https://youtu.be/X_D-1VrYbmg ہر خطبہ میں کوئی نہ کوئی نمونہ ہوتا ہے، اس کو مثال کے طور پر لے لیا کرو ۔ خدمت ِخلق کے جو نمونے ہیں، ان کو اختیار کریں۔ جب وہ سنتے ہیں تو ان کو نوٹ کر لیا کریں کہ یہ یہ باتیں ہیں، جوہمارے کام آ سکتی ہیں۔ پھر ان کو کام میں لائیں مورخہ ۲؍ نومبر ۲۰۲۵ء بروز اتوار، اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں واقع ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں ہیومینٹی فرسٹ برطانیہ کی ٹیم کے اراکین اور رضاکاران پر مشتمل خواتین و حضرات کے ایک وفد کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ جب حضور انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کے آغاز میں تمام ٹیم ممبران کو فرداً فرداً اپناتعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیمی لحاظ سے اپنی مفوّضہ ذمہ داریوں اور انجام دی جانے والی خدمات و مساعی کی تفصیل بیان کرنے کا موقع بھی ملا۔ دورانِ تعارف ایک ٹیم ممبر نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ وہ مربی ٔسلسلہ بریڈفورڈ ہیں۔ یہ سماعت فرما کر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے ازراہِ شفقت تبصرہ فرمایا کہ کیا نمازیں پڑھانے کے لیے ان کو رکھا ہوا ہے؟ اس پر مربی صاحب نے مؤدبانہ عرض کیا کہ چیئرمین صاحب جو بھی چھوٹا موٹا کام میرے سپرد کر دیتے ہیں، مَیں اسے انجام دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ جس پر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ نہیں، تو پھر دعائیں کراتے رہا کریں۔ اصل کام تو دعاؤں کا ہے۔دعاؤں سے ہی کام بنتے ہیں۔ دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کوحضورِ انور سے اپنی مفوّضہ ذمہ داریوں کے حوالے سے اور دیگر مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ پہلا سوال ہمارے غزہ کے ٹیم لیڈر کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے، وہ غزہ ٹیم کی جانب سے حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ غزہ کے مستقبل کے بارے میں آپ کا کیا نقطۂ نظر ہے، خطے کی موجودہ صورتحال آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے ہیومینٹی فرسٹ پر ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ یہatrocitiesجو ہو رہی ہیں، یہ ساری ختم تو نہیں ہونیں، یہ تو جاری رہتی ہیں۔ اسرائیل اب بھی حملے کر رہا ہے، یہ تو جاری رہنا ہے۔ نیز ہدایت فرمائی کہ اِسی طرح چھپ چھپ کے کام کرتے رہو جس طرح کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ وہ اچھی طرح کام کریں اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے، کیونکہ بڑے خطرناک حالات میں وہ کام کر رہے ہیں۔ حضورانور نے اس خدشے کا اظہار بھی فرمایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ انہیں مستقبل قریب میں کوئی سکون یا راحت ملے گی۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک ٹیم ممبر نے عرض کیا کہ بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ اور مہنگائی کے باعث متوسط آمدنی والے خاندان بھی اب فوڈ بینکس کا رُخ کر رہے ہیں، نیز اس حوالے سے سوال کیا کہ ہیومینٹی فرسٹ اپنے محدود وسائل کے باوجود اس بڑھتے ہوئے بحران پر کس طرح سے قابو پا سکتی ہے؟ اس پر حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ دستیاب وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے جو بھی کارِ خیر ممکن ہو اِسے جاری رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تاحال ہیومینٹی فرسٹ کے فوڈ بینکس کو خوراک کی کسی خاص کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حضورِ انور نے اس امر کی بھی نشاندہی فرمائی کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ دائیں بازو کے عناصر فوڈ بینکس کے انتظام میں ایشینز کے کردار پر اعتراض کر سکتے ہیں، لیکن اس کو بالائے طاق رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے حوصلہ افزائی فرمائی کہ ان شاء اللہ اِس نیک کام میں برکت پڑتی رہے گی اور اِسے جاری رہنا چاہیے۔ ایک اور ٹیم ممبر نے عرض کیا کہ پیشہ ورانہ طور پر مَیں مارکیٹنگ کے شعبے میں کام کرتا ہوں اور اس حیثیت میں ہم ہمیشہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے نئے اور منفرد طریقے تلاش کرتے ہیں۔ اس حوالےسے موصوف نے سوال کیا کہ کیا ہمیں اجازت ہے کہ ہم اپنی تشہیری ویڈیوز یا پیغامات کو مزید پُرکشش بنانے کے لیے بیک گراؤنڈ میوزک یا آوازیں استعمال کر سکیں؟ اس پر حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ میوزک کے بغیر کوئی پیسہ اکٹھا نہیں ہوتا؟ نیز اس ضمن میں توجہ دلائی کہ ہمارے پیسے پھر بھی آ جاتے ہیں، ابھی تک توshortageنہیں ہوئی، کہتے ہیں کہ اب ان کے پاس دو ملین کا بجٹ ہے اور کیا تھا کہ کبھی دس بیس ہزار پاؤنڈ اکٹھے کرنے بھی مشکل تھے۔ Now you are raising up to 2 million or aboveتو یہ میوزک کے بغیر ہے۔ حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ جو چل رہا ہے چلنے دو۔ ہاں! بیک گراؤنڈ میں میوزک کے بجائے مَیں نے کہا تھا کہ ایک لائٹ نظم یا کوئی ایسی چیز،جو ایکhumجیسی ہوتی ہے، وہ پیدا کر کے اپنی advertisement دے سکتے ہو۔ تم نے سوشل میڈیا پر دینا ہوتا ہے، تو وہ آ جاتی ہے اور یہ کافی ہے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض کیا جاتا ہے کہhumسے مراد خفیف سی سرسراہٹ یا نرمی سے گونجتی ہوئی آواز ہے، جس میں شور اور شدّت کا عنصر شامل نہ ہو۔] ایک رضاکار نے اپنے مشاہدے کی روشنی میں کہا کہ جب ہم ترقی پذیر ممالک کا دَورہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کے بڑوں اور بچوں کے چہروں پر contentment(قناعت) اور اطمینان کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر اُن میںcontentment نظر آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مومن ہیں، They are satisfied۔frustratedتو نظر نہیں آتے۔ یہی آپ کا مطلب ہے، تو یہ contentmentہونی چاہیے اور یہ تو ان کے مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اس ضمن میں حضور انور نے مزید توجہ دلائی کہ اُن کی مدد کیا کریں اور جب inspireہوتے ہیں، تو اپنے لوگوں کو بھی بتائیں کہ دنیا میں اتنے لوگ غریب ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی وہ شور نہیں مچاتے اور یہاں اگر ایک دن ہمیں burger نہ ملے تو ہم کہتے ہیں کہ اوہو! مر گئے۔ یا آجکل grocery shopمیں جاؤ یا وہاں دوسری چیزیں دیکھو اور food itemلو تو اس کی قیمت میں پانچ یا دس فیصدincreaseہو گیا ہے، یعنی جو ایک پاؤنڈ کی چیز تھی، وہ اب ایک پاؤنڈ دس یا بیس پینس کی ہوگئی، تو کہتے ہیں کہ او ہو! اب کیا کریں؟ تو کم کھا لو اور ان سے سبق سیکھو۔ حضور انور نے fundraisingکے دوران لوگوں میں قناعت کے حوالے سےشعور پیدا کرنے کی بابت ہدایت فرمائی کہ fundraisingکرتے ہوئے آپ بتائیں کہ غربت کے باوجود وہ لوگ قناعت سے کام لیتے ہیں، تو تم لوگوں کو بھی sacrificeکرنا چاہیے، یہی چیزیں لوگوں کو بتا کے اسی سے لوگوں میں تھوڑا سا احساس پیدا ہو گا۔ لوگوں کےemotionsکو ذرا تھوڑا بڑھائیں کہ دیکھو! باوجود غربت کے ان میںcontentmentہے اور تمہارے ہاں باوجود اس کے کہ تمہارا فریج سب چیزوں سے بھرا ہوا ہے اور تم لوگ پھر بھی پریشان رہتے ہو۔ اس لیے کم از کم ان سے سبق سیکھو اور ان کی خاطر قربانی دو، تا کہ اللہ کے ہاں قبول ہو اور تم لوگ ثواب کماؤ۔جوfundraisersہیں، ان کو چاہیے کہ اس طرح اپنا کوئی پلان بنائیں۔ ایک ٹیم ممبر نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ’’تُو وہ بزرگ مسیح ہے، جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا‘‘ پیش کرتے ہوئے دریافت کیا کہ ہیومینٹی فرسٹ کی ٹیم اس سے کیا سبق حاصل کر سکتی ہے تاکہ اپنے محدود وسائل کو زیادہ مؤثر طور پر استعمال کر سکے؟ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ جب آپ اپنے وسائل کو بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہی اس الہام پر عمل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن دراصل خدمتِ انسانیت ہی تھا، پس آپ جب غربا ء اور محروموں کے لیے قربانی کرتے ہیں، تو اسی مقصد کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹیم ممبر نے مزید وضاحت کرتے ہوئے عرض کیا کہ اگر ہم صرف وقتی مدد یعنی آگ بجھانے کے بجائے اس سے آگے بڑھ کر ایسے اقدامات کریں جن سے آگ لگنے کی نوبت ہی نہ آئے تو کیا یہ بھی ہمارا کردار ہو سکتا ہے؟ اس پر حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ ہمیں اس قسم کی کوئی مادّی یا سیاسی طاقت میسر نہیں کہ ہم اس نوعیت کی خدمات مہیا کر سکیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنی محدود استطاعت کے اندر رہتے ہوئے غریبوں کی مدد کریں اور انہیں خوراک، رہائش، لباس اور دیگر ضروریاتِ زندگی فراہم کریں۔ حضورِ انور نے مزید ہدایت فرمائی کہ اس سے بڑھ کر ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ان ضرورت مندوں کے لیے دعا کریں اور جہاں کہیں بھی ہمارا کوئی پراجیکٹ جاری ہے وہاں کے لوگوں کی خدمت پوری دیانتداری اور دلجمعی سے کریں۔ یہی ہمارا کردار ہے اور یہی ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے بطورِ تحدیثِ نعمت مذکورہ الہام کی اصل عربی عبارت بھی درج کی جاتی ہے کہ اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہٗ: یعنی تُو وہ بزرگ مسیح ہے، جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔] ایک خاتون ٹیم ممبر نے دریافت کیا کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں خواتین کا کیا کردار ہونا چاہیے اور ان کی ٹریننگ کے لیے ہیومینٹی فرسٹ کو کس طرح اقدامات کرنے چاہئیں؟ اس پر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئےفرمایا کہ وہی جو مردوں کا ہوناچاہیے۔ جس طرح مردوں کو ٹریننگ دیتے ہیںاسی طرح آپ عورتوں کو دیا کریں۔ کس نے روکا ہے؟ مزید برآں حضورِانور نے عورتوں کے گروپ بھجوانے، ان کی ٹریننگ، راہنمائی اور قدرتی آفات میں خدمات انجام دینے کے حوالے سے مفصّل ہدایات عطا فرمائیں کہ اپنے گروپ بھیجیں۔ جہاں disaster ہوتا ہے، وہاں بعض ایسے مسائل اور عورتوں کی کچھ مخصوص ضروریات ہوتی ہیں جو مرد پوری نہیں کر سکتے، لیکن عورتوں کا گروپ وہاں جا کر انہیں پورا کر سکتا ہے۔ تو اگر کوئی ایسی جرأت مند عورتیں ہیں اور اگر جانا ہے تو صرف چھوٹی لڑکیاں نہ جائیں، بلکہ بڑی عمر کی عورتوں کو گروپ لیڈر بنا کے پھر جا سکتی ہیں ۔باقی ٹریننگ تو ہر ایک کو ہونی چاہیے۔ آپ کے پاس بھی ایسا گروپ ہونا چاہیے جس کی ٹریننگ ہو کہ کس طرح ہم نےdisaster reliefمیں کام کرنا ہے، کس طرح اس کوmanageکرنا ہے اور کیا کیا چیزیں چاہئیں۔courageبھی ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے پاس skillاورexpertiesبھی ہونی چاہئیں۔ تو یہ ساری کوشش کریں۔ مؤخّر الذکر تناظر میں اسی خاتون ٹیم ممبر نے مزید راہنمائی کی درخواست کی کہ آیا اس کے لیے عمر کی کوئی حدّ مقرر ہونی چاہیے یا کوئی بھی عمر ہو سکتی ہے؟ اس پر حضورِ انور نے گروپ میں شمولیت کے لیے عمر کے معیار، ذمہ داری کے تقاضوں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے اصولی راہنمائی عطا فرمائی کہ age limitکیا ہے، جب تک آپ چیزیں برداشت کر سکتی ہیں، تو کریں۔ بس یہ ہے کہ یہ خیال رکھیں کہ جو بھی گروپ جا رہا ہے، وہ اکٹھا جائے اور اس میں کوئی experienced،reasonable اورmatureعمر کی عورتیں ہوں، باقی تو کوئیage limitنہیں ہے۔ ہاں! بچے تو آپ ویسے ہی نہیں لے جا سکتیں، ۱۸؍سال سے کم کوتو نہیں لے جا سکتے۔ اس لیے آپ کا جو گروپ ہو گا، وہ تقریباًtwenty-five and aboveہو گا ۔ لیکن اس میں بھی بڑا احتیاط سے لے جانا پڑے گا اور ان سے پہلےbondلکھوانا ہو گا کہ اگر وہاں کچھ ہو جاتا ہے تو پھر ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔otherwiseمطلب یہ ہے کہ ویسے تو ان کا خیال رکھنا ہے، لیکن اگر کوئی ایساnatural hazardآتا ہے یا کوئی ایسی بات یا کوئی ایکسیڈنٹ ہوتا ہے، تو اس کے پھر وہ خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہی سوچ کے جانا چاہیے۔ جب اسلامی جنگوں میں عورتیں لڑتی تھیں تو وہ مردوں سے کوئی گارنٹی لے کر تو نہیں جاتی تھیں کہ ہم محفوظ ہوکے بچ کے آ جائیں گی۔ حضورِ انور نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ایک بہادر صحابیہ حضرت اُمِّ عمّارہ رضی اللہ عنہا کی مثال دیتے ہوئے خواتین کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ حضرت اُمِّ عمّارہؓ لڑیں یا اور دیگرعورتیں لڑیں۔ آپؓ اپنے بھائی کو آزاد کرانے کے لیے اکیلی ہی نکل گئیں، تلواریں دائیں بائیں چلاتی تھیں اور مسلمان مرد پیچھے حیران تھے کہ کیا کر رہی ہیں اور یہ مرد کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ جوان بتاؤ کہ تم کون ہو؟ آپ نے کہا کہ مَیں نہیں بتا سکتی اور پردہ نہیں اُتار سکتی، اس طرح بعد میں پتا لگا کہ وہ مرد کی بہن تھی، جس کو آزاد کرا کے اکیلی لے آئیں۔تو عورتوں میں پوٹینشل تو ہے، اگر کچھ کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ اس مجلس کا آخری پیش کیا جانے والا سوال یہ تھا کہ حضورِ انور اپنے خطبات میں بدری صحابہؓ کی خدمات اور قربانیوں کا مسلسل تذکرہ فرماتےآ رہے ہیں۔اس پسِ منظر میں حضورِانور ہیومینٹی فرسٹ کے کارکنان کے لیے راہنمائی فرما دیں کہ ہم ان اعلیٰ نمونوں کو اپنا کر کیسے خدمتِ انسانیت کے کام کو بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے خدمتِ خلق کی حقیقی روح کو بیدار کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہر خطبہ میں کوئی نہ کوئی نمونہ ہوتا ہے، اس کو مثال کے طور پر لے لیا کرو ۔ خدمت ِخلق کے جو نمونے ہیں، ان کو اختیار کریں۔ جب وہ سنتے ہیں تو ان کو نوٹ کر لیا کریں کہ یہ یہ باتیں ہیں، جوہمارے کام آ سکتی ہیں۔ پھر ان کو کام میں لائیں۔ ابھی مَیں نے ایک مثال عورتوں کے لیے ان کو بھی دی ہے کہ انہوں نے کس طرح کام کرنا ہے، تو ضروری نہیں ہوتا کہ جنگ اور تلوار سے اس عورت نے وہ کام کیا تھاتو ہم نے بھی کرنا ہے۔ آجکل کا زمانہ اَور ذریعہ خدمت کا ہے، اس کو اپنی جتنی پوٹینشل ہے، اس کے maximum level تک لے کر جائیں اور خدمت کریں۔ حضورِ انور نے ان دعائیہ الفاظ سے اس نشست کو اختتام بخشا کہ چلو ! پھراللہ حافظ،السلام علیکم۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمديہ جرمنی کے ریجنSchleswig-Holstein اور مجلس Dietzenbachکےایک وفد کی ملاقات