(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI) الیومینا Alumina (Oxide of Aluminum-Argilla) جہاں تک کھانے پکانے یا دیگر استعمال کے برتنوں کا تعلق ہے جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ الیو مینا کا مستقل استعمال انسانی صحت پر بہت گہرے منفی اثرات ڈالتا ہے۔ یہ زہر بہت آہستگی سے اثر انداز ہو تا ہے مگر مستقلاً انسانی وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ خون کی نالیوں کو سکیڑ تا ہے نیز ان نالیوں میں رفتہ رفتہ ایسے مادوں کی تہ جمنے لگتی ہے جن کی وجہ سے تنگ ہوتے ہوتے تقریباً بند ہو جاتی ہیں اور دل کے حملے کا موجب بنتی ہیں۔ دماغ کو خون پہنچانے والی نالیوں پر بھی اس سے ملتا جلتا اثر ہوتا ہے اور انسان آر ٹیریو سکلروسس (Arteriosclerosis) کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بڑھاپے کے اثرات تیزی سے ظاہر ہوتے ہیں، یادداشت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، عضلات سخت ہو کر بیکار ہونے لگتے ہیں، بلڈ پریشر کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ مریض تیزی سے ذہنی اور عضلاتی لحاظ سے معذور ہونے لگتا ہے۔ اگر اسے الیو مینا دیں توجلد فائدہ کی امید نہ رکھیں کیونکہ یہ بہت آہستہ اثر کرنے والی دوا ہے۔ جو زہر آہستہ آہستہ جسم پر اثر دکھاتا ہے وہ جب دوا بنتا ہے تو وہ دوا بھی آہستہ آہستہ اثر دکھاتی ہے۔ بعض اوقات اس کا اثر سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس لیےاگر مستقل اور دائمی علاج کے لیےالیو مینا کو استعمال کر یں تو اونچی طاقت میں لمبے وقفوں کے بعد دیں مثلاً ایک مہینے کے بعد ایک ہزار طاقت میں یا دس ہزار کی طاقت میں۔ اگر 200 کی طاقت میں استعمال کریں تو ہر دس دن کے بعد ایک خوراک دیں۔ اگر اس دوا نے کام کیا تو مہینوں یا سالوں مسلسل استعمال کرنے سے پورا اثر ظاہر ہو گا۔ آغاز میں تو بہتری کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوتے لیکن پھر وہ ریشے جو بے جان ہو چکے ہیں ان میں رفتہ رفتہ جان پڑنے لگتی ہے اور کچھ عرصہ استعمال کے بعد کچھ نہ کچھ بہتری کی طرف مائل تبدیلیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ اس لیےالیو مینا ایسے مریض کو دینی چاہیے جو جلد باز نہ ہو اور یہ جان لے کہ بیماری گہری اور لمبی ہے اور دوا کے مسلسل ایک دو سال استعمال سے بالآخر بیماری کا رخ پلٹے گا اور زندگی کے کچھ اور دن اچھے گزر جائیں گے۔ (صفحہ۴۹-۵۰) الیو مینا کے مریض کو چکر بہت آتے ہیں اور چلتے پھرتے سر گھومتا اور توازن بگڑ تا رہتا ہے۔ پاؤں سن ہو جانے کا رجحان بھی ملتا ہے اور درد ایک مقام سے سائیکل کے پہیے کے تاروں کی طرح چاروں طرف پھیلتے ہیں۔ یہ سب علامات کسی مریض میں اکٹھی ہو جائیں تو الیو مینا اس کی یقینی دوا بن جائے گی۔(صفحہ۵۳) عموماً جن غذاؤں سے الیومینا کے مریض کی تکلیفیں بڑھتی ہیں ان میں نمک ،شراب،سرکہ،مرچیں ،آلو اور گیس والے مشروبات شامل ہیں۔بواسیر اور مقعد کا کناروں سے پھٹ جانا یہ اس کی خاص علامت ہے۔(صفحہ۵۳) عورتوں کے جنسی اعضاء میں عموماً لمبے نزلے کے بداثرات پائے جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہر قسم کا لیکوریا جاری ہو جاتا ہے اور مستقل بہتا رہتا ہے۔ اس طرح رحم کے نیچے گرنے کا احساس بھی نمایاں ہے۔ کھڑے ہونے اور چلنے سے تکالیف بڑھ جاتی ہیں۔ اگر سوزاک کو دوسری دواؤں سے دبا دیا گیا ہو لیکن اس کے دیر پا اثر باقی رہ جائیں اور عورتوں کے اعضاء میں خصوصاً بے چینی اور گرمی کا احساس ایک مستقل بیماری بن جائے تو اس میں الیو مینا بھی دوا ہو سکتی ہے۔(صفحہ۵۴) سردی گرمی کے احساس میں ایک تضاد یہ ملتا ہے کہ مریض ٹھنڈا ہوتا ہےاور خوب اچھی طرح اپنے آپ کو لپیٹ کر رکھنا چاہتا ہےمگر اس کے باوجود چہرے پر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پسند کرتا ہے۔بستر کی گرمی شروع میں تو بہت پسند آتی ہے مگر گرم ہونے پر خارش کا دورہ شروع ہوجاتا ہے۔ہاتھ بہت ٹھنڈے رہتے ہیں اور سوتے وقت بہت آہستہ گرم ہوتے ہیں۔جلدعموماً خشک رہتی ہے اور پسینہ بہت کم آتا ہے یا بالکل نہیں آتا۔ (صفحہ۵۴) ایمبرا گریسا Ambra grisea (Ambergis-A Morbid Secretion of the Whale) ایمبرا گریسا دبلے پتلے ، زود رنج، چڑچڑے اور جلد غصہ میں آجانے والے بچوں اور بڑوں کی دوا ہے۔ زود حسی اس کی نمایاں علامت ہے۔ کم عمری میں ہی توازن کھو دینے اور چکرانے کا رجحان ملتا ہے جیسے بہت بوڑھے لوگوں میں طبعی طور پر یہ عارضہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذایہی دوا معمر مریضوں کی عمومی بیماریوں میں مفید ثابت ہوتی ہے۔(صفحہ۵۵) ذہنی انتشار اس کی ایک طبعی علامت ہے۔ سر سن ہونے کا احساس جو تمام جسم میں پھیلتا ہوا محسوس ہو تا ہے۔ (صفحہ۵۵) ایمبرا گریسا میں بیماریاں عموماً ایک طرف ہی ٹھہری رہتی ہیں۔یہ رجحان برائیونیا، بیلا ڈونا اور سپائی جیلیا میں بھی پایا جاتا ہے۔ایمبرا گریسا میں دائیں اور بائیں کا فرق نہیں ہے۔اگر دائیں طرف ہی بیماری ہو تو دائیں طرف ہی رہے گی اور اگر بائیں طرف ہو توبائیں طرف ہی رہے گی۔(صفحہ۵۶) ایمبرا گریسا کی ایک علامت جو بظاہر اچنبھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مریض موسیقی کو برداشت نہیں کرسکتا اور اس کے سردرد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔اعصابی تناؤ اور جسمانی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں۔گویا موسیقی اس کو سکون بخشنے کی بجائے اس کے اعصاب میں اضطراب پیدا کردیتی ہے۔(صفحہ۵۶) ایمبرا گریسا میں بڑھاپے کی طبعی علامتیں مثلاً ہاتھ پاؤں کا سونا ،دل کا دھڑکنا اور اعصاب کا ڈھیلا پن سرعت سے بڑھنے لگتا ہے۔ (صفحہ۵۶) امونیم کارب Ammonium carb (Carbonate Of Ammonia) امونیم کارب بہت گہری اور خون کے نظام پر اثر انداز ہونے والی دوا ہے۔اس کا اثر سانپ کے زہروں سے ملتا ہے۔سندھ میں بعض قابل ہومیوپیتھک ڈاکٹر امونیم کارب کو سانپ کے کاٹنے کے تریاق کے طور پر بہت کامیابی سے استعمال کرتے رہےہیں۔کالے رنگ کا پتلا خون بہتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اندرونی جھلیاں جواب دے گئی ہیں۔اگر جھلیاں جواب دے جائیں تویہ اکثر بیماری کے آخری خطرناک مرحلے کی علامت ہوتی ہے۔ ناک، منہ، گلے، معدے اور انتڑیوں وغیرہ سے خون رسنے لگتا ہے۔ اگر یہ سیاہ رنگ کا ہو اور کچھ پتلا ہو تو امونیم کارب اس کی بہترین دوا ہے کیونکہ سانپ کے کاٹے سے بھی پتلے یا گاڑھے سیاہ خون کا جریان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امونیم کارب ہو میو پیتھی میں اس کے توڑ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بعض بیماریوں میں اندرونی جھلیاں سرخ خون کے خلیوں کو روکنے کے قابل نہیں رہتیں۔ اس مرض کے لیےدوسری دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن کا کتاب میں اپنی اپنی جگہ ذکر موجود ہے۔ سیاہ خون کا اخراج اکثر ایسی بیماریوں میں ہوتا ہے جو موت پر منتج ہوتی ہیں اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو مریض کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق رہتا ہے۔ بعض اور دواؤں میں بھی سیاہ خون کے بہاؤ کا ذکر ملتا ہے لیکن ان کے باہم فرق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ورنہ محض اس علامت کا کسی دوا میں پایا جانا کام نہیں دے گا۔(صفحہ۵۷) بواسیر میں سیاہی مائل نیلے خون کا جریان ہو تو یہ اندرونی جھلیوں کے نظام کی خرابی نہیں بلکہ پورٹل سسٹم (Portal System) کا درہم برہم ہونا ہے۔ ہومیو پیتھک اصطلاح میں پورٹل سسٹم جگر اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی وریدوں کے نظام کو کہا جا تا ہے جن میں گندا خون ہو تا ہے۔ اگر اس نظام میں خرابی ہو اور سیاہ خون کا جریان ہو تو سلفر، ہیمامیلس (Hamamelis) اور اس قسم کی اور دوائیں بھی حسب علامت کام آ سکتی ہیں لیکن اگر انتڑیاں اور گر دے وغیرہ جواب دے جائیں اور جہاں جہاں اندرونی جھلیاں ہیں وہاں سے سیاہ رنگ کا زہریلا خون جاری ہو جائے تو یہ مختلف چیز ہے۔ یہاں امونیم کارب کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ ایسے نازک اور تشویش ناک مرحلہ میں یہ سب سے اچھی دوا ثابت ہوتی ہے۔(صفحہ۵۷-۵۸) سانپوں کے کاٹے میں یہ عجیب بات پائی جاتی ہے کہ اس میں خون جمنے اور بہنے دونوں باتوں کا رجحان ہوتا ہے۔ Orificesسےخون بہتا ہے یعنی ہر اس جگہ سے جہاں جلد اور اندرونی جھلیوں کا جوڑ ہے مثلاً ناخن اور جلد کا جوڑ، ہونٹوں کے باہر کی جلد کے ساتھ اندر کی جلد کا جوڑ وغیرہ۔ جلد اور جھلیوں کے جوڑ ایک طرح سے سلائی والی لکیر کے مشابہ ہوتے ہیں جہاں دو کنارے آپس میں ملتے ہیں۔ پس جہاں کہیں بھی جلد اور جھلیوں کا جوڑ ہو وہاں سے خون رسنے کا رجحان سانپوں کے زہروں میں نمایاں طور پرملتا ہے اور یہی رجحان امونیم کا رب میں بھی ہے(صفحہ۵۸) امونیا کا رب کی مریض عورتوں میں ہسٹیریائی علامت نمایاں ہوتی ہے اور لیکیسس کی طرح سونے سے ان کی بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔(صفحہ۵۸) امونیم کارب غدودوں اور سلی امراض میں بہت مفید ہے۔بعض اوقات گردن کے غدود سوج کرسخت ہوجاتے ہیں اور گلٹیاں بن جاتی ہیں۔دائمی سوزش امونیم کارب کی خاص علامت ہے۔اس لیےیہ کینسر کی گلٹیوں میں بھی مفید ہے۔اگر جلدی بیماریاں علاج سے دبا دی جائیں اور وہ غدودوں میں پناہ لے لیں اور لمبے عرصہ تک ان کی طرف توجہ نہ دی جائے۔تو اس کے نتیجہ میں غدودوں میں کینسر پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہوجائےگا۔امونیم کارب بھی گٹھلیوں کے کینسر میں کام آنے والی دوا ہے۔اس میں گلینڈز اس وقت پھولتے ہیں ہیں جب بیماریاں بیرونی سطحوں سے اندر کی طرف منتقل ہوکرغدودوں کی جھلیوں میں گھربنا لیں۔(صفحہ۵۹-۶۰) انتھراسینم Anthracinum یہ دوا بیمار بھیڑوں کی تلی کے متعفن مواد سے تیار کی جاتی ہے۔ السر اور سیلان خون کے لیےیہ بہت اعلیٰ دوا ہے۔اکثر ڈاکٹر اسے بہت کم استعمال کرتے ہیں لیکن میں نے اسے بہت مفیددوا پایا۔ایسی پھنسیاں جو غدودوں کی سوزش کے نتیجہ میں پید ا ہوںوہ بہت سخت اور گانٹھ دار ہوتی ہیں۔ان میں ایسی نیلاہٹ پائی جاتی ہےجو بہت بد زیب دکھائی دیتی ہے اور درد بھی ہوتا ہے۔لیکن ان میں پیپ نہیں بنتی۔ایسی پھنسیوں میں انتھراسینم تیر بہدف ثابت ہوتی ہے۔ایک دو ماہ کےمسلسل استعمال سے یہ پھنسیاں آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہیں۔ (صفحہ۶۱) جسم کے اندرونی حصہ میں پائے جانے والے زخم جن سے خون رستا ہو اور ایسے تمام السرجن کے کینسر بننے کا خدشہ ہو ان میں انتھرا سینم مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ جلد کے بعض حصے جو بیماری کے نتیجہ میں ادھڑ جائیں اور ننگی خون آلود جلد نظر آئے تو اس میں بھی انتھرا سینم بہت مفید ہے۔ (صفحہ۶۱) انتھرا سینم زخموں اور پھوڑوں کو مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جسم میں مزید پھوڑے پھنسیاں بننے کے رجحان کا بھی قلع قمع کر دیتی ہے۔ اگر جسم کے کسی حصہ سے بھی سیاہی مائل خون کا اخراج ہو تو اس میں انتھرا سینم مفید ہوسکتی ہے۔(صفحہ۶۲) انتھراکوکلی Anthrakokali اس میں منہ خشک رہتا ہے۔ حلق میں بھی خشکی محسوس ہوتی ہے۔ خشک صفراء کی زیادتی کی وجہ سے قے آتی ہے۔ پیٹ میں ہوا بنتی ہے۔مریض شدید پیاس محسوس کرتا ہے۔پیشاب بہت آتا ہے۔(صفحہ۶۳) (نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔) (ڈاکٹر لئیق احمد) مزید پڑھیں: ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب