وقف جدید کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات
(انتخاب از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍جنوری ۲۰۲۴ء)
ٹوگو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ ایک احمدی خاتون کے پاس چندہ وقفِ جدید کی رقم موجود نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے گھر کے استعمال کے لیے سبزی اگائی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ سبزی بازار میں بیچ کر اپنا خدا سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور وقفِ جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ بڑی معمولی سی چیز تھی۔ یہ وہی مثالیں ہیں جو صحابہؓ بازار میں جا کے کام کرتے تھے یا حافظ صاحب جو بھی تحفہ ملتا وہ دے دیا کرتے تھے۔
اسی طرح ایک ممبر حمزہ صاحب کے پاس وقفِ جدید کا چندہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ ان کے پاس اپنی مرغیاں تھیں۔ انہوں نے نو مرغیاں بیچ کے چندہ ادا کر دیا۔ یہ غریب لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانی کرتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو پرانے بزرگوں کی یاد بھی تازہ کرتے ہیں۔
انڈونیشیا کے ایک دوست ایمان ہدایت صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میں پیدائشی احمدی ہوں۔ پہلے تو میں صرف ایک ممبر کے طور پر ہی چندہ ادا کیا کرتا تھا۔ ایک عادت پڑ گئی تھی کہ احمدی ہوں، چندہ دینا ہے۔ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کی قربانیوں میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ اس پر میرے تمام بھائیوں نے دونوں تحریکات کے حوالے سے مجھے توجہ دلائی کہ صرف جماعتِ احمدیہ کا ممبر ہونے کی وجہ سےچندہ نہیں دیتے بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے مالی قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ کہتے ہیں چنانچہ میرے اندر بھی تحریکِ جدید اور وقفِ جدید میں حصہ لینے میں دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے دونوں تحریکات میں مالی قربانی شروع کر دی اور ان میں حصہ لینے کے بعد میں نے اپنی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی محسوس کی۔ میں خود کو اللہ تعالیٰ کے قریب محسوس کرتا ہوں۔ مجھے جماعتی ذمہ داری بھی دے دی گئی ہے۔ اسی طرح رزق کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا قول کہ اگر تم چل کر میرے قریب آؤ گے تو میں تمہارے پاس دوڑ کے آؤں گا اس کو میں نے چندے کی برکت سے پورے ہوتے دیکھا۔
میلبرن آسٹریلیا سے ایک دوست اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ وقفِ جدید کے مالی سال کے اختتام سے چند ہفتے قبل تحریک کی گئی کہ جو لوگ مالی طور پر مستحکم ہیں وہ وقفِ جدید میں کم از کم پانچ ہزار ڈالر کی ادائیگی کریں۔ کہتے ہیں میں نے وقفِ جدید کے لیے چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ میرے پاس پانچ ہزار ڈالر نہیں تھے لیکن میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے وقفِ جدید کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی قربانی پیش کرنی چاہیے۔ چنانچہ جمعہ سے واپسی پر میں نے دعا کرنی شروع کی۔ اب یہ اچھے حالات میں تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں تھا۔ ایک لگن تھی، خواہش تھی۔ ان کو دعا کی طرف تحریک پیدا ہوئی تو کہتے ہیں: میں نے دعا کی۔ مَیں بزنس کرتا ہوں۔ چھوٹا موٹا بزنس ہے۔ ایک روز میں آفس میں تھوڑی دیر کے بریک کے لیے باہر نکلا اور یہ دعا بھی کرتا رہا کہ میں اس چندے میں کس طرح حصہ ڈالوں؟ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔ کہتے ہیں جب میں دفتر میں واپس آیا تو میرا بزنس پارٹنر جو کہ عیسائی ہے میرے دفتر میں آیا اور دروازہ بند کر دیا اور بڑی خوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ ایک بڑی خبر ہے۔ مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہنے لگا کہ ایک نئے کاروبار کے لیے ایک گاہک نے سیٹ اپ کی درخواست کی ہے اور اس کی فیس تیس ہزار ہے جس میں سے پندرہ پندرہ ہزار ہم دونوں کے حصہ میں آئیں گے۔ کہتے ہیں میں نے فوراً سمجھ لیا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ میں نے اپنے بزنس پارٹنر کو بتایا کہ میں کیا دعا کر رہا تھا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کا جواب دیا ہے۔ اس پر وہ پارٹنر بھی کہنے لگاکہ چیریٹی کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی رقم بہت زیادہ ہے۔ پھر کہنے لگا تمہاری دعا کی وجہ سے مجھے بھی یہ فائدہ ہوا ہے اس لیے میں بھی حصہ ڈالوں گا۔ یہ رقم تو تم نے ادا کرنی ہے اس میں سے آدھی رقم میں ادا کروں گا۔ لیکن میں نے اسے کہا کہ اَور بھی کئی خیراتی کام ہیں جن میں وہ حصہ ڈال سکتا ہے۔ یہ پانچ ہزار تو وقفِ جدید کا ہے۔ یہ تو میں نے خود ہی دینا ہے۔بہرحال اللہ تعالیٰ نے میری دعا اور خواہش کو قبول کرتے ہوئے مجھ پہ احسان فرمایا۔
فجی بھی ایک دُور دراز کا علاقہ ہے۔ وہاں نومبائع ظینل بیگ صاحب ہیں۔ دو تین سال قبل انہوں نے بیعت کی ہے۔ ابتدائی طور پر جب ان کو تحریکات میں شامل کیا گیا تو معمولی رقم کا وعدہ تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد چندہ عام میں بھی شامل کیا گیا اور نظام کی اہمیت کا بھی ان کو پتہ لگا لیکن اس سال میرے خطبات سن کے موصوف نے از خود ہی اپنے وعدے جو ہیں تحریکِ جدید وقفِ جدید میں بڑھا دیے اور دس گنا اضافہ کر دیا اور ادائیگی بھی کر دی۔ پھر چندہ عام کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہفتہ وار انکم پر چندہ عام کی بھی 16/1 کی شرح کے مطابق ادائیگی کا وعدہ کیا اور باقاعدگی سے ہر ہفتہ اپنی تنخواہ سے تمام چندہ جات کی ادائیگی آ کے کر جاتے تھے۔ یہ نومبائع بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے چندہ میں اضافہ کیا ہے مجھے ملازمت میں ترقی ملی ہے اور کہتے ہیں جنوری 2024ء سے تنخواہ میں مزید اضافہ ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے چندے کی برکت جاننی ہے تو وہ مجھ سے پوچھے۔
مائیکرو نیشیا کے مبلغ ہیںسرجیل صاحب۔ کہتے ہیں یہاں ایک نومبائع سائمن صاحب ہیں مالی قربانی کے حوالے سے ان کو توجہ دلائی گئی اور بتایا گیا کہ یہ چندہ ہم خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے دیتے ہیں۔ کوئی ٹیکس نہیں ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو ایک قرضہ حسنہ قرار دیا ہے۔ اس پر موصوف نے ہر ہفتہ چندہ دینا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد کہنے لگے کہ پہلے جب میں گرجا میں جاتا اور پیسے دیتا تو زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑا لیکن جب سے میں نے جماعت میں آ کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی شروع کی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے ذریعہ سے میری ضروریات پوری کر دیتا ہے کہ میں حیران رہ جاتا ہوں۔
بعض اوقات پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اچانک کوئی آ جاتا ہے اور پیسے پکڑا دیتا ہے۔ کبھی کھانے کی کمی ہوتی ہے تو گھر بیٹھے ہی اللہ تعالیٰ کسی کے ذریعہ ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سائمن صاحب اپنی استعداد سے بڑھ کر مالی قربانی کرتے ہیں۔
تنزانیہ کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ ایک دوست بشیر صاحب نے وقفِ جدید میں اپنا اور اپنی فیملی کا چالیس ہزار شلنگ چندہ ادا کیا۔ ان کی اہلیہ نے دریافت کیا کہ گھر کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں پھر بھی اتنی بڑی رقم چندے میں کیوں دے دی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں مالی قربانی کرنے والے کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ ضرور اسے بڑھا کر لوٹائے گا۔ چنانچہ چند دن میں ہی انہیں دو تین مختلف ذرائع سے ایسا کام مل گیا کہ نہ صرف چندے میں ادا کی گئی رقم واپس آ گئی بلکہ اس سے زیادہ آمد ہوئی۔ کہتے ہیں کہ مجھے تو اس سے پہلے بھی ادراک تھا لیکن میری اہلیہ نے بھی اب اپنی آنکھوں کے سامنے چندے کی برکات مشاہدہ کر لیں اور اس کا بھی ایمان بڑھا۔
مزید پڑھیں: وقف جدید کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات




