سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ تسہیل حواشی سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد۲ صفحات ۲۹۵ تا ۳۰۰ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: یہ دقیقہ کہ تمام کامل انسانوں میں سے ایک ہی اکمل و اتم انسان پر اختتام سلسلہ کائنات ہوتا ہے یہ ایک ایسے دائرہ کے کھینچنے سے جو دو قوسوں پر مشتمل ہو سمجھ میں آسکتا ہے۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وجود واجب وممکن جس تناسب سے روحانی طور پر واقع ہے اگر اس امر معقول کو ایک صورت محسوسیہ میں دکھلایا جائے تو ایک ایسے دائرہ کی شکل نکل آئے گی جس کا انقسا م دو قوسوں پر ہوگا جن میں سے ایک قوس اعلیٰ اور دوسرا قوس ادنیٰ ہوگا اس طرح پر قوس اعلیٰ تقسیم و انقسام سے بکلّی منزہ اور درک عقل و فہم و قیاس و گمان سے بالاتر ہے لیکن قوس ادنیٰ جو موجودات ممکن الوجود کا قوس ہے وہ باعتبار شدت و ضعف و زیادت نقصان مراتب متفاوتہ و مختلفہ پر مشتمل ہے۔کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ انسانی ترقیات کا سارا سلسلہ وتر کے کسی ایک ہی نقطہ پر ختم نہیں ہوسکتا وجہ یہ کہ جس نقطہ فطرتیہ سے کوئی نفس اوپر کو ترقی کرنا شروع کرے گا اس کی سیدھی رفتار اسی نقطہ انتہائی تک ہوگی جو اس کی جبلت اور استعداد کے پیش رو پڑا ہوا ہے۔ اب فرض کرو کہ مثلاً نقاط ج د ب ک جو استعدادات مختلفہ انسانیہ کے فطرتی نقطے ہیں نقاط ع ص ط م تک جو ان کے پیش رو نقاط پڑے ہیں جن کی طرف وہ بخط مستقیم قدم بڑھا سکتے ہیں۔ ترقی کریں تو یہ خطوط مستقیمہ ترقی کی اپنی عمودی حالت میں وتر کے اُن اُن نقاط کو جاملیں گے جو ٹھیک ٹھیک ان کے محاذات میں پڑے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس سفلی قوس میں ایک نقطہ ایسا بھی ضرور ہے کہ جو ٹھیک ٹھیک نقطہ مرکز کے محاذ ہے اب فرض کرو کہ وہ نقطہ ج ہے جو مرکز ع کے محاذ ہے اسی طرح نقطہ د کا خط ص اور نقطہ ب کا خط ط اور نقطہ ک کا خط م کا محاذ ہے جب کہ یہ امر بہ بداہت ظاہر ہے تو اب ہم کہتے ہیں کہ ثبوت ہندسے سے باستعانت انیسویں شکل مقالہ اول اقلیدس و سینتالیسویں ۴۷ شکل مقالہ مذکور بپایہ صداقت پہنچ سکتا ہے کہ اگر کسی طرف محیط کے کئی نقاط فرض کرکے قطر دائرہ تک خطوط مستقیمہ عمودی حالت میں کھینچے جائیں تو سب سے بڑا وہ خط مستقیم ہوگا جو نقطہ مرکز تک پہنچے گا۔ ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی عبارات مختصر تشریح کے ساتھ درج کی جاتی ہیں: ۱۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: اور یہ دقیقہ کہ تمام کامل انسانوں میں سے ایک ہی اکمل و اتم انسان پر اختتام سلسلہ کائنات ہوتا ہے یہ ایک ایسے دائرہ کے کھینچنے سے جو دو قوسوں پر مشتمل ہو سمجھ میں آسکتا ہے۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وجود واجب وممکن جس تناسب سے روحانی طور پر واقع ہے اگر اس امر معقول کو ایک صورت محسوسیہ میں دکھلایا جائے تو ایک ایسے دائرہ کی شکل نکل آئے گی جس کا انقسا م دو قوسوں پر ہوگا جن میں سے ایک قوس اعلیٰ اور دوسرا قوس ادنیٰ ہوگا اس طرح پر قوس اعلیٰ تقسیم و انقسام سے بکلّی منزہ اور درک عقل و فہم و قیاس و گمان سے بالاتر ہے لیکن قوس ادنیٰ جو موجودات ممکن الوجود کا قوس ہے وہ باعتبار شدت و ضعف و زیادت نقصان مراتب متفاوتہ و مختلفہ پر مشتمل ہے۔ قوسِ اعلیٰ کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے تقسیم و انقسام سے منزہ اور عقل و فہم کی پہنچ سے بالا تر قرار دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قوس ذاتِ باری تعالیٰ کا ہے جو واجب الوجود ذات ہے۔اس سے مراد ایسی ذات ہے جس کا عدم تصور نہیں کیا جاسکتا نیز وہ ذات قدیم بھی ہے جس سے مراد ایسی ذات ہے جس کی ابتدا نہیں۔وہ الآن کما کان کی صفت سے متصف ہے یعنی جس طرح اس کی موجودہ حالت ہے وہی حالت اس کی پہلے تھی۔گویا اس کی حالت میں کوئی تغیر نہیں۔ قوسِ ادنیٰ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ممکن الوجود اور مراتبِ مختلفہ کا حامل قوس قرار دیا ہے۔ممکن الوجود ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کا وجود اور عدم دونوں تصور کیا جاسکتا ہے۔ ممکن الوجود ذات حادث ہوتی ہے یعنی اس کی ابتداء ہوتی ہے نیز وہ تغیرات اور تبدیلیوں کو قبول کرتی ہے۔پس اس مقام پر حضرت ِ واجب الوجود تعالیٰ کے مقابل پر انسان کو ممکن الوجود قرار دیا گیا ہے۔ ۲۔ اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ انسانی ترقیات کا سارا سلسلہ وتر کے کسی ایک ہی نقطہ پر ختم نہیں ہوسکتا وجہ یہ کہ جس نقطہ فطرتیہ سے کوئی نفس اوپر کو ترقی کرنا شروع کرے گا اس کی سیدھی رفتار اسی نقطہ انتہائی تک ہوگی جو اس کی جبلت اور استعداد کے پیش رو پڑا ہوا ہے۔ اب فرض کرو کہ مثلاً نقاط ج د ب ک جو استعدادات مختلفہ انسانیہ کے فطرتی نقطے ہیں نقاط ع ص ط م تک جو ان کے پیش رو نقاط پڑے ہیں جن کی طرف وہ بخط مستقیم قدم بڑھا سکتے ہیں۔ ترقی کریں تو یہ خطوط مستقیمہ ترقی کی اپنی عمودی حالت میں وتر کے اُن اُن نقاط کو جاملیں گے جو ٹھیک ٹھیک ان کے محاذات میں پڑے ہیں۔ ۳۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں:اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس سفلی قوس میں ایک نقطہ ایسا بھی ضرور ہے کہ جو ٹھیک ٹھیک نقطہ مرکز کے محاذ ہے اب فرض کرو کہ وہ نقطہ ج ہے جو مرکز ع کے محاذ ہے اسی طرح نقطہ د کا خط ص اور نقطہ ب کا خط ط اور نقطہ ک کا خط م کا محاذ ہے جب کہ یہ امر بہ بداہت ظاہر ہے تو اب ہم کہتے ہیں کہ ثبوت ہندسے سے باستعانت انیسویں شکل مقالہ اول اقلیدس و سینتالیسویں ۴۷ شکل مقالہ مذکور بپایہ صداقت پہنچ سکتا ہے کہ اگر کسی طرف محیط کے کئی نقاط فرض کرکے قطر دائرہ تک خطوط مستقیمہ عمودی حالت میں کھینچے جائیں تو سب سے بڑا وہ خط مستقیم ہوگا جو نقطہ مرکز تک پہنچے گا۔ یعنی انسان اپنی فطرتی قوت کے موافق ترقی کرتا ہے۔اس ترقی کو تصویری شکل میں اس طرح دکھایا جا سکتا ہے کہ مثلاً انسان نقطہ د سے ترقی کا آغاز کرے گا تو ترقی کرتے ہوئے نقطہ ص سے گزرے گا جو کہ اس سے بالکل مقابل پر ہے، اسی طرح ب سے ترقی کا آغاز کرے تو ترقی کرتا ہوا ط سے گزرے گا۔یہ ممکن نہیں د سے ترقی کرے تو مقام م سے گزر ہو۔بلکہ ترقی فطرت کے مطابق ہوگی۔ اسی طرح علم ہندسہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان نکات میں سے سب سے بڑا نقطہ وہ ہو گا جو مرکز سے گزرے گا۔ تسہیل حاشیہ در حاشیہ سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحات ۲۹۶ تا ۳۰۰ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: فرض کرو کہ دائرہ ا ب س ج کے قوس ب ج ل میں نقاط و ’ ر ‘ ا ’ل ‘ م ‘ ن سے خطوط مستقیم و س اور ر ک ’ا ع ‘ ل ق ’ م ط ‘ ن ص ‘ج ب قطر کے نقاط س ’ ک ‘ع ’ق ‘ ط ‘ص تک عمودی حالت میں کھینچے ہوئے ہیں اور ان میں ا ؔ ع وہ خط مستقیم ہے جوکہ مرکز ع تک کہ نقطہ ا کامحاذہی کھینچا ہوا ہے اب ہم ثابت کریں گے کہ ان خطوط میں سب سے بڑا ا ع ہوگا جو مرکز تک کھینچا ہوا ہے۔ ملاؤ ع ل و ع م و ع ن بموجب فرض کے زاویہ ق قائمہ ہے تو (بحکم ۳۲ ش م ا) زاویہ ل ع ق حادہ ہوا اس لئے (بحکم ۱۹ ش م ا) کے ضلع ل ع بڑا ہوا ضلع ل ق سے اور بموجب فرض کے زاویہ ق و ط ہر ایک قائمہ ہے۔ اس لئے (بحکم ۴۷ ش م ا) مربع ع ل برابر ہوا مربع ل ق اور ق ع کے اور مربع ع م کا برابر ہے مربع ع ط اور ط م کے۔چونکہ (بحکم ۱۵ حد م ا) خط مستقیم ع ل برابر ہے ع م کے اس لئے مربع ع ق اور ق ل کا برابر ہوا مربع ع ط اور ط م کے اور ظاہر ہے کہ خط ع ق چھوٹا ہے ع ط سے اس لئے مربع ل ق بڑا ہوا مربع م ط سے پس خط مستقیم ل ق بڑا ہوا خط مستقیم م ط سے۔ اسی طرح ثابت ہوسکتا ہے کہ م ط بڑا ہے ن ص سے علیٰ ہذا ثابت ہوسکتا ہےکہ ا ع بڑا ہے رک سے اور رک بڑا ہے وس سے۔ پس ثابت ہوا کہ ا ع جو مرکز تک کھنچا ہے سب خطوط سے بڑا ہے یہی ہمارا دعویٰ تھا فقط۔ ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مذکورہ بالا اقتباس کی عبارات کو تصویری شکل میں دکھایا جاتا ہے۔ نیز قارئین کی سہولت کے لیے ہر تصویر کو انگریزی حروف تہجی کے مطابق بھی درج کیا گیا ہے۔یہ یاد رہے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اقلیدس کے بیان کردہ علمِ ہندسہ (Euclidean Geometry) کا استعمال فرمایا ہے : بحکم ۳۲ش م ۱ سے مراد اقلیدس کے مقالہ اول میں ۳۲ ویں شکل کے مطابق۔ بحکم ۱۹ ش م ۱ سے مراد اقلیدس کے مقالہ اول میں ۱۹ویں شکل کے مطابق۔ بحکم ۴۷ ش م ۱ سے مراد اقلیدس کے مقالہ اول میں ۴۷ ویں شکل کے مطابق۔ بحکم ۱۵ حد م ۱ سے مراد اقلیدس کے مقالہ اول میں ۱۵ویں حد (تعریف) کے مطابق۔ ۱۔ فرض کرو کہ دائرہ ا ب س ج ۲۔ فرض کرو کہ دائرہ ا ب س ج کے قوس ب ج ل میں نقاط و و ر و اول و م و ن ۳۔ فرض کرو کہ دائرہ ا ب س ج کے قوس ب ج ل میں نقاط و ’ر ‘ ا ’ل ‘ م ‘ ن سے خطوط مستقیم و س اور ر ک ’ ا ‘ ل ق ’م ط ‘ ن ص ‘ ج ب قطر کے نقاط س ’ ک ‘ ع ’ق ‘ ط ‘ص تک عمودی حالت میں کھینچے ہوئے ہیں ۴۔ اور ان میں ا ع وہ خط مستقیم ہے جوکہ مرکز ع تک کہ نقطہ ا کا محاذہی کھینچا ہوا ہے اب ہم ثابت کریں گے کہ اَن خطوط میں سب سے بڑا ا ع ہوگا جو مرکز تک کھینچا ہوا ہے۔ ۵۔ ملاؤ ع ل و ع م و ع ن ۶۔ ملاؤ ع ل و ع م و ع ن بموجب فرض کے زاویہ ق قائمہ ہے تو (بحکم ۳۲ ش م ا) زاویہ ل ع ق حادہ ہوا ۷۔ اس لئے (بحکم ۱۹ ش م ا) کے ضلع ل ع بڑا ہوا ضلع ل ق سے ۸۔ اور بموجب فرض کہ زاویہ ق و ط ہر ایک قائمہ ہے۔ اس لئے (بحکم ۴۷ ش م ا) مربع ع ل برابر ہوا مربع ل ق اور ق ع کے ۹۔ اور مربع ع م کا برابر ہے مربع ع ط اور ط م کے۔ ۱۰۔ چونکہ (بحکم ۱۵ حد م ا) خط مستقیم ع ل برابر ہے ع م کے اس لئے مربع ع ق اور ق ل کا برابر ہوا مربع ع ط اور ط م کے ۱۱۔ اور ظاہر ہے کہ خط ع ق چھوٹا ہے ع ط سے ۱۲۔ اس لئے مربع ل ق بڑا ہوا مربع م ط سے پس خط مستقیم ل ق بڑا ہوا خط مستقیم م ط سے۔ ۱۳۔ اسی طرح ثابت ہوسکتا ہے کہ م ط بڑا ہے ن ص سے ۱۴۔ علیٰ ہذا ثابت ہوسکتا ہے کہ ا ع بڑا ہے رک سے اور رک بڑا ہے وس سے۔ پس ثابت ہوا کہ ا ع جو مرکز تک کھنچا ہے سب خطوط سے بڑا ہے یہی ہمارا دعویٰ تھا! حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:یہ امر اس بات کو ثابت کرنے والا ہے کہ نقطہ مرکز تمام نقاط وتر قوسین کی نسبت جو ترقیات انسانیہ کے انتہائی نشان ہیں ارفع و اعلیٰ ہے پس اس سے بالضرورت ماننا پڑتا ہے کہ جس قدر مختلف استعدادیں قوس بشریت میں داخل ہیں ان میں سے صرف ایک ہی ایسی استعداد ہے جو سب استعدادات کی نسبت بلندتر و کامل تر ہے۔ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحات ۲۹۶تا۲۹۷ حاشیہ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: میکرو اور مائیکرو ایوولیوشن