اقوام متحدہ کا مرکز امریکہ کے شہر نیویارک میں ہے لیکن دراصل اقوام متحدہ کی ابتدا “لیگ آف نیشنز” کے نام سے سوئٹزرلینڈ کے خوبصورت شہر جینیوا سے ہوئی تھی۔ وہاں جینیوا جھیل کے کنارے بنی لیگ آف نیشنز کی تاریخی عمارت جس کی پیشانی پر جلی حروف میں “یونائٹڈ نیشنز” لکھا ہے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بلڈنگ میں اب بھی اقوام متحدہ کے بہت سے دفاتر قائم ہیں جس میں خصوصیت اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل (UNHRC) کو حاصل ہے۔ انسانی حقوق کے حوالہ سے یہ بلڈنگ سارا سال مصروف نظر آتی ہے۔ ۳۰و۳۱؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو یہاں ہیومن رائٹس کونسل کے سوشل فورم کا ۱۷واں سالانہ اجلاس اسمبلی ہال میں منعقد ہوا۔ ہیومن رائٹس کونسل کی قرارداد 56/12میں اس کانفرنس کا موضوع یہ طے ہوا تھا: Contribution of Education to the Respect, Promotion, Protection and of All Human Rights for All(اردو ترجمہ:تمام انسانوں کے ليے انسانی حقوق کے احترام، فروغ، حفاظت اور تکمیل میں تعلیم کا کردار)۔ یہ فورم اقوام متحدہ کے رکن ممالک، سول سوسائٹی، این جی اوز اور دیگر انٹرنیشنل آرگنائزیشن کے درمیان مکالمہ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس کانفرنس کے ليے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کا تعلق حقوق انسانی اور سوشل جسٹس سے ہو۔ اس کانفرنس کے ليے UNHCR چیئرپرسن مقرر کرتی ہے جو تمام اجلاسز کی صدارت کرتا ہے۔ دو روز میں چار اجلاس ہوئے۔ دونوں روز صبح دس بجے سے ایک بجے تک اور پھر تین بجے سے شام چھ بجے تک ہونے والے اجلاسات اور اس کے مقررین کے ليے وقت مقرر تھا جس میں اس کانفرنس کے شرکاء اپنی تقاریر میں مسائل کا حل تجویز کرتے ہیں۔ تمام تقاریر کا محور تعلیم کا مقصد معاشی و سماجی حقوق کی حفاظت، معاشرتی و اقتصادی ترقی کی نظام تعلیم میں وضاحت، بچوں کی بہبود و نگہداشت، وسائل اور مواقع کی منصفانہ تقسیم، تنازعات کے دوران بچوں کی مدد، مالیاتی نظام کی اصلاح، تدریس کے شعبے میں ملازمت کی ترغیب، سمارٹ فون کے استعمال سے طلبہ کی کارکردگی پر منفی اثرات کا مقابلہ، معذور بچوں اور ترقی پذیر ممالک کے بچوں کے ليے تعلیم تک رسائی کی حمایت جیسے موضوعات شامل تھے۔ اس کانفرنس کے مقررین میں ایک احمدی دوست اور تین احمدی خواتین بھی شامل تھیں۔ ہیومینٹی فرسٹ کی طرف سے مکرم محمود الرحمان انور صاحب سیکرٹری امور خارجہ سوئٹزرلینڈ جماعت اور مکرمہ شاذیہ آصف صاحبہ آف Böblingen جرمنی نے تقاریر کیں۔ ان کے علاوہ من ہائیم جرمنی یونیورسٹی کی طالبہ عزیزہ عافیہ منصور جو من ہائم کے سابق صدر مکرم منصور احمد لون صاحب کی صاحبزادی ہیں اور اپنے تعلیمی کیریئر میں نام پیدا کرنے والی ستارہ عروج اکبر آف دبئی نے بھی اسمبلی ہال سے مخاطب ہونے کی سعادت پائی۔ اس کے علاوہ دو دن جاری رہنے والی کانفرنس کے دوران انٹرنیشنل تنظیموں نے مختلف موضوعات پر گیارہ سیمینار بھی منعقد کيے۔ Amnesty International نے انسانی بنیادی حقوق، گورنمنٹ آف Goa انڈیا نے معذور افراد کو تعلیم سے آراستہ کرنے اور ہیومینٹی فرسٹ لندن نے جنگ سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کی تعلیم اور صحت سے متعلق سیمینار منعقد کيے۔ ہیومینٹی فرسٹ کا سیمینار کانفرنس کے دوسرے روز درمیانی وقفہ کے دوران کانفرنس روم میں یہ سیمینار منعقد ہوا جس کے ليے ہیومینٹی فرسٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین ڈاکٹر عزیز حفیظ صاحب اسی روز لندن سے تشریف لائے تھے۔ نظامت کے فرائض ممتاز سماجی شخصیت مکرم محمود الرحمان انور صاحب نے سر انجام دیے۔ سیمینار کی پہلی مقرر مشہور و معروف جرنلسٹ جو اقوام متحدہ کے وومن کمشن کی ممبر بھی ہیں محترمہ فریدہ شہید تھیں۔ آپ نے شروع میں یونیسکو کے جاری کردہ اعداد و شمار پیش کر کے تعلیم کے بنیادی حق سے محروم بچوں کے ليے پالیسی بنانے کی ضرورت بیان کی۔ جن ممالک میں سکول و درس گاہیں ملڑی مقاصد کے ليے استعمال ہوتی ہیں ان کو روکنے کے ليے انٹرنیشنل قانون بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انسانی قدروں کو بچانے کے ليے تعلیم کی اہمیت اور سکولوں میں چھوٹی عمر میں نفرت کی بجائے پیار و محبت سکھانے کے ليے اساتذہ کی سپیشل ٹریننگ پر زور دیا۔ ہیومینٹی فرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر عزیز حفیظ صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ سوڈان، غزہ، یو کرائن اور مختلف وار زون سے دو ملین بچے متاثر ہوئے ہیں۔ ہیومینٹی فرسٹ ۶۲؍ممالک میں کام کر رہی ہے۔ اس حوالہ سے آپ نے غزہ اور یو کرائن میں کيے جانے والے امدادی کام کی سلائیڈز بھی دکھائیں۔ اسرائیل نے خیموں میں قائم بچوں کے سکولوں پر کی جانے والی بمباری کی تفصیل سےبھی آگاہ کیا۔ آپ نے عراق اور شام میں لوگوں کے آنسو پونچھنے کے ليے ہیومینٹی فرسٹ کی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ گیمبیا کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ خصوصی تعلیم کمیٹی کے ممبر پروفیسر محمد ایم او Kah کی تقریر ڈیجیٹل تعلیم سے متعلق تھی۔ آپ نے کہا کہ وقت بدل چکا ہے، اب سمارٹ فون کتاب بھی ہے اور لائبریری بھی۔ اس سمارٹ فون کو مس انفارمیشن سے بچانا ہے۔ بچوں کو ٹیکنالوجی کے منفی پہلوؤں سے بچانا اور مثبت راہ پر ڈالنا ہے۔ نظام تعلیم صرف ملازمت کے ليے نہیں بلکہ انسانیت سکھانے کے ليے ہو۔ پالسی میکرز کو مجبور کیا جائے کہ وہ افریقہ اور دنیا کے دوسرے غریب ممالک کے بچوں تک ٹیکنالوجی کی رسائی آسان بنائیں۔ آپ نے ہیومینٹی فرسٹ کی طرف سے افریقن ممالک میں آئی ٹی سنٹر قائم کرنے کو سراہا۔ آپ نے بتایا کہ میرے ملک میں مسرور سکول میں دو ہزار پانچ سو بچے زیر تعلیم ہیں۔ اقوام متحدہ میں قائم ادارے اکنامک، سوشل کلچر کے چیف ایڈوائزر Mr. Pradeep Wagleنے کلاس روم اور سکولوں پر ہونے والے حملوں کے بچوں پر اثرات کا ذکر کیا۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا اثر قبول کرتے ہوئے بچوں کا دماغی طور پر اپ سیٹ ہو جانے پر بہت کم کام ہو رہا ہے۔ آپ نے اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ دبئی سے آئی مہمان مقرر ستارہ عروج اکبر نے اپنے تجربات کی روشنی میں بتایا کہ ٹیچر کا کلاس روم میں رویہ ماحول پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کی امنگ پیدا کرنے کی عمر میں استاد کا رویہ ہر شاگرد کے ساتھ ایک جیسا ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ نے آن لائن تعلیم کو قابل رسا بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ فلسطین کے بچوں کی بہبود کے ليے بنائی جانے والی تنظیم Health Care for Palestinian Children کے روح رواں Mr. Rauf Santhi نے غزہ میں بچوں کی حالت زار، ہسپتالوں میں پائی جانے والی بے بسی، موبائل فون کی لائٹ میں کيے جانے والے آپریشن، میڈیسن کی کمی، امداد کے منتظر لوگوں کے بےبس چہروں پر مشتمل تصاویر بھی دکھائیں۔ لیگل ایڈوائزر Mrs. Kate Takes نے بتایا کہ شام، مصر، عراق، اردن، لبنان اور ترکی میں ۲۵؍ لاکھ بےگھر بچے دنیا کی امداد کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ تقاریر کے بعد حاضرین کو سوالات کرنے کا موقع بھی دیا گیا۔ سوال کرنے والے زیادہ تر جنوبی امریکن ممالک کے طلبہ تھے جو خصوصی طور پر اس کانفرنس میں شرکت کے ليے آئے تھے۔ کانفرنس کا اختتامی اجلاس ۳۱؍اکتوبر کی شام کو کانفرنس کا آخری اجلاس ہوا جس سے UNHCRکے آفیشل نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس سال کے سوشل فورم میں تمام مقررین اس بات پر متفق تھے کہ تعلیم کوئی مراعات نہیں بلکہ ایک حق اور مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہم اس یقین کے ساتھ کانفرنس سے رخصت ہو رہے ہیں کہ تعلیم کو مساوات، امن اور با اختیاری کی ایک زندہ قوت بنایا جائے۔ بچوں اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہم نے کام کرنا ہے۔ اس سال کے فورم نے ثابت کیا ہے کہ تعلیم افراد کو اپنی پوری صلاحیتوں کے ادراک ناانصافیوں کو چیلنج کرنے اور منصفانہ اور پائیدار معاشروں کی تعمیر میں برابر کی شرکت کے قابل بناتی ہے۔ ہم سب انسانی حقوق اور تعلیم کو استعمال کر کے منصفانہ، آزاد اور زیادہ پائیدار دنیا تشکیل دینے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ ایسی کانفرسز کی بدولت دنیا میں پھیلی آرگنائزشنز کو ایک دوسر ے سے ملنے، تجربات سے فائدہ اٹھانے اور سیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ رکن ممالک میں مسلم دنیا کی سیٹیں خالی ہی نظر آئیں۔ جماعت احمدیہ کے جو افراد اس کانفرنس میں موجود رہے ان میں مقررین کے علاوہ جرمنی سے مکرم منصور احمد لون صاحب، مکرم ظاہر علی انور صاحب، مکرم فضل الرحمان کھوکھر صاحب، مکرمہ شائستہ کھوکھر صاحبہ اور مکرمہ شمیم عرفان صاحبہ شامل ہیں۔