عیسائیت کی ترویج میں عیسائی مبلغین کا مثالی کردار(قسط اول)
اگر یورپ کے لوگوں کو مذہبی طور پر بھی دیکھا جائے۔تو ان کی قربانیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔افریقہ کے وحشیوں نے سینکڑوں مشنری عورتوں کو بھون کر کھا لیا۔مگر ایک کے بعد دوسری فوراً چلی جاتی اور عیسائیت کی اشاعت میں لگ جاتی اور اگر ایک کی ہلاکت کی خبر پہنچتی ہے۔تو کئی درخواستیں آتی ہیں کہ ہم کو وہاں بھیجا جائے
حضرت عیسیٰؑ کے جسمانی اذیت کو قبول کرنے اور بقول ان کے انسانیت کے لیےاس عظیم قربانی کو پیش کرنے کا عیسائیت کو کیا فائدہ پہنچا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جماعت احمدیہ اور اس کے مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ عیسائی مبلغین نے عیسائیت کے ایک عالمی مذہب نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی کل عالم میں اشاعت کی۔ اور اس زمانے میں جو مسیح محمدی کا زمانہ ہے، حضرت مسیح موعودؑ کے متبعین کی حضرت عیسیٰؑ کے متبعین سے مشابہت ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں عیسائیت کی ترویج ایک آسان مذہب کے طور پر ابھری۔ آسمان پر زندہ نبی کی افضلیت کے معیار نے اکثر کمزور مسلمانوں کے ایمان پر کاری ضرب لگائی، جن کا رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ زمین میں مدفون تھے۔ عمومی طور پر یہ تاثر دیا جاتاہے کہ مغرب سے یہ قوم آئی اور دنیا پر چھا گئی۔ تاہم ایسا بالکل اُن کے لیے آسان نہ تھا۔ عیسائی مذہب شروع سے ہی تختہ مشق بنا رہا۔ گذشتہ صدی تک ان کے مبلغین عیسائیت کی ترویج کے لیے مشکلات اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اور اب بھی بعض افریقی ممالک اور پاکستان جیسے اسلامی جمہوریہ میں عیسائی برادری دیگر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے حصول کے منتظر ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کا مجروح ہونے کے باوجود بھی خود ہجرت کرتے ہوئے ایک گرم علاقے سےگزر کر کشمیر کے مقام تک پہنچنا اور ایک نئے مقام پر بودوباش اختیار کرنا آسان نہ رہا ہوگا۔ اسی لیے خدا تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال رہی اور ہجرت کے بعد بالآخر خدا تعالیٰ نے انہیں ان کے ماحول سے مطابقت رکھنے والے ایک اعلیٰ اونچے مقام پر پناہ دی جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے۔ وَّاٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیۡنٍ (المومنون: ۵۱)
جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر یہ مشاہدہ کیاجاتا ہے کہ سرد موسم بعض لوگوں کے لیے بالکل قابلِ برداشت نہیں ہوتا کیونکہ ان کے ہاں سارا سال گرمی کے ایام ہوتے ہیں۔ جلسہ سالانہ قادیان پر تو ہم نے خود ایسے جنوبی ہند کے لوگوں کو ٹھٹھرتے ہوئے مشاہدہ کیا جنہوں نے کبھی ٹھنڈ دیکھی ہی نہیں۔ اور اس کے مقابل برف پوش علاقوں کے رہنے والے کشمیری احباب اسے درمیانہ موسم سمجھ کر نرم کپڑوں میں گھومتے نظر آتے تھے۔
افریقہ اور دوسرے دوردراز مقامات پر کام کرنے والے مبلغین اور ان کے اہلِ خانہ یہ بتا سکتے ہیں کہ ابتدا میں رہن سہن، غذا اور تہذیب کے تفاوت کے سبب صرف بودو باش اختیار کرنا ہی قریباً ناممکن تھا۔ تاہم خدا تعالیٰ کے حقیقی فضل سے ایک صدی بعد اب ان ہی مبلغین کی اگلی نسل ان علاقوں میں ہی مدارس الحفظ سے اور جامعات احمدیہ سے فارغ التحصیل ہوکر خدمتِ دین کے لیے تیار ہے۔ جنہیں مقامی زبان کے علاوہ، مقامی کلچر میں ڈھلنے اور خوراک کی کوئی دقت نہیں۔ اس مقامی ماحول میں ڈھل کر وہ ایک نئے رنگ میں جماعت کا پیغام پہنچانے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ عملی طور پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔ انہیں موسم، خوراک اور زبان کی ابتدائی مشکلات اس طرح درپیش نہیں جیسے ان کے والدین کو تھیں۔
بات عیسائیت کی ترویج کے زمانہ کی ہورہی تھی۔ عیسائی مبلغین، مغربی محققین، سفرنامے لکھنے والے سیاح اپنی مشکلات کے اس پہلو یعنی خوراک اور طرزِ معاشرت جیسی مشکلات کو کھلے طور پر بیان کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کی برطانوی معروف ترین شخصیت ڈیوڈ لونگ اسٹون( David Livingstone ) کی ڈائریز اورسفر ناموں نے محمدی مسیح کے مبلغ کے دل میں جوش و ولولہ پیدا کر دیا۔ مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اسی زمانہ میں مجھے کہیں سے مشہور انگریز پادری ڈاکٹر ڈیوڈ لوِنگسٹن (Dr David Livingstone ) کی افریقہ میں مہمات سے متعلق تفصیلی ڈائریاں کتابی صورت میں مل گئیں جو انہوں نے افریقہ کے مختلف علاقوں میں گھومتے پھرتے تحریر کی تھیں۔ گو اپنی ان ڈائریوں میں ڈاکٹر مذکور اسلام اور حضرت بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اُگلنے اور تعصّب کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں رہے لیکن پھر بھی میں نے افریقہ کے حالات اور وہاں پادریوں کے طریق کار سے آگاہی کے لیے اور اس خیال سے انہیں دلچسپی سے پڑھا کہ حکمت کی باتیں مومن کا گمشدہ مال ہوتی ہیں وہ اسے جہاں سے بھی ملے حاصل کر لیتا ہے (الحدیث) وہ ڈائریاں پڑھ کر میرے دل میں یہ جوش اور ولولہ پیدا ہوا کہ اگر انیسویں صدی کا ایک متعصب انگریز پادری اپنے مذہب اور قوم کی خاطر افریقہ کے ظلمت کدوں میں ایسی ناقابلِ برداشت تکالیف برداشت کر سکتا ہے۔ تو اسلام جیسے سچے اور بے نظیر مذہب کی خاطر ہمیں کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘(روح پرور یادیں صفحہ۴)
آئیے! دیکھتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے کس طرح موسوی سلسلہ کے مسیح ناصری کے پیروکار عیسائی مبلغین کی اپنے دین کی اشاعت کے لیے کی گئی قربانیوں کا ذکر فرمایا اور اس کے بالمقابل محمدی مسیح کے پیروکاروں سے کیا توقعات رکھیں۔
لوگوں کے دلوں کو محبت و نرمی سے فتح کریں
حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ میں نے متواتر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح اور تبلیغ میں کامیاب ہونے کے لیے اپنے اندر اخلاق فاضلہ پیدا کریں اور اپنی زندگی کو اخلاق کے ماتحت بسر کریں۔دنیا میں آج تک کبھی کوئی قوم دلائل کے ساتھ نہیں جیتی اور کبھی کسی قوم نے صرف دلائل کے ساتھ غلبہ حاصل نہیں کیا۔اگر دلائل کے ساتھ ہی دنیا جیتی جا سکتی تھی یا ولائل کے موجود ہونے کی وجہ سے کوئی قوم غالب آسکتی تھی تو عیسائیت کو دنیا میں کبھی غلبہ حاصل نہ ہوتا کیونکہ تمام وہ مذاہب جو نہایت ہی کمزور اور بوسیدہ بنیاد رکھتے ہیں ان میں سے ایک عیسائیت ہے۔انسان کے عقل کے کسی گوشہ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ ایک کھاتا پیتا انسان۔انسانی حوائج میں گھرا ہوا انسان خدا بن جائے۔اگر انسان تمام تعصبات سے علیحدہ ہو کر اور مخلی بالطبع ہو کر بھی سوچے کہ کسی طرح مسیح کی خدائی اس کے ذہن میں آجائے تو کبھی یہ بات اس کے ذہن میں نہیں آسکتی۔لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں آدمی ہر سال مسیحی ہوتے ہیں۔دنیا میں اس کثرت کے ساتھ مسیحیت پھیل رہی ہے کہ آج دنیا میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسیحی ہیں۔ ایک طرف ایشیا کے بہت سے علاقوں میں مثلاً سائبیریا، آرمینیا کے تمام علاقوں میں مسیحی پائے جاتے ہیں۔اسی طرح افریقہ کا قریباً نصف حصہ مسیحیوں سے بھرا پڑا ہے۔ البتہ ایشیا کے بعض حصے ہیں جن میں اور مذاہب بھی پائے جاتے ہیں۔پس عیسائیت کا غلبہ دلیلوں کی وجہ سے نہیں۔اگر دلائل پر کسی مذہب کا دارو مدار ہوتا تو آج کبھی کی عیسائیت مفقود ہو چکی ہوتی۔اس بات کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کسی دلیل کا غلبہ کے ساتھ تعلق نہیں۔ہاں اپنی اصلاح کے لیے دلیل محرک ہو سکتی ہے۔اور جو لوگ اپنے نفسوں پر قابو رکھتے ہیں ان کے مقابل میں بے شک یہ بڑا ہتھیار ہو سکتا ہے۔لیکن ایسے آدمی بہت کم ہوتے ہیں ایسا آدمی ہزار میں ایک ہوتا ہے، ورنہ کثیر طبقہ وہی ہوتا ہے جو اخلاق سے متاثر ہوتا ہے وہ ایمان لاتا ہے تو کسی کے سر پر چڑھ کر۔وہ مرتد ہوتے ہیں تو کسی کے سر پر چڑھ کر۔وہ صرف ایک ہی دلیل جانتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص ہمارے سامنے لاؤ جس کی ہم اتباع کر سکیں۔کیونکہ یہ طریق ان کو آسان معلوم ہوتا ہے اور مشکل کام کے وہ عادی نہیں ہوتے اور اس طریق سے عیسائیوں نے کام لیا ہے اور اسی ذریعہ سے غلبہ حاصل کیا ہے۔باوجود اس کے کہ مسیحی حکومتیں کئی رنگ میں دنیا کو تباہ کر رہی ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ مسیحی پادری سیاسی خیالات کو چھپاتے ہوئے بھیڑ کی کھال میں اخلاق سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کو گرویدہ بناتے ہیں۔وہ لوگ عیسائیت کو نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے مسیح کو دیکھا ہوتا ہے۔وہ صرف اس بات کو دیکھتے ہیں کہ پادری محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔پس وہ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس کی تعلیم اس کے عمل کے خلاف ہے۔اور اس کی تہ میں سیاسی خیالات کام کر رہے ہیں۔اور حکومت کا یہ پیش خیمہ ہے یہ وجہ ہے کہ وہ عیسائیت جو یورپ کے سوا اور کہیں نہ پائی جاتی تھی اور وہ یورپ کہ جس کے کناروں پر اسلامی حکومتوں کا جھنڈا لہراتا تھا آج بحر ذخار کی طرح دنیا پر پھیل رہا ہے اور اس کی لہریں اس طرح اٹھ رہی ہیں کہ ہر مذہب کانپ رہا ہے کہ شائد یہ لہر اس کا خاتمہ کر دے گی۔وہ لوگ کہ جن کا مطمح نظر گرد و پیش سے چند گز آگے بھی نہیں اٹھتا۔ان کے سوا ہر عقل مند جانتا ہے کہ عیسائی حکومت دنیا پر اب اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اب دنیا کی کوئی ظاہری طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔اور اس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔اور یہ سب کچھ پادریوں کے چند یاد کیے ہوئے فقروں اور ان کے شیریں کلام اور بناوٹی اخلاق کا ہی نتیجہ ہے۔بہت سی جگہیں ہیں کہ جہاں پادریوں نے اس طریق سے کامیابی حاصل کی ہے۔
چنانچہ پشاور ہی کا واقعہ ہے کہ وہاں مدت تک عیسائیت پھیلانے کے لیے کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہوئی۔آخر وہاں ایک پادری پہنچا۔جس نے بازاروں میں علی الاعلان وعظ کرنا شروع کیا۔دوسرے لوگ اسے گالیاں دیتے۔کوئی اس پر تھوکتا کوئی گالی دیتا اور کوئی اس پر راکھ وغیرہ پھینکتا۔وہ جواب دیتا کہ بھائی تم مجبور ہو کیونکہ تمہارا مذہب ایسے ہی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور میں بھی مجبور ہوں کیونکہ میرا مذہب مجھے ایسی ہی برداشت، محبت، نرم دلی سکھاتا ہے۔آخر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ کھڑا ہوا اور نہ صرف علی الاعلان عیسائیت کو قبول کیا بلکہ زمین بھی گر جا کے لیے دی۔جہاں گرجا بنایا گیا۔پھر اسی طرح چین میں بھی عیسائیت کی تبلیغ کی گئی اور آج وہاں بڑے بڑے خاندان سب عیسائی ہو چکے ہیں۔یہ سب بناوٹی اخلاق کا نتیجہ ہے۔جب یہ بناوٹی اخلاق دنیا کو جیت سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سچے اخلاق دنیا کو نہ جیت سکیں۔بار بار تجربہ ہوا ہے کہ مباحثات سے وہ کامیابی نہیں ہوئی جو اخلاق سے حاصل ہوئی ہے۔چنانچہ ہمارے ایک دوست ہیں جو ایسی ایسی جگہوں میں جاتے ہیں۔جہاں کسی طرح بھی احمدیت نہیں پھیل سکتی تھی۔ان کے جانے سے وہاں جماعتوں کی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور وہ ان کے اخلاق کا نتیجہ ہے۔ (خطبات محمود جلد ۱۰ صفحہ ۲۷۳-۲۷۵)
مسیحیوں کی تین سو سال تک گردنیں کاٹی گئیں
پھر ایک جگہ عیسائی مبلغین کی مساعی کو پیش کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’میں نے تمہیں بارہا سمجھایا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ ہم چونکہ تبلیغی جماعت ہیں، اس لیے کوئی دشمن ہماری گردنوں کو نہیں کاٹے گا۔ایسا خیال کرنا، اول درجہ کی نادانی اور حماقت ہے۔میں نے بار بار تمہارے ذہنوں سے اس بات کو نکالا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ جب بھی کوئی ایسا ذ کر آئے، ہماری جماعت کے بعض لوگ فوراً کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کیسی بےوقوفی کی بات ہے، ہم تبلیغ کرنے والے ہیں، لڑنے والے کہاں ہیں کہ ہماری گردنیں کاٹنے کے لیے قو میں آگے بڑھیں گی ؟ مگر یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے۔ دنیا میں ہمیشہ مبلغوں کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔مسیحیوں کی تین سو سال تک گردنیں کاٹی گئیں۔حالانکہ مسیحی جنگ سے جتنے متنفّر تھے، اتنے ہم نہیں۔ہمیں تو اسلام وقت پر لڑائی کی اجازت دیتا ہے مگر مسیحیوں کو لڑائی کی کسی صورت میں اجازت نہیں تھی۔لیکن باوجود اس کے ان کی گردنیں کاٹی گئیں اور سینکڑوں سال تک کاٹی گئیں۔ اسی طرح جب ہم بھی صحیح معنوں میں تبلیغ کریں گے تو دنیا اس بات پر مجبور ہوگی کہ ہماری گردنوں کو کاٹے۔
ابھی تک تو ہم نے تبلیغ کو اس رنگ میں جاری ہی نہیں کیا کہ ہماری جماعت کے آدمیوں کی گردنیں کاٹی جائیں۔تمہارا مبلغ امریکہ میں گیا اور اسے وہاں کی حکومت نے نکال دیا مگر تم نے کیا کیا ؟ تم انا لله وانا اليه راجعون پڑھ کر بیٹھ گئے۔مگر جب حقیقی تبلیغ کا وقت آئے گا، اس وقت یہ طریق اختیار نہیں کیا جائے گا۔فرض کرو تمہارا مبلغ امریکہ میں جاتا ہے اور اسے وہاں کی حکومت نکال دیتی ہے تو اس وقت یہ نہیں ہوگا کہ تم خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہو بلکہ تمہارا دوسرا مبلغ اس جگہ جائے گا، اس کو نکال دیا جائے گا تو تیسرا مبلغ جائے گا، اس کو نکال دیا جائے گا تو چوتھا مبلغ جائے گا، اس طرح ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے شخص کو وہاں جانا پڑے گا اور جب اس طرح بھی کوئی اثر نہیں ہوگا تو ہزاروں شخصوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں اور خواہ انہیں بھوکا رہنا پڑے، خواہ پیاس کی تکلیف برداشت کرنی پڑے، خواہ پیدل سفر کرنا پڑے، وہ جائیں اور اس ملک میں داخل ہو کر تبلیغ کریں جس ملک میں داخل ہونے سے حکومت نے روک رکھا ہے۔ایسی صورت میں کیا تم سمجھتے ہو امریکہ والے تمہیں قتل نہیں کریں گے؟ وہ ہر اس شخص کو جو ان کے ہاتھ آئے گا قتل کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے ملک میں ہمارا کوئی مبلغ داخل نہ ہو۔لیکن اس کے باوجود جو مبلغ داخل ہونے میں کامیاب ہو جائے گا، وہ ایسی شان کا مبلغ ہوگا کہ امریکہ کے لوگ خود بخود اس کی باتیں سننے پر مجبور ہوں گے۔مگر اب تو یہ ہوتا ہے کہ سیکنڈ یا تھرڈ کلاس میں ایک شخص سفر کرتا ہوا جاتا ہے، اسے ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور وہ کسی غیر ملک میں جا کر تبلیغ کرنے لگ جاتا ہے۔ایسا شخص مبلغ نہیں، سیاح ہے۔ مبلغ قومیں وہی ہیں کہ جب حکومتیں انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکتی ہیں تو وہ خاموش نہیں بیٹھ جاتیں بلکہ اپنی تجارت، اپنی زراعت، اپنی ملازمت اور اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر شخص یہ تہیہ کیے ہوئے ہوتا ہے کہ اب میں اس ملک میں داخل ہو کر رہوں گا اور تبلیغ کروں گا۔ایسی صورت میں دوہی باتیں ہو سکتی ہیں یا تو حکومت رستہ دے اور مبلغوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دے یا انہیں داخل نہ ہونے دے اور ان سب کو اپنے حکم سے مروا ڈالے۔اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو قر بانیوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔اگر حکومت رستہ دے گی تو تم تبلیغ میں کامیاب ہوجاؤ گے اور اگر حکومت تمہیں مارے گی تو تم خون کی ندی میں بہ کر اپنی منزل مقصود کو پہنچو گے۔
پس یہ مت خیال کرو کہ مبلغوں کے لیے قربانیاں نہیں ہوتیں۔وہ تبلیغ جو ملکوں کو ہلا دیتی ہے، ابھی تک ہم نے شروع ہی نہیں کی۔لیکن اب اس جنگ (جنگ عظیم دوم۔ناقل)کے بعد غالباً زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا اور تمہیں ان قربانیوں کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلنا پڑے گا۔مگر تم میں سے کتنے ہیں جو یہ قربانیاں کر سکتے ہیں؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ سلسلہ کا خزانہ ان سب کے اخراجات برداشت کرے گا اور اگر دو چار لاکھ آدمی ہماری جماعت میں سے نکل کھڑے ہوں تو سلسلہ کے خزانہ سے ان کو مدد دی جائے گی ؟ سلسلہ کا خزانہ تو ان کے دسویں، سویں، ہزارویں بلکہ دس ہزارویں حصہ کو خالی روٹی بھی مہیا نہیں کر سکتا، کجا یہ کہ ان کے دوسرے اخراجات برداشت کرے۔تب کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ تمہیں کہا جائے گا، تم کچکول[کشکول] ہاتھ میں لے کر نکل کھڑے ہو اور فیصلہ کر لو کہ جب تک اس ملک کی تبلیغ کا راستہ نہیں کھلتا تم واپس نہیں آؤ گے۔
جولوگ آج قربانیوں کے وعدے کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ کل اگر ان سے اس رنگ میں قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نکل کھڑے ہوں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ قربانیوں کا دعویٰ کرنا آسان ہوتا ہے اور شاید اگر موت کا سوال ہوتا تو ہم میں سے ہر شخص اپنی جان دینے کے لیے آگے آجاتا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس بات کے لیے تیار ہیں کہ اگر انہیں سلسلہ کی طرف سے تبلیغ کے لیے غیر ممالک میں نکل جانے کا حکم ملے تو وہ گھر میں آئیں سوئی ہاتھ میں پکڑیں اور اپنی بیوی سے کہیں یہ سب گھر کی چیزیں تمہارے پاس ہیں، تم چکی پیسو اور اپنا اور اپنے بچوں کا گزارہ کرو۔میں امریکہ یا جرمنی یا روس جارہا ہوں کیونکہ وہاں کی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا ہے؟ اسی طرح ہر احمدی اپنے اپنے گھر کے دروازے بند کر کے اور سوئی ہاتھ میں لے کر نکل کھڑا ہو اور اس کے دل میں ذرا بھی یہ احساس نہ ہو کہ اس کی بیوی اور بچوں کا کیا بنے گا اور وہ کس طرح گزارہ کریں گے؟ اگر یہ زمانہ آ جائے تو تم خود ہی غور کر لو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو اپنے نفس کو اس قسم کی قربانی پر تیار پاتے ہیں؟
تم مت سمجھو کہ یہ وقت دور ہے۔اب وہ دن، جن میں جماعت کو اس رنگ میں قربانیاں کرنی پڑیں گی، دور نہیں معلوم ہوتے بلکہ بہت ہی قریب آپہنچے ہیں اور جنگ کے بعد کے قریب ترین عرصہ میں ہمیں ان قربانیوں کو پیش کرنا ہوگا۔تیاری کا وقت ختم ہو رہا ہے، کام کا وقت نزدیک آ گیا ہے۔ اس لیے یہ خیال اپنے ذہنوں میں سے نکال دو کہ ہم لڑنے والی قوم نہیں ہیں۔تم خون کی ندیوں میں چلنے کے لیے تیار رہو، اپنی گردنیں دشمنوں کے ہاتھوں کٹوانے کے لیے آمادہ رہو اور اس بات کو سمجھ لو کہ اس قسم کی قربانیوں کے بغیر جماعتی ترقی ناممکن ہے۔یہ خیال اپنے دلوں میں کبھی مت آنے دو کہ چونکہ تم امن سے رہتے ہو، فتنہ و فساد میں حصہ نہیں لیتے، اس لیے دنیا تمہارا خون نہیں بہائے گی۔با امن قوموں کو بھی دنیا میں مارا جاتا ہے اور ان پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب انہیں کہا جاتا ہے کہ مرتے جاؤ اور بڑھتے جاؤ۔مگر میرے لیے ابھی جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اس میں سے ہر شخص اس رنگ میں قربانی کرنے کے لیے تیار ہو گا ؟‘‘( مطبوعہ الفضل مورخہ ۵ستمبر۱۹۴۲ء بحوالہ خطاباتِ محمود صفحہ۳۶۱تا۳۶۴)
مسیحی سلسلہ کے بروزوں کا غلبہ تدابیر ہوگا
مسیح موسوی اور مسیح محمدی کے باہم ترقی کا تقابل پیش کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے وہ نشان لوگوں کی ہدایت کا زیادہ موجب ہوتا ہے، جو مادی غلبہ بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔مگر مادی غلبہ کے مختلف زمانے ہوتے ہیں۔جو موسوی سلسلہ کے بروز ہوتے ہیں، ان کو مادی غلبہ جلد حاصل ہو جاتا ہے۔کیونکہ انہوں نے شریعت کو قائم کرنا ہوتا ہے۔مگر مسیحی سلسلہ کے بروزوں کا غلبہ آہستہ آہستہ محنتوں، کوششوں اور تدابیر سے ہوتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام گھر سے نکلے اور اپنی زندگی میں ہی ( گو اصل اور آخری نتیجہ ان کی زندگی کے بعد نکلا جس کی وجہ یہودیوں کی ایک غلطی تھی) فتح کی بنیادیں رکھ گئے۔اور آپ کی وفات کے چند سالوں کے بعد آپ کے پیروؤں کے ذریعہ فلسطین فتح ہو گیا۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ہی عرب پر غالب آئے اور مسلمانوں نے اسلامی حکومت قائم کر لی۔مگر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو یہ موقعہ نہیں ملا۔ان کی قوم کو کہیں تین سو سال میں جا کر غلبہ حاصل ہوا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مسیح ناصری کے بروز ہیں۔اس لیے آپ کے کام کو بھی ایک لمبے عرصہ کے بعد، جس میں اسے کئی قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور ہر قدم پر کوشش اور جدو جہد سے کام لینا پڑے گا اور ایسے نازک حالات میں سے گزرنا پڑے گا کہ کمزور ایمان والے مرتد ہونے کے لیے تیار ہو جائیں گے، غلبہ حاصل ہوگا۔ہم کو جو جد و جہد کرنی ہے، اس جدو جہد میں ایک یہ ہے کہ ہماری تبلیغ وسیع ہو‘‘۔ (خطبہ جمعہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۴۵ء خطباتِ محمود جلد۲۶صفحہ ۴۱۶)
حبشی انہیں بھون بھان کر کھا گئے
حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ عیسائیت کی اشاعت کے ضمن میں مسیحی مبلغین کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ ’’جاننے والے جانتے ہیں کہ عیسائی پادریوں نے مسیحیت کی اشاعت کے لیے کس قسم کی قربانیاں کی ہیں۔بعض جگہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ پادری آدم خور علاقوں میں تبلیغ کے لیے گئے اور حبشی انہیں بھون بھان کر کھا گئے مگر جب مرکز میں تار پہنچا کہ فلاں علاقہ میں ہمارے پادریوں پر ایسا حادثہ گزرا ہے تو ہزاروں عیسائیوں نے اُسی دن اپنے آپ کو اس غرض کے لیے وقف کر دیا کہ ہم وہاں تبلیغ کی خاطر جانے کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے اس بات کی ذرا بھی پروا نہ کی کہ اس علاقہ میں مردم خور لوگ رہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔مگر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب مسیح کے ایک مقرب صحابی بلکہ بعد میں ہونے والے خلیفہ کی یہ حالت تھی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُس نے تکلیف کی حالت میں دیکھا اور اسے معلوم ہوا کہ سپاہیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کر لیا ہے تو بعض لوگوں نے اُسے دیکھ کر کہا کہ یہ بھی مسیح کے ساتھیوں میں سے ہے۔اس پر اُس نے کہا میں اس کے ساتھیوں میں سے نہیں، میں تو اُس پر خدا کی لعنت ڈالتا ہوں۔ مگر پھر یہی شخص اس واقعہ کے چالیس یا پچاس سال کے بعد روم میں گیا اور اسے مسیح کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے پھانسی دے دیا گیا اور وہ خوشی سے ہنستا ہو ا صلیب پر چڑھ گیا۔حالانکہ حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ میں یقیناً اس کا ایمان اُس سے بہت زیادہ تھا جتنا ایمان بعد میں اس کے دل میں تھا۔اُس وقت زندہ خدا کے نشانات ہر وقت آنکھوں کے سامنے پورے ہوتے نظر آتے تھے جو بعد میں عیسوی امت کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔پس جس قسم کا ایمان پطرس کو مسیح کی زندگی میں حاصل تھا یقیناً بعد میں ویسا ایمان اس کے دل میں نہ تھا۔مگر اُس وقت اُس نے کیوں قربانی نہ کی اور بعد میں کیوں قربانی کی؟ اسی لیے کہ اُس وقت تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ اس کے دل نے نہیں لگایا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ چیز کتنی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔مگر بعد میں جب وہ صلیب پر چڑھ گیا تو گو اُس وقت اُس کا ایمان ویسا نہیں ہو گا جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا مگر یہ پختگی ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بغیر یہودی قوم اور وہ قبائل جن کی ہدایت کے لیے آپ مبعوث ہوئے دنیا میں کوئی پائیدار کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتے۔اور یہ کہ دنیا میں تغیر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسیح کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اس کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں قائم کی جائے۔چنانچہ وہ اسی اہمیت کی وجہ سے جو اس کے دل پر نقش ہو چکی تھی خوشی سے صلیب پر چڑھ گیا اور اس نے اپنی جان کی پروا نہ کی‘‘۔ (خطبات محمود جلد ۲۵ صفحہ ۳۳-۳۴ )
افریقہ کے وحشیوں نے سینکڑوں مشنری عورتوں کو بھون کر کھا لیا
مسیحی مبلغ عورتیں بھی کسی قسم کی قربانی سے پیچھے نہیں رہیں۔ حضرت مصلح موعودؓان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پچھلے سال شملہ میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔بعض لوگ جسم کو اکڑائے اور سر کو اٹھائے چلتے ہوئے نہایت بھونڈے معلوم ہوتے تھے۔ ان لوگوں نے نقل کی نقل تو کی مگر بھونڈی اور فضول نقل کی۔جوان کے لیے بجائے فائدہ مند ہونے کے اور ذلیل کن ہے۔ کیونکہ انسان معزز کوٹ پتلون و ہیٹ سے نہیں بن جاتا اور نہ ہی یورپ کے لوگ اپنے لباس کی وجہ سے معزز ہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہیں۔ان لوگوں کو اگر اُن کی نقل کرنی تھی تو ان صفات کی کرتے جن سے وہ دنیا میں معزز ہیں۔مثلاً دنیا ہی کو وہ سب کچھ سمجھتے ہیں۔اور اس کے لیے کوئی بڑی سے بڑی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔لیکن اگر ان لوگوں کو کسی دور سفر پر جانے کے لیے کہا جائے۔تو اول تو موجودہ زمانہ میں جہاز کے سفر کے خطرے کو رستے میں روک بنائیں گے۔اور اگر جہاز کا سفر نہ ہو تو کسی ایسی جگہ کا سفر ہو جہاں ریل نہ جاتی ہو تو ریل کے نہ ہونے کا عذر کیا جائے گا۔
پھر اگر یورپ کے لوگوں کو مذہبی طور پر بھی دیکھا جائے۔تو ان کی قربانیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔افریقہ کے وحشیوں نے سینکڑوں مشنری عورتوں کو بھون کر کھا لیا۔مگر ایک کے بعد دوسری فوراً چلی جاتی اور عیسائیت کی اشاعت میں لگ جاتی اور اگر ایک کی ہلاکت کی خبر پہنچتی ہے۔تو کئی درخواستیں آتی ہیں کہ ہم کو وہاں بھیجا جائے۔چین میں اس وقت تک سات ہزار عیسائی مشنری قتل کیا گیا ہے۔لیکن ایک مارا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا چلا جاتا ہے۔ان کی نقل کرنے والے محض لباس اور چال میں نقل اتارنے سے چاہتے ہیں کہ ان کی طرح عزت حاصل ہو جائے مگر اس سے یہ ممکن نہیں۔عزت ان کی عمدہ صفات حاصل کرنے سے ہو سکتی ہے‘‘۔ (خطباتِ محمود جلد ۶ صفحہ ۱۱۰)
(جاری ہے)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: توبہ اور استغفار کے فوائد




