ٹمبکٹو کا نام سماعت سے ٹکراتے ہی ذہن میں ایک پُراسرار، رومانوی اور دیومالائی مقام کا تصور ابھر آتا ہے۔ صدیوں تک یہ شہر یورپ کے لیے کسی خواب، افسانے یا سراب کی مانند رہا۔ بعض لوگوں نے تو یہ تک گمان کر لیا تھا کہ ٹمبکٹو کوئی حقیقی مقام ہے ہی نہیں بلکہ محض داستانوی کہانیوں کا ایک حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں ’’Timbuktu‘‘ کا مطلب ہی ایک ایسی جگہ بن گیا جو نہایت دورافتادہ، دشوار گزار اور ناقابلِ حصول ہو۔ آکسفرڈ ڈکشنری میں اس کا مطلب لکھا ہے: In the middle of nowhere, remote and hard to reach. یعنی ایسی جگہ جو دنیا کے دوسرے کونے پر ہو اور وہاں تک پہنچنا تقریباً ناممکن لگے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے: ’’ارے بھائی، تمہارا دو ماہ سے کچھ پتا نہیں، کیا تم ٹمبکٹو چلے گئے تھے؟‘‘ انیسویں صدی میں یہ اصطلاح عام ہوئی اور Alfred Tennyson ،D.H. Lawrence اور Agatha Christie جیسے ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں میں ٹمبکٹو کو ایک پراسرار استعارے کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹمبکٹو نہ صرف ایک حقیقی شہر ہے بلکہ تاریخ کے عظیم علمی و تجارتی مراکز میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔ یہ شہر مغربی افریقہ کے ملک مالی کے شمالی حصے میں واقع ہے اور صحرائے سہارا کے اندر اینٹ پتھر سے بنی بستی ہے، جہاں آج بھی عام انسان بستے ہیں۔ ٹمبکٹو کو بارھویں صدی عیسوی میں طوارق قوم نے آباد کیا۔ یہ مقام اس لیے اہم تھا کہ یہ سہارا کے تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع تھا۔ سونے اور نمک کے قافلے اسی علاقے سے گزرتے اور دریائے نیجر کی قربت نے اسے ایک مرکزی حیثیت دے دی۔ تجارتی قافلوں کی آمد و رفت نے جلد ہی اسے خوشحال، آباد اور مالدار شہر میں بدل دیا۔ اس شہر کی ثروت کے قصے جب یورپ پہنچے تو وہاں کے مہم جُو اس تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہو گئے لیکن صحرائے سہارا کی وسعت اور کٹھن راستوں نے اکثر قافلوں کو نگل لیا۔ بہت سے مہماتی گروہ راستہ بھٹک کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹمبکٹو کی طرف بڑھنا ایک مہم جوئی سے زیادہ ایک ناقابلِ واپسی اور خطرناک سفر سمجھا جاتا تھا۔ ۱۸۳۰ء تک یورپی اس شہر تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر Richard Shapiroکے مطابق ۱۸۲۰ء میں یورپی نقشوں پر یہ شہر ’’طرابلس سے ساٹھ دن کی مسافت پر، جس میں چھ دن بغیر پانی کے سفر کرنا پڑتا ہے‘‘ کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ انگریزوں کو یہ گمان تھا کہ ٹمبکٹو میں ویسی ہی دولت چھپی ہوگی جیسی سپین کو جنوبی امریکہ سے ملی تھی۔ لیکن جب وہ صدیوں کی کوششوں کے بعد بالآخر یہاں پہنچے تو یہ شہر ان کی توقعات کے برعکس نکلا۔ پھر بھی، ’’ٹمبکٹو‘‘ کا مطلب ایک ناقابلِ حصول خواب کے مترادف بن گیا۔ ٹمبکٹو کی اصل پہچان صرف اس کی دولت نہیں بلکہ اس کا علمی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ یہ شہر وسطی افریقہ میں اسلامی تہذیب کا مرکز رہا۔ یہاں جامعہ سنکوری کے نام سے ایک عظیم دینی یونیورسٹی قائم تھی، جہاں دنیا بھر سے طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے۔ فقہ، ریاضی، فلکیات، تاریخ اور فلسفہ جیسے علوم یہاں پڑھائے جاتے تھے۔ ٹمبکٹو کو اِس دور کا ’’افریقہ کا آکسفرڈ یا الازھر‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس شہر کے تقریباًساٹھ کتب خانوں میں آج بھی سات لاکھ سے زائد قدیم نسخے موجود ہیں۔ یہ نسخہ جات محض مذہبی نہیں بلکہ سائنسی، طبی، فلکیاتی اور فلسفیانہ موضوعات پر بھی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ صدیوں پہلے ٹمبکٹو میں علمی دنیا کی ایک عظیم سرگرمی جاری تھی۔ ٹمبکٹو کی تین عظیم مساجد ہیں سنگورے (Sankore)، سیدی یحییٰ (Sidi Yahia) اور جنگریبر (Djinguereber) جو نہ صرف عبادت کے مراکز تھے بلکہ علمی سرگرمیوں کے بھی محور تھے۔ ان کا طرزِ تعمیر مٹی اور لکڑی کے استعمال سے ایسا بنایا گیا کہ آج بھی یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ یونیسکو نے ان مساجد کو عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ ٹمبکٹو کی پراسراریت کے کئی پہلو ہیں۔ اول یہ کہ صدیوں تک یہ شہر یورپی دنیا کی پہنچ سے باہر رہا۔ اس کی دولت اور سونے کے قصے مشہور تھے۔ صحرائے سہارا کی مشکل راہیں اسے ایک ممنوعہ مقام بنا دیتی تھیں۔ ’’ٹمبکٹو‘‘ لفظ کی صوتیات ہی ایک عجیب اور غیرمعمولی تصور پیدا کرتی ہیں۔یہی اسباب تھے کہ یورپ میں ٹمبکٹو ایک ’’پراسرار سرزمین‘‘ کی علامت بن گیا۔ ٹمبکٹو کی تجارتی اہمیت سولہویں صدی کے بعد کم ہونا شروع ہوئی، جب نئے سمندری راستے کھل گئے اور مراکش کے حملوں نے اس کے استحکام کو توڑ دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سہارا کے بدلتے حالات، خشک سالی اور قافلوں کے خاتمے نے اس شہر کو کمزور کر دیا۔ جدید دور میں سب سے بڑا دھچکا ۲۰۱۲ء میں لگا، جب مبینہ طور پر القاعدہ سے وابستہ ایک گروہ نے شہر پر قبضہ کرلیا۔ شدت پسندوں نے کئی تاریخی زیارت گاہوں اور مقبروں کو مسمار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ ’’شریعت چھ انچ سے زیادہ ابھری ہوئی قبروں کی اجازت نہیں دیتی۔‘‘ اس وحشیانہ عمل نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ بعدازاں فرانس کی سربراہی میں افواج نے کارروائی کی اور شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا۔ لیکن تب تک ٹمبکٹو کا قیمتی ورثہ ناقابلِ تلافی نقصان اٹھا چکا تھا۔ آج ٹمبکٹو کو دو بڑے خطرات درپیش ہیں۔ ایک ماحولیاتی چیلنجز جیسے ریت کے طوفان، خشک سالی اور صحرائی پھیلاؤ عمارات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دوسرا سیاسی و عسکری بحران جس میں جنگ اور شدت پسندی نے شہر کی سماجی اور اقتصادی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ بین الاقوامی ادارے جیسے یونیسکو اور مقامی تنظیمیں اِس شہر کے علمی ورثے اور تاریخی مساجد کی بحالی پر کام کر رہی ہیں۔ ہزاروں قدیم نسخے خفیہ طور پر شہر سے باہر محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے تاکہ انہیں تباہی سے بچایا جا سکے۔ ٹمبکٹو کی کہانی دراصل انسان کی علم اور تلاش کی جستجو کی داستان ہے۔ یہ شہر کبھی دولت، علم اور ثقافت کی علامت تھا، پھر پُراسراریت اور ناقابلِ حصول مقام بن گیا، اور آج یہ ایک کمزور مگر تابندہ ورثہ ہے جسے دنیا محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ٹمبکٹو آئندہ نسلوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ علم اور ثقافت ہی وہ عناصر ہیں جو کسی قوم کو زندہ رکھتے ہیں۔ چاہے وقت کے تھپیڑے ہوں یا دشمنوں کے حملے، جو قومیں اپنے ورثے کو بچا لیتی ہیں وہ کبھی مٹتی نہیں۔ٹمبکٹو آج بھی انسانیت کو یہ یاد دلاتا ہے کہ کچھ شہر محض اینٹ اور پتھر نہیں ہوتے بلکہ تہذیبوں کے خواب اور تاریخ کے آئینے ہوتے ہیں۔ (ابو الفارس محمود) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ہیلووین مغربی تہذیب کا آئینہ اور اسلام احمدیت کی روحانی راہنمائی