حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

وقف جدید کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات

(انتخاب از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍جنوری ۲۰۲۴ء)

ریپبلک آف سینٹرل افریقہ میں وُدَمْبَالا (Vdambala) ایک جگہ ہے۔ وہاں ایک نومبائع عیسیٰ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میں نے نو مہینے پہلے بیعت کی تھی اور 2016ء سے میرے پاس ایک پلاٹ تھا جو میں نے گھر بنانے کے لیے خریدا تھا لیکن رقم نہیں اکٹھی ہو رہی تھی کہ گھر بنا سکوں۔ جماعت میں مَیں شامل ہوا ہوں۔ چندے کی اہمیت اور برکات کے بارے میں سنتا رہا۔ جو بھی خدا کی راہ میں تھوڑی سی قربانی کر سکتا تھا کرتا تھا اور یہی سنتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے کام آسان کرتا ہے اور اموال و نفوس میں ترقی بھی دیتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں میرے دل میں خیال آیا کہ جب ہم غیراحمدی تھے تو ہم نے ایک دفعہ بھی خدا کی راہ میں چندہ نہیں دیا اور نہ ہی اس بارے میں ہمیں کسی نے تحریک کی تو کہتے ہیں اب تحریک ہوئی۔ نومبائعین سے عموماً تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ مجھے کہا گیا تو میں نے وقف جدید میں پندرہ سو سیفا ادا کر دیا اور خدا تعالیٰ نے اس کا اجر اس طرح دیا کہ ایک دوست نے گھر کے لیے دس ہزار اینٹیں بنانے کی پیشکش کر دی اور پھر اینٹیں بنوا بھی دیں۔ وہاں خود بنائی جاتی ہیں۔ سیمنٹ سے بلاک بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح گھر کی تعمیر شروع ہو گئی جس کا کئی سال سے انتظار تھا اور پھر گھر مکمل بھی ہوگیا۔ یہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے ورنہ میرے اندر تو یہ طاقت نہیں تھی اور میرے لیے ناممکن تھا۔

قزاقستان سابقہ روسی ممالک میں سے ایک سٹیٹ ہے۔ وہاں ایک دوست داورین صاحب کہتے ہیں۔ چند دن قبل مجھے معلم صاحب کا پیغام ملا کہ اس سال آپ کی اہلیہ کا وقفِ جدید کا چندہ بہت کم ہے اور لسٹ کے آخر میں ہے۔ اگر ممکن ہو تو کم از کم پانچ ہزار تنگے (Tenge)ادا کر دیں۔ میں نے سوچا کہ اس وقت میری اہلیہ امید سے ہے۔ اس کا آپریشن بھی ہونا ہے بہتر ہے کہ میں پندرہ ہزار تنگے ادا کر دوں۔ جیسے ہی میں نے رقم بھیجی۔ تقریباً بیس منٹ کے بعد مجھے سکول کی طرف سے اطلاع ملی کہ چونکہ میں ایک یتیم کی کفالت بھی کرتا ہوں اور میرے بچے بھی زیادہ ہیں اس لیے وہاں کی حکومت نے مجھے ایک لاکھ تنگے ادا کیے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح میرے لیے تو یہ ایمان کا باعث بنا کہ اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر مجھے لوٹا دیا۔

پھر قرغیزستان ایک اَور سٹیٹ ہے۔ وہاں کے ایک دوست عُرمت صاحب ہیں۔ گولڈ مائن میں کام کرتے ہیں اور چھ مہینےکے بعد چندہ ادا کرتے رہتے تھے۔ جب گذشتہ سال انہوں نے دوسری ششماہی کا چندہ ادا کیا تو شرح سے زائد چھ ہزار قرغیز سُم (Kyrgyzstani som)ان کی جو کرنسی ہے وہ اس میں ادا کردی۔ پوچھنے پہ کہنے لگے کہ چونکہ پوری دنیامیں مہنگائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جماعتی اخراجات میں بھی زیادتی ہوئی ہو گی اس لیے میں شرح سے بڑھا کر اپنا چندہ ادا کر رہا ہوں۔ اس سال بھی انہوں نے جب پہلی ششماہی کا چندہ ادا کیا تو مزید چھ ہزار سُم بڑھا کر چندہ ادا کیا۔ اس طرح تقریباً انہوں نے چالیس فیصد سے زائد چندہ ادا کر دیا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا چاہنے کی مثالیں ہیں۔ کسی نے ان کو تحریک نہیں کی لیکن ضرورتوں کے پیش نظر خود ہی انہوں نے کوشش کی کہ میں بڑھ چڑھ کر ادا کروں۔ لوگ کہتے ہیں کیوں مانگتے ہو؟ ہم نہیں مانگتے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کا پیغام آگے پہنچاتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں قربانیاں کرو۔

فلپائن ایک اَور ملک، دُور دراز کا علاقہ، وہاں کے مبلغ کہتے ہیں کہ خدام الاحمدیہ کے صدر نے بیان کیا کہ میں نے وعدہ کے مطابق وقفِ جدید کی ادائیگی تو کر دی تھی لیکن مالی سال ختم ہو رہا تھا۔ دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وعدے سے بڑھ کر ادائیگی کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنے مرحوم والد، والدہ اور سسر کے نام پر بھی ایک ہزار پیسو (peso)چندہ وقف جدید کی ادائیگی کر دی۔ ان دنوں میں مقامی میونسپلٹی کے دفتر میں رسک ریڈکشن مینیجر (risk reduction manager)کے طور پر کانٹریکٹ پر کام کر رہا تھا۔ نئے سال کی چھٹیوں کے بعد جیسے ہی کام پہ گیا تو مقامی میئر نے میری نوکری پکی کر دی اور میری تنخواہ بھی دگنی کر دی جبکہ میں گذشتہ چار سال سے کنٹریکٹ پہ کام کر رہا تھا اور بار بار درخواست کے باوجود بھی میری نوکری پکی نہیں ہوتی تھی۔ اب کہتے ہیں مجھے یہی یقین ہے کہ یہ جو قربانی میں نے کی ہے اسی کا ثمر ہے اور یقیناً خدا تعالیٰ ہمارے وہم و گمان سے بھی بڑھ کر دینے والا ہے۔

کیمرون افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے مربی کہتے ہیں کہ ایک نوجوان یوسف صاحب ہیں۔ انہوں نے احمدیت قبول کی ہے۔ غریب آدمی ہیں۔ موٹر سائیکل پر سواریاں اٹھاتے ہیں۔ محمد یوسف صاحب کہتے ہیں کہ جب سے میں نے احمدیت قبول کی ہے اور مربی کے کہنے پر تھوڑا بہت چندہ دینا شروع کیا ہے میرے حالات بدلنے شروع ہو گئے ہیں۔ میرا دل بہت مطمئن ہے اور میری زندگی میں چیزیں آسان ہو گئی ہیں۔ اصل چیز دل کا اطمینان ہے۔

کہتے ہیں چندہ دینے سے میرا دل بھی مطمئن ہے۔ میں نے اب ارادہ کیا ہے کہ صرف وقفِ جدید نہیں بلکہ تمام ضروری چندوں میں حصہ لوں گا کیونکہ اس میں میرے لیے اور میری فیملی کے لیے برکت ہے۔ یہ امام مہدی علیہ السلام کی برکت ہے کہ مجھے روحانی سکون ملا ہے اور میں بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ مددگار پیداکرتا ہے۔

تنزانیہ مشرقی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ رُوُومَا (Ruvuma) ریجن کے ایک نوجوان ملاوے صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میری عمر ستائیس سال ہے۔ میں نے چندے کی بہت برکات دیکھی ہیں۔ کھیتی باڑی کرتا ہوں۔ کہتے ہیں اس سال وقف جدید کے چندے کی ادائیگی کرنے کی نیت سے میں نے اپنی فصل متعلقہ ادارے میں جلدی جمع کرا دی اور جو فصل ہوئی اس کو حکومت کو بیچ دیا۔ کہتے ہیں اگرمیں کچھ دن اَور انتظار کرتا تو ممکن تھا کہ میری فصل کی زیادہ قیمت مل جاتی لیکن میں چندہ نہ ادا کر سکتا۔ وقت گزر جانا تھا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ میں نے جب ادارے سے رابطہ کیا تو ان دنوں کسانوں کو جو فصل کی قیمت مل رہی تھی اس سے مجھے زیادہ قیمت مل گئی جس سے میں نے چندہ وقف جدید ادا کر دیا۔ اس ادارے نے کہا کہ لوگ اپنی فصل روک لیتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ قیمت ملے۔ تمہاری ایمانداری کا انعام ملا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری نیت کا پھل دیا ہے تا کہ میں بآسانی اس کی راہ میں قربانی کر سکوں۔

قرغیزستان سے ایک دوست ہیں رَوْزَا مَامَتْ (Rozamamat) صاحب۔ چندہ وقفِ جدید کے بارے میں ہی کہتے ہیں کہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس سے میرا تعارف بھی بہت دلچسپ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں جماعتِ احمدیہ سے متعارف ہوا تو میں نے مبلغ سے پوچھا کہ جماعت کے سارے اخراجات کون ادا کرتا ہے؟ انہوں نے مجھے تفصیل بتائی کہ جماعت کے کیاکام ہیں۔ خلافت کا نظام ہے۔ پھر مختلف تحریکات ہیں۔ وقف جدید اور دوسری مالی قربانیاں ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا۔ تو کہتے ہیں اس سے پہلے میں نے اس قسم کے مالی نظام کے بارے میں نہ کبھی دیکھا تھا نہ سنا تھا۔ میں نے پہلی بار نظام کی یہ باتیں سنی تھیں۔ پھر میں نےحضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دَور میں بیعت کرنے کے بعد ہر مہینے چندہ دینا شروع کر دیا اور ساری زندگی چندے کی بے انتہا برکات دیکھیں۔ جماعت میں شامل ہونے سے پہلے میں اپنی فیملی کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں رہتا تھا۔ ہم بڑی مشکل کی زندگی گزار رہے تھے۔ مختلف جگہوں پر کام کیا۔ کسمپرسی کی حالت تھی۔ نہ جائیداد تھی نہ مستقل آمد تھی۔ چندے کی برکات سے الحمدللہ اب میں نے ایک پورا گھر تعمیر کر لیا ہے۔ اس وقت میرا روزگار مستقل نوعیت کا ہے۔ کام بھی مشکل نہیں اور تنخواہ بھی اچھی ہے۔ یہ سب چندے کی بدولت اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے…

میلبرن آسٹریلیا سے ایک دوست اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ وقفِ جدید کے مالی سال کے اختتام سے چند ہفتے قبل تحریک کی گئی کہ جو لوگ مالی طور پر مستحکم ہیں وہ وقفِ جدید میں کم از کم پانچ ہزار ڈالر کی ادائیگی کریں۔ کہتے ہیں میں نے وقفِ جدید کے لیے چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ میرے پاس پانچ ہزار ڈالر نہیں تھے لیکن میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے وقفِ جدید کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی قربانی پیش کرنی چاہیے۔ چنانچہ جمعہ سے واپسی پر میں نے دعا کرنی شروع کی۔ اب یہ اچھے حالات میں تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں تھا۔ ایک لگن تھی، خواہش تھی۔ ان کو دعا کی طرف تحریک پیدا ہوئی تو کہتے ہیں: میں نے دعا کی۔ مَیں بزنس کرتا ہوں۔ چھوٹا موٹا بزنس ہے۔ ایک روز میں آفس میں تھوڑی دیر کے بریک کے لیے باہر نکلا اور یہ دعا بھی کرتا رہا کہ میں اس چندے میں کس طرح حصہ ڈالوں؟ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔ کہتے ہیں جب میں دفتر میں واپس آیا تو میرا بزنس پارٹنر جو کہ عیسائی ہے میرے دفتر میں آیا اور دروازہ بند کر دیا اور بڑی خوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ ایک بڑی خبر ہے۔ مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہنے لگا کہ ایک نئے کاروبار کے لیے ایک گاہک نے سیٹ اپ کی درخواست کی ہے اور اس کی فیس تیس ہزار ہے جس میں سے پندرہ پندرہ ہزار ہم دونوں کے حصہ میں آئیں گے۔ کہتے ہیں میں نے فوراً سمجھ لیا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ میں نے اپنے بزنس پارٹنر کو بتایا کہ میں کیا دعا کر رہا تھا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کا جواب دیا ہے۔ اس پر وہ پارٹنر بھی کہنے لگاکہ چیریٹی کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی رقم بہت زیادہ ہے۔ پھر کہنے لگا تمہاری دعا کی وجہ سے مجھے بھی یہ فائدہ ہوا ہے اس لیے میں بھی حصہ ڈالوں گا۔ یہ رقم تو تم نے ادا کرنی ہے اس میں سے آدھی رقم میں ادا کروں گا۔ لیکن میں نے اسے کہا کہ اَور بھی کئی خیراتی کام ہیں جن میں وہ حصہ ڈال سکتا ہے۔ یہ پانچ ہزار تو وقفِ جدید کا ہے۔ یہ تو میں نے خود ہی دینا ہے۔بہرحال اللہ تعالیٰ نے میری دعا اور خواہش کو قبول کرتے ہوئے مجھ پہ احسان فرمایا۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ایمان اور اسلام

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button