خاکسار نے ۲۰۱۰ء میں اپنی زندگی وقف کی تو انٹرویو کے لیے وکالت دیوان تحریک جدید سے کال آئی۔ مورخہ ۱۰ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو ہمارا انٹرویو طے پایا۔ میرے ساتھ پانچ اور واقفین زندگی بھی تھے جن کا اسی روز انٹرویو ہوا۔ انٹرویو بورڈ میں پانچ ممبران شامل تھے جن میں مکرم چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید بھی تھے۔ خاکسار نے اُن کا نام اس سے پہلے سنا تو تھا مگر باقاعدہ ملاقات پہلی بار ہوئی۔ انٹرویو بورڈ نے سفارش کی کہ خاکسار کو پہلے ایک سال کی ٹریننگ کروائی جائے تا کہ جماعتی دفاتر اور کاموں سےزیادہ واقفیت پیدا ہو سکے اور اس کے بعد ہی باقاعدہ پوسٹنگ ہو۔ خاکسار کیونکہ پڑھائی مکمل کر کے آیا تھا اس لیے یہی خواہش تھی کہ فوری طور پر ہی خدمت کا موقع مل جائے مگر بعد کے حالات نے واضح کیا کہ وہ ٹریننگ بہت ضروری تھی اور اس ٹریننگ کے بغیر کام زیادہ مشکل ہوجاتا۔ ٹریننگ کا پہلا حصہ مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کے ساتھ تھا جس میں روزانہ کی بنیاد پر اُن کے ساتھ ایک میٹنگ ہوتی تھی جس میں ایک چھوٹا سا لیکچر ہوتا اورساتھ ہی مکرم چودھری صاحب بعض کتب یا مضامین دیتے جو اگلے دن کی نشست سے پہلے پہلے پڑھ کر آنے ہوتے۔ ان میٹنگز سے مجھے اندازہ ہوا کہ مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کتنے بزرگ، کتنے محنتی، کتنے قابل اور کتنے عاجز انسان ہیں۔ اور وقت کےساتھ ساتھ یہ تاثر اور بھی پختہ ہو تا گیا۔ مکرم چودھری صاحب کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے چار خلفاء کے ساتھ خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ اور جب بھی آپ خلفا ئے کرام کا ذکر کرتے تو بات کرنے کے طریق میں ہی عزت اور محبت کا پہلو نمایاں ہوتا۔ خلیفہ وقت کے ہر ارشاد پر فوری طور پر عمل کرنا اور اس کی پابندی کرنا آپ کی عادت تھی۔ آپ نے خود statisticsپڑھی تھی اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ریاضی پڑھنے والے لوگوں کی زیادہ دلچسپی اسی موضوع کے گرد ہوتی ہے اور دیگر مطالعہ کا ان کو اتنا شوق نہیں ہوتا ۔مگر چودھری صاحب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مطالعہ کا شوق انتہا درجہ کا تھا اور اُن کا ذاتی مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ٹریننگ کے دوران انہوں نے ہم میں جماعتی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے کا شوق پیدا کر دیا۔ مختلف ادوار کے مختلف مضامین یا تاریخی کتب کے بعض حصص دے کر ہمیں کافی حد تک جماعتی تاریخ کا تعارف کروادیا۔ ان کتب اور مضامین کا چناؤ ہی اس بات کو واضح کر رہا ہوتا تھا کہ چودھری صاحب نہ صرف خود جماعتی تاریخ سے بخوبی واقف ہیں بلکہ ان کو یہ ملکہ یا صلاحیت حاصل تھی کہ کس طریق سے پڑھانا ہے ورنہ بہت سے اساتذہ لمبی لمبی کتب دے دیتے ہیں کہ پڑھ کر آجاؤمگر چودھری صاحب چھوٹا سا مضمون دیتے جس میں تمام اہم باتیں سامنے آجاتیں۔ اسی طرح ان کی یہ خواہش تھی کہ جماعتی کام کرنے والے سلسلہ کی تاریخ اور تعلیم سے اچھی طرح واقف ہوجائیں۔ مجھے یاد ہے ٹریننگ کے دوران انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ یہی دن ہیں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کر لو اس کے بعد تو کام کی مصروفیت بڑھتی چلی جائے گی۔ لیکن ساتھ ہی اپنے عمل سے یہ بھی سکھا دیا کہ کام کی وجہ سے جتنی بھی زیادہ مصروفیت ہو علم حاصل کرنے کے لیے وقت نکالنا بھی بہت ضروری ہے جو آخری عمر تک چلتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ کسی بات کا ذکر کرتے تو آپ کے میز کے قریب شیلف پرمتعدد کتب میں سے کوئی کتاب نکلواتے اور کہتے کہ فلاں جگہ پر ڈھونڈو اور دیکھو کہ جو میں بات بیان کر رہا ہوں ایسی ہی ہے یا مجھے غلط یاد ہے۔ انتہائی باریک بین انسان تھے۔ ہر کام کی گہرائی میں جا کر اسے انجام دیتے۔ بعض دفعہ جوانی کی وجہ سے ہمیں یہ بھی لگتا کہ اتنی گہرائی میں جانے کی وجہ سے شاید وقت ضائع ہو رہا ہے اور کام میں تاخیر ہو رہی ہے مگر چودھری صاحب اس بارہ میں درست تھے اور ہم غلط۔ کیونکہ ان کی عادت تھی کہ کوئی کام کرنے کے لیے خاص طور پر ایسا کام جس کے لیے خلیفۃالمسیح کی خدمت میں لکھا جارہا ہو اس کے بارہ میں مکمل تسلی کرلینا بہت ضروری ہے۔ عبادت بہت ذوق و شوق سے کیا کرتے تھے۔ اور اس کے لیے سمجھانے کا طریق بھی بہت پیارا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میری بڑی بیٹی پیدا ہوئی تو میں دفتر ملنے گیا۔ مبارکباد دی اورپوچھنے لگے کہ آج کل روٹین کیا ہے؟ میں نے کہا کہ بچی رات بھر جاگتی ہے تو کم سونے کا موقع ملتا ہے۔ آگے سے کہنے لگے کہ بچے کی پیدائش بڑا اچھاموقع ہوتا ہے کہ انسان تہجد پڑھنے کی عادت پیدا کرے۔ میں اُن کی بات سن کر بہت شرمندہ ہوا کہ میں یہاں خوشی کے موقع پر بھی تکلیف کا اظہار کر رہا ہوں جبکہ چودھری صاحب انتہائی پیارے طریق پر مجھے یہ سمجھا رہے ہیں کہ یہ تکلیف بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ جب میں وقف کر کے آیا تو میں نے دیکھا کہ مکرم چودھری صاحب کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ اپنی سوچ اور اپنی رائے میں بہت پکے ہیں اور ان کو منانا بہت مشکل ہوتاہے بلکہ تقریباً نا ممکن ہے۔ میں نے جب ان کے ساتھ وقت گزارا تو اس بات کا مشاہدہ کیا کہ بے شک ان کوبات منانا واقعی بہت مشکل تھا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ لوگوں کی رائے کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ خود بڑھ چڑھ کرمختلف فیلڈز کے لوگوں سے رائے لیا کرتے تھے۔ میں تو جب آیا تو میری عمر ۲۳؍۲۴سال تھی وہ مجھ سے بھی رائے لے لیا کر تے تھے اور یہ محض ان کا بڑا پن تھا۔ مجھے یاد ہے ابھی ہماری ٹریننگ مکمل ہوئےتھوڑا ہی عرصہ ہوا تھاکہ مکرم چودھری صاحب نے مجھے اور مکرم اسامہ منیر صاحب کو اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ میں تم دونوں کی کمیٹی بنا رہا ہوں تم لوگ تحریک جدید کے ربوہ میں گیسٹ ہاؤسز اور لانز کا راؤنڈ کر کے رپورٹ دو کہ کس طرح بہتری لائی جاسکتی ہے؟ ہم نے جب کام مکمل کر کے رپورٹ دی تو میرے ذہن میں یہی خیال تھا کہ رپورٹ صرف ہماری ٹریننگ کے لیے تیار کروائی گئی ہے اور شاید اس کے مطابق باقاعدہ کام نہیں ہو گا مگر میرا یہ خیال غلط تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے دیکھا کہ ہماری اکثر تجاویز کے مطابق کام ہونا شروع ہو گیا جس سے حوصلہ افزائی ہوئی۔ مکرم چودھری صاحب ایک انتہائی معمور الاوقات اور مصروف آدمی تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو خلفاء کا اعتماد حاصل تھا جس کی وجہ سے کئی کام ان کے سپرد تھے۔ اتنی مصروفیت میں نئے آنے والوں کو وقت دینا، باقاعدہ ٹریننگ کا پلان بنا کر ان پر نظر رکھنا اور پوری کوشش کرنا کہ یہ لوگ اچھے رنگ میں تیار ہو جائیں یہ بہت بڑی خوبی ہے۔ عام طور پر ایک شخص جو انتہائی سینئر پوسٹ پر ہواور کاموں میں بہت مصروف ہو تو وہ اپنے جونیئر کو ٹریننگ دینا اپنے وقت کا ضیاع سمجھتا ہے، مگر چودھری صاحب کا یہ بڑا پن تھا کہ وہ اس کام کو بھی انتہائی دلچسپی اور محنت سے کرتے تھے۔ جب ٹریننگ کے دوران ملاقات ہوتی تو گو کہ تھوڑا سا ہی وقت ہوتا تھا مگر اس میں ان کی پوری توجہ ہماری طرف ہوتی تھی۔ ٹریننگ کے بعد جب ہم اپنے اپنے شعبہ جات میں کام کرنے لگے تب بھی مکرم چودھری صاحب کچھ عرصہ بعد اپنے دفتر بلا لیا کرتے تھے اور مختلف باتیں پوچھتے اور راہنمائی فرماتے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کو اپنی بات منوانا بہت مشکل ہوتا تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے بات کرنامشکل تھا بلکہ بلا جھجک ہم ان سے بات کر لیا کرتے تھے اور کبھی ڈر نہیں لگا کہ وہ آگے سے جھڑک دیں گے یا بُرا منائیں گے یا کسی قسم کا ایسا اظہار کریں گے کہ میرا وقت ضائع ہورہا ہے۔ بلکہ ہمیشہ انتہائی شفقت کے ساتھ بات سنتے تھے۔ خاص طور پر ایسا کام ہو جس میں ان کی راہنمائی درکار ہو تو بہت ہی محبت کے ساتھ راہنمائی فرماتے۔ ان سے مل کر ہمیشہ یہی احساس ہوتا کہ کسی افسر سے نہیں بلکہ اپنے کسی بزرگ سے ملاقات ہورہی ہے اور جس طرح بزرگ اپنے بچوں کی راہنمائی کرتے ہیں اسی طرح مکرم چودھری صاحب ہماری راہنمائی فرماتے۔ خاکسار کو ایک دو مرتبہ کسی معاملہ کے متعلق راہنمائی لینے کی غرض سے ان کے گھر جانے کا بھی موقع ملا۔ مکرم چودھری صاحب نے باوجود اس کے کہ خاکسار محض ایک کارکن کی حیثیت سے ان کے گھر گیا تھا، میری خوب مہمان نوازی کی، چائے پلائی اور بسکٹ بھی پیش کیے۔ ایک مرتبہ آپ کی اہلیہ ساتھ والے کمرے میں آئیں تو ان کو آواز دے کر کہا کہ طلحہ آیا ہے اس کے سر پر ہاتھ پھیر دو جس پر ان کی اہلیہ نے ہاتھ پھیرتے ہوئے خاکسار کو دعائیں دیں۔ مجھے ایسا ہی لگا کہ میں اپنے کسی بزرگ کے گھر ملنے آیا ہوں۔ شفقت کی انتہا تھی۔ اللہ تعالیٰ بہترین جزا دے۔ تحریک جدید میں خاکسار کی ڈیوٹی وکالت مال اول میں تھی۔ جب تحریک جدید کا سال ختم ہوتا تو مکرم چودھری صاحب پہلی میٹنگ میں اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان دوسرے لوگوں کا بھی شکر کرے۔ اس طرح وہ تمام کارکنان اور عہدیداران جنہوں نے تحریک جدید کے چندہ کے حوالہ سے کام کیا ہوتا کی حوصلہ افزائی فرماتے مگر ساتھ ہی جب ہم سب اس بات پر خوش ہورہے ہوتے کہ ہم نے ٹارگٹ پورا کر لیا ہے مکرم چودھری صاحب کی نظر اگلے ٹارگٹ پر ہوتی اور فوری طور پر ہدایت ہوتی کہ اگلے سال کی تیاری گذشتہ سال سے بہتر کی جائے تا پہلے سے بڑھ کر وصولی ہو سکے۔ اس لحاظ سے ان کے کاموں میں ٹھہراؤنہیں تھا بلکہ ہمیشہ نظر اگلے کام پر ہوتی اور کارکنان کو بھی یہی ہدایت ہوتی کہ آرام کرنے نہ بیٹھ جائیں بلکہ ایک ٹارگٹ مکمل ہوتے ہی اگلے ٹارگٹ کے لیے فوری محنت شروع کردیں۔ تحریک جدید میں خاکسار کو چھ سال کے قریب کام کرنے کی سعادت ملی جس کے بعد سیدنا بلال فنڈ میں تقرری ہوئی۔ تقرر کے بعد گو کہ براہ راست مکرم چودھری صاحب کی ماتحتی میں کام نہیں کر رہا تھا پھر بھی ان کی صحبت سے استفادہ کرنے کی غرض سے کچھ عرصہ بعد ان سے ملاقات کرنے چلا جاتا تھا۔ ان ملاقاتوں میں مکرم چودھری صاحب میرے ساتھ اسی محبت سے پیش آتے جس طرح پہلے آیا کرتے تھے بلکہ اب کیونکہ میں باہر سے آرہا ہوتا تھا تو ہمیشہ مجھے چائے یا ٹھنڈا پلاتے اور مہمان نوازی کرتے جبکہ ان کے عہدے اور ان کی خدمت کے آگے مجھ جیسے کی کوئی حیثیت نہ تھی مگر اسلامی تعلیم کے پیش نظر وہ مجھ جیسے کے ساتھ بھی مہمان نوازی کے تقاضوں کو پورا کرتے۔ مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کو ایک لمبے عرصہ سے بطور افسر جلسہ سالانہ بھی خدمت کرنے کی سعادت مل رہی تھی۔ اس حوالے سے دو باتیں جو میں نے مشاہدہ کیں وہ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ چودھری صاحب کی نظر میں ہر جماعتی کام انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔ پاکستان میں جلسہ سالانہ عرصہ دراز سے حکومتی پابندی کی وجہ سےمنعقد نہیں ہورہا۔ پھر بھی مکرم چودھری صاحب بطورافسر جلسہ سالانہ ہر سال تیاری کے لیے میٹنگز منعقد کرتے۔ ہر کام کا جائزہ لیتے اور اسی رنگ میں لیتے کہ جیسے جلسہ ہونا ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ وہ جو کام کر رہا ہے اس کا نتیجہ فوری طور پر کچھ نہیں نکلنا۔ ایسے میں انسان بہت سے اور کام جو زیادہ فوری اہمیت کے حامل ہوتے ہیں پر اپنا وقت صرف کرتا ہے مگر چودھری صاحب اس کام کو بھی اسی توجہ اور ذمہ داری سے کرتے جس طرح باقی کام۔ ہر سال جلسہ سالانہ کی ٹیم بنتی، پلاننگ ہوتی، ٹیموں کی سکیمز تیار ہوتیں، سکیمز پر چودھری صاحب کے تبصرے موصول ہوتے پھر مزید جائزے لیے جاتے۔ ناظمین، نائب ناظمین یہاں تک کہ معاونین کی بھی میٹنگز کی جاتیں اور آپ ہر سال یہی فرماتے کہ اس سال بھی ہم نے اسی طریق پر پلاننگ کرنی ہے کہ اگر فوری طور پر جلسہ سالانہ کی اجازت مل جاتی ہے تو ہماری تیاری مکمل ہو۔ دوسری بات جو میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ ہر سال جب قادیان کے لیے قافلے روانہ ہوتے تو پہلے دن کا انتظام تحریک جدید کی طرف سے کیا جاتا تھا۔ خاکسار نے دیکھا کہ قافلہ صبح فجر کے قریب نکلتاتھا اور اس کی تیاری رات ۲بجے شروع ہوجاتی تھی، مکرم چودھری صاحب آخری عمر میں بھی وہاں موجود ہوتے اور کاموں کا جائزہ لے رہے ہوتے۔ شدید سردی کے دنوں میں دیر رات کو اٹھ کر آنامشکل کام ہے جبکہ یہ کام وہ بآسانی دیگر وکلاء کے ذریعہ کروا سکتے تھے مگر پھر بھی چونکہ ان کی ذمہ داری تھی وہ اس لیے خود وہاں پر پہنچ کر کام کا جائزہ لیتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین (’م۔طلحہ‘) مزید پڑھیں: مسجد بیت الرحیم کارڈف۔ ابتدا سے افتتاح تک۔ ایک تاریخی اور ایمان افروز سفر