(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍مئی۲۰۲۱ء) ہمیں اپنے مخالفین کے لیے دعا کرنی چاہیے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی ہمیں سکھایا ہے کہ دعائیں کرو۔ انہی میں سے قطراتِ محبت ٹپکتے ہیں، انہی میں سے لوگ ایمان لائیں گے۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں چوبارے میں رہتا تھا یعنی اوپر کی منزل میں رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مکان کے نچلے حصہ میں رہتے تھے کہ ایک رات نچلے حصہ سے مجھے اس طرح رونے کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردِزہ کی وجہ سے چِلّاتی ہے۔ مجھے تعجب ہوا اور میں نے کان لگا کر آواز کو سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا کر رہے تھے اور آپؑ کہہ رہے تھے کہ اے خدا! طاعون پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ اے خدا! اگر یہ سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا۔ دوسری جگہ واقعہ تو یہی ہے لیکن حوالہ یہ ہے کہ ساتھ کی کوٹھڑی میں تھے اور دروازے سے آواز آ رہی تھی۔ بہرحال واقعہ یہی بیان ہوا ہے جو آپؓ بیان کر رہے ہیں۔ آپؑ دعا کر رہے تھے کہ اگر یہ لوگ مرگئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا؟ اب دیکھو طاعون وہ نشان تھا جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ طاعون کے نشان کاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتہ لگتا ہے لیکن جب یہ طاعون آتی ہے تو وہی شخص جس کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے وہ آتی ہے خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ! اگر یہ لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا؟ پس مومن کو عام لوگوں کے لیے بددعا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ انہی کے بچانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کو بچانا ہی ایک مومن کا کام ہے۔ اگر وہ ان کے لیے بددعا کرے گا تو بچائے گا کس کو؟ پھر تو مر گئے سارے اگر دعا قبول ہوتی ہے۔ احمدیت قائم ہی اس لیے ہوئی ہے کہ وہ اسلام کو بچائے۔ احمدیت قائم ہی اس لیے ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچائے۔ انسان کی عظمت انہیں واپس دلائے۔ پس جن لوگوں کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لیے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے ان کے لیے ہم بددعا کیسے کر سکتے ہیں؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آخر تم سے زیادہ خدا تعالیٰ کی غیرت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا نے اپنے الہام میں وہی فرمایا کہ اے دل تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار کآخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ اس میں خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ کے منہ سے کہلاتا ہے۔ آپؓ نے بھیرہ میں غالباً یہ تقریر کی تھی اس میں فرمایا تھا۔ اس شعر کو بیان کرتے ہوئے یہ دوبارہ ایک اَور واقعہ ہے۔ پہلے اَور واقعہ تھا۔ لاہور کا تھا، یہ بھیرے کا ہے۔ فرمایا کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دل کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ کے منہ سے کہلاتا ہے کہ اے میرے دل! تُو ان لوگوں کے خیالات اور جذبات اور احساسات کا خیال رکھا کر تا ان کے دل میلے نہ ہوں۔ یہ نہ ہو کہ تُو تنگ آ کر بددعا کرنے لگ جائے۔ آخر ان کو تیرے رسولؐ سے محبت ہے اور وہ اسی محبت کی وجہ سےہے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ تجھے گالیاں دیتے ہیں، یہ جو گالیاں تجھے دیتے ہیں وہ اسی وجہ سے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ان کو محبت ہے۔ یہ اس کی وجہ ہے۔ یہی اصل چیز ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں میں سے ایک حصہ ناواجب مخالفت کررہا ہے لیکن ایک حصہ محض ان کے جال میں پھنس گیا ہے۔ اس لیے وہ ہماری مخالفت کرتا ہے۔ اور پاکستان میں تو جو اکثریت ہے یا دنیا کے اَور ملکوں میں بھی وہ ان کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ گویا ان کی مخالفت ہمارے آقاؐ کی محبت کی وجہ سے ہے۔ جب ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں تو وہ کہیں گے کہ یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے والے ہیں۔ ان کی مدد کرو۔ یہ دن ضرور آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ آخر غلط فہمیاں کب تک جائیں گی! حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک انگریز مصنف ہے اس نے لکھا ہے کہ تم ساری دنیا کو تو صرف چند دن کے لیے دھوکا دے سکتے ہو، کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے دھوکا دے سکتے ہو۔ بالکل ٹھیک ہے لیکن تم ساری دنیا کو ہمیشہ کے لیے دھوکانہیں دے سکتے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ سو فیصد لوگ چند دن کے لیے گمراہ ہوجائیں یا دس آدمی ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو جائیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ساری دنیا ہمیشہ کے لیے گمراہ ہوجائے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ سچائی آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آ جاتی ہے اور اب یہی ہم دیکھتے ہیں کہ وہی لوگ جو لوگوں کے دھوکے میں آئے، لوگوں کی باتیں سنیں آخر کار انہی میں سے احمدی ہو رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تعداد جو بڑھ رہی ہے وہ کہاں سے بڑھ رہی ہے؟ انہی لوگوں میں سے بڑھ رہی ہے جو پہلے مخالفین کے ساتھ تھے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 33صفحہ 221تا 223 خطبہ جمعہ فرمودہ18جولائی 1952ء) پس یہ مخالفت ان شاء اللہ ایک روز ختم ہو جائے گی اور انہی میں سے لوگ آ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوں گے۔ کئی لوگ مجھے بھی لکھتے ہیں۔ آج کل بھی لکھتے ہیں کہ مخالفت کے بعد جب ہمیں کہا گیا کہ دعا کرو یا لٹریچر پڑھو۔ جب ہم نے دعا کی اور لٹریچر پڑھا تو حقیقت کھلی اور اب ہم بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ بیعت کر کے سلسلہ میں شامل ہو گئے ہیں اور یہ ہمیشہ سے چلتا چلا آ رہا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس بارے میں لکھا ہوا ہے باقی خلفاء نے بھی لکھا ہوا ہے کہ بہت سارے لوگ اس طرح خطوط میں لکھتے تھے اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مزید پڑھیں: خلافت اور ہماری ذمہ داریاں