متفرق مضامین

تین واقعات

(’ابو لطفی‘)

پہلا واقعہ

گجرات میں ایک بہت بارونق اور طویل بازار ہے،جس کے دائیں بائیں شاندار دکانیں ہیں۔ اِس بازار کی جہاں سے ابتدا ہوتی ہے، اس حصے کو ’شِیشیانوالہ گیٹ ‘ کہتے ہیں، اگرچہ بظاہر وہاں کوئی گیٹ وغیرہ نہیں۔ اس بازار میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف سب سے پہلی عمارت ایک مسجد کی ہے ، آگے دکانیں۔ دائیں طرف دکانوں ہی سے شروع ہوتی ہے۔

مذکورہ مسجد سنّی احباب کی ہے ، جس کے نمازی بالعموم دکاندار ہیں ، یا چند دیگر احباب جو وہاں سے گزر رہے ہوں اور نماز کا وقت ہو۔ خاکسار سکول لائف میں گرمیوں کی رخصتوں میں گجرات اپنے بعض عزیزوں سے ملنے جایا کرتا تھا اور کئی بار اُس مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے کا موقع مل جاتا۔ وہاں کے نمازی جانتے تھے کہ خاکسار احمدی ہے۔ جب وہ نماز ظہر باجماعت ادا کر لیتے ، تو عاجز وہاں جا کر وضوکر کے نماز ظہر اپنے طور پر علیحدہ ادا کر لیتا۔ کوئی خاکسار سے تعرض نہ کرتا۔

ایک دفعہ یوں ہوا کہ جب خاکسار نماز ظہر کی ادائیگی کے لیے داخل ہوا تو لوگ نماز ادا کرنے کے بعد ایک ’درویش صورت ‘ بزرگ کا لیکچر سُن رہے تھے۔ عاجز نے نماز ادا کی اور عاجز بھی لیکچر سننے کے لیے ان میں جا بیٹھا ، بلکہ بہت آگے درویش صاحب کے بالکل قریب جگہ پائی۔ یہ ۱۹۵۰ء کی بات ہے جب خاکسار میٹرک کا طالب علم تھا۔

درویش صاحب تقریر میں بیان کر رہے تھے کہ وہ راولپنڈی کے ہیں ، اور یہ کہ امام مہدی پیدا ہو گیا ہے۔ ابھی وہ بچہ ہے، اس بچے کے امام مہدی ہونے کی علامت یہ ہے کہ پیدائشی طور پر اس کے ماتھے پر چاند اور تارا بناہواہے۔ کہنے لگے، میں آپ کو اس کی تصویر دکھاؤں گا۔ خاکسار نے سوچا کہ کسی بھی نوزائیدہ بچے کے ماتھے پر چاند تارا بنا کر فوٹو لی جاسکتی ہے۔ بہرحال خاکسار خاموش رہا کہ بعد میں یہ سوال اٹھایا جائے گا۔ فرمانے لگے کہ اِس بچے کی پرورش میرے سپرد ہوئی ہے، اور میں غریب آدمی ہوں ( اندریں صورت امداد طلب کرنے کے لیے اشارہ تھا )۔

تقریر ختم ہوئی، درویش صاحب تشریف فرما ہوئے۔ عاجزنے کہا کہ ہمیں امام مہدی بچے کی تصویر دکھائیں جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا۔ کہنے لگے، ہاں ہاں ، اور اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا۔ کافی ٹٹولنے کے بعد پاکستانی جھنڈی نکالی، جیسی جھنڈیاں ۱۴؍اگست کو بازاروں، دکانوں وغیرہ کی تز ئین کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ لوگ تو خاموش رہے، عاجز نے عرض کی کہ یہ تو پاکستانی جھنڈی ہے۔ انہوں نے جھنڈی کے چاند تارے پر انگلی پھیر کر فرمایا : یہ چاند اور یہ تارا ، بالکل ایسا ہی بچے کے ماتھے پر ہے۔ خاکسار سمجھ گیا کہ ان کے پاس کوئی تصویر نہیں۔ اور اس معاملے کو آگے نہیں بڑھایا۔

اب خاکسار نے درویش صاحب سے کہا کہ خاکسار کے دل میں ایک سوال ہے بلکہ یہ سب حاضرین کا سوال ہے۔ (لوگوں نے بھی سر ہلا کر میری تائید کی حالانکہ ابھی خاکسار نے سوال نہیں کیا تھا)۔ اگر اجازت ہو تو پوچھوں؟ فرمانے لگے، ہاں ، ضرور ضرور۔ اس پر خاکسار نے کہا کہ وہ بچہ جب چالیس سال کا ہو کر امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا ، تو اس وقت ۱۹۹۰ء ہوگا ، اور پندرھویں صدی ہوگی ، جب کہ امام مہدی نے تو چودھویں صدی میں آنا تھا۔

خاکسار کا یہ کہنا تھا کہ درویش صاحب غضبناک ہو گئے اور کہا یہ تو مرزائیوں والی بات ہوئی، اور ناراض ہو کر اٹھ کر مسجد سے باہر جانے لگے، لوگ بھی کھڑے ہوگئے، خاکسار کے پیچھے پڑ گئے کہ تم نے درویش صاحب کو ناراض کر دیا ہے۔ خاکسار نے کہا، خاکسار نے ناراض نہیں کیا ، اجازت لے کر ایک معقول سوال کیا ہے اور آپ لوگوں نے بھی اُس وقت سر ہلا کر ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ بہرحال درویش صاحب باہر جانے لگے تو عاجز نے دائیں بائیں بازو پھیلا کر انہیں جانے سے روکا اور عرض کی کہ تشریف رکھیں اور ہمیں سوالوں کے جواب عطا کرکے ممنون فرمائیں۔ وہ باہر جانے کی کوشش کریں اور عاجزانہیں روکے۔ پھر جس طرح کبڈی میں داؤ لگا کر کھلاڑی نکل جاتا ہے، اسی طرح داؤ لگا کر خاکسار کے کندھے پر دھکا دے کر باہر نکل گئے۔

لوگ بار بار کہیں کہ تم نے بزرگ کو ناراض کیا ہے، اور آئندہ کے لیے خاکسار کا داخلہ اس مسجد میں ممنوع قرار دے دیا۔ اور کہا کہ مرزائی کی وجہ سے مسجد ناپاک ہو گئی ہے اسے دھونا چاہیے۔ خاکسار نے تو اندر صفوں پر نماز ادا کی تھی۔ اگر مرزائی کے داخلے سے مسجد ناپاک ہو جاتی ہے تو کیا وہ پہلے نا پاک مسجد میں نماز ادا کرتے رہے ہیں کیونکہ خاکسار اُن کے سامنے کئی بار اِس مسجد میں نماز ظہر ادا کر چکا تھا۔ اگر پہلے خاکسار کے داخلے سے مسجد ناپاک نہ ہوئی تھی تو اب کیسے ناپاک ہوگئی؟

بہرحال مسجد دھونے کا فیصلہ ہوا۔ مسجد میں کنواں تو موجود تھا ہی، مگر ان کی غیرت بہت سیانی تھی۔ پوری مسجد کی صفیں نکال کر دھو نا ایک مشکل کام تھا ، انہوں نے مسجد کو پاک کرنے کے لیے مسجد کے بیرونی دروازے کی دہلیز اور ساتھ ایک آدھ فٹ زمین پر خوب پانی ڈال ڈال کر دھونا شروع کیا۔ خاکسار وہاں سے چلا آیا۔ گرمیوں کی رخصتیں بھی ختم ہورہی تھیں، عاجز واپس اپنے گھر سرگودھا آگیا جہاں عاجز کے والدمحترم نہر کے محکمے میں سرکاری ملازم تھے۔ اب تو ۲۰۲۵ء میں سے ہم گزر رہے ہیں۔ کہاں ہے وہ چاند تارے والا امام مہدی؟ اگر اُن نمازیوں میں سے بعض زندہ ہیں تو وہ ضرور سوچتے ہوں گے۔

دوسرا واقعہ

دوسرا واقعہ تنزانیہ سے متعلق ہے۔ یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے۔ جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ موضع مٹاما (Mtama) میں مورخہ ۱۵ تا ۱۷؍ستمبر ۱۹۷۸ء کو منعقد ہو رہا تھا۔ یہ گاؤں جہاں ہماری اچھی جماعت ہے تنزانیہ کی بندرگاہ Lindi سے قریباً اڑھائی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور Lindi دارالسلام سے جنوب کی طرف قریباً ۴۵۵؍کلومیٹر دُور۔ رستے میں دریا بھی آتا ہے جو بذریعہ Ferry عبور کیا جاتا ہے۔ جماعت احمدیہ دارالسلام نے ایک بس کرائے پر لی، اور بس کے مالک کو آنے جانے کا کرایہ نقد ادا کر دیا۔

۱۴؍ستمبر کو ہم دار السلام سے دعا کے بعد روانہ ہوئے اور بفضلہ تعالیٰ بخیریت عصر کے قریب مٹاما پہنچ گئے۔ سفر بہت خوشگوار رہا اور دعائیں کرتے ، خدا کی حمد کرتے گزرا۔

اس فرصت میں جلسہ سالانہ کی رُوداد بیان کرنا مقصود نہیں۔ ہاں اتنا بتا دینے میں کوئی حرج نہیں کہ ۱۵؍ستمبر کو جلسے کے افتتاح کے بعد تقریر ہو رہی تھی کہ مخالفین کا ایک چھوٹا سا جلوس، بلکہ ’جُلُوسی‘ ہمارے خلاف نعرے مارتی ہوئی پنڈال سے کچھ فاصلے پر سے گزر گئی۔ جلسہ خدا کے فضل سے کامیاب اور بڑا بابرکت رہا۔ اِس وقت یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے ایک خطرناک کیفیت سے جس سے ہم دوچار ہو سکتے تھے، کس طرح ہمیں بچانے کی کارروائی فرمائی۔

تین دن کے کامیاب اور بابرکت جلسہ سالانہ کے بعد اگلے دن یعنی پیر کو مٹاما سے واپس دارالسلام آنا تھا۔ بس کے مالک کو ہدایت تھی کہ پیر کو صبح آٹھ بجے بس مٹاما پہنچ جائے۔

آٹھ بج گئے اور بس نہ آئی۔ احباب بروقت سامان باندھ کر سڑک کے کنارے موجود تھے۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد خاکسار نے مقامی جماعت سے کہا کہ بس کا اڈا ڈیڑھ دو میل دور Lindi میں ہے ، فوری طور پر سائیکلوں پر جاکر بس نہ آنے کی وجہ معلوم کریں۔ زیادہ تاخیر ہونے پر ہم شام تک دریا پر نہ پہنچے تو Ferry کی سروس بند ہوجائے گی، اور ہمیں دریا کے کنارے صبح ہونے تک ٹھہرنا پڑے گا۔

خدام فوراً روانہ ہوگئے اور جلد ہی واپس آکر بتایا کہ بس کے مالک سے بات ہوئی ہے ، اس نے بڑی ندامت سے معذرت کی اور بتایا کہ جب وہاں دوسری بس کمپنیوں کو معلوم ہوا کہ میں احمدیوں کو اپنی بس میں مٹاما لایا ہوں تو انہوں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں لانے کی غلطی تم کرچکے ہو۔ اب اگر واپس بھی لے گئے تو تمہارا یہاں بائیکاٹ کر دیا جائےگا اور تمہارا اڈہ یہاں ختم ہو جائے گا۔ اس لیے میں مجبور ہو گیا اور بس نہ بھجوائی۔ پھر کہا کہ آپ خاطر جمع رکھیں، میں نے خفیہ طور پر انہیں میں سے ایک بس کمپنی سے آپ کو واپس لے جانے کی بات کی ہے اور آپ کی واپسی کی رقم بھی ادا کر دی ہے۔ نصف گھنٹے تک بس آپ کے پاس پہنچ جائے گی۔

نصف گھنٹے کے بعد بس وہاں آ چکی تھی۔ اجتماعی دعا کے ساتھ ہم روانہ ہوئے۔ سفر تو خوشگوار گزرا ، مگر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ جب ہم دریا پر پہنچے تو Ferryسروس بند ہوچکی تھی۔ مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہوا کہ دریا کے کنارے ایک وسیع رقبے پر ترپال سے بنا ہوا ہوٹل تھا۔ نیچے زمین چٹائیوں سے ڈھانکی گئی تھی۔ ہمیں وہاں ایک وسیع حصہ مل گیا۔ مستورات اور بچوں کا علیحدہ حصہ تھا اور مردوں کا علیحدہ۔ ہم نے اپنے اپنے بستر لگا دیے۔ جلسہ سالانہ پر پکی ہوئی مقامی چاولوں کے پُلاؤ کی دیگ ہمارے ساتھ تھی۔ سب نے کھانا کھایا۔ باجماعت نمازیں ادا کیں۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ دریا کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سکون بخش تھی۔ اور اوپر سولہویں کا چاند چمک رہا تھا۔ دلفریب نظارہ تھا۔

رات بہت آرام سے گزری۔ نماز فجر باجماعت ادا کرنے کے کچھ دیر بعد ناشتہ کیا۔ اب Ferry سروس شروع ہو چکی تھی۔ دعاؤں کے ساتھ سفر شروع ہوا اور ہم بخیریت دارالسلام پہنچ گئے۔

اگلے روز اُس بس کا مالک خاکسار کے پاس دفتر میں آیا جو ہمیں مٹاما لے کر گیا تھا، اور بہت معذرت کی اور بہت شرمندگی کا اظہار کیا۔ خاکسار نے اسے تسلی دی اور کہا کہ آپ مجبور تھے مگر آپ نے ہمارا انتظام تو کر دیا تھا۔ کہنے لگا مگر خدا نے مجھے میری اس حرکت کی عبرت ناک سزا دی ہے۔ خاکسار نے حیران ہو کر پوچھا کیا مطلب ؟ کہنے لگا۔ آپ لوگ تو خیریت سے آگئے۔ اس کے بعد میری بس جب مٹاما سے دارالسلام آرہی تھی تو سامنے سے آنے والی ایک تیز رفتار بس سے تصادم ہوگیا۔ یہ Head on collision تھا۔ میری بس مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ کئی مسافر مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ مجھے نہ صرف شدید نقصان ہوا، بلکہ میری کمپنی کی مشہوری پر بھی برا اثر پڑا۔ انشورنس والے پورا خرچ تو نہیں دیں گے، مجھے پورا یقین ہے کہ یہ خدا کی طرف سے مجھے سزا ملی ہے۔ مجھے معاف کر دیں۔

وہ تویہ کہہ کرچلے گئے۔ مگر میرا دل اس یقین سے لبریز تھا کہ ہماری بس نہ آنے اور کسی دوسری کمپنی کی بس مہیا ہونے کی ساری کارروائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری حفاظت کے لیے ہوئی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ جلَّ شانُہٗ کی عظیم خفیہ طور پر ہماری نصرت تھی۔ فالحمدللہ علی ذٰلک۔

تیسرا واقعہ

تنزانیہ کا ایک اور واقعہ : یہ ۱۹۸۰ءکی بات ہے۔ ہمارا جلسہ سالانہ بمقام lbiri تھا جو ٹبورا شہر سے شاید ڈیڑھ دو میل دُور ہوگا۔ یہاں یہ وضاحت مفید ہوگی کہ ملک کا جلسہ سالانہ کبھی دارالسلام،کبھی مٹاما اور کبھی lbiri وغیرہ میں ہوتا۔ واضح ہو کہ اُن دنوں ملک میں سڑکیں کچی تھیں اور وہ بھی بالعموم ناگفتہ بہ حالت میں۔ دُور دور سے سفر کرکے دارالسلام پہنچنا خاصا مشکل کام تھا، اس لیے باہر سے تو چند ایک دوست ہی آ سکتے تھے زیادہ مرکزی مقام سے دوست مستفید ہوسکتے تھے۔ لہذا عاجز نے یہ عارضی طریق جاری کیا کہ ہر سال دور دور کے مختلف مقامات پر جلسہ سالانہ ہوا کرے تاکہ ان مقامات کے دوست بھی کثرت سے مستفید ہو سکیں۔ باقی مقامات سے جتنے آسکیں آ جائیں۔ یہ عارضی انتظام تھا۔ اب خدا کے فضل سے پکی سڑکیں بن چکی ہیں اور تنزانیہ وکینیا میں بھی جلسہ سالانہ مرکزی شہر میں ہوتا ہے۔

آمدم برسر مطلب۔ جلسہ سالانہ lbiri میں جو ۲۶تا۲۸؍ ستمبر ۱۹۸۰ء کو منعقد ہو رہا تھا، دارالسلام جماعت نے ٹرین کی دو بوگیاں ریزرو کرا لیں۔ ایک مردوں کے لیے اور ایک عورتوں و بچوں کے لیے۔

لمبا سفر تھا۔ دارالسلام سے ٹبورا ۸۵۰؍کلومیٹر بذریعہ ٹرین ہے۔ یہ اٹھارہ، سوا اٹھارہ گھنٹوں کا سفر تھا۔ سب کا سامان وغیرہ تیار تھا اور ریلوے اسٹیشن پر جانے والے تھے کہ خاکسار کو اچانک خیال آیا کہ جماعت کی ایک رقم جو اس زمانے کے لحاظ سے کچھ بڑی تھی مشن میں چھوڑ کر جانے کی بجائےبینک میں جمع کرا دینی چاہیے۔ وقت تھوڑا تھا اور بینک میں کم بھیڑ ہو تب بھی ہر ایک کی رقم کو cashier صاحبہ دو دو دفعہ گن کر پھر فارغ کرتیں۔ خاکسار رقم لے کر بینک پہنچ گیا۔ دو تین لوگ ہی میرے آگے تھے مگر ہر ایک پر کافی وقت لگ رہا تھا۔ خاکسار نے دل ہی دل میں دعا شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ خاکسار کو بروقت یہاں سے فارغ کر دے تاکہ گاڑی چھوٹنے سے پہلے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ سکے۔ سامان تو جا چکا تھا۔ خدا خدا کرکے خاکسار کی باری آئی۔ اللہ تعالیٰ نے عاجز کی دعا قبول فرمائی۔ میری باری آئی تو cashier صاحبہ نے پوچھا کتنی رقم ہے؟ بتائی تو اس نے بغیر ایک بار گنے مہر لگا کر رسید مجھے تھما دی اور خاکسار بروقت ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا اور کچھ دیر بعد گاڑی چل پڑی۔ یہ محض خدا کا فضل تھا۔ ورنہ بینک میں کبھی نہیں ہوا کہ بغیر رقم گنے رسید دے دی جائے۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک

سفر بہت خوشگوار تھا۔ باقی گاڑی تو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ بہت بھیڑ تھی۔ ہم ریزرویشن کرا لینے کی وجہ سے آرام میں تھے۔ دعاؤں کے ساتھ سفر کا آغاز ہوا ، اور دعائیں کرتے ہی گزرا۔ نصف سے کچھ زیادہ سفر کے بعد گاڑی ڈوڈوما (Dodoma) پہنچی جو آجکل تنزانیہ کا دارالحکومت ہے۔ وہاں کے ایک مخلص احمدی دوست مسٹر حسن توفیق سلیمان جو ایک وکیل کے دفتر میں کام کرتے تھے ، نے ڈوڈوما کی سوغات سیاہ انگوروں (Black Currant) کے بڑے بڑے گچھے اخلاص سے لا کر پیش کیے۔ جو دونوں بوگیوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ مسٹر سلیمان نے بتایا کہ وہ بھی کل جلسہ سالانہ کے لیے ٹبورا پہنچ رہے ہیں۔

مسٹر حسن توفیق سلیمان کا خدا کے فضل سے جماعت کے لٹریچر کا گہرا مطالعہ ہے۔ سواحیلی اور انگریزی لٹریچر پڑھ چکے ہیں۔ ٹبورا میں ایک موقع پر خاکسار کو بتایا کہ میں نے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ  کی کتاب Where did Jesus Die کا مطالعہ کیا ہے۔ اور کہا کہ مجھ پر گہرا تاثر ہے کہ مولانا صاحب ولی ہیں۔ تعجب ہے کہ حسن توفیق سلیمان صاحب نے کبھی مولاناشمس کو نہیں دیکھا تھا اور مذکورہ کتاب میں ان کی نجی زندگی کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ موضوع ہے کہ عیسٰی ؑ صلیب پر فوت نہیں ہوئے وغیرہ۔

دارالسلام سے شام ۵ بجے چل کر اگلے روز صبح سوا آٹھ بجے کے قریب ہم ٹبورا پہنچے۔ احباب جماعت استقبال کے لیے سٹیشن پر آئے ہوئے تھے۔ اس دن سب نے آرام کیا۔

اگلے دن یعنی ۲۶؍ستمبر کو بروز جمعہ ہم پیدل lbiri روانہ ہوئے۔ کچی سڑک تھی جس پر باریک مٹی کی دبیز تہ تھی کہ جوتے ٹخنوں تک اس میں دھنستے تھے۔ راستے میں احباب نے بتایا کہ اِمسال یہاں بارشیں نہیں ہوئیں اور نہ ہی بارش کے کوئی آثار ہیں۔ فصلوں کو بہت نقصان پہنچا ہے اور مزید نقصان کا خدشہ ہے۔ یہاں غیر احمدی دوستوں نے ہمیں کہا ہے کہ آپ کے بڑے دارالسلام سے آرہے ہیں، ان سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کریں۔ خاکسار نے کہا کہ چل کر جلسے میں سب مل کر اجتماعی دعا کریں گے۔

جلسہ کا افتتاح ہوا۔ اور اجتماعی دعا بارش کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کی گئی۔ پھر خدا کے فضل سے اچانک بادل آئے اور خوب بارش ہوئی اور جلسے کی پہلی نشست کے بعد ہم کیچڑ میں لَت پَت واپس آئے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہی تھا ، جس سے غیر احمدی احباب بھی متاثر ہوئے۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔

اس جلسے کے موقع پر حکومت کی اجازت سے ٹبورا مسجد پر لوائے احمدیت لہرایا گیا۔

ہر جلسہ سالانہ کے پروگرام میں دوسرے دن وقفہ سوال و جواب بھی رکھا جاتا تھا۔ اس وقفے میں تمام مرکزی و مقامی مبلغین اورمعلمین سٹیج پر آ جاتے۔ حاضرین جن میں غیراحمدی اور عیسائی بھی ہوتے کھلی اجازت ہوتی کہ مذہب کے بارے میں جو چاہیں زبانی سوال کریں۔ ہر سوال پر خاکساران میں سے کسی ایک مبلغ یا معلم کو جواب دینے کے لیے کہتا۔ اگر کسی جواب میں مزید ضرورت ہوتی تو عاجز اسے پوری کردیتا۔ lbiri کے جلسے میں بھی سوال جواب کا وقفہ رکھا گیا تھا۔ ہمارے علماء خدا کے فضل سے نہایت عمدہ جوابات دیتے رہے۔ اچانک ایک نے جو غالباً عیسائی تھا، سوال کر دیا کہ حضرت عیسٰیؑ کے بارہ حواریوں کے نام کیا تھے ؟

خاکسار کا تاثر تھا کہ کسی کو بارہ حواریوں کے نام زبانی یاد نہ ہوں گے۔ نہ ہی خاکسار کے ذہن میں وہ سب نام محفوظ تھے۔ خاکسار کو خیال آیا کہ ہمارے ایک نئے احمدی نوجوان Mr. Athumani Mlandula جو دارالسلام سے جلسے پر آئے ہوئے تھے انہیں ضرور یہ نام یاد ہونگے۔ وجہ یہ کہ جب وہ احمدی ہوئے تو انہوں نے قرآن کریم ناظرہ نہیں پڑھا ہوا تھا۔ اس پر تو کافی عرصہ لگنا تھا۔ لیکن تبلیغ کے جوش کو وہ دبا نہیں سکتے تھے، لہذا انہوں نے قرآن کریم کے سوا حیلی ترجمہ سے متعلقہ آیات کا سواحیلی ترجمہ زبانی حفظ کر لیا مع حوالہ جات۔ جب وہ اپنی تبلیغی کارروائی کی رپورٹ پیش کیا کرتے تو یوں کہتے، مثلاً مخالف نے قرآن کریم کی فلاں نمبر کی سورت کی آیت نمبر فلاں پڑھی۔ میں نے جواباً فلاں نمبر کی سورت کی فلاں نمبر کی آیت پڑھ دی۔ اس نے فلاں نمبر کی سورت کی فلاں نمبر کی آیت پڑھی تو میں نے فلاں نمبر کی سورت کی آیت نمبر فلاں پڑھ دی۔ سورت کا نام نہیں بلکہ نمبر اور آیت کا بھی نمبر۔

اسی طرح بائبل کے بھی اقتباسات سواحیلی زبان میں مع حوالہ جات حفظ کرلیے۔ اور خوب تبلیغ کیا کرتے۔ میرا تاثر تھا کہ انہیں حضرت عیسٰیؑ کے بارہ حواریوں کے نام یاد ہوں گے۔ اس پر خاکسار نے مذکورہ سوال کے جواب کے لیے اعلان کیا کہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے خاکسار مسٹر Mlandula کو دعوت دیتا ہے جو سامعین میں بیٹھے ہیں۔ Mlandulaصاحب فوراًسٹیج پر آئے اور آتے ہی کہا کہ متی باب ۱۰ میں بارہ حواریوں کے نام درج ہیں جو یہ ہیں۔ اور تمام نام بالترتیب بیان کرکے واپس اپنی جگہ پر سامعین میں جا بیٹھے۔ الحمدللہ۔

جلسے کے بعد اگلے دن کے لیے پہلے سے پروگرام طے تھا کہ احباب واپس گھروں کو نہیں جائیں گے بلکہ شہر ٹبورا میں گروپس کی صورت میں مختلف حصوں میں تبلیغ کے لیے لٹریچر لے کر نکلیں گے۔ خاکسار نے یہ پروگرام اس لیے رکھا کہ ٹبورا شہر میں شروع سے شدید مخالفت چلی آ رہی تھی اور بعض دوست کھل کر تبلیغ کرنے میں ہچکچاتے تھے۔ خاکسار نے تمام گروپوں کو نصائح بھی کیں اور ہمت دلائی کہ بلاخوف یہ کام کریں، کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہوگی۔ چنانچہ سب گروپس لٹریچر لے کر اپنے مقررہ حصوں میں چلے گئے۔ اور جب کئی گھنٹوں کے بعد آئے تو نہایت خوش تھے کہ لوگوں نے دلچسپی سے باتیں سنیں اور ہمارا لٹریچر شوق سے خریدا۔ اس طرح وہاں کی مقامی جماعت کے بعض کمزور احباب کو خوب تقویت ملی۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک۔ پھراحباب گھروں کو لوٹے۔ دارالسلام کے احباب جماعت نے جو دو بوگیاں آنے جانے کے لیے ریزرو کرائی تھیں موجود تھیں، اور ہم بخیر و خوبی کامیاب و کامران، خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے واپس دار السلام آئے۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔

مزید پڑھیں: تسہیل حواشی

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button