توبہ اور استغفار کے فوائد
یہ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خداتعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ(البقرۃ:۲۲۳) سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لیے خدا سے معاملہ صاف کر لے۔ اس طرح پر خدا کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا اور پھر اس پر کوئی خوف و حزن نہ ہو گا (حضرت مسیح موعودؑ)
قرآن کریم میں استغفار اور توبہ کے بہت سے دینی اور دنیاوی فوائد بیان ہوئے ہیں، جیسا کہ گناہوں سے معافی، اللہ کے عذاب سے بچاؤ، قبولیت دعا، اللہ کا قرب، اللہ کی محبت، جنت کا حصول اور لا محدودروحانی ترقیات، رزق میں کشائش، اولاد اور قوت دیگر فضل الٰہی۔ غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گذشتہ گناہوں اور کمزوریوں کو ڈھانپے اور آئندہ بھی گناہوں اور کمزوریوں سے محفوظ رکھے۔ توبہ سے مراد رجوع کرنا ہے، یعنی کہ انسان اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفْر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُسْتَغْفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ لیکن بعداس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنے اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے۔ لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیداکرکے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیّوم بھی ہے یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے پس جبکہ خدا کا نام قیّوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خداکی خالقیّت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیّومیّت کے ذریعہ سے بگڑنے سے بچاوے کیونکہ خدا کی خالقیّت نے انسان پر یہ احسان کیا کہ اس کوخدا کی صورت پر بنایا۔ پس اسی طرح خدا کی قیّومیّت نے تقاضا کیا کہ وہ اس پاک نقشِ انسانی کو جو خدا کے دونوں ہاتھوں سے بنایا گیا ہے پلید اور خراب نہ ہونے دے لہٰذا انسان کو تعلیم دی گئی کہ وہ استغفار کے ذریعہ سے اُس کی قیّومیّت سے قوت طلب کرے پس اگر دنیامیں گناہ کا وجود بھی نہ ہوتا تب بھی استغفار ہوتا کیونکہ دراصل استغفار اس لئے ہے کہ جو خدا کی خالقیّت نے بشریّت کی عمارت بنائی ہے وہ عمارت مسمار نہ ہو اور قائم رہے اور بغیرخداکے سہارے کے کسی چیز کا قائم رہنا ممکن نہیں۔پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے اسی کی طرف قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیاہے اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ(البقرۃ: ٢٥٦) یعنی وہ خدا ہی ہے جوقابل پرستش ہے کیونکہ وہی زندہ کرنے والاہے اور اسی کے سہارے سے انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ یعنی انسان کا ظہور ایک خالق کو چاہتا تھا اور ایک قیّوم کو تا خالق اس کو پیدا کرے اور قیّوم اس کو بگڑنے سے محفوظ رکھے سو وہ خدا خالق بھی ہے اور قیّوم بھی۔ اور جب انسان پیدا ہو گیاتو خالقیّت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیّومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے پس استغفار صفت قیّومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے کرتے رہنے کی طرف اشارہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ:۳) یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیّومیّت اور ربوبیّت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں۔(عصمتِ انبیاءؑ، روحانی خزائن جلد ١٨ صفحہ ٦٧١-٦٧٢)
اب استغفار و توبہ کے فوائد قرآن کریم کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اور ان کی تائید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے چند اقتباسات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
گذشتہ گناہوں سے معافی اور آئندہ کے لیے بچاؤ
عام لوگوں کے لیے استغفار کا سب سے بڑا فائدہ گذشتہ گناہوں سے معافی اور ان کے بد اثرات سے حفاظت ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَمَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِاللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔ (النساء:۱۱۱) اور جو بھی کوئی بُرا فعل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا پائے گا۔ وَالَّذِیۡنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہَا وَاٰمَنُوۡۤا ۫ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔(الاعراف:١٥٤) اور وہ لوگ جنہوں نے بدیاں کیں پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لائے، یقیناً تیرا ربّ اس کے بعد بھی بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ سو ان آیات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ بہت رحیم ہے اور وہ استغفار اور توبہ کے بعد سب گذشتہ گناہ معاف کر دیتا ہے اور ان کے بد اثرات دُور کر دیتا ہے۔ پھر دوسرا فائدہ استغفار کا یہ ہوتا ہے کہ آئندہ بھی انسان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے، گو کہ سب انبیاء معصوم اور گناہ سے پاک تھے، مگر پھر بھی کمزوریوں سے بچنے کے لیے استغفار کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں ہے کہ فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ بِالۡعَشِیِّ وَالۡاِبۡکَارِ (المومن:٥٦) پس صبر کر۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنی بھول چوک کے تعلق میں استغفار کر اور اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ شام کو بھی تسبیح کر اور صبح بھی۔ استغفار کی ان دونوں اقسام کی تائید احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ایک بندے نے گناہ کیا، پھر کہنے لگا: اے اللہ! میرا گناہ معاف کر دے۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ کو معاف کر دیتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ اس بندے نے پھر دوبارہ گناہ کیا اور کہنے لگا کہ اے رب! میرا گناہ معاف کر دے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالی ٰنے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا اور اسے علم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ کو بخش دیتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا۔ چنانچہ وہ جو چاہے کرے۔ (صحیح مسلم) حدیث میں آتا ہےکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ بخدا !میں اللہ تعالیٰ سے دن میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات۔ باب استغفار النبیؐ فی الیوم واللیلۃ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’گناہ ایک ایسا کیڑاہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہوسکتا ہے۔ استغفار کیا ہے ؟یہی جو گناہ صادر ہوچکے ہیں ان کے بد ثمرات سے خدا محفو ظ رکھے اور جو ابھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوہ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا ہی وقت نہ آوے اور اندر ہی اندر وہ جل بھن کر راکھ ہوجاویں۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ٢١۲۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ استغفار و توبہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف گناہوں کے برے نتیجوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بھی بچاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں مزید فرماتے ہیں: ’’استغفار کے اصل معنے تویہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس سے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بدنتائج جو مجھے ملنے ہیں میں ان سے محفوظ رہوں۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد۲ صفحہ ۳۵۸) انبیاء، اولیاء اور صلحاء کے استغفار کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے، نہ ولی کو اور نہ رسول کو۔ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں۔ پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور انبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا سے مانگا کرتے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد دہم صفحہ ۲۹۳۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء)
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ
قرآن کریم کے مطابق، استغفار کرنے کا ایک اور فائدہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ ہے۔ قرآن کریم میں ہے وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَاَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔(الانفال :٣٤) اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب کہ تُو ان میں موجود ہو اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔ ابو بردہ بن ابی موسیٰؓ اپنے والد ابو موسیٰؓ کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَاَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (الانفال: ٣٤) یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک تو ان میں موجود ہو اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔ پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لیے استغفار چھوڑا۔ (جامع ترمذی۔ کتاب تفسیر القرآن۔ تفسیر سورۃ الانفال) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےایک موقع پر فرمایا کہ انسان کو کمزوریوں سے بچنے کے لیے استغفار بہت پڑھنا چاہیے۔ فرمایا:’’گناہ کے عذاب سے بچنے کے لئے استغفار ایسا ہے جیسا کہ ایک قیدی جرمانہ دے کر اپنے تئیں قید سے آزاد کرا لیتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ٥٠٧۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) سو ہمیں ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی سزا سے محفوظ رہ سکیں۔ پھر آپؑ نے فرمایاکہ’’مَیں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ قبل از نزولِ بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب الٰہی سے ان کو بچا لیتا ہے۔ میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو میں نُصْحًالِلّٰہ کہتاہوں اپنے حالات پر غور کرو۔ اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لئے کہو۔ استغفار، عذاب الٰہی اور مصائب شدیدہ کے لئے سِپر کا کام دیتا ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:٣٤)‘‘ یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ مغفرت اور بخشش طلب کررہے ہوں تو ’’ اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الٰہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۹۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
قبولیت دعا
استغفار کا تعلق دعا کی قبولیت سے بھی ہے۔ اللہ فرماتا ہے وَاِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ ہُوَ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاسۡتَعۡمَرَکُمۡ فِیۡہَا فَاسۡتَغۡفِرُوۡہُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ قَرِیۡبٌ مُّجِیۡبٌ۔ (ھود:٦٢) اور ثمود کی طرف (ہم نے) ان کے بھائی صالح کو بھیجا تھا۔ اس نے (انہیں) کہا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی بھی معبود نہیں۔ اسی نے تمہیں زمین سے اٹھایا (اور بلندی بخشی) اوراس میں تمہیں آباد کیا۔ اس لئے تم اس سے بخشش طلب کرو۔ اور اس کی طرف کامل رجوع اختیار کرو۔ میرا ربّ یقیناً قریب ہے (اور دعائیں) قبول کرنے والا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے گناہوں کی بخشش مانگے اور بخشش کی امید رکھے گا میں تجھے بخش دوں گا۔ تجھ میں جو بھی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں لَوْبَلَغَتْ ذُنُوبُکَ عَنَانَ السَّمَاءِ اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش مانگے میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تو اس حال میں مجھے ملے کہ ساری زمین تیرے گناہوں سے بھری ہو تو میں بھی اُتنی ہی بڑی مغفرت کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا۔(سنن ترمذی باب فضل التوبۃ الاستغفار)۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی توبہ اور دعا کے تعلق کو اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کے ذریعہ سمجھایا۔ ایک مرتبہ چند احباب نے بیعت کی۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت فرمائی۔ ’’بیعت میں انسان زبان کے ساتھ گناہ سے توبہ کا اقرار کرتا ہے مگر اس طرح سے اس کا اقرار جائزنہیں ہو تا جب تک دل سے وہ اس اقرار کو نہ کرے۔ یہ خدا تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جب سچے دل سے توبہ کی جاتی ہے تو وہ اُسے قبول کرلیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان(البقرۃ: ۱۸۷) یعنی میں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں۔ ‘‘(ملفوظات جلد۵ صفحہ ۲۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
اللہ تعالیٰ کی محبت
استغفار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی محبت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَیُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ (البقرہ:٢٢٣) یقیناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اور پاک صاف رہنے والوں سے (بھی) محبت کرتا ہے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ رَحِیۡمٌ وَّدُوۡدٌ (ھود:٩١) اور تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو (اور) پھر اس کی طرف کامل رجوع اختیار کرو میرا رب یقیناً باربار رحم کرنے والا (اور) بہت ہی محبت کرنے والا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ کو اس توبہ کرنے والے پر، اس آدمی سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جو جنگل میں سواری پر جائے۔جب وہ آرام کے لیے کہیں سوجائے تو اس دوران سواری کہیں اور چلی جائے جس پر اس کا کھانا اور پانی ہو۔ وہ جب بیدار ہو تو اپنی سواری کونہ پائے اور مایوس ہوکر ایک درخت کے سائے میں لیٹ جائے۔ جس وقت وہ سواری سے مایوس ہوکر لیٹا ہوا ہو پھر اچانک سواری اس کے پاس واپس آجائے اور وہ اس کی لگام پکڑے اور خوشی کی شدت سے یہ کہے۔ اے اللہ آپ میرے بندہ ہیں اور میں آپ کا رب ہوں۔ یعنی شدت مسرت کی وجہ سے الفاظ الٹ ہوجائیں۔ (مسلم، کتاب التوبۃ)حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’یہ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خداتعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ(البقرۃ:۲۲۳)
سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لیے خدا سے معاملہ صاف کرلے۔ اس طرح پر خدا کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا اور پھر اس پر کوئی خوف و حزن نہ ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ۵۹۴-۵۹۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ’’یقین جانو کہ توبہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں۔ یہ برکات کا سرچشمہ ہے۔ درحقیقت اولیاء اورصلحاء بھی لوگ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں۔ وہ گناہ سے دُور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ کامل توبہ کرنے والا شخص ہی ولی،قطب اور غوث کہلا سکتا ہے۔ اسی حالت سے وہ خدا کا محبوب بنتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد۴ صفحہ ۲۸۹)
جنت کا حصول اور لامحدود روحانی ترقیات
استغفار اور اس کے بعد سچی توبہ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جنت اور لامحدود ترقیات کا بھی وعدہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَیُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَبِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔ (التحریم:٩) اے مومنو! اللہ کی طرف خالص طور پر رجوع کرو (منافقت کی کوئی ملاوٹ نہ ہو) کوئی تعجب نہیں کہ تمہارا ربّ تمہاری بدیوں کو مٹا دے اور تم کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اس دن جس دن اللہ اپنے نبی کو رسوا نہیں کرے گا اور نہ ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کا نور ان کے آگے آگے بھی بھاگتا جائے گا اور دائیں پہلو کے ساتھ ساتھ بھی، وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! ہمارا نور ہمارے فائدہ کے لیے پورا کردے اور ہمیں معاف فرما۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ خالص اور سچی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ سب بدیوں کو مٹا دیتا ہے اور جنت کا وارث بناتا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ توبہ کے بعد جب انسان اپنے ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اعمال صالحہ بجا لاتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی بدیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے، جیسا کہ ایک اور آیت میں اللہ کا وعدہ ہے۔ اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔(الفرقان: ٧١)
ایک حدیث میں سیدالاستغفار کا ذکر ہے، جس کے بعد جنت کا وعدہ ہے۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فر ما یاسیدالاستغفاریہ ہے کہ یوں کہو اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّى، لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِى وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلٰى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَىَّ وَأَبُوءُ بِذَنْبِى، فَاغْفِرْ لِى، فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ۔ اے اﷲ!تو میر ا ربّ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہو ں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کیے ہو ئے عہد اور وعدہ پر قائم ہو ں، ان بر ی حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ ما نگتا ہوں، مجھ پرجو تیری نعمتیں ہیں ان کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گنا ہوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ میری مغفرت کردے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرتا۔ آپﷺ نے فرمایا جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہو ئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات میں ان کو پڑھ لیا اور پھر اس کا صبح ہو نے سے پہلے انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (صحيح بخاری،کتاب الدعوات، باب أفضل الإستغفار)
اوپر مذکور آیت رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَنَا میں معلوم ہوتا ہے کہ مومنین تو جنت میں بھی لا محدود ترقیات کے حصول کے لیےاستغفار کر رہے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَنَا کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا۔ یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہوگا۔ پھر دوسرا کمال نظر آئے گا اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے۔ پس کمال ثانی کےحصول کے لیے التجا کریں گے اور جب وہ حاصل ہوگا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظاہر ہوگا۔ پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو ہیچ سمجھیں گے اور اس کی خواہش کریں گے۔یہی ترقیات کی خواہش ہے جو اَتْمِمْ کے لفظ سے سمجھی جاتی ہے۔
غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا۔ تنزل کبھی نہیں ہوگا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے اور پیچھے نہ ہٹیں گے اور یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ اپنی مغفرت چاہیں گے۔ اس جگہ سوال یہ ہے کہ جب بہشت میں داخل ہوگئے تو پھر مغفرت میں کیا کسر رہ گئی اور جب گناہ بخشے گئے تو پھر استغفار کی کون سی حاجت رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے اصل معنے یہ ہیں ناملائم اور ناقص حالت کو نیچے دبانا اور ڈھانکنا۔ سو بہشتی اس بات کی خواہش کریں گے کہ کمال تام حاصل کریں اور سراسر نور میں غرق ہو جائیں۔ وہ دوسری حالت کو دیکھ کر پہلی حالت کو ناقص پائیں گے۔ پس چاہیں گے کہ پہلی حالت نیچے دبائی جائے۔ پھر تیسرے کمال کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ دوسرے کمال کی نسبت مغفرت ہو یعنی وہ حالت ناقصہ نیچے دبائی جاوے اور مخفی کی جاوے۔ اسی طرح غیر متناہی مغفرت کے خواہشمند رہیں گے۔ یہ وہی لفظ مغفرت اور استغفار کا ہے جو بعض نادان بطور اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت پیش کیا کرتے ہیں۔ سو ناظرین نے اس جگہ سے سمجھ لیا ہوگا کہ یہی خواہش استغفار فخر انسان ہے۔ جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفار اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ انسان اور اندھا ہے نہ سوجاکھا اور ناپاک ہے نہ طیّب۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰، صفحہ ٤١٢۔۴۱۳)
مال اور اولاد سے مدد
استغفار کے نتیجے میں نہ صرف دینی فوائد ہوتے ہیں بلکہ بہت سے دنیاوی فوائد بھی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ استغفار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مال اور اولاد میں بھی برکت دیتا ہے۔ فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا۔ وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا۔ (نوح:۱۱ تا ۱۳)اور میں نے ان سے کہا اپنے رب سے استغفار کرو، وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ اگر تم توبہ کرو گے تو وہ برسنے والے بادل کو تمہاری طرف بھیجے گا۔اور مالوں اور اولاد سے تمہاری امداد کرے گا۔ اور تمہارے لئے باغات اگائے گا اور تمہارے لیے دریا چلائے گا۔ حضرت اِبن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہمہ وقت استغفارکرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ ہر تنگی کے وقت اس کے نکلنے کے لیے راہ پیدا کردیتا ہے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے اور اسے اس راہ سے رزق عطا فرماتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہ کرسکے۔ (ابو داؤد کتاب الوتر باب فی الاستغفار)
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھ پر بہت قرض ہے دعا کیجئے۔فرمایا۔ ‘‘توبہ استغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جو استغفار کرتا ہے اسے رزق میں کشائش دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ۴۳۴۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء) ایک اور جگہ فرمایا: ’’استغفار بہت کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے۔‘‘(تفسیرحضرت مسیح موعودؑجلد۲ صفحہ۳۶۲) پھر ایک شخص نے قرض کے متعلق دعا کے واسطے عرض کی کہ میرا قرض بہت ہے دعا کریں اتر جائے۔ تو آپؑ نے فرمایا: ’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے، … استغفار کلید ترقیات روحانی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ۸۶۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء)
مَتَاعًا حَسَنًا اور اللہ کا فضل
پھر استغفار کا ایک فائدہ قرآن کریم میں بہترین سامانِ معیشت اور اللہ تعالیٰ کا فضل بیان ہوا ہے۔ قرآن میں ہے وَاَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ کَبِیۡرٍ (ھود:٤) اور یہ کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو (اور) اس کی طرف (سچا) رجوع کرو (تب) وہ تمہیں ایک مقررہ میعاد تک اچھی طرح سے سامان عطا کرے گا۔ اور نیز ہر ایک فضیلت والے (شخص) کو اپنا فضل عطا کرے گا اور اگر تم پھر جاؤگے تو میں یقیناً تم پر ایک بڑے (ہولناک) دن کے عذاب (کے آنے) سے ڈرتا ہوں۔ ایسے ہی استغفار و توبہ کی بعد کامیابی بھی ملتی ہے۔ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ (النور:٣٢) اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان اُن جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ خداتعالیٰ سے روکتے ہیں۔ پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ اُن پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔
یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں۔ ایک سمی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دُوسراتریاقی مادہ ہے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا۔ تو سمی قوت غالب آجاتی ہے، لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہےجس سے اس کی روح گداز ہوکر بہہ نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنی ہیں۔یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے۔ غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو۔اول رسول کی اطاعت کرو دوسرے ہر وقت خدا سے مدد مانگو۔ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چاہو۔جب قوت مل گئی تو توبو الیہ یعنی خدا کی طرف رجوع کرو۔ استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدم ہے،کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خداسے حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گاتو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جائے گی۔جس کا نام توبو الیہ ہے۔اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے۔غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے۔سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا ،کیا کر سکے گا۔توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے۔اگر استغفار نہ ہو،تو یقیناً یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مر جاتی ہے۔پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر توبہ کرو گے،تو نتیجہ یہ ہو گا۔یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی(ھود:۴)سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے۔ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے۔جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے۔ہر ایک آدمی نبی، رسول، صدیق، شہید نہیں ہو سکتا۔
غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امر حق ہے۔اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواظبت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پا لے گا۔یہی مطلب ہے اس آیت کا و یوت کل ذی فضل فضلہ (ھود:۴)لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہےتوخدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا اور اپنے فضل کو پالے گا، جو طبعی طور پر اس کا حق ہے۔ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ محروم نہ رکھے گا۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ٣٤۸۔٣۴۹۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
قوت و ثابت قدمی کا حصول
استغفار سے دنیا و آخرت میں قوت و استقامت بھی ملتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ حضرت ھود علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے: وَیٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا وَّیَزِدۡکُمۡ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمۡ وَلَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِیۡنَ۔ (ھود:٥٣) اور اے میری قوم! تم اپنے رب سے بخشش مانگو۔ پھر اس کی طرف (کامل) رجوع اختیار کرو۔ جس کے نتیجہ میں وہ تم پر خوب برسنے والا بادل بھیجے گا اور تم کو طاقت کے بعد طاقت بخشے گا اور مجرم بن کر خدا سے منہ نہ پھیرو۔ حضرت مسیح موعودؑ استغفارکو روحانی طاقت کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: یادرکھو کہ یہ دوچیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کوعملی طور پر دکھانے کے لئے۔ قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔ صُوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کو اُٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔ اسی طرح پر رُوحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ٣٤۸۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
سو ہمیں چاہیے کہ ہم استغفارو توبہ کو اپنی عادت بنا لیں اور ہر وقت استغفار کرتے رہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز استغفار و توبہ کے فوائد کے بارے میں بیان فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ تو اپنے مومن بندوں کی توبہ قبول کرنے، ان کی بخشش کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ اور قرآن کریم نے بیسیوں جگہ مغفرت کے مضمون کا مختلف پیرایوں میں ذکر کیا ہے، کہیں دعائیں سکھائی گئی ہیں کہ تم یہ دعائیں مانگو تو بہت سی فطری اور بشری کمزوریوں سے بچ جاؤ گے۔ کہیں یہ ترغیب دلائی ہے کہ اس طرح بخشش طلب کرو تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنوگے۔ کہیں بشارت دے رہا ہے، کہیں وعدے کر رہا ہے کہ اس اس طرح میری بخشش طلب کرو تو اس دنیا کے گند سے بچائے جاؤ گے اور میری جنتوں کو حاصل کرنے والے بنوگے۔ کہیں یہ اظہار ہے کہ میں مغفرت طلب کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں۔ غرض اگر انسان غور کرے تو اللہ تعالیٰ کے پیار، محبت اور مغفرت کے سلوک پر اللہ تعالیٰ کا تمام عمر بھی شکر ادا کرتا رہے تو نہیں کر سکتا۔ ہماری بدقسمتی ہو گی کہ اگر اس کے باوجود بھی ہم اس غفور رحیم خدا کی رحمتوں سے حصہ نہ لے سکیں اور بجائے نیکیوں میں ترقی کرنے کے برائیوں میں دھنستے چلے جائیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اس کی مغفرت طلب کرتے رہنا چاہئے۔ وہ ہمیشہ ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹے رکھے اور ہمیں ہر گناہ سے بچائے اور گزشتہ گناہوں کو بھی معاف فرماتا رہے۔ (خطبہ جمعہ ١٤؍ مئی ٢٠٠٤ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: تسہیل حواشی




