(انتخاب از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍نومبر۲۰۲۴ء) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بطور سفیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھجوایا۔ علامہ بیہقی نے عُروہ سے روایت کی ہے کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطابؓ کو بلایا تا کہ انہیں قریش کی طرف بھیجیں تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قریش میری دشمنی سے واقف ہیں۔ اس لیے مجھے اپنی جان پر خوف ہے اور بنو عَدِی میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میری حفاظت کرے۔ اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہؐ! اگر آپ چاہتے ہیں تو میں چلا جاتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ نہ کہا۔ تو حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! میں آپ کو ایک ایسے شخص کا بتلاتا ہوں جس کی مکہ میں مجھ سے زیادہ عزت ہے اور زیادہ بڑا خاندان ہے جو اس کی حفاظت کریں گے اور وہ آپ کے پیغام کو جو آپ چاہتے ہیں پہنچا دیں گے اور وہ شخص حضرت عثمان بن عفانؓ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کسی جان کے خوف سے یہ بات نہیں کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا میں جاؤں گا تو مجھے مار دیں گے اور جو پیغام پہنچانے کا مقصد ہے وہ پورا نہیں ہو گا۔ ایک فتنہ پیدا ہو جائے گا اس لیے بہتر یہی ہے کہ میں نہ جاؤں، حضرت عثمان جائیں۔ تو بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو بلایا اور فرمایا تم قریش کے پاس جا کر انہیں خبر دو کہ ہم قتال کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 46 دار الکتب العلمیۃبیروت) اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھی ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے…حضرت عثمانؓ سے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اور قریش کو مسلمانوں کے پرامن ارادوں اور عمرہ کی نیت سے آگاہ کریں اورآپؐ نے حضرت عثمانؓ کواپنی طرف سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی جو رؤساءقریش کے نام تھی۔ اس تحریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آنے کی غرض بیان کی اور قریش کویقین دلایا کہ ہماری نیت صرف ایک عبادت کا بجا لانا ہے اور ہم پُرامن صورت میں عمرہ بجا لا کر واپس چلے جائیں گے۔ آپؐ نے حضرت عثمانؓ سے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں جو کمزور مسلمان ہیں انہیں بھی ملنے کی کوشش کرنا اوران کی ہمت بڑھانا اور کہنا کہ ذرا اور صبر سے کام لیں۔ خدا عنقریب کامیابی کا دروازہ کھولنے والا ہے‘‘ بڑا یقین تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ ’’یہ پیغام لے کر حضرت عثمانؓ مکہ میں گئے اور ابوسفیان سے مل کر جواس زمانہ میں مکہ کا رئیسِ اعظم تھا اور حضرت عثمانؓ کا قریبی عزیز بھی تھا اہلِ مکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے۔ اس مجمع میں حضرت عثمانؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر پیش کی جو مختلف رؤساء قریش نے فرداً فرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہرحال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت عثمانؓ کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کوذاتی طور پر طوافِ بیت اللہ کاموقع دے دیتے ہیں۔ ‘‘ حضرت عثمانؓ کو آفر کی کہ آپ کرلیں طواف۔ ’’مگراس سے زیادہ نہیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ تومکہ سے باہر روکے جائیں اور مَیں طواف کروں؟ مگر قریش نے کسی طرح نہ مانا اور بالآخر حضرت عثمانؓ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔ اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے غالباً اس خیال سے کہ اس طرح ہمیں مصالحت میں زیادہ مفید شرائط حاصل ہوسکیں گے حضرت عثمانؓ اوران کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔ اس پر مسلمانوں میں یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اہلِ مکہ نے حضرت عثمانؓ کو قتل کردیا ہے۔‘‘ یہ خبر جب پہنچی تو پھر وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیعت لی جو بیعتِ رضوان کہلاتی ہے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ ’’یہ خبر‘‘ یعنی حضرت عثمان کی شہادت کی خبر ’’حدیبیہ میں پہنچی تو مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہوا کیونکہ عثمانؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور معزز ترین صحابہ میں سے تھے اور مکہ میں بطور اسلامی سفیر کے گئے تھے۔ اوریہ دن بھی اشہرِحرم کے تھے اور پھر مکہ خود حرم کا علاقہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً تمام مسلمانوں میں اعلان کرکے انہیں ایک ببول (کیکر) کے درخت کے نیچے جمع کیا۔ اور جب صحابہ جمع ہوگئے تو آپؐ نے اس خبر کا ذکرکرکے فرمایا کہ ’’اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قَسم! ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔‘‘ پھر آپؐ نے صحابہ سے فرمایا ’’آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر (جواسلام میں بیعت کا طریق ہے) یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘ اس اعلان پر صحابہؓ بیعت کے لیے اس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ اوران چودہ پندرہ سو مسلمانوں کا (کہ یہی اس وقت اسلام کی ساری پونجی تھی) ایک ایک فرد اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بِک گیا۔ جب بیعت ہورہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا، لیکن اس وقت وہ خدا اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔‘‘ اس طرح یہ بجلی کا سا منظر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اسلامی تاریخ میں یہ بیعت ’’بیعت رضوان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضا مندی کا انعام حاصل کیا۔ مزید پڑھیں: صلح حدیبیہ