اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ۔ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (البقرۃ: 258) یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ولی ہے جو ایمان لانے والے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ولی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ اس آیت کاپہلے بھی کسی خطبے میں ذکر ہوچکا ہے لیکن وہاں لفظ ولی اور اللہ تعالیٰ کی صفت ولی کے حوالے سے یہ ذکر ہوا تھا۔ لیکن آج مَیں اللہ تعالیٰ کی جوصفت نُور ہے یا لفظ نُور ہے اس کے حوالے سے بات کروں گا۔ لغات میں لکھا ہے کہ نُور اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ میں سے ایک صفت ہے اور اَلنُّوْر ابن اثیرکے نزدیک وہ ذات ہے جس کے نُور کے ذریعہ جسمانی اندھا دیکھتا ہے اور گمراہ شخص اس کی دی ہوئی سمجھ سے ہدایت پاتا ہے۔ یہ معنے لسان العرب میں لکھے ہیں۔ پھر اسی طرح لسان میں دوبارہ لکھا ہے کہ بعض کے نزدیک نور سے مراد وہ ذات ہے جو خود ظاہر ہے اور جس کے ذریعے سے ہی تمام اشیاء کا ظہور ہو رہا ہے۔ اور بعض کے نزدیک نُور سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی ذات میں ظاہر ہے اور دو سروں کے لئے بات کو ظاہر کرتی ہے۔ پھر لسان میں لکھا ہے، ابومنصور کہتے ہیں کہ’’نُوْرُاللّٰہِ‘‘ نُوراللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپ فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض (النور: 36) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بعض کا خیال ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمان میں رہنے والوں اور زمین میں رہنے والوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ اور بعض کے نزدیک مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ (النور:36) کا مطلب ہے کہ مومن کے دل میں اس کی ہدایت کے نور کی مثال طاق میں رکھے ہوئے چراغ کی سی ہے۔ اَلنُّوْر اس پھیلنے والی روشنی کو کہتے ہیں جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے اور یہ دو قسم کی ہوتی ہے۔ دنیوی اور اخروی۔ پھر کہتے ہیں دنیوی نُور پھر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ نُور جس کا ادراک بصیرت کی نگاہ سے ہوتاہے اور یہ وہ نُور ہے جو الٰہی امورمیں بکھرا پڑا ہے جیسے نُور ِعقل اور نُورِ قرآن۔ دوسرے وہ نور جس کوجسمانی آنکھ کے ذریعہ سے محسوس کیا جاسکتاہے۔ اہل لغت اس کے معنے بیان کرتے ہوئے بعض آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ مثلاً نور الٰہی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ: 16) یعنی تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نُور اور کتاب مبین آ چکی ہے۔ اسی طرح فرمایا: جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا (الانعام: 123) اور ہم نے اس کے لئے روشنی کی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں ہو اور اس سے نکل نہ سکے۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنا نام نُور رکھا ہے تو وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہی منور ہے یعنی ہر چیز کو روشن کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ کا نام نُور اس وجہ سے ہے کہ وہ یہ کام یعنی روشن کرنا بہت زیادہ کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ پھر اس آیت کی مثال دی گئی ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض یعنی اللہ ہی ہے جس کے نور سے آسمانی اور زمینی حقائق الاشیاء کا علم ہوتا ہے اور وہ اپنے ولیوں کوپھر اس نور سے منور کرتا ہے۔ (خطبہ جمعہ ۴؍ دسمبر۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۵؍دسمبر ۲۰۰۹ء) مزید پڑھیں: ذاہب کے دفاع میں جنگوں کی اجازت