ایک دفعہ رسول اللہﷺ مسجدِ نبوی میں صحابۂ کرامؓ کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے کہ کسی نے اطلاع دی کہ ایک بوڑھی عورت ملنے آئی ہے۔ جیسے ہی آپؐ کی بوڑھی عورت کے چہرے پر نظر پڑی، توانہیں پہچان لیا۔آپؐ نے اٹھ کر ان کے لیے اپنی چادر بچھائی اور بہت محبت و احترام کے ساتھ پیش آئے اور اُن کے لیے دعا فرمائی۔ اُن کی خُوب خاطر مدارت کی اور بہت سے تحائف کے ساتھ رُخصت کیا۔(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد) مزید لکھا ہے کہ آپؐ اُس وقت تک دروازے پر کھڑے رہے، جب تک اُن کی سواری نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔ صحابۂ کرامؓ کے پوچھنے پر فرمایا۔ ’’یہ میری وہ ماں ہیں، جنہوں نے مجھے دو سال تک دُودھ پلایا اور جن کے گھر مَیں نے ۵ سال کی عُمر تک قیام کیا۔‘‘ حضرت حلیمہ سعدیہؓ وہ بابرکت خاتون ہیں جنہیں رسولِ اکرمﷺ کی رضاعت (دودھ پلانے) کی عظیم سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنوھوازن کی شاخ بنو سعد بن بکر سے تھا۔ اسی نسبت سے آپ کو “سعدیہ” کہا جاتا ہے۔آپؓ کا پورا نام حلیمہ بنت ابوذؤیب بن عبداللہ بن الحارث تھا۔ آپؓ کے شوہر کا نام حارث بن عبدالعزیؓ تھا، جن کی کنیت ابو کبشہ تھی۔ اسی نسبت سے قریش کے بعض لوگ رسول اللہﷺ کو بھی کبھی کبھار ’’ابنِ ابی کبشہ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر) حضرت حلیمہ سعدیہؓ اور ان کے شوہر کے قبولِ اسلام کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں، تاہم زیادہ تر مؤرخین کے مطابق انہوں نے فتح مکہ اور غزوۂ حنین کے بعد اسلام قبول کیا۔ (الطبقات الکبریٰ، ابن سعد) حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی اولاد میں تین یا چار بچوں کا ذکر ملتا ہے۔ ۱۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ۔یہ حضرت محمدﷺ کے رضاعی بھائی تھے۔ انہوں نے حضورؐ کے ساتھ بچپن گزارا۔ ۲۔ حضرت شیماء بنت حارثؓ۔یہ آپؐ کی سب سے زیادہ معروف رضاعی بہن ہیں۔ حضرت شیماء آپؐ کو گود اٹھاتی اور بہلاتی تھیں۔ جنگ حنین کے موقع پر قیدی بن کر آئیں، ر سول اللہﷺ نے انہیں پہچانا اور بڑے اعزاز کے ساتھ آزاد کیا۔ ۳۔ حضرت انیسہ بنت حارثؓ۔ ان کے بارے میں تفصیل کم ملتی ہے۔ ۴۔ حضرت حذافہ(یا جُذامہ)بن حارثؓ۔ ان کے حالات بھی زیادہ تفصیل سے محفوظ نہیں۔ عر ب میں قبیلہ بنو سعدکا مقام قبیلہ بنو سعد بن بکر عرب کے نامور اور معزز قبیلہ ھوازن کی ایک مشہور و ممتاز شاخ تھی۔ ان کا مسکن مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیانی ریگزاروں اور نخلستانوں میں واقع تھا۔ پورے عرب میں بنو سعد کی زبان سب سے زیادہ فصیح، خالص اور دل آویز سمجھی جاتی تھی۔ انہی کی بولی میں وہ شیرینی اور سلاست تھی جو عربی کے اصل جوہر کو نمایاں کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قریشِ مکہ اپنے نونہالوں کو انہی قبائل کی عورتوں کے سپرد کردیا کرتے تھے، تاکہ وہ صحرائی فضا کی سختی میں پرورش پائیں، جسمانی طور پر مضبوط ہوں اور زبانِ عربی کی فصاحت و بلاغت ان کے وجود میں رچ بس جائے۔ رضاعت کے لیے رسو ل اللہﷺ کا انتخاب جب نبیٔ مکرم ﷺ دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ کو والدہ محترمہ حضرت آمنہ بنت وہبؓ اور ابو لہب کی لونڈی حضرت ثویبہؓ نے دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی۔ چند روز بعد اہلِ مکہ کے اس قدیم اور بابرکت رواج کے مطابق، رسولِ کریم ﷺ کو مستقل رضاعت کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے سپرد کیا گیا۔ رضاعت کے لیے مکہ آنے اور رسول اللہﷺ کے انتخاب کا واقعہ حضرت حلیمہؓ سے خود مروی ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں: میں بنی سعدکی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی۔ اُس سال عرب میں بہت سخت قحط پڑا ہوا تھا، میری گود میں ایک بچہ تھا، مگر فقر و فاقہ کی وجہ سے میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کو کافی ہو سکے۔ اور اُس کےلیے بھی دودھ نہ تھا۔ مکہ کے سفر میں جس گدھی پرمیں سوار تھی وہ بھی اس قدر لاغر تھی کہ قافلہ والوں کے ساتھ نہ چل سکتی تھی ۔میرے ہمراہی بھی اُس سے تنگ آ چکے تھے۔ بڑی مشکلوں سے یہ سفر طے ہوا۔ جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا۔قبیلہ کی جو عورت رسول اللہﷺ کو دیکھتی اور یہ سنتی کہ یہ یتیم ہیں تو آپ کو لینے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی،کیونکہ بچے کے یتیم ہونے کے سبب سے زیادہ انعام و اکرام ملنے کی امید نہیں تھی۔ شروع میں حلیمہ بھی آپؐ کو لینے میں تأمل کا شکار تھیں۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ باقی تمام عورتوں کو بچے مل گئے ہیں تواپنے شوہر کے مشورہ سے انہوں نے خالی ہاتھ واپس جانے سے بہتر سمجھا کہ محمد ﷺ کو اپنے ساتھ لے چلیں۔ (ابن ہشام، السیرة النبوية،جلد نمبر ۱) ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت حلیمہؓ مکہ میں داخل ہوئیں تو حضرت عبدالمطلب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟آپ نے کہا میں بنی سعد کی ایک خاتون ہوں۔انہوں نے نام پوچھا تو بتایا ’’حلیمہ‘‘۔یہ سن کر حضرت عبدالمطلب مسکرانے لگےاور فرمایا: ’’بخ بخ سعد و حلم خصلتان فھما خیر الدھر وعزالابد‘‘ واہ واہ۔ سعد اور حلم۔کیا کہنا یہ دو خوبیاں ہیں۔جن کی زمانےبھر کی بھلائی اور ابدی عزت ہے۔ (سبل الھدیٰ والرشادجلد اول) حضرت حلیمہؓ کے گھرمیں برکتوں کے ڈیرے حضرت حلیمہ سعدیہؓ بیان کرتی ہیںکہ جب میں حضرت آمنہؓ کے لختِ جگر، محمدﷺ کو اپنی گود میں لے کر واپس اپنے قبیلے کی طرف روانہ ہوئی تو راستے ہی میں محسوس ہوا کہ ہماری دنیا بدل گئی ہے۔ میری وہ چھاتیاں جو پہلے خشک تھیں، اب دودھ سے لبریز ہو چکی تھیں۔ میرا اپنا بیٹا، جو بھوک کے مارے رات دن روتا رہتا تھا، اُس دن سکون سے سو گیا کیونکہ اُس نے اور حضورﷺ نے سیر ہو کر دودھ پیا، اور تعجب یہ کہ پھر بھی دودھ ختم نہ ہوا۔ میرے شوہر حارثؓ کی نگاہ جب ہماری اونٹنی پر پڑی تو اُس کے خشک تھن بھی دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سمجھ گئے کہ یہ کوئی عام بچہ نہیں — یہ تو ربّ العالمین کی خاص رحمت ہے۔ جب قافلہ بنو سعد واپس جانے لگا تو میری وہ لاغر گدھی جو پہلے بمشکل چلتی تھی، اب اتنی تیز رفتار ہو چکی تھی کہ سب کی سواریاں پیچھے رہ گئیں۔ قبیلے کی عورتیں حیرت سے کہنے لگیں ’’اَلَیْسَتْ ھٰذِہٖ اَتَانُکِ الَّتِیْ خَرَجْتِ عَلَیْہَا؟‘‘ ’’کیا یہ وہی گدھی نہیں جس پر تم آئی تھیں؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا:’’ہاں! سواری وہی ہے، مگر سوار بدل گیا ہے۔‘‘ جب ہم اپنے گھر پہنچے تو وہاں اللہ کی برکتوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ ہمارے علاقے میں قحط سالی تھی، لوگ بدحال تھے، لیکن میرے گھر کے مویشی دودھ سے بھرے رہتے، چارہ وافر ہوتا اور دلوں میں شکر و اطمینان کی کیفیت چھا گئی تھی۔ ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے کہ اُس نے ہمیں خیرالانام ﷺ کی پرورش کی سعادت بخشی۔(ابن ہشام، السیرة النبوية،جلد نمبر ۱) جب رسولِ مکرمﷺ کی عمرِ مبارک دو برس کو پہنچی اور مدتِ رضاعت پوری ہو گئی تو حضرت حلیمہ سعدیہؓ انہیں اپنی گود میں اٹھائے مکہ مکرمہ آئیں تاکہ حضرت آمنہؓ کے سپرد کر دیں۔ ان دو برسوں میں حضور ﷺ کی محبت نے حضرت حلیمہؓ اور اُن کے گھر والوں کے دلوں میں ایسا گھر کر لیا تھا کہ جدائی کا تصور بھی اُن کے لیے دشوار تھا۔ چنانچہ حضرت حلیمہؓ نے نہایت ادب و محبت سے حضرت آمنہؓ سے عرض کی کہ ’’اگر اجازت ہو تو یہ بچہ کچھ عرصہ اور ہمارے پاس رہنے دیا جائے۔‘‘ اُس وقت مکہ مکرمہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی، اس لیے حضرت آمنہؓ نے اُن کی یہ درخواست قبول فرما لی۔ یوں حضرت حلیمہؓ ایک بار پھر آپؐ کو اپنی آغوش میں لیے بنو سعد واپس آگئیں۔ رسولِ کریم ﷺ نے تقریباً چار برس حضرت حلیمہؓ کے گھر میں بسر کیے۔ وہاں آپؐ نے محبت، خلوص اور پاکیزہ فضا میں پرورش پائی۔ بنو سعد کی فصیح عربی زبان اور صحرائی زندگی کے تجربات نے آپؐ کی طبیعت میں صلابت، وقار اور بلاغت پیدا کی۔ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کو رسول اللہﷺ سے بے حد محبت تھی اور یہ محبت صرف رضاعت تک محدود نہ تھی — یہ عمر بھر کے روحانی رشتے میں بدل گئی تھی۔ واقعہ شق الصدر اور رسو ل اللہﷺ کی واپسی جب آپؐ چوتھے یا پانچویں سال میں تھے کہ شقِ صدر کا واقعہ پیش آیا۔ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ اپنے رضاعی بہن، بھائیوں کے ساتھ گھر کے قریب ہی ایک جگہ کھیل رہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے۔ اُنہوں نے آپؐ کو لِٹایا، سینہ چاک کر کے دِل باہر نکالا، اُسے سونے کے طشت میں آبِ زَم زَم سے دھویا اور پھر دوبارہ اپنے مقام پر رکھ کر سینہ بند کر دیا۔ جب بہن، بھائیوں نے یہ منظر دیکھا، تو چیختے چلّاتے گھر پہنچے اور ماں کو بتایا کہ کسی نے (حضرت)محمد(ﷺ) کو قتل کر دیا ہے۔حضرت حلیمہؓ اور اُن کے شوہر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ آپﷺ صحیح سلامت بیٹھے ہیں، لیکن آپﷺ کا رنگ اُترا ہوا تھا۔(صحیح مسلم) اس واقعہ سے حضرت حلیمہؓ ڈر گئیں اور وہ آپؐ کو والدہ کے پاس مکہ لے آئیں۔ سارا ماجرہ بیان کیااور کہا شاید ان پر کسی جنّ کا سایا ہو گیا ہے۔ مگر حضرت آمنہؓ نےاس کو سختی سے ردّ کیا اور فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میرا بیٹا بڑی شان والا ہے۔یہ ایک کشفی واقعہ تھا جس کو بعض مستشرق اور مخالف اعتراض کے رنگ میں بھی پیش کرتےہیں لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ حضرت حلیمہ کے گھرمیں رسول اللہﷺ کا بچپن حضرت حلیمہؓ فرماتی ہیں: جب وہ (محمد ﷺ) ہمارے گھر میں آئے تو وہ بہت پُرسکون، خاموش اور مہذب تھے۔ وہ بچوں کی طرح ضد نہ کرتے، نہ شور مچاتے۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی تھی۔ایک اور روایت میں حضرت حلیمہ نے بیان کیا: وہ (محمد ﷺ) میرے بیٹے عبداللہ کے ساتھ کھیلتے، لیکن کبھی لڑائی جھگڑا نہ کرتے۔ میرے بیٹے کو ان سے بہت محبت تھی۔ ہم سب محسوس کرتے تھے کہ یہ بچہ عام بچوں جیسا نہیں ہے۔(طبقات ابن سعد، جلد ۱، دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد۱) البدایہ والنھایہ میں رسول اللہ ﷺ کےبچپن کے متعلق لکھا ہے کہ حلیمہ کے گھرآپ ہمیشہ صاف ستھرا رہنا پسند کرتے تھے۔ کھانے میں قناعت کرتے، کبھی زیادہ نہیں مانگتے۔جانوروں کو بھی تنگ نہ کرتے تھے، بکریوں کو پیار سے پکار تے۔(البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد ۲) رضاعی والدین اور رشتہ داروں کی خدمت رسول اللہﷺ نےاپنے رضاعی والدین سے اسی طرح احترام اور محبت بھرا سلوک کیا جیسا حقیقی والدین سے کیا جاتا ہے۔احادیث میں حضرت حلیمہ ؓاور اہل خانہ کے رسول اللہﷺ سے ملنے کے واقعات مذکور ہیں۔ ۱۔ رسول اللہﷺ کی جوانی کے زمانے کا واقعہ ہے کہ آپ کی رضاعی والدہ مکہ میں آئیں اور آپﷺ سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کاذکر کیا۔ حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور انہیں چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔ (الطبقات الکبری،ابن سعد جلداوّل ) ۲۔ حضرت ابوالطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ جعرانہ مقام پر گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک عورت آئی اور حضورؐ کے قریب چلی گئی حضور نے اس کی بہت تعظیم کی اور اس کے لیے اپنی چادر بچھادی۔ میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے تو لوگوں نے کہا یہ حضور کی رضاعی والدہ ہیں۔ (سنن ابوداؤد) ۳۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ مسجدِ نبوی میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے کہ کسی نے اطلاع دی کہ ایک بوڑھی عورت ملنے آئی ہے۔ جیسے ہی آپؐ کی بوڑھی عورت کے چہرے پر نظر پڑی، توانہیں پہچان لیا۔آپؐ نے اٹھ کر ان کے لیے اپنی چادر بچھائی اور بہت محبت و احترام کے ساتھ پیش آئے اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ اُن کی خُوب خاطر مدارت کی اور بہت سے تحائف کے ساتھ رُخصت کیا۔(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد) مزید لکھا ہے کہ آپؐ اُس وقت تک دروازے پر کھڑے رہے، جب تک اُن کی سواری نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔ صحابۂ کرامؓ کے پوچھنے پر فرمایا: ’’یہ میری وہ ماں ہیں، جنہوں نے مجھے دو سال تک دُودھ پلایا اور جن کے گھر مَیں نے پانچ سال کی عُمر تک قیام کیا۔‘‘ ۴۔ ایک باررسول اللہﷺ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضورؐ نے ان کے لیے چادر کا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھرآپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپؐ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھالیا۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب برالوالدین) ۵۔ غزوہ حنین میں بنو ھوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ ان میں حضرت حلیمہ ؓکے قبیلہ والے اور رسول اللہﷺ کی رضاعی بہن حضرت شیماء بھی تھیں۔یہ وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور کی رضاعت کا حوالہ دے کر آزادی کی درخواست کی۔ آنحضرتﷺ نے انصار اور مہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کردیا۔ (طبقات ابن سعد جلداول) حضرت حلیمہؓ کا انتقال اور تدفین روایات کے مطابق حضرت حلیمہ سعدیہؓ کا انتقال آٹھ ہجری میں ہوا۔ بعض روایات کے مطابق آپ کی وفات عہدنبوی کے بعد ہوئی۔ آپ کی عمر لگ بھگ اسی برس تھی۔ مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں ایک قبر آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کا مسکن قبیلہ بنو سعد مکہ اور طائف کے اطراف آباد تھا۔ حضرت حلیمہ ؓکی بستی کا نام وادی الشوحطۃ ہے۔اس کو وادی بنو سعد بھی کہتے ہیں۔ یہ مقام مکہ کے مشرقی جانب ۱۶۰؍کلومیٹر کے فاصلے پر طائف کے بعد واقع ہے۔ قریبی قصبہ شقصان سے الشوحطۃ تک ۱۵؍کلومیٹر کا غیر پختہ راستہ ہے۔ بستی میں پتھروں کی مدد سے نشان دہی کی ہوئی ہے۔چھوٹی چھوٹی چار دیواریاں ہیں۔ جن کے متعلق مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ حضرت حلیمہؓ کے اہل خانہ کے گھر تھے۔اس کے قریب ہی ایک چھوٹے سے ٹیلہ کے بارہ میں مشہور ہے کہ یہاں شق صدر کا واقعہ پیش آیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے سیرت النبیﷺ کے بیان میں بڑے خوبصورت انداز میں رسول اللہﷺ کی رضاعت کے واقعہ اور آپ کے احسانات کا ذکر فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے جو کام آپ ﷺسے لینے تھے وہ تقاضا کرتے تھے کہ آپ کی صحت اعلیٰ درجہ کی ہو اور آپ کے قویٰ نہایت مضبوط ہوں کیونکہ آپ نے ایک طرف تمام انبیاء سے افضل نبی بننا تھا اور دوسری طرف اعلیٰ درجہ کا جرنیل بھی بننا تھا مگر مکہ میں پھلوں کی بھی کمی تھی،پانی کی بھی کمی تھی اور سبزیوں وغیرہ کی بھی کمی تھی اور جب تک مکہ کے لوگ بیرونجات میں جا کر نہ رہیں ان کی صحت اچھی نہیں رہ سکتی۔بیرونجات سے مکہ میں پھل اور سبزیاں وغیرہ تو پہنچ جاتی تھیں لیکن اگر باہر سے چیزیں چلی بھی جائیں تو بھی تازہ بتازہ پھلوں اور سبزیوں کا مل جانا جواثر رکھتا ہے وہ باہر سے آئی ہوئی چیزوں میں کہاں ہوتا ہے۔مکہ کے لوگوں میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو باہر کے گاؤں میں ۵ یا ۶ ماہ کی عمر میں بھجوا دیتے تھے اور جب وہ ۸-۹ سال کی عمر کے ہوتے تھے تو انہیں واپس لے آتے تھے اور بعض لوگ تو سال دو سال کے بعد ہی واپس لے آتے تھے اور بعض ۸-۹ سال کا ہو چکنے پر لے آتے۔اس سے یہ فائدہ ہوتا کہ ان کی صحت بھی اچھی ہو جاتی اور ان بچوں کی زبان بھی شہر والوں کی نسبت زیادہ صاف ہو جاتی کیونکہ بدویوں کی زبان شہر والوں کی نسبت زیادہ صاف تھی اور شہریوں کی زبان باہر سے قبائل آتے رہنے کی وجہ سے مخلوط سی ہو جاتی تھی۔غرض مکہ میں ہر چھٹے مہینے باہر کے گاؤں کی عورتیں آتیں اور دودھ پیتے بچوں کو پالنے کے لیے ساتھ لے جاتیں وہ شہر میں چکر لگاتی تھیں اور جس کسی نے اپنا بچہ ان کے حوالہ کرنا ہوتا کر دیتا تھا۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد آس پاس کے دیہات کی عورتیں شہر میں آئیں حضرت عبدالمطلب کا گھر بہت مشہور تھا اور ایک قبیلہ کا سردار ہونے کی وجہ سے ان کی بہت زیادہ شہرت تھی اس لیے دیہات سے آنے والی ان دایہ عورتوں میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ عبدالمطلب کے پوتے کو وہ اپنے ساتھ لے جائے مگر جب انہوں نے سنا کہ بچہ کا والد فوت ہو چکا ہے تو انہوں نے خیال کیا کہ اس یتیم بچہ کو پالنے کے بدلہ میں ہمیں کون انعام دے گا۔چنانچہ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں آپ کی والدہ کے گھر آئیں مگر یہ معلوم ہونے پر کہ اس بچے کا والد فوت ہو چکا ہے واپس چلی گئیں اور کسی نے اس یتیم بچہ کو اپنے ساتھ لے جانا نہ چاہا۔ پانچویں چھٹے نمبر پر حلیمہ آئی مگر اس نے بھی جب بچہ کے یتیم ہونے کے متعلق سنا تو اس بہانہ سے کہ میں پھر آتی ہوں چلی گئی مگر جس طرح اس بچہ کا گھر غریب تھا اسی طرح حلیمہ بھی غریب تھی وہ سارا دن مکہ کے شہر میں بچوں والوں کے گھروں میں پھری لیکن کسی نے اُس کو منہ نہ لگایا گویا ایک طرف ان ساری دایہ عورتوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوردّ کر دیا اور دوسری طرف سارے بچوں والوں نے حلیمہ کو ردّ کر دیا اور جس طرح یسعیاہ نے کہا تھا ویسا ہی ہوا کہ وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا، کونے کا سرا ہو گیا، آخر حلیمہ کو خیال آیا کہ میں صبح اس بچے کو اس لیے چھوڑ آئی تھی کہ وہ یتیم ہے اور پھر سارے شہر میں سے کسی نے اپنا بچہ مجھے نہ دیا اگر میں اب پھر اسی یتیم بچہ کے گھر جاؤں گی تو اس گھر والے کہیں گے تم ہمارے بچے کو چھوڑ کر گئی تھیں تمہیں بھی سارے شہر سے کوئی بچہ نہ ملا اس لیے وہ کچھ شرمائی ہوئی آمنہ کے گھر آئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے گئی مگر اس طرح کہ ادھر آپ کو حلیمہ کے ساتھ بھیجتے وقت آپ کی والدہ کو بھی خیال آیا کہ حلیمہ غریب عورت ہے اور اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اُدھر حلیمہ اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ بچہ تو میں لے ہی چلی ہوں مگر مجھے اس کے پالنے کا انعام کہاں مل سکتا ہے لیکن حلیمہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں اس بچے کو لے کر گھر پہنچی تو خدا کی قسم ! ہماری وہ بکریاں جن کا دودھ سوکھ چکا تھا اس بچے کی برکت سے ان بکریوں کے سُوکھے ہوئے تھنوں میں دودھ بھر گیا اور خدا تعالیٰ نے میرے گھر میں برکت بھر دی ہے۔برکت کا مطلب یہ تو نہیں کہ آسمان سے کوئی چیز گرتی ہے ہاں خدا تعالیٰ نے اُن بکریوں کے معدے تیز کر دیئے اور وہ گھاس اچھا کھا لیتی تھیں اور دودھ زیادہ دینے لگ گئیں۔پس اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اليس اللّٰه بکاف عبده کہ جب تمہیں پالنے کا زمانہ آیا تو ایک طرف دیہات کی دایہ عورتوں نے تمہیں ردّ کر دیا دوسری طرف تمہاری ماں نے دکھتے ہوئے دل کے ساتھ تمہیں ایک غریب دایہ کے سپرد کیا مگر دیکھو ہم نے تمہارے لیے انتظام کیا یا نہ کیا ؟ دوسال کے بعد جب رضاعت کی مدت پوری ہوئی تو دستور کے مطابق حلیمہ آپ کو لے کر مکہ میں آئی اور آمنہ سے جو کچھ ہو سکتا تھا انہوں نے حلیمہ کو دے دیا مگر حلیمہ کے دل میں آپ کے لیے اتنی محبت پیدا ہو چکی تھی کہ اس نے یہ اصرار آپؐ کی والدہ سے کیا کہ اس بچہ کو کچھ عرصہ اور میرے پاس رہنے دو چنانچہ وہ پھر آپ کو ساتھ لے کر خوش خوش واپس گھر چلی گئی۔جب آپؐ کی عمر چار سال کی ہوئی تو حلیمہ آپ کو لے کر مکہ میں آئی اور آپ کی والدہ کے سپر د کر گئی والدہ سے جو کچھ ہوسکتا تھا انہوں نے حلیمہ کو دیا اور جو کچھ اسے ملا وہ لے کر چلی گئی۔ یوں تو حضرت عبدالمطلب بڑے قبیلہ کے آدمی تھے اور ان کا شمار بہت بڑے سرداروں میں ہوتا تھا مگر وہ اتنے زیادہ امیر نہ تھے صرف کھاتے پیتے لوگوں میں سے تھے ان کی اولاد بہت زیادہ تھی اس لیے اخراجات بھی زیادہ تھے اس لیے وہ حلیمہ کو کچھ زیادہ نہ دے سکے مگر وہی حلیمہ جس کو وہ چھوٹا بچہ لے جاتے وقت یہ خیال تھا کہ اس کو پالنے کے بدلہ میں مجھے کیا ملنا ہے یہ بچہ تو یتیم ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اس کے بعد جنگ حنین میں حلیمہ کی ساری قوم قید ہو کر آ گئی تو آپؐ نے یہ خیال کیا کہ یہ لوگ جب سفارش لے کر میرے پاس آئیں گے تو ان سب قیدیوں کو میں چھوڑ دوں گا مگر وہ لوگ ( جو قبیلہ ھوازن کے تھے ) اس شرم سے آپ کے پاس سفارش کے لیے نہ آئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارا بچہ تھا اور ہم نے اس کے ساتھ جنگ کی ہے ہم کس طرح اس کے پاس جا کر سفارش کریں۔آخر آپ کی رضاعی بہن یعنی حلیمہ کی بیٹی آپ کے پاس آئی اور آپ نے اس کی ساری قوم کو آزاد کر دیا۔ اب دیکھو یہ اتنا بڑا بدلہ تھا کہ سارے عرب میں سے کسی بڑے سے بڑے سردار کی طرف سے بھی کسی بچہ کو پالنے کا نہ ملا ہو گا۔آپ نے اپنی رضاعی بہن کی سفارش پر ان کی قوم کے تین ہزار قیدی بلا فدیہ رہا کردئیے۔ اگر ایک قیدی کا فدیہ پانچ سو بھی شمار کیا جائے تو یہ رقم پندرہ لاکھ بنتی ہے مگر آپ نے صرف حلیمہ کی خدمت کے بدلہ میں ان سب قیدیوں کو رہا کردیا۔اب دیکھو یہ کتنا بڑا انعام تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حلیمہ کو ملا۔ (انوارالعلوم جلد۱۹ صفحہ۱۱۴تا۱۱۷) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت خُبیبؓ کا مکمل قصیدہ