حصولِ علم کی دستیابی ایک فضلِ ربی اور اچھے تعلیمی ادارے میں داخلہ ہوجانا بارانِ رحمت کے برابرہے۔ اس مضمون میں پاکستان میں احمدی طلبہ و طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر کی گئی کوششوں اور اس راہ میں پیش آمدہ رُکاوٹوں، نفرتوں اور مشکلات کا ذکر ہوگا۔ نیز اسّی اور نوّے کی دہائی میں ربوہ کے حالاتِ زندگی، گورنمنٹ کالج لاہور اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طلبہ کے حالات بھی بیان ہوں گے۔ علاوہ ازیں پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر کا بھی ذکرِخیر ہوگا جنہیں قائد اعظم یونیورسٹی کے احاطہ میں ۱۹۹۴ء میں اُنہی کے گھر میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ آمین قائد اعظم یونیورسٹی میں میری آمد ستمبر ۱۹۸۸ء میں اور تکمیلِ تعلیم جنوری ۱۹۹۲ء میں ہوئی۔ اُس دور سے قبل گورنمنٹ کالج میں ایم ایس سی فزکس میں اڑھائی سال گزارے جن کا ذکر مَیں اپنے مضمون ’’منصور عارف ڈھلوں‘‘ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۰؍جون ۲۰۲۴ء میں کرچکا ہوں۔ منصور عارف ڈھلوں کی گورنمنٹ کالج لاہور میں اچانک وفات کے بعد چند ایک واقعات رونما ہوئے جن کا ذکر یہاں ضروری ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی مرکزی انتظامیہ کا یُوٹرن منصور ۶؍ اگست ۱۹۸۶ء کو فوت ہوا۔ اگست کا مہینہ پاکستان کی آزادی کا تہوار منانے کا مہینہ ہے۔ سکول و کالج کی عمارتوں میں جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، آتش بازی اور چراغاں کیا جاتا ہے۔ جب مَیں منصور کے والد محترم چودھری شریف ڈھلوں صاحب کو فوتگی کی اطلاع فون پر دے کر جی پی او مال روڈ سے نیو ہاسٹل واپس وارڈن امان اللہ وِرک صاحب کے دفتر آیا تو اُسی وقت فون پر پرنسپل ڈاکٹر مجید اعوان صاحب، وِرک صاحب سے بات کررہے تھے۔ امان اللہ وِرک صاحب نے میری پرنسپل صاحب سے بات کروائی۔ پرنسپل صاحب نے مجھ سے اظہارِ تعزیت کیا اور کہا کہ منصور کی وفات کے سوگ میں ۱۴؍اگست یومِ آزادی کے موقع پر کالج میں چراغاں نہیں کیا جائے گا۔ مزید کہا کہ ایک تعزیتی خط منصور کے والد صاحب کی خدمت میں لکھا ہے۔ مَیں نے پرنسپل صاحب کا ان دونوں باتوں چراغاں نہ کرنے اور تعزیتی خط کا شکریہ ادا کیا۔البتہ نہ تعزیتی خط شریف ڈھلوں صاحب کو مِلا اور نہ ہی چراغاں کی رسم کو روکا گیا۔ منصور کی وفات کی وجہ سے مجھے لاہور سے ربوہ فوری آنا تھا۔ لہٰذا مَیں کتابیں لیے بغیر ہی ربوہ آگیا۔ منصور کی تدفین کے چند روز بعد اگست کے وسط میں لاہور آیا تو حیران و پریشان ہوگیا۔ ہمارا پُورا نیو ہاسٹل، گورنمنٹ کالج کی مرکزی عمارت، بخاری آڈیٹوریم اور باقی ماندہ ڈیپارٹمنٹ کی تمام عمارتیں رنگ برنگی روشنیوں سے آراستہ یومِ آزادی منارہی تھیں مگر مجھے یہ منظر منصور کی وفات کے پیش نظر مناسب نہ لگا۔ طبیعت پر بہت بوجھ محسوس ہوا اور دُکھ ہوا۔ گورنمنٹ کالج جو اپنا اپنا تھا یکدم غیر غیر محسوس ہوا اور میرے دِل و دماغ میں پرنسپل ڈاکٹر مجید اعوان صاحب کی قدر و منزلت میں گراں قدر کمی واقع ہوئی۔ یوں لاہور میں گورنمنٹ کالج کا ایک رات کا چراغاں دیکھ کر غمگین حال ربوہ واپس آیا۔ اُن دِنوں ربوہ بلکہ چنیوٹ میں بھی چراغاں نہیں ہوتا تھا۔ سادہ طور پر یومِ آزادی کے موقع پر مُلک کی سلامتی و کامرانی کے لیے دُعا اور ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کی یاد کو تازہ رکھنا ہی یومِ آزادی کا منانا تھا۔ ربوہ میں ڈاکٹر عبد السلام صاحب سے ملاقات ستمبر ۱۹۸۶ء کا آغاز تھا۔ ایک دِن خلافت لائبریری میں میری ملاقات جناب مرزا احسان صاحب ابن مرزا غلام احمد (المعروف بہ میاں احمد) صاحب سے ہوئی۔ میاں احمد صاحب مرحوم اُن دِنوں ناظر تعلیم ہوا کرتے تھے۔ مَیں نے مرزا احسان سے ذکر کیا کہ ربوہ میں چند لمبی لمبی گاڑیاں دارالضیافت کی طرف جاتی دیکھی ہیں۔ اندازہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر سلام صاحب ربوہ میں موجود ہیں کیونکہ اخبار میں سلام صاحب کی اسلام آباد میں کسی حکومتی ادارے میں خطاب کی چھوٹی سی خبر شائع ہوئی تھی۔ مرزا احسان صاحب نے کہا کہ شاید ابّا بہتر جانتے ہوں۔ بعد از نمازِ ظہر مسجد مبارک میں میاں احمد صاحب سے ملاقات ہوئی اور اپنی عرض پیش کی۔ اُنہوں نے مجھے چار بجے کسی گیسٹ ہاؤس آجانے کی اجازت دے دی۔ مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ گھر بھی نہ گیا اور انتظار کا وقت لائبریری کے قریب احمدیہ ریسٹورنٹ میں گزارا جہاں چائے اور سموسے بطور دوپہر کا کھانا کھایا۔ چار بجے کے قریب گیسٹ ہاؤس آپہنچا۔ پہرے دار نے چند سوالات کیے اور پھر مجھے اندر جانے کی اجازت دی۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ میاں احمد صاحب اندر سے باہر آئے اور مجھے کہا کہ ’’آگئے؟‘‘ مَیں نے کہا ’’جی آگیا‘‘۔ فرمایا صرف تین منٹ کی ملاقات ہوگی۔ چند منٹوں کے بعد بجلی جانے والی ہے۔ پروفیسر صاحب کمرہ سے ایئرکنڈیشنڈ گاڑی میں جائیں گے۔ تُم اسی دوران پروفیسر صاحب کو سلام کرکے اپنی بات شروع کردینا۔ جب مَیں اشارہ کروں تو ملاقات ختم کردینا۔ چند منٹوں بعد ایسا ہی ہوا۔ عمارت کا شور والا ایئرکنڈیشنر بند ہوا۔ دروازہ کُھلا۔ چند احباب باہر آئے۔ اُن کے ہمراہ پروفیسر سلام صاحب بھی تھے۔ جونہی وہ میرے برابر آئے، مَیں نے سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے کیا۔ آپ نے جواباً سلام کہا اور مصافحہ کا شرف بخشا اور میرے پاس ٹھہرگئے۔ مَیں نے جلدی سے اپنا تعارف کروایا۔ نام، گورنمنٹ کالج لاہور، ایم ایس سی فزکس۔ اس پر سلام صاحب نے فرمایا کہ مَیں تمہیں جانتا ہوں۔ تمہارے دو خط مجھے اکٹھے اٹلی کے ایڈریس پر ملے تھے۔ اس پر مَیں بہت خُوش ہوا کہ میرا تعارف قبل از وقتِ ملاقات پروفیسر صاحب کے ذہن میں ہے۔ مَیں نے جو سوالات پُوچھنے تھے وہ ایک ایک کرکے پوچھے اور پروفیسر صاحب نے اچھی طرح اُن کے جواب دیے۔ مَیں بار بار میاں صاحب کی طرف دیکھتا مگر میاں صاحب میری بجائے پروفیسر صاحب کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر پانچ منٹ کی ملاقات کے بعد پروفیسر سلام صاحب نے بات ختم کی۔ مَیں نے سلام کے لیے پھر ہاتھ آگے کیا اور الوداعی مصافحہ کیا اور گھر واپس آگیا۔ مَیں نے گھر آکر اپنی ملاقات کا حال احوال اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بیان کیا۔ بعد ازاںمیرے پورے محلّے والوں کو علم ہوا کہ آج پروفیسر سلام صاحب ربوہ آئے ہوئے ہیں۔ سب نے خوشی کا اظہار کیا۔ الحمدللہ گورنمنٹ کالج کی ہائی ٹینشن لیبارٹری وسط ستمبر ۱۹۸۶ء میں ہماری ایم ایس سی پارٹ ٹُو کی کلاسیں شروع ہوئیں اور ساتھ ریسرچ کا کام شروع ہوا جو گورنمنٹ کالج لاہور کی High Tension لیبارٹری میں پروفیسر ڈاکٹر زکریا بٹ صاحب کی زیرنگرانی شروع ہوا۔ اب اس لیبارٹری کو Centre for Advanced Studies in Physics یعنی CASP کا نام دیاگیا ہے۔ یہ ہائی ٹینشن لیبارٹری پاکستان کے اوّلین مایہ ناز تجرباتی سائنسدان چودھری رفیع محمد کی ۱۹۵۲ء میں کی گئی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر رفیع نے اس لیبارٹری میں پاکستان اٹامِک انرجی کمیشن کے نامی گرامی تجرباتی اور نظریاتی سائنسدانوں کو جنم دیا جن میں ثمر مبارک مند، نُور محمد بٹ، اشفاق وغیرہ شامل ہیں۔ یوں پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں اس لیبارٹری کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہے۔ اس ہائی ٹینشن لیبارٹری میں زاہد رفیع، شکیل، کامران، خالد اور مسعود کھوکھر میرے ساتھ کام کررہے تھے۔ ان میں سے اکثر پاکستان اٹامِک انرجی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہماری ۱۹۸۵ء۔۸۷ء کلاس کے وہ لوگ جو وفات پاچکے ہیں ان میں 1.منصور عارف ڈھلوں (ربوہ) 2.غوث علی (گجرات) 3.جام اعجاز (ملتان) 4.ڈاکٹر کوثر جاوید (میانوالی) شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام کی مغفرت کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ مطالعاتی سفر راولپنڈی و مری مارچ ۱۹۸۷ء میں ہماری کلاس جوکہ اب سینئر طلبہ پر مشتمل تھی اور ہم سے جونیئر طلبہ بھی آچکے تھے، دونوں کلاسوں کے طلبہ کا گروپ پروفیسر محمد حسن صاحب کی زیرنگرانی راولپنڈی اور مری کی سیروسیاحت اور مطالعاتی دورے کے لیے لاہور سے تین دِنوں کے لیے روانہ ہوا۔ گورنمنٹ کالج کی سینتیس سیٹوں کی خاکی رنگ کی بس کھانے پینے کی اشیاء، پھل اور طلبہ کے سامان کو لے کر روانہ ہوئی۔ صبح کے گیارہ بجے کے قریب ہم پنڈی پہنچے اور وہاں پاکستان اٹامِک انرجی کی کئی لیبارٹریز کا بغور مشاہدہ کیا۔ کام کرتے ہوئے سائنسدانوں اور دیگر فنی مہارت کے لوگوں سے ملاقات اور تبادلہ خیالات ہوا۔ ان میں سے چند ایک ہمارے اپنے گورنمنٹ کالج لاہور کے سینئر طلبہ و طالبات تھے۔ زیادہ تر سوالات نوکری کے حصول کے طریقہ کار اور انٹرویو میں پوچھے جانے والے اہم سوالوں کے بارے میں تھے۔ شام کو ہم راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ اگلے دن ہم صبح سویرے مری جاپہنچے۔ وہاں برف باری ہورہی تھی جوکہ ہمارے لیے عجیب منظر پیش کررہی تھی۔ ہم نے اس سے پہلے نہ کبھی برف پڑتے دیکھی تھی اور نہ ہی اتنی ٹھنڈک والے علاقہ کو محسوس کیا تھا۔ مری جانے کا پروگرام ایک سال قبل منصور عارف ڈھلوں نے اپنے پروفیسر صاحب کو پیش کیا تھا۔ اب کی بار اس مطالعاتی دورے کا اکثر کام سیّداویس اور غوث علی نے کیا۔ راولپنڈی اور مری کے سفر میں سیّد عاصم، مسعود کھوکھر، جام اعجاز، تنویر بٹ، عبدالخالق، شفیق بھٹی، ندیم، الیاس، خالد مسعود، شاہد سلیم، زاہد رفیع، محمد سعید، عمر فاروق، شمشاد علی، اقبال، جمیل چودھری، سیّد اویس، غوث علی اور طارق رفیق شامل تھے۔ تمام کے تمام میرے اچھے دوستوں میں سے تھے اور میرا اُن کا آپس میں بھائیوں کی طرح کا سلوک تھا۔ اس مطالعاتی دورے سے ہمیں ایم ایس سی فزکس کی اہمیت کا اندازہ واضح ہوا کہ کس قدر ایک مُلک کو سائنسدانوں، انجینئروں اور تجربہ کار ماہر اُستادوں کی ضرورت ہوتی ہے، کس طرح بجلی کی ملکی ضرورت کو پُورا کیا جاسکتا ہے۔معدنیات سے لے کر بجلی کی پیداوار اور ترسیل تک کے تمام مراحل کو جاننے کا علم حاصل ہوا۔ مگر ایم ایس سی پاس کرنے کے بعد جب اٹامِک انرجی کمیشن میں نوکری کے سلسلہ میں انٹرویو کے لیے حاضر ہوا تو بجائے اُن سوالات کے جو فزکس کو احاطہ کریں، نماز جنازہ، ارکانِ اسلام اور علامہ اقبال پر سوالات نے یہ تاثر چھوڑا کہ مَیں شاید امام مسجد کی اسامی کے انٹرویو کے لیے آیا ہوں۔ مزید یہ خیال آیا کہ پاکستان ہمارے کام، ہمارے فزکس کے علم، ہماری ملکی وابستگی اور وفاداری سے زیادہ ہمارے ذاتی عقیدہ کو اہمیت دیتا ہے اور کسی کو نوکری پر رکھنے نہ رکھنے کا معیار بھی ہمارے عقیدہ ہی کی جانچ پڑتال ہے۔ جی ٹی ایس پشاور سے لاہور کا سفر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس جسے عرفِ عام میں جی ٹی ایس کہتے تھے، اب اُس کا کوئی نام و نشان نہیں۔ نہ اُس کی گاڑیاں اور نہ ہی اُن کے اڈّے رہے۔ اس کا پشاور سے لاہور کا ایک رُوٹ براستہ ربوہ بھی چلا کرتا تھا۔ کبھی کبھی مردان، بنّوں اور چارسدّہ سے بھی یہ بسیں ربوہ سے ہوکر لاہور جاتیں۔ اگرچہ ریلوے ٹرین سرگودھا ایکسپریس بہتر سواری تھی مگر چونکہ ٹرین صبح دس بجے لاہور پہنچاتی تھی اور صبح کے لیکچرز میں غیر حاضری مناسب نہ ہوتی تھی اس لیے مَیں اتوار کی شام بذریعہ بس لاہور جاتا۔ دارالیمن، ربوہ اڈّہ یا چنیوٹ سے لاہور کی بس مل جاتی تھی۔ بس ربوہ، چنیوٹ، پنڈی بھٹیاں، چوہڑکانہ (فاروق آباد)، سکھیکی اور شیخوپورہ سے گزر کر لاہور آتی تھی۔ سکھیکی پر بس کا کوئی پندرہ بیس منٹ کا کسی سڑک کے کنارے ڈھابے پر ٹھہراؤ ہوتا جس میں سواریوں کے لیے کھانے پینے اور اجتماعی نماز کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ ربوہ سے ہم اس بس میں سوار ہوتے تو چند ایک سواریاں ہم سے قابلِ نفرت انداز سے جماعت کے خلاف چند موضوعات پر سوال کرتیں۔ مگر اکثر مَیں یہ کہتا کہ یہ سوال ہی نہیں۔ سوال دلیل پر مبنی ہونا چاہیےاور اُس کا جواب بھی دلیل سے ہی لے کر آنا چاہیے۔ دورانِ سفر بھری بس میں نہ کسی میں دلیل سننے کی ہمت ہوتی تھی اور نہ ہی پوچھے جانے والے اکثر بازاری نوعیت کے سوالات اس قابل ہوتے تھے کہ اُن کا جواب دینے میں وقت برباد کیا جائے۔ بعض سوالات کے ردِّعمل کے طور پر میری آنکھوں میں آنسو بھرآتے گویا یہ ہی میرا جواب ہے۔ اللہ اللہ کر کے سفر اختتام کو پہنچتا۔ مَیں آزادی چوک یا پھر لاہورکے لاری اڈّہ جو لاہور کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی ہے، پر اُترتا اور پھر ۲۵نمبر ویگن کے ذریعے کچہری اورپھر نیوہاسٹل اپنے کمرہ میں آجاتا۔ الحمدللہ بعد از گورنمنٹ کالج لاہور ۱۹۸۷ء کا سال بہت تیزی سے گزرا۔ پارٹ ٹُو کے سالانہ یونیورسٹی سطح کے امتحانات اگست کے مہینہ میں ہوئے۔ بھرپور تیاری کی۔ ماشاء اللہ ہر پرچہ اچھی طرح حل کرنے کی توفیق ملی۔ امتحان کے خاتمے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور ریسرچ کی طرف مکمل توجہ مبذول کر دی۔ مقالہ لکھنا شروع کیا اور زبانی امتحان کی بھی تیاری ساتھ ساتھ کرتا۔ دسمبر میں ریسرچ کے امتحان کے بعد مقالہ جمع کرواکر ربوہ چلا آیا اور اس طرح لاہور میں خاکسار کا اڑھائی سالہ تعلیمی سفر اختتام کو پہنچا۔ فروری ۱۹۸۸ء میں ہمارا ایم ایس سی کا مجموعی نتیجہ آیا اور ہم سب کامیاب قرار پائے یعنی عطاءالحبیب، برہان الدین، محمد احمد، رفیق رشید، داؤد چٹھہ، حمید غنی وغیرہ۔ عطاءالحبیب اور میری کامیابی نمایاں تھی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک اب نوکری کی تلاش کا سوال تھا۔ کالجوں میں اساتذہ کی آسامیوں پر پابندی تھی۔ تاہم اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی ایک سکیم کے تحت مجھے اور عطاء کو ربوہ میں ڈگری کالج میں کچھ کام دیا گیا اور کچھ ماہانہ تنخواہ بھی مقرر ہوئی۔ عطاء طلبہ کی تجربات (پریکٹیکل) میں مدد کرتا جبکہ مجھے M.Sc.کے طلبہ و طالبات کو Mathematical Physics کے لیکچر دینے کا کام ملا۔ اُن دِنوں ڈگری کالج کے فزکس کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ جناب پروفیسر ادریس صاحب آف فیکٹری ایریا ہوتے تھے۔ بہت اچھے، حلیم شخصیت کے مالک اور مہمان نواز انسان تھے۔ میرا ڈگری کالج میں لیکچر دینا میرے لیے باعثِ فخر تھا کہ جس ادارے سے پڑھا تھا، اب اُسی ادارے میں پڑھارہا تھا۔ الحمدللہ ڈگری کالج میں عارضی نوکری کے ساتھ ہم لوگ آگے کی دوبارہ ۱۹۸۵ء جیسی منصوبہ بندی کرتے کہ آئندہ کیا کرنا چاہیے۔ زیرِ غور موضوعات درج ذیل تھے: 1.افریقہ میں قائم جماعتی اداروں میں پڑھانا 2.پاکستان میں لیکچررشِپ 3.مزید اعلیٰ تعلیم یعنی M.Phil.کی تیاری پروفیسر ادریس صاحب جوکہ خود افریقہ میں پڑھانے کا تجربہ رکھتے تھے، اُنہوں نے ہمیں اہم اور مفید مشورے دیے۔ افریقہ کے لیے ہم نے ’’نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم‘‘ کی معلومات اکٹھی کیں مگر کسی رُکاوٹ کی وجہ سے ہمارا اس سکیم میں کام نہ بنا۔ دوسری زیرِ غور تجویز کالجوں میں لیکچررشِپ تھی۔ مگر نئی تقرریوں پر بوجوہ پابندی تھی کیونکہ کہا جاتا تھا کہ سرکاری خزانے خالی ہیں۔ اور پھر قضیہ یہاں ٹھہرا کہ M.Phil کے لیے پنجاب یونیورسٹی یا پھر قائداعظم یونیورسٹی کی تیاری شروع کردی جائے۔ ایک دِن قائد اعظم یونیورسٹی کا M.Phil کے لیے اشتہار شائع ہوا جس کا ہمیں انتظار تھا۔ چنانچہ ہم نے قائد اعظم یونیورسٹی کے لیے داخلے کے کاغذات مقررہ تاریخ سے بہت پہلے جمع کروا دیے۔ ڈگری کالج گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے بند تھا مگر ہمیں گورنمنٹ سے معقول رقم مل رہی تھی۔ اس طرح تمام وقت داخلہ ٹیسٹ کی تیاری پر صَرف ہوتا۔ ہم داخلہ ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء کی شام ایک خبر آئی کہ صدرِ پاکستان جنرل ضیاءالحق ایک فضائی حادثہ میں اعلیٰ فوجی اور سویلین افراد کے ساتھ ہلاک ہوگئے ہیں۔ اُن کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا۔ اس واقعہ کی وجہ سے ہمارا داخلہ ٹیسٹ کو جو یکم ستمبر کوہونا قرار پایا تھا مؤخر کردیا گیا اور نئی تاریخ ۱۷؍ستمبر رکھی گئی۔ ڈگری کالج میں تدریسی کام کی وجہ سے ہماری تیاری اچھی خاصی تھی مگر اس نئی تاریخ نے ہماری تیاری کا دورانیہ بڑھادیا اور ہماری تیاری مزید اچھی ہوگئی۔ اب کی بار مَیں پھر ناظر تعلیم میاں احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا جیسے پہلے گورنمنٹ کالج داخلہ کے سلسلہ میں اُن کی مدد حاصل کی تھی۔ میاں صاحب نہایت شفیق انسان تھے۔ اُنہوں نے مجھے بھرپور مدد کی یقین دہانی کروائی۔ اسلام آباد میں ہماری رہائش کا انتظام میاں صاحب نے کروایا جو آبپارہ مارکیٹ میں تھا۔ ہم کھانے پینے کا سامان آبپارہ مارکیٹ G-6سے لے آئے۔ اس کے بعد داخلہ کا مرحلہ آسانی سے طے ہوگیا۔ چند دِنوں میں نتیجہ بھی آگیا۔ ہمیں قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ مل چکا تھا۔ یہ اللہ کا ایک فضل تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ پھٹ جانے کا واقعہ رونما ہوا تو حفاظتی اقدامات کے طور پر اسلام آباد میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کچھ عرصے کے لیے بند کردی گئیں۔ جب ہم قائداعظم یونیورسٹی داخلہ کے لیے گئے تو یونیورسٹی ویرانی کا منظر پیش کررہی تھی۔ اس ویرانی کا ہمیں ایک نقصان یہ ہوا کہ ہم سے قبل کے طلبہ کا سارا کام التوا کا شکار ہوا اور ہمیں ہاسٹل کی سہولت تقریباً دو ماہ تک میسّر نہ ہوئی۔ یونیورسٹی کے بند رہنے کی وجہ سے پہلے سے موجود سینئر طلبہ کے ریسرچ پراجیکٹس جو طوالت کا شکار ہوئے تھے اُن کو مکمل کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار تھا۔ یوں نئے طلبہ کے لیے یونیورسٹی رہائش کا انتظام کرنے سے قاصر تھی۔ نئے طلبہ و طالبات کو اسلام آباد یا اِردگرد خود ہی رہائش کا انتظام کرنا تھا۔ تاہم مکرم میاں صاحب کے توسط سے ہمیں اسلام آباد میں جگہ مل گئی تھی۔ چونکہ نئے طلبہ کو اسلام آباد میں رہائش کا ملنا ممکن نہ تھا۔ اگر کہیں مل بھی جاتی تو وہ نامناسب ہوتی۔ نتیجۃً کئی طلبہ یونیورسٹی کے اس نامناسب رویّے سے بددِل ہوکر اپنے شہروں کو واپس چلے گئے اور یونیورسٹی کو خیرباد کہہ دیا اور افسوس! وہ اپنا تعلیمی سفر مکمل نہ کرسکے۔ اس رہائشی بحران میں نظارت تعلیم نے ہماری بہت مدد کی۔ ہم (عطاء الحبیب اور محمد احمد) نظارت اور خاص کر ناظر تعلیم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے تہ دل سے احسان مند ہیں۔ ہمیں اکتوبر کے آخر میں جاکر یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر۲ میں کمرہ نمبر ۴۹؍ دیاگیا۔ مگر زیادہ کمرے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمرہ میں دو دو طلبہ کو ڈالا گیا اگرچہ کمروں کا ڈیزائن ایک ہی طالبِ علم کو مدِّ نظر رکھ کر بنایا گیا معلوم ہوتا تھا۔ بہرحال ہمیں یہ بھی منظور تھا۔ ہاسٹل کی تعمیر قابلِ تعریف تھی۔ ایک تو بہت ہی مضبوط اور دوسرا کمروں کی دیواریں cavity والی تھیں یعنی دیواروں کے درمیان میں ہوا کا خلا تھا۔ ان دیواروں کے بیچ خلا کی وجہ سے کمرے شدید گرمی کے دِنوں میں بھی بہت ٹھنڈے رہتے یہاں تک کہ ہمیں کبھی پنکھے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ جب یونیورسٹی کھلی اور پڑھائی کا کام زوروں سے شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کا معیار ہمارے گذشتہ تعلیمی اداروں یعنی گورنمنٹ کالج اور ٹی آئی کالج سے بہت بہترہے۔ وجوہات: الف: یہاں پروفیسروں کا تعلیمی معیار اور اُن کا تدریسی طریقہ کار بہت بہتر تھا۔ یہاں ہر استاد ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے آراستہ اور عملی طور پر ریسرچ میں سرگرمِ عمل رہتا۔ بعض تو اپنی ریسرچ کے میدانوں میں مہارت اور یدِطولیٰ رکھتےتھے۔ مثلاً ۱۔ڈاکٹر عارف الزمان صدّیقی۔نیوکلیئر فزکس۔پی ایچ ڈی امریکہ ۲۔ڈاکٹر پرویز ہود بھائی۔ نیوکلیئر فزکس۔پی ایچ ڈی امریکہ ۳۔ڈاکٹر فہیم حسین (پروفیسر سلام صاحب کے شاگرد) پارٹیکل فزکس، امپیریل کالج لندن ۴۔ڈاکٹر محمد اسلم بیگ لیزر سپیکٹرو سکوپی، امپیریل کالج لندن ۵۔ ڈاکٹر کمال الدین احمد ہائی انرجی فزکس، امپیریل کالج لندن ۶۔ڈاکٹر غلام مرتضیٰ (شاگرد پروفیسر سلام) پلازما فزکس، امپیریل کالج لندن ۷۔ڈاکٹر عبد الحمید نیّر ( شاگرد پروفیسر سلام)کنڈینسڈ مَیٹر فزکس، امپیریل کالج لندن ۸۔ڈاکٹر سہیل زبیری لیزر فزکس، امریکہ (الیکٹرونکس ڈیپارٹمنٹ) ۹۔ڈاکٹر سیّد خورشید حسنین سُپر کنڈکٹر فزکس، امریکہ ۱۰۔ڈاکٹر ظفر اقبال سیمی کنڈکٹر فزکس، مانچسٹر ۱۱۔ڈاکٹر نسیم ظفر سیمی کنڈکٹر فزکس مانچسٹر ۱۲۔ڈاکٹر نسیم بابر میٹیریل سائنس، پولینڈ ۱۳۔ڈاکٹر اصغری مقصود میٹیریل فزکس، سویڈن ۱۴۔ ڈاکٹر فرید خواجہ پولیمر فزکس، سوویٹ یونین ۱۵۔ ڈاکٹر ساجد بھٹی میٹیریل فزکس، یو کے ۱۶۔ڈاکٹر ایم ایس کے رزمی لیزر فزکس، امریکہ ۱۷۔ ڈاکٹر خالد خان پارٹیکل فزکس، مانچسٹر ب۔یہاں قائد اعظم یونیورسٹی میں لیبارٹری کا ماحول بہت بہتر، دلچسپ اور علمی ہوتا نہ کہ گپ شپ والا۔ ان میں کام کرنے کے تمام آلات و اوزار مہیّا ہوتے۔ یوں ریسرچ کے بہترین مواقع میسّر ہوتے۔ بعض لیبارٹریز میں تو دِن رات کام ہورہا ہوتا۔ یونیورسٹی کی یہ لیبارٹریز پاکستانی ملکی اور غیر ملکی لیبارٹریز سے منسلک ہونے کی وجہ سے اَور بھی بہتر تحقیق یعنی ریسرچ کے مواقع طلبہ و طالبات کو مہیّا کرتی تھیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی فیچر چیزوں میں کبھی بھی نہ کسی اعلیٰ پروفیسر کا ذکر آتا ہے اور نہ ہی کسی بہترین ڈیپارٹمنٹ کا یعنی فزکس ڈیپارٹمنٹ اچھا ہے یا کیمسٹری یا اینتھروپولوجی۔ اس کی بجائے قائد اعظم یونیورسٹی مشہور ہے مجید کے ہَٹ یا سوشل ہَٹ کی چائے سموسوں کی وجہ سے۔ یونیورسٹی کا اپنا کیفےٹیریا بدحالی کا شکار رہا۔ مگر ہَٹ تعداد میں بڑھتے گئے اور ایک مارکیٹ بن گئی۔ ربوہ کا ریلوے اسٹیشن گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے میں ہم لوگ صبح سویرے سات بجے کے قریب سرگودھا ایکسپریس، جسے عام طور پر ’’ڈبہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا، پر لاہور ربوہ آتے جاتے تھے۔یہ ڈبہ ساڑھے دس بجے لاہور آجاتا تھا اور شام کو چاربجے لاہور سے سرگودھا کے لیے روانہ ہوتا تھا اور سات بجے شام ربوہ پہنچا دیتا تھا۔ یہ ریل گارڑی ہمارے لیے بہت مفید تھی۔ ربوہ سے باہر جانے اور لاہور سے واپسی کا وقت نہایت مناسب تھا اور کرایہ بھی معقول ہوتا تھا۔تیس روپے، جو اُس وقت کے حساب سے ڈیڑھ ڈالر بنتے تھے۔ ربوہ سے لاہور یا ربوہ سے راولپنڈی کے ذکر میں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس زمانے میں بس کے سفر کا کرایہ کتنا ہوا کرتا تھا۔ ربوہ تا لاہور کوئی ۳۵؍روپے اور ربوہ تا راولپنڈی ۶۵؍روپے اور طالبعلمی کی وجہ سے آدھا کرایہ۔ وہ دَور سستا تھا۔ پائونڈ صرف ۲۸؍ روپے کا تھا۔ ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر ڈبے کی آمد سے اسٹیشن پر ہر سمت ہل چل مچ جاتی۔ رونقیں آجاتیں۔ پلیٹ فارم سواریوں سے بھرا ہوا کرتا تھا۔ بچّے، جوان، بُوڑھے، مرد، پردہ دار عورتیں، ریلوے کا عملہ جو ریل کا کانٹا تبدیل کرنے اور ربوہ سے باہر جانے والا پہلے سے بُک کیا ہوا سامان جو زیادہ تر راجہ ہومیو، ناصر دواخانہ یا پھر الفضل اخبار کا ہوتا، اُسے ریل کے محکمہ ڈاک کی بوگی میں رکھنے میں مصروف ہوتا۔ اسٹیشن کی عمارت کے ماتھے پر نام واضح طور پر ’’ربوہ‘‘ لکھا ہوتا۔ پڑھ کر سکون ہوتا کہ اپنا گھر آگیا۔ ربوہ اسٹیشن کے دوسرے پلیٹ فارم پر کبھی کبھار مال گاڑی یا کسی مسافر ٹرین کا کراس ہوتا۔ مال گاڑیاں زیادہ تر پٹرول، ڈیزل، سیمنٹ، ماربل یا پھر گندم وغیرہ سے لدی ایک شہر سے دوسرے شہر جارہی ہوتیں۔ یوں ان مال گاڑیوں اور سرگودھا ایکسپریس کی آمد سے ربوہ اسٹیشن پر زندگی آجاتی۔ ٹرین ایک ہچکولہ لے کر رینگتی ہوئی آگے بڑھتی، پھر آہستہ آہستہ دوڑنا شروع کرتی اور چند ہی لمحوں میں فرّاٹے مارتی ہوئی نظر سے اوجھل ہوجاتی۔تمام رونقیں ماند پڑ جاتیں اور اسٹیشن سنسان پڑ جاتا۔ اگلی مسافر ٹرین یا مال گاڑی کے اسٹیشن آنے تک یہ سنسناہٹ و ویرانی قائم رہتی۔ ایک بات جو قابلِ دید اور قابلِ تعریف ہے، وہ ہے ربوہ کی سواریوں کا ایک قطار بناکر اپنی باری کا انتظار کرنا اور ٹکٹ گھر کی کھڑکی تک صبر کا مظاہرہ کرنا۔ یہ قابلِ تعریف نظارہ بڑے بڑے شہروں کے اسٹیشنوں پر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے زمانے میں ہمارا ریل کا سفر مشرق یعنی چنیوٹ کی طرف بذریعہ سرگودھا ایکسپریس ہوتا۔ وقت بدلا اور جب ہمیں قائداعظم یونیورسٹی جانا ہوتا تو ہم مغرب یعنی لالیاں کی طرف بذریعہ چناب ایکسپریس جاتے۔ سرگودھا ایکسپریس کے انجن کی ہارن کی آواز نرالی ہوتی جبکہ چناب ایکسپریس کے انجن کی جیٹ انجن جیسی آواز بہت بھلی معلوم ہوتی۔ چناب ایکسپریس ربوہ شام نو بجے کراچی سے آتی اور رات دو بجے ہمیں راولپنڈی پہنچا دیتی۔ اکثر تاخیر کی وجہ سے ہمیں فائدہ ہوتا کہ ہمیں راولپنڈی رات کے آخری حصّہ کی بجائے صبح سویرے پہنچادیتی۔ پھر ہم ویگن کے ذریعے آبپارہ جاتے اور وہاں سے بذریعہ سوزوکی وین یونیورسٹی جا پہنچتے۔ قائد اعظم یونیورسٹی سے ربوہ کا واپسی کا سفر قدرے مشکل ہوتا تھا۔ یونیورسٹی سے آبپارہ اور پھر ویگن سے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن آتے۔ ہماری ٹرین جھنگ ایکسپریس رات گیارہ بجے راولپنڈی سے چلتی اور رات تین بجے سرگودھا آتی۔ ہمیں یہاں اپنی ٹرین بدلنا ہوتی۔ جھنگ ایکسپریس سے اُتر کر سرگودھا اسٹیشن سے دُور واشنگ لائن پر کھڑی سرگودھا ایکسپریس پر جو ابھی تیار نہیں ہوتی تھی، آ بیٹھتے اور چند گھنٹے آرام کرتے۔ پھر ٹرین کو تیار کیا جاتا اور یہ ٹرین پلیٹ فارم کے لیے اپروچ کرتی۔ کوئی چھ بجے کے قریب لاہور کے لیے روانہ ہوتی اور سات بجے یہ ربوہ اسٹیشن پر ہوتی اور ہم ربوہ آپہنچتے۔ الحمدللہ وقت بدلا۔ ربوہ کا نام تبدیل کردیا گیا۔ نیا نام چناب نگر رکھ دیا گیا۔ سرگودھا ایکسپریس کا ربوہ اسٹاپ بند کردیا گیا۔ حالانکہ ٹرین کی آدھی سے بھی زیادہ سواریاں ربوہ سے بیٹھتی یا اُترتی تھیں۔ اسی طرح چناب ایکسپریس کا سٹاپ بھی ربوہ سے بند کردیا گیا۔ اب ربوہ ریلوے اسٹیشن صرف نام کا ہی اسٹیشن ہے۔ کام کا نہیں۔ جہاں سواریوں کا پلیٹ فارم پر گاڑی کا انتظار، بچّوں کا شور، سامان کی ترسیل، ریلوے ملازمین کا اسٹیشن پر کام کاج، صفائی، ڈاک رکھنے والے، سب کچھ ختم یا پھر بہت کم ہوگیا۔ جب ہم شروع شروع میں ہاسٹل میں منتقل ہوئے تو ہم دونوں نذر محمد سے ملے۔ وہ ہمارے فزکس کے سینئر تھے۔ دیکھنے میں کوئی سکول ماسٹر معلوم ہوتے تھے مگر بہت ذہین اور پروفیسر ہود بھائی کی شاگردی میں تھے۔ بولے۔ نذر : او مُنڈیو، کس ڈیپارٹمنٹ دے او؟ عطاء: فزکس۔ احمد: ہم نے آپ کو فزکس ڈیپارٹمنٹ میں دیکھا ہے۔ نذر : کس شہر توں تعلق اے؟ احمد: ربوہ۔ نذر : قادیانی؟ عطاء: احمدی۔ نذر : اوہ سی۔ توانوں کوئی کجھ نہیں کہہ سکدا۔ بعد ازاں نذر ہمیں اکثر ملتا اور بڑے احترام سے ملاقات کرتا اور پُوچھتا کوئی پریشانی تو نہیں؟ اللہ اُس کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ جہاں بھی ہو، خوش و خُرّم ہو۔ آمین اس طرح کا رویّہ ہمارے تمام سینئر اور جونیئر دوستوں میں قائم تھا۔ کسی قسم کا کوئی علاقائی، لِسانی، مذہبی یا قومی جٹ راجپوت وغیرہ کا کوئی امتزاج و امتیاز نہیں تھا۔ سب برابر اور فرق صرف یہ کہ آپ کتنے سائنسی عِلم کا شعور اور عبور رکھتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنے کام سے کام تھا۔ اسی وجہ ہماری یونیورسٹی ترقّی کی منزلیں طے کررہی تھی۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں قائم ہمارا فزکس ڈیپارٹمنٹ پاکستان کے بہترین تدریسی اداروں میں سے ایک تھا۔ کیوں نہ ہوتا۔ تمام لوگ خواہ استاد ہوں یا طلبہ سب اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک، گفتگو میں بہترین اور سب سے بڑھ کر ہر ایک کی عزّت و احترام کرنے والے وجود تھے۔ چند ایک کے نام ابھی تک یاد ہیں۔ خالد ظہیر، ندیم انصاری، شاہد قمر، عمرانہ اشرف زاہد، محمد زاہد، نذرمحمد، عارف ممتاز، آفتاب رضوی، سیّد رضوان، شکیل، فرحت، قیصر، میاں اشرف، عمر سعید قریشی (وفات جولائی ۲۰۲۴ء)، نوازش علی خان، یٰسین چوہان مرحوم (اکتوبر ۲۰۲۴ء مانچسٹر) نوید اصغر مرحوم (۱۹۹۱ء میں ہم دونوں نے پروفیسر سلام صاحب سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی تھی)، رفاقت، شفقت، مبین، طاہرہ، منصورہ، صدف، طارق مقبول، سلامت، عبدالحمید طُور، مدثّر، ندیم (پلازما ریاضی)، نوید پراچہ، وقار عظیم، فرزانہ اسلم (مانچسٹر یونیورسٹی میں میرے ساتھ لیزر گروپ میں تھیں)، حفصہ خان، فوزیہ، شائستہ، عدنان بشیر، محمد علی، راحیل اور طارق شاہین۔ حتیٰ کہ ہماری یونیورسٹی کے ڈرائیور شبیر صاحب بھی گویا ہماری فیملی کا حصہ تھے۔ اب احمدی طلبہ جن کے نام یاد ہیں ان دوستوں میں نمایاں مظہر منصور (اینتھروپولوجی)، ملک مظفّر (ڈی ایس ایس)، توقیر (اکنامکس)، احسان (ایم بی اے، میرے دسویں کے دوست)، بُرہان مبشر (فزکس)، سیّد غلام احمد فرّخ (کمپیوٹر سائنس)، ناصر (الیکٹرونکس)، کلیم چغتائی (کیمسٹری)، پرویز (بیالوجی)، سلیم شاہد (ایم پی اے)، وہاب (کمپیوٹر) اور مشہود (فزکس)۔ ہم نمازیں ہاسٹل میں اکٹھے پڑھتے تھے اور جمعہ کی نماز F-8کی مسجد فضل اسلام آباد میں ادا کرتے۔ بہت اچھا پُرلُطف وقت گزرا۔ لالہ موسیٰ ٹرین واقعہ یہ واقعہ دسمبر ۱۹۹۰ء کا ہے جب ہم (عطاء اور محمد احمد) راولپنڈی سے ربوہ بذریعہ ریل گاڑی سفر کررہے تھے۔ میرا M.Phil کا زبانی امتحان ہوچکا تھا اور زبانی امتحان کے بعد تھیسس میں کچھ تصحیح کرکے یونیورسٹی رجسٹرار کے دفتر جمع کرواکے فارغ ہوچکا تھا۔ میرے M.Phil کے سُپروائزر پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید نیّر صاحب تھے جنہوں نے امپیریل کالج لندن سے فزکس میں پی ایچ ڈی کی تھی اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کے شاگردوں میں سے تھے اور اُن کے بہت بڑے مدّاح اور قدردان ہیں۔ اُنہوں نے زبانی امتحان کے سلسلہ میں میری کافی مدد کی۔ اُن کے علاوہ میری سینئر عمرانہ اشرف نے بھی کام کے سوال کیے اور جوابات ترتیب دیے۔ لیکن زبانی امتحان (Viva)کے سوالات کچھ تو معلوم تھے اور کچھ میں فزکس کے نظریات کو بہتر طریقہ سے اَپلائی کرنا اور پھر کوئی نتیجہ اخذ کرنا مقصود تھا۔ بہرحال دِلچسپ Vivaتھا۔ عطاء اور مَیں اکثر سائنسی بحث کرتے تھے۔ ہماری ٹرین رات کو چلنے والی راولپنڈی سے سرگودھا جانے والی جھنگ ایکسپریس تھی اور کافی خالی تھی۔ خالی ٹرین میں ہم سائنسی بحث میں مشغول تھے کہ ہمارے ڈبے میں دو نوجوان جو کسی دوسری یونیورسٹی کے طالبعلم تھے، آکر بیٹھے۔ اگرچہ اُن کو سائنسی علوم سے کوئی دِلچسپی نہیں تھی، بہرحال اُنہوں نے ہم سے عام سوالات پُوچھے۔ ایک سوال کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟ ہمارا جواب ’’ربوہ‘‘۔ پھر اُنہوں نے کچھ مذہبی سوالات شروع کیے جنہیں ہم نے نرمی سے ٹالنے کی کوشش کی مگر وہ شعور اور برداشت کا حوالہ دیتے کہ ہم یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ کچھ سوالو ں کے جواب چلتے رہے۔پھر اُنہی کے ایک سوال پر اُن کو دوبارہ سوال کیا گیا تو وہ کچھ پریشان ہوگئے۔ اس پریشانی پر یوں لگتا تھا کہ جیسے اُن کا کچھ گم ہوگیا ہے۔ وہ جواب دینے کی طاقت میں بھی نہیں تھے اور مزید سوال کرنا بھی اُن کے لیے محال تھا۔ اُن دونوں کی خاموشی کو مَیں نے اچھی طرح جان لیا کہ یہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی دوران کسی ریلوے اسٹیشن کی آمد کا اندازہ ہوا جیسے ڈبوں کے نیچے پٹڑیوں کے بدلنے سے شور بڑھ جاتا ہے۔ مَیں نے عطاء کو اشارہ کردیا کہ اب ہمیں ٹرین رُکتے ہی جگہ چھوڑنی ہے۔ اُن دونوں لڑکوں کے بڑے بیگ ہماری سونے والی برتھ پر پڑے ہوئے تھے جبکہ ہمارے پاس پانچ پانچ کلو کے صرف دو ہینڈ بیگ تھے۔ ٹرین رُکی۔ ایک لڑکا فوراً باہر گیا۔ ہم نے اُس کی حرکتیں دیکھیں۔ وہ دوسرے ڈبوں میں دُور تک جھانک رہا تھا۔ شاید کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔ جیسے اضافی کمک کا انتظام کرتا ہو۔ ہم نے آرام سے جیسے سورہے ہوں، کاسا انداز اپنایا تو دوسرا لڑکا بھی گاڑی سے باہر چلاگیا۔ پہلے والا آگے کی سمت دوڑا اور دوسرا پیچھے جارہا تھا۔ ہم نے بھی ٹرین کا ڈبہ چھوڑا اور بجائے مسافروں کی طرف والے پلیٹ فارم پر اُترتے، ہم دوسری طرف جہاں ایک مال گاڑی کھڑی تھی، اُس طرف اُترے اور مال گاڑی کے ایک خالی ڈبے میں بیٹھ گئے۔ ہمارے ڈبے میں صرف جانوروں کا خُشک چارہ لدا ہوا تھا۔ رات اندھیری تھی۔ مال گاڑی میں گُھپ اندھیرا تھا۔ اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آرہا تھا اور کچھ خوف بھی تھا مگر یقین تھا کہ ہماری جھنگ ایکسپریس جلد ہی اس اسٹیشن سے روانہ ہوجائے گی اور پھر جان میں جان آئے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ چند منٹوں کے بعد ٹرین نے ہارن دیا اور ٹرین آہستہ آہستہ منظر سے ہٹنے لگی اور پھر سارا پلیٹ فارم بغیر ٹرین کے ہمارے سامنے واضح تھا۔ عطاء مال گاڑی کے ایک کونے میں اور مَیں دوسرے کونے میں تھا۔ پھر آدھا گھنٹہ ہم اُس خُشک چارے والے ڈبہ میں وقت گزار کر، پلیٹ فارم کو خالی پاکر، مال گاڑی سے باہر نکل آئے۔ یہ اسٹیشن لالہ موسیٰ کا تھا۔ اب خیال آیا کہ ہمارا ٹکٹ ضائع ہوگیا۔ ہم ٹکٹ گھر آئے اور پُوچھا تو ٹکٹ آفیسر نے بتایا کہ ہمارا ٹکٹ ابھی قابلِ استعمال ہے۔ پھر ہم نے اگلی گاڑی کے انتظار میں یخ بستہ دسمبر کی رات میں لالہ موسیٰ اسٹیشن کے بنچوں پر چند گھنٹے گزارے۔ نہ چائے نہ پانی۔ پھر ماڑی انڈس آئی۔ اُس پر بیٹھ کر پہلے سرگودھا اور پھر وہاں سے ربوہ دِن کے گیارہ بجے پہنچے۔ رات کی بےآرامی کے آثار واضح تھے۔ خدا کا شکر اداکیا اور آئندہ کے لیے احتیاط کا راستہ اختیار کرنے کا عہد کیا۔ اللہ ہماری حفاظت کرتا رہے۔ کبھی کبھی اس واقعہ کو یاد کرکے دِل و دماغ افسوس کرتے ہیں کہ یہ ہے ہمارا وطن۔ ایک طرف ہمارے یونیورسٹی کے بہت اچھے دوست تھے مگر دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جو شعور اور برداشت کا یقین دلاکر بھی وحشت کا کھیل کھیلنے کی کوشش کرتے۔ اللہ ہمارے وطن کو امن سے بھردے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید حسنین صاحب سے قازقستان میں اچانک ملاقات گورنمنٹ کالج لاہور، ڈگری کالج ربوہ اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس کے میدانوں میں ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۰ء تک پانچ سالہ محنتوں، ریاضتوں اور محبتوں کا سفر بہت دِلچسپ اور یادگار گزرا جس کے نقش، یوں جیسا ہاتھوں کی لکیریں ہوں، ذہنوں میں زندہ جاوید موجود ہیں۔ اس سفر کا نچوڑ جناب پروفیسر حسنین صاحب کے اُن چند الفاظ سے واضح ہوتا ہے جو اُنہوں نے قازقستان کی ملاقات میں بیان کیا۔ قازقستان کے شہر ’’آستانہ‘‘ میں قائم Nazarbayev University میں مجھے ایک لمبا عرصہ پڑھانے کا موقع ملا۔ جون ۲۰۱۷ء میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران آستانہ شہر میں شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن (SCO) کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس میں کئی ممالک کے سربراہان اور سرکردہ احباب پر مشتمل وفود نے شرکت کی۔ اس میں قازقستان، رُوس اور چین کے علاوہ سولہ ممالک جو چین کے اِردگِرد واقع ہیں، نے شرکت کی اور اصل مقصد ’’نئی شاہراہِ ریشم‘‘ کا اجرا کرنا تھا تا ان ممالک میں درآمدات و برآمدات کی ترسیل و نقل و حمل میں اضافہ ہو اور اقتصادی صُورتِ حال کی بہتری ہو۔ اس سال پاکستان اور بھارت کو SCOتنظیم میں شامل کیا گیا جوکہ پاکستان کے لیے خوش آئند بات تھی۔ پاکستان کے اُس وقت کے وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف صاحب اور صدرِ پاکستان ممنون حسین صاحب دو الگ الگ جہازوں میں اپنے اپنے افرادِ خاندان و دیگر احباب پر مشتمل وفود کے ساتھ وہاں رونق افروز ہوئے جس میں وزراء، صحافی حضرات اور چند یونیورسٹیوں کے دانشمندان حضرات بھی شامل تھے۔ ایک دِن پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے ہمیں ایک بہت ہی مہنگے ’’بیجنگ پلازہ‘‘ ہوٹل کی سب سے اوپر والی revolving منزل میں عشایئے کے لیے مدعو کیا گیا۔ کھانا بھی بہت عمدہ۔ نظارے کا مزا الگ۔ قازقستان سے ہم کوئی دس پاکستانی معززین کو صدرِپاکستان سے مِلوایا گیا۔ ہر ایک نے اپنا تعارف کروایا۔ مَیں نے ’’ربوہ‘‘ کا نام شاملِ تعارف کیا۔ دورانِ طعام صدر کا بیٹا ہمارے پاس بیٹھا تھا۔ اُس نے بتایا کہ اُس کے اچھے دوست احمدی ہیں۔ مَیں نے ربوہ کے سکول، کالج و یونیورسٹی کو جماعت کے حوالے کرنے کا عاجزانہ مطالبہ بھی صدرِ پاکستان کے گوش گزار کیا۔ کھانے سے قبل استقبالیہ کے دوران میری کُرسی کے سامنے والی کُرسی پر پاکستان سے آئے ہوئے کوئی صاحب تشریف فرما تھے۔ مَیں اُن کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ اتنے میں اُن صاحب نے مجھے پہچان لیا اور کہا ’’محمد احمد؟‘‘ مَیں نے کہا ’’جی محمد احمد‘‘۔ اُس وقت مَیں اُن کو پہچان گیا اور اُن کا نام لیا۔ پروفیسر حسنین صاحب نے فرمایا’’ہاں حسنین‘‘۔ مَیں بہت خُوش ہوا۔ مَیں گُھوم کر اُن کی کُرسی کے قریب آیا۔ اُنہوں نے بغل گیر ہوکر گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور بہت خُوش ہوئے اور فرمایا ’’احمد! مَیں تمہیں بہت اچھے سٹوڈنٹس میں شمار کرتا ہوں۔ تمہارا چلنا پھرنا، بات کرنا، کام کرنا، سوال و جواب یہاں تک کہ تمہارا لباس اب تک ذہن میں موجود ہے‘‘۔ یہ الفاظ میری زندگی کا سرمایہ ہیں کہ میری غیرموجودگی میں بھی میرے استاد کے ذہن میں میرا مثبت تاثر قائم ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر صاحب کا ذکرِ خیر پروفیسر نسیم بابر صاحب کی شہادت ایک دردناک واقعہ ہے جوکہ قائداعظم یونیورسٹی کے احاطہ میں رونما ہوا اور قاتِل نے گولیاں مار کر آپ کو شہید کردیا۔ پروفیسر صاحب کی شہادت نے ہرایک کو غم و دُکھ میں ڈال دیا۔ ان میں یونیورسٹی کے پروفیسرز، طلبہ و طالبات، یونیورسٹی کے ملازمین اور عام طبقہ سے تعلق رکھنے والے احباب اور خاص کر لواحقین شامل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر کی شہادت کا دُکھ یونیورسٹی کے لیے دوگنا ہوگیا۔ ایک ہفتہ میں دو جنازے۔ ایک پروفیسر نسیم بابر کا اور دوسرا کیمسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر صادق نیازی صاحب کا جو نسیم بابر صاحب کے دوست بھی تھے۔ وہ بابر صاحب کے قتل کی مذمّت کرنے کے چند منٹ بعد دِل کا جان لیوا دورہ پڑنے سے اس جہانِ فانی سے کُوچ کرگئے۔ پروفیسر صاحب کے مختصر حالاتِ زندگی پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر صاحب ۱۹۵۲ء بمقام ننکانہ صاحب شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر محمد جی احمدی صاحب کے فرزندِ ارجمند اور حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت سیّد محمد حسین صاحب کے پوتے تھے۔ گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجوایشن کی اور پھر یونیورسٹی آف اسلام آباد، جسے بعد میں قائداعظم یونیورسٹی کے نام سے پُکارا جانے لگا، سے ایم ایس سی فزکس کی ڈگری حاصل کی۔ ایم ایس سی میں ڈاکٹر بابر کے اساتذہ میں پروفیسر پرویز ہود بھائی بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ سرسیّد کالج میں فزکس کے لیکچرر متعین ہوئے۔ پھر پولینڈ کی وارسا یونیورسٹی میں Liquid Crystalsمیں پی ایچ ڈی حاصل کرکے واپس پاکستان آئے۔ ۱۹۸۰ء میں سرسیّد کالج میں شعبہ فزکس کے سربراہ کے طور پر کام کیا اور ۱۹۸۱ء میں قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر تعیناتی ہوئی۔ بعد میں پروفیسر نسیم بابر صاحب پروفیسر ظفر اقبال صاحب کے گروپ میں شامل ہوگئے اور اپنی فیلڈ کی بجائے Semiconductor Physicsمیں کام شروع کردیا اور اس نئی فیلڈ میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ اُنہیں سویڈن کیLundیونیورسٹی اور جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف برلن میں بھی کام کرنے کا موقع مِلتا رہا۔ پروفیسر نسیم بابر کے چالیس کے قریب ریسرچ پیپرز انٹرنیشنل اہمیت کے حامل جرنلز میں شائع ہوچکے ہیں جو کہ اُن کی محنت اور اُن کے ذہین و فطین ہونے کی اعلیٰ دلیل ہیں۔ پروفیسر نسیم بابر ایک سائنسدان ہونے کے علاوہ ایک بہت اچھے اُردودان صحافی بھی تھے جنہیں اعلیٰ تحریر لکھنے پر دسترس حاصل تھی۔ اُن کے تحریرکردہ مضامین قومی و مقامی اخبارات اور یونیورسٹی کے نیوز لیٹرز میں متعدد بار شائع ہوتے رہے۔ مَیں نے پروفیسر نسیم بابر صاحب سے دو کورسز پڑھے تھے۔ اُن کا پڑھانے کا انداز بہترین ہوتا۔ الفاظ کا چُناؤ نہایت مناسب، باموقع اور موزوں۔ کسی بھی تھیوری یا سائنسی نظریہ کو بہت آسانی سے عام فہم الفاظ میں سمجھادیتے اور مشکل چیز مشکل نہ رہتی۔ پروفیسر نسیم بابر لیبارٹری میں بہت دیر تک کام کرتے۔ کبھی رات کے نو بج جاتے اور آپ لیبارٹری میں مشغولِ کار ہوتے۔ اسی وجہ سے آپ ایک غیر معمولی طور پر ذہین، محنتی اور جذبے سے کام کرنے والے ریسرچ سکالر تھے جن کا تحقیق کا دائرہ وسیع اور بین الاقوامی سطح کا تھا۔ میری اُن سے آخری ملاقات لندن میں جون ۱۹۹۴ء میں ہوئی جب پروفیسر صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملاقات کی غرض سے مسجد فضل جاتے ہوئے مسجد سے کچھ فاصلے پر مجھ سے مختصر دورانیے کے لیے ملے۔ فرمایا کہ میری چند منٹوں میں حضور سے ملاقات ہے۔ مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ مَیں بھی ایک دِن قبل حضرت خلیفہ رابع ؒسے ملاقات کی غرض سے لندن پہنچا تھا۔ میرے پُرانے کلاس فیلوز جو ابھی بھی یونیورسٹی میں موجود تھے، بتاتے ہیں کہ پروفیسر نسیم بابر کے اس بہیمانہ قتل کے نتیجہ میں یونیورسٹی ایک بیابان شہر جیسی اُجڑی اُجڑی نظر آتی تھی۔ یونیورسٹی کے لوگوں کو اس قتل نے ذہنی بیمار کردیاتھا کہ قتل و غارت مذہب کے نام پر ایک عام اور معمولی بات بنتی جارہی تھی۔ لوگوں میں روز بروز برداشت کم سے کم ہوتی جا رہی تھی جس کا شاخسانہ فرشتہ سیرت، ذہین و فطین اور عالمی شہرت یافتہ فزکس کے پروفیسر کی شہادت کی صورت میں بھی سامنے آیا۔ جہاں برداشت کا یہ معیار ہو، وہاں علم و معرفت کا معیار عالمی کبھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ ہمارے مُلک میں امن قائم کردے، لوگوں میں برداشت کی طاقت عطا فرمائے اور اُن کو عِلم و ذہانت میں اعلیٰ سے اعلیٰ بنائے تاوہ دُنیائے غیر میں بھی اپنا نام بناسکیں۔ آمین (ڈاکٹر محمد احمد۔مانچسٹر) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مختلف مذاہب کے مردو خواتین کے درمیان شادیاں۔ کچھ اعداد و شمار