ماہِ دسمبر کے آغاز کے ساتھ ہی ٹھنڈ اور موسم ِسرماکی شدت میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔باہر اس قدر تیز برف باری جاری تھی کہ کہیں بھی آمد ورفت ممکن نہ تھی۔ اس لیے دادی جان کا زیادہ تر وقت گھریلو کام کاج میں یا مطالعہ میں صرف ہوتا کیونکہ امی جان کو ایک پارٹ ٹائم جاب پر جانا ہوتا تھا ، توکبھی احمد، گڑیا اور محمود کی فرمائشیں پوری کرنے میں۔ کبھی کیک ، کوکیز ، تو کبھی کوئی کپ کیک۔ غرض سب کی پسند کے مطابق پکوان تیار کیے جاتے۔ابا جان کی الگ سے فرمائشی لسٹ بنی ہوئی تھی کبھی گاجر کے حلوے کی فرمائش ہوتی تو کبھی السی کی پنیوں سے لطف اندوز ہوا جاتا اور دادی جان ہنسی خوشی سب کی فرمائشیں پوری کرتی دکھائی دیتی تھیں۔اِس وقت بھی وہ باورچی خانے میں کیک کا آمیزہ تیار کررہی تھیں کہ گڑیا نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔ گڑیا: دادی جان مجھے آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔سارے کام چھوڑیں اور پہلے میری مدد کریں۔ دادی جان : جی گڑیا بیٹا میں بس پانچ منٹ تک یہ اوون میں رکھ دوں پھر تسلی سے آپ کی بات سنتی ہوں۔ گڑیا : آپ کیا بنا رہی ہیں ؟ دادی جان : محمود کل سے چاکلیٹ کیک کی فرمائش کررہا تھا بس وہی بنا رہی تھی۔ گڑیا : چلیں میں بھی آپ کی مدد کرتی ہوں۔ دادی جان : ضرور مجھے آپ کیک والے سانچے میں بٹر پیپر لگا کردیں۔گڑیا سانچے میں بٹر پیپر لگا کر دادی جان کو دیتی ہے۔دادی جان تیار شدہ کیک کا آمیزہ اس میں ڈال کر اوون کو سیٹ کرکے بیک ہونے کے لیے رکھ دیتی ہیں۔ دادی جان : جی گڑیا بیٹا ،اب بتائیں کیا مدد درکار تھی؟ گڑیا : دادی جان مجھے سیکرٹری صاحبہ ناصرات الاحمیدہ نے اسائیمنٹ دی ہے کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب’’مسیح ہندوستان میں‘‘ سے حضرت مسیح ؑ کاکشمیر کی طرف سفر کے حوالے سے ایک مضمون تیار کروں مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے کروں یہ تو بہت مشکل کام ہے ؟ دادی جان: کام تو واقعی مشکل ہے مگر کچھ کرتے ہیں ذرا میرے کمرے سے روحانی خزائن کی جلد 15 لاکر دیں۔ میں ذرا ایک نظر دیکھ کر دہرا لوں۔ سارے واقعات تو مجھے بھی زبانی یاد نہیں۔ پھر آپ کو بتاؤں گی۔اتنے میں کیک بھی تیار ہوجائے گا۔ گڑیا : کمرے سے انہیں کتاب لا کردیتی ہے اور دادی جان باورچی خانے میں ہی میز پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کردیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پنسل سے نشان بھی لگاتی جاتی ہیں۔کچھ وقت کے بعد کیک تیار ہوگیا اور دادی جان نے بھی اپنے نوٹس بنا لیے۔گڑیا خاموشی اور صبر سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہی تھی۔ دادی جان : چلیں اب بھائیوں کو بلا لائیں۔ ہم کمرے میں بیٹھ کر کیک اور کہانی انجوائے کرتے ہیں۔چند لمحوں میں بچے دادی جان کے ساتھ کیک کھارہے تھے۔ ہاں جی گڑیا اب شروع کرتے ہیں آپ کی کہانی۔ آپ ساتھ ساتھ نوٹس بناتی جائیں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ حضرت عیسیٰؑ کو جب صلیب پر لٹکایا گیا تو صرف 6 گھنٹے کے بعد انہیں صلیب سے اتار بھی لیا گیاتھا۔پھر ان کے زخموں پر مرہم لگائی گئی اور انہیں رومن طرز کی غار نما ایک قبر میں رکھا گیا۔ جہاں چند دن آرام کرنے اور قدرے صحتیاب ہونے کے بعد انہوں نے ہجرت کی۔ کیونکہ صلیب سے زندہ بچ جانے کے باوجود حضرت عیسیٰؑ کے لیے ممکن نہ تھا کہ اس علاقے میں رہ سکیں۔ محمود :وہ کیوں دادی جان وہ کسی اور شہر چلے جاتے۔ دادی جان : بات اب صرف اس شہر یا قصبے کی نہیں تھی کیونکہ آپؑ پر رومی حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام تھا اس لیے ضروری تھا کہ آپ رومی سلطنت سے ہی ہجرت کر جائیں اور کسی دور دراز مقام پر چلے جائیں اور اس مقصد کے لیے سب سے بہترین جگہ افغانستان اور کشمیر تھی۔ محمود :ہیں! اتنی دُور جانے کا کیوں سوچا کہیں قریب بھی تو جاسکتے تھے؟ دادی جان : ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ پر وحی بھیجی کہ اے عیسیٰ! ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجا،تاکہ تو پہچانا نہ جائے اور تجھے تکلیف نہ دی جائے۔(کنزالعمال جلد 2 صفحہ 34) اور اس لیے بھی کہ آپ کی قوم بنی اسرائیل کے دس قبائل گزشتہ وقتوں میں فلسطین سے ہجرت کر کے افغانستان اورکشمیر کے علاقوں میں آباد ہو گئے تھے۔ صرف دو قبائل فلسطین کے گردو نواح میں آباد تھے۔ آپ نے سوچا کہ یہاں تو حالات بہتر ہوتے نظرنہیں آتے اس لیے اب ان دس قبائل کی طرف چلنا چاہیے جو ان علاقوں میں آباد ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو ان کے فرضِ رسالت کے رُو سے ملک پنجاب اور اس کے نواح (افغانستان و کشمیر) کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری تھا۔کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے جن کا نام انجیل میں اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں رکھا گیا ہے ان ملکوں میں آگئے تھے۔جن کے آنے سے کسی مؤرخ کو انکار نہیں ہے۔اس لیے ضروری تھا کہ حضرت مسیحؑ اس ملک کی طرف سفر کرتے اور ان گم شدہ بھیڑوں کا پتا لگا کر خدا تعالیٰ کا پیغام اُن کو پہنچاتے۔ ہجرت کی بات آپ نے اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں کو بتائی اور طے یہ پایا کہ پوری احتیاط کے ساتھ آپ ہجرت کر جائیں گے۔ احمد : پھر کیا ہوا؟ دادی جان : پھر جب آپؑ نے جانے کا فیصلہ کرلیا تو ضروری سمجھا کہ اپنے ماننے والوں اور مریدوں سے مل کر جائیں تاکہ آپ کے بارے میں ان کے دلوں میں جو شبہات پیدا ہورہے تھے وہ دور ہوجائیں۔اس لیے ایک روز آپ اپنے مریدوں کی مجلس میں تشریف لے گئے یہ لوگ آپ کو وفات یافتہ سمجھ رہے تھے جب انہوں نے آپ کواپنے سامنے دیکھا تو حیران و ششدر رہ گئے اور خیال کیا کہ شاید آپ روح ہیں جو ان سے ملنے آئی ہے۔ ان کی حالت دیکھ حضرت مسیح نے انہیں بتایا کہ میں کوئی روح نہیں ہوں بلکہ ایک گوشت پوست کا انسان ہوں۔ آپؑ نے انہیں اپنے زخم دکھائے اور کہا کہ دیکھو یہ وہ زخم ہیں جو صلیب کے نتیجے میں مجھے پہنچے تھے۔ پھر آپ نے ان کاشک دُور کرنے کے لیے ان کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا اور مچھلی لےکر کھائی اور سارے حالات سے ان کو آگاہ کیا ۔اس کے بعد آپ نے ان سے اجازت لی اور اپنے چند ایک رفقاء کے ساتھ فلسطین سے ہجرت کر گئے۔ گڑیا : دادی جان آپ کو مسیح کیوں کہتے ہیں ؟ نام تو آپ کا عیسیٰ ابن مریم تھا۔ دادی جان : وہ اس لیے کہ حضرت عیسیٰؑ ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک کی سیر کرتے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے۔(کنز العمال جلد 2 صفحہ 71) اور پھر اگلے دن نئی منزل کی طرف چل پڑتے تھے۔ چنانچہ آپ عراق، ایران، افغانستان، پاکستان، شمالی ہندوستان، نیپال اور بنارس وغیرہ سے ہوتے ہوئے کشمیر پہنچے۔یہاں کا راجہ آپ سے بہت متاثر تھا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ کشمیر کے لوگ بنی اسرائیل سے ہی تھے لہٰذا ساری آبادی آپ پر ایمان لے آئی۔ گڑیا : آپؑ کی عمر کتنی تھی اور وفات کہاں ہوئی ؟ دادی جان : کشمیر کے شہرسری نگر کے محلہ ’’خانیار‘‘میں آپ کی قبر موجود ہے۔اور ایک سو بیس سال کی عمر میں آپؑ کی وفات ہوئی۔ حضرت عیسیٰ گوتم بدھ سے پانچ سو سال بعد یہاں تشریف لائے۔ گڑیا : دادی جان پھر عیسائیوں میں اور مسلمانوں میں بھی آپ کا آسمان پر زندہ ہونا کیوں مشہور ہے ؟ دادی جان : جب تک تو آپ حیات رہے آپ ہمیشہ شرک سے روکتے اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی توحید کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ مگر آپ کی وفات کے بعد فلسطین میں موجود آپ کے ساتھیوں میں سے بعض نے بعد میں یہ غلط عقیدہ مشہور کردیا کہ عیسیٰؑ صلیب پر فوت ہونے کے بعد دوبارہ جی اٹھے تھے اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنی طرف اٹھالیا۔ یہ عقیدہ ایک لمبے عرصے سے عیسائیوں میں موجود ہے لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت عیسیٰؑ کی زندگی کو اپنی کتب میں کھول کر دنیا کے سامنے پیش کیا تو کیا عیسائی اور کیا مسلمان سبھی آپ کے مخالف ہوگئے۔ گڑیا : اسی لیے سب لوگ جماعت کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ ان کے جھوٹ پکڑ کر سچائی سب لوگوں پر کھول دیتے تھے۔ دادی جان : بالکل یہی بات ہے۔ گڑیا : شکریہ دادی جان میں نے اہم باتیں نوٹ کرلی ہیں۔ دادی جان : چلیں اچھی بات ہے۔ اوریہ کتاب بھی پڑھیں۔ اب یہ برتن کچن میں رکھیں۔میں بھی نماز کی تیاری کرلوں۔گڑیا برتن کچن میں رکھنے چلی جاتی ہے۔ ( ماخوذازمسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد15) (درثمین احمد۔ جرمنی)