https://youtu.be/1XeQxa7Tp3E دعوت و تبلیغ اور لجنہ کی ذمہ داریاں دعوت و تبلیغ ایک ایسا فریضہ ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اِعلانِ نبوت کے اول روز سے لے کر آخری سانس تک اس میں کوئی اِنقطاع واقع نہیں ہوا۔ آنحضورﷺ کے بعد یہ اہم ذمہ داری اُمتِ مسلمہ کو منتقل کر دی گئی۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے تاقیامت سبک دوش نہیں ہوا جاسکتا۔ یہ فریضہ یکساں طور پر فرض ہے اور مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ عورت کی ذمہ داری صرف اُمورِخانہ داری، شوہر اور بچوں کی خدمت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں وہ مرد کے ساتھ یکساں شامل ہے۔ اس پر قرآنِ حکیم شاہد ہے: وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ(التوبہ :۷۱)مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ تبلیغِ اسلام میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دینِ اسلام کو پھیلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ فروغِ دعوت و تبلیغ میں تاریخ کے اوراق نامور خواتین کے عظیم کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان میں اُمہات المومنین اور صحابیات کرام جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ، حضرت سمیہؓ، حضرت اُمِ عمارہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ، حضرت اُمِ سلمہؓ، حضرت اسماء ؓ، حضرت فاطمہ بنتِ خطابؓ کا شمار صفِ اول میں ہوتا ہے۔ یہ خواتین جذبۂ دعوت و تبلیغ سے اس طرح سرشار تھیں کہ بہت سے جید صحابہ کرامؓ ان کی دعوت دین سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اس فریضہ کی انجام دہی میں خواتین کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، انہیں اپنے رشتہ داروں سے قطع ہونا پڑا حتیٰ کہ انہیں اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر گھر بار کو خیر باد کہنا پڑا مگر انہوں نے راہِ حق میں آنے والے ہر طرح کےمصائب و آلام کا صبر و استقامت سے مقابلہ کیا اور فروغِ اسلام میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ لڑکیوں کے تبلیغی رابطےصرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بارہا یہ نصیحت فرمائی ہے کہ احمدی لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں۔ اسی حوالے سے لجنہ اماءاللہ کی عہدیداران کونصائح کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں۔ بعض لوگوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے رابطے ہوتے ہیں اور انٹر نیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں۔ مردوں کا جو تبلیغ کا حصہ ہے وہ مردوں کے حصے رہنے دیں کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کہا تویہی جا رہا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے، تجربہ میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے۔پھر جو بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے، شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے، اپنے بارے میں، اسلام کے بارے میں اپنی طالبات سے بات چیت کریں۔ اپنے بار ے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا ۱۵؍اپریل ۲۰۰۶ء) عصر جدید میں تبلیغ کی ضرورت واہمیت عصرِ حاضر میں جہاں مغربی یلغار اور سامراجی قوتیں اسلام کے مقدس چہرے کو مسخ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی ساری دولت اور توانائیوں کو بھی خرچ کرنے کے لیےتیار ہیں وہاں چند نا سمجھ مسلمان بھی مغربی سماج سے متاثر ہوکراسلام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ نتیجۃً معاشرہ اخلاقی انتشار کا شکار ہوچکا ہے اورفتنے روزبروز سر اٹھا رہے ہیں، ایسے میں اہل علم و فن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے جدو جہد کریں۔ موجودہ زمانے میں جہاں دین کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی مسلسل اور بھرپور کوشش کی جارہی ہے،نئی نسل روزبروز گمراہی کی جانب بڑھ رہی ہے وہاں اس کارِ پیغمبرانه کو بصیرت اور تدبّر کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔ تبلیغِ احمدیت دنیا میں کام اپنا دارُالعمل ہے گویا عالم تمام اپنا اللہ ہمیں بہترین داعی الیٰ اللہ بننے کی توفیق عطا فر مائے اور ہمیں اس کے حضور اچھے پھل پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو۔ آمین (امۃ الشافی۔ حدیقہ احمد) مزید پڑھیں: عبدالقادر خان صاحب ایم اے بھوبنیشور،اڈیشہ،انڈیا