اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۸۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل اور جدید ذرائع ابلاغ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میںمکرم چودھری عطاءالرحمٰن صاحب (ریٹائرڈ جنرل مینیجر واپڈا) کا مضمون شامل اشاعت ہے جو ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ آپ تحدیث نعمت کے طور پررقمطراز ہیں کہ ۱۹۹۶ء میں دنیوی کاموں سے فراغت حاصل کرکے مَیں نے ربوہ میں رہائش اختیار کرلی۔ مارچ۱۹۹۷ء میں تحریک جدیدنے توسیع جامعہ کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس دوران میں گرمیوں میں دو تین ماہ کے لیے بچوں کے پاس امریکہ چلا جاتا تھا۔اسی دوران میرے بیٹوں ڈاکٹر لطف الرحمٰن اور ڈاکٹر افضا ل الرحمٰن نے بتایا کہ ڈاکٹر احسان اللہ ظفرصاحب نائب امیر امریکہ نے انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کو کمپیوٹر پر منتقل کرنے کا کہا ہے۔بچوں کے پاس وقت نہیں تھا لہٰذا یہ ذمہ داری میں نے لے لی اورکتب کی صفحہ صفحہ کر کے scanning شروع کردی۔ پہلی قسط میں روحانی خزائن، ملفوظات اور مجموعہ اشتہارات مکمل کرکے ان کی ایک pdf فائل بنائی۔ بچوں نے اس میں مزید پروگرام ڈال کر اسے Self operating CD میں تبدیل کر دیا۔ یہ CD جماعت احمدیہ امریکہ نے عام استعمال کے لیے جاری کر دی۔ اس CD کی ایک کاپی مَیں نے ناظر صاحب اعلیٰ (حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ) کی خدمت میں پیش کی۔ جس پرانہوں نے اس کے انڈیکس کے متعلق استفسار کیا۔ اس پر خاکسار نے انڈیکس بنانے کی حامی بھرلی۔ ہر کتاب میں جو انڈیکس ہے اس کی مدد سے کئی سالوں کی محنت سے مضامین کا انڈیکس مکمل ہوا۔ اس انڈیکس کی یہ خوبی ہے کہ روحانی خزائن ، ملفوظات اور مجموعہ اشتہارات کی تمام کتب کا ایک ہی Clickable انڈیکس ہے ۔ کسی مضمون پر Click کریں تو جہاں جہاں بھی اس مضمون کے متعلق تمام کتب میں ذکر ہے وہ reference نکل آئیں گے اور اُن پر click کرنے سے متعلقہ صفحہ سا منے نکل آئے گا۔ اس DVD میں حضرت اقدسؑ کی تمام باقی کتب بشمول تذکرہ، تفسیر، مکتوبات اور درثمین اردو، فارسی، عربی، علیحدہ علیحدہ انڈیکس کے ساتھ شامل کردی ہیں۔ ایک کمی اس میں یہ ہے کہ جو کتب عربی یا فارسی میں ہیں وہ میری کم علمی کے باعث مکمل طور پر انڈیکس نہیں ہو سکیں۔ جب ۲۰۰۲ء میں امریکہ گیا تو بچوں نے بتایا کہ انہوں نے alfazal.com کی سائٹ Reserve کروا لی ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ الفضل انٹرنیٹ پر ڈال دی جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک بڑا Scanner اور ایک کمپیو ٹر مجھے لے دیا جو مَیں اپنے ساتھ ربوہ لے آیا۔ اُن دنوں ربوہ میں انٹرنیٹ ٹیلیفون کے ذریعہ آتا تھا اور اس کی speed بہت کم تھی۔ الفضل اخبار شام کو مل جاتی اور میں اسے Scanکر لیتا مگر شام کو اسے upload کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ انٹرنیٹ کنکشن بہت مصروف ہوتا ۔ اس لیے صبح تہجد کے وقت اسے upload کردیتا۔ پہلا اخبار ۳؍اکتوبر ۲۰۰۲ء کو انٹرنیٹ پر ڈالا گیا۔ یہ سلسلہ تقریباً نو ماہ تک جاری رہا۔ پھر امیر جماعت امریکہ نے ناظرصاحب اعلیٰ کی خدمت میں اخبار کو انٹر نیٹ پر ڈالنے کے لیے مدد چاہی تو یہ ذمہ داری مکرم سید عبد الحٔی شاہ صاحب ناظراشاعت کو سونپی گئی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور دفتر الفضل میں اس نظام کو قائم کرنے کو کہا۔ اس طرح پھر دفتر الفضل سے ہر روز اخبار انٹر نیٹ پر ڈالی جانے لگی اور alfazal.com کی سائٹ بھی انہی کے حوالے کر دی گئی ۔ مغربی ممالک میں پروان چڑھنے والے بیشتر بچے اردو پڑھ نہیں سکتے لیکن سُن کر سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح وہاں وقت کی کمی کے باعث لوگ حضرت اقدس ؑکی کتب کا مطالعہ نہیں کرسکتے۔ چونکہ وہ گھنٹوں کاروں میں سفر کرتے ہیں جس کے دوران ان کے پاس کافی وقت ہوتا ہے جسے حضورؑ کی کتب سننے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ iPod کی ایجاد نے اسے اَور آسان کر دیا ہے ۔ کمپیو ٹر سے کتب آسانی سے iPod پر منتقل کی جا سکتی ہیں اور iPodکو کار کے FM ریڈیو سے connect کرکے بڑی آسانی سے سنا جا سکتا ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حضورؑ کی کتب کی آڈیو بنانے کی طرف توجہ ہوئی۔ جو اردو کتب علما ءنے MTA پر پڑھی تھیں ان کی آڈیو کیسٹ لے کر انہیں MP3 میں تبدیل کر کے کمپیو ٹر پر ڈال دیا۔ اسی طرح جن کتب کا انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے انہیں لوکل انگریزی زبان بولنے والوں کو معاوضہ دے کر پڑھوا کر ریکارڈ کیا تا کہ تلفظ اور لہجہ درست ہو۔ اس طرح اردو اور انگریزی کی کتب کی CDs بنا کر جماعت امریکہ کو دیں۔ ان میں سے بیشترکتب مرکزی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ یہ تمام کام عزیزم ڈاکٹر لطف الرحمٰن ٹرانسپلانٹ سرجن نے کیا ۔ ملفوظات کی تربیتی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت ہے کیونکہ اس میں حضور نے جماعت کو نصیحت کے علاوہ لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیے ہیں۔ محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت نے MTA پر ملفوظات کا درس دیا ہے۔ میری درخواست پر MTA ربوہ نے درس ملفوظات کی ویڈیو سے تقریباً اڑھائی صد کیسٹس پر آڈیو ریکارڈ کر کے دیں جنہیں ایک آلہ کی مدد سے میں نے MP3 میں تبدیل کر کے کمپیوٹر پر ریکارڈ کر لیا۔ اس کے بعد ملفوظات کی کتاب کی مدد سے ان کی ترتیب درست کی۔ پھر لفظ بلفظ اس کو ایڈٹ کیا اور missing مواد کی لسٹ بنائی۔ ملفوظات کی پانچ جلدوں میں سے تقریباً دس فیصد حصے کو درس میں شامل نہیں کیا گیا۔ بہرحال دستیاب سارے مواد کی آڈیو کو ۱۰۶حصوں میں تقسیم کرکے ان کی ایک Audio DVD بنا دی لیکن اس میں کچھ شورتھا۔ امریکہ میں میوزک کے بعض ماہرین سے مل کر بڑی کوشش کی گئی کہ کسی طرح یہ شور دُور ہوسکے لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ خداتعالیٰ نے فضل فرمایا اور iPod کے ایجاد ہونے پر اسے جب iPod پرڈال کر سنا گیا تو یہ قابل استعمال لگی۔ چنانچہ یہ آڈیو مرکزی ویب سائٹ پر موجود ہے اور آن لائن سٹور سے بھی مل سکتی ہے۔ ………٭………٭………٭……… الفضل کے چند محنتی کارکنان روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم حکیم قدرت اللہ محمود چیمہ صاحب نے اپنے مضمون میں الفضل کے بعض محنتی کارکنان کا محبت بھرا تذکرہ کرتے ہوئے اخبار الفضل سے اپنے تعلق کو بیان کیا ہے۔ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم محمد عبداللہ چیمہ صاحب سابق کارکن دفتر وقف جدید کو الفضل اخبار سے دلی لگاؤ تھا اور وہ ہر ماہ کی اخبار کی فائل بناکر رکھتے تھے۔ ۱۹۷۰ء سے وہ یہ فائلیں تیار کررہے تھے۔ میرے نانا جان حضرت میاں پیرمحمد صاحب پیرکوٹیؓ ضلع حافظ آباد کے گاؤں پیرکوٹ ثانی میں رہتے تھے اور الفضل کے خریدار تھے۔ گاؤں میں ڈاک ہر چوتھے روز آیا کرتی تھی۔ سارا گھر اخبار الفضل کا مطالعہ کرتا اور پھر اخبار کو مسجد میں دیگر احباب کے مطالعہ کے لیے رکھ دیا جاتا۔ جب ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر مسافروں کو ٹھنڈا پانی مفت پلایا جاتا تھا تو حضرت مولوی عطامحمد صاحبؓ بھی الفضل کا بنڈل لے کر وہاں موجود ہوتے اور ٹرین کے ساتھ پلیٹ فارم پر چلتے چلتے بلند آواز سے ’’الفضل اخبار مفت‘‘کی آواز لگاتے اور خواہشمند مسافروں کو اخبار پکڑاتے جاتے۔ ربوہ میں ہماری رہائش دارالرحمت غربی میں تھی جہاں دفتر الفضل بھی واقع تھا۔ اکثر دفتر جانے کا موقع بھی ملتا اور آج اُن میں سے کئی مرحومین یاد آرہے ہیں۔ مثلاً محترم گیانی عباداللہ صاحب مینیجر الفضل تھے، سادہ طبیعت، باریش درویش طبع بزرگ تھے اور دفتر کے اندر ہی ایک کمرے میں اُن کی رہائش تھی۔ محترم مسعود احمد خان صاحب دہلوی ایڈیٹر تھے۔ آپ اہل زبان تھے اور آپ کی اردو نہایت نستعلیق ہوتی تھی۔ ہمارے محلّے کی مسجد بیت الناصر میں اکثر ملفوظات کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ میرے ماموں جان محترم مولانا سلطان احمد صاحب پیرکوٹی عالم دین، زودنویس اور صاحب قلم تھے۔ کئی کتب کے مؤلف تھے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۳ء تک بطور معاون ایڈیٹر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ یکم جون۱۹۲۳ء کو حضرت میاں پیرمحمد صاحبؓ پیرکوٹی کے ہاں پیدا ہوئے۔ مدرسہ احمدیہ قادیان سے فاضل عربی کی تکمیل کی۔ ۱۹۴۶ء میں اپنی زندگی وقف کردی۔ پہلے شعبہ زودنویسی اور پھر دفتر الفضل میں خدمت کی توفیق پائی۔ دفتر کے مددگار کارکن مکرم ناصر احمد صاحب مرحوم تھے۔ اخبار فولڈ کرنے اور بعدازاں ربوہ میں اخبار تقسیم کرنے کا کام مکرم عبدالرشید بٹ صاحب مرحوم کیا کرتے تھے جو دفتر میں ہی ایک چھوٹے سے کوارٹر میں مع فیملی رہتے تھے۔اخبار کی کتابت کرنے والوں میں محترم منشی احمد حسین صاحب کاتب فیکٹری ایریا میں رہائش رکھتے تھے۔ پھر محترم منشی اسماعیل صاحب ہیڈکاتب ان دنوں دارالرحمت میں ہی رہائش پذیر تھے۔ اُن کو ۱۹۳۴ء سے ۱۹۸۹ء تک خدمت دین کی توفیق ملی۔ نہایت سادہ، ملنسار اور شگفتہ طبیعت والے بزرگ تھے۔ اُن کے چھوٹے بھائی محترم منشی نورالدین صاحب خوشنویس میرے خالو تھے اور وہ بھی الفضل اور دیگر رسائل کی کتابت کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی شاندار کتابت کی بھی اُن کو توفیق ملی۔اُن کے اکلوتے بیٹے منشی حمیدالدین صاحب بھی کتابت کیا کرتے تھے اور قریباً پچیس سال الفضل میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ محمود انور صاحب خوشنویس کے لکھنے کا انداز باقی کاتب حضرات سے الگ تھلگ تھا۔ الفضل کے مطبع ضیاءالاسلام پریس کے دو محنتی کارکن بھی یاد آرہے ہیں۔ ایک محترم منشی ہدایت اللہ صاحب مرحوم جو پریس میں ہی رہتے تھے اور لیتھوسسٹم آف پرنٹنگ کے دَور میں پلیٹ لگایا کرتے تھے۔ پلیٹ کے اوپر الفاظ اُلٹے چھپتے تھے اور جو لفظ کسی وجہ سے ٹھیک نہیں لگتا تھا یا ٹوٹ جاتا تھا تو محترم منشی صاحب قلم کے ساتھ اُلٹی لکھائی میں پلیٹ کے اوپر اس لفظ کو درست کردیتے تھے۔ ایک مکرم حمیداللہ صاحب مشین مَین تھے جو پرنٹنگ مشین چلاتے تھے۔ اُن کے کپڑے سیاہی سے آلودہ ہوتے۔ بجلی بند ہونے کی صورت میں تیل کا انجن چلاکر اخبار کو بروقت تیار کرنا ان کی ہی خوبی تھی۔ ………٭………٭………٭……… الفضل سے وابستہ میری یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم رانا مبارک احمد صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم رانا محمد یعقوب صاحب ایک خواب کی بِنا پر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور جالندھر سے قادیان جا کر بیعت کی۔ پھر بڑی تکالیف اٹھائیں اور جالندھر سے فیروزپور آنا پڑا۔ خاکسار کی پیدائش ۱۹۳۸ء کی ہے۔ ۱۹۴۵-۴۶ء سے الفضل کو گھر پر دیکھ رہا ہوں۔ گھر کے بڑوں کو یوں پڑھتے ہوئے دیکھا کہ بچپن سے الفضل سے عشق ہوگیا۔ ہجرت کے بعد ۱۹۴۷ء میں لاہور آگئے تو بھی الفضل گھر میں آتا رہا۔خاکسار ۱۹۶۰ء میں لاہور سے بہاولپور چلاگیا اور وہاں پر بھی الفضل اخبار کو سینہ سے لگائے رکھا۔ ۱۹۶۴ء سے خاکسار نے الفضل میں بیماروں اور دیگر تکالیف میں مبتلا لوگوں کے لیے اعلاناتِ دعا بھجوانے شروع کیے۔ پھر مضمون بھی بھجوانے لگا۔ اب تک سینکڑوں اعلانات اور ایک سو سے زیادہ مضامین الفضل اخبار میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان مضامین کی روشنی میںخاکسار کو دو کتب ’’یادیں اور قربتیں‘‘ اور’’حرف عاجزانہ‘‘بھی شائع کرنے کی توفیق ملی۔ الفضل اخبارتربیت اولادکے لیے بہت ضروری ہے بلکہ تربیت کی ایک درس گاہ ہے۔ ۱۹۸۰ء میں خاکسار لاہور آگیا تو ۱۹۸۳ء سے ۲۰۱۲ء تک بطور صدر حلقہ علامہ اقبال ٹائون خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران الفضل کے بہت سے نئے خریدار بنائے اور بےشمار اشتہارات بھی اکٹھے کیے۔ چنانچہ ادارہ الفضل نے خاکسار کو اعزازی نمائندہ الفضل برائے لاہور مقرر کردیا۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: ٹمبکٹو: پُراسراریت، علم اور زوال کی داستان