مکرم حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم کینیا
ہمارے نہایت مخلص عرب احمدی پیارے بھائی مکرم حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم جماعت احمدیہ کینیا ابن مکرم محمد حبیب شاتری صاحب مورخہ ۲۶؍دسمبر ۲۰۲۴ء کو علی الصبح بوجہ عارضہ قلب بعمر ۵۶؍سال وفات پا گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اسی روز شام کو بعد نماز عصر خاکسار نے ممباسہ میں آپ کی نماز جنازپڑھائی اور احمدیہ قبرستان ممباسہ میں سینکڑوں سوگواران کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا، اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودوہ ۳۱؍جنوری ۲۰۲۵ء میں آپ کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورِ انور نے فرمایا: دوسرا جنازہ غائب حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم کینیا کا ہے جو محمد حبیب شاتری صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ عرب نژاد تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں چھپن سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ اور تین بچے شامل ہیں۔
کینیا کے امیر جماعت ناصر محمود طاہر صاحب کہتے ہیں کہ ان کے آباءواجداد کا تعلق یمن سے تھا اور ان کے والد حبیب شاتری صاحب نے اگست ۱۹۸۲ء میں بیعت کی اور بڑے مخلص احمدی تھے اوریہ مرحوم ان کے بڑے بیٹے تھے۔والد کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی اور بیعت کا عہد تا وقت وفات خوب نبھایا۔ بنیادی تعلیم ممباسہ سے حاصل کی۔ نہایت قابل اور لائق طالبعلم تھے۔ سکول کی طرف سے کچھ عرصہ کے لیےان کو فرانس بھی تعلیم کے لیےبھجوایا گیا۔ ہمیشہ خلفاء سے ملاقات کے واقعات کو اپنی زندگی کے بہترین واقعات بیان کیا کرتے تھے۔ خلیفہ رابع ؒسے بھی ملے تھے، مجھ سے بھی ملے تھے۔ مختلف رنگ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ وفات کے وقت بھی نیشنل سیکرٹری تعلیم اور نائب امیر دوم کینیا کی خدمت بجا لا رہے تھے۔
کہتے ہیں کہ میں ان کو بیس سال سے جانتا ہوں۔ واقفین کا بہت احترام کرنے والے اور پھر جو کام بھی ان کے ذمہ لگایا جاتا اس کو نہایت سنجیدگی سے کرتے۔ کبھی یاددہانی کروانے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ نمازوں کے پابند، شعائر اللہ اور حدود اللہ کا باریکی سے خیال رکھنے والے، چندہ جات میں باقاعدہ، عمدہ اخلاق کے مالک، غریبوں کی خبرگیری کرنے والے، والدین کی اطاعت اور حقوق ادا کرنے والے، چھوٹے بہن بھائیوں کا بھی حق ادا کرنے والے، صائب الرائے، نیک مخلص اور باوفا انسان تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مالی کشائش بھی دی ہوئی تھی۔ دنیاوی لحاظ سے اچھے کاروباری، سیاسی اور سرکاری اور مذہبی لوگوں سے واسطہ رہتا تھا مگر کبھی اپنی احمدیت کو نہیں چھپایا بلکہ اظہار کر کے تبلیغ بھی کر دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے جنازے پر کثرت سے ممباسہ کی اعلیٰ سرکاری، کاروباری، سیاسی اور سماجی شخصیات شامل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے سب لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔(خطبہ جمعہ ۳۱؍جنوری ۲۰۲۵ء)
آپ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۶۸ء کو زنزبار میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباءو اجداد کا تعلق یمن سے تھا۔ آپ کے والد مکرم محمد حبیب شاتری صاحب نے اگست ۱۹۸۲ء میں ممباسہ میں بیعت کرکے جماعت میں شمولیت اختیار کی اور ابھی تک حیات ہیں اور مخلص احمدی ہیں۔ آپ بڑے بیٹے تھے اور والد کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد آپ نے بھی ۱۹۸۳ء میں بیعت کرلی اور تا دم مرگ اس بیعت کے عہد کو بخوبی نبھایا۔آپ نےبنیادی تعلیم ممباسہ اور ثانوی تعلیم کبرک ہائی سکول اور Kabarak University Kakuru
سے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی۔ جب سکول کی طرف سے کچھ عرصہ کے لیے فرانس بھجوائے گئے توفرانس سے واپسی پر آپ کو ہوئی اڈے پر ہی حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ کے کینیا کے ۱۹۸۸ء کے دورے پر پیارے آقا کا دیدار کرنے اور الوداع کرنے کی سعادت بھی ملی۔اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کینیا ۲۰۰۵ء کے دوران حضورِ انور سے ممباسہ میں مع فیملی ملاقات کرنے کی بھی سعادت پائی جس کو آپ اپنی زندگی میں نہایت اہم کامیابی اور سعادت سمجھتے تھے۔
خاکسار کا آپ سے پہلی بار تعارف سنہ ۲۰۰۶ء میں ہوا جب خاکسار کا تبادلہ ممباسہ ریجن میں ہوا۔آپ قریباً ہرجمعہ کو مخصوص عربی چوغا پہنے عمدہ عطر لگائے مسجد میں تشریف لاتے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد سب سے نہایت تپاک سے ملتے۔گزرتے وقت کے ساتھ آپ سے تعارف اور دوستانہ تعلق بڑھتا گیا جس کو آپ نے تا دم حیات خوب نبھایا ۔آپ بےشمار خوبیوں اور اعلیٰ اوصاف کے مالک انسان تھے۔جب آپ کے عمدہ اخلاق پر نظر پڑتی ہے تو برسوں قبل پڑھے عربی کے چندشعر ذہن میں تازہ ہوتے ہیں ۔ جن سے ان کے عمدہ اخلاق کی ایک تصویر ابھر کر آنکھوں کے سامنے عالم تخیل میں گھومتی ہے۔جن میں ایک شعر معروف عربی شاعر امیہ بن ابی الصلت کا ہے۔ وہ کہتا ہے
خلیل لا یغیرہ صباح
عن الخلق الجمیل ولا مساء
یعنی وہ ایسا شریف انسان تھا کہ دن رات کی گردش اس کے اعلیٰ اخلاق کو بدل نہیں سکتی۔
آپ کی شرافت اور نجابت یہاںسب پر عیاں تھی۔آپ نے عمر بھر جماعت کی مختلف مقامی ذیلی تنظیموں اور نیشنل عہدوں پر مقبول خدمت کی توفیق پائی۔ بوقت وفات آپ بطورنائب امیر دوم ونیشنل سیکرٹری تعلیم کینیا کے عہدوں پر بھرپور خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔
زندگی کے نشیب و فراز کو بخوبی سمجھتے تھے۔ایک دفعہ آپ بہت بڑی کمپنی کے نہایت عمدہ عہدے پر فائز تھے تو بعض حاسدین نے صرف یہ جواز بنا کرکہ آپ کی تعلیمی قابلیت اس عہدے کے مطابق نہیں آپ کو یہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ جس پر آپ نے بتایا کہ یہ ایک در بند ہونے پر اللہ تعالیٰ نے بےشمار اور اس سے بڑھ کر مواقع میرے لیے پیدا کردیے جن میں پہلے سے بڑھ کرمالی منفعت ملی۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ کو ایک اَور کاروبار میں کافی نقصان ہوا جس کا خاکسار سے ذکر کیا مگر خاکسار نے آپ کو اس دنیوی مال کے یوں کھو جانے پر کچھ زیادہ افسردہ یا رنجیدہ نہ پایا جس طرح اکثردنیادار انسان مایوس نظر آتے ہیں۔نیز آپ کو ہر حال میں متوکل باللہ پایا۔ بےجا لڑائی جھگڑوں اور کھینچا تانی سے خود کو دُور رکھنے والے انسان تھے۔اگر کہیں پر ایسی صورت نظر آتی تو خود کو اس سے دُور رکھتے۔ہمیشہ باہمی پیار محبت عفو و درگزر سے کام لینے والے انسان تھے۔
آپ اکثر خاکسار کو عمدہ عربی عطر تحفۃً لا کر دیتے ۔انہی عطروں کی مسحورکن خوشبو کی طرح آپ سے جڑی بےشمار یادیں ذہن کو معطر کرتی رہیں گے جب تک ہم زندہ ہیں۔ آخر میں خاکسارآپ کے لیے دعا مغفرت کے ساتھ حاتم طائی کے ایک عربی شعر کے ساتھ اس پیارے بھائی کا اس وقت ذکر خیر ختم کرتا ہے۔پھر کبھی زندگی نے موقع دیا تو مزید تفصیل سے درج کردوں گا۔
وتذکر اخلاق الفتی وعظامہ
مغیبۃ فی اللحد بال رمیمھا
اچھے انسان کے اعلیٰ اخلاق کا تذکرہ ہمیشہ جاری رہتا ہے گو اس کی ہڈیاں قبر میں پوشیدہ اور بوسیدہ ہوچکی ہوتی ہیں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس پیارے احمدی بھائی سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے ۔ آمین
(ناصر محمود طاہر ۔امیر و مبلغ انچارج کینیا)
مزید پڑھیں: توبہ اور استغفار کے فوائد




