خلیفۂ وقت کا کام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جوڑے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ مَیں دو مقصد لے کر آیا ہوں، ایک یہ کہ تم لوگوں کو خدا تعالیٰ سے جوڑوں اور دوسرے یہ کہ تم ایک دوسرے کے حق ادا کرو، تو ایک دوسرے کے حق ادا کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور یہی مقصد خلافت کا ہے کہ اِسی تعلیم کو جاری رکھنا ۔پس یہ دو کام کر لو گے، تو چاہے وہ امریکہ کا خادم ہے یا کینیڈا کا خادم ہے یا آسٹریلیا کا یاجرمنی کا یا کسی اور ملک کا، تو وہی خلیفۂ وقت کے قریب آئیں گے مورخہ یکم نومبر ۲۰۲۵ء، بروزہفتہ، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ویسٹ ریجن کے چودہ(۱۴)رکنی ایک وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ سب سے پہلے امیرِ قافلہ نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں وفد کا مختصر تعارف پیش کیا، بعدازاں تمام شاملینِ مجلس کو فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کا بھی موقع ملا۔ مزیدبرآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضور انور سے مختلف سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ ہمارے ارد گرد دنیا میں ہر ایک ہی لالچ اور عدم مساوات کی وجہ سے سخت تکالیف کا شکار ہے۔ اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی کہ جماعتی اور انفرادی حیثیت سے ہم کون سے عملی اقدامات کر سکتے ہیں تا کہ معاشرےکو ایسی شکل دی جا سکے، جہاں انسانیت کو دیگر چیزوں پر ترجیح دی جائے؟ اس پر حضورِ انور نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں عدل و مساوات کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے راہنمائی عطا فرمائی کہ قرآنِ کریم ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں ضرورتمندوں کی مدد کرنی چاہیے اور دنیا میں انصاف ہونا چاہیے اور ہر انسان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک کرنا چاہیے۔ قرآن کی تو یہ تعلیم ہے۔ پس اگر ہم قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل کریں، تو ہمیں نہ صرف خود اُن پر عمل پیرا ہونا چاہیے، بلکہ دوسروں تک بھی اس پیغام کو پہنچانا چاہیے۔ حضورِ انور نے خدمتِ خلق اور عملی اقدامات کا قرآنی تصوّر پیش کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ آپ کو چاہیے کہ یتیموں کا خیال رکھیں، ضرورتمندوں کا خیال رکھیں، غرباء کا خیال رکھیں، انہیں صدقہ دیں اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں، یہ وہ عملی اقدامات ہیں، جو آپ لے سکتے ہیں اور جماعت بھی اس پر کام کر رہی ہے اور خدمتِ خلق اور ہیومینٹی فرسٹ کے شعبہ جات بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہم ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعے سے صرف ان علاقوں میں ہی مدد فراہم نہیں کرتے جہاں کوئی آفت جیسا کہ طوفان زلزلہ یا کوئی اور قدرتی آفت آئی ہو بلکہ ہیومینٹی فرسٹ کے تحت مستقل پراجیکٹس بھی جاری ہیں جیسا کہ ہسپتال، سکولز، کالجز اور ہینڈ پمپس لگانا وغیرہ تو اس طرح سے ہم ضرورتمندوں کی مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح حضورِ انور نے غرباء کو خودمختاری کی منزل تک پہنچانے کی بابت تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غریب لوگ آپ کے بھائی ہیں اس لیے ان کی مدد کریں اور انہیں اس موڑ تک لانے کی کوشش کریں جہاں وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں، یہ وہ کام ہے جو ہمیں لازمی کرنا ہے۔ آخر میں حضورِ انور نے قرآنِ کریم کے عدل پر مبنی معاشرتی نظام کا خوبصورت انداز میں خاکہ پیش کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ قرآنِ کریم میں متعدد احکامات موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ آپ کو ضرورتمندوں اور غرباء کی مدد کرنی چاہیے اور آپ کے انصاف کا معیار اس درجہ کا ہونا چاہیے کہ معاشرے میں مکمل طور پر انصاف قائم ہو اور جب یہ ہو گا تو پھر آپ ضرورتمندوں، غرباء اور ان تمام لوگوں کی مدد کریں گے جو انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہیں اور جن کا زندہ رہنا حکومتوں کی امداد کے بغیر ممکن نہیں۔ اگرچہ حکومتیں بھی ایسے لوگوں کی مدد کرر ہی ہیں لیکن ایک مذہبی شخص اور ایک احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی فرض ہے اور ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ہم بھی ان کی مدد کریں۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ احمدیوں کو فلسفہ کی تعلیم کس زاویہ سے اختیار کرنی چاہیے، جس کے نتیجے میں وہ اس کے مثبت پہلوؤں سے فائدہ حاصل کریں اور روحانی طور پر محفوظ بھی رہیں نیز درخواست کی کہ کیا حضورِ انور وحی الٰہی کے ضمن میں فلسفے کے مقاصد اور حدود کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے نظریات پر روشنی ڈال سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور کےاستفسار فرمانے پر خادم نے عرض کیا کہ اس نے دو مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصنیفِ لطیف اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ کیا ہواہے۔ جس پر حضورِ انور نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں بیان فرمودہ غیر معمولی اور بصیرت افروزمضامین سے استفادہ کی جانب راہنمائی فرماتے ہوئے توجہ دلائی کہ اگر آپ نے جو پڑھا ہے اسے سمجھا ہے، تو جواب اسی میں موجود ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی تصنیف میں اِن تمام موضوعات کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے، اس میں کئی ابواب ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ دین کا مقصد کیا ہے؟ موت کے بعد کی زندگی کیا ہو گی؟ انسان کے اپنے خالق اور بنی نوع انسان کے حقوق کیا ہیں؟ تو کئی مضامین ہیں جو اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں اگر آپ انہیں غور سے پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو جواب وہیں مل جائے گا اور اگر اس میں کوئی ایسی بات ہو جو آپ کو نہ سمجھ آئے تو مجھے لکھیں تا کہ اس کا تفصیلی جواب دیا جا سکے۔ مزید برآں حضورِ انور نے خادم سے دریافت فرمایا کہ کون سی بات تھی جو تم سمجھ نہیں سکے؟ اس پر خادم نے وضاحت کی کہ مَیں عمومی طور پر عرض کر رہا تھا کیونکہ بسا اوقات مذہبی تعلیمات اور دنیاوی فلسفیانہ روایت کے درمیان کچھ ٹکراؤ محسوس ہوتا ہے تو مَیں یہ جاننا چاہتا تھا کہ ہم دنیاوی فلسفیانہ روایت کو اپنی مذہبی روایت کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کر سکتے ہیں؟ جس پر حضورِ انور نے دنیاوی فلسفے کی محدودیت اور الٰہی تعلیم کی کامل حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ دنیاوی قوانین کامل نہیں ہیں۔ان کی تعلیمات بھی کامل نہیں ہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی تعلیمات ہی کامل ہیں۔ یہی ہمارا ایمان ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقتاً فوقتاً ان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں اور نئے نئے نظریات آتے رہتے ہیں، وہ کسی ایک بات پر قائم نہیں رہتے جبکہ قرآنِ کریم وہ کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چودہ سو سال قبل یا اس سے بھی زائد عرصہ پہلے نازل ہوئی اور وہ آج بھی اپنی اصل صورت میں محفوظ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان کو پیش آنے والے تمام مسائل اور مشکلات کا حل قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ قرآن کی تعلیمات پر عمل کریں گے تو آپ سیدھے رستے پر چلیں گے۔ اسی طرح عقل اور وحی کے باہمی تعلق کی بابت حضورِ انور نے بیان کیا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ عقل کو دین پہ حاکم نہ بناؤ ہرگز یہ تو خود اندھی ہے گر نیّر الہام نہ ہو حضور انور نے بغیر کسی احساسِ کمتری کا شکار ہوئے غیروں کے سامنے خوبصورت اسلامی تعلیمات پیش کرنے کی بابت راہنمائی فرمائی کہ وہ لوگ جو صرف دنیاوی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں وہ جاہل ہیں۔ آپ اپنی عقل کو صرف تب ہی بہتر بنا سکتے ہیں جب آپ کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ہو اور آپ اس سے مدد مانگتے رہیں، وہی آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ تو بجائے اس کے کہ آپ کسی احساسِ کمتری کے شکار ہوں کہ دنیاوی لوگ کیا کہتے ہیں، آپ کو لوگوں کو بتانا چاہیے کہ یہ اسلام کی تعلیمات ہیں اور ہم اِن پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میں حکمت ہے۔ اور یہ وہ تعلیم ہے جو کامل تعلیم ہے اور ہم یہ بات قرآن کریم کی بےشمار آیات سے ثابت بھی کر سکتے ہیں۔ مزید برآں حضورِ انور نے اسلامی تعلیمات کی فضیلت اور قرآنِ کریم کی جامع راہنمائی کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت سائنس اور دینی امور میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ہر پہلو سے دینی تعلیمات تمام دنیاوی تعلیمات سے افضل ہیں۔کیونکہ بعض دفعہ دنیاوی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی، بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں قانون پاس کر دیا اور اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں، اس لیے ہم اب اس میں ترمیم کرنے لگے ہیں، اسی لیے دنیاوی قوانین میں بہت سی ترامیم ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے متعلق فرماتا ہے کہ قرآنِ کریم آخری شرعی کتاب ہے جو آپ کو دین کے متعلق اور روزمرّہ کی دنیاوی زندگی کے معاملات کے متعلق بھی تعلیم دیتی ہے۔ آخر میں حضورِ انور نے قرآنِ کریم کے مطالعے اور تدبّر کی جانب ترغیب دلاتے ہوئے اس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ کسی قسم کے احساس ِکمتری کا شکار نہیں بننا چاہیے۔ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآنِ کریم، اس کے معنی، اس کا ترجمہ اور اس کی تفسیر سب پڑھنے کی کوشش کریں۔ ہماری جماعت میں انگریزی زبان میں Short Commentaryبھی ہے اور پانچ جلدوں پر مشتمل تفسیر بھی ہے۔اگر آپ ان کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اسلام کی تعلیمات کس قدر خوبصورت ہیں۔ ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ جب کوئی جذباتی لمحات ہوتے ہیں، تو دورانِ نماز مَیں اپنے آنسو اور جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا۔اس پسِ منظر میں حضور انور سےراہنمائی کی درخواست کی کہ ہم نماز میں توجہ، رقّت اور حضورِ قلب کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ سب سے پہلےحضورِ انور نے خادم کی زبان دانی کے بارے میں نہایت پُر شفقت انداز میں مسکراتے ہوئے استفسار فرمایاکہ تمہیں یہ ساری اُردو آتی ہے! تم نے یہ سارے لفظ جو بولے ہیں، اِن کا مطلب آتا ہے، تمہیں کسی نے لکھ کے دیا ہے؟ جس پر خادم نے عرض کیا کہ کچھ کچھ تھوڑا سا، اتنا زیادہ مطلب نہیں آتا۔یہ اُردو میری اُمّی نے میرے لیے لکھی ہے۔ اس پر حضورِ انور نے نماز میں توجہ پیدا کرنے کے حوالے سے نہایت بلیغ نصیحت فرمائی کہ جب تم نماز میں سورةالفاتحہ پڑھتے ہو، تو اُس وقت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکہ اللہ تعالیٰ تمہیں صحیح رستے پر چلائے اور اِیَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاكَ نَسۡتَعِیۡنُ بار بار پڑھو۔ سورة الفاتحہ کوrepeatedlyپڑھتے رہو۔ پھر حضورِ انور نے مزید دریافت فرمایا کہ تمہیں سورۃ الفاتحہ کا مطلب آتا ہے؟خادم کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِ انور نے سورۃ الفاتحہ کو بار بار پڑھنے کے روحانی فضائل پر روشنی ڈالی کہ پھر جبrepeatedlyتم پڑھو گے، تو تمہیں اس کا مطلب پتا لگے گا اورپھر پتا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ ہم پرکتنا مہربان ہے۔اور پھر جو اللہ تعالیٰ نے بے شمار تمہارے پرblessingsکی ہوئی ہیں اور بے شمار فضل کیے ہوئے ہیں، ان کو جب تم دیکھو گے، تو تم شکر کرو گے۔تمہیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا کوئی تمہاریfavourکرتا ہے تو تم اس کا شکر کرتے ہو۔تو پھر اسی طرح اللہ تعالیٰ کا شکر کرو۔ جب شکر کرو گےتو تمہارے emotions زیادہ بڑھیں گے، باہر نکلیں گے اور پھر تم دعا بھی کرو گے۔ ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ بعض اوقات کچھ نوجوان کسی عہدیدار کے سخت رویّے کی وجہ سے جماعت سے دُور ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے میں راہنمائی کی درخواست کی کہ اُن کو جماعت میں واپس کیسے لایا جا سکتا ہے؟ اس پرحضورِ انور نے بیعت کی حقیقی غرض و غایت نیزدینی وابستگی کی اصل بنیاد کی بابت یاددہانی کروائی کہ ان کو بتاؤکہ آپ نے بیعت عہدیداروں کی کی ہوئی ہے یا مسیح موعود ؑکو سچا مان کے اُن کی بیعت کو مانا ہے اور پھر خلافت سے بیعت کی ہے۔ اگر تو انہوں نے عہدیداروں کی بیعت کی ہےتو ٹھیک ہے ان کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ اور اگر انہوں نے مسیح موعودؑ کو مانا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مانا ہے اور خلافت سے تعلق ہےتو پھر ان سے کہو کہ یہ تو ان کےpersonalرویّے ہیں۔ ان کےattitudeکی وجہ سے اپنے آپ کو دین سے کیوں دُور لے کے جاتے ہو۔ ان کو آہستہ آہستہ سمجھاؤ۔ پھر حضورِ انور نے عہدیداران کی ذمہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے نوجوانوں کو سنبھالنے کے عملی طریق کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ دوسرا یہ عہدیداروں کا بھی کام ہے جو دوسرے عہدیدار ذرا نچلی سطح پر ہیں کہ اُن کو اپنے ساتھ لے کے آئیں، ان کو بلائیں، ان کو سمجھائیں، ان سے دوستی پیدا کریں اور ضائع ہونے سے بچاؤ۔ کسی بھی جان کو ہمیں بھائی سمجھ کے ضائع ہونے سے بچانا چاہیے، جس طرح آپ اپنے بھائی کو بچاتے ہو اس طرح ان کو بھی بچاؤ اور سمجھاؤ۔ مزید برآں حضورِ انور نے قرآنی تعلیمات کے مطابق عہدیداران کو نرم رویّے اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ عہدیداروں کو بھی اپنے رویّے نرم کرنے چاہئیں۔ عہدیدار یہ نہ سمجھیں کہ ہم عہدیدار بن گئے تو ہمیں بہت کچھ ہوگیا۔ قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا ہے کہ تم ان لوگوں سے نرمی کا سلوک کرو۔ اگر تم نے سختی کی تو یہ دُور ہٹ جائیں گے اور دُور ہو جائیں گے۔ حضورِ انور نے نوجوانوں میں احساسِ شرکت پیدا کرنے کے حوالے سے ان کو مشورہ جات میں شامل کرنے کی بابت تاکیدی نصیحت فرمائی کہ ان سے مختلف باتوں میں مشورے بھی لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک پرنسپل اصول بتا دیا کہ یہ طریقۂ کار ہے کہ ان سے نرمی کا سلوک کرو، پھر ان سے مشورے لو تا کہ ان کو پتا لگے کہ ہم انactivitiesمیںinvolveہیں۔اور پھر آگے یہ بھی فرما دیا کہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے مشورے مانو۔ پھر فیصلہ وہی کرو جو دعا کرنے کے بعد تم بہتر سمجھو، لیکن ہر ایک کی رائے سے ان کو یہ احساس ہو جائے گا کہ ہماری جماعتیaffairsمیں کوئیinvolvementہے۔ آخر میں حضورِ انور نےعہدیداران کی اصلاح، عاجزی اور دعا کے ضروری امور پر توجہ دلاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ احساس عہدیداروں کو بھی ہونا چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ سختی کریں اور اپنے آپ کو سمجھیں کہ مَیں صدر بن گیا، مَیں سیکرٹری بن گیا تومَیں پتا نہیں کہ کیا چیز بن گیا ہوں۔ یہ تو غلط طریقہ ہے۔دعا کرو۔ ان عہدیداروں کو بھی سمجھاؤ کہ اپنی اصلاح کریں اور لوگوں کو بھی سمجھاؤ۔ حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا گیا اگلا سوال بچوں پر سکرین ٹائم کے مرتّب ہونے والےمضر اثرات کی بابت تھا۔ایک خادم نے اس ضمن میں عرض کیا کہ بعض والدین محض بچوں کو مصروف رکھنے کی خاطر بہت کم عمر میں ہی انہیں فون اور انٹرنیٹ تک رسائی دے دیتے ہیں۔ اس پرحضورِ انور نے واضح ہدایت فرمائی کہ یہ بالکل غلط طریق ہے، اگر انتہائی ناگزیر صورت میں ایسا کرنابھی پڑے، تو اس کا وقت ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضورِ انور نے ضرورت سے زیادہ سکرین ٹائم کے نقصانات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ضرورت سے زیادہ سکرین ٹائم کے نقصانات اب اس قدر واضح ہو چکے ہیں کہ آسٹریلیا کی حکومت نے بچوں کے لیے انٹرنیٹ سے منسلک ڈیوائسز پر پابندی لگا دی ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا مگر حکومت نے بجا طور پر موقف اختیار کیا کہ ایسا بچوں کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ڈیوائسز اُن کی ذہانت اور اخلاقی نشوونما کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حضورِ انور نےتلقین فرمائی کہ والدین محض اپنی سہولت کے لیے اپنے بچوں کی زندگی برباد نہ کریں۔ نیز اس پہلو کی بھی نشاندہی فرمائی کہ اگر سکول کے کام کے لیے ٹیبلٹس وغیرہ استعمال کرنا ضروری بھی ہوں تو والدین کی طرف سے سخت نگرانی لازمی ہے۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ انسان کس طرح حضورِ انور کی طرح باقاعدہ اور منظّم زندگی گزار سکتا ہے، نیز سستی یا کاہلی پر قابو پا سکتا ہے؟ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے پہلے ہی نظم و ضبط کا ایک بہترین فریم ورک پانچ وقت کی نمازوں کی صورت میں فراہم کر دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نمازوں میں پابندی اختیار کرے، یعنی نمازِ فجر کے لیے وقت پر اُٹھنا اور پھر ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کو مقررہ وقت پر ادا کرنا تو اس کی بدولت اُس کی زندگی خود بخود منظّم ہو جائے گی۔ حضورِ انور نے نصیحت فرمائی کہ فجر کے بعد ہلکی پھلکی ورزش کرنی چاہیے اور تازہ ہوا میں وقت گزارنا چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا جسم کو تندرست اور دماغ کو تر و تازہ کرتا ہے۔ نظم و ضبط کا ایک اہم جزو یہ بھی ہے کہ رات دیر تک جاگنے یا انٹرنیٹ یا ٹیلی ویژن دیکھنے کی عادت نہ ہو تاکہ نمازِ فجر چھوٹنے کا خطرہ نہ رہے۔ آخر میں حضورِ انور نے انگریزی ضرب المثل Early to bed and early to rise makes a man healthy, wealthy and wiseکو نظم و ضبط کی اصل روح قرار دیا۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ فلسطین کے حالات بہت تکلیف دہ ہیں اور لوگ شدید مشکلات میں رہ رہے ہیں، جماعت کی وہاں مسجدیں بھی ہیں۔ ایسے میں احمدی مسلمان یہاں بھی اور دنیا بھر میں کس طرح امن اور انصاف کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور ہماری جماعت ان لوگوں کی کیسے مدد کر سکتی ہے؟ اس پر حضورِ انور نے دستیاب جماعتی وسائل کی عملی حدود کا ذکر کرتے ہوئے فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے کی بابت روشنی ڈالی کہ بات یہ ہے کہ حالات تو خراب ہیں اور ہمارے پاس حکومت تو کوئی ہےنہیں اور نہ ہی کوئی طاقت ہے۔ ہاں! ہمارے پاس ایک ادارہ ہے۔چیریٹی اور خدمتِ خلق کے ذریعہ سے ہم مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے وہاں ان کوaid بھی دی جاتی ہے اور ہمارے احمدی فلسطینی لڑکےبھی وہاں بڑے جذبے سے کام کر رہے ہیں اور بہت قربانی کر رہے ہیں اور یہی کچھ ہم کر سکتے ہیں۔ باقی جو این جی اوز ہیں، ان کو بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ ان کو مدد کی ضرورت ہو تو ہم مدد کرتے ہیں۔ تو یہی چیزیں ہمارے پاس ہیں۔نہ حکومت کو ہم کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی روک سکتے ہیں۔ اسی طرح حضورِ انور نے پیغام پہنچانے کے ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے دعا کی اہمیت کو اُجاگر فرمایاکہ باقی جہاں تک پیغام پہنچانے کا تعلق ہے، جس حدّ اور لیول تک پہنچا سکتے ہیں، ہمارے وہاں جو احمدی لوگ ہیں، کبابیر میں جماعت ہے، وہ اپنا رول playکر رہی ہے اور ان کو پیغام پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہی کچھ ہم کر سکتے ہیں۔ باقی دعا ہے، دعا کرو، ہمارے پاس طاقت اور حکومت تو ہے نہیں۔ حضورِ انور نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ سے وابستہ ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئےاظہارِ افسوس فرمایا کہ عرب ملک خود اس میں involveہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پچھلے دنوں بھی بتایا تھا۔ یو این میں اس کا ذکر ہوا۔ر پورٹ میں ایک فہرست دی گئی اور بتایا گیا کہ فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم میں ساٹھ ممالکinvolveہیں، ان میں یورپ اور امریکہ تو جو ہیں وہ ہیں، عرب ملک بھی شامل ہیں۔ کیونکہ اگر وہ چاہتے تو کچھ نہ کچھ کسی طریقے سے اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ فلسطین پر ظلم نہ کرو۔ لیکن جب انہوں نے ایسا نہیں کیا، تو مسلمان خود ہی جو ہمسائے ہیں وہ نہیں کر رہے، تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ اس کے بعدہم دعا ہی کر سکتے ہیں اور وہ ہم کرتے رہتے ہیں۔ اور غریبوں کی جو ظاہری مدد میڈیکل ایڈ، فوڈ ایڈ ہے اور دوسری چیزیں ہیں، وہ ہم کرتے رہتے ہیں۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ کسی غیر احمدی کو احمدیت قبول کرنے کی دعوت دینے کا سب سے مؤثر طریق کیا ہے؟ اس پرحضور انورنے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدیت اچھی اور سچا اسلام ہے اور کیوں؟ جس پر خادم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے بطورِ دلیل عرض کیا کہ ان نشانات اور پیشگوئیوں کی وجہ سے کہ جو ہمیں حضرت مسیح موعود ؑکے ذریعے دکھائی گئی ہیں۔ حضور انور نے مزید دریافت فرمایا کہ اس سے آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ تو خادم نے عرض کیا کہ ظاہر ہے کہ ابتدائی طور پر مَیں احمدیت میں پیدا ہوا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مَیں نے اس کے بارے میں مزید پڑھنا شروع کیا اور وہ باتیں ماننا شروع کیں، جو مجھے سکھائی گئی تھیں۔ پھر حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ تو اب آپ خدا کی وحدانیت اور اس کی قدرتِ کاملہ پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ خدا آپ کی سنتا اور دعائیں قبول کرتا ہے؟ خادم کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِ انور نے دوسروں کو احمدیت کی دعوت دینے کی بابت بنیادی اور راہنما اصولوں کی وضاحت فرمائی کہ جس طرح آپ نے خدا کی صفات کا مشاہدہ کیا ہےتو اب آپ دوسرے لوگوں،غیر احمدیوں یا غیر مسلموں کو بتا سکتے ہیں کہ خدا واقعی موجود ہے اور اس کے پاس طاقت ہے اور اس نے ہم پر بے شمار نعمتیں نازل کی ہیں، اس نے ہماری مدد کی ہے اور ہمیں بہت سی چیزیں عطا کی ہیں۔ وہ سب کچھ دینے والا اور سب کچھ سنبھالنے والا ہے۔ تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو خدا پر ایمان رکھنا چاہیےاور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ یہ پیغام کسی غیر احمدی مسلمان کو پہنچا رہے ہیں تو اسے بتا ئیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ آخری زمانے میں ایک شخص مسیح اور مہدی کے لقب سے ظاہر ہو گا اور وہ میرا سچا خادم ہو گا، وہ اسلام کے دین کو دوبارہ زندہ کرے گا کیونکہ اس وقت مسلمان اسلام کی تعلیمات کو بھول چکے ہوں گے۔ اب ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی وہ وقت ہے، وہ شخص ظاہر ہو چکا ہے اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جو قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تو مَیں صرف تمہیں یہی پیغام پہنچا رہا ہوں، اگر تم چاہو تو مَیں تمہیں مزید لٹریچر دے سکتا ہوں، تا کہ تم اسلام کی سچّی تعلیمات، احمدیت کے دعویٰ اور حضرت مسیح موعودؑ کے مقام کو بہتر طور پر سمجھ سکو۔ آخر میں حضورِ انور نے ذاتی تجربے اور مشاہدہ کی گئی برکات کی روشنی میں بغیر کسی زبردستی کے تبلیغ کرنے کی بابت توجہ دلائی کہ اسی طرح آپ اپنی تبلیغ شروع کر سکتے ہیں، آپ کسی کو زبردستی احمدیت قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے، آپ صرف یہ بتا سکتے ہو کہ یہی سچی تعلیم ہے اور یہی وجہ ہے کہ مَیں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور مَیں نے اس جماعت کو قبول کرنے کے بعد بے شمار برکتیں دیکھی ہیں۔ پس اسی طرح آپ کسی شخص کو اپنے قریب لا سکتے ہیں اور پھر وہ سمجھنے لگے گا، اگر ان کے اندر سمجھنے کی خواہش ہوگی، تو پھر وہ ضرور سمجھیں گے۔ لیکن اگر یہ سوچیں کہ وہ مذہب کے بارے میں بے پرواہ ہیں، تو پھر آپ کسی کو احمدیت قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے، کیونکہ جیسا کہ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ پچھلے کچھ ملاقات کرنےوالے گروپس نے یہ محسوس کیا کہ حضورِ انور امریکہ سے آنے والے خدام پر خلافت سے وابستہ کرنے کے لیے ازراہِ شفقت خصوصی نظرِ کرم فرماتے ہیں، نیز دریافت کیا کہ اس بارے میں حضورِ انور کی کیا رائے ہے؟ اس پر حضورِ انور نے استفہامیہ انداز میں تبصرہ فرمایا کہ لوگوں نے رائے دی ہے، مَیں کیا کہہ سکتا ہوں، آپ بھی تین دن سے آئے ہوئے ہیں تو آپ کاکیا خیال ہے؟ خادم نے فراہم کردہ مہمان نوازی کی جانب نشاندہی کی، توحضور انورنے واضح فرمایا کہ hospitality تو ویسے ہی کرنی ہے، چاہے وہ کافر ہو یا احمدی ہو یامسلمان ہو، جو بھی ہمارے پاس آئے گا اس کی مہمان نوازی تو کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِکرامِ ضَیف یعنی مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو hospitalityتو ہونی چاہیے۔ یہ توہر جگہ ہے۔ تو اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ اس کی وجہ سے اچھا اثر ہو گا۔ اسی تناظر میں حضورِ انور نے اچھے اخلاق دکھانے کی اہمیت کو بھی اُجاگر فرمایا کہ ہاں! اچھے اخلاق دکھانے چاہئیں، اس کو بھی مَیں نے بتایا ہے کہ غیر احمدیوں کو تبلیغ کرنی ہے، تو اس میں بھی سب سے یہی پہلی بات ہے کہ اپنے اچھے اخلاق بھی دکھاؤ۔ آپ اپنے اچھے اخلاق کا نمونہ دکھائیں گے تو وہ پوچھیں گے کہ آپ اس قدر خوبصورت طریقے سے برتاؤ کیوں کر رہے ہیں؟ تب آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ اسلامی تعلیم ہے جو مَیں نے احمدیت سے سیکھی ہے۔ یہ بھی غیر احمدیوں تک اپنا پیغام پہنچانے کا ایک طریقہ ہے، یہ تبلیغ کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے، یہ بھی پیغام پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔ حضور انور نے اِس بات پر زور دیا کہ مہمان نوازی تو ہم کرتے ہیں، باقی تمہاری مرضی ہے کہ اس کی وجہ سے یہاں آ کے اثر ہوتا ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے، اچھی بات ہے ہو جائے۔ حضورِ انور نے حقیقی تعلق کی بنیاد الله تعالیٰ سے تعلق کو قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ باقی مجھے تو ہر احمدی کے ساتھ تعلق ہے۔ حضورِ انور نے ایک شریکِ مجلس کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے سمجھایا کہ چاہے یہ فرانس سے تعلق رکھتاہے، امریکہ چلا گیا ہے، تو اس کا کیا مطلب ہے کہ فرانس سے میرا تعلق ختم تو نہیں ہو گیا۔ تو یہ تعلق ہر ایک کے ساتھ ہے۔ اور اصل تعلق تو یہی ہے کہ الله کےساتھ پہلے تعلق پیدا کرو، اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحیح تعلق ہے اور سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے اور اس کی ہمیں عبادت کرنی چاہیے اور اس کا حق ادا کرنا چا ہیےاور اس کی تعلیم پر عمل کرنا چاہیے تو پھر جماعت سے بھی تعلق رکھو گے اور آپس میں جماعت کے افراد سے بھی تعلق ہو گا بہن بھائیوں سے بھی تعلق ہو گا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ آخر میں حضورِ انور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کے دو بنیادی مقاصد کی روشنی میں تلقین فرمائی کہ باقی میرا جہاں تک تعلق ہے، تو خلیفۂ وقت کا کام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جوڑے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ مَیں دو مقصد لے کر آیا ہوں، ایک یہ کہ تم لوگوں کو خدا تعالیٰ سے جوڑوں اور دوسرے یہ کہ تم ایک دوسرے کے حق ادا کرو، تو ایک دوسرے کے حق ادا کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور یہی مقصد خلافت کا ہے کہ اسی تعلیم کو جاری رکھنا۔ پس یہ دو کام کر لو گے تو چاہے وہ امریکہ کا خادم ہے یا کینیڈا کا خادم ہے یا آسٹریلیا کا یاجرمنی کا یا کسی اور ملک کا، تو وہی خلیفۂ وقت کے قریب آئیں گے۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو ازراہِ شفقت اپنے محبوب آقا کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمديہ امريکہ کے مڈویسٹ ريجن کے وفدکی ملاقات