امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍فروری ۲۰۰۶ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت مبارکہ کے درخشاں پہلو ’ہمدردیٔ خلق‘کے بارے میں فرماتے ہیں: حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک لالہ شرمپت رائے ہوتے تھے۔ قادیان کے رہنے والے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آپؑ کی بعثت کے ایام سے بھی پہلے آیا کرتے تھے۔ اور آپؑ کے بہت سے نشانات کے وہ گواہ تھے… ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے (توعرفانی صاحب ؓکہتے ہیں کہ) مجھے اس وقت قادیان ہجرت کرکے آجانے کی سعادت حاصل ہو چکی تھی۔ان کے پیٹ پر ایک پھوڑا نکلا تھا اور اس دُنبل نے، بہت گہرا پھوڑا تھا،اس نے خطرناک شکل اختیار کر لی تھی۔ حضرت اقدس ؑ کو اطلاع ہوئی۔ آپؑ خود لالہ شرمپت رائے کے مکان پر تشریف لے گئے جو نہایت تنگ اور تاریک سا چھوٹا سا مکان تھا۔ اکثر دوست بھی آپؑ کے ساتھ تھے، عرفانی صاحب کہتے ہیں کہ مَیں بھی ساتھ تھا، جب آپ نے لالہ شرمپت رائے کو جا کے دیکھا تو وہ نہایت گھبرائے ہوئے تھے اور ان کو یقین تھا کہ میری موت آنے والی ہے۔بڑی بے قراری سے باتیں کر رہے تھے، جیسے انسان موت کے قریب کرتا ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو بڑی تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں اور ایک ڈاکٹر عبداللہ صاحب ہوا کرتے تھے، فرمایا کہ مَیں ان کو مقرر کرتا ہوں وہ اچھی طرح علاج کریں گے۔ چنانچہ دوسرے دن حضرت اقدس ؑ ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے گئے اور ان کو خصوصیت کے ساتھ لالہ شرمپت رائے کے علاج پر مامور کیا۔اور اس علاج کا بار یا خرچ لالہ صاحب پر نہیں ڈالا۔ اور روزانہ بلاناغہ آپؑ ان کی عیادت کو جاتے تھے اورجب زخم مندمل ہونے لگے اور ان کی وہ نازک حالت بہتر حالت میں تبدیل ہو گئی۔ توپھر آپؑ نے وقفہ سے جانا شروع کیا۔ اور اُس وقت تک عیادت کا یہ سلسلہ جاری رکھا جب تک وہ بالکل اچھے نہیں ہو گئے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ۱۶۹۔۱۷۰) …پھر حضرت یعقوب علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ عیادت کے لیے باوجودیکہ آپ ؑ تشریف لے جاتے تھے لیکن یہ بھی ایک صحیح واقعہ ہے کہ خداتعالیٰ نے آپ کے قلب کو مخلوق کی ہمدردی اور غمگساری کے لیے جہاں استقلال سے مضبوط کیا ہوا تھا وہاں محبت اور احساس کے لیے اتنا رقیق تھا ( اتنا نرم کیا ہوا تھا) کہ آپؑ اپنے مخلص احباب کی تکالیف کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکتے تھے اور اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپؑ اس موقعہ تکلیف پر پہنچ جاویں تو طبیعت بگڑ نہ جاوے۔ اس لیے بعض اوقات عیادت کے لیے خود نہ جاتے اور دوسرے ذریعہ سے عیادت کرلیتے یعنی ڈاکٹر وغیرہ کے ذریعہ سے حالات دریافت کر لیتے اور مریض کے عزیزوں رشتہ داروں کے ذریعہ سے تسلّی دیتے اور ایسا ہوا کہ اپنی اس رِقّت قلبی کا اظہار بھی بعض اوقات فرمایا۔ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ۱۸۶) (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ ۲۳؍فروری ۲۰۰۷ء)