انسانی معاشرت کا حسن باہمی احترام،محبت اور خیر خواہی پر قائم ہے۔ لیکن جب زبان سے ایسے الفاظ ادا ہوں جو کسی بھائی یا بہن کی عزت کو مجروح کریں تو یہ نہ صرف معاشرتی رشتوں کو زہر آ لود کر دیتا ہے بلکہ انسان کی روحانیت کو بھی کھا جاتا ہے۔ ایسی مہلک امراض میں سے ایک غیبت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نہایت سخت الفاظ میں غیبت سے منع فرمایا۔وَلَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕاَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ( الحجرات:۱۳) یعنی اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔یہ آیت غیبت کی قباحت کو نہایت جاندار اور لرزہ خیز تشبیہ کے ذریعہ واضح کرتی ہے۔ جس طرح مردہ بھائی کا گوشت کھانا فطرتاً گھناوٴنا اور ناپسندیدہ ہے اسی طرح غیبت بھی انسانی زندگی کے لیے مکروہ اور مہلک ہے۔غیبت ایک ایسی آگ ہے جو دلوں میں کدورت اور بدگمانی کو بھڑکاتی ہے۔ یہ بھائی کو بھائی سے، دوست کو دوست سے اور جماعت کے افراد کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ محبت، اخوت اور اعتماد کی فضا جو ایمان کا لازمی جز ہے غیبت کی زہرناک ہواؤں سے بگڑ جاتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں آپؐ نے فرمایا کہ تیرا اپنے بھائی کا ایسا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے عرض کیاگیا کہ حضورﷺ فرمائیے اگر میرے بھائی میں وہ بات ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا جو بات تم کہتے ہو اگر اس میں موجود ہے تو یقینا ً تم نے اس کی غیبت کی اگر وہ بات اس میں نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر۲۵۸۹۔حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر ۸۰، صفحہ ۴۹۲ )غیبت دراصل ایک ایسی مہلک وبا ہے جو فرد کی روحانیت کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ جماعتی اور معاشرتی ڈھانچے کو بھی دیمک کی طرح کھا جاتی ہے۔ یہ باہمی اعتماد کو ختم کرتی ہے۔ دلوں میں کدورت اور بدگمانی کو جنم دیتی ہے۔ جس معاشرے میں غیبت عام ہو جائے وہاں افراد ایک دوسرے سے دُور اور بدگمان ہو جاتے ہیں اور اجتماعی ترقی کی بجائے انتشار اور کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیبت کی ہلاکت پر نہایت بصیرت افروز کلمات ارشاد فرمائے ہیں:”دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لیے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے جو کہ ہر ایک کے عیب کو سومرتبہ بیان کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔“( ملفوظات جلد ۴ ؍ایڈیشن ۱۹۸۸ء صفحہ ۴۰- ۴۱ )آپؑ نے جماعت کو بار بار نصیحت فرمائی کہ غیبت نہ صرف دوسروں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انسان کی دعاؤں کے حجاب اور روحانیت کے زوال کا بھی باعث بنتی ہے۔ دراصل غیبت انسان کے اعمال صالحہ کو جلا ڈالتی ہے اور دل کی روحانیت چھین لیتی ہے۔غیبت دراصل انسان کے ایمان کے حسن کو گہنا دیتی ہے۔ جس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جانگزیں ہو وہ دوسروں کی عزت و وقار پر حملہ نہیں کرتا۔ اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر خیر و برکت کا سر چشمہ بنتا ہے۔ خلفائے احمدیت نے ہمیشہ جماعت کو غیبت کے مہلک اثرات سے بچنے کی تلقین کی۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:”غیبت ایک گناہ ہے لیکن یاد رکھو یہ ایسا مکروہ فعل ہے۔ ایسی مکروہ چیز ہے۔ جیسے تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا لیا اور کون ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے کراہت نہ کرے گا۔“( خطبات مسرور جلد ۸ صفحہ ۷۴ )غیبت کا رواج افراد کے باہمی اخلاص اور محبت کو تباہ کر دیتا ہے جب دل ایک دوسرے سے بدگمان ہوں اور زبانیں ایک دوسرے کے عیوب کو اچھالنے لگیں تو قربانی، ایثار اور مالی تعاون کے جذبات ماند پڑ جاتے ہیں اور ترقی کا پہیہ سست پڑ جاتا ہے۔ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف غیبت سے بچے بلکہ اپنی مجالس کو ذکر خیر اور ذکر الٰہیسے آراستہ کرے۔ دوسروں کی برائی تلاش کرنے کی بجائے ان کے لیے دعا کرے۔ ان کی خوبیوں کو بیان کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو حقیقی اخوت، روحانی ترقی اور معاشرتی خوشحالی کا ضامن ہے۔پس آئیے! ہم سب مل کر اس عہد کو تازہ کریں کہ اپنی زبانوں کو غیبت سے پاک رکھیں گے۔ اپنی مجالس کو ذکر خیر سے مزیّن کریں گے اور اپنی جماعت کو محبت اخوت اور اعتماد کی جنت بنائیں گے یہی وہ عملی رویہ ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب اور دنیا اور آخرت کی کامیابی عطا کر سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: کانوں کو غیبت سننے سے محفوظ رکھو