ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: آجکل کے ماحول میں جب بچے سکول میں بھی دوسرے بچوں سے دنیاوی باتیں زیادہ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سکول میں آزادی کے نام پر بعض غیر ضروری باتوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے جن کا بچوں کی اس عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی کہا جانے لگ گیا ہے کہ بچوں کو آزاد ماحول میں پلنے بڑھنے دینا چاہئے اور کوئی دین اور مذہب نہیں سکھانا چاہئے۔ بچہ خود بڑا ہو کر فیصلہ کرے گا کہ اس نے دین اختیار کرنا ہے یانہیں اور کون سا دین اختیار کرنا ہے۔ تو جب ایسے حالات ہوں جب ہر طرف سے ایسا ماحول مل رہا ہو جو دنیا کی طرف لے جانے والا ہو تو ایسے میں اگلی نسل کی تربیت ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا دین دار ماں باپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ماحول اور تعلیمی درسگاہیں ماں باپ پر یہ پابندی لگانے لگ جائیں کہ بچوں کو دین نہیں سکھانا تو اس سے زیادہ خوفناک صورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ کل کو یہ لوگ یہ کہہ دیں گے کہ اخلاق سکھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بچے بڑے ہو کر خود ہی اچھے اور برے اخلاق کا تعین کر لیں گے۔ تو یقیناً یہ بے چین کر دینے والی باتیں ہیں۔ ان دنیا داروں کی اپنی بات میں بھی تضاد ہے اور ان کے تضاد کی حالت یہ ہے کہ ایک طرف لامذہب بلکہ خدا کو بھی نہ ماننے والے لوگ مذہب کے خلاف بہت بولتے ہیں دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مذہب نے اخلاق اور civilization بھی سکھائی ہے۔ تو بہرحال مذہب کا انکار کرنے کے باوجود مذہب کی بعض باتوں کے مانے بغیر ان کو چارہ نہیں ہے۔ (جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۱۸ء کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب) (مرسلہ:قدسیہ محمود سردار۔ کینیڈا)