اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کرجاوے۔تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بےجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہوجاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصّہ نہیں ہوتا۔اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے تو اس کے لیے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔جیسے دنیا کے قانون ہیںویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیںکرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔اگر تم ان صفاتِ حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصّہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ان باتوں سے صرف شماتتِ اعدا ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔ (ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۸۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اُس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹھ لطائف کے چشمہ سے بےنصیب اور محروم کیے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے اور جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۳۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: وہ شخص نجات پا گیا جس نے اپنی جان کو غیر کے خیال سے پاک کیا