https://youtu.be/hSPWuiyVpqs ہمارے معاشرے میں ایک جملہ بہت عام ہے:’’بیٹیوں پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔‘‘ یہ جملہ ہماری اس سوچ کا آئینہ دار ہے جو بیٹی کو بوجھ سمجھتی ہے، حالانکہ اسلام بیٹی کو رحمت قرار دیتا ہے۔اکثر گھروں میں بچی کی پیدائش سے ہی اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ والدین کے گھر میں محض ایک مہمان ہے، جو ایک دن دوسروں کے گھر چلی جائے گی۔ محبت کے اظہار میں بھی یہی سوچ چھپی ہوتی ہے جیسے وہ والدین کی بیٹی نہیں،’’کسی اور کی امانت‘‘ ہو۔ یہی احساس رفتہ رفتہ بچی کے دل میں بھی بیٹھ جاتا ہے کہ وہ ’’پرائی‘‘ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےلڑکیوں کی پیدائش کے بارے میں ارشاد فرمایا: جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی۔(مجمع الزوائد،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی الاولاد، ۸/۲۸۵، حدیث:۱۳۴۸۴) یہ وہ تعلیم ہے جو عورت کو بوجھ نہیں بلکہ برکت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتی ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے گھر بیٹی ہو اور وہ اسے زندہ درگور کرے، نہ اسے ذلیل کرے اور نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔(بحوالہ اسوہ ٔانسان کامل صفحہ ۴۶۲) خاتم النبیین ﷺ کا اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے جو محبت و احترام کا تعلق تھا، وہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ بیٹیاں ہمیشہ ’’اپنی‘‘ رہتی ہیں۔ روایت ہے حضرت فاطمہؓ جب حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آنحضور ﷺکھڑے ہو جاتے تھے محبت سے ان کا ہاتھ تھام لیتے تھے اور انہیں بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے اور جب آنحضور ﷺ حضرت فاطمہؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی احترام میں کھڑی ہو جاتیں آپ کا ہاتھ تھام کر اسے بوسہ دیتیں اور اپنے ساتھ حضورﷺ کو بٹھاتیں۔ ( اہل بیت الرسول ؐ،صفحہ۲۸۱،ازایچ ایم طارق) یہ منظر ہمیں سکھاتا ہے کہ بیٹی چاہے شادی کے بعد کسی دوسرے گھر میں چلی جائے، مگر باپ کے دل میں اس کی جگہ ہمیشہ وہی رہتی ہے۔یہ کہنا کہ ’’بیٹی پرائی ہو گئی‘‘ دراصل محبت کے رشتے کو وقتی تعلق سمجھنا ہے۔ شادی رشتوں کو تبدیل نہیں کرتی، صرف ان کی صورت بدل دیتی ہے۔ اسلام نے یہ کہیں نہیں کہا کہ شادی کے بعد بیٹی کے ساتھ والدین کا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔نبی اکرم ﷺ کا حضرت فاطمہؓ کے ساتھ مسلسل تعلق، ان کی خیریت دریافت کرنا، ان کے گھر آنا جانا ،یہ سب اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ بیٹیاں ہمیشہ والدین کے دلوں سے جڑی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمیں یہ حسین تعلیمات معلوم ہیں تو ہم بیٹی کو ’’پرایا دھن‘‘کیوں سمجھتے ہیں؟ آج یہی بیٹیاں ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں تعلیم، طب، سائنس، فن، خدمتِ خلق، مگر ہمارے کئی ذہن اب بھی تنگ دائرے میں قید ہیں۔ کئی خاندانوں میں پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی بیٹیوں کو چار دیواری تک محدود رکھنا ہی عزت سمجھتے ہیں۔وہ بھول جاتے ہیں کہ بیٹی اگر تعلیم یافتہ، باشعور اور پراعتماد ہوگی تو نہ صرف اپنی بلکہ آنے والی نسلوں کی تربیت بہتر انداز میں کرسکے گی۔ بیٹیاں والدین کے وجود کا وہ حصہ ہیں جو پیدائش سے لے کر اپنی آخری سانس تک دلوں کو جوڑے رکھتا ہے۔وہ اگر کسی دوسرے گھر بھی چلی جائیں تو ان کے جذبات، دعائیں اور محبتیں ہمیشہ اپنے میکے سے بندھی رہتی ہیں۔یہی ان کے ’’اپنے ہونے‘‘ کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اسلام نے اولاد کے معاملے میں انصاف کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ (النساء: ۳۲)مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں۔ اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں۔ بیٹی اور بیٹے دونوں ہی والدین کے لیےبطور نعمت کے ہیں۔ فضیلت عمل اور نیکی میں ہے، جنس میں نہیں۔ اسلام نے بیٹی کو تعلیم، عزت اور وراثت کا حق دیا ہے مگر افسوس کہ بعض والدین آج بھی بیٹیوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔ ایسے والدین بھول جاتے ہیں کہ بیٹی کا حق اس کے باپ کی مرضی نہیں، بلکہ خدا کا حکم ہے۔قرآنِ کریم نے وراثت میں بیٹی کا حصہ مقرر فرمایا ہے اور اس میں کمی کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ پھر بعض والدین بیٹیوں سے محبت تو کرتے ہیں، مگر اکثر اسی محبت کے نام پر ان کے پَر کاٹ دیتے ہیں۔انہیں تحفظ دینے کے بہانے، ان کے اندر خوف اور کمزوری پیدا کر دیتے ہیں۔جب ان سے کہتے ہیں کہ ’’تم بیٹی ہو، سنبھل کر رہو‘‘ تو دراصل ہم انہیں یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اکیلی کچھ نہیں کرسکتی۔ بیٹی کی حفاظت ضرور کریں، مگر اس کے ساتھ اعتماد بھی دیں۔ اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ خود بھی اپنے فیصلے کرنے اور اپنی زندگی سنوارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔تحفظ اور قید میں فرق ہے اسلام نے تحفظ کا حکم دیا ہے، قید کا نہیں۔ (جاری ہے) (درثمین احمد۔جرمنی ) مزید پڑھیں: نبی کریم ﷺ کا تکالیف اور ابتلا کے دوران مثالی نمونہ