اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کاصدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۲۱۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل سے وابستہ چند خوبصورت یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم نذیر احمدسانول صاحب معلّم سلسلہ رقمطراز ہیں کہ ہمارے والد محترم حافظ صوفی محمد یار صاحب احمدی ہونے سے پہلے حافظ قرآن،عالم دین اور پیر تھے۔ چوپڑ ہٹہ تحصیل کبیر والا ضلع خانیوال میں ’’روحانی ہسپتال دارالذکر‘‘ کے نام سے دینی مدرسہ چلاتے تھے۔ علاقے میں آپ کی شرافت کا چرچا تھا۔ ۱۹۷۸ء میں خدائی اشارے پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒکی دستی بیعت کی سعادت حاصل کی تو اُن کے کچھ مریدین نے بھی احمدیت قبول کرلی اور اس طرح ضلع خانیوال میں ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۸ء میں ہم اپنے والد صاحب کے دینی مکتب میں ہی زیرتعلیم تھے۔ بیعت کے بعد انہوں نے الفضل کا اجرا بھی کرالیا تھا جو بذریعہ ڈاک آتا تھا۔ دو میل کے فاصلے پر دیہاتی ڈاکخانہ تھا جس کا بندوبست ایک مخالف احمدیت ماسٹر صاحب کے پاس تھا۔ خاکسار روزانہ پیدل وہاں جایا کرتا۔ پہلے تو ماسٹر صاحب سے جھڑکیاں کھاتا پھر الفضل وصول کرتا اور پاپیادہ واپس آتا۔ ہمارے گھر اخبار کیا آتی کہ موسم بہار آجاتا، گھر کا ہر فرد خوش ہو جاتا۔ ابا جی اخبار پڑھتے۔ دوپہر کو ہماری والدہ صا حبہ بچوں میں سے کسی کو اخبار دیتیں۔ وہ پڑھتا جاتا اور والدہ صاحبہ تلفّظ کی تصحیح کراتی جاتیں۔ چھوٹی عمر میں مشکل الفاظ، اصطلاحات، ادبی نکات اور دیگر ثقیل فقرات سے ذہن ناشناسا ہونے کے باعث دقّت محسوس ہوتی تھی لیکن والدہ صاحبہ ہجے کرکے نہ صرف تلفّظ درست کرادیتیں بلکہ موٹا موٹا مطلب بھی سمجھا دیتیں۔ گویا ہماری تعلیم و تربیت میں الفضل کا بنیادی کردار رہاہے اور یہ بچپن سے ہی ہمارا استاد، اتالیق اور رہبر ہے۔ پڑھنے کے بعداخبار الفضل کو والد صاحب کی لائبریری کی فائلوں میں محفوظ کرلیا جاتا اور بوقت ضرورت اس خزانے سے علاقے کے احمدی اہل علم بھی فیض حاصل کرتے۔ الفضل نے ہمیں بہت کچھ عطاکیا۔ پہلا صفحہ پڑھنے سے دل عش عش کرتا، روح میں وجد کی کیفیت پیدا ہوجاتی اور دلی کثافت دور ہوتی، گویا الفضل علمی زنگ دور کرنے کا نسخہ کیمیا ہے جس نے غیروں کو بھی ہر قسم کے فیض سے مالا مال کیا ہے۔ ہمارے علاقے کے ایک غیر از جماعت مولوی محمدالدین صاحب ایک کتاب کے حوالے کے سلسلے میں ہماری لائبریری میں آئے۔ الفضل پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی تصویر دیکھی تو دیر تک دیکھتے رہے۔ پھر کبھی کبھار آتے تو الفضل کا مطالبہ کرتے اور خطبہ جمعہ پڑھتے۔ بعد میں خداتعالیٰ نے انہیں نور احمدیت سے منور کیا تو موصوف کی کافی مخالفت ہوئی لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے ثابت قدم رہے۔ جنگلوں میں بود و باش رکھنے والے ہم جیسے افراد کا مرکز سے رابطے کا واحد ذریعہ الفضل تھا۔ یہ ایک دینی یونیورسٹی بھی ہے۔ اس کا مستقل قاری ہر عنوان، ہر شعبہ اوردلچسپی کے تمام امور پر آسانی سے بات چیت کرسکتا ہے۔ یہ نیکی کی تعلیم دیتا اور نیکی پر ابھارتا ہے یہی وجہ ہے کہ خدا کے فضل سے ہمارے خاندان میں تادم تحریر ۱۷؍واقفین زندگی ہیں۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ شائستہ ارشد صاحبہ رقمطراز ہیں کہ میرے سسر مکرم میاں محمد عمر صاحب (مرحوم) نے روزنامہ الفضل بہت ہی شوق سے لگوایا تھا۔ وہ بہت ہی شوق سے اس کو باربار پڑھتے تو مَیں کہتی کہ آپ دو بارہ کیوں پڑھ رہے ہیں؟وہ جواب دیتے مَیں جب اس کو پڑھتا ہوں تو مجھے بہت مزہ آتا ہے اور ہر بار کوئی نئی بات سیکھتا ہوں۔ مجھے بہت حیرانی ہوتی تھی۔ وہ مجھے اس میں سے نظمیں اور واقعات بھی سناتے اور ساتھ ہی سبحان اللہ بھی بولتے جاتے۔ مجھے بھی کہتے کہ اس کو پڑھا کرو تب مَیں سر سری سی نظر اس پر مار لیتی تھی۔ اُن کی وفات کے بعد الفضل باقاعدگی سے ہمارے ہاں آتا رہا۔ کچھ دن تو اس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میرے سسر اس کو اتنے شوق اور محبت سے پڑھتے تھے اور اب اُن کے بعد اس کو کوئی نہیں پڑھتایہ غلط بات ہے۔ چنانچہ مَیں نے الفضل باقاعدگی سے پڑھنا شروع کردیا۔ یقین جانیں مجھے اس کے ایک ایک لفظ کے پڑھنے سے ایسا محسوس ہوا جیسے میراذہن کھلتا جا رہا ہو اور ایسی ایسی علمی اور دینی باتیں مجھے اس میں پڑھنے کو ملیں جو مجھے بالکل بھی پتہ نہیں تھیں۔ اگرچہ مَیں پیدائشی احمدی ہوں مگر اکثر دینی تعلیم مجھے معلوم نہیں تھی۔ پہلے صفحے پر حدیث اور قرآن کے حوالہ جات سے بہت راہنمائی ملتی ہے اور میں اپنے بچوں کو بھی پڑھ کر ضرور سناتی ہوں۔ اپنے شوہر سے بھی ذکر کرتی رہتی تھی کہ آج میں نے کیا پڑھا ہے۔ مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ وہ بھی اب جب ناشتہ کرتے ہیں تو ضرور الفضل پڑھتے ہیں۔ الفضل پڑھ کر ا یسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم جماعت کے ہرکام میں شامل ہیں۔ بعض دفعہ پریشانی میںحضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کے ارشادات پڑھ کر مجھے بہت حوصلہ و صبر ملا ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ شوکت اسد صاحبہ رقمطراز ہیں کہ مَیں بہت چھوٹی سی تھی جب اپنے نانا جان محترم قاضی عطاء اللہ مرحوم کے ہاں الفضل اخبار دیکھا جو بہت دیر تک اور بہت دلچسپی اور شوق کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور بعد میں نانی جان سے مختلف مضامین پر تبادلۂ خیال کرتے اور اس کے بعد امی جان سعیدہ بیگم مرحومہ وہ اخبار پکڑتیں اور شروع سے آخر تک بہت شوق سے اس کو پڑھا کرتی تھیں۔ تب مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس اخبار میں آخر ایسا کیا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اعلانات پڑھنے شروع کیے لیکن زیادہ شوق نہیں تھا۔ جب شادی کے کافی عرصے بعد روزنامہ الفضل کا مطالعہ کروانے کی محلّہ کی سطح پر لجنہ کی طرف سے میری ذمہ داری لگی تو اس وجہ سے الفضل کا اتنا شوق ہوا کہ لوگوں کے گھروں سے الفضل لے کر پڑھا کرتی تھی۔ پھر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے محلے کے جن گھروں میں الفضل آتا تھا اُن سے الفضل لے کر اُن کے گھروں میں پڑھنے کے لیے دیا کرتی تھی جوپڑھنا تو چاہتے تھے مگر خرید نہیں سکتے تھے۔ میرا دل بھی کرتا تھا کہ میرا ذاتی اخبار ہو جس کو میں شروع سے آخر تک پڑھوں اور سارا دن دوسروں کو سنائوں۔ چنانچہ جب ۷؍فروری۲۰۱۲ء کو میں اپنے گھر میں آباد ہوئی تو سب سے پہلے اخبار الفضل لگوایاجو کہ میری زندگی کی ایک حسرت تھی۔ وہ لذت جو کبھی میری ماں کو ملا کرتی تھی آج وہی لذت مَیں محسوس کر رہی ہوں۔ جب تک اخبار پڑھ نہیں لیتی بےچینی سی رہتی ہے اور پڑھ کر دلی سکون ہو جاتا ہے۔ اب بھی الفضل پڑھ کر پھر دوسروں کو پڑھنے کے لیے دے دیتی ہوں۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں محترم مولانا محمد منورصاحب سابق مبلغ سلسلہ افریقہ کی اخبار ’’الفضل‘‘ کے حوالے سے قیمتی یادوں پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا ہے الفضل کو اپنے گھر میں آتے دیکھا ہے۔ مجھے ابتدائی قاعدہ کا سبق پڑھا کر ابا جان حروف تہجی کی شناخت الفضل سے کروایا کرتے تھے۔ چند سال کے بعد وہ مجھ سے الفضل میں شائع شدہ چھوٹے چھوٹے مضامین پڑھوا کر سننے لگے اور ساتھ ساتھ تصحیح بھی فرماتے جاتے۔جب مَیں ہائی سکول میں پہنچا تو اخبار میں شائع شدہ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات پڑھنے کو کہتے۔ عربی اور فارسی الفاظ کی نہایت آسان اور قابل فہم تشریح میرے ذہن نشین کرواتے۔ اس طرح اردو زبان پر مجھے قدرت حاصل ہوتی گئی اور سمجھ کر پڑھنے کی عادت بھی پڑگئی۔ ہمارے ایک احمدی استاد مولوی عبدالحق صاحب تھے جو مجھے اپنے سے اونچی جماعتوں کے طلبہ سے اردو عبارت پڑھنے میں مقابلے کے لیے بھجواتے تھے تو مجھے ہمیشہ شاباش ملتی اور اس سے میرا حوصلہ بڑھ جاتا۔ جب دینی مسائل سمجھنے کی اہلیت مجھ میںنظر آئی تو اباجان اختلافی مسائل کے بارے میں مضامین پڑھنے کا مجھے حکم دیتے اور پھر مجھ سے ان مضامین کا مفہوم بیان کرنے کے لیے کہتے۔ جہاں ضرورت ہوتی وہاں مزید تشریح کرکے مسائل آسان بنا دیتے۔ ابا جان بہت اعلیٰ پایہ کے استاد تھے۔ انہوں نے قدم بقدم اس طرح مجھے آگے بڑھایا کہ مسائل از بر ہوتے گئے اور ذہن پر بھی بوجھ نہ پڑا۔ الفضل پڑھنے سے میرا ذہن خدا تعالیٰ کے فضل سے روشن ہوتا چلا گیا اور احمدیت کے بارے میں مجھے کبھی شک یا تردّدپیش نہیں آیا۔بچپن ہی سے گویا یہ عقائد میری گھٹی میں داخل ہوگئے۔ مربی بننے کے بعد جب ۱۹۴۶ء میں میری تعیناتی کانپور (یوپی) میں تھی تو میرے کئی مضامین الفضل اخبار میں شائع ہوئے۔ پھر مجھے افریقہ بھجوایا گیا تو اپنا پیارا اخبار روزانہ پڑھنے کے لیے آنکھیں ترس ترس جاتیں۔ وہاں پورے ہفتے کا پیکٹ بذریعہ ہوائی جہاز بھجوایا جاتا تھا اور جس دن یہ پیکٹ ہمیں ملتا وہ ہمارے لیے انتہائی خوشیوں کا دن ہوتا ۔گویاہر ہفتے عید کا سا سماں ہوتا۔ کینیا میں قیام کے دوران میں نے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو معلّمین کی میٹنگ کا دن بنایا ہوا تھا۔ الفضل سے معلّمین کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشادات سناتا، جماعتی خبروں اور مرکز کے حالات سے آگاہ کرتا۔جب نیروبی منتقل ہوا تو ماہنامہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ میں الفضل سے مضامین کا خلاصہ لکھنا شروع کیا جسے سائیکلو سٹائل کر کے احمدی جماعتوں کو بھجوایا کرتا۔ ماہانہ سواحیلی اخبار میں بھی ضروری خبروں اور مفید مضامین کا خلاصہ پیش کرتا۔ جب میری تبدیلی تنزانیہ میں ہوئی تووہاں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ غرضیکہ الفضل ہر جگہ میرا ہم جولی اور ساتھی رہا۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد اگرچہ مانگے تانگے کا اخبار تو ہر روز پڑھ لیتا تھا لیکن اس سے سیر حاصل استفادہ نہ کر پاتا تھا۔ خدا بھلا کرے جناب آغا سیف اللہ صاحب مینیجر روزنامہ ’الفضل‘ کا کہ انہوں نے ایک پرچہ مجھے اعزازی طور پر بھجوانے کا اہتمام فرمادیا۔ اب یہ میرا بچپن کا ساتھی سارا دن میرے پاس رہتا ہے اور اس سے مجھے روحانی سکون ملتا رہتا ہے۔ اس میں دینی و دنیاوی خبروں کی اشاعت دیگر اخبارات کے پڑھنے سے بےنیاز کردیتی ہے۔ ہمارا اخبار ایک مربی اور معلّم کا مقام رکھتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے علمی و روحانی مضامین کو ذہن و قلب کی لائبریری میں محفوظ کرلیا جائے اور ہر روز ان علوم میں اضافہ ہوتا رہے یہاں تک کہ دل و دماغ اتنے سیراب ہوجائیں کہ یہ روحانی آبِ شفا چھلک کر بہنا شروع ہوجائے اور دوسروں کی آبیاری کرنے لگے۔ خدا کرے کہ میرا بچپن کا ساتھی میرے بعد بھی جماعت کے اطفال و خدام کی بھر پور راہنمائی کرتا رہے اور وہ بھی اسے اپنا ہم جولی اور دوست بنالیں! ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم زکریا ورک صاحب کا اخبار الفضل کے حوالے سے یادوں پر مشتمل ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ جب سے الفضل انٹر نیٹ پر دستیاب ہونا شروع ہوا ہے۔ راقم بلا ناغہ اس کا مطالعہ کرتا ہے۔ جس دن الفضل کا نیا شمارہ دستیاب نہ ہو تو اُس روز کوئی نہ کوئی پرانا شمارہ پڑھ لیتا ہوں کہیں کوئی کام کی بات نظر انداز نہ ہو گئی ہو۔ الفضل سے راقم کا تعلق کوئی نصف صدی پر ممتد ہے۔ جب میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا طالب علم تھا تو بھائی جان مکرم اسحٰق خلیل صاحب کے فرمان پر ہمارا خلافت لائبریری میں جانا جملہ گھریلو ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری تھی۔ چنانچہ الفضل کے مطالعہ کی نیک عادت خلافت لائبریری سے شروع ہوئی۔ اُس زمانے میں یہ لائبریری مسجد مبارک کے پاس قصر خلافت کے احاطے میں واقع تھی۔ الفضل کے مطالعے سے جماعت احمدیہ کے نامور اہل قلم و شعراء کے اسماء گرامی اور ان کی گراں قدر تصنیفات سے واقفیت ہونے لگی ۔ اُس زمانے میں اخبار الفضل کی زینت بننے والے مضامین میں جس عالم بےبدل کی لیاقتِ علمی، ذکاوتِ فہمی اور محبتِ رسول ﷺاُن کی تحریروں سے چھلکتی اُن کانام نامی محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب ہے۔ میں الفضل کیوں پڑھتاہوں؟ اس کاجواب ایک لفظ میں یہ ہے: چسکا ۔ جس روز اخبار نہیں پڑھتا ایسے محسوس ہوتا ہے گویا کسی چیز کی کمی رہ گئی ہے۔ عاجز نے جن بزرگوں کو دیکھا ہوا ہے یا جن دوستوں کے ساتھ وقت گزارا ہے، ان کے بارے میں اور ان کے خاندان کے بارے میں الفضل کے ذریعے اطلاعات مہیا ہوتی ہیں۔ یوں یہ اخباربین الاقوامی رابطے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ راقم کے کئی مضامین الفضل کی زینت بنتے رہے ہیں۔ اس حوصلہ افزائی نے میرے ذوقِ نگارش کو مہمیز کیا۔ خلفائے کرام کے خطبات سننے کے علاوہ الفضل میںان کا مطالعہ جس طرح ذہن پر مرتسم ہوتا ہے اور جوروحانی مائدہ حاصل ہوتا ہے اس کو احاطہ ٔتحریرمیں لانا مشکل ہے۔ بعض لوگ باتیں سن کر متاثر ہوتے ہیں بعض پڑھ کر متاثر ہوتے ہیں، میرا تعلق مؤخر الذکر سے ہے۔ چنانچہ جو مضامین پسند آتے ہیں ان کو پرنٹ کرکے اپنے پاس فائل میں رکھ لیتاہوں۔ ان فائلوں میں الفضل قادیان ۲؍جولائی۱۹۴۶ء کے پہلے صفحہ کی فوٹو کاپی بھی ہے جس میں راقم السطور کی ولادت کا اعلان شائع ہوا تھا۔ ۲۲؍جنوری۱۹۷۲ء کے اخبار کے پہلے صفحہ کی فوٹو کاپی بھی ہے جس میں راقم کے نکاح کا اعلان شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ درجنوں پسندیدہ علمی مضامین فائل کیے ہوئے ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں ربوہ سے کراچی ہجرت کے بعد الفضل کا مطالعہ باقاعدہ کرتا رہا۔ ۱۹۷۱ء میںزیورخ (سوئٹزرلینڈ) آیا تو بھائی جان اسحٰق خلیل صاحب کے پاس ربوہ سے الفضل کا ہفتہ وار بنڈل آیا کرتا تھا۔ تب بھی الفضل سے تعلق قائم رہا۔ دوسال بعد کینیڈا آگیا تو کچھ عرصہ اخبار سے تعلق منقطع رہا پھر جب میں کنگسٹن منتقل ہوا تو اخبار کا بنڈل ہفتہ وار ڈاک سے منگوانے لگا۔ میرے لیے تو الفضل سرمۂ نور بصیرت و بصارت اور ایک شفیق استاد کی طرح ہے۔ میں نے اس مؤقراخبار سے بہت کچھ سیکھا، حکمت کے موتی پائے، باریک بینی سے ایمان افروزخطبات پڑھے، خوداس میں مضامین لکھے بلکہ کئی دفعہ تو یہ میری پہچان بن گیا۔ مارچ۲۰۱۲ء میں حضورانور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوکر جب اپنا نام گوش گزار کیا تو آپ نے فرمایا: وہی زکریاورک جوالفضل میں لکھتے ہیں؟ غرض یہ امر میرے لیے باعث ناز ش و افتخار ہے کہ الفضل میری شناخت کا ذریعہ بن گیا۔ خلفائے کرام کے علم و عرفان سے معمور خطبات پڑھنے کا روحانی اور مادی فائدہ سے تعلق ہے۔ مثلاً جب ۱۹۷۲ء میں مَیں جرمنی کی Göttingen یونیورسٹی میں طالبعلم تھا تو ان دنوں پولی ایسٹر کی قمیصیں پہننے کا رواج تھا۔ ایسی قمیص پہننے سے پسینہ زیادہ آتا تھا ۔ ایک روز حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا خطبہ پڑھا جس میں آپ نے نائلون کی قمیصیں پہننے سے منع فرمایا تھا۔ اس کے بعدمیں نے پولی ایسٹر کی قمیص زیب تن کرنی ترک کردی۔ جب مَیں نے میٹرک پاس کیا تو میراہم جماعت نصیر بیگ مجھے الفضل کے دفترمیں بغرض ملازمت لے گیا۔ وہاں مَیں نے بعمر پندرہ سال ایک ہفتہ کام کیا۔ یہاں پہلی دفعہ طباعت کے لیے پلیٹیں بنتی دیکھیں، کاتبوں کوزمین پر بیٹھ کردیوار سے ٹیک لگائے کتابت کرتے دیکھا، روشن دین تنویر صا حب کو قریب سے دیکھا اور پرنٹنگ کا طریقہ کار دیکھا جو اس کندہ ناتراش کے لیے موجبِ حیرت تھا۔ عالی ہمت ، سادہ مزاج مسعود احمد دہلوی صا حب سے ملاقات کا شرف ۱۹۷۸ء میں ٹورانٹو میں حاصل ہوا جب وہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہمراہ کینیڈا کے دورہ پر تشریف لائے تھے۔ ۱۹۸۹ء میںجب مکرم بشیراحمد آرچرڈ کی انگلش کتاب ’’لائف سپریم‘‘ (Life Supreme) کا میرا کیا ہوا ترجمہ منصہ شہود پر آیا تو محترم نسیم سیفی صاحب نے پوری کتاب قسط وار الفضل میں شائع کی تھی۔تصنیفی دنیا میں میرے لیے یہ خشت اول تھی اور اب تک خداکے فضل سے اس حقیرپر تقصیر کی چودہ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیںجن میں سے تین ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی زندگی اور کارناموں پر ہیں۔ مولانانسیم سیفی صاحب کے ساتھ ۱۹۹۷ء میں ربوہ میں ان کی قیام گاہ پر ملاقات ہوئی تو بہت ہی پیار سے ملے ، کھانا پیش کیا اور اپنی اہلیہ صاحبہ سے کہا کہ میرا فوٹوان کے ساتھ اتاریں۔ میرے لیے یہ بات موجب انبساط تھی کہ انہوں نے اور میرے سسر نے پگڑیاں تبدیل کی ہوئی تھیں۔ میرے قلم کا پہلا عشق الفضل سے تھا۔بندہ پُر تقصیر کی نگارشات دنیابھر کے اخبارات و جرائد کی زینت بن چکے ہیں مگر دل کوجو سکینت اوریک گونہ فرحت الفضل میں مضمون شائع ہونے پر پہنچتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اس لطیف احساس یا واردات قلبی کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں اخبار ‘‘الفضل’’ کے حوالے سے مکرم سیّد اسرار احمد توقیر صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: تربیت کا اِک عجب معیار دکھلاتا رہااِک صدی تک خوب یہ کردار دکھلاتا رہاہر کسی کو اُس کی حیثیت کی راہِ مستقیملجنہ ہو، خدام یا انصار دکھلاتا رہافیض سے اس کے کہاں اطفال باہر رہ سکےان کو راہِ حق کے سب انوار دکھلاتا رہاابتلا کا دَور ہو یا ہو مسرّت کی گھڑیہر قدم پر اِک نیا کردار دکھلاتا رہاالفضل! تیرے لکھاری ہوں کہ ہوں قاری تمامایسے سب احباب کی خدمت میں ہے میرا سلام مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ فن لینڈ کی ہیلسنکی بُک فیئر میں شرکت