہے
خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے فرمایا کہ
نماز کے بعد مَیں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔
پہلا ذکرہےمولانا جلال الدین نیّر صاحب کا، یہ قادیان میں سابق صدر، صدر انجمن احمدیہ اور صدر مجلس تحریکِ جدید تھے۔گذشتہ دنوں یہ فوت ہو گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔
جلال الدین نیّر صاحب کی ابتدائی تعلیم قادیان میں ہوئی۔ ۱۹۶۳ء میں اِنہوں نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ پھر ان کا تقرر پہلے انجمن میں بطور انسپکٹر بیت المال ہوا اور طویل عرصے تک خدمت کی اور پوری ہندوستان کی جماعتوں کا دَورہ کیا کرتے تھے اور اِس کی وجہ سے بڑی محنت اور محبّت سے افرادِ جماعت کو چندوں میں شامل کیا۔۶۳؍ سال تک مرحوم کو جماعتی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔سات سال تک یہ صدر، صدر انجمن احمدیہ قادیان بھی مقرر رہے اور پھر جب تک صحت کی اجازت رہی توصدر تحریکِ جدید بھی تھے۔عبادت گزار اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور خلافت کی ہر بات پر تعمیل کرنے والوں میں اوّلین لوگوں میں شامل تھے۔الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا ذکر ہے میر حبیب احمد صاحب کا، جو میر مشتاق احمد صاحب کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں ۷۹؍ سال کی عمر میں اِن کی وفات ہوئی ہے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔بڑے شفیق، ملنسار اور خلافت کے فدائی وجود تھے۔ الله تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے۔ اِن کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ اِن کے دادا بابو عبدالرحیم صاحب کے ذریعے ہوا، جنہوں نے حضرت میر قاسم علی صاحبؓ ایڈیٹر رسالہ فاروق کے توسّط سے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی تھی۔
میر حبیب صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی ، بی ایس سی اور پھر اِس کے بعد ایم ایس سی فزکس کی ڈگری حاصل کی۔ پھر باہر بھی چلے گئے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۱ء تک تعلیم الاسلام کالج میں بطور مدرس تدریسی خدمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۶ء نصرت جہاں سکیم کے تحت سیرالیون گئے، جہاں فری ٹاؤن میں فزکس کے اُستاد کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ۱۹۷۶ء میں یہ پاکستان واپس آگئے، پھر ۱۹۷۶ء میں ہی یہ واپس نائیجیریا چلے گئے اور وہاں ۱۹۸۷ء تک گورنمنٹ کے سکول میں کام کیا۔ اور وہیں ۱۹۸۷ء میں ہی اِنہوں نے اپنی زندگی افریقہ میں رہتے ہوئے وقف کر دی۔ اور بطور واقفِ زندگی وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله نے ۱۹۸۷ء میں بطور پرنسپل احمدیہ سینئر سیکنڈری سکول آپ کا تقرر فرمایا جہاں آپ نے ۱۹۹۱ء تک خدمت کی توفیق پائی۔۱۹۹۶ء میں نظارتِ تعلیم کے تحت اِن کا تقرر نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ میں ہوا اَور بطورِ اُستاد یہ فزکس پڑھاتے رہے اور وہیں اِن کی ریٹائرمنٹ ہوئی۔ اِسی طرح صدر عمومی کے دفتر میں بھی اور بطور والنٹئیر عمومی اصلاحی کمیٹی میں کام کرتے رہے۔الله تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
٭…٭…٭



